دنیا کی کوئی علمی زبان ایسی قابل قدر تصانیف سے خالی نہیں ہے جو اپنے انداز بیان حسن اسلوب اور نکات و رموز فصاحت وبلاغت کی جہت سے بے بمثیل اور عدیم النظیر نہ خیال کی جاتی ہو لیکن قران مجید کے مضامین کا امڈتا ہوا سیلاب، لڑیوں میں پروتے ہوئے موتیوں کی طرح الفاظ کی حسین ترکیب وبندش ‘ تمام محاسن لفظی ومعنوی کی بہترین سجاوٹ و زیبائش ، بلاغت میں ڈوبا ہوا اسلوب ،مافوق التصور مطالب کی تصویر کشی اور مجسمہ سازی __! یہ تمام چیزیں دنیا کے کل تصانیف سے ایک جداگانہ نوعیت رکھتی ہیں ‘ اس کی یہ تمام حصوصیات بالکل اچھوتی ہیں ۔ اور اسکی فصاحت وبلاغت کا اعجازی کنگرہ دنیا کے تمام تصانیف سے کہیں زیادہ بلند ہیں ___!
فارسی میں گلستان یا مثنوی مولانا روم ‘ انگریزی میں شیکسپئیر کے ڈرامہ سنسکرت میں مہا بھارت ‘ علی ہذا دیگر زبانوں میں بھی اسی پایہ کی فصیح وبلیغ تصانیف موجود ہیں ۔ جن کے بے مثال ہونے میں شبہ کی گنجائش نہیں لیکن ان کی فصاحت وبلاغت میں یہ دم نہیں اور ان کو اپنے اسقدر بےمثال ہونے میں تکیہ و اعتماد نہیں ہے کہ وہ ساری دنیا کو مقابلے کیلئے چیلنج دیکر تمام انسانی دماغوں کو اپنے مقابلے سے عاجز ثابت کر دیں اور قران کریم کی طرح میدان تحدی میں آکر اعجازی پھریرے اوڑائے نا آج تک دنیا کے کسی مصنف کو اپنی کسی مایہ ناز تصنیف کے متعلق یہ خیال قائم کرنے کی جرات ہوئی اور نہ اس وقت تک فضا عالم میں بجز قران کے پرزور دعوؤں کے اور کوئی تحدی اور معارض طلبی کی آواز سنائی دی اور اگر کبھی کسی نے اپنی سطح دماغ کو تمام عالم کی دماغی سطح سے بلند سمجھ کے اس خام خیالی کو اپنے سر میں جگہ بھی دی تو دنیا نے اس کو غلط فہمی سے زیاں وقیع ثابت ہونے نہیں دیا ___ !
اہل کمال کا اعتراف کل عام کا اعتراف ہے:
کسی فن میں اہل عالم اگر کسی کا ملین کی جماعت کے کمال کو تسلیم کر لیں تو اس کے معنی یہی ہیں کہ دنیا والوں کی ترقی ان کے نقطہ کمال پر پہنچ کر ختم ہو جاتی ہے اور ان کا کمال دنیا کی ترقی کی معراج ہے گویا کہ دنیا اس فن میں ان کو اپنا نمائندہ فرض کر چکی ہے لہذا اگر کوئی شخص کسی دوسرے عالم سے اس فن میں دنیا والوں کے مقابلہ کے لئے آئے تو یہ جماعت تمام دنیا کی طرف سے ایک نمائندہ جماعت کی حیثیت سے اس شخص کے مقابلہ میں آئیگی اگر یہ لوگ مقابلہ میں کامیاب ہوئے تو ان کی کامیابی تمام عالم کی فتح سمجھی جائیگی اور اگر ان لوگوں نے اپنی شکست پر مہر کردی تو یہ صرف اس جماعت کی شکست نہیں بلکہ تمام عالم کی شکست کہلائیگی۔
دنیا کے مسلمہ روزگار اہل کمال کا اپنی شکست تسلیم کر لینا اس کا نہایت واضح مطلب یہی ہے کہ اس دنیا کا کمال اس قوت کے مقابلہ سے بالکل عاجز ہے جو آنیوالا اپنے ساتھ لایا ہے اگر دنیا کے کمال میں مقابل کی مقابل کی قوت کے مغلوب کر دینے کے لئے کچھ بھی قدرت ہوتی تو یہ لوگ کبھی اپنا عجز تسلیم نہ کرتے اور اپنی گردنوں کو طوق ذلت کی نذر کرتے۔ کبھی کوئی کامل کسی دوسرے اہل کمال کے سامنے اپنی گردن کو خم نہیں کرتا جب تک کہ اسکی پوری جدوجہد مخالف کے مغلوب کر نے کے لئے ختم ہو جائے اور ہر کار گر اور بہتر سے بہتر حربہ اسکے مقابلہ یں صرف نہ کر لے ۔
