غامدی مفکر نے لونڈیوں کے متعلق اپنی بحث میں فقہاء، محدثین کرام اور صحابہء کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے حوالے سے کچھ آثار اور احادیث کا حوالہ دیا تھا.. ہماری بدقسمتی ہے کہ عوام تو کیا ہمارے خواص یعنی علماء کا بھی ہمارے معاشرے اور عرف میں حدیث کے ساتھ تعامل بہت کم ہے، اس وجہ سے ان روایات سے ذہنوں میں الجھنیں پیدا ہوئیں اور کئی احباب کو پڑھا جو بدظن ہوئے..یہاں تک کہ صحابہء کرام کے بارے میں بھی عجیب عجیب خیالات پیدا ہونے کی شکایات سامنے آنے لگیں. ہمارے پیج پر اس متعلق مسلسل ایسے مسیج موصول ہورہے ہیں ۔ ۔گزشتہ تحاریر میں ہم نے ان روایات کا عقلی جائزہ پیش کیا تھا لیکن کچھ ممبران کی طرف سے یہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ ان مخصوص روایات کی حقیقت و حیثیت بھی واضح کی جائے ۔ ان مطالبات کو دیکھتے ہوئے اس تحریر میں روایات کے اس پہلو کو واضح کیا جارہاہے ۔
غامدی مفکر نے جن آثارکو اپنی دلیل کے طور پر ذکر کیا تھا، تحقیقی بات یہ ہے کہ وہ ساری ہی ضعیف ہیں اور ان سے استدلال کرنا درست ہی نہیں.
ان آثار میں بنیادی طور پر کچھ وہ تھیں، جن میں لونڈی کی پنڈلی یا بازو کو کھول کر دیکھنے کا ذکر ہے..ان آثار کی بھی سندی تحقیق آخر میں ذکر کردی جائیگی، تاہم یہ بات ملحوظ رہے کہ لونڈیوں اور غلاموں کا جو مقام شریعت نے بنیادی طور پر رکھا ہے اور آدمیت کے تمام تر احترام اور اکرام کے باوجود ان کی خرید وفروخت کو جس طرح جائز رکھا ہے،اور جس طرح ان کو ایک سے دوسرے کے مِلک میں جانے کو روا رکھا، اس سے ان کا مال ہونا بہرحال بالکل واضح ہے اور اس سے اختلاف کی گنجائش ہی نہیں…عجیب بات ہے کہ “غلام کے مال ہونے” پر حیرانی اس ذہن کو ہے جس کی سوشل پالیسی کا اہم ترین ستون “انسانی سرمائے” (Human capital) میں اضافہ ہے۔
لہذا اس ” مالیت ” کے اعتبار سے دیکھا جائے، تو اس میں کوئی قباحت نظر نہیں آتی کہ ان اعضاء کو دیکھا جائے، جبکہ نکاح کے لئے آزاد عورت کو بھی دیکھنے کی گنجائش ہے، ایسے ہی لونڈی کے معاملے میں بھی ہے..پھر لونڈی میں مال ہونے کا عنصر بھی ہے.لہذا یہ بات عین معقولی ہے کہ اس کی دوران خرید مقاماتِ نظر بھی بنسبت آزاد عورت کے زیادہ ہو..اور پنڈلی دیکھنا، اسی طرح بازو دیکھنا یا سینے پر ہاتھ رکھنا نہ کہ پستانوں پر …..ایسے امور عقلاً بھی جائز ہونے چاہیئے، تاکہ آزاد اور غلام کے فرق کی تعیین ہوسکے..یوں اس لائن کے آثار اور فقہی روایات کے بارے میں مزید تفحص کی ضرورت اور حاجت نہیں..گو ہم نے آخر میں اس روایت کے بارے میں بھی تحقیق ذکر کی ہے اور اس کا ضعف دکھایا ہے.
