اعجاز کی معرفت کے لیے کوئی معیار قائم کرنا تقریباً محال ہے، ہر چند کہ بعض علماء نے کوشش کی ہے کہ کوئی منضبط قاعدہ وضابطہ کے تحت اعجازِ بیانی کو داخل کردیا جائے، ان میں غالباً سب سے پہلا نام علامہ خطابی کا ہے جن کی پیروی کرتے ہوئے مختلف مفسرین نے بھی اختیار کیاہے، لیکن علامہ خطابی اپنی کوشش میں کس حد تک کامیاب ہیں یہ کہنا مشکل ہے، کیوں کہ کسی قدر قاعدہ و ضابطہ کو متعین کرلیں لیکن آخری فیصلہ تو ذوق ووجدان ہی کو کرنا پڑتا ہے یہ تو اس خوشبو کی مانند ہے جو پھول کی پنکھڑیوں میں پنہاں ہوتی ہے، جس کو محسوس کیاجاسکتا ہے لیکن لفظوں میں بیان نہیں کیاجاسکتا ہے۔ظاہر ہے کہ ان خصوصیات کا احاطہ تو بشری طاقت سے باہر ہے، تاہم انسان کی محدود بصیرت کے مطابق ان خصوصیات کو چار عنوانات پر تقسیم کیا جاسکتا ہے:۔
(1) الفاظ کا اعجاز (2)ترکیب کا اعجاز (3) اسلوب کا اعجاز (4) اور نظم کا اعجاز۔
الفاظ کا اعجاز:
کسی زبان کا کوئی شاعر یا ادیب ، خواہ اپنے فن میں کمال کے کتنے ہی بلند مرتبے کو پہنچا ہوا ہو یہ دعوٰی نہیں کرسکتا کہ اس کے کلام میں کہیں بھی کوئی لفظ غیرفصیح استعمال نہیں ہوا، کیونکہ بسا اوقات انسان اپنے مفہوم کو ادا کرنے کے لیے کسی نہ کسی غیر فصیح لفظ کے استعمال پر مجبور ہوجاتا ہے ، لیکن … پورے قرآن کریم میں الحمد سے لے کر والناس تک نہ صرف یہ کہ کہیں کوئی ایک لفظ بھی غیر فصیح نہیں ہے، بلکہ ہر لفظ جس مقام پر آیا ہے وہ فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے ایسا اٹل ہے کہ اسے بدل کر اسی فصاحت و بلاغت کے ساتھ دوسرا لفظ لانا ممکن ہی نہیں ہے۔ عربی زبان ایک انتہائی وسیع زبان ہے جو اپنے ذخیرہ الفاظ کے اعتبار سے دنیا کی دولت مند ترین زبانوں میں سے ایک ہے۔ چنانچہ اُس میں ایک مفہوم کے لیے معمولی فرق سے بہت سے الفاظ پائے جاتے ہیں، قرآن کریم الفاظ کے اس وسیع ذخیرے میں سے اپنے مقصد کی ادائیگی کے لیے وہی لفظ منتخب فرماتا ہے جو عبارت کے سیاق ، معنی کی ادائیگی اور اسلوب کے بہاؤ کے لحاظ سے موزوں ترین ہو، یہ بات چند مثالوں سے واضح ہوسکے گی۔
(1) زمانہ جاہلیت میں “موت” کے مفہوم کو ادا کرنے کے لیے بہت سے عربی الفاظ مستعمل تھے، ابن سیدہؒ اندلسی نے یہ تمام نام شمار کرائے ہیں، اور اہلِ اعرب کے اشعار سے اس کی مثالیں پیش کی ہیں(المخصّص ،لابن سیدہ، ص 115ج6)
مثلاً: موت، ہلاک، فناء، حتف، شعوب، حمام، منون، سام، قاضیہ، ہمیغ،نیط، فود، مقدار، جباز، قتیم، حلاق، طلاطل، طلاطلہ،عول، ذام،کفت ، جداع، حُزرۃ،خالج، لیکن ان میں سے اکثر الفاظ کے پسِ منظر میں اہلِ عرب کا یہ قدیم نظریہ جھلکتا تھا کہ موت کے ذریعہ انسان کے تمام اجزاء ہمیشہ کے لیے فنا ہوجاتے ہیں، اور اس کا دوبارہ زندہ ہونا ممکن نہیں۔ چونکہ وہ لوگ معاد وآخرت اور حساب وکتاب کے قائل نہیں تھے، اس لیے انھوں نے موت کے لیے جتنے نام تجویز کیے اُن سب میں اس نظریہ کی جھلک موجود ہے۔ اگر قرآن کریم اہلِ عرب کی انہی قدیم تعبیرات پر اکتفاء کرتا تو موت کے بارے میں اُن کے باطل نطریہ سے کسی درجہ میں موافقت کا شبہ ہوسکتا تھا، چنانچہ جس جگہ موت کی حقیقت بیان کرنی تھی، وہاں موت کے مفہوم کے لیے قرآن نے مذکورہ چوبیس الفاظ کو چھوڑ کر ایک نیا لفظ اختیار کیا اور عربی زبان کو ایک ایسا خوب صورت ، مختصر ، جامع اور فصیح لفظ عطا کیاجس سے موت کی حقیقت بھی واضح ہوجائے اور وہ لفظ ہے” تَوَفِّی” جس کے لغوی معنی ہیں”کسی چیز کو پورا پورا وصول کرلینا” اس لفظ نے یہ بھی واضح کردیا کہ موت ابدی فنا کا نام نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے روح قبض کرنے کا نام ہے۔ چنانچہ جب اللہ تعالیٰ چاہے وہ جسم کے منتشر اجزاء کو یکجا کرکے اُن میں دوبارہ رُوح کو لوٹا سکتا ہے،”موت” کے لیے یہ لفظ قرآن کریم سے پہلے کسی نے استعمال نہیں کیا تھا۔ چنانچہ ابن سیدہؒ نے “المخصص” میں “موت” کے دوسرے الفاظ کے لیے تو اہلِ عرب کے اشعار سے مثالیں پیش کی ہیں، لیکن “توفی” کے لیے قرآن کریم کے سوا کوئی استشہاد پیش نہیں کیا۔( یتیمۃ البیان لمشکلات القرآن، للشیخ البنوری حفظہ اللہ،ص 56، مجلس علمی اڈا بھیل 1357)
