سائنس کسے کہتے ہیں؟ اس سوال کے ماہرین کی طرف سے دیے گئے چند جوابات یہ ہیں: یہ طبیعی کائنات کا غیر جانبدارانہ مشاہدہ اور اس سے متعلق بنیادی حقائق کا مطالعہ ہے۔ اس کے معنی جاننے اور سیکھنے کے ہیں۔ اس کا مطلب علم ہے۔ یہ مشاہدے سے دریافت ہونے والے نتائج یا علمی حقائق کو مرتب اور منظم کرنے کا نام ہے۔ یہ تجرباتی علوم و حکمت یا فطری و طبیعی مظہر کا باقاعدہ علم یا ایسی سچائی ہے، جو مشاہدہ، تجربہ یا استقرائی منطق سے حقیقت کے کسی پہلو کا باقاعدہ مطالعہ کرنا ہیں۔ خلاصہ یہ کہ سائنس عبارت ہے علم، معلومات، مشاہدے و تجربے، حقائق کے غیر جانبدارانہ مطالعے، استقرائی منطق سے حقیقتِ واقعہ تک رسائی سے۔ اب دیکھیے مذہب کو بھی ان چیزوں سے کوئی سروکار ہے یا نہیں۔
قرآن کا مطالعہ کرنے والا ایک عام قاری بھی محسوس کرسکتا ہے کہ قرآن جگہ جگہ ان چیزوں پر زور دیتا ہے۔ وہ اپنے قاری سے کثرت اور تکرار کے ساتھ علم، مشاہدے، تدبّر و تفّکر اور حقائق کے غیر جانبدارانہ مطالعہ کا مطالبہ کرتا ہے۔ جاننے، سیکھنے اور علم حاصل کرنے کے حوالے سے قرآن کے مثبت رویے کا اندازہ اس سے لگایے کہ اس کے مطابق انسان کو اس کی تخلیق کے بعد سب سے پہلے علم الاشیا دیا گیا اور اسی بنا پر اسے فرشتوں پر فضیلت بخشی گئی۔ (البقرہ: ۳۰۔۳۳)، قرآن نے سب سے پہلے علم و تعلم کی اہمیت اجاگر کی۔ اس کے نزول کی ابتدا ہی علم و تعلیم سے متعلق آیات سے ہوئی۔ (العلق: ۱۔۵)، اس نے واضح کیا کہ علم والے اور بے علم برابر نہیں ہوسکتے۔ (الزمر:۹)، علم والے اللہ کے ہاں صاحبانِ فضل و کمال ہیں۔ (المجادلہ:۱۱)، اللہ تعالیٰ سے وہی لوگ ڈرتے ہیں جو اہلِ علم ہیں۔ (الفاطر:۲۸)،
جہاں تک مشاہدے، تجربے، تدبر فی الخلق کے ذریعے حقیقت تک رسائل کا تعلق ہے تو قرآن حکیم نے اس پر اس قدر زور دیا ہے کہ اس کے مقدس اوراق میں سے کم ہی اس سے خالی ہوں گے۔ قرآن کے نقطہ نظر سے ذکرِ خداوندی کی ترجیحی اہمیت محتاج دلیل نہیں، لیکن اس کے نزدیک اس کے ساتھ بھی تدبر لازم ہے۔ وہ اصل اہلِ ذکر انہی کو مانتا ہے جو ذکرِ الٰہی کے ساتھ ساتھ تخلیق ارض و سما میں غور و فکر جاری رکھتے ہیں۔ (آل عمران:۱۹۱)، ایک عام آدمی بھی جانتا ہے کہ سائنس دان جانوروں، زمین و آسمان اور پہاڑوں وغیرہ کی ساخت پر اور ان سے متعلق دیگر امور پر تحقیقات پیش کرتے ہیں۔ قرآن پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ ان چیزوں میں بِلاشبہ اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں اور انسانوں کو ترغیب دیتا ہے کہ وہ اس سلسلہ میں مشاہدہ اور تفکر و تدبر سے کام لیں (الغاشیہ: ۱۸۔۲۰، قٓ:۶)، مشاہدہ اور تدبر فی الخلق کی اہمیت کے پیش نظر قرآن نے ان لوگوں کو حیوانوں سے بھی بدتر اور جہنمی قرار دیا ہے، جو اپنے قوائے حسی کو مشاہدۂ فطرت اور ذہنوں کو تفکر و تدبر کے لیے استعمال نہیں کرتے۔ (الاعراف:۱۷۹)
