حجیت، ضرورت اوراصول حدیث-چندقابل غور نکات

قرآن کا نبوت سے کیا رشتہ ہے؟

سب سے پہلے یہ امر غور طلب ہے کہ اللہ تعالٰی نے قرآن اور اس سے پہلے تمام آسمانی کتابوں کو رسولوں کے واسطے سے کیوں نازل کیا؟ کیا اللہ اس پر قادر نہ تھا کہ مطبوعہ کتابیں یکایک زمین پر اتار دیتا اور ان کا ایک ایک نسخہ نوعِ بشری کے ہر فرد کے پاس آپ سے آپ پہنچ جاتا؟ اگر وہ اس پر قادر نہ تھا تو عاجز تھا؟ اس کو خدا ہی کیوں مانیے؟ اور اگر وہ قادر تھا اور یقینا قادر تھا تو اس نے نشرو اشاعت کا یہ ذریعہ کیوں نہ اختیار کیا؟ یہ تو بظاہر ہدایت کا یقینی راستہ ہوسکتا تھا۔ لیکن خدا نے ایسا نہیں کیا اور ہمیشہ رسولوں ہی کے ذریعے سے کتابیں بھیجتا رہا۔ ہر زمانے کے کفار نے بہتیرا کہا کہ اگر خدا کو ہم تک کوئی پیغام پہنچانا ہی منظور ہے تو فرشتے کیوں نہیں بھیجتا؟ تاکہ ہم کوئی بھی اس پیغام کے منزل من اللہ ہونے کا یقین آجائے۔
محض کتاب اللہ اتاردی جاتی اور کوئی رسول نہ آتا تو لوگ آیات کے معانی میں اختلاف کرتے۔ اور کوئی اس کا فیصلہ کرنے والا نہ ہوتا۔ لوگ احکام کے منشاء کو سمجھنے میں غلطیاں کرتے اور کوئی ان کو صحیح منشاء بتانے والا نہ ہوتا۔ اس ضرورت کو تو خیر ایک حد تک فرشتے بھی پورا کرسکتے تھے، مگر پاکیزگی، طہارت اور تقویٰ کے احکام پر لوگ یہ خیال کرتے کہ عملی زندگی میں ان پر عمل کرنا انسان کے بس کا کام نہیں ہے۔ فرشتہ تو انسانی جذبات سے محروم ہے۔ پیٹ نہیں رکھتا۔ شہوانی قوتیں نہیں رکھتا۔ انسانی ضرورتوں سے بے نیاز ہے۔ اس کے لیے متقیانہ زندگی بسر کرنا کچھ مشکل نہیں۔ مگر ہم انسانی کمزوریاں رکھتے ہوئے اس کی تقلید کیسے کریں؟ اس لیے ضروری تھا کہ ایک انسان انہی جذبات اور انہی تمام قوتوں اور انسانی تقلیدات کے ساتھ زمین پر آتا اور لوگوں کے سامنے احکامِ الٰہی کے مطابق زندگی بسر کرکے بتاتا کہ اس طرح انسان خدا کے بتائے ہوئے طریقے پر عمل کرسکتا ہے۔ اس کو زندگی کے وہ تمام معاملات پیش آتے جو انسان کے پیش آتے ہیں۔ وہ ان تمام معاملات میں عام انسانوں کے ساتھ شریک ہوتا۔ عملی حصہ لیتا، قدم قدم پر ان کو اپنے عمل اور اپنے قول سے ہدایات دیتا۔ ان کی تربیت کرتا اور انہیں بتاتا کہ زندگی کی پیچیدہ راہوں میں سے کس طرح انسان بچ کر حق اور نیکی کے سیدھے راستے پر چل سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خود اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے تنہا کتاب اللہ کو کافی نہ سمجھا اور رسول اللہ کے اتباع اور ان کے اسوہ حسنہ کی پیروی کو اس کے ساتھ لازم کردیا۔
قرآن شریف میں صاف طور پر تین چیزوں کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے۔ ایک حکمِ خدا۔ دوسرے حکمِ رسول، تیسرے مسلمان حکام اور فرماں رواؤں کے احکام۔ اگر محض قرآن کا اتباع کافی ہوتا اور اس کے سوا کسی دوسری چیز کے اتباع کی حاجت نہ ہوتی تو رسول اور حکام (اولی الامر؛ بشرطیکہ ان کے احکام خدا اور رسول کے احکام سے اصولی مطابقت رکھتے ہوں) کی اطاعت کا حکم ہی نہ دیا جاتا۔ اس سےمعلوم ہوا کہ تنہا کتاب اللہ کافی نہیں ہے۔ اس کے ساتھ رسالت کا رشتہ ناقابلِ انقطاع ہے۔ اور احکامِ رسول کی اطاعت اور اسوہ رسول کی پیروی بھی اسی طرح فرض ہے جس طرح خود کتاب اللہ کے احکام کی اطاعت فرض ہے۔