(2)ہر زبان کے بعض الفاظ ایسے ہوتے ہیں جو صوتی اعتبار سے فصیح اور پسندیدہ نہیں سمجھے جاتے، لیکن چونکہ اُن کے مفہوم کی ادائیگی کےلیے اور متبادل لفظ نہیں ہوتا، اس لیے اہلِ زبان انھیں استعمال کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ لیکن قرآن کریم ایسے مواقع پر ایسی خوب صورت تعبیر اختیار کرتا ہے کہ ذوقِ سلیم وجد کر اُٹھتا ہے، مثلاً عربی میں تعمیرِمکان کے لیے پکی ہوئی اینٹوں کے لیے جتنے الفاظ مستعمل ہیں وہ سب ثقیل، مبتذ ل اور ناپسندیدہ سمجھے جاتے ہیں، مثلاً : اٰجُرُّ، قَرمَدُ اور رطُوبُ۔ اب قرآن کریم میں یہ بیان کرنا مقصود تھا کہ فرعون نے اپنے وزیر ہامان کو حکم دیا کہ میرے لیے ایک اونچا محل تعمیر کرنے کے لیے اینٹیں پکاؤ، اس واقعے کو ذکر کرنے کے لیے اینٹ کا لفظ استعمال کرنا ناگزیر تھا، لیکن قرآن کریم نے اس مفہوم کو ایسے معجزانہ انداز سے ذکر فرمایا ہے کہ مفہوم بھی نہایت حُسن کے ساتھ ادا ہوگیا، اور ثقیل الفاظ کے استعمال کی قباحت بھی پیدا نہیں ہوئی، چنانچہ ارشاد فرمایا: وَقَالَ فِرعَونُ یَا اَیُّھَاالمَلَامَاعَلِمتُ لَکُم مِّن اِلٰہٍ غَیرِی فَاَوقِد لِی یَاھَامَانُ عَلَی الطِّینِ فَاجعَل لِّی صَرحاً (القصص: 38) “اور فرعون نے کہا کہ اے سردارانِ قوم! مجھے اپنے سوا تمھارا کوئی معبود معلوم نہیں، پس اے ہامان! گیلی مٹی پر آگ روشن کرکے میرے لیے ایک محل تعمیر کرو۔” (ایضاً بحوالہ المثل السائر لابن الاثیرؒ ،ص71)
(3) عربی میں بعض الفاظ ایسے ہیں جو مُفرد ہونے کی حالت میں تو سبک اور فصیح ہیں، لیکن ان کی جمع ثقیل سمجھی جاتی ہے، مثلاً زمین کے معنی میں لفظ”اَرض” ایک سبک لفظ ہے، اس کی دو جمعیں عربی میں مستعمل ہیں، اَرضون اور اَرَاضِی، یہ دونوں ثقیل سمجھی جاتی ہیں، اور اُن کی وجہ سے کلام کی سلاست میں فرق واقع ہوجاتا ہے، لیکن جہاں جمع کا مفہوم ادا کرنا ضروری ہوتا ہے، وہاں ادبائے عرب انہی کے استعمال پر مجبور ہوتےہیں، اس کے برخلاف قرآن کریم نے بیشتر مقامات پر سَمٰوٰت کو بصیغہ جمع استعمال نہیں فرمایا البتہ ایک جگہ سات زمینوں کا ذکر کرنا تھا ، جس کے لیے جمع کا صیغہ لانا ضروری تھا۔ لیکن قرآن نے اس صیغہ جمع سے احتراز کرکے ایسی خوب صورت تعبیر اختیار کی کہ مفہوم بھی ٹھیک ٹھیک ادا ہوگیا، اور نہ صرف یہ کہ کلام میں کوئی ثقل پیدا نہیں ہوا ، بلکہ اس کے حُسن میں چنددرچند اضافہ ہوگیا، ارشاد ہے:۔ اَللہُ الَّذِی خَلَقَ سَبعَ سَمٰوٰتٍ وَّمِنَ الاَرضِ مِثلَھُنَّ (الطلاق 12) “اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان پیدا کیے، اور زمین میں سے بھی اتنی ہی۔” دیکھیے یہاں سَمَاء (آسمان) کی جمع تو لائی گئی ، لیکن قرآن نے اَرض کی جمع لانے کی بجائے اس کے مفہوم کو ادا کرنے کے لیے وَمِنَ الاَرضِ مِثلَھُنَّ کی تعبیر اختیار فرمائی جس کے اسرار و نکات پر جس قدر غور کیجیے معجزانہ بلاغت کا دریا موجزن نظر آتا ہے ۔
(4) قرآن کریم کے بعض الفاظ پر بعض ملحدوں نے ثقیل ہونے کا اعتراض کیا ہے، مثلاً لفظ” ضِیزیٰ” ۔لیکن وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ بعض الفاظ اپنی ذات میں ثقیل ہوتے ہیں لیکن ادیب انھیں ایسے سلیقے سے استعمال کرتا ہے کہ اس جگہ اس سے بہتر لفظ نہیں لایا جاسکتا، اُردُو میں اس کی مثال یہ ہے کہ ” دھول دھپا” ایک مبتذل لفظ سمجھا جاتا ہے ، جسے فصیح وبلیغ عبارتوں میں عموماً استعمال نہیں کیاجاتا، لیکن غالب کا یہ شعر دیکھیے
