7 ستمبر 1974ءکو قومی اسمبلی میں طویل مشاورت، مباحثے ، مکالمے، وضاحتوں ، سوالات ، جوابات اور تنقیح و تجزیے کے بعد متفقہ فیصلہ سنا گیا کہ احمدیوں کے دونوں گروہ غیر مسلم ہیں ۔
اس نتیجے تک پہنچنے سے پہلے جو قانونی اقدامات کیے گئے ، ان میں ایک یہ تھا کہ پوری اسمبلی کو “سپیشل کمیٹی” کی حیثیت دی گئی اور ساتھ ہی اسے باقاعدہ عدالتی اختیارات دیے گئے ۔ اس کے بعد ہی یہ ممکن ہوا کہ احمدیوں کے دونوں گروہوں کے نمائندوں کو بلاکر ان کا موقف سنا جائے ، ان پر جرح کی جائے اور اس کے بعد فیصلہ سنایا جائے ۔ اسی بنا پر یہ ذمہ داری اس وقت کے اٹارنی جنرل جناب یحیٰ بختیار کے کاندھوں پر ڈالی گئی کہ دونوں گروہوں کے نمائندگان سے سوالات وہی کریں گے ۔
معاملے کی حساسیت کے پیش نظر بحث کا تمام ریکارڈ اسی وقت سیل کردیا گیا تھا۔ یہ شرط رکھی گئی تھی کہ اسے تیس سال سے کم کے عرصے میں اوپن نہیں کیا جائے گا۔چند سال پہلے اسپیکر قومی اسمبلی فہمیدہ مرزا نے اب اس وقت کی بحث کے ریکارڈ کی پرنٹنگ اور لائبریری میں رکھنے کی اجازت دے دی ۔
قادیانی پہلے دن سے یہ اعتراض کرتے آرہے ہیں کہ قومی اسمبلی کی اس کارروائی کو اِن کیمرہ، خفیہ کیوں رکھا گیا۔ یہ کارروائی اخبارات میں روزانہ کیوں شائع نہ ہوئی؟ انکا دعوی تھا کہ اگر یہ کارروائی شائع ہو جائے تو آدھا پاکستان قادیانی ہو جائے گا۔ قومی اسمبلی کی یہ کارروائی اوپن ہونے سے قادیانیوں کا دیرینہ مطالبہ پورا ہوگیا۔
اس کاروائی کا خفیہ کیوں رکھاگیا ؟ اس وقت کے اٹارنی جنرل جناب یحییٰ بختیار مرحوم نے ایک سوال پر کہ ’’قادیانیوں کا کہنا ہے کہ اگر یہ روداد شائع ہوجائے تو آدھا پاکستان قادیانی ہوجائے گا۔‘‘ کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، یہ کارروائی ان کے خلاف جاتی ہے۔ ویسے وہ اپنا شوق پورا کرلیں، ہمیں کیا اعتراض ہے۔ ان دنوں ساری اسمبلی کی کمیٹی بنادی تھی اور کہا گیا تھا کہ یہ ساری کارروائی سیکرٹ ہوگی تاکہ لوگ اشتعال میں نہ آئیں۔ میرے خیال میں اگر یہ کارروائی شائع ہوگئی تو لوگ قادیانیوں کو ماریں گے۔‘‘ (انٹرویو نگار منیر احمد منیر ایڈیٹر ’’ماہنامہ آتش فشاں‘‘ لاہور، مئی 1994ئ)
قومی اسمبلی کے اس وقت کے سپیکر جناب صاحبزادہ فاروق علی خان نے اپنے ایک انٹرویو میں دیتے ہوئے کہا:
’’بحث اور کارروائی کے دوران ایسی باتوں کے پیش آنے کا بھی امکان تھا کہ اگر منظرعام پر آئیں تو مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچ سکتی تھی۔ قادیانی فرقوں کے رہنمائوں کو بھی بلانا تھا۔ ان کا نقطۂ نظر بھی سننا تھا۔ ظاہر ہے وہ جو کچھ کہتے، مسلمانوں کو ہرگز اتفاق نہ ہوتا۔ لہٰذا کارروائی خفیہ ہی رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ناموس رسالت کا مسئلہ نازک اور حساس ہے۔ مسلمان جان بھی قربان کر دینا ایک انتہائی معمولی بات سمجھتا ہے، لہٰذا کسی بھی خطرناک جذباتی صورتحال سے بچنے کے لیے اس کارروائی کو خفیہ رکھنا ہی مناسب تھا۔ حضور رسالت مآب ﷺ کی ذات گرامی کے ساتھ امت کو جو والہانہ عشق ہے، اس کو زبان و قلم سے بیان کرنا ناممکن ہے۔ اس خفیہ بحث کا فیصلہ کھلا تھا اور اس فیصلے سے ملت اسلامیہ آج تک مطمئن ہے۔‘‘ (قومی اسمبلی کے سابق سپیکر صاحبزادہ فاروق علی خان سے اختر کاشمیری صاحب کا انٹرویو، روزنامہ ’’جنگ‘‘ جمعہ میگزین 3 تا 9 ستمبر 1982ئ)