ساحران دربار فرعون کی زنبیل ساحری میں اگرکوئی حیلہ سحر جناب موسٰیؑ کے مغلوب کر دینے کے لئے باقی رہ گیا ہوتا تو وہ کبھی آنحضرت کے مقابلہ میں اپنی شکست کو تسلیم نہ کرتے۔ ان کا شدومد کیساتھ مقابلہ کے لئیے آنا پھر سجدہ میں گرنا اور’ آمنا برب العلمین رب موسی و ھارون’ کی معترفانہ صداؤ ں کا بلند کرنا اور اپنے نفوس کو فرعون ایسے قہار وجبّار بادشاہ کے غیظ و غضب کا مستحق قرار دیکر سولی کی سخت ترین سزا کا متوجب بنا ؤنا یہ تمام باتیں اس امر کو واضح کر رہی ہیں کہ وہ باکمال تو ضرور تھی لیکن خدائی قوت کے مقابلہ کی تاب نہ لاسکے۔
اس قسم کے معجزات میں سے کوئی معجزہ کسی ایسے عصر میں کسی فن کے مقابل نبی کو نہیں دیا جاتا جو اس فن کے ترقی و عروج کا زمانہ ہو کیونکہ اس وقت میں اس معجزہ کا پیش کرنا بالکل عبث اور بیکار ہے اس لئے کہ وہ زمانہ اس کے اعجاز کے سمجھنے والوں اور اس کے اصلی قدر دانوں سے بالکل خالی ہے۔مثلاََ جس زمانہ میں لوگ سحر سے ناواقف ہوں اس وقت عصا کا معجزہ پیش کرنا بجز اسکے کہ جادوگری کا تماشہ خیال کیا جائے اور کچھ مفید نہیں ہوگا۔
جو لوگ فن سحر سے ناواقف ہیں وہ اس معجزہ کے خارق عادت ہونے کے متعلق ذاتی طور پر کوئی رائے قاتم نہیں کر سکتے اس لئے کہ جو شخص فنِ سحر سے بے بہرہ ہے اس کے دل میں یہ شبہ پیدا ہو سکتا ہے کہ جو کام جناب موسٰی ؑ نے اپنے عصا کے ذریعہ سے کیا ہے ممکن ہے کہ کوئی ماہر فن سحر بھی ایسا کر دکھائے لیکن جو شخص ساحری میں مہارت رکھتا ہے وہ بخوبی سمجھتا ہے کہ ایک ساحرکس حد تک سحر میں اپنا کمال صرف کر سکتا ہے اور اپنے فن کو کامیاب بنا سکتا ہے کامیابی کی کتنی منزلیں حدود سحر کے اندر ہیں اور کس مقام سے سرحد اعجاز شروع ہو جاتی ہے ناواقف کے لئے تو ممکن نہیں لیکن ساحران دربار فرعون اپنے سحر اور معجزہ جناب موسٰی ؑ میں بہترین تفرقہ کرنیوالے تھے اور دونوں کی حقیقت ا ن کو بخوبی معلوم تھی اور اسی جہت سے معجزہ جناب موسٰی ان پر حجت تھا۔
اسی طرح عیسٰی ؑ کا کورادراز کو زندہ کر دینا اور مبروص کو آن واحد میں شفا دینا یہ دونوں معجزات بھی اسی بھی اسی قسم سے ہیں جن کے متعلق معجزہ اس شخص کے جو فن طب میں مہار رکھتا ہو کسی دوسرے شخص کو رائے قائم کرنے کا حق نہیں اس لئے اس کو نہیں معلوم کہ طبی اختیارات کس حدپر جاکر ختم ہوتے ہیں اورکیا کسی طبیب کو کسی کو مادر زاد یا مبروص کے اس قدر جلد شفا دینے میں کامیابی ہو سکتی ہے؟ بخلاف اس کے ایک با ذوق طبیب یہ سب کچھ جانتا ہے اور سمجھتا ہے کہ یہ کام کوئی انسان اپنے اکتسابی کمال کے ذریعہ سے نہیں کر سکتا بلکہ اس کے لئے خداوند عالم کی دی ہوئی مخصوص قوت و قدرت درکار ہے۔
فنی معجزات میں وقت کا لحاظ:
اس قسم کے معجزات میں وقت واشخاص کا ضروری طور پر لحاظ ہوتا ہے اور ایسے معجزات انبیاء کو ہمیشہ بِلا کسی خاص ولحاظ کے نہیں دیئے جاتے اس لئے کہ ہر زمانہ کے لوگ ہر فن میں کامل نہیں ہوتے فنون کی ترقی وعروج کا ایک خاص زمانہ اور اسکے اانحطاط و زوال کا ایک خاص وقت ہوتا ہے لہذا جس فن کی جس زمانہ میں ترقی ہوتی ہے اور اس کے باکمال افراد اس عصر میں موجود ہوتے ہیں اسی فن کے مقابل نبی کو معجزہ دیا جاتا ہے تاکہ اہل کمال مقابلہ سے عاجز آکر اپنے عجز کا اعتراف کریں اور ان کا یہ اعتراف صرف انہیں پر حجت قرار پائے بلکہ تمام عالم اس معجزہ کو اپنے ذاتی علم کی بناء پر خارق عادت اور طاقت بشر یہ سے بالا تر قرار دیا ہے لیکن جو لوگ اس فن سے ناواقف ہیں ان کے لئے بھی ان کا میلین کے اعتراف کے بعد اس کے خارق عادت تسلیم کر لینے کے سوا اور کئی چارہ کار نہیں اس لئے کہ یہ لوگ بھی انہیں کے کمال پر تکیہ کئے ہوے تھے اور نبی کے مقابلہ کے لئے ان کے ہتھیار بھی یہی اہل کمال تھے جو معجزہ کے سامنے کند پڑ گئے۔
دو اہم فائدے:
زمانہ کی ترقی فنون کو ملحوظ رکھتے ہوئے نبی کو کسی خاص فن کے مقابل معجزہ دیا جاتا اسکے اندر بہت سے فوائد مضمر ہیں ازاں جملہ دو اہم فائدے ہم ذیل میں درج کرتے ہیں۔
پہلا فائدہ:
یہ ہے کہ خواب غفلت کے بے خبر سونیوالے ایسے معجزے کے ذریعہ سے خدا کے بھیجے ہوئے نبی کی طرف جلد اور ایک حد تک آسانی سے متوجہ ہو جاتے ہیں اس لئے کہ جس زمانہ میں جس فن کا چرچاہوتا ہے اس وقت لوگوں کی تمام توجہ اسی فن کی طرف مائل ہوتی ہے آئے دن اسی فن میں ذہانتیں صرف ہو کر نئی ایجادات کی شکل میں ظاہر ہوتی ہیں ہر شخص اس میں تفوق و امتیاز حاصل کر نے کی فکر میں لگا رہتا ہے اور پوری جدوجہد صرف کر کے اپنے کمالات کا اظہار کرتا اور لوگوں سے داد کا طالب ہوت ہے۔
صبح و شام روزوشب یہی چرچے رہتے ہیں اور اس وقت کی دنیا کے لئے اس شغل سے بہتر کوئی مشغلہ اور اس ذکر سے مغوب تر کوئی تذکرہ نہیں ہوتا۔ اسی عالم میں اگر نبی ان کی توجہ کو کسی دوسری شے کی طرف مائل کرنا چاہے، تو اس کو ہزار دشواریوں کے بعد بھی کامیابی مشکل ہے لیکن اگر وہ اس فن میں ان کے کمالات سے بال تر کمال ظاہر کرے تو فطری طور پر ان کو نبی کا مقابلہ کرنے اور اس کو زیر کر نے کی کد پیدا ہو گی اور وہ اپنے کمالات سے دیبہ چھڑانے کی پوری کوشش کریں گے۔ اس طرح ان کی تمام توجہات بلک نبی ہی کی جانب مبذوق ہو جائیگی۔
دوسرا فائدہ:
یہ ہے کہ جس عصر کے لوگوں کو کسی فن میں کمال حآل ہو جاتا ہے تو ان کی بلندی خیالات کی ادنیٰ منزل یہ ہوتی ہے کہ اگر وہ اپنے کو اس فن کا خدا نہیں تو ناخدا تو ضرور ہی سمجھنے لگتے ہیں ، جامہ میں سمانا مشکل ہو جاتا ہے اور اپنے کمال کے مقابل تمام کمالات کو ہیچ سمجھتے ہیں ، رفتہ رفتہ یہ خیالات ترقی کرتے رہتے ہیں یہاں تک کے جب ان کو بطن انسان کو اپنے کمال پر پور اعزّا ہو جاتا ہے تو خدائی قدرت وقوت ان کی نظر سے اوجھل ہو جاتی ہے اور خلاق عالم کی عظمت وجلالت کا نقش لح دل سے محو ہو جاتا ہے خدائی احکام کو بے حقیقت سمجھنے لگتے ہیں ان کی مخالفت کی اہمیت نگاہ میں باقی نہیں رہتی ، خدائے جبّار وقہار کے مقابلہ میں کھڑا ہو جانا ان کی نظر میں ادنیٰ بات معلوم ہوتی ہے وہ خدائی ہتھیار وں کو اپنے مقابل سست اور انسانی سپاہ کو خدائی فوجوں سے قوی تر خیال کرنے لگتے ہیں۔
