اعتراض: ۔ کل اگر انسان چاند یا مریخ پر رہائش اختیار کرتا ہے تو خانہ کعبہ کی طرف منہ کر کے کیسے نماز پڑھے گا ؟
جواب :مجھے حیرت ہوتی ہے کہ لوگوں کو ایسے ایسے سوال سوجھ کیسے جاتے ہیں ۔ اس سوال سے کہیں زیادہ منطقی سوال میرے نزدیک یہ ہے کہ اگر انسان مر جائے اور لوگ اسے 6 فٹ زمین کے نیچے قبر میں دفنا دیں تو وہ نماز کس طرف منہ کر کے پڑھے گا ؟یقین کریں جس دن لوگوں نے اس قسم کے سوال پوچھنے شروع کر دیئے اس دن میں نے یہ رد الحاد کا کام ہی چھوڑ دینا ہے ۔ اتنے مشکل مشکل سوالوں کے جواب کون دے گا ؟شکر ہے ابھی آسان سوال پوچھتے ہیں ۔
مذکورہ سوال کا جواب قران میں بھی ہے اور حدیث میں بھی ۔ مگر میں فرض کرتا ہوں کہ کسی سوال کا جواب نہ قران میں ہو نہ حدیث میں تو اسلام میں ایک راستہ اجماع کا بھی ہے ۔ یعنی مسلمانوں کی ایک جماعت اس معاملے میں ایک متفقہ فیصلہ صادر کر دے گی ۔
” بے وقوف لوگ کہیں گے کہ کس چیز نے مسلمانوں کو ان کے قبلہ سے پھیر دیا جس پر وہ تھے۔ کہہ دو مشرق اور مغرب الله ہی کا ہے وہ جسے چاہتا ہے سیدھا راستہ دکھاتا ہے”۔(سورہ البقرہ ۔ 142)
اس آیت پر تھوڑے سے غور سے آپ کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ اللہ کے نزدیک قبلے کی پابندی صرف ایک معیار قائم کرنے کی حد تک ہے ورنہ سمت کوئی بھی ہو سب اللہ ہی کی ہیں ۔
” بے شک ہم آپ کے منہ کا آسمان کی طرف پھرنا دیکھ رہے ہیں سو ہم آپ کو اس قبلہ کی طرف پھیر دیں گے جسے آپ پسند کرتے ہیں پس اب اپنا منہ مسجد حرام کی طرف پھیر لیجیئے اور جہاں کہیں تم ہوا کرو اپنے مونہوں کو اسی کی طرف پھیر لیا کرو اور بے شک وہ لوگ جنہیں کتاب دی گئی ہے یقیناً جانتے ہیں کہ وہی حق ہے ان کے رب کی طرف سے اور الله اس سے بے خبر نہیں جو وہ کر رہے ہیں”۔( آیت 144)
اب اس آیت میں یہ بھی واضح ہو گیا کہ سمت کی تبدیلی اللہ سے زیادہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش تھی ۔ ورنہ اس سے پہلے یہی مسلمان سولہ مہینے بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے رہے ۔کیا لگتا ہے آپ کو کہ اس وقت ان کی نمازیں قبول نہیں ہوتی تھیں ؟
پھر اگلا مسئلہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر پر تشریف لے جاتے تھے تو اونٹ پر بیٹھے بیٹھے نوافل ادا کرتے تھے ۔ اب ظاہر ہے اونٹ کو یہ تو نہیں سمجھایا جا سکتا کہ وہ قبلے کی طرف منہ کر کے چلے ۔ تو صرف نماز کے آغاذ میں اللہ اکبر کہتے وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم قبلے کی طرف منہ کرتے تھے ۔ بقیہ نماز میں منہ جس طرف بھی رہے ۔ اس سے فرق نہیں پڑتا ۔اس کے علاوہ اجماع کا اصول یہ ہے کہ اگر آپ کو قطعی نہیں معلوم کہ آپ جس جگہ موجود ہیں وہاں سے قبلہ کس طرف ہے تو مسلمانوں کی جماعت کسی ایک سمت متعین کر کے نمازیں ادا کر سکتی ہے ۔ ٹرین میں اور جہاز میں نماز ایسے ہی ادا ہوتی ہے ۔
یہ تو ہو گیا آپ کے سوال کا مکمل اور مفصل جواب ۔ اب آتے ہیں اس طرف کہ جس موضوع پر سائنس سے بلا مبالغہ ہزاروں سوال پوچھے جا سکتے ہیں وہاں مذہب سے ایک سوال پوچھ کر دین کو مشکوک بنانے کی فضول کوششیں کرنا کون سی منطق ہے ؟مثلاً ہم یہ جانتے ہیں کہ انسان مستقبل قریب میں مریخ پر کالونیاں بنانے کا ارادہ رکھتا ہے ۔دنیا کے بڑے سے بڑے عالم یا بڑے سے بڑے جاہل کے سامنے یہ پلان رکھیں گے تو اس کو ہزاروں سوال ممکنات اور ناممکنات پر سوجھ جائیں گے ۔ سوائے اس سوال کے جو آپ کو سوجھا ۔