دھول دھپا اُس سراپا ناز کا شیوہ نہیں
ہم ہی کر بیٹھے تھے غالب پیش دستی ایک دن
یہاں یہ لفظ ایسے سلیقے کے ساتھ آیا ہے کہ اگر اس کی جگہ کوئی دوسرا لفظ رکھ دیاجائے تو حُسنِ بیان پر پانی پھر جائے گا، عربی میں اس کی مثال یہ ہے کہ گردن کی ایک رگ کا نام ” اخدع” ہے، عربی کے دو شاعروں نے اس لفظ کو اپنے کلام میں استعمال کیا ہے، لیکن دونوں میں حُسن و سلامت کے اعتبار سے زمین و آسمان کا فرق ہے، ابو تمّام کہتا ہے:
یادھرقوم عن اخدعیک فقد
اصججت ھٰذاالانام عن خرقک
یہاں یہ لفظ بڑا ثقیل اور بوجھل معلوم ہورہا ہے ، لیکن اس کے بعد حساسہ کے ایک شاعر عبداللہ بن الصّمہ کا یہ شعر پڑھیے:
تلفّتّ نحوالحیّ حتّٰی وَجَد تُّنی
وَجغتُ من الاصغاء لِیتاً وَّ اخدعا
اس میں وہی ثقیل لفظ اتنی روانی اور خوبصورتی سے آیا ہے کہ ذوقِ سلیم پر کوئی گرانی نہیں ہوتی ، بلکہ شعر میں مجموعی طور پر جو سوزوگداز پایا جارہا ہے یہ ثقیل لفظ اس میں بھی پوری طرح فِٹ ہوجاتا ہے، قرآن کریم میں لفظ” ضِیذیٰ” بھی ایسے حُسن کے ساتھ آیا ہے کہ اس کی جگہ کوئی خوبصورت سے خوبصورت لفظ بھی اس کی ہمسری نہیں کرسکتا۔
اَلَکُمُ الذَّکَرُوَلَہُ الاُنثٰی، تِلکَ اِذًا قِسمَۃ ضِیزیٰ
اگر انفرادی طور سے دیکھا جائے تو قِسمۃ جَائِرَۃ یا قِسمَۃ ظَالِمَۃ کے الفاظ ضِیذیٰ کے مقابلے میں بہتر معلوم ہوتے ہیں، لیکن جس سیاق میں لفظ ضیزیٰ قرآن میں آیا ہے وہاں اگر “جائرۃ” یا “ظالمۃ” کے الفاظ رکھ دیے جائیں تو(اہل زبان جانتے ہیں کہ ) کلام کی ساری روانی ختم ہوجائے گی۔
نظم کا اِعجاز:
قرآن کریم کا ایک دقیق اعجاز اس کی آیات کے باہمی ربط و تعلق، اور نظم و ترتیب میں ہے۔ آپ سرسری نظر سے قرآنِ کریم کی تلاوت فرمائیں تو بظاہر یہ محسوس ہوگا کہ اس کی ہر آیت جدا مضمون کی حامل ہے او ر ان کے درمیان کوئی ربط نہیں ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہےکہ قرآن کریم کی آیات کے درمیان نہایت لطیف ربط پایا جاتا ہے ا ور اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا، ورنہ اگر کوئی ترتیب ملحوظ نہ ہوتی تو ترتیبِ نزول اور ترتیبِ کتابت میں فرق رکھنے کی چنداں ضرورت نہ تھی۔ جس ترتیب سے قرآنِ کریم نازل ہوا تھا ، اُسی ترتیب سے لکھ لیا جاتا۔ یہ جو کتابت میں حضورﷺ نے ایک الگ ترتیب قائم فرمائی وہ اس بات کی بڑی دلیل ہے کہ قرآنی آیات میں ربط موجود ہے، البتہ یہ ربط قدرے دقیق ہوتا ہے اور اس تک پہنچنے کےلیے بڑے غوروفکر کی ضرورت ہے۔
اس ربط کو اتنا دقیق اور غامض رکھنے کی حکمت بظاہر یہ معلوم ہوتی ہے (واللہ اعلم) کہ ہر آیت کی ایک مستقل حیثیت باقی رہے، اور اس کے الفاظ کا عموم ختم نہ ہونے پائے تاکہ العبرۃ بعموم اللفظ پر عمل کرنا آسان ہو۔ اِس کے علاوہ اُس زمانے میں اہلِ عرب کے خطبات وقصائد کا اسلوب عموماً یہی ہوتا تھا کہ اُن کے مضامین مرتب اور مربوط ہونے کے بجائے مستقل حیثیت رکھتے تھے، لٰہذا یہ طریقہ اُس دور کے ادبی ذوق کے عین مطابق تھا ۔ چنانچہ اگر سرسری نظر سے دیکھا جائے، قرآن کریم کی ہر آیت مستقل معلوم ہوگی، لیکن جب آپ ذرا غور کی نظر سےدیکھیں گے تو معلوم ہوگا کہ یہ پورا کلام مسلسل اور مربوط ہے۔
