فتنہ انکارِحدیث جو آج کے دور میں گویا سر چڑھ کر بول رہا ہے، اور ہرخاص و عام کو اپنی طرف متوجہ کر رہا ہے، گو امت میں یہ نئی چیز بالکل نہیں، اور ہم علمی توارث میں جگہ جگہ اس کا ظہور دیکھتے ہیں، مگر جس شدت کے ساتھ یہ گذشتہ صدی سے امت میں در آیا ہے، اور جس طرح اس نے امت کے مسلمات کو گڑبڑانا شروع کیا ہے، یہ البتہ ایک ایسی شے ہے کہ جو نئی بھی ہے اور پریشان کن بھی.سلف کے زمانے میں انکارِ حدیث ہوا. کچھ اس وقت کے عوام میں دینی حمیت، کچھ عصرِنبوی کی قربت، کہ خیرالقرون کا قرب حقیقتاً فتن سے بچنے کا ایک نہایت عمدہ ذریعہ ہے، مسلم ریاست کا مذہب کے معاملے میں تنبیہی اور نہی عن المنکر کو اپنی ذمہ داری سمجھنے کا رویہ، اور سب سے بڑھ کر علمائے متقدمین کے علمی مجاہدات کا نور اور ان کا علمی رسوخ و تصلب، یہ وہ فیکٹرز ہیں کہ جنہوں نے اس فتنے کو دبائے ہی رکھا. کہیں پر سر اٹھایا بھی، تو ہر رخ اور ہر لائن سے اتنا زور پڑا کہ ریت میں دوبارہ سرچھپانا ہی مجبوری ٹھہری، مگر یہ زمانہ جبکہ ریاست کا سایہ اسلام کے سر سے اٹھ چکا ہے اور بہت سے وہ مسائل، اور بہت سی وہ بلائیں کہ جن کا راستہ ریاست کی قوت نے روکے رکھا تھا، آزاد ہوگئیں، آزاد ہی نہیں بلکہ درپے آزار ہوگئیں.کچھ فتنے تو ایسے ابھرے، گویا ان کی تمتماہٹ اور شان وشوکت دیکھ کر لگتا ہے کہ اسلام کی بنیادیں ہی ان سے ہل جائیں گی، ایسے عوامی فتنے کہ جنہوں نے گونگوں کو زبان دی، اندھوں بہروں کو جگایا، انھی میں سے ایک فتنہ جدید انکارِ حدیث ہے. انکارِ حدیث کا فتنہ اصل میں حدیث کو حجت نہ ماننے کا فتنہ ہے، یعنی حدیث کو مصدرِ فہم دین نہ ماننا اور دین کے احکام لینے کے لیے حدیث کو ذریعہ نہ بنانا ہے.
منکرینِ حدیث کو ہم دو کیٹگریز میں تقسیم کریں گے. ایک وہ جو صاف اور صریح الفاظ میں حدیث کی اس حیثیت کا انکار کرتے ہیں، جیسے عبداللہ چکڑالوی اور غلام احمد پرویز وغیرہ، جبکہ دوسری قسم کے اندر وہ لوگ آتے ہیں، جو صریح الفاظ میں انکار تو نہیں کرتے. کہیں پر اسے دعوت الی القرآن کے الفاظ کا لبادہ اور سہارا ملا ہے، تو کہیں پر یہ ننگ دھڑنگ الحاد کی گود میں بیٹھ کر اپنا تعفن حدیث و سنت کے صافی چشموں میں انڈیل رہے ہیں. چونکہ چنانچہ، اگر، مگر اور تاویلاتِ باطلہ سے کام لیتے ہیں، اور اس کے لیے