مستشرقین نے اہل اسلام کو اپنے دین سے متعلق شکوک شبہات میں مبتلا کرنے، تجدد و مغربیت اختیار کرنے اور عہد نوکے تقاضوں کی دہائی دے کر اسلام کو جدید مغربی نقطہ نظر سے ہم آہنگ کرنے پر مائل کرنے کی جو کوشش کیں اور ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت قرآن کریم اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں جو شک و شبہات پیدا کیے اور خیالات ِفاسدہ و افکار باطلہ کو تحقیق کی آڑ میں پیش کیا ‘ اس سے دنیائے اسلام کا ایک بڑا حصہ خصوصا جدید تعلیم یافتہ طبقہ دینی، فکری اور تہذیبی ارتداد میں مبتلا ہو ا۔ مستشرقین کی اسلام کے متعلق تحقیقات اور کوششوں کا ایک جائزہ یہاں دیکھیے۔
مسلم دنیا میں اہل اقتدار طبقہ اور امرا کے علاوہ مسلم سکالرز اور دانشوروں کی بھی بڑی تعداد ان تحقیقات سے متاثر ہوئی اور مسلمانوں میں ایسے بہت سے افراد سامنے آنے لگے جنہوں نے اپنی قوموں کو لفظ و معنی اور حقیقت وشکل ہر اعتبار سے مغربی سانچے میں ڈھلنے کی دعوت دی۔ اسلامی احکامات وتعلیمات سے بیزاری پیدا ہونے لگی یا ان کی ایسی تعبیرات پیش کی جانے لگیں جو مغربی معیارات سے زیادہ سے زیادہ مطابقت رکھتی ہوں۔یہ لوگ اسلامی عقائد واحکام میں ہر اس عقیدہ وحکم کو تاویل کی سان پر چڑھانے یا بدل ڈالنے میں مصروف ہو گئے جو اپنی اصلی شکل میں جدید مغربی یا مغرب متاثر ذہن کے لیے قابل قبول دکھائی نہ دیا۔ یوں بقول کینٹول سمتھ یہ معذرت خواہ نہ صرف اپنے بلکہ بہت سے دیگر مسلمانوں کے ایماں ویقین میں انتشار وتزلزل کا سبب بنے۔ مستشرقین کے یہ تلامذہ ‘مستغربین ‘جو کہ اب ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں اور ان مستشرقین ہی کے دماغ وعقل سے سوچتے ہیں ۔ یہ مسلمانوں کے لباس میں ملبوس ہو کر ان مستشرقین کے نظریات وخیالات اور تحریفات وخرافات پھیلاتے اور نوجوانوں کے ذہن مسموم کرتے ہیں ۔ یہ اس لحاظ سے نسبة ً زیادہ خطرناک ہیں کہ یہ مسلمانوں کے لباس میں ہوتے ہیں ، ان کی تحقیقات وتالیفات مسلمانوں کے حلقوں میں بہت جلد پہنچ جاتی ہیں اور وہ جو کچھ لکھتے ہیں ان پر اعتماد بھی کر لیا جاتا ہے ،
انکار حدیث کا موجودہ فرقہ بنیادی طور پر مستشرقین کی ہی دین ہے، چونکہ حدیث اور جدید مغربی تہذیب کو اکٹھا کرنا ممکن نہیں ہے اور بقول علامہ اسد حدیث کو نظر انداز کرکے قرآنی تعلیمات کو آسانی سے مغربی تہذیب کے سانچے میں ڈھالا جا سکتا ہے(Muhammad Asad, “Islam At the cross roads:, Lahore, Arafat publications, 1955, pp.112-130.)لہذا حدیث پر اعتراض جدید تعلیم یافتہ مسلم دانشوروں کے ہاں ایک فیشن بن گیا ہے، وہ بڑے زور و شور سے حدیث کو ناقابل اعتبار روایات پر مبنی اسلام کا غیر ضروری حصہ قرار دینے لگے اور وہ سارے اعتراضات جو مستشرقین صدیوں سے دوہراتے آرہے تھے لیکن انکو اسلام دشمنی اور نفرت کا سبب قرار دے کر نظر انداز کر لیا جاتا تھا اب مسلمانوں کے لٹریچر میں نظر آنے لگے، مفتی تقی عثمانی صاحب مدظلہ تحریر فرماتے ہیں:
”بیسویں صدی کے آغاز میں، جب مسلمانوں پر مغربی اقوام کا سیاسی نظریاتی تسلط بڑھا تو کم علم مسلمانوں کا ایک ایسا طبقہ وجود میں آیا جو مغربی افکار سے بے حد مرعوب تھا، وہ سمجھتا تھا کہ دنیا میں ترقی بغیر تقلید مغرب کے حاصل نہیں ہوسکتی؛ لیکن اسلام کے بہت سے احکام اس کے راستہ میں رکاوٹ بنے ہوئے تھے، اس لیے اس نے اسلام میں تحریف کا سلسلہ شروع کیا تاکہ اسے مغربی افکار کے مطابق بنایا جاسکے، اسی لیے ان کو اہل تجدد کہا جاتا ہے، ہندوستان میں سرسیداحمد خان ،مصر میں طٰہٰ حسین ،ترکی میں ضیاء گو ک اس طبقہ کے بانی تھے، اس طبقہ کے مقاصد اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتے تھے جب تک کہ حدیث کو راستہ سے نہ ہٹایا جائے؛ کیوں کہ احادیث میں زندگی کے ہرشعبہ سے متعلق ایسی مفصل ہدایات موجود ہیں جو مغربی افکار سے صراحةً متصادم ہیں؛ چناں چہ اس طبقہ کے بعض افراد نے حدیث کو حجت ماننے سے انکار کیا، یہ آواز ہندوستان میں سب سے پہلے سرسیداحمد خان اور ان کے رفیق مولوی چراغ علی نے بلند کی، لیکن انہوں نے انکارِ حدیث کے نظریہ کو علی الاعلان اور وضاحت کے ساتھ پیش کرنے کے بجائے یہ طریقہ اختیار کیا کہ جہاں کوئی حدیث اپنے مدعا کے خلاف نظر آئی اس کی صحت سے انکار کردیا، خواہ اس کی سند کتنی ہی قوی کیوں نہ ہو اور ساتھ ہی کہیں کہیں اس بات کا بھی اظہار کیا جاتا رہا کہ یہ احادیث موجودہ دور میں حجت نہیں ہونی چاہیے اور اس کے ساتھ بعض مقامات پر مفید مطلب احادیث سے استدلال بھی کیا جاتا رہا، اس ذریعہ سے تجارتی سود کو حلال کیا گیا، معجزات کا انکار کیا گیا اور بہت سے مغربی نظریات کو سند جواز دی گئی ۔ (درسِ ترمذی: 26/1)
منکرینِ حدیث ہردور میں مثبت عنوان ہی سے آگے بڑھے:
انکارِ حدیث کی تحریک کسی دور میں منفی عنوانوں سے نہیں چلی، اُس نے اپنی منفی آواز کے لیئے ہمیشہ سے کسی نہ کسی مثبت عنوان کا سہارا لیا ہے، منکرین حدیث کبھی :
(۱)جامعیت قرآن کا نعرہ لے کراُٹھے کہ قرآن کریم کے ہوتے ہوئے اور کسی چیز کی ضرورت نہیں (یعنی حدیث کی ضرورت نہیں
(۲)) کبھی اُن لوگوں نے کہا قرآن کریم کے ابدی قوانین ہرزمانے کے نئے تقاضوں کے تحت طے ہونے چاہیں، قرآنی احکام کی جوتشکیل حضورﷺ کے دور میں ہوئی وہ صرف اس دور کے لیئے تھی اس نئے دور میں قرآنی احکام کی تشکیل اسمبلیوں کے ذریعے ہونی چاہیے۔
(۳)کبھی ان لوگوں نے بعض حدیثوں کے خلافِ عقل ہونےکا سہارا لیا اور ان کے ذریعہ کل ذخیرہ حدیث کوگدلا کرنا چاہا، ابتدائی عنوان ان کا یہ رہا کہ ہم ان حدیثوں کو کیسے مان لیں جن میں یہ مضامین ہیںـــــ ان لوگوں نے چند متشابہات کے باعث کل احادیث ہی لائق انکار ٹھہرادیں ۔
(۴)کہیں انہوں نے باطنی تاویلات کی راہ سے احادیث کا انکار کیا کہ ہم اہلِ معرفت خود ہی حدیث کودیکھ لیتے ہیں، تمہارے ذخیرہ حدیث میں سے ہمیں کسی حدیث کی ضرورت نہیں، اہلِ قال اہلِ حال کوکیا سمجھیں۔
کوئی کچھ کہتا رہا کوئی کچھ۔ آوازیں مختلف اٹھتی رہیں؛ لیکن یہ بات اپنی جگہ حقیقت رہی اور اس میں شک نہیں کہ انکارِ حدیث کی تحریک پوری تاریخ میں کبھی منفی عنوان سے نہیں چلی۔ چودھویں صدی ہجری نے جہاں اور بہت سے گل کھلائے، انگریزی نبی کھڑے کیئے، فتنہ انکارِ حدیث کوبھی نیا عروج بخشا، اب یہ فتنہ اچھا خاصا معروف ہوچکا ہے اور کچھ لوگ اب منفی عنوان اختیارکرنے سے بھی نہیں چوکتے ۔
فتنے کی ابتداء:
تیرھویں صدی ہجری میں خلافت کے خاتمہ اور مغربی سامراجیت کے ظہور کے بعد ہی سے انکارِ حدیث کے فتنے نے باضابطہ طور پرسراُبھارا ہے، جودرحقیقت یورپین محققین کی جانب سے اسلام کی بیخ کنی کی خاطر اچھالے جانے والے اعتراضات کی ترجمانی تھی۔ اس سلسلہ میں دنیائے اسلام کے دو نمایاں ترین افراد یعنی مفتی محمد عبدہ اور سرسید احمد خان اور ان کے متبعین اور حلقہ فکر کے لوگوں کے نظریات کا مختصر تذکرہ ضروری آگہی کے لیے کفایت کرے گا۔
مصر میں شیخ محمدعبدہ نے کھلم کھلا حجیتِ حدیث کا انکار کیا اس نے قرآن کوامام اور رہنما کہا اور اس کے علاوہ جوکچھ ہے (حدیث) وہ اسے علم وعمل اور قرآن کے درمیان حجاب قرار دیا۔(اضواء علی السنۃ المحمدیۃ لمحمود أبودیۃ)۔ اسی کے نقشِ قدم پر بلکہ اس سے بھی آگے ڈاکٹرتوفیق صدفی چلے؛ چنانچہ انہوں نے الاسلام ھوالقرآن وحدہ کے نام مجلہ المنار میں دومضمون شائع کئے، جن میں قرآنی آیات سے نعوذ باللہ حدیثِ نبویﷺ کے فضول اور بیکار ہونے پراستدلال کیا، علامہ رشید رضامصری نے نہ صرف تائید میں ادارتی نوٹ لکھے؛ بلکہ متواتراپنے مضامین کے ذریعہ اس خیال کی تشہیر کی؛ اگرچہ کہ آخر میں انھیں اس پرتنبہ ہوا اور رجوع کرلیا۔)پھراحمد امین نے اپنی کتاب فجرالاسلام میں جسے اس نے سنہ۱۹۲۹ء میں شائع کیا، دانشورانِ فرنگ کے آلہ کارکی حیثیت سے ان کی یہودی بکواسوں کوعلم وادب کا نام دےکر خوش کن پیرائیے میں راویانِ حدیث کی کمزوریوں کوحددرجہ اچھالا کہ پورے ذخیرۂ حدیث ہی کومن گھڑت اور دیومالا کی کہانیوں کے مثل قرار دیا۔ابراہیم بن ادھم نامی ایک شخص نے سنہ۱۳۵۳ھ میں اپنی نام نہاد علمی لیاقت کی بنیاد پر احادیث کوبے بنیاد اور اس پر موضوع کی صفت غالب ہونے کی بات کہہ کر اپنی جرأت بے جا کا مظاہرہ کیا۔پھرابراہیم الوریہ نامی ایک شخص نے اپنے پیشرو ابراہیم ادھم، رشید رضا اور توفیق صدفی کے افکار ونظریات کویکجا کرنے اضواء علی السنۃ المحمدیۃ،، نامی ایک کتاب لکھ ڈالی، گرچہ وہ اسے اپنا اجتہاد قرار دیتا ہے؛ لیکن یہ اس کے پیشروؤں کے افکار ونظریات کی چھاپ ہے۔
مفتی محمد عبدہ نے جدید تصورات سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے قرآنی آیات میں تاویلی امکانات کو نہایت وسیع کر دیا۔ محمد عبدہ کے نظریات بقول میکلون ایچ کر آئندہ آنے والے اعتذاری مکتبہ خیال کے افراد کے لیے بنیاد کا کام دینے لگے۔ مصنف مذکور نے حاشیہ میں تصریح کی ہے کہ مفتی کے عقائد وتصورات کو بعد ازاں ان کے شاگرد مکمل لادینیت اور سیکولرازم کی طرف لے گئے۔ (71: Kerr, Malcolm H, Islamic Reforms: The Political and Legal theories of Muhammad Abduh and Rashid Rida, Cambrige University press,1961, P-105.)
مفتی صاحب کے ایک نامور شاگرد محمد رشید رضا ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ قرآن بنیادی طور پر ایک روحانی کتاب ہے جس میں دنیوی امور سے متعلق بہت کم احکام ملتے ہیں۔ زیادہ تر اختیارات ‘اولی الامر’ کے سپرد کر دیے گئے ہیں۔ رشید رضا کے نزدیک احادیث بھی بحیثیت مجموعی قابل اعتنا نہیں بلکہ صرف وہی احادیث قابل قبول ہیں جو عملی نوعیت کی ہیں اور جن پر امت مسلمہ میں مسلسل عمل کا ثبوت ملتا ہے۔(رشید رضا، تفسیر المنار،جلد ششم،قاہرہ،1375ھ،ص562۔ ،تفسیر المنار،جلد دوم،1367ھ،ص30۔) مفتی محمد عبدہ کے ایک اور شاگرد قاسم امین نے آزادی نسواں کا علم بلند کرتے ہوئے حجاب کے خاتمے اور یورپی اخلاقیات کو اپنانے کی دعوت دی۔(قاسم امین تحریر المراۃ،قاہرہ،1899ء،ص 169)