اس طرح قرآ ن کریم نے اپنے نظم میں جو اسلوب اختیار فرمایا ہے وہ اس کا دقیق ترین اعجاز ہے اور اس کی تقلید بشری طاقت سے بالکل باہر ہے۔ بہت سے علماء نے قرآن کریم کے نظم کی توضیح کے لیے مستقل کتابیں لکھی ہیں اور بعض مفسرین نے اپنی تفسیروں کے ضمن میں اسے بیان کرنے کا خاص اہتمام کیا ہے۔ اس معاملے میں امام فخرالدین رازیؒ کی تفسیرِ کبیر شاید سب سے زیادہ قابلِ تعریف کاوش ہے۔ انھیں اللہ نے نظمِ قرآن کی تشریح کا خاص سلیقہ اور خاص توفیق عطا فرمائی ہے۔ ان کے بعد قاضی ابوالسعودؒ نے بھی نظم قرآن کی خصوصیات کو بیان فرمانے کا خاص اہتمام فرمایا ہے۔ بعد کے بیشتر مفسرین اس معاملے میں انہی دو حضرات کے خوشہ چیں ہیں۔
اس مسئلے میں صحیح رویہ یہ ہے کہ قرآن میں نظم کو تسلیم کرتے ہوئے وجوہ ربط کی تلاش کی جائے البتہ تکلف سے گریز کیا جائے کہ یہ قرآنی مذاق کے خلاف ہے۔ ”الاتقان“ میں علامہ عزالدین کا قول صاف طور سے یہ ہے کہ : علم مناسبت ایک بہترین علم ہے لیکن اگر آیتیں مختلف اسباب کے تحت نازل ہوئی ہیں تو ان کے اندر وجہ ارتباط کی تلاش نہیں کی جائے گی اور اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو اس کا یہ عمل تکلف سے خالی نہیں۔
(محاضرات قرانی/الاتقان108 /کتاب الفائد 224/ العان النظر فی نظام الآی والسورص:25-40 )
چندہ وجوہ ارتباط:
آیتوں اورسورتوں کے مابین اظہار ترتیب کا جو سسٹم ہے وہ دو قسم کا ہے۔ ایک قسم ایسی ہے کہ ہم اسے کسی خاص نام کے ذریعے متعارف نہیں کرواسکتے ہیں اس میں دراصل مفسر کی دقیقہ رسی، سنت پر عبور، لغت کی پختہ معرفت اور قرآنی ذوق کام کرتا ہے اور ایک قسم وہ ہے جسے بہ آسانی چند اصطلاحات کے سہارے متعارف کرایا جاسکتا ہے۔ ہم اسی دوسری قسم کا ذکر کرنا چاہیں گے۔
(1) جملہ کبھی اپنے ماقبل کی تاکید ہو یا بیان ہو یا تفسیر ہو یا پھر کوئی ذیلی اعتراض ہو۔
(2) مقابلہ: یعنی ایک جماعت کی صفات کے مقابلے میں دوسری جماعت کی صفات کا ذکر
(3) ضد: مثلاً وعدہ کے بعد وعید، آیات عذاب کے بعد آیات رحمت
(4) مضادہ یا تضاد: جیسے قرآن کی یہ آیت دیکھیں(یعلم ما یلج فی الارض ویخرج منھا وماینزل من السماء ومایعرج فیھا)
(5) تنظیر: جیسے (کنا اخرجک ربک من بیتک بالحق) کے بعد (اولئک ھم الموٴمنون حقا)
(6) استطراد: جیسے (یا بنی آدم قد انزلنا علیکم لباسا یواری سواٰتکم ورےئا ولباس التقوی ذلک خیر)
(7) حسن تلخص: جیسے سورہ شعراء میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قول نقل ہوا اور پھر بطور تلخص ”معاد“ کی صفات کا تذکرہ ہوا۔
کیا ہیں تلخص اور استطراد؟:
تلخص میں جس امر کا بیان ہوتا ہے اسے کلی طور پر ترک کر دیا جاتا ہے اور متکلم تلخص کردہ معنی کی جانب متوجہ ہوجاتا ہے لیکن استطراد میں امر مذکور کو ترک نہیں کیا جاتا بلکہ متکلم امر مستطرد کو بڑی تیزی سے سبک انداز میں بیان کرتے ہوئے آغاز کلام کی طرف لوٹ جاتا ہے ایسا لگتا ہے کہ اس نے اس امر کا ارادہ ہی نہیں کیا ہے بلکہ بات یونہی آگئی ہے۔ (الاتقان11)
(8) مخاطبین کے حالات کی رعایت میں غور کرکے ربط تلاشنا (افلا ینظرون الی الابل کیف خلقت والی السماء کیف رفعت والی الارض کیف سطحت)… (الاتقان110-108)
علم المناسبة کے حوالے سے قرآن حکیم پر ایک اعتراض یوں ہے کہ :
”قرآن واقعی ایک امی کی کتاب نظر آتی ہے کیونکہ اس کے اندر کوئی ربط اور تسلسل نہیں ہے اور ایسی بے ربط کتاب آسمانی کتاب کیونکر ہوسکتی ہے؟“
جواب:
”محاضرات قرآنی“ میں ڈاکٹر محمود غازی رحمہ اللہ نے مستشرقین کے اس اعتراض کا جواب دیا ہے ,خلاصہ پیش خدمت ہے:
(1)بلا کسی تشبیہ کے عرض ہے کہ اردو اور فارسی کی ایک صنف ”غزل مسلسل“ ہوا کرتی ہے کہ اس کے اشعار بظاہر الگ الگ محسوس ہوتے ہیں مگر ذراسی توجہ سے ان کا آپسی ربط واضح ہوجاتا ہے ۔ اس مثال سے اندازہ کریں کہ غزل جس میں اصلاً بعد ہوتا ہے پھر وہ بھی شعری صنف! تونثر میں کیونکر ربط نہیں ڈھونڈا جاسکتا۔
