ایک فیس بکی ‘مفکر’ المعروف قاری صاحب نے حال ہی میں ایک پوسٹ لگائی ہے کہ جس میں صحابی رسول حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ کے بارے لکھا ہے کہ وہ اپنی طرف سے حدیثیں بنایا کرتے تھے، وہ جعل ساز اور جھوٹے تھے۔ قاری صاحب لکھتے ہیں:
“حضرت عمر ابو ہریرۃ کو اللہ کا دشمن کہتے تھے۔ اس کو خائن کہتے تھے۔ انہوں نے اس کو کوڑے مارے۔
ابوہریرۃ کی درج ذیل جھوٹی حدیث ملاحظہ کریں جس میں وہ یہ کہتا ہے کہ میں عثمان کی بیوی رقیہ کے پاس گیا، رقیہ کے ہاتھ میں کنگھی تھی۔۔۔ حالانکہ رقیہ جنگ بدر کے موقع پر فوت ہو گئی تھیں، جبکہ ابو ہریرۃ سات ہجری میں جنگ خیبر کے موقع پر مسلمان ہو کر مدینہ آیا، جب رقیہ کو قبر میں گئے ہوئے پانچ سال ہو چکے تھے۔ تو ابو ہریرۃ رقیہ کو کیسے ملا اور کس طرح ان کے پاس گیا، ابو ہریرۃ کے جعل ساز اور جھوٹا ہونے کا ثبوت اس سے بڑا کیا ہو سکتا ہے۔”
یہاں مفکر صاحب نے دو دعوے کیے ہیں۔ پہلا دعوی تو یہ ہے کہ حضرت عمر، حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہما کو اللہ کا دشمن اور خائن کہتے تھے حالانکہ یہ ایک غلط فہمی تھی جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو لاحق ہوئی اور انہوں نے جذبات میں حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ کے بارے ایسی بات کہہ دی اور ایک مرتبہ ہی ایسی بات ان کی زبان سے نکلی۔ طبقات ابن سعد کی روایت میں ہے کہ حضرت عمر نے حضرت ابوہریرۃ کو بحرین کا گورنر بنا کر بھیجا اور جب وہ واپس آئے تو ان کے پاس بارہ ہزار درہم تھے۔
حضرت عمر نے ان سے کہا کہ اے دشمن خدا، یہ کہاں سے آئے ہیں؟ کیا آپ نے بیت المال میں خیانت کی ہے؟ حضرت ابو ہریرۃ نے جواب دیا کہ میں اللہ اور اس کے رسول کا نہیں بلکہ ان کے دشمنوں کا دشمن ہوں اور جہاں تک کمائی کا معاملہ ہے تو یہ میرے گھوڑوں اور تیروں کی کمائی ہے اور میرا ذاتی مال ہے لیکن حضرت عمر نے ان سے یہ رقم لے لی۔ بعد میں حضرت عمر نے انہیں دوبارہ گورنر بنا کر بھیجنا چاہا تو انہوں نے انکار کر دیا۔ حضرت عمر نے اصرار کیا تو پھر یہ جواب دیا کہ کیا فائدہ اس گورنری کا جس کے بدلے مجھ سے میرا مال لے لیا جائے۔
تو حضرت عمر کا انہیں دوبارہ گورنر بنانے پر اصرار کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ دل سے انہیں خائن یا اللہ کا دشمن نہیں سمجھتے تھے بلکہ وہ حضرت عمر کے مزاج کی سختی تھی کہ جس کا اظہار ان کی طرف سے ان کے ساتھیوں کے ساتھ ہوتا رہتا ہے۔
اور جہاں تک دوسری روایت کی بات ہے تو یہ روایت منقطع اور منکر ہے۔ یہ مستدرک حاکم کی روایت ہے اور اس کی سند میں مطلب راوی ہے کہ جس کی ملاقات حضرت ابو ہریرۃ سے ثابت نہیں ہے۔ امام بخاری، امام بیقہی، امام طبرانی کے نزدیک یہ روایت سندا ثابت نہیں ہے۔ امام ذہبی اور امام حاکم وغیرہ نے بھی اسے “منکر” اور “واہی” کہا ہے۔ قاریصاحب کی بے چارگی دیکھنے کے لائق ہے کہ حضرت کے بوجھے میں صحیح حدیث کو رد کرنے کی جو واحد دلیل ہے، وہ ضعیف روایت ہے۔۔۔۔ یعنی وہ صحیح حدیث کو رد کرنے کے لیے ضعیف حدیث کے محتاج ہیں۔۔ جس کا رد کر رہے ہیں، دلیل کے لیے بھی اسی کے سامنے جھولی پھیلا کر کھڑے ہیں۔ مولانا امین احسن اصلاحی ایک جگہ اس اعتراض کے جواب میں لکھتے ہیں :
“حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جو تنبیہ فرمائی، اس سے آپ نے جو نتیجہ نکالا ہے، وہ میرے نزدیک صحیح نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ایک آدمی بڑا ہی محتاط ہو، لیکن اس کے باوجود اس سے کوئی غفلت ایسی ہو جائے جس کی بنا پر وہ تنبیہ کا سزاوار قرار پائے۔ اسی طرح اس بات کا بھی امکان ہے کہ جس بات پر اس کو تنبیہ کی گئی ہے، اس میں وہ حق بجانب ہو، لیکن کسی غلط فہمی یا شدت احتیاط کی بنا پر اس کو تنبیہ کی گئی ہو۔ میں تو اس واقعہ سے روایت و حفاظت حدیث کے بارے میں دو نہایت اہم حقائق تک پہنچا ہوں:
ایک تو یہ کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جس طرح امت کے سارے ہی معاملات میں نہایت محتاط اور بیدار مغز تھے، اسی طرح احادیث کی حفاظت و صیانت کے معاملے میں بھی وہ نہایت بیدار مغز اور محتاط تھے۔ ان کی شدت احتیاط کا یہ عالم تھا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ جیسے صحبت یافتۂ نبی شخص کی کسی روایت پر بھی جب انھیں ذرا شک گزر گیا ہے تو ان کو تنبیہ کرنے سے بھی وہ باز نہیں رہے ہیں۔
ایک ایسے بیدار مغز اور محتاط شخص کے متعلق یہ گمان کس طرح کیا جا سکتا ہے کہ وہ اس معاملہ میں کسی کو بھی بخش سکتا ہے۔ اول تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے رعب و دبدبہ کے ہوتے کسی کو ان کے زمانہ میں یہ جرأت ہی نہیں ہو سکتی تھی کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کوئی غلط بات منسوب کرے، لیکن اگر کوئی ایسی جرأت کر بیٹھتا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس کی خبر لیے بغیر کب رہتے۔ ظاہر ہے کہ احادیث کا بیش تر حصہ اسی دور میں نقل و روایت میں آ کر اہل علم کے حلقوں تک پہنچ گیا ہے۔ اس محتاط دور کی روایات کے متعلق کون یہ گمان کر سکتا ہے کہ یہ عجمی سازشوں کے نتیجہ کے طور پر ظہور میں آ گئی ہیں۔
دوسری حقیقت یہ واضح ہوتی ہے کہ حضرت ابوہریرہ بڑے ہی صاحب کردار، بڑے ہی صاحب اعتماد اور نہایت ہی ذمہ دار راوی ہیں۔ اگر وہ کوئی ایسے ویسے راوی ہوتے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ایک ہی ڈانٹ کے بعد ان کا حوصلہ پست ہو جاتا اور وہ روایت حدیث کا نام بھی نہ لیتے۔ لیکن آپ جانتے ہیں کہ انھوں نے پورے تسلسل کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے لے کر بنی امیہ کے ابتدائی دور تک اس خدمت دین کو جاری رکھا اور ایک لمحہ کے لیے بھی اپنے کام میں سست نہیں پڑے۔
اپنے کام میں یہ استقامت اور وہ بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے بیدار مغز اور سخت گیر خلیفہ کے دور میں وہی شخص دکھا سکتا ہے جسے اپنے کام پر پورا پورا اعتماد ہو، یہاں تک کہ وہ اپنی ہر روایت حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے نقاد کی کسوٹی پر پرکھوانے کے لیے بھی ہر وقت تیار ہو۔
ایک عام راوی جو بے سوچے سمجھے روایت کرنے کا عادی ہو، یہ اخلاقی جرأت نہیں دکھا سکتا تھا کہ ایسے شدید نقادوں کے سامنے بالکل بے جھجک اپنی روایت پیش کر سکے۔ یہ وہی شخص کر سکتا ہے جسے اپنے علم و حافظہ پر بھی اعتماد ہو، اپنی سچائی پر بھی اعتماد ہو اور ساتھ ہی وہ علم نبی سے متعلق اپنی ذمہ داریوں کو بھی اچھی طرح سمجھتا ہو۔(مولانا امین احسن اصلاحی, تفہیم دین ۷۵)
استفادہ تحریر حافظ زبیر