مستشرقین اور سیرت:
آج تک جتنی کتابیں حضرت محمد ﷺ کی سیرت پر لکھی گئی ہیں اتنی غالباً دنیا کے کسی بھی دوسرے انسان کی سیرت پر نہیں لکھی گئیں۔ ان سیرت نگاروں میں بلاشبہ اکثریت اُن عقیدت مندوں ہی کی ہے جو آپ ﷺ کے دامنِ رسالت سے وابستہ ہیں، لیکن ایک بہت بڑی تعداد اُن اہلِ قلم کی بھی ہے جو آنحضرت ﷺ کی رسالت کے تو قائل نہیں لیکن مختلف وجوہ کی بناء پر سیرت اور تاریخ ِ اسلام سے گہری دلچسپی رکھتے ہیں، مثلاً یہودی اور عیسائی مصنفین (جو مستشرقین کے نام سے موسوم ہیں اور ) جنہوں نے تقریباً ایک ہزار سال کی مدت میں سیرت اور تاریخ ِ اسلام پر بے شمار کتابیں لکھی ہیں اور اب بھی پورے انہماک کےساتھ لکھ رہے ہیں ان کا ایک علمی کارنامہ یہ بھی ہے کہ انھوں نے بڑی تلاش وجستجو کے بعد اصل اور قدیم مآخذ کا سراغ لگایا اور دنیا کے گوشہ گوشہ سے قلمی نسخوں کو جمع کیا، انھیں ایڈٹ کیا اور مختلف زبانوں میں ان کے ترجمے بھی شائع کیے۔ اس طرح انھوں نےاسلام پر اتنا وسیع علمی سرمایہ مہیا کردیا ہے کہ اب جو بھی سیرت یا اسلام پر قلم اٹھاتا ہے اس کےلیے ان کی تصانیف سے استفادہ یا تعرض ناگزیر ہوجاتاہے۔
ان کی علمی کاوشوں کو عام طور پر سراہا گیا ہے لیکن اسلامی حلقوں میں یہ احساس برابر رہا ہے کہ انھوں نے سیرت اور اسلام کو پیش کرنے میں علمی دیانت، غیرجانبداری اور وسعت ِ نظر سے کام نہیں لیا بلکہ غلط بیانی اور تعصب سے کام لیتے ہوئے جان بوجھ کر وقعات کو توڑمروڑ کر پیش کیاہے اور تاریخِ اسلام کو مسخ کرنے کی منظم کوشش کی ہے۔
مستشرقین نے نہ صرف انگریزی بلکہ دنیا کی اور دوسری زبانوں میں بھی اسلام پر بےشمار کتابیں لکھی ہیں لہٰذا وہ تمام لوگ جو عام طور پر عربی یا مسلمانوں کی تصانیف سے براہِ راست استفادہ نہیں کرسکتے انہی کی کتابیں پڑھیں گے اور وہی کچھ جان اور سمجھ پائیں گے جو وہ اسلام کے بارے میں بتانا اور سمجھانا چاہتے ہیں اس طرح ان کے سامنے اسلام کی صحیح تصویر نہیں آپائے گی اس کے علاوہ آنے والی نسلیں جو اسلام کو ان مستشرقین کی نظروں سے دیکھیں گی وہ بھی اسلام سے بدگمان ہی رہیں گی۔ ان حالات کے پیشِ نظر اس بات کی ضرورت ہے کہ ان کی تصانیف کا متوازن اور محققانہ جائزہ پیش کیا جائے، ان کی خوبیوں کا کھلے دل سے اعتراف اور خامیوں کو آشکارا کیا جائے ۔ زیرِ نظر مقالہ میں اسی امر کی کوشش کی گئی ہے۔
مستشرقین کی تصانیف کا تنقیدی جائزہ لینےسے پہلے اُن حالات پر بھی نظر ڈال لینی چاہیے جن میں یہ کتابیں لکھی گئی ہیں تاکہ اُن عوامل کی نشاندہی ہو سکے جو ان علمی کاوشوں کی تہہ میں کارفرما رہے ہیں۔ یہاں ہم چند تاریخی حقائق آپ کے سامنے رکھتے ہیں جن کی روشنی میں امید ہے معاملہ کی نوعیت سمجھنے میں مدد ملے گی ۔ ۔ ۔
