ایک منکر حدیث صاحب احادیث پیش کرتے ہیں :
1-جب حضور(ص) دوران حیض ہم سے اختلاط کرنا چاہتے تو ازار باندھنے کا حکم دیتے اور مباشرت کرتے”۔ فرمان حضرت عائشہ(ر)۔کتاب الحیض، بخاری۔ صفحہ 198۔
2-حضور(ص) روزے میں ہمارے بوسے لیتے اور مباشرت کرتے۔” حضرت عائشہ (ر)۔ بخاری۔ کتاب الصوم۔ جلد اوّل۔ صفحہ 691
پھر فرماتے ہیں کہ یاد رہے اللہ پاک قرآن میں حیض والیوں کے پاس جانے سے منع فرماتے ہیں ۔ (اسلام کے مجرم صفحہ 46)
ایک اور سابقہ منکرحدیث ڈاکٹر غلام جیلانی برق”آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویر حدیث میں” کی سرخی جماتے ہوئے لکھتے ہیں :
قرآن شریف میں مذکور ہے:{ وَ یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْمَحِیْضِ قُلْ ھُوَ اَذًی فَاعْتَزِلُوا النِّسَآءَفِی الْمَحِیْضِ وَلَا تَقْرَبُوْھُنَّ حَتّٰی یَطْھُرْنَ فَاِذَا تَطَھَّرْنَ فَاْتُوْھُنَّ مِنْ حَیْثُ اَمَرَکُمُ اللہُ (البقرۃ:۲۲۲)
لوگ آپ سے حیض کے متعلق پوچھتے ہیں کہہ دیجئے کہ حیض ایک قسم کی غلاظت ہے، اس لیے دوران حیض میں بیویوں سے دور رہیے اور جب تک وہ پاک نہ ہو جائیں ان کے قریب مت جائیے اور پاک ہونے کے بعد ان سے مباشرت کیجئے۔(آیت مذکور میں ” اذی” وارد ہوا ہے، برق صاحب نے اس کا ترجمہ غلاظت کیا ہے، حالانکہ یہ لفظ اذیت سے بنا ہے، یعنی حیض ایک قسم کی تکلیف ہے اور اس تکلیف کی حالت میں قربت مناسب نہیں ہے۔ایڈمن)
اسکے بعد لکھتے ہیں اس آیت میں دو حکم دئیے گئے ہیں، اول حیض کی حالت میں عورتوں سے دور رہیے، دوم ان کے قریب مت جائیے ، ذرا دیکھیں کہ حدیث نے اس قریب دور کی کیا تشریح کی ہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حیض کی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے تہ پوش پہننے کا حکم دیتے اور اس کے بعد مجھ سے مباشرت کرتے تھے۔…… یہ ہے قریب و دور کی تشریح حدیث میں۔ (دو اسلام ص ۲۰۷۔ ۲۰۸)
*تبصرہ *
منکرین حدیث اس حد یث میں موجود لفظ مباشرت کا رائج اردو مطلب یعنی جماع لیتے ہیں یہ معلوم ہوتے ہوئے بھی کہ اسلامی شریعت میں پہلے دن سے مباشرت کے یہ معنی نہیں لیےگئے۔ اگر یہی معنی ہوتے یا لیے جاتے تو اسلام میں حیض و روزے کی حالت میں جماع جائز ٹھہرتا ۔ جبکہ ایسا نہیں ہے فتاوی و مسائل کی ہزاروں کتابیں گواہ ہیں کہ آج تک کسی بھی عالم نے حیض اور روزے کے دوران مباشرت کو جائز نہیں لکھا۔ حقیقت یہ ہے کہ عربی میں مباشرت مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اس کے معنی بالمشافہہ، بلاواسطہ ، رد برد کے بھی ہوتے ہیں مثلاً علامہ احمد محمد شاکر لکھتے ہیں:ویحتمل کما قال ابن الترکمانی ان یکون سمع ھذا الحدیث من عمر مباشرۃ وسمعہ عنہ بالواسطۃ۔یعنی احتمال ہے، جیسا کہ ابن ترکمانی نے کہا ہے کہ راوی نے اس حدیث کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ”مباشرۃ” (بلاواسطہ بالمشافہہ) بھی سنا ہو اور بالواسطہ بھی سنا ہو۔
*حدیث میں لفظ مباشرت سے مراد*
عربی زبان میں اس کے اصلی معنی بدن سے بدن ملانے ہی کے ہیں اور اس کے سوا کچھ نہیں ہے۔ چنانچہ مشہور عربی لغت قاموس کی شرح تاج العروس میں لکھا ہے “جب بیوی اور خاوند دونوں ایک ہی لباس میں اکھٹے ہوجائیں اور خاوند کا جسم عورت کے جسم سے چھو جائے تو اسکو مباشرت کہتے ہیں (تاج العروس جلد 3 صفحہ 42)
