منکرین حدیث اس حدیث کا اپنی مرضی کا ترجمہ و تشریح کرتے اور پھر مذاق اڑاتے ہیں . ایک منکر حدیث کی کتاب سے اس حدیث کا ترجمہ و تشریح ملاحظہ کیجیے۔
ابن عمر رضی اللہ عنہ حضور سے روایت کرتے ہیں کہ سورج نکلتے اور ڈوبتے وقت نماز نہ پڑھا کرو اس لیے کہ سورج بوقت طلوع شیطان کے دو سینگوں میں پھنسا ہوا ہوتا ہے۔ (بخاری جلد ۲، ص ۱۳۴)
پھر اس حدیث پر تبصرہ کرتے ہیں “سورج کی موٹائی ساڑھے بتیس ارب میل ہے اگر اتنی بڑی شے شیطان کی سینگوں میں سما جاتی ہے اتنابڑا شیطان کھڑا کہاں ہوتا ہوگا زمین سے سورج نو کروڑ پینتیس لاکھ میل دور ہے اور شیطان کی لمبائی سوا پانچ کھرب میل ۔ اگر شیطان کو زمین پر کھڑا کیا جائے تو سورج اسکی ٹخنوں سے بھی نیچے رہ جاتا ہے پھر لکھتے ہیں کہ کلکتہ کی صبح چند لمحوں بعد بنارس پہنچتی ہے پھر دہلی پھر لاہور پھر پشاور پھر کابل وعلی ہزا القیاس جس کا یہ مطلب ہوا کہ سورج ہر وقت شیطان کی سینگوں میں پھنسا رہتا ہے چونکہ ایسی حالت میں نماز ناجائز ہے اس لئے مسلمانوں کو نماز بالکل ترک کردینی چاہئے یہ ہے ہمارے ملا کا مبلغ علم ___ ! (دو اسلام ص ۳۲۴)
٭جواب ٭
اس پیراگراف میں جو مرکزی نقاط قابل تحقیق ہیں وہ یہ ہیں
1۔سورج بوقت طلوع شیطان کے دو سینگوں میں پھنسا ہوا ہوتا ہے.2۔شیطان کے حقیقتا دو سینگ ہیں اور سورج حقیقتا سینگوں میں پھنسا ہوا ہوتا ہے۔3۔ بڑی چیزیں چھوٹی چیزوں میں نہیں سما سکتی۔ 4۔ چونکہ زمین گول ہے اور سورج ہر لمحہ زمین کے کسی نہ کسی حصے میں طلوع ہوتا رہتا ہے اسلئے مسلمانوں کو نماز بالکل ترک کردینی چاہئے گویا یہ نماز ملا کے مبلغ علم پر بھینٹ چڑھ گئی ہے _
٭حدیث کا پس منظر٭
بات صرف اتنی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج کے طلوع ہوتے وقت عبادت کرنے سے منع فرمایا ہے اس لئے کہ سورج کے پجاری اس وقت سورج کی پوجا کرتے ہیں اور شیطان طلوع شمس کے وقت پر عرفی طور پر سورج کے بالکل اس طرح سامنے آجاتاہے کہ گویا سورج اس کی سینگوں کے درمیان طلوع ہورہا ہے ۔متعد د سورج پرست قومیں پہلے بھی ایسی گزر چکی ہیں اور آج بھی موجود ہیں کہ انکے لوگ سورج چڑھتے وقت اور غروب ہوتے وقت باقائدہ صفیں باندھ کے عبادت کرتے ہیں اور اس کو سلام و دعا کرتے ہیں اور نظام عالم کا کرتا دھرتا اس کو سمجھتے ہیں ۔ گویا طلوع و غروب آفتاب مشرکوں اور آفتاب پرستوں کی عبادت کا وقت ہے _ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے امت کو شرک کے وہم سے بھی بچانے کی سعی فرمائی کہ تم ایسے وقت میں نماز بھی نہ پڑھو کیونکہ یہ کافروں کی عبادت کا وقت ہے (نسائی) لہٰذا اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان اوقات میں نماز پڑھنے سے ممانعت فرما دی ۔