کیا اسوہ رسول کے بغیر صرف قرآن سے ہدایت ممکن ہے؟

کتاب اللہ اور سنتِ رسول کا لازمی تعلق ثابت ہوجانے کے بعد اب اس سوال پر غور کیجیے کہ آیا رسول اللہ کے احکام کی اطاعت صرف ان کے دور تک محدود تھی؟ ان کے بعد اس کی حاجت باقی نہیں رہی؟ اگر ایسا ہے تو اس کے معنی یہ ہونگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت صرف اسی عہد کے لیے تھی جس میں آپ جسم کے ساتھ زندہ تھے۔ آپ کے رحلت فرماتے ہی آپ کی رسالت کا تعلق عملا دنیا سے منقطع ہوگیا۔ اس صورت میں رسالت کا منصب بے معنی ہوجاتا۔ رسول کا کام اگر محض ایک نامہ بر کی طرح کتاب اللہ کو پہنچادینا تھا، اور اس سے بڑھ کر کسی اور چیز کی ضرورت نہ تھی تو ہم پھر وہی کہیں گے کہ یہ کام کوئی فرشتہ بھی کرسکتا تھا۔
اس الزام کو خود اللہ نے اپنی کتاب میں دفع کردیا ہے۔ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ “وما ارسلناک الا رحمتہ اللعالمین“ ظاہر ہے کہ اگر رسول اللہ کا فیضانِ رسالت صرف اپنے زمانے تک کے لیے ہوتا تو آپ کو رحمتہ اللعالمین نہیں کہا جاسکتا۔ اگر کہا جائے کہ آپ قرآن لائے ہیں جو ہمیشہ رہنے والا ہے اور اسی لیے آپ رحمتہ اللعالمین ہیں تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ آپ رحمت نہ تھے بلکہ رحمت تو قرآن تھا اور آپ کو خواہ مخواہ رحمت کہہ دیا گیا۔ حالانکہ اللہ تعالٰی نے قرآن کو الگ رحمت فرمایا ہے اور اس کے لانے والے کو الگ۔ اس سے ثابت ہوا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت ہمیشہ کے لیے ہے اور جب ایسا ہے تو وہ تمام آیات اور احکام بھی ہمیشہ کے لیے ہیں جن میں آنحضرت کے احکام کی اطاعت فرض قرار دی گئی ہے۔ آپ کی ذات کو اسوہ حسنہ بتایا گیا ہے۔ آپ کے اتباع کو رضائے الٰہی کے حصول کا ذریعہ کہا گیا ہے۔ اور ہدایت کا دامن آپ کی پیروی کے ساتھ وابستہ کردیا گیا ہے۔ پس جب یہ دونوں چیزیں رسول اللہ کے اتباع اور آپ کے نمونہ حیات کی تقلید کے ساتھ وابستہ ہیں تو لازم ہوا کہ سیرتِ نبوی کے وہ پاک نمونے بھی قرآن کے ساتھ ساتھ باقی رہیں جن سے رسولِ اکرم کے ہم عہد لوگوں نے ہدایت پائی تھی، ورنہ بعد کی نسلوں کے لیے ہدایت ناقص رہ جائے گی۔
اگر اسوہ رسول باقی نہ رہتا، اگر رسول اللہ کے احکام باقی نہ رہتے، اگر ہدایت کا وہ پاک سرچشمہ بند ہوجاتا جو رسول اللہ کی سیرت میں تھا، تو محض کتاب اللہ سے دنیا کی ہدایت ہوہی نہیں سکتی تھی۔ اگر کتاب کے نزول کے بعد آثارِ رسالت کے باقی رہنے کی ضروت نہیں ہے تو سرے سے نزول کے لیے رسالت ہی کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ خدا کی حکمت پر کھلا ہوا طعن ہے۔ اور اگر تنزیل کے ساتھ رسالت کا ہونا لازم ہے تو یقینا اس کے ساتھ آثارِ رسالت کا رہنا بھی لازم ہے۔ بغیر آثارِ رسالت کے تنہا کتاب اللہ موجبِ ہدایت نہیں ہوسکتی۔ اس کی وجہ آپ باآسانی سمجھ سکتے ہیں۔ اگر آثارِ رسالت محو ہوجاتے تو مسلمانوں کا حشر ان قوموں کا سا ہوجاتا جن کے پاس بجز افسانوں کے اور کچھ نہیں ہے۔ لوگ کہتے کہ جس شخص پر تمہارے قول کے مطابق یہ کتاب نازل ہوئی ہے اس کے حالات تو بتاؤ کہ ہم ان کو جانچ کر دیکھیں کہ آیا فی الواقع وہ رسولِ خدا ہونے کے قابل تھا بھی یا نہیں۔ مگر ہم انہیں کچھ نہ بتا سکتے۔ لوگ کہتے کہ تمہارے پاس قرآن کے دعوے کی تائید میں کونسی ایسی خارجی شہادت ہے جس سے تمہارے نبی کی نبوت ثابت ہوسکتی ہو؟ مگر ہم کوئی شہادت نہ پیش کرسکتے۔ ہم کو خود یہ نہ معلوم ہوسکتا کہ کب اور کن حالات میں قرآن نازل ہوا، کس طرح رسول اللہ کی شخصیت اور آپ کی پاک زندگی کو دیکھ کر لوگ فوج در فوج ایمان لائے، کس طرح آپ نے نفوس کا تزکیہ کیا، حکمت کی تعلیم دی۔ کس طرح آپ نے انسانی زندگی کے تمام شعبوں میں تنظیم اور اصلاح کا وہ زبردست کام انجام دیا اور شریعت کا وہ ہمہ گیر اور حکیمانہ ضابطہ بنایا جو محض انسانی عقل کے بس کا کام نہیں ہے۔ اس بحث سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ کتاب اللہ کے ساتھ سنتِ رسول کا رہنا قطعا ضروری اور ناگزیر ہے۔

سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم تک کیسے پہنچی؟

اب اس سوال کی طرف آئیے کہ سنت رسول کے ہم تک پہنچنے کی صورت کیا ہے اور کیا ہوسکتی ہے؟ یہ بالکل ظاہر ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بعثت کے بعد سے رحلت تک تقریبا ربع صدی کا جو زمانہ بسر کیا وہ محض قرآن پڑھنے اور سنانے ہی میں بسر نہیں ہوا ہوگا، بلکہ آپ تلاوتِ آیات کے علاوہ شب و روز اپنے دین کی تبلیغ فرماتے رہتے ہوں گے۔ گمراہ لوگوں کو سمجھانے کی کوشش بھی فرماتے ہوں گے۔ ایمان لانے والوں کو تعلیم بھی دیتے ہوں گے، اور اپنی عبادات، اپنے اخلاق اور اپنے اعمالِ حسنہ کا نمونہ پیش کرکے لوگوں کی تربیت اور اصلاح کرنے میں مشغول رہتے ہوں گے۔ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ معلمانہ زندگی ایسی شدید مصروفیت میں بسر ہوتی تھی کہ آپ کو اپنے آرام کا ذرہ برابر خیال نہ تھا، ہر لمحہ یا تو عبادات میں بسر ہوتا تھا، یا وعظ و نصیحت اور تعلیم حکمت اور تزکیہ نفوس میں۔ حتٰی کہ بار بار اللہ تعالٰی آپ سے فرماتا تھا کہ آپ اس قدر محنت کیوں کرتے ہیں؟ اپنے آپ کو ہلاک کیوں کیے ڈالتے ہیں؟
اب کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ ایسی سرگرم مبلغانہ زندگی میں آیاتِ قرآنی کے سوا کوئی بات بھی آپ کی زبان سے ایسی نہ نکلتی تھی جو یاد رکھنے اور بیان کرنے کے قابل ہوتی؟ کوئی کام بھی آپ کی زندگی کا ایسا نہ تھا جس کو لوگ اپنے لیے نمونہ سمجھتے، اور دوسروں کو اس پاکیزہ نمونہ کی تقلید کا مشورہ دیتے؟ آپ کے اقوال و اعمال کے متعلق تو قرآن نے یہی اعتقاد رکھنے کا حکم دیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر ارشاد برحق ہے۔ اور آپ کا ہر عمل واجب التقلید ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ اعتقاد رکھتے ہوئے تو مسلمان یقینا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر ارشاد کو دل سے سنتے ہوں گے، ہر عمل پر نگاہ رکھتے ہوں گے اور آپس میں ایک دوسرے کے سامنے حضور کے اقوال و اعمال کے چرچے کرتے ہوں گے۔ جہاں رسالت اور کسی قسم کے تقدس کا اعتقاد نہیں ہوتا وہاں بھی بڑے لوگوں کی باتوں اور حرکات و سکنات پر لوگ نظر رکھتے ہیں۔ اور ان کے اقوال و اعمال کے چرچے کیا کرتے ہیں۔ پھر کیونکر ممکن تھا کہ صحابہ کرام جس مقدس انسان کو خدا کا رسول اور اسلام کا مکمل نمونہ سمجھتے تھے اس سے صرف قرآن لے لیتے اور اس کے دوسرے تمام ارشادات اور اس کے تمام اعمال کی طرف سے کان اور آنکھیں بند کرلیتے۔
اس زمانے میں فوٹوگرافی کے آلات نہ تھے کہ آنحضرت کی تمام حرکات و سکنات کے فلم لے لیے جاتے۔ نہ آواز ریکارڈ کرنے کے آلات تھے کہ آپ کی تقریروں کے ریکارڈ بھر کر رکھ لیے جاتے۔ نہ مکہ و مدینہ سے اخبارات نکلتے تھے کہ روزانہ آپ کی تبلیغی سرگرمیوں اور آپ کے اعمالِ حیات کی رپورٹیں شائع ہوتیں۔ ضبط اور نقل کا ذریعہ جو کچھ بھی تھا وہ لوگوں کا حافظہ اور زبانیں تھیں۔ قدیم زمانہ میں نہ صرف عرب بلکہ تمام قوموں کے پاس واقعات کو محفوظ رکھنے اور بعد کی نسلوں تک پہنچانے کا یہی ایک ذریعہ تھا۔ مگر عرب خصوصیت کے ساتھ اپنے حافظہ اور صحتِ نقل میں ممتاز تھے۔ جو قوم ایام العرب، کلامِ جاہلیت، انسابِ قبائل حتٰی کہ اونٹوں اور گھوڑوں تک کے نسب نامے یاد کرتی ہو اور اپنی اولاد کو یاد کراتی ہو، اس سے بعد تھا کہ وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم جیسی عظیم المثال شخصیت کے حالات اور آپ کے ارشادات کو یاد نہ رکھتی اور آنے والی نسلوں تک انہیں منتقل نہ کرتی۔
پھر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا تو فطری بات تھی کہ لوگوں میں آپ کے احوال و اقوال کی جستجو اور زیادہ بڑھ جاتی۔ جو لوگ حضور کی زیارت اور صحبت سے محروم رہ گئے تھے ان میں یہ شوق پیدا ہونا بالکل فطری امر تھا کہ آپ کے صحبت یافتہ بزرگوں سے آپ کے ارشادات اور آپ کے حالات پوچھیں۔ ہم خود دیکھتے ہیں کہ اگر کوئی پیر مرد ایسا نکل آتا ہے جس نے پچھلی صدی کے اکابر میں سے کسی نامور بڑے شخص کی صحبت پائی ہو تو لوگ اس کے پاس جاتے ہیں اور اس کے حالات دریافت کرتے ہیں۔ ہمارے ایک دوست نے شمالی ہندوستان سے حیدر آباد کا سفر اس غرض کے لیے کیا کہ اگر کوئی پرانا آدمی ایسا مل جائے جس نے سید جمال الدین افغانی کی صحبت پائی ہوتو اس سے سید صاحب کے حالات معلوم کریں۔ یہ معاملہ جب معمولی انسانوں کے ساتھ پیش آتا ہے تو کیا یہ ممکن تھا کہ خدا کے سب سے بڑے پیغمبر اور دنیا کے سب سے بڑے ٹیچر کی وفات کے بعد مسلمانوں میں اس کے حالت پوچھنے اور اس کے ارشادات سے مستفید ہونے کی کوئی خواہش نہ ہوتی؟ لوگ جہاں کسی صحابی کی خبر پالیتے وہاں سینکڑوں میل سے سفر کرکے جاتے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات پوچھتے؟ یہی معاملہ یقینا صحابہ کے بعد تابعین کے ساتھ پیش آیا ہوگا۔ کم از کم دو صدی تک سماعتِ حدیث اور نقلِ خدیث کا غیر معمولی شغف مسلمانوں میں پایا جانا یقینی ہے اور یہ بات نہ صرف قیاس کے عین مطابق ہے، بلکہ تاریخ بھی اسی کی شہادت دیتی ہے۔ معتریضینِ حدیث قیاسِ عقلی سے تو کام ہی نہیں لیتے۔ رہی تاریخ تو وہ اس کے صرف اسی حصہ کو مانتے ہیں جس سے حدیث پر اعتراض کے لیے مواد مل سکتا ہو۔ اس کے سوا تاریخ کی جتنی شہادتیں ہیں سب ان کے نزدیک نامعتبر ہیں۔ لیکن جن لوگوں میں اعتراضِ حدیث کے لیے ضد پیدا نہیں ہوئی ہے وہ یقینا اس بات کو تسلیم کرلیں گے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبردست شخصیت اور آپ کی تابناک پیغمبرانہ زندگی اتنی ناقبلِ اعتنا تو نہ تھی کہ مسلمانوں میں کم از کم دوسو برس تک بھی آپ کے حالات معلوم کرنے اور آپ کے ارشادات سننے کا عام شوق نہ رہتا۔

تعلیماتِ اسلام میں بیرونی اثرات کا دخل:

اس میں شک نہیں کہ عہدِ رسالت سے دور ہونے کے بعد مسلمانوں میں بیرونی اثرات بھی داخل ہونے لگے تھے۔ اور یہ اثرات بیشتر وہ لوگ اپنے ساتھ لائے تھے جنہوں نے عراق، ایران، شام اور مصر میں مذہب اسلام قبول تو کرلیا تھا مگر قدیم مذاہب کے تخیلات ان کے ذہن سے محو نہ ہوئے تھے۔ اس میں بھی شک نہیں کہ مسلمانوں میں ایک گروہ ایسا بھی پیدا ہوگیا تھا جو اپنے دل سے گھڑ کر باتیں نکالتا تھا اور محض لوگوں پر اثر قائم کرنے لے لیے ان باتوں کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کردیتا تھا۔ یہ دونوں باتیں تاریخ سے بھی ثابت ہیں اور قیاس بھی یہی چاہتا ہے کہ ایسا ضرور ہوا ہوگا۔ مگر اس سے یہ نتیجہ نکالنا کیا درست ہوسکتا ہے کہ مسلمانوں میں سب کے سب ایسے ہی لوگ تھے؟ سب جھوٹے اور بے ایمان تھے؟ سب ایسے منافق تھے کہ اسی ہستی پر بہتان گھڑتے جس کی رسالت پر وہ دن بھر میں کم از کم پانچ مرتبہ گواہی دیا کرتے تھے؟ سب ایسے دشمنِ حق تھے کہ دنیا بھر کی خرافات لے کر رسول کے نام سے خدا کے دین میں داخل کرتے اور اس کی جڑیں کاٹتے؟ یہ نتیجہ نہ عقلا نکالا جاسکتا ہے اور نہ تاریخ اس کی تائید کرتی ہے۔ اور جب یہ صحیح نہیں ہے تو صداقت کے ساتھ صرف یہ کہا جاسکتا ہے کہ پہلی صدی کے آخر سے حدیث کے ذخیرے میں ایک حصہ ایسی روایات کا بھی داخل ہونے لگا تھا جو موضوع تھیں۔ اور یہ کہ بعد کی نسلوں کو جو احادیث پہنچی ہیں ان میں صحیح اور غلط اور مشکوک سب قسم کی حدیثیں ملی جلی تھیں۔
کھرے اور کھوٹے کی اس آمیزش کے بعد صحیح طریق کار کیا تھا؟ کیا یہ صحیح ہوسکتا تھا کہ آمیزش کی بنا پر صحیح اور غلط سب کو ایک ساتھ رد کردیا جاتا، اور بعد کے مسلمان رسالت سے اپنا تعلق منقطع کرلیتے؟ معترضینِ حدیث اس کو آسان بات سمجھتے ہیں مگر جو لوگ قرآن پر ایمان رکھتے تھے اور رسول اللہ کی ذات کو اسوہ حسنہ سمجھتے تھے، اور جن کے نزدیک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کے بغیر ہدایت کا میسر ہونا ممکن نہ تھا، ان کے لیے ایسا کرنا بہت دشوار تھا۔ اتنا دشوار جتنا کسی کے لیے برضا و رغبت آگ میں کود پڑنا ہوسکتا ہے۔ انہوں نے سب کو رد کردینے کی نسبت پہاڑ کھود کر جواہر نکالنے کی مشقت کو زیادہ آسان سمجھا۔ رسالت سے اپنا اور مسلمانوں کا تعلق برقرار رکھنے کے لیے شب و روز محنتیں کیں۔ حدیثوں کو جانچنے اور پرکھنے کے اصول بنائے، کھرے کو کھوٹے سے ممتاز کیا۔ ایک طرف اصولِ روایت کے اعتبار سے حدیثوں کی تنقیح کی، دوسرے طرف ہزاروں لاکھوں راویوں کے احوال کی جانچ پڑتال کی۔ تیسری طرف درایت کے اعتبار سے حدیثوں پر نقد کیا۔ اور اس طرح سنتِ رسول کے متعلق ان لوگوں نے ایک ایسا ذخیرہ فراہم کردیا جس کے برابر مستند اور معتبر ذخیرہ آج دنیا میں گذشتہ زمانے کے کسی شخص اور کسی عہد کے متعلق موجود نہیں ہے۔ معترضینِ حدیث کو اختیار ہے کہ ان کی ساری محنتوں پر بیک جنبش قلم پانی پھیردیں۔ ان کو یہ بھی اختیار ہے کہ دین کے ان سچے خادموں کو وضاعِ حدیث، پروردگانِ عجم، زلہ ربان بنی امیہ و بنی عباس اور جو کچھ چاہیں کہیں۔ لیکن حق یہ ہے کہ مسلمانوں پر ان محدثین کا اتنا بڑا احسان ہے کہ وہ قیامت تک اس بار سے سبکدوش نہیں ہوسکتے۔ اللہ ان کی قبروں کو نور سے بھردے، یہ انہی عاشقانِ رسول کی محنتوں کا نتیجہ ہے کہ آج ہمارے پاس رسولِ اکرم اور صحابہ کرام کے عہد کی پوری تاریخ اپنے جزئیات کے ساتھ موجود ہے اور وہ وسائل بھی ہمارے پاس موجود ہیں جن سے ہم حدیث کے ذخیرے کی جانچ پڑتال کرکے آج بھی واقعات کی صحیح صحیح تحقیق کرسکتے ہیں۔

اسلام کے نظامِ دینی میں حدیث کی حجیت، اور ناقابلِ اعتبار احادیث کا معاملہ:

البتہ راویوں میں سے ہم ہر راوی پر اعتماد نہیں کریں گے، جس طرح مقدمات کے سلسلے میں شاہدوں میں سے ہر شاہد کا اعتبار نہیں کرتے۔ اس کی تحقیق کے لیے اسماء الرجال کا فن ایجاد کیا گیا، تاکہ راویوں کے حالات کی تحقیق کی جائے۔ اسی طرح ہم راویوں پر جرح بھی کریں گے کہ حدیث کے جوہری نکات میں ان کے درمیان ایسا اختلاف تو نہیں ہے جو ان کے بیان کی صحت کو مشکوک کردیتا ہو؟ اسی طرح ہم درایت سے بھی کام لیں گے جیسے ایک جج مقدمات میں درایت سے کام لیتا ہے۔ فنِ حدیث میں درایت کی حیثیت وہی ہے جو قانون میں جج کی رائے اور قوتِ فیصلہ کی ہے۔ جس طرح جج ہر گواہ کے بیان کو یونہی قبول نہیں کرلیتا بلکہ اس کو مختلف پہلوؤں سے جانچ کر رائے قائم کرتا ہے اسی طرح ایک محدث بھی ہر روایت کو آنکھ بند کرکے قبول نہیں کرتا بلکہ جانچ پڑتال کرکے اس کے متعلق رائے قائم کرتا ہے۔ مگر جس طرح شاہدوں کے بیانات کا جانچنا ہر شخص کے بس کی بات نہیں ہے اسی طرح درایت بھی بچوں کا کھیل نہیں ہے۔ حدیث کو اصولِ درایت پر وہی شخص جانچ سکتا ہے جس نے قرآن کا علم حاصل کرکے اسلام کے اصول اولیہ کو خوب سمجھ لیا ہو۔ اور جس نے حدیث کے بیشتر ذخیرہ کا گہرا مطالعہ کرکے احادیث کو پرکھنے کی نظر بہم پہنچائی ہو۔ کثرتِ مطالعہ اور ممارست سے انسان میں ایسا ملکہ پیدا ہوجاتا ہے جس سے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مزاج شناس ہوجاتا ہے اور اسلام کی صحیح روح اس کے دل و دماغ میں بس جاتی ہے۔ پھر وہ ایک حدیث کو دیکھ کر سمجھ لیتا ہے کہ آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا فرماسکتے تھے یا نہیں؟ یا آپ کا عمل ایسا ہوسکتا تھا یا نہیں؟ پھر جس طرح ایک معاملہ میں دو قاضیوں کا اجتہاد مختلف ہوتا ہے اور جس طرح قرآن مجید کے معانی میں دو فاضلوں کی تفسیریں مختلف ہوسکتی ہیں، اسی طرح دو محدثوں کی درایت میں بھی اختلاف ممکن ہے۔ خدا نے ہم کو انسانی طاقت سے زیادہ کسی چیز کا مکلف قرار نہیں دیا ہے۔ اختلاف رائے انسانی فطرت کا مقتضٰی ہے، اور اس کی وجہ سے نہ قرآن چھوڑا جاسکتا ہے نہ حدیث اور نہ عدالت کی کرسی۔ پس ایک حدیث کے متعلق جس حد تک تحقیق انسان کے بس میں ہے، اس کا سامان محدثین نے فراہم کردیا ہے۔ ہمارا کام اس سامان سے فائدہ اٹھا کر صحیح کو غلط سے ممتاز کرنا اور صحیح کا اتباع کرنا ہے۔ نہ یہ کہ صحیح و غلط کے اختلاط کو دیکھ کر سرے سے رسالت ہی سے قطع تعلق کرلینا۔
بعض حضرات کہتے ہیں ہم حدیث کو صرف تاریخ کی حیثیت سے لیں گے، حجتِ شرعی نہ بنائیں گے۔ مگر کیا ان حضرات نے رسول کی تاریخ کو سکندر اور نپولین کی تاریخ سمجھا ہے کہ اس کے صحیح ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہ پڑتا ہو؟ کیا وہ اتنا نہیں سمجھتے کہ یہ اس انسان کی تاریخ ہے جس کا اتباع فرض ہے، اس ذاتِ پاک کی تاریخ دو حال سے خالی نہیں ہوسکتی۔ یا صحیح ہوگی یا غلط۔ اگر غلط ہے تو اس کو لینا کیا معنی نذرِ آتش کردیجیے۔ رسول پر بہتان اور آپ اس کو تاریخ کی حیثیت سے قبول کرلیں؟ اور اگر وہ صحیح ہے تو اس کا اتباع فرض ہے۔ مسلمان ہوتے ہوئے اس کی پیروی سے آپ بچ کہاں سکتے ہیں؟