(۲) قرآن کا اسلوب تقریری اور خطابی ہے۔ اسے پڑھ کے سنایا جاتاتھا لکھ کے دیا نہیں جاتا تھا لہٰذا تحریری اسلوب کا مزاج اسے سمجھنے میں دشواری محسوس کرے گا۔ مثلاً کوئی تقریرکرتے ہوئے کہے:” آج اسلام اور مسلمانوں پر برا وقت آیا ہے۔ ہر طرف سے اسلام دشمن طاقتیں انھیں کچل دینے کے درپے ہیں۔”پھر ذرا لہجہ بدل کر اداة وصل کا استعمال کیے بغیر کہے: ”ہم نے سر پہ کفن باندھ لیا ہے۔ سنو! ہم اس جارحیت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔“ظاہر ہے اس عبارت کے اندر ربط ہے اور وہ تقریری ربط ہے۔
(۳) قرآن میں رہ رہ کر مضامین کی جو تبدیلی دیکھنے کو ملتی ہے اس سے عدم ترتیب پر استدلال درست نہیں ہے۔اس کی مثال ایک ڈیزائن کی ہے۔ جیسے آرٹ کا ایک ڈیزائن جس کے خطوط اس انداز کے ہوں کہ وہ پیچیدہ اور لائق معلوم ہوں مگر غور کرنے پر اس کا پورا سسٹم معلوم ہوجائے کہ یہ ایک گرافک ڈیزائن ہے۔اور یہ ڈیزائن پر ہی منحصر نہیں ہے بلکہ کوئی بھی علم یا کوئی بھی فن اس کے اصولوں کی معرفت کے بغیر نہیں سمجھا جاسکتا۔ علم الحساب کی لکیریں حساب سے نابلد شخص کو دیوانوں کی حرکت ہی کا احساس دلائیں گی۔ قرآن کی اپنی انفرادی شان ہے۔ اور اس کو مکمل سمجھنے کے لیے ایمانی علم اور فطری فنی ذوق در کار ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ دل بینا اسے سمجھ سکتا ہے، اندھا دل جو تعصب کی تاریکیوں کا مارا ہوقرآن کی ترتیبی ساخت کو نہیں سمجھ سکتا۔
(۴)قرآن چونکہ ہر فرد بشر کا ہادی ہے۔ وہ اور اس کا فیض دونوں قیامت تک کے لیے ہیں اسی لیے اس کا انداز ترتیب ہر طرز ترتیب سے مختلف اور الگ ہے۔ جس طرح قرآن کی دیگر چیزوں میں اعجاز ہے اسی طرح اس کی ترتیب بھی معجزانہ ہے۔اب جبکہ لوگ اپنے معیار ترتیب سے خدائی معیار ترتیب کو مختلف پاتے ہیں تو غور وتدبر کرنے کے بجائے اعتراض پیدا کرنے لگتے ہیں۔
نظم قرآن کی ایک ہلکی سی جھلک اس مثال میں دیکھی جاسکتی ہے، سورہ حجر میں ایک جگہ ارشاد ہے: نَبِّیء عِبَادِی اَنِّی اَنَاالغَفُورُالرَّحِیمُ ۔ وَاَنَّ عَذَابِی ھُوَالعَذَابُ الاَلِیمُ ۔ (الحجر : 49، 50) “میرے بندوں کو خبر دیدو کہ میں غفور اور رحیم ہوں، اور میرا عذاب (بھی) بڑا درد ناک ہے۔”
اس کے فوراً بعد ارشاد ہے:
وَنَبِّئھُم عَن ضَیفِ اِبرٰھِیمِ ۔ (الحجر: 51) اور انھیں ابراہیمؑ کے مہمانوں کی خبر دے دو۔”
اور اس کے بعد فرشتوں کے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس آنے کا مشہور واقعہ بیان کیا گیا ہے، بظاہر ان دونوں باتوں میں کوئی جوڑ معلوم نہیں ہوتا ،لیکن ذرا غور سے دیکھئے تو درحقیقت حضرت ابراہیمؑ کا واقعہ پہلے جملے کی تائید ہے۔ اس لیے کہ جو فرشتے حضرت ابراہیم ؑ کے پاس آئے تھے، انھوں نے دو کام کئے، ایک یہ کہ حضرت ابراہیم ؑ کو حضرت اسحٰق ؑ جیسے صالح بیٹے کی خوش خبری دی، دوسرے انہی فرشتوں نے حضرت لوط ؑ کی بستی پرجاکر عذاب نازل کیا، پہلاکام”اَنَاالغَفُورُ الرَّحِیمُ” کا مظاہرہ تھا اور دوسرا کام ” عَذََابِی ھُوَالعَذَابُ الاَلِیمُ” کا۔ اس طرح یہ دونوں جملے باہم نہایت گہرا تعلق رکھتے ہیں، لیکن الگ الگ دیکھئے تو ان کی مستقل حیثیت بھی ہے۔
ترکیب کا اعجاز:
نظم کےاعجاز کے بعد جملوں کی ترکیب ، ساخت اور نشست کا نمبر آتا ہے، اس معاملے میں بھی قرآن کریم کا اعجاز اوجِ کمال پر ہے۔قرآن کریم کے جملوں کے در وبست میں وہ شوکت ، سلاست اور شیرینی ہے کہ اس کی نظیر پیش نہیں کی جاسکتی ، اس حوالے سے اتنا ہی کہنا کافی ہوگا کہ پڑھنے والا محسوس کرتا ہے کہ زبان از خود ایک جملے سے دوسرے جملے کی طرف پھسلتی جارہی ہے، کہیں اٹکاؤ نہیں. یوں لگتا ہے کہ ہموار زمین ہے یا پھر ٹھہرے سمندر کی سطح آب۔