خواب غفلت میں چور اور نشہ کبرونخوت میں سرشارو بد مست ہو کر صراط حق سے منہ پھرائے کہاں سے کہاں نکل جاتے ہیں ، اس خمار کے عالم میں ان کی آنکھیں کیسے کیسے بے اصل اور مضحکہ خیز مناظر اپنے سامنے پاتی ہیں ان کی زبان اس مدہوشی کی حالت میں بے عنان ہو کر کیا سے کیا کہنے لگتی ہے ان کا مختل دماغ بیہودیوں اور لغوخیالات کا خزانہ بن جاتا ہے اس قسم کی بہت سے ماضی وحال کی مثالیں ہمارے پیش نظر ہیں اور صفحات تاریخ اس طرح کے بہت سے شواہد پیش کر سکتے ہیں۔
عین اسی غفلت اور بے ہوشی کے عالم میں ارحم الراحمین نہ کسی انتقام کی غرض سے بلکہ ان کو غفلت کی میٹھی نیند سے چونکانے اور بیدار کرنے اور ان کی بڑھی ہوئی جسار توں کو کم کرنے کے لیے اپنی جانب سے ایک شخص کو بھیج دیتا ہے ، وہ ان کو پوری اجازت دیتا ہے کو وہ اپنے اس مایہ ناز کمال کو جس نے ان کی جراتوں کو بڑھا کر فرعون بے سامان اور نمرود وقت بنا دیا تھا، جسکو وہ اپنی زبردست فوج اور خونخوار ہتھیا ر سمجھ رہے تھے اس کے مقابلہ میں پوری طرح صرف کر کے دل کی حسرتیں نکال لیں اور اپنے جوش و ولولے پورے کر لیں ، وہ ان کو اسی فن میں اپنا اعلٰی کمال دکھلا کر ان کا سر نیچا کر دیتا ہے اور خدائی قوت کے مقابلہ میں ان کے کمال کو انہیں کی نظر میں ہیج اور بے حقیقت ثابت کر دیتا ہے اور ان کے متاع کبرو غرور ہی کو ان کے لئے سب سے بہتر اور موثر تر معلم عجزو انکسار اور سبق آموز عبدیت بنا دیتا ہے وہ ان کے مرض غفلت کے باعث اصلی اور سبب اوّلی کا علاج کرتا ہے اور انکی ضلالت وگمراہی کی اصل اساس کو جس پر بغاوت و طغیان کی سر بفلک عمارتیں بنی ہوئی تھیں جڑ سے اکھاڑ پھینکتا ہے اس طرح ان کا جمود و تغافل بآسانی کا فور ہو جاتا ہے انکے خیالات اصلی پا جاتے ہیں اور راہ کے بھٹکے ہوئے سیدے راستہ پر لگ جاتے ہیں۔
محمد ﷺ کو معجزہ قرآن دیے جانے کی حکمت :
جس طرح کہ آنحضرت کو صف انبیاء و رسل میں ایک خاص امتیاز حاصل ہے اسی طرح آپ کو درگاہ الٰہی سے ایک ایسا معجزہ بھی کرامت ہوا ہے جو معجزات کے درمیان میں ممیزو ممتاز حیثیت رکھتا ہے اہل اسلام کو ناز ہے اور ان کو مقام فخر میں کہنا زیبا ہے کہ جس طرح ہمارا رسول اشرف الانبیاء و المرسلین ہے اسی طرح اس کا ایک معجزہ بھی افضل المعجزات و الآ یات ہے اور وہ معجزہ قرآن مجیدہے۔ یہ معجزہ دیے جانے کی بہت سی حکمتیں ہیں ۔
پہلی حکمت
گزشتہ تحریر میں پیش کردہ انہیں وجوہ اسباب کی جہت سے انبیاء کرام سلام اللہ علیہم اجمعین کو محتلف اوقات و ازمان میں فنون مخصوصہ کے مقابل معجزات کرامت ہوئی ایک زمانہ میں جبکہ عالم پر سحر کا افسوں پوری طرح چل چکا تھا اور دنیا جادوگری کا کلمہ پڑھ رہی تھی جناب موسیٰ نے عصائے سحر نوش کا معجزہ دکھلا کر ساحروں کو ہار منوا دی ایک وقت تھا کہ فن موسیقی کا طوطی بول رہا تھا جناب داؤد اپنے لحن کو مقابل میں رکھ کر اس کو شکست فاش دی۔ جناب عیسیٰ نے اپنے زمانہ میں ابرار لک دابرص اور احیا ہوتی کے معجزات دکھلا کر اطباء عالم کے مایہ ناز کمال پر قلم کھینچ دیا۔
