اہلِ مغرب نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر جو اعتراضات کیے ہیں، اس سے دنیا کا ہرسنجیدہ آدمی واقف ہے ۔ اس کی اصلیت بھی بڑی حد تک اس پر آشکارا ہوچکی ہے۔کارلائل نے بھی کہا تھا کہ مغربی تعصب نے نبی کو ایک مکروہ صفت انسان بنانے کی جو جنگ چھیڑ رکھی ہے،اس سے مفید نتیجہ برآمد نہیں کیا جاسکتا،اس طرح تو ان کی مقبولیت میں ہی اضافہ ہواہے:
’’محمد ﷺ کے بارے میں ہمارے موجودہ خیالات (۱۸۴۰ء) کہ وہ (نعوذ باللہ) ایک جعلی پیغمبر تھے،اور ان کا پیش کردہ مذہب بے سروپا عقیدوں کا مجموعہ ہے،غوروفکر کی روشنی میں یہ خیال صاف پگھلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ۔جس طرح دروغ گوئی کا انبار ہم نے اس مقدس ہستی کے گرد لگادیا ہے وہ عظیم ہستی کے لیے نہیں مسیحیوں کے لیے باعث شرم ہے۔ گذشتہ ۱۲ صدیوں کے نشیب و فراز سے گزرتے ہوئے اس پیغمبر عالی مقام کا پیغام آج بھی ۱۸کروڑ انسانوں کے لیے مشعل راہ ہے ۔ کیا یہ ۱۸ کروڑ انسان خدا کے بنائے ہوئے نہیں ہیں؟اگر ہم ان تمام افراد کو بھٹکے ہوئے اور گم کردہ راہ سمجھیں تو سوچنے کا مقام ہے۔کیا جعلی پیغام بارہ صدیوں تک اس کامیابی سے آگے بڑھ سکتا ہے؟کیا میرے ہم مذہب بھائی بہن یہ بات نہیں جانتے کہ آج بھی کرۂ ارض میں قرآن کریم کے اصول آگے بڑھ رہے ہیں۔ بناوٹ بناوٹی ہوتی ہے اور اسے ظاہر ہونے میں صدیاں نہیں لگتیں‘‘۔ (کارلائل کا خطبہ ’ششماہی مجلہ السیرۃ شمارہ ۱۷،مارچ ۲۰۰۷ء،ص ۳۶۵)
ایک نبی جو انسانوں کی ہدایت کے لیے مبعوث کیا گیا ہے اس میں اس قدر تناقص کا جمع ہونا محال ہے۔ چنانچہ مغرب کی طرف سے اب جو اعتراضات اٹھائے گئے ان میں وہ بات نہ رہی جو پہلے سے چلی آرہی تھی، پھربھی اس کی نیت پاک نہیں رہی۔اب ان کے دعووں کے دبدبے طنطنے میں بدل گئے،لے وہی رہی، سُروں میں فرق آگیا۔اس جدا گانہ طریق کار سے بھی جو بات نکل کرسامنے آئی وہ بھی اہانت رسولﷺ پر ہی مبنی ہے ۔
ایسا کبھی نہیں ہواکہ قابل ملامت شخصیت پر دنیا کی توجہ ہمیشہ مرکوز رہی ہو۔ اگر (نعوذباللہ) نبیﷺ ایسے تھے تو دنیا نے اس کے ذکر میں اپنا وقت کیوں صرف کیا اورنتائج اخذ کرنے میں اپنے صاف وشفاف ذہن پر بوجھ کیوں ڈالا؟اس سے اس بات کا بھی پتا چلتا ہے کہ آپﷺ ایک کامیاب انسان تھے، جس کی کوئی نظیر نہ پہلے تھی اور نہ بعد میں ہوسکتی ہے۔چند لوگوں پر پاگل پن اور دیوانہ پن کا الزام لگایا جاسکتا ہے ،مگر آج دنیا میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والوں کی جو تعداد ہے اور اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنھیں مغرب کا بہترین دماغ کہا جاسکتا ہے، ان سب پر دیوانہ پن کا الزام کیسے درست ہوسکتا ہے۔تاریخ کے ہر دور میں آپ کے ماننے والوں کی تعداد میں حیرت انگیز طریقے سے اضافہ ہی ہوا ہے، کمی کبھی نہیں آئی۔ بڑی تعدا دمیں لوگوں نے سیرتِ رسولﷺ کو اپنے مطالعہ کا موضوع بنایا اور اس پر خاطر خواہ کام کر رہے ہیں۔