چودہ صدیوں سے آنے والے اصول علم حدیث اور اصول فقہ کا لحاظ نہ رکھتے ہوئے اپنی من مانی کرتے ہیں. ہر میدان میں اپنی عقل کے گھوڑے دوڑاتے ہیں، جو خواہش کے مطابق ہوتا ہے، اس کو لیتے ہیں، جو مخالف ہو، اسے بےتکلف پھینک دیتے ہیں. یا تو محض عقل کے پجاری ہیں، پھر سلف کے اصول و ضوابط کو چھوڑ کر اپنے نئے اصول و ضوابط وضع کر لیے ہیں. تاویل کا لبادہ اوڑھ کر اپنے مکر کو چھپا رہے ہیں، اور امت میں حدیث کی حیثیت کوگرد آلود کر رہے ہیں. چاہے علمی اعتبار سے ان کو منکرین حدیث کا نام دینے میں اشکال ہو، مگر واقعاتی دنیا میں یہ پہلے گروہ سے بڑھ کر نقصان دہ ہیں۔ کیونکہ جب ان کو متنبہ اور خبردار کیا جاتا ہے، تو یہ فورا سے پیشتر کہہ اٹھتے ہیں کہ جی ہم تو حدیث کو مانتے ہیں، دیکھیں ہم نے فلاں فلاں جگہ پر اپنی کتاب میں اتنی اتنی احادیث ذکر کی ہیں، جن احادیث کا تعلق اخلاق اور انسانی ذمہ داریوں سے ہے، وہاں پر یہ حدیث کو تائید کے طور پر عام طور پر لاتے ہیں، کیونکہ یہ ان کے مطلب کی چیز ہے۔یہی جماعت اس وقت ہمارا موضوع ِ گفتگو ہے۔ اس قسم کے سربراہ جناب سرسید احمد خان صاحب تھے، ان کے بعد حافظ اسلم جیراج پوری، تمنا عمادی، نیاز فتح پوری آتے ہیں. زمانۂ جدید میں علامہ جاوید احمد غامدی صاحب اور ان کے تلامذہ اس ”مقدس“ مشن کو بہ اصرار جاری رکھے ہوئے ہیں. ہمارا موضوع خاص کر اسی گروہ کے گرد گھومتا ہے. یہاں پر ہم ان خدشات و اسباب پر بات کریں گے، جو اس فتنے سے متعلق ہیں .
ہندوستان کے ماحول میں ہمیں سب سے پہلے جناب سرسید احمد خان اس صف میں کھڑے نظر آتے ہیں. اگر چند الفاظ میں سرسید کی انکارِ حدیث کی وجوہات بیان کی جائیں، تو عقل کا غلط استعمال، اصل حدیث و فقہ سے پوری طرح عدم واقفیت، مصالح قوم کا غلبہ، استشراق سے بےجا متاثر ہونا اور سائنسی تجزیہ کار کا عام ہونا، یہ چیزیں ہر صاحب نظر کو سر سید کے اندر پہلی نظر میں ہی نظر آجاتی ہیں.
پھر فکری اور ملکی جمیعت ٹوٹی اور مسالک کا وجود ہوا، تو یہی فتنہ اسلم جیراج پوری، تمنا عمادی وغیرہ کی شکلوں میں پھوٹا. ان کی اس فکر کے پیچھے دعوت الی القران کے علاوہ احادیث کے بارے میں پھیلائے جانے والے شکوک، جیسا کہ ڈیڑھ، دو صدیوں کے بعد احادیث کا مدون ہونا، راویان میں تشیع کا غلبہ.، جیسی باتیں بنیاد بنیں.