بالکل اسی مذّاق و سیاق پر جناب رسالت مآب ﷺ کو معجزہ قرآن مجید کرامت فرمایا جس نے یکبارگی ان کے چراغوں کو گل کردیا ، ذہنوں پر مہر سکوت لگا دی اور فضاء عالم میں جس کے اندر بھی ابھی آوازوں کے تصادم کی وجہ سے ایک قیامت خیز تلاطم برپا تھا یکا یک سناٹا چھا گیا، قرآن مجید کے تفّنن کلام کا عربوں کے قلوب پر سکہ قائم ہو گیا اور وہ قرآن کی فصاحت وبلاغت کا لوہا مان گئے۔ مایہ نازسخنوروں کے چیدہ قصائد جو عرب کے متاع شعر میں سب سے زیادہ گرانقدر ثابت ہو چکے تھی اور ماہرین فن سے روح فصاحت وجان بلاغت ہونے کا تمغہ حاصل کر چکے تھے جن کا حرف حرف عرب کے بچہ بچہ کی نوکِ زبان تھا اور ان کو حریر پر آب زر سے لکھ کر فخرو مباہات کے لئے کعبہ کی دیوار وں میں منظر عام پر آویزاں کیا گیا تھا خاموشی کیساتھ ج ان کی شکست کا بیانگ و اہل اعلان کر رہی تھی خجالت کے ہواتھوں کعبہ کی دیواروں سے اتر تے نظر آئے۔
ٍ عرب کے لئے سہولت کے مواقع:
اگر اہل عرب قرآن کا مقابلہ کر سکتے تھے تو ان کو بہت کافی زمانہ ایسا ملا جس میں اسلام اور اہل اسلام کفارسے مغلوب اور بالکل بے دست دپا تھے ۔ جناب رسالت مآب ﷺ کی مکہ کی زندگی کازمانہ فصحائے عرب کے ل لیئے کیا کم تھا کہ وہ اس میں قرآن کاشل تیار کر کے پیش کر دیں ، اگر مکہ ہی میں فصاحت وبلاغت قرآن کو شکست ہو جاتی تو قرآن کے تمام دعوے اسی وقت ہو ا تھے اور دین محمدی کا بآسانی اسی روز خاتمہ ہو جاتا۔ اسلام کو پھر سے سر اٹھانے کا موقع ہی نہ ملتا اور کفار عرب کو غلبہ اسلام کا روز بد دیکھنا ہی نصیب ہوتا پھر جب جناب رسالت مآب مدینہ تشریف لے گئے تب بھی اہل مکہ اور قرب و جوار کے لوگوں کو آزادی حاصل تھی اور وہ سہولت اس خدمت کو انجام دے سکتے تھے ، پھر آنحضرت کی مدینہ کی اخیر زندگی میں جبکہ مکہ مدینہ اور قرب اور قریب کے بعض دیگر مقامات اسلام کے زیرِ نگیں آ چکے تھے، حجاز کے اطراف و جوانب ، عراق نجد ، خضر موت ، عمان، بحرین کے جملہ آزاد مقامات ، روم و شام وفارس کے تمام فتوحات اسلامیہ کے سیلاب سے بالکل مامون تھے اپنی آغوش تمناکشاں کئے رہے کفار عرب ان پر امن مقامات پر مسلمانوں کے شر سے بالکل محفوظ رہکر یہ کام بآسانی سر انجام د ے سکتے تھے اسلام کی ابتدائی نشوونما کے عالم میں حمیت و غیرت کفار مکہ کا اپنے خداؤں کے لئے ناگوار الفاظ سن کر کان ڈہلکا لینا اور اپنے بزرگوں کی نسبت نا قابل تحمل فقرات پر خاموش ہو جانا۔ اور پھر جب اسلام میں کچھ قوت اور اپنے پیروں پر کھڑا ہو جانیکی قابلیت پیدا ہو گئی تو مسلمانوں کا تلوار سے مقابلہ کر کے اپنی ہستیوں کو خاک میں ملا کر اپنی جان و مالو عرض و آبرو کو جنا کر دینا ، یہ تمام باتیں اس امر کا پورا ثبوت ہیں کہ وہ ہر گز قرآن کا مقابلہ کرنے پر قادر نہ تھے ، ورنہ اپنی کامیابی کی ایک آسان صورت چھوڑ کر دشوار گزارا اور مصیبت ناک طریقوں کو نہ اختیار کرتے۔
وہ بلاغت کے قرآن کے مقابلہ کے لئے تمام عالم کے مسلّمہ نمایندہ تھے ، اور جس طرح اس فن میں ان کی کامیابی تمام عالم کی فتح کہلاتی اسی طرح قرآن کے مقابلہ میں ان کی شکست بھی سارے جہاں کی شکست ہی مختصر یہ کہ اگرچہ معجزہ قرآن اس پہلو سے ہر شخص پر بلا واسطہ حجت نہیں لیکن جس طرح کہ فنی معجزات عموماََ کاملین فن کے توسط سے حجت ہوا کرتے ہیں۔ قرآن مجید بھی اہل عرب کے توسط سے تمام