٭سورج کا شیطان کے دو سینگوں کے درمیان طلوع ہونا٭
عرف عام میں بھی یہ کہا جاتا ہے کہ گرمی کے موسم میں سورج فلاں اور فلاں پہاڑیافلاں اور فلاں درخت یا فلاں اور فلاں مکان کے درمیان سے طلوع ہوتا ہے اور سردیوں میں فلاں اور فلاں کے درمیان سے طلوع کرتا ہے اس سے کوئی عقلمند یہ نہیں سمجھتا کہ سورج پہاڑوں اور درختوں ٹیلوں اور مکانوں میں الجھ کر رہ جاتا ہے اور نہ اس سے عوام ان منکرین حدیث کی طرح اسے پھنسا ہوا سمجھتے ہیں ۔ بول چال اور گفتگو کا یہ طریقہ صحیح اور رائج سمجھا جاتا ہے اور کوئی مصنف مزاج اس قسم کا کلام کرنے والوں کے مبلغ علم کا رونا نہیں روتا لیکن ان منکرین حدیث کو حدیث اور ملا پر طنز کا بہانہ چاہیے۔
‘بین قرنی الشیطان’ (سورج شیطان کے دو سینگوں کے درمیان) سے شیطان کے سر کے دو کنارے مراد ہیں ۔ قرن کے معنی سینگ کے بھی آتے ہیں قرن سے سر کے دو کناروں کے بھی ، قرن کے لفظ کاسر پر بھی اطلاق ہوتا ہے۔ لغت کی کتابوں میں اس کی تصریح کیلئے دیکھئے ( تاج العروس صفحہ 21) ۔ شراح حدیث نے بھی اسکی تصریح کی ہے کہ شیطان کے دو سینگوں سے اسکی سر کی دونوں جانب مراد ہے(نووی شرح مسلم جلد 1 صفحہ 275) اور اگر بالفرض شیطان کے حقیقتا دو سینگ ہوں تب بھی گزر چکا ہے کہ عرفی طور پر یہ کہنا بالکل صحیح اور بجا ہے کہ سورج اس کے دو سینگوں کے درمیان سے طلوع ہوتا ہے۔
ہاں البتہ ‘سورج شیطان کے دو سینگوں میں پھنسا ہوا ہوتا ہے’ یہ مفہوم خالص معترضین/ منکرین حدیث کی ایجاد ہے ۔حدیث میں اس کا کہیں نشان موجود نہیں ہےاور اسی مفروضہ پر انکا سارا اعتراض بھی مبنی تھا جسکی وجہ سے بلا سبب وہ ادہام و خیالات کی وادیوں میں شیطان کی طول وعرض کی پیمائش کرنے لگ گئے۔
ؔکچھ حال عجب ہے دل آئینہ ساز کا
٭بڑی چیز کا چھوٹی میں سمانا٭
جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ حدیث کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ سورج شیطان کے دو سینگوں میں پھنسا ہوا طلوع کرتا ہے یہ معترض کی اپنی گھڑی ہوئی بات تھی حدیث کا بیان صرف اتنا ہے کہ عرفی طور پر دو سینگوں کے درمیان سے طلوع ہوتا ہے اور یہ نظریہ قابل اعتراض نہیں ہے ۔ جہاں تک یہ بات کہ مطلقا بڑی چیز چھوٹی چیز میں نہیں سما سکتی گو مثالی طور پر ہی ہو ‘یقینا باطل ہے ، یہی سورج جو زمین سے بارہ لاکھ اسی ہزار گنا بڑا ہے اور جسکا محیط بتیس ارب پچاس کروڑ میل ہے ہماری ایک چھوٹی سی آنکھ میں کیسے سما جاتا ہے ۔؟