منکرینِ حدیث کے مقالات پر نظر کرتے ہوئے انکارِ حدیث کے دو وجوہ قرار دیے جاسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ اسلام کے نظامِ دینی میں سرے سے حدیث کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ صرف قران کافی ہے۔ دوسرے یہ کہ احادیث ناقابلِ اعتبار ہیں۔
ان میں سے پہلی وجہ کا جواب دیا جاچکا ہے۔ رہی دوسری وجہ تو اس کی غلطی بھی گذشتہ صفحات میں ظاہر کی جاچکی ہے۔ لیکن ضرورت ہے کہ اس شبہ کو تفصیل کے ساتھ رفع کردیا جائے۔ احادیث کو ناقابلِ اعتبار سمجھنے کی اصل وجہ وہم اور شک کا حد سے بڑھ جانا ہے۔ انسان کی فطرت میں شک کا مادہ اس لیے پیدا کیا گیا ہے کہ وہ بحث و تحقیق اور تلاش و تجسس کے لیے محرک ہو اور اور حقیقت کی جستجو پر انسان کو ابھارے۔ لیکن ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے جس سے گھٹنے یا بڑھ جانے پر وہ مستحسن نہیں رہتی۔
غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ انسان اکثروبیشتر معاملات میں صرف اس تحقیق پر اعتماد کرنے کیلئے مجبور ہے جس سے ظنِ غالب حاصل ہوتا ہے۔ اگر وہ اس تحقیق میں شک کرے اور علم یقین کے بغیر ہر بات کو ماننے سے انکار کردے تو وہ دنیا کے کام کا نہ رہے گا بلکہ شاید زندہ بھی نہ رہ سکے گا۔ مثال کے طور پر میں نے آج تک کبھی کسی شخص کو سانپ کے کاٹے سے مرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ نہ مجھے سانپ نے کاٹا کہ اس کے مہلک ہونے کا مجھے علم یقین حاصل ہوتا۔ میں نے صرف لوگوں سے یہ سنا ہے کہ جب سانپ کاٹتا ہے تو انسان مرجاتا ہے۔ میں اس روایت پر یقین رکھتا ہوں، اور سانپ کو دیکھ کر اس سے بچ جاتا ہوں۔ لیکن اگر میں اس روایت میں شک کروں اور کہوں کہ جب تک سانپ میرے سامنے کسی کو نہ کاٹے اور اسی کی تاثیر سے وہ میرے سامنے مر نہ جائے یا جب تک سانپ خود مجھ کو نہ کاٹے اور میں اس کے زہر سے نہ مرجاؤں، اس وقت تک میں یقین نہ کروں گا کہ سانپ مہلک ہوتا ہے، تو میرے اس شک کا جو کچھ انجام ہوگا وہ ظاہر ہے۔
مثلا ہر شخص کو یہ بات کہ وہ اپنے باپ کی جائز اولاد ہے صرف اپنی ماں کی روایت سے معلوم ہوتی ہے۔ اس خبرِ واحد میں جس کے لیے کوئی دوسرا شاہد سرے سے مل ہی نہیں سکتا، نفسِ خبر ہونے کی حیثیت سے سچ اور جھوٹ کا یکساں احتمال ہے۔ لیکن کوئی شریف آدمی اس میں جھوٹ کے پہلو کو ترجیح دینا تو درکنار وہ کسی درجہ میں بھی یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ ہوگا۔ خواہ واقعہ کے اعتبار سے اس کا اپنی ماں کے بیان پر یقین کرنا درست نہ ہو۔
اگر کوئی جج ہر شاہد کو جھوٹا اور ہر شہادت کو غلط فرض کرکے اپنا کام شروع کرے، اور ہر واقعہ کو تسلیم کرنے کیلئے اس بات پر اصرار کرے کہ یاتو واقعہ خود اس کی آنکھوں کے سامنے پیش آئے، یا متواتر روایات اس تک پہنچیں، تو یقینا چند ہی ساعتوں میں اس کو عدالت کی کرسی چھوڑدینی پڑے گی۔
یہی صورت مذہبی معاملات میں بھی ہے۔ سب سے بڑی چیز جس پر ہمارے ایمان کا مدار ہے قرآن مجید ہے۔ اس کتاب کا کلامِ الٰہی ہونا ہم کو صرف ایک گواہ کی شہادت سے معلوم ہوا ہے اور وہ گواہ ذاتِ رسالت پناہ ہے۔ نفسِ خبر ہونے کے لحاظ سے اس میں بھی صدق و کذب کا احتمال ہے۔ لیکن خبر جس گواہ نے دی ہے اس کی راست بازی، دیانت اور پاکیزہ سیرت کو دیکھ کر اور جو خبر اس نے دی ہے اس کی معقولیت اور حقانیت کا لحاظ کر کے ہم کذب کے پہلو پر صدق کے پہلو کو ترجیح قرار دیتے ہیں اور پھر یہی ترجیح ایمان بن کر ہمارے قلب میں ایسی راسخ ہوجاتی ہے کہ کذب کا تصور تک آنے نہیں پاتا۔ لیکن دوسری طرف بہت سے لوگ ہیں جنہیں اس شاہد امین کی شہادت میں شک ہے۔ اور اسی شک کی بنا پر وہ اس کی تصدیق سے انکار کررہے ہیں۔ ہم میں اور ان میں اگر کوئی فرق ہے تو وہ صرف یہی ہے کہ ہم نے ایک راست باز گواہ کی گواہی کو تسلیم کیا اور مسلمان ہوگئے۔ انہوں نے اس کی گواہی میں شک کیا اور کفر میں مبتلا ہوگئے۔ رونہ یہ ظاہر ہے کہ وحی اترتے ہوئے نہ ہم نے دیکھی اور نہ انہوں نے۔