اس ضمن میں ڈاکٹر محمد حمیداللہ لکھتے ہیں:
’’دنیا کی مختلف زبانوں میں بانیِ اسلام کی سوانح پر ہزاروں کتب موجود ہیں۔ان کے مصنفوں میں اسلام کے دوست اور دشمن سبھی شامل ہیں۔تمام مصنف خواہ وہ رسول اسلام کو پسند کریں یا محض اس بات پر نا پسند کریں کہ ان مصنفوں کا تعلق اسلام کے مخالف مذاہب سے ہے، اس بات پر متفق ہیں کہ محمدﷺ ایک عظیم انسان تھے۔ جن مصنفوں نے جان بوجھ کر رسولِﷺ اسلام کی زندگی اور تعلیمات کو توڑ مروڑ کر پیش کیا ہے ، ایسے مصنفوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔دراصل وہ بھی انھیں بالواسطہ طور پر خراج عقیدت پیش کررہے ہیں۔ وہ رسولِﷺ اسلام کی تعلیمات کو مسخ کرکے پیش کرتے ہیں ،کیوں کہ وہ اس بات سے خوف زدہ ہیں کہ اگر انھوں نے اسلام کی صحیح تصویر پیش کردی تو ان کے ہم مذہب گم راہ ہوجائیں گے،جنھیں وہ قبولِ اسلام سے روکنے کے لیے بانیِ اسلام کے متعلق بے سروپا کہانیاں گھڑ کر سناتے رہتے ہیں۔ اس طرح کی ذہنی بددیانتی آج بھی جاری ہے۔ یہ بات تحیر خیز ہے کہ جدید مغرب کے زبر دست مادی اور دوسرے وسائل کے باوجود حضرت محمدﷺ کی ذات کے خلاف پروپیگنڈا کوئی نتائج پیدا کرنے میں ناکام رہا ہے،جن کی توقع اتنی بڑی تعداد میں کتابوں کی اشاعت، ریڈیو، ٹی وی نشریات اور فلموں کی نمایش کے بعد کی جاسکتی ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ جتنے وسائل عیسائی مشنریوں اور کمیونسٹوں کو حاصل ہیں ،اگر اسلام اتنے ہی وسائل سے بہرہ ور ہوتا تو دنیا کا کیا رخ ہوتا۔لیکن اس کے باوجود یہ ایک عیاں حقیقت ہے کہ مسیحی کمیونسٹ مغرب دونوں میں اسلام نہایت تیزی سے پھیل رہا ہے ۔دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد ۳۰ سال کے دوران انگلستان میں کوئی ایک ۱۰۰ سے زائد مساجد تعمیر ہوئی ہیں،جرمنی اور فرانس بھی اس میدان میں انگلستان سے پیچھے نہیں ۔امریکی سفید فاموں میں بھی قبول اسلام کے واقعات کی کمی نہیں۔ چنانچہ اسلام کو گلے لگانے والوں میں سفرا،پروفیسر اور دیگر معزز پیشوں سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں۔یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ ہر سال سیکڑوں سیاح استنبول میں مشرف بہ اسلام ہوتے ہیں، جہاں اناطولیہ کی نسبت مذہبی جو ش و خروش زیادہ نہیں‘‘۔
(ڈاکٹرمحمد حمیداللہ،محمدﷺ رسول اللّٰہ، ۲۰۰۳ء،ص ۲۵۳۔۲۵۴)
اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ دنیا میں ہر سال ہزاروں لوگ اسلام کرتے ہیں۔ اس میں بڑی تعداد عیسائیوں ہی کی ہوتی ہے۔برطانیہ میں ۱۹۹۵ء کے اعداد وشمارکے مطابق چرچ جانے والے عیسائیوں کی تعداد ۸ لاکھ ۵۴ہزار تھی ، جب کہ پابندی سے مسجد میں نماز پڑھنے والوں کی تعداد۵ لاکھ ۳۶ ہزار ہے۔
کرسچین ایسوسی ایشن کے سروے کے مطابق چرچ سے تعلق رکھنے والے عیسائیوں کی تعداد سالانہ ۱۴ ہزار کم ہورہی ہے، جب کہ مسجد جانے والے مسلمانوں کی تعداد میں سالانہ ۳۲ ہزار کا اضافہ ہورہا ہے (مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، شمع فروزاں، ۲۰۰۷ء،ج ۱،ص ۲۲۹)۔ یہ اعدادو شمار بالکل صحیح ہیں تواسلامی دنیا کے لیے یہ بڑاہی خوش آیند پہلو ہے۔