اسی لیے صاحب عون المعبود (شرح سنن ابی داؤد ) ذکر فرماتے ہیں کہ :معنی المباشرۃ ھھنا المر بالید من التقاء البشرتین۔ترجمہ :یعنی یہاں مباشرت سے صرف ہاتھ سے چھونا، اور دو جسموں کا ملنا مراد ہے۔ (خالص اسلام ص۲۳۹)
اس اقتباس سے یہ بات بالکل عیاں ہے کہ مباشرت کی حقیقت جماع نہیں ہے یہ تو اس سے کنایہ ہے اور مجازا استعمال ہوتا ہے ۔اصل معنی مباشرت کا بدن کا بدن سے چھونا ہے خواہ جس حصے سے ہو۔
*حیض کی حالت میں مباشرت وجماع کی حدود*
حیض اورنفاس کی حالت میں بیوی سے جماع کے ساتھ مباشرت کی جائے ، یہ قسم تو قرآنی نص اورمسلمانوں کے اجماع کے مطابق حرام ہے ۔ناف سے اوپر اورگھٹنے سے نيچے مباشرت کرنا یعنی بوس وکنار ، اورمعانقہ وغیرہ ، اس کے حلال ہونے پر سب علماء کرام کا اتفاق ہے ۔دیکھیے شرح مسلم للنووی ۔ اورالمغنی ابن قدامہ ( 1 / 414 ) ۔
انس رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب یھودیوں میں سے کوئي عورت حالت حیض میں ہوتی تو وہ اس کے ساتھ کھاتے پیتے بھی نہیں تھے اورنہ ہی انہيں اپنے گھروں میں رکھتے تھے توصحابہ کرام نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارہ میں سوال کیا تو اللہ تعالی نے یہ آيت نازل فرمائی :{ آپ سے حيض کے بارہ میں سوال کرتے ہیں ، کہہ دیجیے کہ وہ گندگی ہے ، حالت حیض میں عورتوں سے الگ رہو ۔۔۔ آیت کے آخر تک } ۔تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جماع کے علاوہ باقی سب کچھ کرو ۔جب یہودیوں کواس کا پتہ چلا تووہ کہنے لگے اس شخص کوہمارے ہر کام میں مخالفت ہی کرنی ہوتی ہے ۔ صحیح مسلم حدیث نمبر ( 302 ) ۔
اسی لیے علماء نے لکھا ہے کہ :حیض کی حالت میں خاوند پر اپنی بیوی سے جماع حرام ہے ، لیکن اسے یہ حق ہے کہ جماع کے علاوہ وہ مباشرت کرسکتا ہے ۔ دیکھیں فتاوی اللجنۃ الدائمۃ ( 5 / 359 ) ۔
بہتر یہ ہے کہ اگر وہ بیوی سے حیض کی حالت میں استمتاع کرنا چاہے تواسے کہے کہ وہ ناف سے لیکر گھٹنوں تک کوئي چيز پہن لے پھراس کے علاوہ حصہ میں مباشرت کرلے ۔معترض نے جو پہلی حدیث پیش کی ہے یہ دلیل اسی حدیث سے پکڑی گئی ہے؛ جب حضور(ص) دوران حیض ہم سے اختلاط کرنا چاہتے تو ازار باندھنے کا حکم دیتے اور مباشرت کرتے”۔ فرمان حضرت عائشہ(ر)۔کتاب الحیض، بخاری۔ صفحہ 198۔
اسی طرح روزے کی حالت میں اپنی بیوی کے پاس اٹھنا، بیٹھنا اور خواہشات پر قابو رکھنے والے کے لیے پیار کرنا بالکل جائز ہے، اس سے نہ روزہ ٹوٹتا ہے، نہ روزہ میں کوئی خرابی آتی ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے روزہ کی حالت میں اپنی بیوی کو پیار کیا، پھر میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا، تو آپ نے فرمایا:
ارأیت لو تمخمضت بما، وانت صائم قلت لا باس بذلک فقال ففیم۔ ترجمہ :یہ بتاؤ، اگر تم روزے میں پانی سے کلی کرتے تو کیا ہوتا، میں نے کہا اس میں تو کوئی حرج نہیں آپ نے فرمایا پھر اس میں کیا حرج ہے۔ (ابوداؤد کتاب الصیام)
مطلب یہ کہ معنی میں پانی لینا اگرچہ پانی پینے کا پیش خیمہ ہے، لیکن چونکہ اس سے پانی پینے کی نیت نہیں ہوتی، لہٰذا روزہ میں کوئی خرابی واقع نہیں ہوتی بالکل اسی طرح پیار کرنا جماع کا پیش خیمہ ہے۔ لیکن جب پیار کرنے سے جماع و شہوت کی نیت نہیں ہوتی، تو ایسا پیار بھی روزہ میں کوئی نقص پیدا نہیں کرتا۔
