ایک ملحد تحریف قرآن کے موضوع کے تحت لکھتا ہے :
“یہ بات بھی بالکل غلط ہے کہ اس عثمانی مصحف پر اجماع ہو گیا تھا کیونکہ عبداللّٰه بن مسعود اور ان کے شاگردوں نے سارے مصحف جمع کر کے جلوانے اور صرف ایک کو رائج کرنے کے عمل کی شدید مخالفت کی اور اسی مصحف پر قائم رہے جو ان کے پاس موجود تھا۔ اب پتا نہیں یہ کون سا اجماع ہے جس میں عبداللّٰه بن مسعود جیسا جلیل القدر صحابی اور ان کے شاگرد شامل نہیں۔چنانچہ خمیر بن مالک کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سرکاری حکم جاری ہوا کہ مصاحف قرآنی کو بدل دیا جائے (حضرت عثمان غنی کے جمع کردہ مصاحف کے علاوہ کسی اور ترتیب کو باقی نہ رکھا جائے) حضرت ابن مسعود کو پتا چلا تو فرمایا:
“تم میں سے جو شخص اپنا نسخہ چھپا سکتا ہو، چھپا لے، کیونکہ جو شخص جو چیز چھپائے گا قیامت کے دن اس کے ساتھ ہی آئے گا، پھر فرمایا کہ میں نے نبی کریم کے دہن مبارک سے ستر سورتیں پڑھی ہیں، کیا میں ان چیزوں کو چھوڑ دوں جو میں نے نبی کریم کے دہن مبارک سے حاصل کی ہیں۔”
(مسند احمد، مترجم، جلد دوم ص۶۱۹-۶۲۰، حدیث ۳۹۲۹، مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ لاہور)
تبصرہ :
ملحد صاحب نے اس روایت سے تحریف قرآن ثابت کرنے کی کوشش کی ہے حالانکہ اس روایت میں ایسا کچھ بھی موجود نہیں جس سے یہ تاثر دیا جاسکے ۔ مصحف عثمانی کی تدوین کے سلسلے میں ہم اس پر تفصیل پیش کرچکے ہیں یہاں دوبارہ مختصر وضاحت پیش ہے۔ قرآن کا ہر لحاظ سے معیاری مستند اور متفقہ نسخہ تیار ہوجانے کے بعد حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے صحابہٴ کرام اور تابعین عظام کے پاس موجود سارے نسخوں کو نذرِ آتش کرنے کا حکم نافذ فرما دیا (فتح الباری ۹/۱۳) ۔ تفاصیل سے یہ بھی واضح ہے کہ دیگر مصاحف کے بارے میں حضرت عثمان کی حکمت مومنانہ تھی اور حکیمانہ بھی۔ مصاحف میں شاذ قرآت کے اختلافات، تفاسیر کا الفاظ کے ساتھ لکھاجانا بعد کی عوام کو اختلاف اور اشکالات میں مبتلا کررہا تھا ، اختلافات اور غلطیوں سے پاک اور متفقہ اور مستند مصاحف تیار ہوجانے کے بعداختلاف کی جڑ کاٹنے کی ایک یہی صورت تھی کہ باقی تمام مصاحف چاہے کسی صحابی کے بھی کیوں نا ہوں’ کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیا جائے۔
اسی لیے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اسی مقصدِ عظیم کی خاطر کہ کتاب الٰہی میں کسی اختلاف کی گنجائش نہ رہ جائے، ایک طرف تو سات مصاحف عثمانی تیار کرا کے تمام بلادِ اسلامی میں پھیلا دیے اور ان کو معیاری مصحف قرار دے کر صرف انہی کی نقول کرنا لازمی قرار دیا، دوسری طرف ایسے تمام نسخوں اور صحیفوں کو صفحہ ہستی سے نابود کر دیا جو اس اصل معیاری قرآن مجید کے نسخہ سے مختلف تھے، تاکہ امت اسلامی کتاب اللہ پر متحد و متفق رہے، اختلاف سے بچے اور ایک قرآن کی پابند رہے۔ یہ کارنامہ عظیم تھا جس نے وحدتِ کتابِ الٰہی کے ذریعہ وحدتِ امت اور اتحاد اسلامی کی راہ ہموار کی۔