پوری دنیا کوبالعمو م اور خاص طور پرمغربی دنیاکو بالخصوص اپنی تہذیبی اقدار کے فنا ہوجانے کا جس سے خطرہ لاحق ہے ،وہ اسلام اور مسلمان ہے۔یہی وجہ ہے کہ عالم اسلام کو مٹانے کی منظم کوشش کی جارہی ہے۔لیکن کیا اس کے ذریعے وہ اپنے منصوبے میں کامیاب ہوں گے ؟اس کی نفی کرتے ہوئے کے۔ ایل۔ گابا نے بجا طور پر لکھا ہے:
’’اسلام اب تک نہ صرف ایک زبردست زندہ قوت کی حیثیت سے موجود ہے،بلکہ روز بروز ترقی کی جانب گامزن ہے،جس کا نتیجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے لیے بلقانیوں کا حسد،یہودیوں کی نفرت،ہندوؤں کا تعصب اور روس کی مخاصمت بھی روز بروز بڑھتی جارہی ہے‘‘۔(کے ایل گابا،پیغمبر صحرا (اُردو ترجمہ)،ص ۸)
جارج برناڈشا اپنے زمانے کے مغربی مصنفین کی فہرست میں اول جگہ پانے کا مستحق ہے، اس کے قلم نے کوئی میدان ایسا نہیں چھوڑا ،جہاں اس نے جولان گاہی نہ دکھائی ہو اور اس کے قلم کے حملوں سے شایدہی کوئی مذہب بچا ہو۔اس کے زورِ قلم کا یہ عالم ہے کہ جو کچھ لکھا دنیا میں پھیل گیا۔ اس نے ایک کتاب لکھی جس میں تمام مذاہب کے علما کی مجلس کے بحث ومباحثہ کی تفصیل درج ہے۔ اس مجلس کا وہ خود روح رواں اور اس میں شریک تھا۔سب نے ایک دوسرے کے مذہب کا خوب مذاق اڑایا۔اس کے بعد برناڈشا جس نتیجے پر پہنچتا ہے ،اس کااظہار وہ اس طرح کرتا ہے: ’’
۱۰۰ برس کے اندر اندر اور بالخصوص انگلستان کو کوئی ایسامذہب اختیار کرنا پڑے گا جو یاتو اسلام ہوگا یا اسلام سے بہت کچھ ملتا جلتا ہوگا‘‘۔
(ماہ نامہ دارالعلوم، دیوبند، فروری ۲۰۰۱ء،ج ۸۵، شمارہ۲، ص ۴۳۔۴۴)
بالفرض اگر نبوت سے ہٹ کر ایک عام انسان کی طرح نبی اکرمﷺ کفار مکہ کو وعظ وپند کرتے اور انھیں برائیوں سے روکنے کی تلقین کرتے تو وہ آپ ﷺ کی مخالفت کرنے کے بجاے آپ ﷺ کو دیوتا بناکر آپ کی پوجا شروع کردیتے اور کوئی بعید نہ تھا آپﷺکا بھی ایک بت تراش کر خانہ کعبہ میں آویزاں ۳۶۰ بتوں کے ساتھ کردیتے اور طواف کے وقت ان کے نام کا ورد کرتے۔یا پھر آپﷺ ان کے عقائد اور ان کے افعال شرک کی مذمت نہ کرتے تو بھی وہ آپ ﷺکی مخالفت نہ کرتے۔ لیکن چونکہ اسلام اسی شرک اور برائی کو مٹانے کے لیے آیا تھا، اس لیے نبیﷺ کی ذات سے اس بات کی توقع ہرگز نہیں کی جاسکتی کہ آپﷺ مصالحت کرلیتے۔اس کے برخلاف معاندین اسلام نے عقائد وایمان کے باب میں اپنے دماغ کو نہیں کھپایا،کیوں کہ انسان کی زندگی میں اس کی کیا اہمیت ہے وہ اس پر واضح ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس سے بے اعتنائی برتی جاتی ہے مگر آپﷺ کی سیرت وشخصیت پر حددرجہ رکیک حملے کیے تاکہ مسلمان اپنے نبیﷺ سے برگشتہ ہوجائیں اور دوسرے لوگ بھی اس کے قریب نہ جائیں۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کی ذات کو ہر پہلو سے پوری انسانیت کے لیے اسوہ اور نمونہ بنادیا اور ’’آپ کے ذکر کو سارے جہان میں بلند کردیا‘‘(الم نشرح:۴)۔