سکندر اعظم کے بعد بطلیموس ثانی (Ptolemy II) مصر کے علاقہ کا حکمراں بنا،اس کا زمانہ تیسری صدی ق م ہے۔ وہ ذاتی طور پر علم کا قدر داں تھا۔ اس نے اسکندریہ میں ایک کتب خانہ بنایا جس میں مختلف علوم کی تقریباً 5 لاکھ (500،000) کتابیں تھیں۔ یہی وہ کتب خانہ ہے جو تاریخ میں کتب خانہ اسکندریہ ( Library of Alexanderia ) کے نام سے مشہور تھا۔ یہ کتب خانہ بعد میں ( اسلامی دور سے پہلے) تباہ کردیا گیا۔ اس کتب خانہ کے بارے میں غلط طور پر یہ الزام لگایا جاتا ہےکہ حضرت عمر فاروق ؓ کے حکم سے اس کو جلایا گیا ۔ حالانکہ ظہور ِ اِسلام سے بہت پہلے چوتھی صدی عیسوی میں اس کا وجود ختم ہو چکا تھا۔
انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا (1984) نے لکھا ہے کہ وہ رومی حکومت کے تحت تیسری صدی عیسوی تک موجود تھا (I/227) اس کے بعد وہ باقی نہ رہا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کتب خانہ کا نصف حصہ جولیس سیزر ( Julius Ceaser ) نے 47 ق م میں جلایا ۔ تیسری صدی عیسوی میں مسیحیوں کو اس علاقہ میں غلبہ حاصل ہوا۔ اس دوران غالباً 391ء میں مسیحیوں نے اس کو جلاکر آخری طور پر اسے ختم کیا۔ اس بات کا اعتراف انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا نے ان الفاظ میں کیا ہے۔
: These institiutions survived until the main museum and library were destroyed during the civil war of the 3rd century AD ; a subsidiary library was burned by Christians in AD 391 (I/479).
دو جگہ اس واضح اعتراف کے باوجود اسی انسائیکلوپیڈیا میں تیسرے مقام پر غیر ضروری طور پر کتب کی بربادی کو مسلم عہد کے ساتھ جوڑ دیا گیاہے۔ “سنسرشپ ” کے مقالہ کے تحت درج ہے کہ اس بات کے مختلف ثبوت موجود ہیں کہ اسکندریہ کا کتب خانہ مختلف مرحلوں میں جلایا گیا۔ 47 ق م میں جولیس سیزر کے ذریعہ ، 391ء ، 42ھ میں مسلمانوں کے ذریعہ ۔ بعد کے دونوں موقع پر یہ کہا گیا کہ ان کتابوں سے مسیحیت یا قرآن کو خطرہ ہے:
There are many accounts of the burning, in several stages, of part or all of the library at Alexandria, frm the siege f Julius Caesar in 47 BC to its destruction by Christians in AD 391 and by Muslims in 642. In the latter two instances, it was alleged that pagan literature presented a danger to the old and new Testaments or the Quran (3/1084)
معلوم نہیں یہاں مقالہ نگار نے مسلمانوں کو اس واقعہ کا ذمہ دار کیوں ٹھہرادیا حالانکہ خود برٹانیکا کے مذکورہ بالا دو اقتباسات اسکی واضح تردید کررہے یں۔ اسلام اپنی فطرت کے اعتبار سے علم کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، اسی نے پہلی دفعہ تحقیق کی آزادی کا ماحول دیا، جسکی وجہ سے وہ سب کام جن پر سقراط ، ارشمیدس وغیرہ کو موت دی گئی مسلمانوں نے آزادی سے کیے اور ہر شعبے میں مسلمانوں نے سائنس کو ترقی دی ۔
ڈاکٹر فلپ ہٹی اپنی کتاب ہسٹری آف دی عربس میں لکھتے ہیں کہ یہ کہانی کہ کتب خانہ اسکندریہ خلیفہ عمر کے حکم سے برباد کیا گیا اور شہر کے لاتعداد حماموں کی بھٹیاں 6 ماہ تک کتب خانہ کی کتابوں کو جلا کرگرم کی جاتی رہیں ‘ ان فرضی قصوں میں سے ہے جو اچھی کہانی مگر بری تاریخ بناتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ بطلیموس کا عظیم کتب خانہ اسلام سے بہت پہلے 48 ق م میں جولیس سیزر کے ذریعے جلایا جاچکا تھا۔ ایک اور کتب خان جو مذکورہ کتب خانے کا ذیلی کتب خانہ تھا وہ تھیوڈوسیس (Theodosius) کے حکم سے 389 عیسوی میں جلادیا گیا۔ اس لئے عرب فتح کے وقت کوئی قابل ذکر کتب خانہ اسکندریہ میں موجود نہ تھا۔ عبداللطیف البغدادی جس کی وفات 1231 عیسوی میں ہوئی، بظاہر پہلا شخص ہے جس نے بعد کے زمانہ میں اس فرضی قصہ کو بیان کیا ہے ، اس نے کیوں ایسا کیا، اسکا ثبوت کیا تھا ، ہم نہیں جانتے۔ تاہم اسکا بیان بعد میں نقل کیا گیا اور بعد کے مصنفوں نے اسکو بڑھا چڑھا کے پھیلایا۔
( Philip k. Hitti, History of the Arabs, London, 1970, page 166)
بہت سے عیسائی مصنفین نے اس اک غیر مستند روایت کی بنیاد پر مسلمانوں پر علم دشمنی کا الزام لگایا ، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ کام وہی کتب خانوں کے ساتھ شروع سے کرتے آرہے ہیں، اس کتب خانے کے علاوہ بھی جب بھی انہیں اقتدار ملا انہوں نے مسلمانوں کے کئی عظیم کتب خانے جلائے ، تاریخ اسلام کے تلخ حقائق میں سے ایک دردناک حقیقت عیسائیوں کے ہاتھوں کتب خانوں کا نذر آتش ہونا بھی ہے جس کے باعث میراثِ اسلامی اور علوم شریعت کا کثیر حصہ دنیا سے مفقود ہو گیا ۔ 503ھ میں طرابلس (لیبیا)پر عیسائیوں نے قبضہ کیا تو وہاں کے کتب خانوں کو جلا دیا۔ صلیبی جنگوں کے دوران عیسائیوں نے مصر ،شام ،سپین اور دیگر اسلامی ممالک کے کتب خانوں کو بری طرح جلا کر تباہ وبرباد کر دیا ۔ان کتب کی تعداد تیس لاکھ سے زائد تھی۔۔ سپین میں عیسائی غلبے کے بعد وہاں کے کتب خانے جلا دیئے گئے ۔ قاضی ابن عمار نے طرابلس میں عالیشان کتب خانے کی تاسیس کی جس میں ایک لاکھ سے زائد کتابیں تھیں ۔یہ کتب خانہ صلیبی جنگوں کے دوران برباد کر دیا گیا ۔
مزید تفصیل کے لیے مولانا شبلی نعمانی رحمہ اللہ کا رسالہ ملاحظہ کیجیے
محمد شاهد اکرم
October 8, 2016 at 6:01 amاگر تیسری روایت کو درست بھی مان لیا جائے باوجود پہلی دو روایات کے تو بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو کیسے اس کا ذمہ دار قرار دیا جا سکتا ہے کہ یہ واقعہ انسائیکلوپیڈیا کے مطابق 42ھ کو پیش آیا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت یکم محرم الحرام 24 ھ کو ہوئی؟