کبھی سوچا ہے کہ مریخ پر جانے والوں کو صرف ون وے ٹکٹ کیوں دیا جا رہا ہے ؟کیوں کہ واپسی کا کوئی چانس ہی نہیں ہے ۔اب تک کی تاریخ میں انسان زمین کے علاوہ صرف چاند پر قدم رکھ سکا ہے ۔ وہ بھی صرف ایک مرتبہ ۔ دوبارہ وہاں بھی کبھی نہیں گیا ۔ اب براہ راست رہائش کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے وہ بھی مریخ پر ۔
میں کیسے سے پہلے کیوں پر بات کر لیتا ہوں ۔سوال یہ ہے کہ ہم مریخ پر کالونیاں کیوں بنا رہے ہیں ؟ کیا زمین چھوٹی پڑنے لگ گئی ہے ؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ زمین کا ستر فیصد حصہ جس میں خشکی کے بیشتر علاقے بھی شامل ہیں وہ انسانوں سے خالی پڑا ہے ؟ وہاں کیوں نہیں کالونیاں بناتے ؟ اپنی قلفی جمانے کا شوق ہے تو یہ شوق انٹارکٹیکا کے منفی 40 ڈگری درجہ حرارت پر بھی تو پورا ہو سکتا ہے ؟ منفی 100 ڈگری درجہ حرارت والے مریخ پر جانے کا جس عظیم انسان نے مشورہ دیا تھا وہ پہلے ہی مریخ سے بہت آگے جا چکا ۔ اب اس کی بلا سے آپ جہاں مرضی جاؤ ۔ سمندر میں کالونیاں بنا لو ۔ اتنے جزیرے خالی پڑے ہیں ۔ چٹانوں میں جا بسرام کرو ۔
مریخ پر کیوں جانا ہے ؟ٹرین کی پٹری پر لیٹ جاؤ ؟رسی گلے میں ڈال کر پنکھے سے جھول جاؤ ؟تھوڑا سا پوٹاشیم سائنائیڈ کھا لو ؟مریخ پر ہی کیوں جانا ہے ؟
یہاں گرم پانیوں کے لیئے افغانستان پر حملے کرتے پھرتے ہیں اور باتیں وہاں جانے کی جہاں پانی ہی برف بنا پڑا ہے ۔ گولے گنڈے کی دکان کھولنی ہے تو روس میں کھول لیں ۔ وہاں مریخ پر کون گولا گنڈہ خریدے گا ؟مجھے قطعاً سمجھ نہیں آئی کہ اتنی بڑی زمین چھوڑ کر مریخ پر رہائش اختیار کرنے کی تک کیا ہے ۔ انٹارکٹیکا میں بندہ رہے ۔ ٹھنڈ سے مرنے لگے گا تو کوئی ہیلی کاپٹر پر بچانے بھی آجائے گا ۔ سات ماہ کی مسافت پر بچانے کون آئے گا ؟ یہاں کوئٹہ میں منفی 7 ڈگری پر نظام زندگی معطل ہو جاتا ہے اور سائنس دان منفی 100 ڈگری پر نظام زندگی چلانے کی بات کر رہے ہیں ۔
اب بات کرتے ہیں کیسے رہیں گے ۔مریخ پر رہنے میں ویسے تو بہت سارے مسئلے ہیں مگر میں صرف چند کا ذکر کروں گا ۔پہلا مسئلہ ہے موسم ۔مریخ کا کم سے کم درجہ حرارت منفی سو سے اوپر چلا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں پانی ہونے کے باوجود بہتا پانی نہیں ہے ۔ اسے بہنے کے لیئے گرمائش چاہیئے جو وہاں نہیں ہے ۔
دوسرا مسئلہ پانی ۔جیسے کہ میں نے بتایا کہ مریخ پر صرف برف ہے ۔ وہ بھی اس کے پولز کے آس پاس ۔ یعنی ایک تو پانی وافر نہیں ہے ۔ دوسرا وہ مائع حالت میں نہیں ہے ۔ ممکن ہے سائنس دان زمین سے پانی کے ٹینکر ساتھ لے جائیں ۔ مگر میرا خیال ہے وہ بھی وہاں جاتے ہی برف بن جائے گا ۔ تو بہتر ہے پانی کی جگہ سوئی گیس لے جائیں ۔ وہیں برف کو گرم کر کے پگھلا لیں ۔ مگر اوہ ۔ سوری ۔ میں آپ کو بتانا بھول گیا کہ وہاں آکسیجن بھی نہ ہونے کے برابر ہے ۔ آگ تو وہاں جلے گی ہی نہیں ۔ مریخ میں کتنی آکسیجن ہے اسے سمجھنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ گھر سے ایک شاپنگ بیگ لیں اور اسے منہ پر پہن کر گردن پر گرہ لگا لیں ۔ اب جتنی آکسیجن آپ کو ملے گی اتنی مریخ پر موجود ہے ۔ ویسے یہ کام کرتے وقت کسی کو پاس ضرور کھڑا کر لیں تاکہ جب آپ غڑوپ غڑوپ کرنے لگیں تو وہ آپ کا شاپر پھاڑ کر آپ کی جان بچا لے ۔
