Agnosticism:خدا کے ہونے یا نہ ہونے کا کسی کو علم نہیں یا علم ہو ہی نہیں ہوسکتا۔ انسانی عقل اس راز کو نہیں پا سکتی۔
درج بالا پوزیشن کو تشکیک کی بجاے باقی پوزیشینز کے مقابلے میں ایک علمی نتیجہ کہنا چاہئے۔ تشکیک تو اس حالت کو کہا جانا چاہئے جس میں ابھی کوئ علمی نتیجہ اخذ ہی نہ کیا گیا ہو۔ مثلا ignosticism ( کہ خدا کی حقیقت جاننے کا کوئ فائدہ ہی نہیں) کے مقابلے میں اگر یہ کوئ علیحدہ پوزیشن ہے تو یہ کم از کم خدا کی حقیقت جاننے کی کوشش کو ایک جانب بے فائدہ نہیں سمجھتی اور دوسری جانب مزکورہ بالا پوزیشن بھی لیتی ہے۔
اگر یہ apatheism (انسان کو خدا کے ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ ضرور کرنا چاہئے) سے علیحدہ کسی چیز کا نام ہے تو یہ مزکورہ بالا پوزیشن کے ساتھ فیصلہ کرچکی۔
ایسے ہی اگر یہ Atheism (کوئی خدا موجود نہیں ہے) والی پوزیشن سے علیحدہ مزکورہ بالا پوزیشن پر کھڑے ہونے کا نام ہے تو کم از کم انکے خدا کے نا ہونے والے دلائل کو علمی طور پر رد کرکے ہی کھڑا ہونے دے گی۔ اس لئے انھیں کم از کم Atheism کی علمی غلطی پر تو کوئ شک نہیں رہنا چاہئے۔
اسی طرح Deism (خدا موجود تو ہے لیکن وہ کائنات میں کوئی مداخلت نہیں کرتا) بھی اپنے اندر دو دعاوی لیے ہوے ہے جنکے قبول یا رد کرنے سے آپ کسی علمی پوزیشن پر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ متعدد خداؤں والے نظریات کو قبول کرنا یا قبول نہ کرنا بھی ایک علمی پوزیشن ہے جو تشکیک نہیں کہلاسکتی۔
اسی طرح دنیا میں متعدد مذاہب کے وجود کو اسطرح مان سکنا کہ سب ہی ٹھیک ہوں (omnism) جیسی غیر منطقی پوزیشن کے مقابلے والی پوزیشن پر کھڑا ہونے کو بھی کم از کم تشکیک کا نام نہیں دیا جاسکتا۔
اگر تشکیک اس پوزیشن کا نام ہے کہ ہم ان سب پوزیشنز کو سن چکے یا سنتے رہتے ہیں لیکن ابھی کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے تو اس خیال کو مزکورہ بالا agnosticism یا ignosticism والی پوزیشن کیسے کہا جاتا ہے؟۔
بادی النظر میں تو یہ لفظ دین کے مقابلے میں لادینیت کے ایسے بہانے کے سوا کچھ بھی نہیں لگتا جسمیں کوئ پوزیشن لئے بغیر لادینیت کی ترویج کرنا ہو۔ لیکن اس صورت میں بھی تشکیک کی بجاے بندہ ایک علمی نتیجے پر پہنچ چکا ہوتا ہے۔
۲: علم کی دنیا میں ممکنہ پوزیشنز:
اگر خدا کے لفظ سے محض چڑ نہ ہو تو پھر آفاق و انفس کی تخلیق اور انکے ڈیزائن میں موجود صفات پر پیدا ہونے والے سوالات کے لحاظ سے اب تک جو علم بھی انسان کے سامنے آچکا ہے اس سے درج ذیل دو پوزیشنز میں سے کسی ایک پر ہی کھڑا ہونا ممکن ہے۔ اور آپ اسکا عملی مشاہدہ بھی کرسکتے ہیں کہ علمی ابحاث میں ایک وقت وہ ضرور آجاتا ہے کہ Athesits بھی خدا ( ان صفات اور ڈیزائن کا منبع جو آفاق و انفس میں موجود ہیں) کا نام لئے بغیر درج ذیل دوسری پوزیشن پر کھڑے ہوجاتے ہیں۔
Monotheism:خدا ایک ہے، وہ سب سے زیادہ بااختیار ہے، اس نے دنیا بنائی ہے۔
Monism:خدا یا کائنات ایک ہی چیز ہے۔ اس ایک نے خود کو بہت سی چیزوں میں تقسیم کرلیا اور وہ ہر شے میں موجود ہے۔
مزکورہ بالا پہلی پوزیشن کے لحاظ سے آفاق و انفس کی تخلیق کا منبع ان سے خارج میں ایک ہستی کو مانا جاتا ہے جبکہ مزکورہ بالا دوسری پوزیشن میں خود کائنات یا اسکے کسی جز کو ان صفات کا منبع مان لیا جاتا ہے۔ آخری سوال ہر صورت میں ایک ہی رہ جاتا ہے کہ اگر اس کائنات کا خالق اس کے خارج میں کوئ خدا ( وہ ہستی جو خود یا اپنے آپ سے موجود ) ہے تو پھر اس خدا کا خالق کون؟ اس سوال کے بعد مطالبہ کیا جاتا ہے کہ کائنات سے خارج میں کوئ خدا نہیں مانا جاسکتا ورنہ اسکے خالق کا سوال کھڑا ہوجاے گا، لہذا مان لو کہ کائنات ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی اور یہی اپنی صفات اور اپنے میں موجود انسان کی آپ خالق ہے۔ جبکہ اگر خارج کے خدا کا انکار کرکے کائنات ہی کو خدا (ہمیشہ سے آپ سے آپ ، خالق بھی اور مخلوق بھی) مان لیا جاے تو یہ اس سے کہیں ذیادہ بڑے سوالات پیدا کرکے غیر منطقی جوابات پر مطمئن ہونے کے سوا کوئ صورت پیدا نہیں رہنے دیتی۔
اس پر دونوں کے دلائل اس پوسٹ کا فی الحال موضوع نہیں تھا۔ فی الوقت صرف اتنا بتانا مقصود تھا کہ خدا کے متعلق جتنے علمی نظریات بھی بتاے جاتے ہیں وہ نظریات نہیں بلکہ درج بالا دو ممکنات میں سے ہی کسی ایک کا کوئ نہ کوئ پہلو ہے۔ اور آج تک کے علم کے مطابق( اگر خدا کے لفظ سے چڑ نہ ہو تو) کوئ بھی علمی پوزیشن لیتے ہوے صرف ان دو میں سے کوئ ایک پوزیشن لینا ہی ممکن رہتی ہے۔ نیز تشکیک اگر کسی پوزیشن کا نام ہے تو وہ کسی طالبعلم کی وہ پوزیشن ہوگی جو دو ڈیبیٹرز کی ڈیبیٹ کے دوران ایک طالبعلم ہر ایک دلائل سنتے ہوے اپنے اندر محسوس کرے گا۔ اسکے سوا تشکیک کوئ ایسی پوزیشن نہیں ہوسکتی جس میں مزکورہ بالا ڈیفینشنز کے لحاظ سے کوئ نتیجہ نکالا جاچکا ہو۔
مبین قریشی