اس کارروائی کے نتیجہ میں قومی اسمبلی کا کوئی ایک رکن بھی قادیانی نہیں ہوا۔ کسی رکن قومی اسمبلی نے کارروائی کا بائیکاٹ نہیں کیا۔ کسی رکن قومی اسمبلی نے اجلاس سے واک آؤٹ نہیں کیا۔ نہ صرف تمام ارکان نے متفقہ طور پر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا بلکہ قادیانی خلیفہ مرزا ناصر کی ٹیم میں شامل ایک معروف قادیانی مرزا سلیم اختر چند ہفتوں بعد قادیانیت سے تائب ہو کر مسلمان ہو گیا۔ حالانکہ قادیانی خلیفہ مرزا ناصر پوری ٹیم کے ساتھ مکمل تیاری سے بڑی خوشی سے قومی اسمبلی گیا۔ اس کے اسمبلی کے اندر داخل ہونے کا انداز بڑا فاتحانہ، تکبرانہ اور تمسخرانہ تھا۔ اس کا خیال تھا کہ میں تاویلات اور شکوک و شبہات کے ذریعے اسمبلی کو قائل کر لوں گا، مگر بری طرح ناکام رہا۔
قادیانی کہتے ہیں یہ ایک یکطرفہ فیصلہ تھا۔ یہ بات لاعلمی اور تعصب پر مبنی ہے۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ جمہوری نظام حکومت میں کوئی بھی اہم فیصلہ ہمیشہ اکثریتی رائے کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ لیکن قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیے جانے کا فیصلہ شاید دنیا کا واحد اور منفرد واقعہ ہے کہ حکومت نے یہ فیصلہ کرنے سے پہلے قادیانی جماعت کے سربراہ مرزا ناصر کو پارلیمنٹ میں آ کر اپنا نقطۂ نظر پیش کرنے کے لیے بلایا۔ جہاں اٹارنی جنرل جناب یحییٰ بختیار نے اس پر، قادیانی کفریہ عقائد کے حوالہ سے جرح کی۔ مرزا ناصر نے اپنے تمام عقائد و نظریات کا برملا اعتراف کیا بلکہ تاویلات کے ذریعے ان کا دفاع بھی کیا۔ لہٰذا ملک کی منتخب پارلیمنٹ نے 13 دن کی طویل بحث و تمحیص کے بعد آئین میں ترمیم کرتے ہوئے متفقہ طور پر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا لیکن قادیانیوں نے حکومت کے اس فیصلہ کو آج تک تسلیم نہیں کیا بلکہ الٹا وہ مسلمانوں کا تمسخر اڑاتے ہیں اور انھیں سرکاری مسلمان ہونے کا طعنہ دیتے ہیں۔ وہ خود کو مسلمان اور مسلمانوں کو کافر کہتے ہیں اور آئین میں دی گئی اپنی حیثیت کو تسلیم نہیں کرتے۔
قومی اسمبلی کی یہ پوری کارروائی اب شائع بھی ہوچکی ہے اور قانون کے ہر طالب علم کو میں یہ مشورہ دوں گا کہ ایک دفعہ ضرور یہ پوری کارروائی پڑھیں ۔ اس میں نہ صرف آپ کو چند نہایت اہم سوالات کے جواب مل جائیں گے بلکہ وہ بہت ساری الجھنیں بھی دور ہوجائیں گی جو اس مسئلے پر لوگ خواہ مخواہ ہی پیدا کررہے ہیں ۔ مزید یہ کہ آپ یہ بھی دیکھ لیں گے کہ جرح کیسے کی جاتی ہے ؟