قرآن کریم میں اللہ تعالی نے ذوالقرنین کا واقعہ نقل کیا ہے اور اس میں اس کا ذکر بھی فرمایا ہے کہ
حتی اذا بلغ مغرب الشمس وجدھا تغرب فی عین حمئة ووجد عندھا قوما ۔ ترجمہ :” یہاں تک کہ وہ سورج ڈوبنے کی جگہ پہنچ گیا اور اسے ایک دلدل کے چشمے میں غروب ہوتا پایا”(سورہ الکہف ۔آیت 86)
ہمارا سوال یہ ہے کہ جس سورج کا محیط بتیس ارب پچاس کروڑ میل ہے جو زمین سے بارہ لاکھ اسی ہزار گنا بڑا ہے وہ زمین کے مغربی کونے کے ایک چشمہ میں ذوالقرنین کو کیسے ڈویتا ہوا نظر آیا ؟ اور اتنا بڑا سورج ایک چھوٹے سے (گو وہ فی نفسہ بحر بیکراں اور سمندر نا پیدا کنار ہی سہی مگر سورج کے مقابلے میں تو وہ بے مقدار ہی ہے ) چشمے میں کیسے سما گیا ؟
معترض صاحب کو مناسب تھا کہ وہ ملا کے مبلغ علم کا ماتم کرنے سے پہلے ٹھنڈے دل سے اس حقیقت کو سوچ لیتے اور اس کے بعد قلم کو جنبش دیتے مگر ان کی بلا سے وہ تو میدان ادہام اور ظنون میں بےسروپا باتیں کرنے اور خیالی گھوڑے دوڑاے کے عادی ہیں نہ دماغ پر کنٹرول ہے نہ قلم میں قابو ہے۔
شوریدگی کے ہاتھ سے سر ہے وبال دوش
صحرا میں اے خدا کوئی دیوار بھی نہیں
جب اس مشاہدہ کی چیز اور مادی دنیا کے حوادثات کے متعلق قرآن کا یہ بیان ہو اور بغیر تشریح کے اس کا صحیح مطلب سمجھا نہ جاسکتا ہو، تو پھر جو حدیث روحانیات سے تعلق رکھتی ہو، جس کا مشاہدہ اور مادیت سے کوئی تعلق نہ ہو، اس کو بغیر تشریح اس طرح ظاہر ترجمہ سے کس طرح سمجھا جاسکتا ہے؟انصاف کیجئے۔
معترض نے حدیث کا اپنا ایک مفہوم گھڑنے کے بعد مزید رنگ آمیز ی کے لیے لکھا کہ ” سورج ہر وقت شیطان کی سینگوں میں پھنسا رہتا ہے چونکہ ایسی حالت میں نماز ناجائز ہے اس لئے مسلمانوں کو نماز بالکل ترک کردینی چاہئے” یہ اعتراض بھی بلاوجہ ہے۔ جہاں تک نماز کی بات ہے معترض بھی جانتے ہیں کہ ہر جگہ اور زمین کے ہر حصے کے مسلمانوں کیلئے ان کے افق اور ان کے مشرق و مغرب کا اعتبار ہوتا ہے۔ کلکتہ والوں کیلئے ان کے طلوع آفتاب کا لحاظ ہوگا اور لاہور / کابل والوں کیلئے ان کے طلوع اور غروب کا ۔ کلکتہ والے اس وقت نماز نہیں پڑھتے جب کہ ان کے افق پر سورج طلوع یا غروب ہوتا ہو اور کابل والے اپنے طلوع و غروب کے وقت ۔ معترض صاحب یہ فرمائیں کہ جب یہ ثابت ہوچکا ہے کہ زمین گول ہے اور زمین کے کسی نہ کسی حصے پر سورج ہر وقت طلوع ہوتا رہتا ہے کیا مسلمانوں کو رمضان شریف میں منکرین حدیث کی خود ساختہ منطق کے رو سے کھانا پینا بھی بالکل تک کردینا چاہئے کہ نہ رات کو کھائیں نہ دن کو۔؟