بڑی تعداد میں مستشرقین و ملحدین قرآن و سنت کے مختلف گوشوں کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور اپنی مرضی کے ”منطقی دلائل“ پیش کر کے کہا جاتا ہے کہ فلاں بیان فلاں وجہ سے صحیح نہیں ہے۔ یہ لوگ آیات کا سیاق و سبا ق اپنی مرضی کا کشید کرتے ہیں یا سیاق و سباق کو بالکل نظر انداز کرتے ہوئے صرف آیت کی سٹیٹمنٹ کو ہی کافی سمجھتے ہیں ۔ جبکہ قرآن مجید کی کسی آیت کے صحیح مطلب کو سمجھنے کے لئے اس آیت کا شان نزول اور آیت میں استعمال زبان کو صحیح طور پر سمجھنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ کسی آیت کے متعلق سمجھنا درست نہیں کہ وہ تنہا کھڑی ہے اور بغیر کسی بیرونی معلومات کے سمجھی جا سکتی ہے۔ قرآن مجید کی ایک آیت جس کا عموماً غلط مفہوم کیا جاتا ہے، جس میں رحم مادر اوراوقاتِ بارش کے متعلق اللہ تعالی کے اختصاصی علم کے متعلق بات کی گئی ہے ، اس آرٹیکل میں جدید سائنس کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ واضح کیا گیا ہے کہ کیسے اس متعلق مدعیان کے دعوے بے بنیاد ہیں۔
تعارف
قرآن مجید کے متعلق اٹھائے گئے عمومی سوالات میں سے ایک سوال اس آیت کے متعلق ہے:
إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ ۔
بےشک قیامت کا علم الله ہی کو ہے اور وہی بارش برساتا ہے اور وہی جانتا ہے جو کچھ رحموں میں ہے۔ اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کیا عمل کرے گا اور یہ کہ وہ کس زمین میں مرے گا ۔بےشک الله تعالیٰ سب باتوں کا جاننے والا خبیر ہے۔ (لقمان 31:34)
جب سے موسم کی کیفیت کے متعلق پیشگوئی کرنا اور مادر شکم میں پیدا ہونے والے بچہ کی جنس کا پتا لگا لینا ممکن ہوا ہے، یہ اعتراض عام دوہرایا جارہا ہے کہ سائنس کی ترقی نے اس آیت کو غلط ثابت کر دیا ہے۔ اس آیت کو سمجھنے کے لئے ہمیں آیت کے پس منظر پر اور آیت میں علم کی کون سی قسم مذکورہ ہے اس پر غور کرنا ہو گا۔
آیت صرف علم غیب کے متعلق بات کرتی ہے
آیتِ موضوع میں صرف اور صرف علم غیب کے متعلق ہے نہ کہ دوسری طرح کے علوم کے متعلق۔ سورۃ الانعام میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَعِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (الانعام 6:59)
اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جن کو بجز اس کے اور کوئی نہیں جانتا اور اس کو خشکی اور تری کی سب چیزیں معلوم ہیں۔
اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے حضور ﷺ کے ایک صحابی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
عن ابن عباس:” وعنده مفاتح الغيب “قال: هن خمس: إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنزلُ الْغَيْثَ إلى إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ، سورۃ لقمان 34(تفسیر طبری جلد 11 صفحہ 402 الرقم:13307 مطبوعہ مؤسسۃ الرسالۃ 2000)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ” وَعِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ “ پانچ چیزیں ہیں، جن کا علم اللہ کے سوا کسی کو بھی نہیں ہے کہ قیامت کب آئے گی، بارش کب ہو گی اور رحموں میں کیا ہے۔ اور کسی نفس کو علم نہیں کہ کل کیا ہو گا ، اور کسی نفس کو علم نہیں کہ اس کو موت کہاں آئے گی۔ بے شک اللہ تعالیٰ سب باتوں کا جاننے والا خبیر ہے۔