جیسا کہ ہم پہلے لکھ چکے کہ قرآن کریم کے انفرادی نسخوں کےجلانے کا یہ اقدام حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے صحابہ کے مشورے کے مطابق کیا تھا۔ لیکن جن اصحاب کو اس عمل کی حکمت سمجھ نہیں آئی تھی انہوں نے باقی نسخے جلانے کی مخالفت بھی کی ، جن میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سرفہرست ہیں ۔ اس حکمت سے لاعلمی کے علاوہ دو اور وجوہات تھیں جنکی بنیاد پر انہوں نے اپنا نسخہ دینے سے انکار کیا
1۔ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی اپنی نسخے کے ساتھ محبت ۔ انکی اس نسخے کے ساتھ یادیں وابستہ تھیں، اسکی آیات انہوں نے حضور ﷺ سے خود سن کے لکھی تھیں، اس بات کا تذکرہ معترض کی پیش کردہ روایت کے آخر میں بھی موجودد ہے ۔۔۔ لیکن بعد میں جب انہیں اتحادِ امت اور وحدت قرآن کی حکمت سمجھ آ گئی تو ان کا شکوہ جاتا رہا اور وہ بھی متفق ہو گئے۔ (البدایہ النہایہ 7/217)
2۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے اختلاف کی ایک اور وجہ بھی تھی ۔اس سلسلے میں ترمذی شریف کی ایک روایت ہے جس میں امام زہری سے منقول ہے کہ حضرت عبداﷲ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو شکایت تھی کہ کتابت قرآن کا کام ان کے سپرد کیوں نہیں کیا گیا جبکہ انہوں نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں زیادہ طویل عرصے تک حضورﷺ کی صحبت سے فیض حاصل کیا تھا۔
مستشرقین نے ان روایات کی بنیاد پر اپنی طرف سے یہ دعوی کیا کہ حضرت عبداللہ ابن مسعود کا یہ اختلاف نسخے کے فرق کی وجہ سے تھا حالانکہ ان روایات میں ایسا کچھ بھی موجود نہیں ۔ اس اوپر پیش کی گئی روایت کے علاوہ مستشرقین اپنے دعویکے ثبوت میں یہ روایت بھی پیش کرتے ہیں :
ابن ابی داؤد نے روایت کیا ہے۔ ان سے معلوم ہوتا ہےکہ حضرت ابنِ مسعودؓ نے حضرت عثمان کے حکم کی مخالفت کی اور کوفہ میں لوگوں کو حکم دیا کہ وہ انہی کے مصحف کو اختیار کریں۔ انھوں نے فرمایا:” تم لوگ کیونکر مجھے حکم دیتے ہو کہ میں زید بن ثابت کی قراءت کے مطابق قرآن پڑھوں، جب کہ میں نے ستر سے زائد سورتیں خود رسول اللہﷺ سے براہِ راست سن کر یاد کی ہیں، اس وقت زید بن ثابت اتنے نوعمر تھے کہ لڑکوں کےساتھ آئے تھے، ان کی دو چوٹیاں نکلی رہتی تھیں۔ (المصاحف ص 16)
اگرچہ علماء نے اس روایت کو کمزور قرار دیا ہے، لیکن اگر اسے تسلیم بھی کرلیاجائے تو بھی اس سے زیادہ سے زیادہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابن مسعود ؓ نے اس عمل کی مخالفت اس بناء پر کی تھی کہ ان کے بجائے ان سے بہت چھوٹے حضرت زید کو یہ کام کیوں سونپا گیا ۔ انکا یہ گمان یہ تھا حضرت زیدؓ نے یہ کام تنہا انجام دیا ہے جب کہ وہ اس کام کے زیادہ مستحق تھے؟ کیونکہ انھیں قبولِ اِسلام میں سبقت حاصل ہے اور انھوں نے ان سے پہلے رسول اللہ ﷺ سے براہِ راست بہت سی سورتیں سنی ہیں، لیکن جب انھیں یقین ہوگیا کہ یہ کوئی نیا کام نہیں ہے ، بلکہ مصحفِ ابوبکرؓ ہی کی نقلیں تیار کی گئی ہیں اور اسے انجام دینے میں حضرت زیدؓ تنہا نہیں ہیں، بلکہ ان کے ساتھ دیگر صحابہ بھی شریک رہے ہیں تو ان کی شکایت دور ہوگئی اور انھوں نے اپنی رضامندی اور موافقت کا اعلان کردیا۔ (المصاحف ص18)
