چند دن پہلے غامدی صاحب کی طرف سے دیے گئے نامحرم عورت کے ساتھ مصافحہ کے جواز کے فتوی پر کچھ لوگوں نے اعتراض کیااس کے جواب میں غامدی مکتبہ فکر کے کچھ سرکردہ اہل علم نے بجائے دلیل سے اس فتوی کا دفاع کرنے کے’ لونڈیوں کے متعلق متروک فقہی احکامات کےذریعے خلط مبحث کی کوشش شروع کردی، انکے پیش کیے گئے ان حوالوں کو ملحدین نے بھی اپنے انداز میں استعمال کیا ۔ ان دونوں فریقین کی ‘ اجتماعی کوششوں ‘سے بہت سے لوگ کنفیوزین کا شکار ہوئے ، انکو دیکھتے ہوئے ہم ان اشکالات کا جواب پیش کررہے ہیں ۔
تاریخی و علاقائی تناظر کی اہمیت:
جب ایک مسئلے کو اسکے بیک گراؤنڈ سے نکال کے ایک مختلف منظر نامے میں لا کر پیش کیا جائے تو اسی طرح کنفیوزین پیدا ہوتی ہیں جس طرح اس مسئلے میں پیدا ہوئیں ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سی ایسی باتیں جو پرانے زمانہ میں ایک فخر کی چیز تھیں آج معیوب سمجھی جاتی ہیں ، بہت سے ایسے قوانین ہیں جو ایک دور کی سوسائٹی کی ضرورت تھے لیکن آج کے دور میں انکا تذکرہ بھی عجیب لگتا ہے۔ عقل و انصاف کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ ان باتوں اور قوانین کی معنویت سمجھنے کے لیے انکا موازنہ اسی زمانے اور دور کی دیگر تہذیبوں کے قوانین سے کیا جائے نا کہ آج کے معیار پر انکو پرکھا جائے ۔ آج انسانیت پچھلے ایک ہزار سال میں بہت آگے بڑھ چکی ہے جدید دور میں غلامی کے معیار اور انداز بدل گئے ہیں ۔ آج کے دور میں اسی انداز میں لونڈی غلام کا کنسیپٹ نہیں رہا اس لیے اسکا تذکرہ بھی معیوب لگتا ہے ۔
شرعی طور پر تو موجودہ حالات اور منظر نامے میں کسی لونڈی غلام کی کوئی گنجائش موجود نہیں لیکن جدید مہذب معاشرے میں تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ آج بھی اسکا کنسیپٹ موجود ہے ۔ اب لونڈی کے بجائے طوائف اور سیکس ورکر کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے ۔ قدیم مسلم معاشرے میں جنگ کے علاوہ کسی آزاد مرد عورت کو غلام بنانے پر بالکل پابندی تھی، جو جنگ سے قید ہوکے آتے تھے ان لونڈی غلام کے رہن سہن ، کھانے پینے ، خرید و فروخت کے متعلق مسلم معاشرے میں قانون سازی کی گئی تھی ، کچھ حدود مقرر کی گئیں تھیں۔ آج کی آزاد سیکس ورکرز کے لیے اس طرح کا کوئی قانون موجود نہیں۔ اسے ایک برگر یا ایک وقت کے کھانے کے لیے اپنا انگ انگ دکھانا ہے ، اپنے حسن کی مارکیٹ لگوانی ہے پھر ان چند ٹکوں کے بدلے اسکا بری طرح جنسی استحصال کیا جانا ہے ، اسکی عزت نفس مجروع کی جانی ہے۔ یہ سب بھی اسوقت تک جب تک اس میں کچھ کشش موجود ہے، کشش ختم ہونے کے بعد اسے کیسے مرنا ہے یہ اسے خود فیصلہ کرنا ہے ۔ ۔یہ بات دعوی سے کہی جاسکتی ہے کہ یہ سو روپے کے لیے ذلیل ہونے والیاں اگر مسلم معاشرے کی لونڈیوں کی حالت دیکھ لیں تو لونڈی بننے کو ترجیح دیں۔
یہ تو مہذب معاشرے کی ان سیکس ورکرز ( لونڈیوں) کا حال ہے جو اپنی مرضی سے بنی ہیں ، آج کا جدید مہذب معاشرہ اور انسانی حقوق کے چیمپئن اپنے مخالف جنگی مردوں عورتوں کے ساتھ کیا کرتے ہیں؟ اسکی مثالیں ویت نام , عراق اور افغانستان سے دی جاسکتی ہے . آج سے صرف چالیس سال پہلے ویت نام میں لڑنے والے امریکی فوجیوں کے لیے تھائی لینڈ عیاشی کا اڈا تھا , اردگرد علاقوں سے لڑکیاں اغوا کرکے انکے لیے وہاں لائی جاتی تھیں ، یہ اور بات ہے کہ ہالی ووڈ کی مشہور فلم سیریز ‘ریمبو ‘ ‘ کے ایک پارٹ میں ویت نامیوں کو یہ قبیح کام کرتے اور امریکن کو ان لڑکیوں کا نجات دہندہ دکھایا گیا ہے ۔ یہی کچھ اس اکیسویں صدی میں ان مہذب اقوام نے عراق اور افغانستان کی عوام کیساتھ کیا , ہزاروں افغانی اور عراقی لڑکیوں کے انکے فوجیوں نے ریپ کیے اور وہ یورپ امریکہ کے بازار حسن میں لا کے بیچ دی گئیں، ان جنگوں میں دشمن کے مرد قیدیوں کیساتھ گوانتاناموبے میں کیسا سلوک رکھا گیا اسکے مناظر گوگل سے بھی سرچ کیے جاسکتے ہیں لیکن پھر بھی ہمارے لبرلز کے نزدیک یہ لوگ ناصرف مہذب ہیں بلکہ جدید تہذیب کے بانی اور انسانیت کے راہنما بھی ہیں ، انکے مطابق ان لوگوں نے انسانیت کو تہذیب سکھلائی ہے ،جینا سکھایا ہے، تحفظ فراہم کیا ہے۔غلاموں کے متعلق اسلامی رولنگ سے خفا ان لبرلز کو یہ بات بھی عجیب محسوس نہیں ہوتی کہ انسانی حقوق اور لبرل ازم کے جدید تصورات کا بانی جان لاک نہ صرف غلامی کے حق میں تھا بلکہ انہیں ذاتی ملکیت کا حق دینے کے بھی خلاف تھا، اور عالمی نجات دہندہ امریکہ کو سپر پاور بنانے میں ان غلاموں کا اہم کردار ہے جنہیں افریقہ سے زبردستی پکڑ کر بحری جہازوں میں لاد دیا جاتا تھا اور وہ تمام عمر امریکی سفید فام لوگوں کے کھیتوں میں کام کرتے کرتے مر جاتے تھے۔ ۔
اگر اسلامی تہذیب کا اس ضمن میں رویہ دیکھا جائے تو یہ اپنے زمانے کے علاوہ ماضی قریب کی ان تہذیبوں سے بھی ہزارہا گنا بہتر تھا۔غامدی معترض نے لونڈی غلام کی خرید و فروخت کے حوالے سے کچھ متروک فقہی احکام کا تذکرہ کیا جن سے بہت سے لوگ کنفیوزین کا شکار ہوئے، ان کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ لونڈی غلام اس دور میں ملکیت کی چیز تھے۔ جب ایک چیز کومکمل حقوق و فرائض کے ساتھ کسی زمانےمیں ملکیت کہا گیا ہو، لازمی بات ہے اسکی خرید و فروخت بھی جائز ہوگی ،جب یہ جائز ہوئی تو مسئلہ فقہاء کے کورٹ میں خودبخود آگیا، اب انہوں نے اسکے لیے قانون سازی اور حدود متعین کرنی تھیں۔۔ فقہاء کا طریقہ یہ ہے کہ وہ کسی بھی مسئلےکے متعلق جب رولنگ دیتے ہیں تو آخری حد تک جاتے ہیں، فقہ کی کتابوں میں آپ کو ایسے کئی مسائل ملیں گے جو اس معاشرے کی ضرورت نہیں تھے لیکن ان کے متعلق بھی انہوں نے وضاحت کردی ۔۔۔ اس مسئلے میں بھی کچھ فقہاء حدود متعین کرنے میں ممکن حد تک گئے، یہی فقہی احکام اور اقوال ہی معترض نے بھی پیش کیے اور لوگوں نے ان سے یہ سمجھ لیا کہ شاید مسلمان حقیقت میں بھی یہ سب کچھ کرتے تھے۔
آج کے دور میں نا وہ حالات ہیں اور نا اسلام میں انکی کوئی گنجائش ہے ۔ ایک فاضل دوست کے الفاظ میں ہر مذہب ایک نئی تہذیب کی تشکیل کی طرف ایک مخصوص سمت کا تعین کر کے پیش قدمی شروع کرتا ہے اور کسی مذہب کی کامیابی بھی یہی ہے کہ وہ کسی تہذیب کی سب سے بڑی قدر (principal value) بن کر انسانوں کے خمیر میں داخل ہو جاۓ۔ اسلام نے بھی ایسا ہی کیا لیکن اپنے اس تہذیبی سفر میں اس نے کئی پڑاو ڈالے اور ارتقا کی کئی منزلیں طے کیں۔ حرمت و حلت کے دائمی پیمانے تو اپنی جگہ رہے، لیکن ایک زندہ حقیقت ہونے کی حیثیت سے اس نے کچھ معاشرتی رجحانات کو عارضی اور بندوبستی حیثیت میں قبول کیا لیکن اُن کے بارۓ میں بھی ایسی بنیادی ہدایات جاری کیں کہ جو وقت کے ساتھ ساتھ ان رجحانات کو مذہب سے الگ کردینے کا پیش خیمہ بنیں۔ ان معاشرتی رجحانات سے بیک جنبش قلم چھٹکارا پانا، درحقیقت ایک بہت بڑی سماجی بحران کو جنم دینے کے مترادف ہوتا اس لیے ان میں تدریج کا حد درجے خیال رکھا گیا۔ غلاموں اور لونڈیوں کا معاملہ اسی کیٹیگری میں آتا ہے۔ لیکن افسوس کچھ لوگ اسلام کے ارتقائی پڑاو کی چند منزلوں کو بیناد بنا کر ایک طرف تو اس کی حلت و حرمت کے پیمانوں کی نئی تعریفیں وضع کرنے کے درپے ہیں، دوسری طرف تہذیبِ اسلامی کے پہیے کو واپس گھما کر معاصر ’’آزادیِ نسواں‘‘ کے مقدمے کے لیے دلائل تراشنے میں مصروف ہیں۔
اس حوالے سے اس موضوع پر ہم پہلے بھی تفصیل پیش کرچکے ہیں جو ان لنکس سے ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔
(استفادہ تحریر: جمیل اصغر جامی، مجاہد حسین ، محمد سعد)