علم غیب کیا ہے؟
سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ غیب کا مطلب کیا ہے۔ جید حنفی سکالر النسفی(المتوفی 710ھ) لکھتے ہیں:
”والغيب وهو ما لم يقم عليه دليل“(تفسیر نسفی جلد 2 صفحہ 617 مطبوعہ دار الکلم طیب بیروت1998ء)
”اور غیب وہ ہے جس پر کوئی ثبوت نہیں ہے“۔
لہٰذا وہ علم جو وحی سے یا مشاہدے کی بنیاد پر حاصل ہوتا ہے وہ ”علم غیب“ نہیں ہے چنانچہ انکے ذریعے کسی کا جنس کا پتا لگا لینا یا موسمی کیفیت کا مظاہر کو دیکھتے ہو پیشگوئی کرنا اس آیت کے زیر نہیں آتا۔
آیت کا شان نزول
آیت سے صرف یہ مراد نہیں کہ صرف مذکورہ پانچ چیزیں ہی اللہ تعالیٰ کے علم مطلق میں ہیں، بلکہ یہ پانچ چیزیں، پانچ سوالات کے جواب میں بتلائیں گئیں ہیں جیسے کہ سیاق سباق سے ذیل میں بتلایا گیا ہے۔
وارث بن عمرو نامی ایک بدو حضور ﷺ کے پاس آیا اور ان سے پوچھا کہ: ”قیامت کب آئے گی؟ پھر اس نے پوچھا کہ ہماری زمینیں قحط زدہ ہیں، بارش کب ہو گی؟ میں اپنی بیوی کو اس حالت میں چھوڑ آیا کہ وہ حاملہ تھی، میری حاملہ بیوی کیا جنے گی؟ میں نے کل اور آج جو کچھ کیا وہ تو مجھے معلوم ہے مگر میں آئندہ کل کیا کروں گا ؟ اور یہ کہ مجھے اپنی جائے پیدائش کا علم ہے مگر میری موت کہاں واقع ہوگی ؟“۔ یہ آیت اس بدو کے جواب میں نازل ہوئی کہ ان چیزوں کا حقیقی علم صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کو ہے۔(فتح القدیر للشوکانی جلد 4 صفحہ 282 مطبوعہ دار ابن کثیر دمشق 1414ھ)
علامہ مودودی وضاحت فرماتے ہیں:
” یہاں ایک بات اور بھی اچھی طرح سمجھ لینی ضروری ہے ، کہ اس آیت میں امور غیب کی کوئی فہرست نہیں دی گئی ہے جن کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں ہے ۔ یہاں تو صرف سامنے کی چند چیزیں مثالاً پیش کی گئی ہیں جن سے انسان کی نہایت گہری اور قریبی دلچسپیاں وابستہ ہیں اور انسان اس سے بےخبر ہے ۔ اس سے نتیجہ نکالنا درست نہ ہو گا کہ صرف یہی پانچ امور غیب ہیں جن کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ حالانکہ غیب نام ہی اس چیز کا ہے جو مخلوقات سے پوشیدہ اور صرف اللہ پر روشن ہو، اور فی الحقیقت اس غیب کی کوئی حد نہیں ہے “۔(تفہیم القرآن جلد 4 صفحہ 29 مطبوعہ ادارہ ترجمان القرآن لاہور)
زیر بحث آیت میں علم سے کیا مراد ہے؟