تیسرا مرحلہ ہمارا موجودہ مرحلہ ہے، جس کے اندر ہمارے ممدوح جناب جاوید احمد غامدی صاحب سرفہرست نظر آتے ہیں. یہاں پر احادیث کا خلافِ قرآن ہونا، خلافِ عقل عامہ ہونا، اور سب سے بڑھ کر خود غامدی صاحب کے خود ساختہ اصولوں کے خلاف ہونا ہے۔ یہ ہمارا موجودہ مسئلہ ہے اور سر پر کھڑا دستک دے رہا ہے، کیونکہ فکرغامدی میں ہر عصری خواہش کو پورا کرنے کا تمام مواد موجود ہے۔ خواہش سے سب سے زیادہ ٹکرانے والی چیز سنت ہے اور محترم غامدی صاحب کی سب سے زیادہ تیشہ زنی سنت کو ہی صفِ سنت سے نکالنے پر ہے. یہاں تک کہ اب ایک مسلمان اور کافر کے درمیان تمیز اتنی مشکل ہوگئی ہے کہ الامان والحفیظ..جب لباس مسئلہ رہے نہ صورت و شکل، اور نہ معاملات میں کسی حرام بلکہ اشد الحرام سود سے بچنا کوئی مسئلہ رہے، جب دین میں ریاست اپنی اصل شکل میں کسی کو خلاف شرع کام کرنے پر نہ ٹوک سکے، بلکہ جب مسلمان بننے کے لیے ایمان بالرسالت ہی غیر ضروری ٹھہرے، مطلب آپ یہودی، عیسائی رہ کر بھی (ایک خاص ماحول کے اندر) حقدار ِ جنت بنتے ہیں، تو پھر کہاں رہا اسلام، اور کہاں رہی شوکتِ اسلام. یہ وہ خدشات ہیں، جو خدشات نہیں، واقعہ کی دنیا میں سورج کی طرح واضح روپ دھارے دِکھ رہے ہیں.
سوال یہ نہیں کہ المورد والے مخلص نہیں، ان کے اخلاص پر شک کی کوئی ضرورت نہیں، ان کے رجوع الی القرآن کی دعوت بہت عمدہ، دین کو قابلِ فہم اور معقولی بنانے کی کوشش، کوئی شک نہیں کہ یہ ان کے مقاصد ہوسکتے ہیں. قرآن کو ہی دین کی بنیاد بنانے اور فہمِ دین کا مصدر بنانے کا نعرہ بھی بہت خوبصورت ہے. افسوس کی بات مگر یہ ہے کہ ان حضرات کی کوششوں سے جیسا دین کا حلیہ بگڑا، اور حدیث کی تشریعی حیثیت متاثر ہونے سے دین کی بنیادیں جیسے کمزور پڑ رہی ہیں، اور وہ ایک دین کی جو چاردیواری چودہ صدیوں سے بن گئی تھی کہ جس کو دور سے ہی دیکھ کر پتہ چلتا تھا کہ یہ اسلام ہے، اس کی اپنی ایک پہچان، ایک خاص ٹرمنالوجی اورا یک خاص آئیڈیالوجی ہے، ان حضرات کی کوششوں سے یہ سارا کچھ ریت کےگھروندوں کی طرح منہدم ہوتا اور ہاتھ سے پھسلتا ہوا محسوس ہو رہا ہے. ۔ نفسانیت اور خواہش، جو براہ راست سنت سے ٹکراتے ہیں، سنت کو درمیان سے ہٹا کر اسلام کی ایک ایسی من چاہی شکل بنا دی گئی ہے اور بنائی جا رہی ہے کہ جہاں آپ کچھ بھی کرکے، کچھ بھی بول کر، کچھ بھی بن کر مسلمان ہی رہتے ہیں. وہ سیکولرازم اور لبرل ازم، جن کی جڑوں میں خدابیزاری اور دین بیزاری ہے، جن کی جڑوں میں ہیومنزم کا تازہ انسانی خدا، جن کی باہوں میں نیشن سٹیٹ کے برچھے ہیں، یہ ساری اتنی آسانی سے اور اتنی ہوشیاری سے دین میں داخل کی جا رہی اور نفوذ کرتی جا رہی ہیں، کہ اچھے بھلے انسان کو بھی جب بتایا جاتا ہے کہ آپ جانتے بھی ہیں کہ یہ کیا چیز ہے؟ اسلام کی درست تعلیمات کے مطابق تو یہ شرک کی کسی قسم سے ہی تعلق رکھتے ہیں، تو وہ چونک اٹھتا ہے ایک دم. وہ آپ کا منہ نوچنے کے لیے تیار ہوگا کہ نہیں جی، یہ تو عین اسلام ہے.