احادیث کی تحقیق کا معیار

اب ہمیں دیکھنا چاہیے کہ کسی خبر کی تحقیق کا سخت سے سخت قابلِ عمل معیار کیا ہوسکتا ہے۔ فرض کیجیے زید نامی ایک شخص اب سے سو برس پہلےگزرا ہے، جس کے متعلق عمرو ایک روایت آپ تک پہنچاتا ہے۔ آپ کو تحقیق کرنا ہے کہ زید کے متعلق یہ روایت درست ہے یا نہیں؟ اس غرض کے لیے آپ حسبِ ذیل تنقیحات قائم کرسکتے ہیں۔
1. .یہ روایت عمرو تک کس طریقے سے پہنچی؟ درمیان میں جو واسطے ہیں ان کا سلسلہ زید تک پہنچتا ہے یا نہیں؟ درمیانی راویوں سے ہر راوی نے جس شخص سے روایت کی ہے اس سے وہ ملا بھی تھا یا نہیں۔ ہر راوی نے روایت کس عمر اور کس حالت میں سنی؟ روایت کو اس نے لفظ بلفظ نقل کیا یا اس کے مفہوم کو اپنے الفاظ میں ادا کیا؟
2. کیا یہی روایت دوسرے طریقوں سے بھی منقول ہے۔ اگر منقول ہے تو سب بیانات متفق ہیں یا مختلف؟ اور اختلاف ہے تو کس حد تک؟اگر کھلا ہوا اختلاف ہے تو مختلف طریقوں میں سے کونسا طریق روایت زیادہ معتبر ہے؟
3. جن لوگوں کے واسطے سے یہ خبر پہنچی ہے وہ خود کیسے ہیں؟ جھوٹے یا بد دیانت تو نہیں؟ اس روایت میں ان کی کوئی ذاتی یا جماعتی غرض تو مخفی نہیں؟ ان میں صحیح یاد رکھنے اور صحیح نقل کرنے کی قابلیت تھی یا نہیں؟
4. زید کی افتادِ طبع، اس کی سیرت، اس کے خیالات اور اس کے ماحول کے متعلق جو مشہور و متواتر روایات یا ثابت شدہ معلومات ہمارے پاس موجود ہیں یہ روایت ان کے خلاف تو نہیں ہے؟
5. روایت کسی غیر معمولی اور بعید از قیاس امر کے متعلق ہے یا معمولی اور قرینِ قیاس امر کے متعلق؟ اگر پہلی صورت ہے تو کیا طریقِ روایت اتنے کثیر، مسلسل اور معتبر ہیں کہ ایسے امر کو تسلیم کیا جاسکے؟ اور اگر دوسری صورت ہے تو کیا روایت اپنی موجودہ شکل میں اس امر کی صحت کا اطمینان کرنے کے لیے کافی ہے؟
یہی پانچ پہلو ہیں جن سے کسی خبر کی جانچ پڑتال کی جاسکتی ہے۔ ان سوالات کے متعلق اگر ذرائع تحقیق ہمارے پاس موجود ہوں اور ان ذرائع سے کوئی خبر تحقیق کے معیار پر پوری اتر جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اس کی تکذیب کریں اور اگر کوئی خبر اس معیار پر پوری نہ اترے تو ہم کو حق ہے کہ خواہ اس کی تکذیب کریں یا اس کو رد کردیں۔ لیکن اگر ذرائع تحقیق موجود ہوتے ہوئے بھی کوئی شخص فردا فردا ہر خبر کو جانچنے اور اس کے متعلق رائے قائم کرنے کے بجائے تمام خبروں کو مجموعا محض اس بنا پر رد کردے یا جھوٹ قرار دے کہ ان میں بعض جعلی خبریں ملی ہوئی ہیں، یا بعض راویوں کی کمزوریاں ثابت ہیں، یا بعض اس شخص کی عقل میں نہیں سماتیں تو اس سے بڑھ کر غیر معقول طرزِ عمل اور کوئی نہیں ہوسکتا۔

اگر کوئی شخص ذاتِ رسالت پناہ کے اسوہ حسنہ اور سنتِ مطہرہ سے کوئی تعلق رکھنا ہی نہ چاہتا ہوتو یہ ایک دوسری بات ہے۔ لیکن اگر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تقلید ضروری سمجھتا ہے، اور اسے واقعی یہ معلوم کرنے کی ضروت ہے کہ حضور نے اپنی ٢٣ سال کی حیات نبوی میں کس طرح زندگی بسر کی؟ کون سے افعال کیے؟ کن افعال سے اجتناب کیا؟ کن باتوں کو جائز رکھا؟ کن باتوں سے منع فرمایا؟ تو لامحالہ اس کو حدیث کے ذخیرے کی طرف متوجہ ہونا پڑے گا۔ یہاں وہ یہ دیکھے گا کہ اس وقت بھی دنیا میں کم و بیش چار پانچ لاکھ آدمی ایسے موجود ہیں جن کے پاس حدیث کی کتابیں امام مالک، امام محمد، امام شافعی، امام احمد بن حنبل، امام بخاری اور دوسرے ائمہِ حدیث سے سلسلہ بہ سلسلہ پہنچی ہیں۔ اس لیے اس امر میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں کہ یہ کتابیں انہی بزرگوں کی لکھی ہوئی ہیں۔ پھر اس میں بھی شبہ نہیں کیا جاسکتا کہ ان بزرگوں نے ہر حدیث کی جو سند رسول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام تک پہنچائی ہے وہ کم از کم ان کی تحقیق کے لحاظ سے درست تھی۔ لہذا ان کتابوں کے ذریعہ سے حدیث کا وہ علم قریب قریب یقینی طور پر ہم تک پہنچ گیا ہے جو پہلی، دوسری، تیسری اور چوتھی صدی ہجری کے ائمہ حدیث کے پاس تھا۔

