اعتراض :
”حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین چیزیں منحوس ہیں گھوڑا، عورت اور مکان” … اس ارشاد کا مقصد تو یہی ہوسکتا ہے کہ لوگ ان منحوس چیزوں سے بچیں، لیکن لوگ کیسے بچ سکتے ہیں، جب خود حضور نے ایک گھوڑا، گیارہ بیویاں اور نومکانات اپنے قبضے میں رکھے تھے، اگر کوئی ہم سے پوچھ بیٹھے، کہ کیا یہ قول اسی رسول کا ہے… جس نے فرمایا تھا کہ ”نکاح میری سنت ہے” … تو ہم کیا جواب دیں گے۔۔۔”کیا جن عورتوں نے لاکھوں انبیاء و اولیاء پیدا کیے جن کی گود میں لقمان و افلاطون کھیلے… وہ منحوس ہیں، اور ہم مسعود؟” (دو اسلام ص: ۳۱۴)
تبصرہ:
عیسائی مشنریز اور ملحدین بھی یہ ثابت کرنے کے لئے کہ اسلام عورت کو حقیر سمجھتا ہے اور اسے منحوس یا اس کے مترادف کوئی شے گردانتا ہے، مخصوص روایات کا حوالہ دیتے ہیں ۔ترجمہ :حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی ؐ نے ارشاد فرمایا نحوست عورت ،گھر اور گھوڑے میں ہے (بخاری حدیث ۴۷۰۳)
ایسی ہی (روایت )چند دیگر صحابہ سے بھی مروی ہے جن میں حدیث سیدنا ابو ہریرہ ۷۷۱۰معجم اوسط طبرانی بھی شامل ہے۔
*ان روایات کی حقیقت*
منکرین حدیث ذخیرہ حدیث میں سے کسی مجمل حدیث کو اٹھاتے ہیں پھر عوام کےحدیث کے خلاف جذبات کو بھڑکانے کے لیے اپنی مرضی کے نتائج نکالنا شروع کردیتے ہیں ۔اس اعتراض میں بھی معترض نے اک مخصوص روایت کی بنیاد پر مبالغہ آرائی و رنگینی سے کام لیا ۔ حقیقت یہ ہے کہ ان برگزیدہ اصحاب نے آپؐ کے ارشادکا ایک حصہ سنا تھا انکی یہ غلط فہمی بعد میں باقی صحابہ کے ذریعے دور ہوگئی اسکا تذکرہ بھی حدیث میں موجود ہے۔ جس طرح ایک آیت کی تشریح دوسری آیت کر دیتی ہے، یہی حال حدیث کا ہے، ایک حدیث کی تشریح دوسری جگہ موجود ہوتی ہے، اگر کہیں مجمل حدیث ہو، تو غلط فہمی کا امکان تو ضرور ہے لیکن اس کا ازالہ دوسری احادیث سے ہوسکتا ہے جو آگے پیچھے موجود ہوتی ہیں، مگر اس کے لیے تحقیق کی ضرورت ہوتی ہے،
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی اس طرح کی روایت کے متعلق حدیث میں ہی ذکر ہے۔
حضرت عائشہؓ سے کے سامنے کہا گیا کہ حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے، آپؐ نے ارشاد فرمایا:نحوست تین چیزوں میں ہے ،حضرت عائشہؓ نے فرمایا ابوہریرہ کے آنے سے قبل آپؐ نے ارشاد فرمایا تھا : اللہ یہودیوں کو ان کے اس قول پر غارت کرے کہ نحوست تین چیزوں میں ہے عورت ،گھر اور گھوڑا ۔ اس طرح انھوں نے آپؐ کے ارشاد کا آخری حصہ سنا اور پہلا نہ سنا۔(مسند طیالسی حدیث۱۶۳۰۔البانی اس کو سلسلہ صحیحہ میں حسن کے درجہ میں رکھتے ہیں ۶۷ّ/۳)
یہی آخری حصہ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے بھی ایک روایت مروی ہے جو معترض نے بھی پیش کی ۔ لیکن دوسری جگہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ کی زبان سے ہی اسکی تصحیح و تشریح بھی موجود ہے ۔، عبداللہ بن عمر رضی اللہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ان کان الشؤم فی شئی ففی الدار والمرأۃ والفراس ۔ ترجمہ :”نحوست اگر کسی چیز میں ہوتی تو ان تین چیزوں میں بھی ہوتی، گھر، عورت، گھوڑا۔”(صحیح بخاری)
اسی طرح سہیل بن سعد ساعدی سے روایت کرتے ہیں، کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اگر نحوست کسی چیز میں ہوتی، تو عورت میں ہوتی، مکان میں ہوتی اور گھوڑے میں ہوتی۔( صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 132 ).
اس حدیث سے یہ واضح ہے کہ آپؐ نے عورت کو منحوس قرار نہیں دیا تھا بلکہ آپؐ نے تو یہودیوں کے اس خیال پر تنقید کی اور اسے غلط کہا ۔ یہ چند صحابہ تھے جنہوں نے آپؐ کے ارشاد کا ایک حصہ سنا جس سے صحابہ کے دور میں ہی اشکالات پیدا ہوئے اور ام المومنین سیدنا عائشہؓ نے انہیں دور کر دیا ۔ درحقیقت اسلام زیر بحث مسئلے کے حوالے سے اور خصوصاً عورت کے متعلق یہ رائے بیان کرتا ہے۔مخمر بن معاویہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا : ” نحوست کوئی چیز نہیں، تین چیزوں میں برکت ہوتی ہے : عورت، گھوڑا اور گھر میں “۔ (سنن ابن ماجہ حدیث ۱۹۹۳،البانی اس کو حسن قرار دیتے ہیں )۔