اٹارنی یحیٰ بختیار نے جس طرح سوال کے بعد سوال ، مختلف اطراف سے سوال اور استدراج کے ذریعے بالآخر ان کے منہ سے ہی وہ بات کہلوائی جس سے وہ گریزاں تھے ، یہ سب کچھ نہایت قابلِ تحسین ہے اور قانون کے طالب علموں کے لیے اس میں سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے ۔ یہ بھی دیکھیے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کی کسی بھی عبارت سے استدلال کرنے سے قبل کیسے وہ پہلے اس عبارت کا مسلمہ ہونا ثابت کرتے تھے ۔ یہ کارروائی پڑھنے کے بعد کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ دوسرے فریق کو اپنا موقف پیش کرنے کا موقع نہیں دیا گیا ، یا ان کا موقف توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ۔
جن امور پر اس کارروائی میں تفصیلی سوالات اور جوابات کا سلسلہ چلا ہے ان میں چند ایک یہ ہیں :
1. کیا ریاست کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ کسی کے مسلمان ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرے ؟
2. کیا قانون میں مسلمان کی تعریف شامل کرنے سے کسی کے حق کی خلاف ورزی ہوتی ہے ؟
3. کیا جو خود احمدی کہتے ہیں وہ عام مسلمانوں کی ، جو مرزا صاحب کو نبی نہیں مانتے ، تکفیر کرتے ہیں ؟
4. سر ظفر اللہ خان نے قائد ِ اعظم کے نمازِ جنازہ میں شرکت کیوں نہیں کی ؟
5. تقسیمِ ہند کے موقع پر احمدیوں کا طرزِ عمل کیا رہا اور انھوں نے عام مسلمانوں سے خود کو الگ کیوں شمار کروایا؟
6. کشمیر کے تنازعے میں احمدیوں کا کیا کردار رہا اور انھوں نے کس طرح کشمیری مسلمانوں کے خلاف کارروائی میں دوسرے فریق کا ساتھ دیا؟ احمدیوں کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کیا ہے ؟
7. احمدیوں کا وہ گروہ جو بظاہر مرزا صاحب کو محض مجدد مانتا ہے کیوں عام احمدیوں سے ، جو کھلے عام مرزا صاحب کو نبی مانتے ہیں ، زیادہ خطرناک ہے؟
8. احمدیوں کے دونوں گروہوں کا اصل تنازعہ مذہبی ہے یا سیاسی و مالیاتی امور پر اختلاف کا شاخسانہ ہے ؟
یہ اور اس طرح کے دیگر نہایت اہم امور پر اس کارروائی میں پوری تفصیل ملتی ہے جس کے بعد ہی قومی اسمبلی نے یہ فیصلہ سنایا ہے ۔ جس طرح کا موقع احمدیوں کو پاکستان کی قومی اسمبلی نے دیا ایسا موقع کسی کو شاید ہی کبھی دیا گیا ہو ۔ اس کے بعد ہی پوری سمبلی نے علی وجہ البصیرت یہ اعلان کیا کہ یہ دونوں گروہ غیر مسلم ہیں ۔
قومی اسمبلی کی مکمل کاروائی سرکاری سطح پر پہلی دفعہ انگلش میں شائع ہو گئی ھے ، اس کتاب کے تقریبا 21 حصے ہیں ، اور 3000 سے اوپر صفحات ہیں ۔کاروائی مکمل 21 حصے ڈاؤنلوڈ لنک۔ اردو میں قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پر بحث کی مصدقہ رپورٹ تحقیق وتخریج مولانا اللہ وسایا عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت پانچ جلدوں میں شائع ہوئی ۔ یہاں سے ڈاؤنلوڈ کی جاسکتی ہے۔