یہاں میں صرف ایک مثال پر اکتفاء کرتا ہوں:
قاتل سے قصاص لینا اہلِ عرب میں بڑی قابلِ تعریف بات تھی، اور اس کے فوائد ظاہر کرنے کے لیے عربی میں کئی مقولے مشہور تھے، مثلاً اَلقَتلُ اِحیَاء لِلجَمِیعِ(قتل اجتماعی زندگی ہے) اور اَلقَتلُ اَلقٰی لِلقَتلِ (قتل سے قتل کی روک تھام ہوتی ہے)اور (اَکثَرُواالقَتلَ لِیَقِلَّ المقَتلَ) “قتل زیادہ کرو تا کہ قتل کم ہوجائے”۔ ان جملوں کو اتنی مقبولیت حاصل تھی کہ یہ زباں زدِ عام تھے اور فصیح سمجھے جاتے تھے۔ قرآن کریم نے بھی اسی مفہوم کو ادا فرمایالیکن کس شان سے؟ ارشاد ہے:۔
وَلَکُم فِی القِصَاصِ حَیٰوۃ “اور تمھارے لیے قصاص میں زندگی ہے”
اس جملے کے اختصار ، جامعیت ، سلاست، شوکت اور معنویت کو جس پہلو سے دیکھیے بلاغت کا معجز شاہکار معلوم ہوتا ہے اور پہلے کے تمام جملے اس کے آگے سجدہ ریز دکھائی دیتے ہیں۔
اسلوب کا اعجاز:
اعجاز کلام کے لیئے جس طرح رعنائی خیال اور بلندیء مضمون ضروری ہے، اسی طرح دلکش اور موثر اسلوب اور حسین وجمیل طرز بیان بھی لازمی ہے، بلکہ بسا اوقات بلند اور نادر مضامین بھی بھونڈے اور فرسودہ پیرایہ بیان کی وجہ سے اپنی تاثیر کھودیتے ہیں اس کے برعکس بعض پامال اور معمولی باتیں بھی اپنی جادو بیانی اور جدتِ ادا کی وجہ سے معجزنما بن جاتی ہیں۔ قرآنِ پاک جو عربی ادب کا بے بدل اور لازوال نمونہ ہے اس کا سب سے بڑا اعجاز یہ ہے کہ بلند معانی اور الہامی تعلیمات کے ساتھ اس نے وہ اسلوب بیان اختیار کیا جس کی نظیر پیش کرنے سے اہل عرب عاجز رہ گئے۔ قرآن سے پہلے عربوں کے یہاں یا تو شعر تھا یا پھر نثر میں کاہنوں کے اقوال تھے جن میں لفظی صناعی نمایاں ہوتی تھی۔ اثر یا تو شعر کا مسلم تھا یا جادو کا۔ معانی کے لحاظ سے کاہنوں کے اقوال بالکل ہی کھوکھلے اور اشعار تعقل وتدبر سے عاری ہوتے تھے۔ جب قرآن سامنے آیا تو سب حیران رہ گئے کہ اس کو کس صنف میں داخل کیا جائے۔ ناقابل انکار تاثیرکا خیال کرتے تو اس کو شعر یا سحر کے خانے میں رکھ دیتے حالانکہ قرآن کا شعر یا سحر نہ ہونا ایک بدیہی بات تھی۔ نثر کی ظاہری شکل پر نظر جاتی تو قولِ کاہن کے علاوہ اور کوئی دوسری صنف ہی نہ تھی۔
دراصل قرآن نے اپنی بات کو پیش کرنے کے لیے جو وسیلہ اختیار کیا اس کی خوبی یہ ہے کہ اس میں نہ تو بحر ہے نہ وزن ہے اور نہ قافیہ کا التزام۔ وہ سجع کے اس بوجھ سے بھی آزاد ہے جو کاہنوں کے کلام میں پایا جاتا ہے۔ وہ اپنے سادہ اسلوب میں دل میں اتر جانے والی تاثیر رکھتاہے۔ قرآن کا قالب نثری ہے جو چھوٹے چھوٹے گٹھے ہوئے جملوں پر مشتمل ہے۔ ایسے جملے کہ ان کو ملا کرپڑھتے وقت وہ نغمہ اور صوت کے لحاظ سے ایک دوسرے کی نظیر معلوم ہوتے ہیں۔ اس نے نظم وترتیب اور اجمال وتفصیل کا وہ بہترین نمونہ پیش کیا کہ اہلِ عرب دنگ رہ گئے۔ (سید محمد یوسف: قرآن کا ادبی اسلوب، سیارہ ڈائجسٹ لاہور کا قرآن نمبر حصہ دوم)
قرآن کریم کے اعجاز کا سب سے زیادہ روشن مظاہرہ اس کے اسلوب میں ہوتا ہے، اور یہ وہ چیز ہے جس کا مشاہدہ ہر کس و ناکس کرسکتا ہے، اس کے اسلوب کی اہم معجزانہ خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں:
(1) اسلوب میں سب سے اچھا اسلوب، عربوں کے نزدیک ہی نہیں ہر صاحب ذوق کے یہاں ”شعری اسلوب“ ہے؛ کیوں کہ اشعار کے سنتے وقت غیرمحسوس طور پر انسان حلاوت محسوس کرتا ہے؛ لیکن قرآن کا اسلوب شعر نہیں ہے لیکن شعر کی لذت سے بڑھ کر اس میں لذت موجود ہے۔ کیوں کہ شعر کی لذت اور حلاوت کا سارا مدار ”متوازن صوتی آہنگ“ کا کان سے ٹکرانا ہے، لیکن یہ آہنگ پیدا کیسے ہوتی ہے اس کے لیے مختلف ذوق و مزاج ہیں، اور مختلف اصول و ضوابط ہیں، عربی اشعار کا سارا دارومدار خلیل بن احمد کی تخلیق کردہ اوزان پھر ردیف کی یکسانیت اور قوافی کی رعایت پر ہے، لیکن فارسی ذوق اس سے الگ ہے، اس کے برخلاف ہندی مزاج کا ذوق دوسرا ہے، اس میں تعدادِ حروف پر دارومدار ہے، پھر بسا اوقات تعدادِ حروف میں کافی تفاوت ہوتا ہے۔ قرآنِ کریم نے ان اصولوں کو نظر انداز کردیا اور صرف ”متوازن صوتی ہم آہنگی“ کو باقی رکھا جو ہرذوق و مذاق میں قدر مشترک ہے، یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نثر ہونے کے باوجود شعر سے زیادہ لطافت اور حلاوت کا حامل ہے۔ اور اہلِ عرب ہی نہیں بلکہ دنیا کی ہر زبان کے لوگ اُسے سُن کر غیر معمولی لذت اور تاثیر محسوس کرتے ہیں۔
(2)علماء بلاغت نے اسلوب کی تین قِسمیں قرار دی ہیں ، خطابی، ادبی ، علمی۔ ان تینوں قسموں کے دائرے الگ الگ ہیں۔ ہر ایک خصوصیات جُدا اور مواقع مختلف ہیں۔ اور ایک ہی عبارت میں ان تینوں اسالیب کو جمع کردینا ممکن نہیں ہے۔ آپ جب تقریر کرتے ہیں تو آپ کا انداز اور ہوتا ہے، اور جب کوئی ادبی نثر لکھتے ہیں تو اس کا اسلوب بالکل جدا ہوتا ہے، اور جب کوئی علمی مقالہ لکھتے ہیں توا س کا اسلوب کچھ اور اختیار کرتے ہیں۔ لیکن قرآن کریم کا اعجاز یہ ہے کہ وہ ان تینوں اسالیب کو ساتھ لے کر چلتا ہے ۔ اس میں خطابت کا زور، ادب کی شگفتگی اور علم کی متانت ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ اور کسی چیز میں کوئی کمی نہیں آنے پاتی۔
(3) قرآن کریم کے مخاطب الّہڑ دیہاتی بھی ہیں، پڑھے لکھے لوگ بھی اور اعلیٰ درجے کے علماء اور ماہرین ِ فنون بھی ، لیکن اس کا ایک اسلوب بیک وقت ان تینوں طبقوں کو متاثر کرتا ہے۔ ایک طرف اَن پڑھ آدمی کو اس میں سادہ حقائق ملتے ہیں اور وہ سمجھتا ہے کہ قرآن میرے ہی لیے اُترا ہے۔ لیکن دوسری طرف علماء اور محققین اور سائنسی ذوق رکھنے والے جب اُسے گہری نظر سے پڑھتے ہیں تو انھیں قرآن کریم میں علمی و سائنسی نکات نظر آتے ہیں ، اور معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتاب علم و فن کی ایسی باریکیوں پر مشتمل ہے کہ معمولی واقفیت کا آدمی انھیں سمجھ ہی نہیں سکتا۔
ایک عام آدمی کے ذہن کے پیش ِ نظر قرآن کریم کا طریقِ استدلال بہت سادہ اور زیادہ تر مشاہدہ کی دلیلوں پر مبنی ہے۔ توحید، رسالت، آخرت، آفرینش حیات، اور بردباری جیسے دقیق فلسفیانہ مسائل کو اس نے بالکل سامنے کی دلیلوں سے ثابت کیا ہے ، اور مظاہر ِ فطرت کی طرف اشارہ کرکے وہ حقائق بیان فرمائے ہیں جو آسانی کے ساتھ ایک ایک ادنیٰ ذہنی معیار کے آدمی کی سمجھ میں آسکیں، لیکن انہی سادہ حقائق کی تہہ میں اُتر کر دیکھئے تو اس میں خالص عقلی اور منطقی دلائل بھی ملیں گے ، جو فلسفیانہ موشگافیوں کے مریض کو بھی شفا بخشتے ہیں۔ باتوں باتوں میں اس فلسفہ اور سائنس کے وہ دقیق مسائل بھی حل کردئیے ہیں جن کی تحقیق کے لیے بڑے بڑے فلسفی آخر تک پیچ و تاب کھاتے رہے۔
(4) اگر ایک ہی بات کو بار بار دُہرایا جائے تو کہنے والا ادب وانشاء میں خواہ کتنا بلند پایہ مقام رکھتا ہو ایک مرحلے پر پہنچ کر سننے والے اُکتا جاتے ہیں، کلام کا زور ٹوٹ جاتا ہے، اور اس کی تاثیر کم ہوجاتی ہے۔ لیکن قرآن کریم کا معاملہ یہ ہے کہ اس میں ایک ہی بات بعض اوقات بیسیوں مرتبہ کہی گئی ہے ، ایک ہی واقعہ بار بار مذکور ہوا ہے ، لیکن ہر مرتبہ نیا کیف ، نئی لذت اور نئی تاثیر محسوس ہوتی ہے۔ (اس موضوع پر ایک تحریر الگ سے بھی پیش کی جائے گی)
(5) کلام کی شوکت اور اس کی نزاکت و شیرینی دو متضاد صفتیں ہیں۔ دونوں کے لیے الگ اسلوب اختیار کرنا پڑتا ہے۔ ان دونوں صفتوں کو ایک عبارت میں جمع کردینا انسانی قدرت سے باہر ہے ۔ لیکن یہ صرف قرآنی اسلوب کا اعجاز ہے کہ اس میں یہ دونوں اوصاف بدرجہ کمال یکجا پائے جاتے ہیں۔