قرآن کی دعوتِ فکر و تدبر کے ضمن میں یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ قرآن کریم نے کسی مظہرِ فطرت کو دیکھ کر اس پر غور و فکر کیے بغیر آگے گزر جانے کو نافرمانوں کی نشانی بتایا ہے (یوسف:۱۰۵)، اشیا کو ان کی اصلی حالت میں دیکھنے اور مشاہدے کے نتائج میں غلطی سے بچنے کے لیے قرآن بہ تکرار صحیفۂ فطرت کے مطالعہ کی دعوت دیتا ہے۔ مثلاً ایک جگہ ارشاد ہے: ’’(اللہ) جس نے تہ بہ تہ سات آسمان بنائے، تم رحمان کی تخلیق میں کسی قسم کی بے ربطی نہ پائو گے، پھر پلٹ کر دیکھو، کہیں تمہیں کوئی خلل نظر آتا ہے؟ بار بار نگاہ دوڑائو، تمہاری نگاہ تھک کر، نامراد پلٹ آئے گی‘‘۔ (الملک:۳۔۴)
یہاں قرآن بار بار نگاہ ڈالنے اور غور و فکر کرنے پرزور دے رہا ہے۔ سائنسی زبان میں یہی چیز مشاہدہ (Observation) اور تجربہ (Experiment) کہلاتی ہے۔ کسی چیز کا بار بار مشاہدہ کرنے اور حالات بدل بدل کر یعنی تجربہ کرکے مطالعہ کرنے اور غور و فکر کرکے گہرے نتائج اخذ کرنے کو سائنسی تحقیق (Scientific Research) کہا جاتا ہے۔تجربہ اور مشاہدہ کی انتہائی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ اس سے اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ پرایمان مضبوط ہوتا اوراطمینانِ قلب نصیب ہوتاہے۔ چنانچہ مشاہدہ تجربہ اور تدبر فی الخلق کے اعتبار سے بھی قرآن اور سائنس میں ایک واضح تعلق نظر آتا ہے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کہ قرآن سائنس کی کتاب نہیں، اس کا اصل اور بنیادی کام انسان کی ہدایت ہے۔ تاہم وہ جہاں انسان کو اللہ کی معرفت کا درس دیتا ہے، وہاں اللہ کی کبریائی، خلاقیت اور علم و قدرت وغیرہ کے اظہار کے لیے اور اپنے دعوئوں کی حقانیت کے ثبوت میں کائنات اور اس میں کارفرما قوانین طبیعی سے تعرض کرتے ہوئے۔ ان کے کسی نہ کسی پہلو کو بطورِ دلیل پیش کرتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ کائنات اور اس کے مظاہر کے مشاہدے اور مطالعے کی دعوت دیتا ہے۔ گویا حقیقت تک رسائی کے لیے جن چیزوں پر سائنس کا انحصار ہے، قرآن بھی سچائی تک پہنچنے کی غرض سے انہی چیزوں کو ذریعہ بنانے کو کہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فلاسفہ، علمائے دین اور اہل سائنس کے نمایاں اور بڑے بڑے افراد نے مذہب اور سائنس کے تصادم کے تصور کا رَد کیا اور ان کی قربت کا اثبات کیا ہے۔ مثلاً معرکہ آراء سائنسی نظریہ ’اضافیت‘ (Relativity) پیش کرنے والا، بیسویں صدی کا سب سے بڑا سائنس دان آئن اسٹائن کہتا ہے: ’’سائنسی تحقیق آدمی میں ایک خاص قسم کے مذہبی احساسات پیدا کرتی ہے، یہ ایک طرح کی عبادت ہے۔ میرے لیے راسخ ایمان کے بغیر اصلی سائنس دان کا تصور محال ہے‘‘۔ معروف فرانسیسی سائنس دان، فزیشن، ماہر امراضِ قلب اور فرانس کی میڈیکل ایسوسی ایشن کے سابق صدر ڈاکٹر موریس بکائی لکھتے ہیں: ’’اس میں کوئی تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ اسلام نے مذہب اور سائنس کو ہمیشہ جڑواں بہنیں تصور کیا ہے۔ آج بھی، جب کہ سائنس ترقی کی انتہائوں کو چھو رہی ہے، وہ ایک دوسرے کے قدم بقدم ہیں‘‘۔