یہ بالکل واضح ہے کہ یہاں علم سے مراد اس طرح کا علم نہیں جس میں اندازہ دہی کے لئے بھی کچھ علمی ڈگریوں کی ضرورت ہو، جو علم کئی طریقوں سے حاصل کیا جا سکتا ہے مثلاً خوابوں، سازو سامان، سوجھ و بوجھ کے ذریعے وغیرہ، اس طرح کا علم اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص نہیں بلکہ در حقیقت یہ اللہ تعالیٰ کے علم سے مناسبت بھی نہیں رکھتا۔ مثلاً ایک شخص بادلوں سے اندازہ لگائے کہ بارش برسے گی، سورۃ القمان کی زیر بحث آیت میں اس طرح کا علم مراد ہی نہیں ہے۔ عظمتِ خداوندی بھی اس بات کے شایان شان ہے کہ یہ علم کی وہ قسم ہونی چاہیے جو صرف اور صرف اللہ تعالیٰ سے منسوب ہو اور اس کی ذات واحد سے خاص ہو۔ چنانچہ وہ علم جو ہر ایک کو معلوم ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ منسوب ہو گا۔ اور وہ تمام مشترکہ علم بھی اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے۔اختصار کی غرض سے ہم وسیع معنوں میں اللہ تعالیٰ کے علم کی دو حصوں میں درجہ بندی کر سکتے ہیں:
۱)وہ علم جو کسی بھی ذریعہ سے حاصل نہیں کیا جا سکتا یعنی علم غیب۔
۲)وہ علم جو ہر چیز کا اور اس کی ہر یک تفصیل کا گھراؤ کئے ہوئے ہے یعنی علم محیط۔
درج ذیل آیت اس بات کو واضح کرتی ہے:
وَعِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (الانعام 6:59)
”اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جن کو بجز اس کے اور کوئی نہیں جانتا اور اس کو خشکی اور تری کی سب چیزیں معلوم ہیں“۔
یہ آیت علم غیب کے علاوہ کامل اور ہر چیز پر محیط علم کے متعلق ہے، جیسا کہ” مَا “ کے لفظ سے پتا چلتا ہے جو یہاں ہر چیز کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔
انسانی علم ان دونوں قسموں میں سے نہیں
انسانی علم نہ تو انڈیپینڈینٹ ہے اور نہ ہی قطعی۔ ایک ڈاکٹر کسی شخص کی نبض پر ہاتھ رکھ کر کئی نتائج حاصل کر سکتا ہے مگر یہ علم کسی ذریعہ سے حاصل شدہ ہے۔ اسی طرح ایک شخص دور سے اٹھتے دھوئیں کو دیکھ کر سمجھ لیتا ہے کہ وہاں آگ ہے، لیکن اس شخص نے اٹھتے ہوئے دھوئیں سے یہ علم حاصل کیا ہے۔ اس لئے اس علم کو علم غیب نہیں کہا جا سکتا ۔ کیونکہ ہم پہلے ہی جانتے ہیں کہ مہیا کیا گیا یا انتقال شدہ علم، علم غیب نہیں ہو سکتا ہے۔ مختصر یہ کہ کوئی بھی علم جو کسی ذریعہ پر منحصر ہے علم غیب نہیں کہلایا جا سکتا۔ جیسے مثال کے طور پر اگر کسی ڈاکٹر سے حاملہ عورت کے لائے بغیر پوچھا جائے کہ اس عورت کے پیٹ میں موجود بچے کی جنس کیا ہے؟ تو ڈاکٹر یہ بتانے سے قاصر ہے، کیونکہ اس کا علم منحصر علی الذات ہے۔ اسی وجہ سے یہ علم زیر بحث آیت کے بیان کے انڈر نہیں آتا۔
مزید ایسے ہی سائنسی علم قطعی نہیں ہے۔ بارش کے متعلق جاننا شاید آسان ہو مگر یہ قطعی طور پر نہیں کہا جا سکتا ہے کہ دنیا میں، ہر ایک جگہ پر کب اور کتنی بارش ہو گی۔ جیسا کہ فرشتے بارش کو برسانے کا فعل انجام دیتے ہیں مگر ان کے بھی علاقہ جات مختص ہوتے ہیں جن کے متعلق ان کو علم دیا جاتا ہے۔ علم قطعی و کامل صرف اللہ تعالیٰ کی ذات برحق کو ہے۔
رحم مادر میں کیا ہے کے علم کا انتقال ممکن ہے
سورۃ لقمان کی اس آیت 34میں اکیلے خدا کی ملکیت علم کو ظاہر کرنے کے لئے لفظ ”عند“ استعمال ہوا ہے اور یہی لفظ ثواب کے لیے بھی استعمال کیا گیا ہے ، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ علوم دوسروں کو بھی عطا کئے جا سکتے ہیں۔ رحم مادر میں موجود بچہ کے جنس معلوم کر لینے کے متعلقہ سائنسی علوم میں ہونے والی اس ترقی سے بہت پہلے مسلمان علماء نے ذکر کر دیا تھا کہ یہ علوم دوسروں کو عطا کئے جا سکتے ہیں۔ علامہ آلوسیؒ تفسیر روح المعانی میں لکھتے ہیں:
أنه عزّ وجلّ إذا أمر بالغيث وسوقه إلى ما شاء من الأماكن علمته الملائكة الموكلون به ومن شاء سبحانه من خلقه عزّ وجلّ، وكذا إذا أراد تبارك تعالى خلق شخص في رحم يعلم سبحانه الملك الموكل بالرحم بما يريد جلّ وعلا كما يدل عليه ما أخرجه البخاري عن أنس بن مالك عن النبي صلّى الله عليه وسلم قال: «إن الله تعالى وكل بالرحم ملكا يقول: يا رب نطفة يا رب علقة يا رب مضغة فإذا أراد الله تعالى أن يقضي خلقه قال: أذكر أم أنثى شقي أم سعيد فما الرزق والأجل؟ فيكتب في بطن أمه فحينئذ يعلم بذلك الملك ومن شاء الله تعالى من خلقه عزّ وجلّ۔
جب اللہ کسی جگہ بارش برسانے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ متعلقہ جگہ پر مامور بارش کے فرشتوں کو اس کا علم دے دیتا ہے، اسی طرح مخلوق میں سے جس کو وہ چاہتا بتا دیتا ہے۔ بالکل اسی طرح جب اللہ تعالیٰ شکم مادر میں کیسی کو پیدا کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ اس کام پر مامور فرشتوں کو علم دہ دیتا ہے جو اس کام کو سر انجام دیتے ہیں۔ پس جیسا کہ ہم صحیح بخاری میں دیکھتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے رحم مادر پر ایک فرشتہ مقرر کر دیا ہے اور وہ کہتا رہتا ہے کہ اے رب ! یہ نطفہ قرار پایا ہے ۔ اے رب ! اب علقہ یعنی جما ہوا خون بن گیا ہے ۔ اے رب ! اب مضغہ ( گوشت کا لو تھڑا ) بن گیا ہے ۔ پھر جب اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس کی پیدائش پوری کرے تو وہ پوچھتا ہے اے رب لڑکا ہے یا لڑکی ؟ نیک ہے یا برا ؟ اس کی روزی کیا ہو گی ؟ اس کی موت کب ہو گی ؟ اسی طرح یہ سب باتیں ماں کے پیٹ ہی میں لکھ دی جاتی ہیں۔(الرقم:6595) “ اور ان سب باتوں کا علم فرشتہ خدا سے پاتا ہے اور مخلوق میں سے جسے اللہ چاہے یہ علم عطا کر دیتا ہے۔(روح المعانی جلد 11 صفحہ 109 مطبوعہ دار الکتب علمیہ بیروت 1415ھ)
اسی طرح تاریخ میں اس سے بھی پہلے ہم دیکھ سکتے ہیں ، علماء اس علم کے انتقال کی بات کرتے ہیں ۔ تفسیر ابن کثیر میں حافظ عماد الدین ابن کثیرؒ لکھتے ہیں:
”هَذِهِ مَفَاتِيحُ الْغَيْبِ الَّتِي اسْتَأْثَرَ اللَّهُ تَعَالَى بِعِلْمِهَا، فَلَا يَعْلَمُهَا أَحَدٌ إِلَّا بَعْدَ إِعْلَامِهِ تَعَالَى بِهَا، فَعِلْمُ وَقْتِ السَّاعَةِ لَا يَعْلَمُهُ نَبِيٌّ مُرْسَلٌ وَلَا مَلَكٌ مُقَرَّبٌ لَا يُجَلِّيها لِوَقْتِها إِلَّا هُوَ، وَكَذَلِكَ إِنْزَالُ الْغَيْثِ لَا يَعْلَمُهُ إِلَّا اللَّهُ وَلَكِنْ إِذَا أَمَرَ بِهِ عَلِمَتْهُ الْمَلَائِكَةُ الْمُوَكَّلُونَ بذلك، ومن يشاء اللَّهُ مَنْ خَلْقِهِ، وَكَذَلِكَ لَا يَعْلَمُ مَا في الأرحام مما يريد أن يخلقه تَعَالَى سِوَاهُ، وَلَكِنْ إِذَا أَمَرَ بِكَوْنِهِ ذِكْرًا أَوْ أُنْثَى أَوْ شَقِيًّا أَوْ سَعِيدًا، عَلِمَ الملائكة الموكلون بذلك، ومن شاء الله من خلقه، وكذا لَا تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا فِي دُنْيَاهَا وَأُخْرَاهَا وَما تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ فِي بَلَدِهَا أَوْ غَيْرِهِ مِنْ أَيِّ بِلَادِ اللَّهِ كَانَ، لَا عِلْمَ لِأَحَدٍ بِذَلِكَ “