یہودیوں اور عیسایوں کا واسطہ مسلمانوں سے با لکل ابتدائی دور میں ہو گیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیات طیبہ کے مکی دور ہی میں یہودی اور عیسائی دین اسلام پر اعتراضات کی ابتداء کر چکے تھے اور مخالفت کرنے میں قریش کے بت پر ستوں کے ہمنوا تھے۔ مدینہ منورہ کے دہ سالہ دور میں یہ مخالفت اور زیادہ شدت اختیار کر گئی۔ خصوصاً یہودیوں کی مخالفت اور طرح طرح کی ریشہ دوانیوں کا سلسلہ برابر جاری رہا۔ قرآن حکیم کے وحی الہٰی ہو نے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نبی صادق ہو نے کے خلاف طرح طرح کے اعتراضات ان کی طرف سے ہو تے رہے قرآن مجید کی مکی اور مدنی آیتوں میں ان کے بعض اعتراضات اور جوابات کا ذکر موجود ہے۔
جب اسلام پوری دنیا میں تیزی سے پھیلنے لگا اور اس کی مقبولیت روز بروز بڑھنے لگی تو لوگ جوق درجوق آغوش اسلام میں پناہ لینے لگے۔ اسلام کی حقانیت اور اس کی روشن تعلیمات عوام کے دلوں کو مسخر کرنے لگی اور سارا عالم عظمت اسلام کا قائل ہونے لگا۔ اس کے حیات آفریں پیغام نے دیگر ادیان و مذاہب اور اقوام و ملل کے ضابطہ حیات اور ان کی تعلیمات کی کشش و جاذبیت کو ختم کردیا۔ یہ ایک حقیقت بھی تھی کہ اس وقت کے مذاہب کے تمام دعوے انسانی سماج کے لیے کھوکھلے اور ناکارہ ثابت ہورہے تھے۔حیات انسانی میں پیش آمدہ مسائل کا تشفی بخش حل ان کے پاس موجود نہ تھا۔ ایسے موقع پر اسلام نے مسیحائے انسانیت کا اہم فریضہ انجام دیا اور اپنے آپ کو سب سے بہتر ضابطہ حیات انسانی کے طور پر پیش کیا لوگوں نے اس کی دعوت پر لبیک کہا اور اس کے گرویدہ ہوگئے۔ اسلام کی روزافزوں ترقی سے خائف دشمنان اسلام بالخصوص یہود و نصاریٰ کو یہ کب گوارا کہ اسلام ہم پر غالب رہے۔
حضور ﷺ کا نبی اسرائیل کے بجائے بنی اسماعیل میں پیدا ہونا مدینہ کے یہودیوں کی عداوت بڑھا گیا اور یہ دشمنی بڑھتی ہی چلی گئی۔ حضورﷺ کو جانی ومالی اذیت پہنچانے ، اپنی سازشوں ، اسلام دشمن کاروائیوں کی وجہ سے پہلے مدینہ اور پھر عرب سے خراج کیا جانا، عیسائیوں کی سلطنت رومہ کا زوال ، مسلمانوں کا بیت المقدس پر قبضہ اوربڑی تعداد میں انکے اپنے لوگوں کا اسلام میں داخل ہوتے جانا انکے مقتدر طبقے خصوصا پادریوں کو پریشان کیے ہوئے تھا۔ اسلامی عروج اور فتوحات سے عیسائیوں کا برسرِ اقتدار طبقہ سیاسی طاقت سے محروم ہوا،مذہبی طبقہ اور امراء اور جاگیرداروں ہی کے مفادات پر ضرب نہیں پڑی ،تاجروں کو بھی نقصان پہونچا،لیکن یہ سب مل کر بھی اسلامی فتوحات کے سیلاب کو روکنے میں بُری طرح ناکام ہوچکے تھے اور انھیں یہ بھی ڈر تھا کہ یورپ کے باقی ماندہ علاقوں میں بھی کہیں مسلمانو ں کے قدم نہ جم جائیں۔ لہٰذا ان تمام طبقوں نے مل کر ایک منظم کوشش کی کہ اپنے کھوئے ہوئے علاقے مسلمانوں سے واپس لیں۔