مریخ پر کھانے کو بھی کچھ نہیں ہو گا سوائے ایک دوسرے کو کھانے کے ۔ حیات کا یہ بھی ایک اصول ہے کہ آپ زندہ رہنے کے لیئے زندگی کو ہی کھاتے ہیں ۔ مریخ پر ریتیلا علاقہ ہے ۔ برفیلا علاقہ ہے اور چٹانی علاقہ ہے ۔ مطلب کھانے کا مینیو بس یہی ہے ۔ کھانے کا سامان ساتھ لے کر جانا پڑے گا اور ختم ہونے سے پہلے اگانے کا انتظام کرنا پڑے گا ۔اگانے کے لیئے جس زرخیز زمین کی ضرورت ہے وہ مریخ پر دستیاب نہیں ۔ زیادہ حیرت مجھے اس بات پر ہے کہ جو قوم آج تک آم ہمارے ملک سے امپورٹ کر کے کھاتی ہے وہ مریخ کے ریتیلے میدانوں میں برف میں یا چٹانوں میں گندم اگا لے گی ۔ بہتر ہوتا اگر پہلے امریکہ میں آم اگانے کی ٹرائی کر لیتے ۔چٹانیں زمین پر بھی ہیں ۔ برف زمین پر بھی ہے ۔ ریتیلے میدان زمین پر بھی ہیں ۔ مگر زمین پر ان سے صرف فاسلز برامد ہوتے ہیں ۔
آپ گندم کا بیج برف میں دبا دیں یا چٹان میں ۔ اس کا پودا نہیں نکلے گا ۔ بلکہ اس کا فاسل بن جائے گا ۔ وہ لاکھوں سالوں کے لیئے محفوظ ہو جائے گا ۔یعنی مٹی بھی یہیں سے جائے گی ۔پھر اس مٹی میں پودا لگے گا اور ہم اس پودے کو پانی دیں گے ۔ مگر اوہ ۔ یا کیا ۔ پانی بجائے پودے پر گرنے کے ہوا میں تیرنا شروع ہو گیا ۔ وہ کیا ہے کہ مریخ پر گریویٹی بھی زمین کی نسبت بہت کم ہے ۔ پودے کو لے کر اڑتے پانی کے پیچھے بھاگنا پڑے گا ۔اب بس انتظار ہے سورج کی حرارت اور روشنی کا ۔ یہ دو چیزیں بھی مریخ پر بدقسمتی سے وافر نہیں ۔ تبھی تو وہاں کا پانی برف بنا ہوا ہے ۔ مصنوعی روشنی اور حرارت کا انتظام کرنا پڑے گا ۔
اس کام کے لیئے اب توانائی درکار ہے ۔بجلی ۔ گیس یا تیل ۔بجلی تو یہاں سے نہیں جا سکتی اور باقی دو چیزوں کو توانائی میں بدلنے کے لیئے آکسیجن درکار ہے ۔ اب وہاں کی منھی سی آکسیجن سے کیا کیا کریں گے ۔ خود سونگھیں گے یا گیس اور تیل کو توانائی میں بدلنے کے لیئے استعمال کریں گے ۔بجلی بنانے کے لیئے بھی پانی گیس یا تیل چاہیئے ۔پانی بھی تھوڑا ہے وہاں ۔ اوپر سے برف بنا ہوا ہے ۔ اس سے بجلی بنانے کے لیئے اسے پگھلانا ضروری ہے اور اسے پھگلانے کے لیئے بھی بجلی چاہیئے ۔
یہ سب کچھ کسی نہ کسی طرح کرنے کے لیئے ہمیں وہاں پودے اگانے ہیں ۔ اگر کسی طرح وہاں ایک بھی پودا اگ گیا تو آکسیجن بڑھنی شروع ہو جائے گی ۔ آکسیجن بڑھ گئی تو مائع پانی کی دستیابی آسان ہو جائے گی اور مائع پانی دستیاب ہو گیا تو زندگی آسان ہو جائے گی ۔ مگر پودے اگانے کے لیئے مائع پانی چاہیئے ۔ پانی پگھلانے کے لیئے آگ چاہیئے ۔ آگ جلانے کے لیئے آکسیجن چاہیئے اور ۔ ۔ ۔ ۔ اور آکسیجن کی فراوانی کے لیئے ہمیں پودے چاہیئیں ۔ بہت سارے پودے ۔
میرا مخلصانہ مشورہ یہ ہے کہ مریخ پر سارے ملحدوں کو بھیج دیا جائے ۔ کیوں کہ اگر تو یہ سروائیو نہ کر پائے تو ہماری جان چھوٹ جائے گی اور اگر انہوں نے سروائیو کر لیا تو ان کو خدا پر یقین آجائے گا ۔ پھر یہ مریخ پر اذانیں بھی دیں گے اور باجماعت نمازیں بھی ادا کریں گے ۔۔زمین کی طرف منہ کر کے ۔
تحریر محمد سلیم