مستشرقین کو اس سے کوئی مطلب نہیں کہ حضرت مسعود ؓ نے بعد میں اپنی موافقت کا اظہار کردیا تھا یا مخالفت پر آخرتک قائم رہے تھے۔ انھوں نے تو ان روایات کاسہارا لے کر یہ دِکھانے کی کوشش کی ہے کہ حضرت عثمانؓ کے کام کی ابن مسعود جیسے جید صحابہ کی طرف سے مخالفت کی گئی کہ ان کا کام درست نہیں تھا۔
اس روایت سے بھی یہ واضح ہے کہ انہیں یہ اعتراض نسخہ پر نہیں بلکہ حضرت زید کو ان پر ترجیح دیے جانے کی بنیاد پر تھا۔اس ترجیح کی وجوہات پر تفصیل ہم پہلے پیش کرچکے ۔خلاصہ پیش ہے :
1۔ اول تو حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کوفہ میں تھے اور تدوینِ مصاحف کا کام مدینہ میں ہوا، مگر اس سے بڑی وجہ یہ تھی کہ صحفِ صدیقی کے کاتب بھی تو حضرت زید بن ثابت خزرجی رضی اللہ عنہ ہی رہے تھے جو عہدِ صدیقی میں تو اور بھی نوجوان تھے۔ ان کی وجہِ انتخاب ان کا کاتبِ نبوی ہونا تھا۔
حافظ ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری میں ا س نقطہ نگاہ کی وضاحت کی ہے حضرت عثمانؓ نے یہ کام مدینہ طیبہ میں کیا تھا۔ ابن مسعودؓ اس وقت کوفہ میں تھے۔ حضرت عثمانؓ اس کام کو مؤخر نہیں کرنا چاہتے تھے حضرت زید ابن ثابتؓ ، حضرت ابو بکر صدیقؓ کے دور میں تدوین قرآن مجید کاکام کرچکے تھے، لہٰذا انہوں نے یہی مناسب سمجھا کہ یہ مرحلہ بھی انہی کے ہاتھوں تکمیل کو پہنچے‘‘۔
2۔ حضرت عثمان کو اس وقت جو مسئلہ درپیش تھا وہ فوری نوعیت کا مسئلہ تھا ۔ عمومی مقام و مرتبہ کا مسئلہ نہ تھا، یہ بات اپنی جگہ کہ حضرت زید جنکو ترجیح دی گئی د وہ ان مشہور صحابہ میں سے تھے جو قرآنِ کریم کے پختہ حافظ، ماہر قاری، اس کے حروف کے شناور اور اعراب القرآن و لغات القرآن کے جید عالم تھے اور وہ ہمیشہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی لکھنے پر مامور رہے۔ نیز وہ جبریل ؑ امین کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری دور ِقرآنی میں بھی موجود تھے۔ اس کے علاوہ وہ نہایت عقل مند اور ذہین ، زہدو ورع کے پیکر، مجسمۂ دین و عدالت، قرآن کے امین اور اپنے دین و اخلاق کے حوالے سے بے عیب تھے۔ اس طرح ان میں بیک وقت ایسی خوبیاں اور خصوصیات جمع ہوگئیں تھیں جو بعض کبار صحابہ میں بھی یکجا نہیں تھیں ۔یہ وجہ تھی جس کی بنیاد پر حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اس عظیم کام کے لئے ان کا انتخاب کیا۔
3۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ہذلی تھے ، اگرچہ مدتوں سے مکہ و مدینہ کے باشندہ تھے، قبیلہ ہذیل کا لہجہ و قراءت اور تلفظ مختلف تھا اور بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ہذلی حضرات اپنے تلفظ پر قابو نہیں پا سکتے تھے۔
4۔ حضرت عثمان غنی کو اس وقت جو مسئلہ در پیش تھا اس میں صحابہ کے علمی مقام و مرتبے کو عمل دخل کم تھا بلکہ اس کے مقابلے میں اس مسئلے کا تعلق تجربے سے تھا۔ حضرت زید بن ثابت کو مصحف کی تیاری پر کوئی پہلی مرتبہ بھی متعین نہیں کیا گیا تھا بلکہ اس سے پہلے عہد شیخین میں بھی ان کو اس کام کے لیے موزوں ترین قرار دیا گیا تھا اسوقت ابن مسعود مدینہ میں ہی موجود تھے. اس لیے دوبارہ انہی کو منتخب کیا گیا ۔
ملحدین و مستشرقین کا مقصد تدوین قرآن کے اس کام کو مشکوک بنانا ہے اس لئے وہ عبارات سے وہ مفہوم بھی مراد لینے کی کوشش کرتے ہیں ہے جس کی وہ متحمل نہیں ہوتی ۔۔۔