غیر مسلم ہونے کے باوجود اپنی عبادت گاہ کو مسجد، مرزا قادیانی کو نبی اور رسول، مرزا کی بیوی کو ام المومنین، مرزا قادیانی کے دوستوں کو صحابہ کرام، قادیان کو مکہ مکرمہ، ربوہ کو مدینہ، مرزا قادیانی کی باتوں کو احادیث مبارکہ، مرزا قادیانی پر اترنے والی نام نہاد وحی کو قرآن مجید، محمد رسول اللہ سے مراد مرزا قادیانی مراد لیتے ہیں۔ چنانچہ 26 اپریل 1984ء کو حکومت نے مسلمانوں کے پرُزور مطالبہ پر ایک آرڈیننس جاری کیا گیا جس میں قادیانیوں کو شعائر اسلامی کے استعمال سے قانوناً روکا گیا۔ اس آرڈیننس کے نتیجہ میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 298/B اور 298/C کے تحت کوئی قادیانی خود کو مسلمان نہیں کہلوا سکتا، اپنے مذہب کو اسلام نہیں کہہ سکتا، اپنے مذہب کی تبلیغ و تشہیر نہیں کر سکتا، شعائر اسلامی استعمال نہیں کر سکتا۔ خلاف ورزی کی صورت میں وہ 3 سال قید اور جرمانہ کی سزا کا مستوجب ہوگا۔ قادیانیوں نے اپنے خلیفہ مرزا طاہر کے حکم پر آرڈیننس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پورے ملک میں شعائر اسلامی کی توہین کی اور آرڈیننس کے خلاف ایک بھرپور مہم چلائی۔ جس کے نتیجہ میں پاکستان کے اکثر شہروں میں لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال پیدا ہوئی۔
قادیانی قیادت نے اس آرڈیننس کو وفاقی شرعی عدالت میں چیلنج کیا۔ عدالت نے اپنے فیصلہ میں قرار دیا کہ قادیانیوں پر پابندی بالکل درست ہے۔ اس کے بعد قادیانیوں نے چاروں صوبوں کی ہائی کورٹس میں چیلنج کیا، یہاں پر بھی عدالتوں نے دونوں طرف کے دلائل سننے کے بعد قرار دیا کہ آرڈیننس بالکل قانون کے مطابق ہے۔ قادیانیوں کو آئین میں دی گئی اپنی حیثیت تسلیم کرتے ہوئے شعائر اسلامی استعمال نہیں کرنے چاہئیں۔
آخر میں قادیانیوں نے ان تمام فیصلوں کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا اور یہ موقف اختیار کیا کہ ہمیں آئین کے مطابق آزادی کا حق حاصل ہے، لیکن ہمیں شعائر اسلامی استعمال کرنے کی اجازت نہیں۔ لہٰذا عدالت تعزیرات پاکستان کی دفعہ 298/B اور 298/C کو کالعدم قرار دے۔ سپریم کورٹ کے فل بنچ نے اس کیس کی مفصل سماعت کی۔ دونوں طرف سے دلائل دیے گئے۔ قادیانیوں کی اصل کتابوں سے متنازعہ ترین حوالہ جات پیش کیے گئے۔ اس کے بعد سپریم کورٹ نے اپنے تاریخی فیصلہ ظہیر الدین بنام سرکار (1993 SCMR 1718) میں قرار دیا کہ کوئی قادیانی خود کو مسلمان نہیں کہلوا سکتا اور نہ اپنے مذہب ہی کی تبلیغ کر سکتا ہے۔ خلاف ورزی کی صورت میں وہ سزا اور جرمانے کا مستوجب ہوگا۔ یہ بھی یاد رہے کہ یہ جج صاحبان کسی دینی مدرسہ یا اسلامی دارالعلوم کے استاد نہیں تھے بلکہ انگریزی قانون پڑھے ہوئے تھے۔ ان کا کام آئین و قانون کے تحت انصاف مہیا کرنا ہوتا ہے۔ فاضل جج صاحبان کا یہ بھی کہنا تھا کہ قادیانی اسلام کے نام پر لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں جبکہ دھوکہ دینا کسی کا بنیادی حق نہیں ہے اور نہ اس سے کسی کے حقوق یا آزادی ہی سلب ہوتی ہے۔
استفادہ تحریر: محمد متین خالد، ڈاکٹر محمد مشتاق