اس مقصد کے حصول کےلیے سیاسی طاقتیں،امراء،جاگیردار،پادری اور تاجر سب مل گئے، اپنے اپنے مفادات کے تحفظ اور کھوئے ہوئے اقتدار کو حاصل کرنے کےلیے عوام کی حمایت ضروری تھی۔ وہ اس طرح حاصل کی گئی کہ انھیں بتایا گیا کہ اسلام عیسائیت کا سب سے بڑا دشمن ہے، اس نے مسیحی دنیا کو تباہ وبرباد کرڈالا ہے، گرجاؤں کو مسجدوں میں بدلا اور عیسائیوں کو جبراً مسلمان بنایاجارہاہے،صلیب توڑی جارہی ہے، عیسائیت”خطرہ” میں ہے۔ اٹھو اور اس وحشی قوم سے اپنےمقدس گرجاؤں کوبچاؤ۔پادریوں،مقرروں،ادیبوں اور شاعروں نے اسلام کے خلاف مسیحی دنیا کے جذبات بھڑکائے، عداوت کی یہ آگ اس قدر بھڑکائی گئی کہ اسلام کو اس صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے صبح و شام جنگی اسکیمیں بنائی جانے لگیں عیسائی فوجوں کا ایک سیلاب یورپ سے امنڈ آیا جواسلامی دنیا کو بہا لےجاناچاہتا تھا۔ یہی فوجی سیلاب اور تصادم صلیبی جنگوں کے نام سے مشہور ہے جس کا سلسلہ صدیوں تک جاری رہا۔
معروف محقق ارنسٹ بارکر (Ernest Barker1874-1960) نے ابتدائی صلیبی جنگوں کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ پوپ اربن دوم (Pope Urban II)نے صلیبی جنگ کی تبلیغ کی اور اس جنگ کو ’’کفار‘‘ کے خلاف جذبہ جہاد قرار دیا۔
( میراث اسلام، مرتبہ سرتامس ارنلڈ والفریڈ گیام (حروب صلیبیہ: ارنسٹ بارکر) اردو ترجمہ عبدالمجید سالک، مجلس ترقی ادب لاہور،۱۹۶۰، ص۶۳)
مذہبی ایوان سے پوپ نے اسلام کے خلاف جنگ کی کمان اپنے ہاتھوں میں لی۔ عالم عیسائیت کے مذہبی پیشوا اس بات کو اچھی طرح سمجھتے تھے کہ ہم عالم اسلام کا مقابلہ فوجی و عسکری نظام قائم کرکے ہی کرسکتے ہیں اسلام کو عیسائیت کا دشمن خاص قرار دیا جاچکا تھا۔ یورپ کی عیسائی حکومتیں متحد ہو کر پوپ اربن ثانی کی اپیل پر اسلامی مشرقی وسطیٰ سے مسلسل دو سو سال تقریباً1096 سے1296 تک بر سر پیکار رہیں اور جن کا ظاہری مقصد مقامات مقدسہ کو مسلمانوں کے قبضے سے چھیننا تھا۔ بعض مستشرقین (مثلاً گروسیہ Grousset) نے اس اصطلاح کو وسیع تر مفہوم دینے کی کوشش کی ہے اور ملت اسلامیہ سے ہر تصادم کو صلیبی جنگوں کا نام دیا ہے۔
( اردو دائرہ معارف اسلامیہ صلیبی جنگیں اظہر ظہور احمد ، دانش گاہ پنجاب لاہور،۱۹۷۳ء ج۱۲،ص۲۰۹)