یہاں یہ یاد رہے کہ حدیث میں اجازت اس کے لیے ہے جو اپنے آپ پر کنٹرول اورقابو رکھ سکتا ہو جو شخص اپنی خواہش قابو میں نہ رکھ سکتا ہو، اس کے لیے بحالت روزہ مباشرت منع ہے ، اسی لئے عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ: “نبی صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں بوس و کنار اور مباشرت کیا کرتے تھے؛ [کیونکہ] آپ اپنے نفس پر سب سے زیادہ ضبط رکھتے تھے”( صحیح بخاری: (1826) اور مسلم: (1106))
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:”حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ بوس و کنار ایسے شخص کیلئے جائز ہے جو اپنے آپ پر مکمل ضبط رکھتا ہو، اور جسے حرام کام میں واقع ہونے کا خدشہ ہو تو اس کیلئے بوس و کنار جائز نہیں ہے” (فتح الباری)یہی معاملہ حائضہ عورت کے ساتھ مباشرت کا بھی ہے۔
٭اسلام دین فطرت٭
یہود ایام حیض میں عورت سے بالکل قطع تعلق کرلیا تھے۔ ایک ساتھ اٹھنا بیٹھنا تو کجا اس کے ساتھ کھانا پینا بھی بند کردیا جاتا۔ بلکہ اس کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا بھی ناپاک خیال کیا جاتا تھا اور مشرکین عرب کا رویہ بھی تقریبا ایسا ہی تھا۔ لیکن نصاریٰ ان دنوں میں کسی قسم کا پرہیز نہیں کیا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ ہم بستری سے بھی باز نہ آتے۔ اسلام دین اعتدال ہے اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن و حدیث میں ان دنوں میں صرف اس بات سے منع کیا گیا جو مرد و عورت دونوں کے لیے نقصان دہ ہیں ، عورت کو ناپاکی کی وجہ سے دھتکارنے کے بجائے عزت دی ۔ چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ سے مروی ہے فرماتی ہیں کہ میں اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دونوں ناپاکی کی حالت میں ایک برتن سے کھالیتے تھے اور بعض اوقات میں ناپاک ہوتی تو حضرت مجھے تہبند باندھ لینے کے لیے فرمایا اور جب میں باندھ لیتی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے پاس لیٹ جاتے تھے اور اعتکاف کی حالت میں ( مسجد سے) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باہر سر نکال دیتے تو میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا سر دھو دیتی تھی۔ (متفق علیہ )اور فرماتی ہیں کہ میں پانی پی کر پیالہ حضرت کو دیدیتی تھی تو آپ اس میں میرے منہ کی جگہ منہ لگا کر پانی پی لیتے تھے۔ اسی طرح میں ایک ہڈی کو چوس کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیدیتی تھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے منہ کی جگہ منہ لگا کر اسے چوس لیتے تھے۔ (مسلم) اور فرماتی ہیں کہ میری ناپاکی کی حالت میں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میری گود میں سر رکھ لیتے اور پھر قرآن شریف پڑھتے رہتے تھے۔ (متفق علیہ ) اور فرماتی ہیں کہ ایک روز حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسجد میں مجھ سے فرمایا : بوریا اٹھا دو ۔ میں نے کہا : ناپاک ہوں۔ فرمایا : تمہارے ہاتھ میں ناپاکی نہیں ہے۔ (مسلم )۔
*خلاصہ *
مباشرت کا حقیقی معنی بدن کا بدن سے ملنا ہے اور کنایہ کے طور پر اس سے جماع بھی مراد لیا جاسکتا ہے ۔ پوری اسلامی تاریخ میں اس حدیث میں مباشرت کے لفظ سے جماع مراد نہیں لیا گیا لیکن منکرین حدیث کو اس سے کوئی سروکار نہیں۔ انہیں حدیث کا رد کرنا ہے چاہے اسکے لیے انہیں حدیث میں اپنی طرف سے الفاظ ڈالنے اور حذف کرنے پڑیں یا کہیں معنی اور مراد کو ہی بدل دینا پڑے۔