محدثین کی اندھی تقلید؟

ہم نے کبھی اس خیال کی تائید نہیں کی کہ ہر شخص کو ائمہ حدیث کی اندھی تقلید کرنی چاہیے یا ان کو غلطی سے مبرا سمجھنا چاہیے۔ نہ کبھی ہم نے یہ دعویٰ کیا کہ ہر کتاب میں جوروایت قال رسول اللہ سے شروع ہو اس کو آنکھ بند کرکے رسول اللہ کی حدیث مان لیا جائے۔ برعکس اس کے ہمارے نزدیک کسی حدیث کو حدیثِ رسول قرار دینے کی ذمہ داری ایک گراں بار ذمہ داری ہے جس کو اٹھانے کی جرات کافی تحقیق کے بغیر ہر گز نہ کرنی چاہیے۔ اور تحقیق و اجتہاد کے متعلق بھی ہمارا مذہب یہ ہے کہ اس کا دروازہ ہر زمانہ میں کھلا ہوا ہے اور کسی خاص عہد کے لیے مخصوص نہیں ہے۔ لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ جن لوگوں نے فنِ حدیث کی تحقیق اور اس کے باقاعدہ مطالعہ اور تحقیقات میں حق ادا نہ کیا وہ ان بزرگوں کے کارناموں پر تنقید کریں جنہوں نے پوری پوری عمریں اس فن کی خدمت میں بسر کردی ہیں۔ صرف ایک فنِ حدیث ہی پر موقوف نہیں ہے دنیا کا کوئی علم و فن بھی آپ کو ایسا نہ ملے گا جس میں مبتدیوں اور اناڑیوں کو ریسرچ اور ماہرانہ اظہار رائے اور مجتہدانہ کلام کا حق دیا جاتا ہو۔ یہ حق انسان کو صرف اس وقت حاصل ہوتا ہے جب وہ فن کے مبادی اور اصول پر پوری طرح حاوی ہوچکا ہو، اور جتنا ذخیرہ معلومات اس فن کے متعلق موجود ہو وہ سب اس کی نظر میں ہو۔ باقی رہا وہ شخص جو ابھی اس مرتبہ پر نہیں پہنچا ہے تو اس کے لیے سلامتی اسی میں ہے کہ وہ ائمہ فن کی تحقیقات اور ان کی آراء کا اتباع کرے۔ تمام دنیوی علوم کی طرح مذہبی علوم میں بھی یہی طریقہ بہتر اور صحیح تر ہے۔ اس کو چھوڑ کر جو لوگ اجتہاد بلا علم کا علم بلند کرتے ہیں وہ دنیا اور دین دونوں میں اپنے لیے رسوائی کا سامان کرتےہیں۔
جو باتیں حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے ہم تک پہنچی ہیں ان کو دو حصوں پر تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک وہ حصہ ہے جو تواتر کے ساتھ آیا ہے، خواہ وہ تواتر عملی ہو یا خبری۔ دوسرا حصہ وہ ہے جو تواتر کے ساتھ نہیں آیا۔ ان میں سے پہلے حصہ کے متعلق تمام امت کا اتفاق ہے کہ وہ یقینی ہے اور عقل بھی یہ فیصلہ کرتی ہے کہ اسے ثابت شدہ حقیقت تسلیم کرنا چاہیے، کیونکہ تواتر کا مفید یقین ہونا مسلمات میں سے ہے۔ رہا دوسرا اصول تو اس کو سب ظنی مانتے ہیں۔ مظنونات کو من حیث الکل قبول کرلینا جس درجہ کی غلطی ہے، اسی درجہ کی غلطی ان کو من حیث الکل رد کردینا بھی ہے۔ عقلِ سلیم کا اقتضا یہی ہے کہ مظنونات کو ایک ہی لکڑی سے نہ ہانکا جائے بلکہ ان کے درمیان تمیز کی جائے۔ ان میں سے ہر ایک کو جدا جدا جانچ کر دیکھا جائے اور تحقیق کے مختلف ذرائع سے کام لیکر یہ دریافت کیا جائے کہ کونسی چیز یقین سے کس درجہ قریب یا کس درجہ بعید ہے۔ جو چیز بعید ہو اسے رد کردو۔ جو چیز قرب و بعد کے درمیان ہو اس میں توقف کرو۔ اور جو چیز قریب ہو اس کو بلحاظ اس کے درجہ کے قبول کرلو۔ یہی اصول ہے جس پر دنیا کے سارے معاملات میں عمل کیا جاتا ہے۔ اور چونکہ ہمارا دین غیر معقول نہیں ہے اس لیے اسی کی پیروی دین کے معاملات میں بھی کرنی چاہیے۔
احادیث کو بالکلیہ رد کردینے سے عملا جو خرابی واقع ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ جزئیات میں انسان رسالت کی رہنمائی سے محروم ہوجاتا ہے، اور دین پر عمل کرنے کی تفصیلی صورتوں میں قیاس و رائے کا دخل اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ اس سے اصولی احکام کی اصل اسپرٹ کے بھی ضائع ہوجانے کا خوف ہے۔ نیز اس میں یہ بھی خطرہ ہے کہ جب تفصیلات میں سرے سے کوئی سند ہی نہ ہوگی تو لامحالہ انفرادیت راہ پائے گے۔ ہر شخص اپنی رائے اور اپنے رجحان کے مطابق جو صورت چاہے گا اختیار کرے گا۔ اور کوی قوت ایسی باقی نہ رہے گی جو تفرقہ و انتشار اور اختلاف عمل کو انفرادیت کی آخری حدود تک پہنچنے سے روک سکتی ہو۔ مثال کے طور پر ایک نمازِ جمعہ ہی کو لیجیے۔ ہمارے پاس یقین کے جو ذرائع ہیں ان میں سے پہلا اور سب سے بڑا ذریعہ یعنی قرآن ہم کو صرف یہ ہدایت دیتا ہے کہ “جب نماز جمعہ کے لیے بلایا جائے تو سب کام چھوڑ کر دوڑ پڑو“ دوسرا ذریعہ یعنی عملِ متواتر ہم کو اس سے تھوڑی دور آگے لے جاکر چھوڑدیتا ہے۔ وہ صرف اتنا علم ہم کو دیتا ہے کہ جمعہ کا وقت ظہر کا وقت ہے، اس کے لیے جماعت شرط ہے، اس سے پہلے خطبہ ہونا چاہیے، اس کی رکعتیں دو ہیں، اور اس کے لیے اذنِ عام ضروری ہے۔ ان امور کے بعد جتنے عملی جزئیات ہیں ان میں سے کوئی چیز بھی قرآن یا عمل متواتر سے ہم کو معلوم نہیں ہوتی۔ اب اگر اخبار احاد کو بہ حیثیت مجموعی رد کردینے کا اصول اختیار کیا جائے تو نتیجہ یہ ہوگا کہ ہر شخص جزئیات کو اپنی رائے سے مقرر کریگا۔ اور کسی رائے کوبھی ایسی قوت حاصل نہ ہوگی جس کی بنا پر اسے دوسری رائے کے مقابلے میں ترجیح دی جاسکے اور مسلمانوں کی کسی بڑی جماعت پر اس کی پیروی لازم ہوجائے۔ آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ اس سے جزئیات میں کتنی افرا تفری برپا ہوگی، نظامِ جماعت کو کتنا نقصان پہنچے گا اور کس طرح بعض صورتوں میں مقاصدِ شریعت تک فوت ہوجائیں گے۔
