اعتراض: رسول اللہ محبوب خدا اور وجہ تخلیق کائنات تھے،علم کا شہر تھے۔ ان کے پاس زیادہ علم تھا یا جبرئیل کے پاس؟مجھے یقین ہے کہ رسول اللہ کے پاس زیادہ علم ہوگا کیونکہ وہ جبرئیل سے افضل تھےپھر جبرئیل رسول اللہ کو کیا پڑھانے آتا تھا؟ جو ہستی مادی کائنات کی تشکیل سے پہلے وجود رکھتی تھی، کیا اسے علم نہیں دیا گیا تھا؟
جواب :میرے خیال سے یہ مقابلہ ہی غیر متوازن ہے ۔ یہاں پوچھا یہ جانا چاہیئے تھا کہ اس دنیا میں سب سے پہلے انسان اور سب سے پہلے نبی حضرت آدم علیہ السلام زیادہ علم رکھتے تھے یا جبریل علیہ السلام ؟مجھے نہیں پتہ کہ آپ مسلمان ہیں یا تھے یا تشکیک کی کیفیت سے دوچار ہو گئے ہیں, خدا کو مانتے ہیں یا نہیں مانتے ؟مگر مجھے اتنا یقین ہے کہ ان تمام میں سے کسی بھی صورت میں آپ کو اس سوال کا جواب خود معلوم ہونا چاہیئے تھا ۔ اس سوال کا جواب تو خود قران دے چکا :
“اور آدم کو (اللہ نے) سارے نام سکھادیئے ۔ پھر ان کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور (ان سے) کہا اگر تم سچے ہو تو مجھے ان چیزوں کے نام بتلاؤ۔ وہ بول اٹھے آپ ہی کی ذات پاک ہے جو کچھ علم آپ نے ہمیں دیا ہے اس کے سوا ہم کچھ نہیں جانتے ۔حقیقت میں علم و حکمت کے مالک تو صرف آپ ہیں ۔ اللہ نے کہا آدم تم ان کو ان چیزوں کے نام بتادو چناچہ جب اس نے ان کے نام ان کو بتادیئے تو اللہ نے (فرشتوں سے) کہا کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کے بھید جانتا ہوں ؟ اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو اور جو کچھ چھپاتے ہو مجھے اس سب کا علم ہے ۔(سورۃ البقرۃ آیت29-33)
ان آیات میں اس انسان کا جو ابھی تخلیق کیا گیا ہے مقابلہ ان فرشتوں سے کیا جا رہا ہے جو اس سے کافی عرصہ پہلے تخلیق کیئے جا چکے تھے ۔ ان آیات کو جو لوگ گہرائی میں جا کر سمجھتے ہیں وہ یہ جانتے ہیں کہ یہ مقابلہ محض اشیاء کے نام بتانے تک محدود نہ ہو گا ۔ یعنی یہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ نے آدم علیہ السلام کو اشیاء کے نام بتا دیئے ہوں اور فرشتوں کو نہ بتائے ہوں اور پھر ان کو مقابل کھڑا کر دیا ہو ۔
یہ مقابلہ درحقیقت انسان کی عقل کی پہلی آزمائش تھی ۔ایک ہوتی ہے Revealed knowledge یعنی وہ علم جو وحی سے حاصل ہو اور ایک ہوتی ہے Acquired knowledge جسے انسان اپنی عقل اپنے مشاہدے سے حاصل کرتا ہے ۔
وَ السَّمَآءَ بَنَينٰهَا بِاَيدٍ وَّاِنَّا لَمُوسِعُونَ (سورہ الذریات ۔ آیت 47)اور آسمانوں کو ہم ہی نے ہاتھوں سے بنایا اور ہم ہی اس کی توسیع کررہے ہیں ۔
یہ جو اوپر آپ آیت پڑھ رہے ہیں یہ Revealed knowledge ہے ۔1929 میں ایڈون ہبل نے اپنی ٹیلی اسکوپ سے کائنات کی ہر شے کو ایک دوسرے سے دور جاتے دیکھا اور اندازہ لگایا کہ یہ کائنات پھیل رہی ہے ۔ اس علم نے انسان کی سوچ کو یہ جلا بخشی کہ اگر کائنات کی ہر شے ایک دوسرے سے دور جا رہی ہے تو ماضی میں کوئی ایک نکتہ ایسا ضرور رہا ہو گا جب سب ایک مقام پر جڑے ہوں گے ۔ پھر بگ بینگ ہوا ہو گا ۔اب یہ جو اوپر آپ پڑھ رہے ہیں اسے Acquired knowledge کہتے ہیں ۔ انسان نے ایک مشاہدہ کیا اور پھر اس سے نتائج اخذ کیئے ۔
فرشتوں اور انسان کے اس مقابلے میں فرق صرف ان دو علوم کا ہی تھا ۔ فرشتے خود اقرار کر رہے ہیں کہ ہم اس کے سوا کچھ نہیں جانتے جو اللہ نے ہمیں دیا یعنی Revealed knowledge ۔ جبکہ انسان کو وحی کے علم کے ساتھ ساتھ مشاہدات و تجزیات سے نتائج حاصل کرنے کی صلاحیت سے بھی نوازا گیا ہے ۔
اب آپ خود بتائیے کہ زیادہ بڑا عالم کون ہوا ؟ وہ جس کے پاس ایک علم ہے یا وہ جس کے پاس دونوں ؟
ممکن ہے فرشتوں اور انسان دونوں کو اشیاء کے نام بتائے گئے ہوں گے مگر انسان نے ان اشیاء سے متعلق کچھ ایسی باتیں بھی بتا دی ہوں گی جو اللہ نے اسے نہیں سکھائی ہوں گی ۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے عملی طور پر انہیں باور کرادیا کہ جو کام اس نئی مخلوق سے لینا مقصود ہے وہ فرشتے انجام نہیں دے سکتے۔
یہاں یہ نتیجہ اخذ نہ کیا جائے کہ اس میں اللہ کا کوئی کردار نہیں ۔ جس عقل سے نتائج اخذ کیئے جاتے ہیں وہ اللہ نے ہی دی ہے ۔ یعنی اللہ نے بجائے ایک ایک شے کا علم دینے کے آپ کو ایک دماغ کے ساتھ چیزوں کو سمجھنے کی صلاحیت دے دی ۔ اب آپ اس سے پوری کائنات کھوج ڈالیں ۔ مگر فرشتے یہ کام نہیں کرتے ۔ وہ اتنا ہی کریں گے جتنا کہا جائے گا ۔یہ فرق ہے ۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ پھر جبریل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سکھانے کیوں آتے تھے ؟
جبریل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بطور استاد کچھ بھی سکھانے نہیں آئے بلکہ وہ بطور پیغمبر اللہ کا پیغام نبی تک پہنچانے آتے تھے ۔ اب یہاں یہ اعتراض ہو سکتا ہے کہ جب جبریل علیہ السلام وحی لے کر آتے تھے تو علم پہلے جبریل علیہ السلام کے پاس آتا تھا بعد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ۔ اس کی بھی وضاحت احادیث میں خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کر دی کہ وحی کا واحد ذریعہ فرشتہ نہیں تھا بلکہ وحی تین طریقوں سے آتی تھی ۔ اچھے خواب کی صورت میں ۔ جاگتی حالت میں دل پر القاء کیا جانا ۔ فرشتے کے ذریعے ۔یعنی فرشتے انسان سے Revealed knowledge میں بھی زیادہ نہیں تھے ۔ پھر Acquired knowledge اس کے علاوہ ہے ۔