(6) قرآن کریم نے بعض اُن مضامین میں بلاغت کو اوجِ کمال تک پہنچا کر دکھایا ہے جن میں کوئی بشری ذہن ہزار کوشش کے بعد بھی کوئی ادبی چاشنی پیدا نہیں کرسکتا۔ مثلاً قانونِ وراثت کولیجئے، یہ ایک ایسا خشک اور سنگلاخ موضوع ہے کہ اس میں دنیا کے تمام ادیب و شاعر مل کر بھی ادبیت اور عبارت کا حُسن پیدا نہیں کرسکتے۔ لیکن اس کے بعد سورۃ نِساء میں یُوصِیکُم اللہُ فِی اَولَادِکُم الخ والے رکوع کی تلاوت کیجئے۔ آپ بے ساختہ پکار اُٹھیں گے کہ یہ کوئی غیر معمولی کلام ہے۔ اس پورے رکوع میں قانونِ وراثت بیان کیا گیا ہے۔ لیکن اس حُسن وجمال کے ساتھ کہ ایک ایک جملے پر ذوقِ سلیم وجد کرتا ہے۔
(7) ہر شاعر اور ادیب کی فصاحت و بلاغت کا ایک مخصوص میدان ہوتا ہے۔ اس میدان کا مرد دوسرے میدان میں بالکل ناکام ثابت ہوتا ہے مثلاً عربی میں امرء القیس رزم وبزم، اور غزل کا امام ہے۔ اس سے خوف و ہیبت کا مضمون ادا نہیں ہوسکتا، یہ تو نابغہ ذبیانی کا کام ہے۔ لیکن نابغہ سے حسن طلب نہیں ہوسکتا یہ تو اعشی کا کام ہے۔ زہیر رغبت و امید میں بے نظیر ہے۔ اسی طرح فارسی شعراء میں نظامی و فردوسی رزم و بزم میں، سعدی وعظ و پند میں تفوق رکھتا ہے۔ ایک فن کا امام و شہ نشیں دوسرے فن میں حیران و خاک نشیں معلوم ہوتا ہے۔یہی حال ہر زبان کا ہے۔
لیکن قربان جائیے قرآن کے اسلوب پر ہر مضمون کو بلیغانہ و فصیحانہ اسلوب میں بیان کرتا ہے خواہ وہ ترغیب وترہیب ہو، یا رزم و بزم، جنت و جہنم کا بیان ہو یا پھر دنیا کی مذمت کا ذکر، انبیاء وصالحین کے کردار کا تذکرہ ہو یا پھر گزرے ہوئے سرکشوں اور باغیوں کی عبرت آموز داستانِ حیات، ہر ایک کو اسی مضمون کے مناسب جوش و خروش اور پرشوکت و پرعظمت لفظ و نظم میں بیان کرتا ہے۔
پھر مخاطب بھی ہر قسم کے ہیں۔ اعلیٰ درجے کے ماہرین فنون بھی، تو متوسط طبقہ کے فصیح و بلیغ نیز الھڑ قسم کے انسان بھی، قرآن کریم باوجود کہ بیان کی جملہ اقسام پر مشتمل ہے لیکن اس کے تینوں قسموں کے مخاطب بیک وقت متاثر ہوتے ہیں اورہر کوئی سمجھنے پر مجبور ہوتا ہے کہ قرآن کا اصل خطاب اسی سے ہے۔
(8) اختصار اور ایجازِ قرآن کریم کے اسلوب کا امتیازی وصف ہے۔ اور اس وصف میں اس کا اعجاز نہایت نمایاں ہے، قرآن کریم چونکہ قیامت تک کے ہر زمانے کی رہنمائی کے لیے آیا ہے، اس لیے اس نے مختصر جملوں میں وہ وسیع مضامین سمیٹ دئیے ہیں کہ ہر دور اور ہر زمانے میں اس سے ہدایت حاصل کی جاسکتی ہیں۔ چودہ سو سال گزر جانے پر بھی اس کے مضامین پُرانے نہیں ہوئے، اس عرصے میں انسانی زندگی نے کتنے پلٹے کھائے، کیسے کیسے عظیم انقلابات رونما ہوئے، لیکن قرآن کریم سدا بہار رہا اور رہے گا۔ وہ تاریخ کی کتاب نہیں ، مگر تاریخ کا مستند ترین مآخذ ہے، وہ سیاست و قانون کی کتاب نہیں، لیکن اس نے چند مختصر جملوں میں سیاست اور جہاں بانی کے وہ اصول بیان فرمادیئے ہیں، جو رہتی دنیا تک انسانیت کی رہنمائی کریں گے۔ وہ فلسفہ اور سائنس کی کتاب نہیں، لیکن اس نے فلسفہ اور سائنس کے بہت سے عُقدے کھول دیئے ہیں۔ وہ معاشیات اور عمرانیات کی کتاب نہیں، لیکن دونوں موضوعات پر اس نے اختصار کے ساتھ ایسی جامع ہدایات دیدی ہیں کہ دنیا کے علوم و فنون سینکڑوں ٹھوکریں کھانے کے بعد آج ان کے قریب پہنچ رہے ہیں۔
(مزید تفصیلات کے لیے دیکھئے علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ کا رسالہ” اعجازِ قرآن”۔)
Saji Khan
November 18, 2017 at 4:44 amبیشک، قرآن مجید کی خصوصیات لامتناہی
شکیبؔ احمد
January 24, 2021 at 12:19 amیہ آپ کی موعودہ تحریر اگر شائع ہو چکی ہو تو ضرور مطلع فرمائیے۔
شکیب احمد، الہند