یہ غیب کی وہ کنجیاں ہیں جن کا علم اللہ تعالی نے کسی اور کو نہیں دیا ۔ مگر سوائے اُس کے جس کو اللہ علم عطا فرمائے ۔ قیامت کے آنے کا صحیح وقت نہ کوئی نبی مرسل جانتا تھا اور نہ کوئی مقرب فرشتہ، اس کا وقت کا علم صرف اللہ ہی جانتا ہے۔ اسی طرح بارش کب اور کہاں اور کتنی برسے گی اس کا علم بھی کسی کو نہیں ہاں جب فرشتوں کو حکم ہوتا ہے جو اس پر مقرر ہیں تب وہ جانتے ہیں اور مخلوق میں سے جسے اللہ معلوم کرائے۔ اسی طرح حاملہ کے پیٹ میں کیا ہے؟ اسے بھی صرف اللہ ہی جانتا ہے۔ مگر وہ جب مامور فرشتے کو حکم دیتا کہ یہ نر ہو گا یا مادہ؟، نیک ہو گا یا بد ؟ تو مامور فرشتے کو اس کا علم ہو جاتا ہے اور مخلوق میں سے جسے اللہ معلوم کرائے ۔ اسی طرح کسی کو یہ معلوم نہیں کہ وہ کل یہاں یا قیامت کے حساب سے کیا کمائے گا ۔ اسی طرح کسی نفس کو علم نہیں کہ وہ کہاں مرے گا۔ آیا اپنی زمین پر مرے گا یا کہیں ؟ یہ کوئی نہیں جانتا۔(تفسیر ابن کثیر جلد 6 صفحہ 315 مطبوعہ دار الکتب علمیہ بیروت1418ھ)
قرآنی آیت کی یہ تفاسیر اس وقت کے جید علمائے اسلام کی ہیں جس دور میں جدید سائنسی ترقی نہیں ہوئی تھی۔ پس فرشتوں کا علم بھی اللہ تعالیٰ کے ”علم غیب“ کا محتاج ہے۔ چنانچہ اسی طرح کوئی اگر کوئی کسی ذریعے سے حاملہ بچے کی حالت کا علم حاصل کرلیتا ہے تو یہ بات اس قرآن ی آیت کے خلاف نہیں جاتی۔ بے شک اسلام وقت کی کسوٹی پر کھرا اترتا ہے۔
مَا فِي الْأَرْحَامِ کے دوسرے معانی
کچھ علماء نے مَا فِي الْأَرْحَامِ سے مراد نا مولود بچے کی جنس کے متعلق علم لیا ہے اور کچھ نے اس علم سے مراد صرف جنس نہیں لی بلکہ کئی اور چیزیں مثلاً بچے کا رنگ، وہ بچہ خوش ہو گا یا نہیں، اس بچے کا ذریعہ معاش کیا ہو گا وغیرہ۔ مذکورہ بالا حدیث صحیح بخاری بھی اس رائے کو تقویت بخشتی ہے اور اس رائے پر مزید کوئی سوال اٹھنے کا جواز نہیں بچتا۔ تاہم بدو کے سوال کی وجہ سے نامولود بچے کی جنس کا علم بھی ایک صحیح نقطہ ہے۔ یہ زیادہ صحیح ہو گا کہ مَا فِي الْأَرْحَامِ سے نا صرف بچے کی جنس کے متعلق علم لیا جائے بلکہ مذکورہ بالا علوم کو بھی اس میں شامل رکھا جائے۔
خلاصہ
” مَا فِي الْأَرْحَامِ“یعنی” حاملہ عورت کے پیٹ میں کیا ہے؟ “کے علم کی دو درجہ بندیاں علم غیب اور علم محیط ہیں۔ چاہے ڈاکٹروں کا بچے کی جنس کے متعلق علم ہو یا موسمی پیشگوئیوں جو قدرتی مظاہر کی محتاج ہیں ، دونوں ان اقسام علم سے نہیں ہیں۔ باوجود اس کے کہ قرآن پاک خود اور جید علمائے اسلام نے بھی صراحت کی ہے کہ ان چیزوں کا علم بھی اللہ جیسے چاہے عطا کر سکتا ہے۔ چاہے وہ وحی کے ذریعہ سے ہو یا چاہے وہ مشاہدات کی بنیاد پر ہو۔
تحریر عدیل طارق خان