یہی وہ زمانہ ہے جب عوام کو مشتعل کرنے کے لیے جاہلوں کے علاوہ پڑھے لکھے اور سنجیدہ اہلِ قلم نے بھی نہ صرف جھوٹ ، مہمل اور مضحکہ خیز باتیں پھیلائیں بلکہ اسلام کے خلاف نہایت رکیک الزامات لگائے۔ مذہبی رہنماؤں کے ذریعے برپاکی ہوئی صلیبی جنگوں میں ناکامی نے یورپ کے بُغض وعناد کو مزید بھڑکا دیا۔ اس کے بعد انھوں نے اپنی شکست کو فتح میں بدلنے کے لیے انتہائی تکلیف دہ باتیں نبیﷺ سے منسوب کیں ۔ اس پسِ منظر اور ماحول میں سیرت اور اِسلام پر جو کچھ لکھا گیا اور جس اسپرٹ کے تحت لکھا گیا اس میں کتنی علمی دیانت ہوگی اس کاسمجھنا کچھ زیادہ دشوار نہیں ہے۔
نفرت اوردشمنی کی فضا میں جبکہ ہر طرف زہرافشانی ہورہی ہو اور اسلام کے خلاف مکروہ پروپیگنڈہ جاری ہو عوام کا تو کہنا ہی کیا تعلیم یافتہ طبقہ بھی بہہ جاتا ہے۔ اس سیلاب کو صرف وہی لوگ روک سکتے تھے جن کو اسلام کے میں صحیح معلومات حاصل ہوں ، جو ایمان داری اور دیانت سے کام لیں اور جن کا تنقیدی شعور بیدار اور پختہ ہو۔ لیکن یہی ایک طبقہ یورپ میں ناپید تھا۔
مستشرقین کا فن سیرت نگاری:
قرون وسطی کے مستشرقین کے اعتراضات کے مآخذ کیا تھے؟ کچھ تو وہ بے بنیاد اور مضحکہ خیز باتیں جو ہارے اور بھاگے ہوئے سپاہیوں نے یورپ میں مشہور کردی تھیں انہی کو سنجیدہ اہلِ قلم بھی بلاتکلف نقل کردیتے تھے، بلکہ جہاں ضرورت محسوس کرتے اپنی طرف سے فرضی داستانیں گھڑلیتے تھے۔ اِسلام کو بدنام کرنا، اسے باطل مذہب سمجھنا اور اس کی برائیاں کرنا عیسائیت کی خدمت تصور کیا جاتا تھا، اور اس کےلیے غلط بیانی جائز سمجھی جاتی تھی۔اس بات کا اعتراف خود انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کا مقالہ نگار لفظِ ”محمد“ کے تحت کرتا ہے۔ وہ لکھتا ہے:
“Few great men have been so maligned as Muhammad. Christian scholars of medieval Europe painted him as an impostor, a lecher, and a man of blood. A corruption of his name, “Mahound” even came to signifythe devil”
()Encyclopeadia Britanica, 1984, “Muhammad” Vol 12 p 609
”بہت کم بڑے لوگوں کو اتنا زیادہ بدنام کیاگیا ہے جتنا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) کو بدنام کیاگیا ہے۔ قرونِ وسطیٰ کے یورپ کے مسیحی علماء نے ان کو فریبی، عیاش اور خونی انسان کے روپ میں پیش کیا۔ حتیٰ کہ آپ کے نام کا ایک بگڑا ہوا تلفظ مہاونڈ (نعوذ باللہ) شیطان کے ہم معنی بنادیاگیا ہے۔“
اگرچہ نقل کفر کفر نباشد پھر بھی جو باتیں آں حضرت ﷺ کی شان ِ اقدس میں کہی گئی ہیں ان کا نقل کرنا بھی بہت دشوار ہے ۔ مثلاً آں حضرت ﷺ کی وفات کے سلسلے میں لکھا گیا:
That he was eaten by dogs ………or by pigs ———-(Islam and the west, p40).