اس کے بعد کچھ وہ آثار ہیں، جن میں ان مواقع سے بڑھ کر کہیں زیادہ دیکھنے کا ذکر ہے. (شرم گاہ کی استثناء کے ساتھ)اس بارے میں غامدی مفکر نے حضرت علی رض کا اثر ذکر کیا ہے.. کہ “مصنف عبد الرزاق کے مذکورہ باب کی روایات کے مطابق
“حضرت علی سے لونڈی کی پنڈلی، پیٹ اور پیٹھ وغیرہ دیکھنے کے متعلق پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ کوئی مضائقہ نہیں۔ لونڈی کی کوئی حرمت نہیں۔ وہ (بازار میں) اسی لیے تو کھڑی ہے کہ ہم (دیکھ بھال کر) اس کا بھاو لگا سکیں۔”
اس کی سند بالکل واہی تباہی ہے، جس میں ایک وقت میں دو مجہول راوی ایک دوسرے سے روایت کررہے..اس کی سند دیکھئے،اور اسے “کوٹ کرنے والوں ” کی ثقاہت پر سر دھنئے..
13208 عبدالرزاق عن ابن جریج قال اخبرنی من اصدق عمن سمع علیاً….
اس میں ابن جریج نے جس سے روایت کی ہے، اس کا ذکر نہیں کیا ..اوپر سے جس سے وہ خود روایت کررہا، وہ بذاتہ ایک مجہول شخص ہے..یہ بھی پتہ نہیں کہ کونسا خارجی، رافضی یا معتزلی ہے…یہ اسناد مجاھیل ہے، جس کو درست طور پر یوں بیان کیا جا سکتا ہے ظلمات بعضہا فوق بعض…
اسی طرح وہ تمام اسانید جن میں اس شکل کا ذکر ہے، مجاھیل پر مشتمل ہیں.
مثلاً اگلی سند حدیث نمبر 13206 دیکھئے ..عبدالرزاق عن ابن جریج، عن رجل عن ابن المسیب….
“سعید ابن المسیب نے کہا کہ لونڈی کو خریدنے کا ارادہ ہو تو شرم گاہ کے علاوہ اس کا سارا جسم دیکھا جا سکتا ہے۔
اس میں ابن جریج اور ابن مسیب کے درمیان ایک مجہول آدمی “بیٹھا ہوا ” ہے،جو ماعدا فرج کے جواز کا حکم “نشر ” کررہا..
اور محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا لایا ہوا خداوندی دین ایسے مجاھیل سے نہیں لیا جاتا..
اسی طرح مصنف میں اگلی روایت 13207 میں عبدالرزاق عن الثوری عن جابر عن الشعبی….ہے
“شعبی نے بھی کہا کہ شرم گاہ کے علاوہ اس کا سارا جسم دیکھا جا سکتا ہے۔”
اس میں جابر جعفی ہے، جو کٹر شیعہ اور متہم بالکذب ہے..اور کذاب کی حدیث نہیں لی جاتی..
سو وہ سارے آثار جن میں لونڈیوں کے جسم کے مختلف حصے دیکھنے کی بات مذکور ہیں، جیسے پیٹ، پیٹھ اور کمر وغیرہ..وہ ساری ضعیف اور ناقابل استدلال ہیں..
اب کچھ اس اثر کا ذکرکرتے ہیں، جن میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنھما کی طرف منسوب ہے کہ وہ لونڈیوں کے جسم کے مختلف حصے دیکھ اور ٹٹول رہے ہیں.. روایت مصنف عبدالرزاق سے ہی ہے، جن میں ان کے بقول…ابن عمر رض کے شاگرد بیان کرتے ہیں..سو یہ روایت ہے ان کے شاگرد نافع سے..
13205 عبدالرزاق عن ابن جریج عن نافع..
“عبد اللہ بن عمر کے تلامذہ بیان کرتے ہیں کہ انھیں جب کوئی لونڈی خریدنا ہوتی تو اس کی پیٹھ، پیٹ اور پنڈلیاں ننگی کر کے دیکھتے تھے۔ اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیر کر دیکھتے تھے اور سینے پر پستانوں کے درمیان ہاتھ رکھ کر دیکھتے تھے۔”
اس روایت سے استناد درست نہیں، کیونکہ یہ معنعن ہے..ابن جریج اسے نافع سے عن کے صیغے کے ساتھ روایت کررہے اور عن کے صیغےسے روایت کردہ اثر میں عموماً بیچ میں براہ راست سماع نہیں ہوتا.بہت مرتبہ بیچ میں مجہول راوی ہوتے ہیں، جنکو اسناد میں سے ساقط کرکے روایت کی گئی ہوتی ہے.