دوست ہوں یا دشمن، کافر ہوں یا مشرک،مسلمان ہوں یا غیرمسلم، ہر کوئی اس سے رہ نمائی حاصل کرسکتا ہے اور اپنی زندگی کو جنت نشان بناسکتا ہے۔لیکن یہ عمدہ صفات مغرب ہی نہیں ،ہر کسی کو اس لعنت سے دور رکھتی ہیں جس میں گھر کر وہ اپنی انسانیت کو بھول جاتا ہے اور برائیوں میں ملوث ہوجاتا ہے۔چونکہ انسان کی فطرت بھی کچھ اس طرح کی ہے کہ زیادہ دنوں تک وہ برائیوں کو برداشت بھی نہیں کرسکتی، اور اپنی زندگی کے کسی مرحلے میں بھی مذہب سے بے گانہ ہونے اور اس کی تعلیمات کو فراموش کردینے کے باوجود ان برائیوں کو قبول کرنے یا تسلیم کرنے سے مانع ہوجاتی ہے۔جب یہ باتیں کسی بھی سنجیدہ انسان کے قلب وذہن میں آسکتی ہیں تو اس بات کو تسلیم کرلینے میں کیا قباحت ہے کہ نبی ﷺ کا نافذکردہ دین اور آپ ﷺکے خصائص اور آپ ﷺ کی تعلیمات سے دنیا میں انقلاب بر پا ہوسکتا ہے جس کی متقاضی خود فطرت انسانی ہے۔کیا دنیا نے یہ نہیں دیکھا کہ مختصر عرصے میں خاص کر عرب معاشرہ گوناں گوں صفات کا حامل ہوگیا جنھیں دیکھ کر قوموں اور ملکوں کی تقدیر بدل گئی اور خود ان کی زندگی روشن اور تابناک۔
لیکن یہ باتیں تسلیم کرنے کے ساتھ ہی ان کے مفاد مجروح ہونے لگتے ہیں، اس لیے مغرب نے اپنی عارضی اور بہ ظاہر خوش نما زندگی کو نکھارنے کا پیمانہ ہی بدل دیا،جس پر کوئی دوسرا پورا ہی نہیں سکتا۔
ڈاکٹر عبدالقادر جیلانی لکھتے ہیں :
’’مغرب اپنی عیسائی قدروں پر دیگر عظام کو پرکھنے کی کوشش کرتا ہے۔اس کے نزدیک ہرعظیم آدمی کو گوری رنگت کا ہونا چاہیے۔مذہباً وہ عیسائی ہو اور صرف عیسائی ہی نہیں کیتھولک عیسائی ہو۔ اس کی زبان لاطینی ہو ،اس کی فکر افلاطونی ہو، رہن سہن مغربی ہو ،کردار افسانوی ہو۔ اگر یہ سب اس میں نہ ہوتو اس کی عظمت ناقابل تسلیم رہتی ہے۔ظاہر ہے کہ ان خودساختہ پیمانوں پر کوئی غیرمغربی اتر ہی نہیں سکتا ۔یہ خامی پیمانے کی ہے اور جب تک پیمانے کی خامی دور نہ ہوگی پیمایش کی صحت کا تصور بھی نہیں پیدا ہوسکتا‘‘۔
(ڈاکٹر عبدالقادر جیلانی، اسلام ،پیغمبرﷺ اسلام اور مستشرقین مغرب کا انداز فکر،ص ۳۲۱)
استفادہ سلسلہ تحاریر مستشرقین اور سیرت نگاری:
1۔ مستشرقین کا فنِ سیرت نگاری اور مسلمانوں کی ذمہ داری از ڈاکٹر محمد ذکی، مجلہ تحقیقات اسلامی ، علی گڑھ
2۔ تحریک استشراق عہد جدید میں از سادات سہیل
3- مستشرقین اور تحقیقات اسلامی از ڈاکٹر عبدالقدوس ہاشمی، جریدہ “الواقۃ” کراچی، شمارہ 10 ربیع الاول 1433ھ/ جنوری، فروری 2013
4- سیرتِ رسول ﷺ پر اعتراضات کا جائزہ ازڈاکٹر محمد شمیم اختر قاسمی، ادارہ تحقیقات اسلامی علی گڑھ
5- تحریک استشراق کی حقیقت اور استشراقی لٹریچر کے اثرات از: حافظ سیف الاسلام، پی ایچ ڈی اسکالر، اسلامیہ یونیورسٹی، بھاولپور،
6-اسلام میں مذہبی رواداری اورمستشرقین کے اعترافات از: مولانا ڈاکٹر اکرام اللہ جان قاسمی