زمانے کے تغیر کے ساتھ مغرب میں دور دانش کی ہواچلی تو انھوں نے اپنی حکمت عملی بدلی اور علمی بنیادوں پر سیرتِ رسولﷺ پر اعتراضات اٹھانا شروع کیے ( لیکن )نہایت کم زور اور فرضی دلائل کے ساتھ۔ ہر بری بات کو آپﷺ سے منسوب کیا:صنمیات وضع کیں،چڑیا اور چڑے کی کہانیاں گھڑیں، وحوش وبہائم کی دل خراش داستانیں ترتیب دیں۔ کنویں کا افسانہ تراشا،بیماری کے قصے تیار کیے،نزول وحی کی کیفیات کو صرع سے تعبیرکیااوروحی کو لاشعوری واہمہ ٹھیرایا،تعدد ازواج کو نفس پرستی پر محمول کیا، آپﷺ کی تنگی وترشی کو عیش وعشرت سے تعبیر کیا،اسلام کو پر تشدد مذہب ثابت کیا اور نبی ﷺ کواس کا علم بردار،چنگیز کے اسلاف سے تعلق ثابت کرنے کے لیے خراسان کی وطنیت موسوم کی ،ہسپانیہ کے مفروضہ سفر کے اہتمام کیے، راہبوں سے نام نہاد تعلیم کے حصول کے ڈھول پیٹے،عیسائی فوج میں تربیت کی داستان تراشی،فرضی حکم رانوں کے خون کا الزام رکھا،عیسائی عہدہ داری اور الوہیت کی تہمت دھری،پھر جو کروٹ بدلی تو جہنم کے شیاطین کو بھی پناہ مانگنے پر مجبور کردیا۔منفی جذبات ہمیشہ انصاف کا خون کرتے ہیں۔ مغرب کو حقائق کاعلم ہوچکا ہے ،لیکن تعصب اور دشمنی ابھی تک ذہن سے چمٹے ہوئے ہیں۔
(ڈاکٹر عبدالقادر جیلانی، اسلام ، پیغمبرﷺ اسلام اور مستشرقین مغرب کا انداز فکر، ۲۰۰۷ء،ص ۱۶۲ و ۳۱۹)
اس کے علاوہ کتنی بیہودہ باتیں کہی گئی ہیں اس کا اندازہ اسی سے لگا لیجیے کہ نارمن ڈینیل کو اپنی کتاب کا آغاز ہی ان الفاظ سے کرناپڑا ہےکہ ” ناقل الکفر لیس بکافر”
یہ باتیں عام طور پر سب ہی مستشرقین نے لکھی ہیں ۔ ان کے حوالے” اسلام اور مغرب ” میں بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ مثلاً ص 3،5،6،40،68،79،92،97،101۔؎؎؎
ایسا نہیں کہ مستند اسلامی کتابیں ان کے علم میں نہیں تھیں یا دسترس سے باہر تھیں۔ مستشرقین کی ایک معتدبہ تعداد دور جدید میں ایسی بھی رہی ہے۔ جنہوں نے اسلامی علوم و معارف کے مطالعہ میں اپنی ذہنی و علمی صلاحیتوں کا فیاضانہ استعمال کیا اور اپنی عمریں وقف کردیں ’’یہ ہٹ دھرمی اور ناانصافی ہوگی کہ ان کے اس پہلو کا اظہار و اعتراف نہ کیا جائے ان کی کوششوں سے بہت سے نادر اسلامی مخطوطات جو صدیوں سے سورج کی روشنی سے محروم تھے نشر و اشاعت سے آشنا ہوئے اور نادان و نااہل وارثوں کی غفلت اور کرم خوردگی سے بچ گئے۔ کتنے علمی ماخذ اور اہم تاریخی دستاویز یں اول اول انہیں کی کوششوں اور علمی دلچسپی اور شغف کے نتیجہ میں منظر عام پر آئیں جن سے مشرقی دنیا کے علماء، محققین کی آنکھیں روشن ہوئیں اور ان کا علم و تحقیق کا کام آگے بڑھا۔
مستشرق اے جے ونسنک (A.J Wensinck 1882-1939) نے احادیث اور سیرت و مغازی پر مشتمل چودہ کتابوں سے تخریج احادیث کے لیے بڑا ہی مفصل انڈکس تیار کیا ہے۔ اسی طرح ’’المعجم المفہرس لالفاظ الحدیث النبوی‘‘ احادیث نبوی کے الفاظ کی ڈکشنری کی ترتیب میں بھی نگرانی کا کام انجام دیا ہے۔ مستشرق جی لی اسٹرنج (G.L.Strange 1854-1933)اور ان کی کتاب”Lands of the Eastern Caliphate” (جغرافیہ خلافت مشرقیہ) بھی اسی ذیل میں آتی ہے۔ یہ تمام تصنیفات اور علمی و تحقیقی کوششیں اس بات کی دلیل ہیں کہ ان مصنفین و مرتبین نے اپنی جدوجہد میں کوئی کسر نہیں اٹھارکھی اور اس طویل جان گسل مطالعہ اور کاوش بحث و تحقیق میں اپنے موضوع کے ساتھ خلوص انہماک کا پورا ثبوت دیا ہے۔