اور یہ تو معنعنِ ابن جریج ہے..وہی ابن جریج جس کے بارے میں امام احمد فرماتے ہیں، جب وہ قال فلاں، قال فلاں کہے اور اُخبرتُ کہے، تو وہ مناکیر بیان کرتا ہے..(اعلام النبلاء ۳۲۹)
دارقطنی فرماتے ہیں کہ ابن جریج کے تدلیس سے بچو..کیونکہ اس کی تدلیس سب سے بری ہوتی ہے..یہ اسی وقت تدلیس کرتا ہے، جب کسی مجروح راوی سے سماع کرتا ہے.اور اس اثر میں ابن جریج یہی تدلیس کررہا ہے..
لہذا اس بحث سے معلوم ہوا کہ حضرت ابن عمر رض کیطرف پیٹ، پیٹھ اور سینہ وغیرہ کو کھولنے کی روایت درست نہیں.
اسی طرح وہ روایات کہ جن میں آتا ہے کہ حضرت ابن عمر رض جس لونڈی کو خریدنا چاہتے تھے، ان کے پیٹ کو دیکھا کرتے تھے اور اس پر ہاتھ رکھا کرتے تھے، وہ بھی ساری کی ساری مجروح اور متکلم فیہا ہیں.
مثلاً یہ سند دیکھئے، 13198 : عبدالرزاق عن ابن جریج عن عطاء ….قال
مزے کی بات یہ ہے کہ ابن جریج کا عطاء سے روایت کرنا ہی ضعیف ہے. (تہذیب التہذیب ۴۰۶/۶)
اسی طرح اگلی اثر 13199 اخبرنا عبدالرزاق قال اخبرنا ابن جریج قال اخبرنی عمرو او ابوالزبیر..عن ابن عمر رض……
“مجاہد کا بیان ہے کہ ایک موقع پر ابن عمر بازار میں آئے تو دیکھا کچھ تاجر لوگ ایک لونڈی کو خریدنے کے لیے الٹ پلٹ کر دیکھ رہے ہیں۔ انھوں نے آ کر اس کی پنڈلیاں ننگی کر کے دیکھیں، پستانوں کے درمیان ہاتھ رکھ کر اس کو جھنجھوڑا اور پھر خریدنے والوں سے کہا کہ خرید لو۔ یعنی اس میں کوئی نقص نہیں۔”
اس روایت کا حال یہ ہے کہ خود ابن جریج کو یا عبدالرزاق کو یہ تک یاد نہیں کہ مجھے یہ بات عمرو نے بتائی یا ابوالزبیر نے….جب راوی کی ہی تحدید نہ ہو سکتی ہو، تو روایت کا کیا درجہ ہوگا؟؟؟جبکہ یہ ابو الزبیر خود ضعیف ہے..حال ان کا یہ ہے کہ نعیم بن حماد کہتے ہیں میں نے ہشام کو کہتے سنا “سمیت من ابی الزبیر “یہ سننا تھا کہ شعبہ نے میری کتاب چھینی اور اسے پھاڑ دیا.. (تھذیب الکمال)
ابن حجر رح نے اسے مدلسین کی طبقہء ثالثہ میں شمار کیا ہے…اور طبقہء ثالثہ کے مدلسین جب تک اپنے راوی کی تصریح نہ کریں، تب تک ان کی روایت کو نہیں لیا جائیگا.
مجاہد کی روایت رہتی ہے، جس میں ہے کہ ابن عمر رض نے لونڈی کی پنڈلیاں ننگی کرائیں یا سینے کے درمیان ہاتھ رکھا.. یہ ان روایات کی قبیل سے ہے، جنکا اپنا مضمون ہی کسی امرِ شنیع کا حامل نہیں.تاہم اسنادی اعتبار سے یہ روایت بھی ضعیف ہے.کیونکہ اس کی سند میں ابن نجیح ہے، جس کو ابن حجر رح نے طبقہء ثالثہ میں رکھا ہے.اور طبقہء ثالثہ کے مدلسین کا حکم ابھی بیان کردیا کہ جب تک اپنے راوی کو بیان نہ کریں، تب تک ان کی روایت نہیں لی جائیگی..اور اس روایت میں یہی ہے..