عالم پر حجت ہے
دوسری حکمت:قرآن مجید دوامی معجزہ
قران مجید میں ایك زبردست نكتہٴ حكمت یہ بھی ہے كہ انبیاءِ سابقین كو جتنے بھی معجزات دیئے گئے وہ سب وقتی اور آنی تھے۔ جناب ابراہیمؑ كے لیے آگ گلزار ہوئی مگر وہ ایك وقتی اور آنی معجزہ تھا جو ظاہر ہوكر ختم ہوگیا۔ جناب موسیٰؑ نے عصا كو اژدہا بنایا مگر ایك بات ہوئی اور تمام ہوگئی۔ جناب داؤدؑ نے لحن كا معجزہ دكھایا لیكن یہ معجزہ اُسی وقت تك موجود رہا جب تك كہ آواز آپؑ كے دہن مبارك سے نكل كر فضا كو شگافتہ كرتی ہوئی سننے والوں كے كانوں كے پردوں سے ٹكراتی رہی اور جب دہن سے آواز نكلنا بند ہوا تو فوراً معجزہ بھی ختم ہوگیا۔ یا مثلاً جناب داؤدؑ كے مبارك ہاتھوں كی تاثیر سے لوہا نرم ہو جاتا تھا لیكن اس معجزہ كا وجود بھی اسی وقت تك رہتا جب تك لوہا آپؑ كے ہاتھوں میں نرم ہوتا نظر آئے۔ جناب عیسیٰؑ نے مردوں كو زندہ كیا۔ بس جتنا وقت مردے كے زندہ كرنے میں صرف ہوا اتنے وقت تك معجزہ كا عالم میں وجود تھا، پھر ختم۔ اگرچہ بعض معجزات كی یادگاریں عالَم میں كچھ مدت تك باقی بھی رہیں مثلاً زندہ كیا ہوا مردہ جس مدت تك بعد میں زندہ رہا تو وہ شخص جناب عیسیٰؑ كا معجزہ نہیں بلكہ معجزہ كی یادگار ہے اس لیے كہ معجزہ مردہ كا زندہ كرنا ہے نہ كہ زندہ كیا ہوا مردہ ۔ اسی طرح اگر جناب عیسیٰؑ نے كسی مبروض كو شفا دی یا كورِ مادر زاد كو بینا كردیا تو جتنا وقت مبروض كا علاج كرنے اور كورِ مادر زاد كو شفا دینے میں صرف ہوا، اتنے وقت تك معجزہ عالم میں موجود تھا۔ اُس كے بعد جس وقت تك یہ بینا اور شفا یافتہ زندہ رہے اُس وقت تك اُن معجزات كی یادگاریں موجود رہیں لیكن معجزات وقتی اور آنی تھے جس كو زمانے كا چكر اپنے ساتھ لپیٹتا ہوا لے گیا۔ البتہ صرف تاریخی واقعات كی حیثیت سے ان معجزات كے تذكرے تاریخِ عالم كی لسانی یا كتابی صفحات كی زینت رہیں گے۔
تمام معجزات میں معجزہٴ قرآن كی ایك مخصوص شان یہ ہے كہ دیگر معجزات پر جتنا زمانہ گزرتا رہا، اُن كی قوت ضعف سے بدلتی گئی لیكن قرآن مجید پر جتنا زمانہ گزرتا جا رہا ہے، اُس كی طاقت میں ضعف پیدا ہونے كی بجائے اور اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ رات كے بعد ہر آنے والا دن اور دن كے بعد ہر آنے والی رات اِس معجزہ كی قوت كو بڑھاتی ہوئی آتی ہے۔
تیسرئ حکمت :تعلیمات کی حفاظت
معجزہ قران میں ایک راز حکمت یہ بھی مضمر ہے کہ قران مجید کااعجاز تعلیمات اسلام کا زبردست محافظ اور ان کے بقاء کا پورا ذمہ دار ہے . خلاق عالم نے جس قدر بھی کتابیں اور آسمانی صحیفے نازل فرمائے وہ سب ایام اور انقلابات زمانہ کی وجہ سے یا تو صفحہ ہستی سے بلکل نیست ونابود ہوگئے یا کم از کم ان میں اس قدر تغیرات اور تحریفات عمل میں آئے کہ وہ اصل کتاب اور اصل صحیفہ سے حد درجہ مختلف اور اگر بلکل معدوم نہیں تو کم ازکم کالعدم ضرور ہوگئے .