علامہ برو کلمان ((Karl brockelmann مشہور جرمن مستشرق ہماری صدی کے سب سے بڑے مستشرق اور بلا شبہ عربی ادبیات کے بے مثال عالم ہیں انہوں نے عربی کتابوں کی ایک ایسی جامع اور معلوما ت افزا فہرست تیار کی ہے کہ دوسری کوئی کتاب اس موضو ع پر اس کے مقا بلہ میں نہیں پیش کی جاسکتی۔ ابن الندیم کی “الفہرست”، مصطفی طاش کبریٰ زادہ کی “مفتاح السعادة”، حاجی خلیفہ کی “کشف الظنون”، اسمٰعیل پا شا کی “ایضاح المکنون” اور “ھدیة العارفین” اور یوسف الیان سر کیس کی “معجم المطبوعات” سے بھی علامہ بروکلمان کی تاریخ ادبیات عرب کا مرتبہ بعض اعتبا ر سے بلند ہے۔ آج کسی ایسے کتب خانہ مشرقیات کا تصور بھی ممکن نہیں جس میں علامہ بروکلمان کی یہ بے بہا کتاب مو جود نہ ہو۔
لیکن یہی علامہ بر و کلمان جب ایک پکے عیسائی بن کر اور یو رپین اقوام کو ترجیحی مزایا و مناقب کے جذبات کو اپنے سینے میں لے کر تاریخ مسلمانان عالم لکھتے ہیں تو ایسی بے سروپا باتیں لکھتے چلے جاتے ہیں کہ بہت سی مملکتوں کو ان کی کتاب کا داخلہ اپنے ممالک میں بند کر دینا پڑا۔ چنانچہ پاکستان میں بھی اس کتاب کا داخلہ بند ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدوس ہاشمی لکھتے ہیں میں نے یہ کتاب پڑھی ۔ مجھے حیرت ہو تی ہے کہ عربی کتابوں کا یہ عظیم المرتبت کتاب شناس، کتابوں کا نام بتاتا ہے۔ مصنف کا نام اور اس کا سن وفات بتاتاہے، کتاب کس کس کتب خانہ میں اور کہاں کہاں مو جود ہے یہ بھی بتا دیتا ہے کبھی کتابوں کو کھول کر پڑھتا کیوں نہیں۔ اول تو کتابیں پڑھیں بہت تھوڑی، جو پڑھیں ان کی رویات پر غور نہیں کیا، پھر اسباب و نتائج ایسے پیدا کر لیے کہ کسی شخص کے حاشیۂ خیال میں ایسے عجیب و غریب اسباب و نتائج نہیں آسکتے آخر ایسا کیوں ہوا؟ اس کا جواب اس کے سوا کچھ نہیں کہ تاریخ لکھتے ہو ئے ان کا ذہن ایک متعصب کا ذہن تھا اور ان کے قلب و دماغ پر یو رپین اقوام کی بر تری کے تصورات کا قبضہ تھا۔
یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ کم از کم تعلیم یافتہ یورپین اسلام کے بارے میں صحیح معلومات رکھتے تھے۔ لیکن عیسائیت کی اندھی حمایت میں حقائق پر فرضی داستانوں اور بے بنیاد افواہوں کو ترجیح دیتے تھے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اپنی تصانیف میں یہ عیسائیوں ہی کو خطاب کرتے تھے، اور انہی کے لیے لکھتے بھی تھے۔ اور عیسائی عوام ان بیانات سے یقیناً خوش ہوتے تھے جن میں اسلام کی مذمت اور اس کے اصولوں کا مذاق اڑایا جاتا تھا۔ لکھنے والوں کو اس بات کا ذرا خیال نہیں ہوتا تھا کہ مسلمان ان کتابوں کوپڑھ کر کیا کہیں گے۔ اس لیے بے دھڑک جو جی چاہتا لکھتے چلے جاتے تھے۔