اس میں شک نہیں کہ اخبار احاد سے جو تفصیلات معلوم ہوئی ہیں وہ بھی کچھ نہ کچھ مختلف ہیں اور ان کی بنا پر بھی متعدد مذہب نکلتے ہیں۔ مگر اول تو ان میں بمشکل پانچ سات مذاہب نکلنے کی گنجائش ہے اور پھر ان سے جتنے مذہب بھی نکلتے ہیں ان میں سے ہر ایک کو اسی ایک بالا تر اقتدار کی سند حاصل ہے جس کو سب مسلمان تسلیم کرتے ہیں۔ بخلاف اس کے اخبار احاد کو بالکلیہ رد کردینے کے بعد بے شمار مذاہب کی گنجائش نکل آتی ہے اور ان میں سے کسی مذہب کو بھی کوئی ایسی سند حاصل نہیں ہوتی جو زیادہ نہیں دوہی مسلمانوں کو ایک جزئیہ میں ایک طریقہ پر جمع کردے۔ نتیجہ اسکا بالکل ظاہر ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پبلک اور پرائیویٹ زندگی، آپ کے اخلاق، آپ کی عادات، آپ کا طریق عبادت، آپ کا طرزِ تعلیم و تبلیغ، آپ کا طرزِ عدالت، آپ کے قانونی فیصلے، زندگی کے مختلف شعبوں میں آپ کی ہدایت اور آپ کا طرزِ عمل، پھر آپ کے خلفاء اور صحابہ اور اہلِ بیت اور تابعین کے آثار یہی وہ چیزیں ہیں جو اسلام کی عملی زندگی کا پورا نقشہ پیش کرتی ہیں، اور اسی نقشہ پر اسلام ایک مکمل نظامِ حیات بنتا ہے۔ مگر ان چیزوں کے حصول کا ذریعہ قرآن نہیں صرف احادیث ہیں جو ہم تک معلومات اور ہدایات کا یہ عظیم الشان ذخیرہ پہنچاتی ہیں۔ ان کو مٹادیجیے۔ پھر اسلام محض ایک ڈھانچہ رہ جائے گا، جس پر گوشت پوست کچھ نہ ہوگا۔ جس کی شکل اور جس کے خدو خال کو جو شخص جس طرح چاہے گا بنائے گا۔ اس صورت میں درِ حقیقت کوئی ایک نظامِ جماعت قائم ہی نہ ہوسکے گا، کجا کہ کوئی ایسی تہذیب وجود میں آسکے جو اسلامی تہذیب ہو۔ یہی وجہ ہے کہ حدیث کی مخالفت آج وہی لوگ کررہے ہیں جو دراصل اسلامی تہذیب کے نظام کو توڑنا چاہتے ہیں۔ وہ اس کے تعینات کی حدود میں اپنی اہواء اور خواہشات کی پیروی کے لیے کوئی گنجائش نہیں پاتے، اس لیے انہوں نے یہ مسلک اختیار کیا ہے کہ اس چیز کو ہی مٹادو جو اس نظام کی حد بندی کرتی ہے۔ پھر ہم آزاد ہوجائیں گے کہ اسلام کے ڈھانچے پر جس طرح چاہیں گوشت پوشت چڑھائیں اور جیسی چاہی اس کی شکل بنادیں۔
یہ لوگ احادیث کو مجموعی حیثیت سے مردود قرار دینے کے لیے ان حدیثوں کو مثال میں پیش کرتے ہیں جو باہم متعارض ہیں، یا جن میں انبیاء علیہم السلام پر طعن پایا جاتا ہے۔ یا جو صریح عقل کے خلاف ہیں، یا قرآن کے خلاف نظر آتی ہیں۔ ان چند افراد سے یہ لوگ پورے مجموعہ کے غلط اور قابلِ رد ہونے پر استدلال کرتے ہیں۔ مگر یہ استدلال ایسا ہی ہے جیسے کسی قوم کے چند افراد کی بد معاشی سے پوری قوم کی بد معاشی پر استدلال کیا جائے۔ جب ہر روایت بلحاظِ متن اور بلحاظِ اسناد دوسری روایت سے مختلف ہے تو ہر روایت کے متعلق جدا جدا تحقیق کرکے رائے قائم کرنی چاہیے کہ وہ قبول کرنے کے لائق ہے یا رد کردینے کے لائق۔ سب کو ایک مجموعہ کی حیثیت سے لیکر پورے مجموعے کے متعلق ایک ہی رائے قائم کرلینا کسی معقول انسان کا فعل نہیں ہوسکتا۔ اگر یہ لوگ احادیث پر فردا فردا نگاہ ڈالیں گے تو ان کو معلوم ہوگا کہ جہاں ایک قلیل تعداد ایسی حدیثوں کی ہے جنہیں دیکھ کر دل گواہی دیتا ہے کہ یہ حدیثیں رسول اللہ کی نہیں ہوسکتیں، وہاں ایک کثیر تعداد ایسی حدیثوں کی بھی ہے جو حکمت کے جواہر سے لبریز ہیں، جن میں قانون اور اخلاق کے بہترین اصول پائے جاتے ہیں، جو اسلام کی حقیقت اور اس کے مصالح و حکم پر بہترین روشنی ڈالتی ہیں اور جن کو دیکھ کر دل گواہی دیتا ہے کہ یہ ایک رسول ہی کی حدیثیں ہوسکتی ہیں۔ پھر اگر یہ لوگ حق پرست اور انصاف پسند ہوں تو انہیں نظر آئے کہ محدثین کرام نے عہدِ رسالت اور عہدِ صحابہ کے آثار و اخبار جمع کرنے اور ان کو چھانٹنے اور ان کی حفاظت کرنے میں وہ محنتیں کی ہیں جو دنیا کے کسی گروہ نے کسی دور کے حالات کے لیے نہیں کیں۔ انہوں نے احادیث کی تنقید و تنقیح کے لیے جو طریقے اختیار کیے وہ ایسے ہیں کہ کسی دورِ گذشتہ کے حالات کی تحقیق کے ان سے بہتر طریقے عقلِ انسانی نے آج تک دریافت نہیں کیے۔ تحقیق کے زیادہ سے زیادہ معتبر ذرائع جو انسان کے امکان میں ہیں وہ سب اس گروہ نے استعمال کیے ہیں اور ایسی سختی کے ساتھ استعمال کیے ہیں کہ کسی دورِ تاریخ میں ان کی نظیر نہیں ملتی۔ درِ حقیقت یہی چیز اس امر کا یقین دلاتی ہے کہ اس عظیم الشان خدمت میں اللہ تعالٰی ہی کی توفیق شاملِ حال رہی ہے۔ اور جس خدا نے اپنی آخری کتاب کی حفاظت کا غیر معمولی انتظام کیا ہے اسی نے اپنے آخری نبی کے نقوشِ قدم اور آثارِ ہدایت کی حفاظت کے لیے بھی وہ انتظام کیا ہے جو اپنی نظیر آپ ہی ہے۔

استفادہ تحریر  سید مودودی حؒ

 

Leave Your Comment

Your email address will not be published.*

Forgot Password