الفاظ دیکھئے، “عبدالرزاق، عن ابن عیینہ قال اخبرنی ابن ابی نجیح عن مجاہد..یعنی ابن نجیح اپنے راوی کی تصریح نہیں کررہا..کیونکہ عن کے ساتھ جو روایت ہوتی ہے، اس میں تعیین مشکل ہوتی ہے کہ یہی راوی ہے یا تدلیس ہوئی ہے…!!!گویا ابن نجیح یہاں تدلیس کررہا اور اس وجہ سے اس کی روایت نہیں لی جائیگی.
خلاصہ یہ کہ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں جتنی بھی روایات موجود ہیں ، ان میں جو.باندی کو چھونے کا ذکر ہے ان کی اسنادی حیثیت تو یہ ہیں کہ ان میں سے کوئی بھی صحیح حدیث نہیں…. سب یا تو ضعیف ہیں یا پھر معلول…..لہذا قابل استدلال نہیں….دوسری طرف غیر محرم کو چھونے پر وعید صراحتا موجود ہیں جن کے ہوتے ہوئے ان ضعیف احادیث پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا…..کیونکہ باندی کو جب تک خریدا نہ جائے تو اس سے انتفاع جائز نہیں ہوتا…..بہرحال علی سبیل التسلیم باندیوں کے بارے میں یہ اصول ذہن میں رہنا چاہیے کہ ان کے معاملے میں یہ اصول ہے “قد یباح فی الامۃ ما لا یباح فی الحرۃ”…….لہذا سوچنے کی بات یہ ہے کہ باندیوں کا معاملہ صحابہ کے زمانے میں بہت عام تھا اس کے باوجود خرید و فروخت کے بارے میں انہیں چھو کر ٹٹولنا کسی اور صحابی سے اس طرح مروی نہیں حالانکہ اس کا مروی ہونا تو عام ہونا چاہیے تھا……..ایک صحابی کے بارے میں ضعیف روایات پر مسئلہ کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی……
باقی جہاں تک معاملہ ہے حضرت عمر رض کے حکم کا، تو عرض ہے کہ یہ ان کا سیاسی فیصلہ تھا، بطور حاکم…مقصود لونڈی اور آزاد عورت کے درمیان فرق ملحوظ رکھنا تھا..لہذا اس مسئلے کو وقت کے مصالح کے اعتبار سے دیکھا جائیگا، نہ کہ حکمِ شرعی کے طور پر۔ روایت میں بھی یہی وجہ بیان کی گئی ہے۔
مصنف عبد الرزاق وغیرہ میں ہے کہ حضرت عمر نے انس رضی اللہ عنہ کے خاندان کی ایک لونڈی کو سر ڈھانپے ہوئے دیکھا تو اس کو درہ لگایا اور کہا کہ او کمینی! سر کو ننگا رکھو اور آزاد عورتوں کے مشابہ بننے کی کوشش نہ کرو۔
علامہ طحطاوی رحمہ اللہ نور الایضاح کی شرح مراقی الفلاح کے حاشیہ پہ رقمطراز ہیں : کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے طرز عمل سے معلوم ہوتا ہے کہ باندی کے لئے گھونگھٹ کرنا مکروہ ہے لیکن یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے کے اعتبار سے ہے جہاں تک ہمارے زمانہ کی بات ہے تو باندی کے لئے گھونگھٹ کرنا ضروری ہے (طحطاوی علی مراقی الفلاح ص 140 ) علامہ طحطاوی کی یہ عبارت اعلاء السنن میں بھی مذکور ہے۔ ۔ علامہ طحطاوی کی یہ بات موید بالقرائن معلوم ہوتی ہے
1: عورتوں کا نماز پڑھنا مسجد میں کہ اس کو فتنہ کہ بناء پہ ترک کردیاگیا تو جب عورتوں کی مسجد میں نماز پر اصرار صحیح نہیں تو اس پر بھی اصرار کرنا بھی درست نہ ہونا چاہئے