سائنس کے تناظر میں اسلام کی حقانیت پر بات کرنے میں موریس بکائی چونکہ بہت مشہور ہیں اوران کا عام حوالہ دیا جاتا ہے، اس لیے میرے بعض سائنس مخالف دوست اسے ہنسی میں اڑانے کی کوشش کرتے ہیں کہ آپ لوگوں کے پاس آجا کہ یہی حوالہ ہے، میں ان دوستوں کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ان کا یہ خیال قلتِ مطالعہ یا سائنس سے تعصب کا نتیجہ ہے۔ اگر وہ تحقیق کی تھوڑی سی زحمت بھی گوارا کریں اور تعصب کی عینک اتار کر دیکھیں تو انہیں معلوم ہوگا کہ مذہب اور سائنس کی قربت کا قائل صرف بکائی نہیں، دنیا کے اکثر سائنس دان ہیں۔ حتیٰ کہ آپ کو شاید ہی کوئی ایسا معتبر سائنس دان ملے جو مذہبی ذہن نہ رکھتا ہو۔ آئزک نیوٹن جسے دنیائے سائنس کا سب سے بڑا نام سمجھا جاتا ہے، دہریت کی مخالفت اور مذہب کے دفاع میں زور دار مضامین لکھتا رہا ہے۔ اس نے اپنی متعدد تحریروں میں ببانگ دہل اقرار کیا ہے کہ یہ کائنات اللہ کے وجود کی ناطق شہادت ہے۔ فرانسس بیکن، جو سائنسی طریق تحقیق کے بانیوں میں سے ہے، سائنس اور مطالعہ فطرت کو کلامِ خدا کے بعد ایمان کا سب سے ثقہ ثبوت قرار دیتا ہے۔ مشاہدۂ فلک کے لیے پہلے پہل ٹیلی اسکوپ استعمال کرنے والا مشہور سائنس دان گلیلیو کہتا ہے کہ یہ کائنات اور اس کے سارے حقائق خدا کے تخلیق کردہ ہیں، کائنات اللہ کی تحریر کردہ دوسری کتاب ہے، لہٰذا سائنس اور عقیدہ و مذہب کبھی ایک دوسرے سے متصادم نہیں ہوسکتے۔ جدید علمِ فلکیات کا بانی کیپلر سائنس کی طرف آیا ہی اپنے مذہبی رجحانات کی بنا پر تھا، اس نے واضح کیا ہے کہ اس نے اپنی سائنسی دریافتوں سے خدا کو پایا ہے۔
یہ تو سائنس دانوں کے خیالات تھے۔ جہاں تک علمائے اسلام کا تعلق ہے ان کے حوالے اس سے بھی زیادہ پیش کیے جاسکتے ہیں، لیکن مضمون کی شکایتِ تنگی داماں کو ملحوظ رکھتے ہوئے میں صرف دو حوالوں پر اکتفا کروں گا، ایک علامہ اقبال کا، جو فلسفہ اور علم دین دونوں میں مسلمہ حیثیت رکھتے ہیں اور جدید مغربی تہذیب کے بہت بڑے ناقد ہیں اور دوسرا مولانا مودودی کا، جو بیسویں صدی کے دوران مسلمانانِ برصغیر میں مغربی تہذیب و اقدار کے مقابلہ میں اسلامی تہذیب اقدار پر اعتماد پیدا کرنے اور احیائے اسلام کے حوالے سے ایک اہم اور نمایاں مصنف اور جانے پہچانے عالمِ دین ہیں۔ موخر الذکر رقمطراز ہیں: ’’حقیقت یہ ہے کہ سائنس کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جو انسانوں کے دل میں ایمان کو گہری جڑوں سے رائج کرنے والا نہ ہو۔ فزکس، کیمسٹری، بیالوجی، اناٹومی، اسٹرانومی غرض جس علم کو بھی دیکھیں اس میں ایسے حقائق سامنے آتے ہیں جو انسان کو پکا اور سچا مومن بنا دینے کے لیے کافی ہیں۔ سائنس کے حقائق سے بڑھ کر آدمی کے دل میں ایمان پیدا کرنے والی کوئی دوسری چیز نہیں ہے۔ یہی تو وہ آیاتِ الٰہی ہیں جن کی طرف قرآن بارہا توجہ دلاتا ہے‘‘۔ مقدم الذکر کہتے ہیں: ’’واقعہ یہ ہے کہ مذہبی اور سائنس، مختلف طریق کار اپنانے کے باوجود، اس اعتبار سے بالکل ایک ہیں کہ دونوں کا مطمع نظر حقیقتِ واقعہ تک رسائی ہے‘‘۔