جب آپ چودہ صدیوں کی ساری اصطلاحات پر پانی پھیر دیں گے اور خود ایک مغلوب،احساسِ کمتری میں مبتلا تہذیب، ایک مری ہوئی قوم کے مالک اور حامل ہوں گے اور آپ کا دین کسی مائع کی مثل ایک ایسی سیال شے ہے، کہ اسے جس برتن میں ڈالا جائے، یہ اس کی شکل ہی، اس کی ہیئت ہی اختیار کرلے، تب غالب تہذیبیں اور غالب اقوام آپ کے وجودِفکری اور تشخصِِ دینی کا وہ جنازہ نکالیں گی، کہ صدیوں نہیں، شاید چند دہائیوں بعد ہی اس تہذیب اور اس قوم کا نشان مٹ جائے گا. بس شخصی آزادی کے نام پر وہ چند رسوم، جنھیں کوئی روکنے کی ضرورت اس لیے بھی محسوس نہیں کرےگا کہ جی یہ تو ایزی فیل کرنے اور سکون حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے. اور بس. گویا جو شرارِ بولہبی ازل سے، روزِ اول سے خداپرستوں سے ستیزہ کار رہا ہے اور اپنی انتہائی چاہت، انتہائی کوشش اور جان توڑ محنتوں کے باوجود اس دین کو مٹانے اور بگاڑنے میں ناکام رہا ہے، وہ خواب، جو کبھی اس نے اپنا سارا جاہ و حشم خرچ کرکے بھی پورا ہونے کا نہیں سوچا تھا، وہ گویا کسی پکے پھل کی طرح، خود ہم نے ہی اس کی جھولی میں ڈال دیا ہے. بلا کچھ کیے، ہاتھ پاؤں ہلائے، ایک دمڑی بھی خرچ کیے بغیر، بشرطیکہ مان لیا جائے کہ ان ”مصلحین“ کے پیچھے اس طرح کی کوئی چیز نہیں. اور واقعاتی شہادتوں کو بھی محض حسنِ ظن کی بنیاد پر جھٹلایا جائے. یہ گویا ایسی خدمت ہے کہ جو آج خود مسلمانوں کے ہاتھوں انجام دی جارہی ہے۔
جاہلیت جدیدہ کی ساری شکلیں، جن کا اسلام پہلے قدم پر انکار کرکے اپنے وجود اور حیثیت کی یاددہانی کا راستہ بناتا ہے، اس کو اپنے ہی اندر سے بیساکھیاں فراہم کی جا رہی ہیں، اور سمجھا یہ جارہا ہے کہ دین کی خدمت ہو رہی ہے. یہ دیکھے بغیر کہ ان چیزوں کی، جن کی طرف آپ شدومد سے بلا رہے ہیں اور انہیں ہی اسلام کا حقیقی چہرہ بتلا رہے ہیں، کی تعمیم سے اسلام کا وہی چہرہ بنےگا، جیسا جاہلیتِ جدیدہ کے یہ معمار بنانا چاہتے ہیں.. کیا یہ حقیقت نہیں کہ یورپ سے پوری تاریخ میں بھی اسلام کو ایسا نقصان کبھی نہیں پہنچا تھا کہ اسلام ہی پہچانا نہ جاسکے. بےشک مسلمانوں کے ساتھ بہت کچھ ہوا، بہت کچھ کیا گیا، مگر اسلام محفوظ ہی رہا، کیا پتہ تھا کہ اسلام کی یہ درگت خود کو مسلمان کہلوانے والوں کے ہاتھوں بنے گی.. فیا اسفی.. سوال جو ہم قارئین سے کرنا چاہتے ہیں وہ یہ کہ کیا یہ سب کچھ اتفاقی ہے؟
تحریر : مولانا علی عمران