2: فقہ میں مسئلہ مذکور ہے کہ محارم کے جن اعضاء کا دیکھنا جائز ہے اگر ان کے دیکھنے سے شہوت پیدا ہوجائے تو ان کا بھی دیکھنا جائز نہ ہوگا اور اسی طرح فقہاء کہتے ہیں کہ اگر کوئی محرم غلط قسم کا ہو تو اس سے پردہ کرنا چاہیے تو جب محارم کے اعضاء کا شہوت کی بناء پہ دیکھنا ناجائز ہے تو پھر یہ زمانہ جس میں بے حیائی اور ہتک محارم کا یہ حال ہے کہ الامان والحفیظ۔ ساس اور ماں کی عزتیں تک غیر محفوظ ہیں تو فقہ کے مشہور اصول “ان کثیرا من الاحکام تختلف باختلاف الزمان ” سے امام طحطاوی رحمہ اللہ کی یہ بات بدرجہ اولی درست معلوم ہوتی ہے کہ فی زماننا ھذا باندی پر بھی مکمل پردہ عائد کیا جائے اور یہ بات علامہ طحطاوی نے اپنے زمانہ کے اعتبار سے کہی ہے تو ہمارا زمانہ تو اور پر فتن ہے۔
الحاصل یہ کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ حکم آزاد عورتوں سے تشبہہ سے بچنے کے لئے دیا تھا اور چونکہ آپ رضی اللہ عنہ کا زمانہ خیر القرون کا تھا اور فتنہ کا اندیشہ نہ تھا اور ہمارا زمانہ چونکہ فتن کا دور ہے لہذا فقہ کے مشہور اصول ” ان کثیرا من الاحکام تختلف باختلاف الزمان ” کہ بہت سے احکام زمان کے بدلنے سے بدل جاتے ہیں کی بناء پہ بقول امام طحطاوی رحمہ اللہ باندی پہ مکمل پردہ ہونا چاہئے
جہاں تک معاملہ ہے فقہاء کے اقوال کا ..
تو عرض ہے کہ فقہاء کسی حکم کو پہلے قرآن میں دیکھتے ہیں کہ کہاں کہاں پر اس معاملے میں کیا ہدایات ہیں..پھر مختلف احادیث میں دیکھتے ہیں…تب اس سارے مطالعے اور مشاہدے کے بعد اپنے فہم اور نورِ بصیرت کی بنیاد پر قرآن وحدیث میں مذکور حکم کی بنیاد پر اصول کی تخریج کرتے ہیں..اس کے بعد جو مسئلہ آتا ہے، اسے ان اصولوں کی روشنی میں حل کرتے ہیں..ایسے ہی فقہاء نے لونڈیوں کے معاملے میں دو اصول نکالے..
ایک یہ کہ چونکہ ان کی خرید وفروخت ہوتی ہے اور مِلک بنا کرتی ہیں، لہذا یہ مال ہے..اور ان پر مال ہونے کے تمام احکامات بھی لاگو ہوتے ہیں..دوسری اصل یہ ہے کہ یہ زندہ انسان ہیں..ان کے پاس وہ سب کچھ ہے، جو کسی بھی آزاد انسان کے پاس ہے، ہاں مگر یہ پابند ہیں ..
اب ہوا یوں کہ جس فقیہ نے “مال ” ہونے کی اصل کو ترجیح دی، اس نے پھر اسی کے موافق دیکھنے، پرکھنے اور چھونے کی اجازت دی..جبکہ جس کے سامنے اس کی نسوانیت کا پہلو غالب رہا، اس نے اس سے منع ہی کیا..
امت کا اجتماعی ضمیر فیصلہ کرتا ہے کہ کس فقیہ کی بات لی گئی اور کس کی چھوڑ دی گئی..اور امت کی روایت اور ثقافت کی تاریخ بھی اس پر دال ہے، کہ نسوانیت کا پہلو ہی عموماً غالب رہا ہے..اسی وجہ سے تاریخ ایسے واقعات کے وقوع کے متعلق عموماً خاموش ہے.
تحقیق: مولانا علی عمران، مولانا عبداللہ اعظمی
لونڈیوں کی خریدوفروخت اور ستر متعلقہ امور | الحاد جدید کا علمی محاکمہ
August 13, 2016 at 5:26 am[…] کے متعلق متنازعہ تاریخی روایات کا تحقیقی جائزہ اس تحریر سے ملاحظہ […]