مرض قدیم کا علاج؛
امراض کے معالج آئے لیکن اس مرض کا کوئی علاج ساتھ لے کر نہ آئے لیکن ہاں آخری مسیحا نے اس لاعلاج مرض کا بھی مکمل علاج کر دیا اور آنے کے ساتھ ہی ان تعلیمات کے لیے حیاتِ جادوانی کا ایک نسخہ بھی ساتھ لیتا آیا اور اب قیامت تک کے لیے اس مرض کے دوبارہ عود کرنے کا اندیشہ ہی باقی نہ رہا۔ اب خدائی تعلیمات ہمیشہ آپ کو اصلی صورت اور اپنی اصلی طاقت پر نظر آئیں گی اور ان میں کبھی ضعف و اضمحلال اور اختلاط و اختلاف محسوس نہیں ہوگا۔ اور اس آخری آنے والے نے قرآنی تعلیمات کی جڑوں میں اعجاز کا ایسا چشمہ بہا دیا ہے جو کبھی خشک نہیں ہوگا اور اب تک حقیقی تعلیمات کو ہر دم تازہ اور سدا بہار رہے گا ___!
تعلیمات ربانی خرق عادت کی ذرہ سج کر اور اعجازی حصار میں محصور ہوکر اب ہمیشہ کیلئے محفوظ و مصنون اور قیامت تک آنےوالے افراد کے سامنے اپنی فطری صورت اور اصلی لباس میں آنے کی ذمہ دار ہوگئیں __!لَّا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ
اب دروازہ پوری طرح مقفل و مسدود ہوگیا ..
الہی تعلیمات پر اعجاز نے رجسٹری کردی اب انسانی افکار خدائی دین اور ربانی مذہب کیساتھ کسی طرح شامل اور مخلوط نہیں ہو سکتیں ۔ اب اگر کوئی باہمت خدائی کتاب میں اپنی جانب سے کوئی ترمیم یا اضافہ کرنا چاہے تو اس پر لازم ہے کہ پہلے اپنی کلام میں زور اعجاز پیدا کرے ایسی ہی رجسٹری شدہ عبارت لائے۔
چوتھی حکمت.سابقہ واقعات كی تاریخی حیات:
یہ حقیقت ناقابلِ انكار ہے كہ تاریخی واقعات كی زندگی كی كمی اور زیادتی كا معیار اُن كی شہرت كی كمی اور زیادتی پر منحصر ہے۔ جتنی شہرت كم ہوتی جائے گی، اتنا ہی اُن واقعات كی تاریخی حیات میں ضعف پیدا ہوتا جائے گا۔ كسی واقعہ كو گزرے ہوئے جتنا زمانہ زیادہ گزرتا جاتا ہے، اُس كے چرچے اور اُس كے تذكرے كم ہوتے جایا كرتے ہیں اور اُس واقعہ كی تاریخی حیات میں كمزوری پیدا ہوتی جاتی ہے اور بالآخر گردشِ زمانہ ایك وقت ایسا پیش كردیتی ہے كہ لوگ اُس واقعہ كا ذكر بھول جاتے ہیں اور عالمِ تاریخ میں اُس كی شمعِ حیات گل ہوجاتی ہے۔ تاریخ اِس حقیقت كی شہادت دیتی ہے اور بہت سی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ آج گزشتہ اُمّتوں كے بیشتر واقعات ہم كو نہیں معلوم۔ اُن كی تاریخی زندگی ختم ہوچكی۔ بعض قوموں کے واقعات كا دھندلا سا خاكہ ہمارے سامنے ہے، لیكن اختلافات سے پُر اور اطمینان كے ساتھ نہیں كہا جا سكتا كہ ان واقعات كی دراصل صورتحال اور واقعی نوعیت كیا تھی۔ اُس كی وجہ بھی یہی ہے كہ اُن واقعات كی تاریخی زندگی حد درجہ مضمحل ہوچكی ہے.
انبیاء كے معجزات بھی تاریخی واقعات كی فہرست میں مندرج ہوئے اور دیگر واقعات كی طرح روز بروز اُن كے تذكرے بھی مضمحل ہوتے گئے..