جب یہ بات واضح ہو گئی کہ قرآن کی دعوتِ مطالعۂ فطرت اور انفس و آفاق سائنس کی ترقی میں بنیادی اور اہم کردار ادا کرنے والی چیزیں ہیں، مذہب سائنس کی راہ میں رکاوٹ نہیں بلکہ اس کو مہمیز لگاتا ہے اور اس حقیقت کا اعتراف دنیا کے عظیم سائنس دانوں اور مفکرین نے واضح الفاظ میں کیا ہے تو اس خیال کی بھی آپ سے آپ تردید ہو گئی کہ اسلامی فکر و تہذیب کا سائنس کی ترقی میں کوئی کردار نہیں۔ لہٰذا اس پر مزید تفصیلی دلائل کی حاجت نہیں۔ البتہ اس تصور کا بودا پن متحقق کرنے کی غرض سے اس پر بطورِ خاص چند سطور صَرف کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے:
یہ حقیقت مسلم اور غیر مسلم محققین نے عام تسلیم کرلی ہے کہ قرونِ وسطیٰ کے مسلمانوں کی سائنسی ترقی قرآن و حدیث کے مشاہداتی و تجرباتی اندازِ نظر کو اپنانے پرزور دینے کی بنا پر تھی، اور متعدد سائنسی دریافتیں مختلف شرعی احکام اور تقاضوں کا نتیجہ تھیں، مثلاً الجبرا کو اسلامی قانونِ وراثت اور فلکیات، جغرافیہ، جیومیٹری اور ٹرگنومیٹری کو سمت قبلہ اور اوقاتِ نماز معلوم کرنے کی اسلامی تقاضوں کے تحت ترقی ملی۔ ابن النفیس نے بخاری کی حدیث ’’اللہ نے کوئی مرض ایسا پیدا نہیں کیا، جس کی دوا پیدا نہ کی ہو‘‘۔ کو اپنی عظیم سائنسی دریافتوں کی بنیاد بنایا تھا۔ اس نے خون کی دل سے پھیپھڑوں کی طرف حرکت (Pulmonary Circulation) کو دریافت کیا اور اپنی اس تحقیق کو حشراجساد کے روایتی اسلامی تصور کی تائید میں پیش کیا۔ مسلم کیمیا گری اور علم نجوم کے محرکات بھی مذہبی تھے۔ قرآن و حدیث کے ساتھ ساتھ ان اسلامی ذرائع علم کے مستند ماہرین (علمائے دینیات) کے افکار و تحریرات نے بھی مختلف سائنسی علوم کی تحریک پیدا کی۔ مثال کے طور پر طبِ اسلامی میں سرجری اور تشریح الاعضا پر امام غزالی کی تصنیفات کے اثرات ہیں، جنہوں نے ان علوم کو تخلیقاتِ خداوندی کے ادراک کے لیے استعمال کرنے پر زور دیا۔ پندرہویں صدی کے مسلم ماہرِ کونیات علی القوشجی نے ارسطا طالیسی تصورِ سکونِ زمین کو غزالی وغیرہ ایسے عظیم مسلم ماہرینِ علومِ دین کی تنقید ارسطو سے تحریک پاکر رَد کیا تھا۔ امام غزالی نے خود ارسطو کے تصور کائنات کو رَد کرتے ہوئے تعددِ عوالم کا تصور پیش کیا۔ اسلام، اسلامی تہذیب اور اہل اسلام کے دنیائے سائنس میں غیر معمولی کردار کو مغربی اہلِ علم و قلم۔ جو بالعموم اسے ماننے میں تعصب میں مبتلا ہوتے ہیں نے بھی نہایت واضح لفظوں میں تسلیم کیا ہے۔ مثلاً رابرٹ بریفالٹ لکھتا ہے: مسلمانوں نے یونانیوں سے کہیں بڑھ کر تجربات پر زور دیا۔ ول ڈیوراں اقرار کرتا ہے کہ مسلم کیمیا دان علمِ کیمیا کے بانی ہیں۔ یورپ کو سائنسی طریق تحقیق سے متعارف کرانے والا مشہور مغربی سائنس دان راجر بیکن بھی مسلم سائنس دانوں سے متاثر تھا۔ یہ اور اس نوع کے دیگر لاتعداد واضح شواہد کے ہوتے ہوئے سائنسی ترقی میں اسلامی فکر و تہذیب کے کردار کا انکار، حق کا منہ چڑانے کے مترادف ہے۔
تحریر ڈاکٹر شہباز منج، شعبہ اسلامیات، یونیورسٹی آف سرگودھا
ندیم عارف
January 15, 2017 at 10:50 amڈاکٹر شہباز صاحب کے قیمتی مضمون کیا قرآن سائنس کا مخالف ہے میں ایک کمی محسوس ہوئی کہ بلاشبہ اسلام علم سائنس کو مہمیز کرتا ہے لیکن صرف الہیات کے لئے فروع وقرآنی احکام شرع کے لئے سائنس بنیاد یا معیار نہیں بن سکتی۔