قرآن مجید نے آکےنہ صرف آنحضرتﷺ كی نبوت و رسالت كو دنیا كے سامنے پیش كرنے كا بیڑہ اُٹھایا ہے بلكہ خاتم النبیینﷺ كی نبوت كی سرپرستی میں اجمالاً یا تفصیلاً جملہ انبیائے ماسلف كی نبوتوں كو، جن كے اثبات كے لیے آج دنیا كی كوئی دستاویز كارآمد نہیں تھی، تمام عالم سے تسلیم كرادیا اور نہ صرف وقتی طور پر بلكہ اپنے اعجازی مستحكم حصار میں لے كر ہمیشہ كے لیے ناقابلِ انكار بنا دیا۔
قرآن مجید كا دیگر اُمم پر احسان:
انبیائے سابقین كی اُمّتوں كو غور كرنا چاہیے كہ اُن كے لیے یہ امر كس درجہ ننگ و عار كا باعث تھا كہ وہ جن ہستیوں كو اپنا پیشوا سمجھتے ہیں اُن كو خود ہی اُن كی معرفت سے كوئی بہرہ نہ تھا چہ جائیكہ وہ عالَم سے اُن كا تعارف كراكے اُن كے لیے دنیا كی نمایاں ہستیوں میں كوئی عزت كی جگہ دلا سكتے۔
بائبل نے تو ان امتوں كو كہیں كا نہ ركھا تھا۔ اُن كی عزت و خودداری كو بائبل كے بیانات نے جیسا نقصان پہنچایا تھا، یہ لوگ اُس كی تلافی پر كسی طرح قادر نہ تھے۔ بائبل اُن كے ذی عزت و عظمت اسلاف كو پوری طرح گمنام بلكہ بدنام بناكر قصرِ مذلت كے آخری درجہ میں پہنچا چكی تھی اور دوستی كے لباس میں دشمنی كا پورا كام طے كرچكی تھی۔
ان اُمتوں كو قرآن مجید كا یہ احسان كسی وقت بھی فراموش نہ ہونا چاہیے كہ اس نے آڑے وقت میں اُن كی دستگیری كی، اُن كے عرصہ كے بچھڑے ہوئے اسلاف سے اُن كو ملایا، اُن كے حقیقی مراتب اور عظمتِ واقعی كے ساتھ اُن كو دنیا سے روشناس كراتے ہوئے عالَم كے سب سے بلند طبقہ میں اُن كو جگہ دی اور اس طرح اسلاف كی شان كو اُجلا كركے اخلاف كی حیثیت كو بھی عالَم كی نظر میں روشن كردیا۔
قرآن مجید كا احسانِ عام:
بلكہ قرآن مجید كا یہ احسان تمام نوعِ انسانی پر ہے كہ طبقہٴ انبیاء یعنی صنفِ انسان كی اعلیٰ ترین ہستیاں جن كی مبارك سیرتیں انسانی تاریخ كی زینت ہیں اور جن كا انسانی نگاہ كے سامنے رہنا انسان كے دل میں انسانیت كو ترقی دینے كا ہر آن و ہر لحظہ ایك نیا جذبہ پیدا كرنے والا ہے اور جن كا نگاہ سے اوجھل ہوجانا انسانیت كے نقطہٴ نظر سے بنی آدم كا سب سے بڑا نقصان ہے جب انسان قدرت كے اس گرانبہا عطیہ كو خود اپنے ہاتھوں كھو كر خزانہٴ انسانیت كو دیوالیہ بنا چكا تو خلّاقِ عالَم كی بارگاہ سے قرآن مجید كے مبارك ہاتھوں نہ صرف گزشتہ نقصان كی تلافی ہوئی بلكہ مزید اہم ترین اضافہ اور آئندہ ہمیشہ كی حفاظت و نگرانی كی ذمہ داری كے وعدہ كے ساتھ ساتھ اِس آسمانی عطیہ كی تجدید عمل میں آئی۔
قرآن صرف بلاغت کے لحاظ سے ہی معجزہ نہیں ہے..!
آج عالم میں تمدن و تہذیب کا دور دورہ ہے عصر موجود روشنی کا زمانہ کہلاتا ہے دنیا ترقی کی منزلیں طے کر رہی ہے آئے دن نئے نئے علوم و فنون ہمارے سامنے آرہے ہیں ۔ قران مجید کا یہ معجزہ ہے کہ اس کی آیات و بینات کی سچائی کو کوئی جدید علم بھی جھٹلا نہیں سکا. بلامبالغہ چودہ صدی کے بعد بھی
جغرافیہ ہندسہ سائنس کے تمام شعبے علم طبقات الارض , علم جمادات ,علم نباتات , علم حیاتیات ,علم طبیعات علم اقتصادیات ,علم جرثقیل , علم تشریح , علم افعال الاعضاء علم جراحی علم طب ,علم السنہ , علم تہذیب و اخلاق , تدبیر منزل ,سیاست , مدن منطق و فلسفہ اسی طرح تمام علوم روحانیہ , توحید نبوت , معاد غرض ترقی یافتہ دنیا کے علوم وفنون کے متعلق قرآنی اشارے اور تفصیلات حیران کن حد تک درست ہیں , اور یہ ہر علم کے بہترین ماہر کیلئے اس کے مخصوص فن میں بھی ہدایت کا سامان بن جاتی ہیں. اور جس طرح گذشتہ تاریخ میں اور موجودہ دور میں ہم قران مجید کو دنیا کی ترقیوں سے منزلوں سے آگے دیکھتے رہے اور دیکھ رہے ہیں اسی طرح دنیا جتنی ترقی کرتی جائی گی قران مجید کی مزید تفصیلات روشنی میں آتی رہیں گی, زمانے کی تبدیلی/ترقی بجائے اسکے بیانات کو فرسودہ کرنے کے اسکا معجزہ اور غیر انسانی کلام ہونا ہی ثابت کرتی رہے گی ____!!!