جب سندھ میں اسلام کی اشاعت کی بات آتی ہے تو یہی سیکولر طبقہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ اسلام عرب فاتحین و حکمرانوں کی وجہ سے نہیں بلکہ صوفیاء کرام کے سلسلوں کی بدولت پھیلا ہے،سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صوفیاء بھی تو اسلام کے ہی نمائندے تھے ،یہ سیکولر لوگ اس مسئلے میں اسلام کے خیر خواہ کیسے ہوگئے۔ ؟ اصل میں ایسا کہنے کی ایک وجہ ہے. تاریخ دیکھی جائے تو برصغیر میں اسلام کو مکمل طور پر صوفیاء کا کارنامہ قرار دینے کی بات سب سے پہلے مستشرق مصنفین خصوصا پروفیسر آرنلڈ نے کی تھی ، اسی وجہ سے پروفیسرآرنلڈکی کتاب پریچنگ آف اسلام کو نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا بھر میں غیر معمولی شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی، جس میں ہندوستان کے حوالے سے بحث میں اسلام کی اشاعت کا سارا سہرا صوفیائے کرام کے سر ڈال دیا گیا ہے اور کم از کم اس اعتراض سے ہندی مسلمانوں کو نجات ملی جو دوسرے انگریز موٴرخوں نے کی کہ اسلام کی جبری اشاعت ہوئی ہے اور سلاطین وقت نے تلوار کے ذریعہ لوگوں کواسلام قبول کرنے پرمجبور کیا۔۔۔۔لیکن اگر غور کیا جائے تو اس کتاب کا یہ مقصد بالکل نظر نہیں آتا ۔ اس کتاب کی زمانہ تصنیف پر بھی نظر رکھی جائے۔ایک طرف الزام و اتہام کا لامتناہی سلسلہ جاری ہے کہ اسلام تلوار سے پھیلا تو دوسری طرف ایسا کہنے والوں کے ہی طبقے کا ایک رائٹر اس کتاب کے ذریعے یہ لکھ رہا ہے کہ اسلام تو صوفیاء نے پھیلایا … یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا آرنلڈ نے یہ کتاب انہی اپنے لوگوں کے رد میں لکھی گئی ؟ جواب یہ ہے کہ نہیں۔اس کتاب میں کہیں آ پ کو یہ نظر نہیں آئے گا کہ آرنلڈ نے اسلام تلوار کے ذریعے پھیلنے کی بات کرنے والے انگریز موٴرخوں کی پھیلائی غلط فہمی دور کرنے کی کوشش کی ہو ، انکی تحریر پر تنقید کی ہویا ان کی عصبیت کا پر دہ فاش کیا ہو ۔چنانچہ اس کتاب کی تصنیف کے مقاصد کا یقین دلاتے ہوئے عہد حاضر کے ایک مبصر نے لکھا کہ:
یہ بات بعید از قیاس ہے کہ اسلام کے مخالفین اس کے ایک پہلو کو بغیر کسی خاص سبب کے وکالت کرنے لگیں۔اصولی طور پریہ ممکن نہیں کہ اصل کا مخالف فرع کی حمایت کا بیڑا اٹھالے،اس کے لیے کسی بہت خاص وجہ اور سبب کی موجودگی ضروری ہے۔ظاہر ہے مقصداسلام سے ہمدردی ہرگز نہ تھی بلکہ پیش نظرانہیں مقاصد کا حصول تھاجن کے لیے اول الذکرذریعہ استعمال کیا گیا تھا۔راستہ بالکل مختلف تھالیکن نتائج وہی حاصل کرنے تھے۔ مقاصد کے گھناؤنے پن کو البتہ بڑی چابک دستی سے ہمدردی کے دبیز تہوں کے نیچے چھپا دیا گیاتھا۔ مسلمانوں میں تصوف اور صوفیائے کرام کی غیر معمولی مقبولیت کے سہارے ان کی سوچ کے دھارے کو غیر محسوس طور پرایک نیا رخ دینے کی یہ نہایت شاطرانہ چال تھی۔۔
اس کاوش کے ذریعے ایک طرف مسلمان ہیروز اور ان کی محنت کو سائیڈ لائن لگانے کی کوشش کی گئی دوسری طرف مسلمانوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی کہ اسلام تو تلوار اٹھائے بغیر بھی پھیل سکتا ہے جس طرح ان صوفیوں نے سارے ہندوستان کو مسلمان کردیا ، اس لیے محمد بن قاسم وغیرہ کی طرح کے کسی جہادی کام میں اپنے آپ کو کھپانا ، اسکا انتطام کرنا بے فاعدہ ہے۔۔۔اسی ذہن سازی کے سلسلے میں اگلا کام ان دوسرے انگریز مورخین نے کیا ، ایم۔اے۔ٹائیٹس نے مسلمان بادشاہوں بالخصوص محمد بن قاسم اور اورنگ زیب سے متعلق سخت بہتان تراشی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ محمد بن قاسم نے سندھ میں مندروں کے انہدام اور لوگوں کو جبری مسلمان بنانے کا جو منصوبہ بند پروگرام شروع کیاتھا،عہدعالم گیری تک جاری رہا ۔حالانکہ حقیقت اس سے بالکل الٹ ہے۔
اس طرح ’ لارڈالن برو‘نے محاربہ قابل کے بعد ۱۸۴۲ء میں سلطان محمود غزنوی کے مقبرے سے صندل کے کنوار اکھڑواکر غزنی سے آگرہ تک اس کا جلوس اس اعلان کے ساتھ نکالا کہ سلطان یہ کنوار سومناتھ سے لے گیاتھا۔ بعد میں جلد ہی یہ حقیقت بھی ظاہر ہو گئی کہ یہ باتیں غلط ہیں اور اس کا تعلق سومنا تھ سے نہیں ہے،بلکہ یہ مسلمانوں کے بنائے ہوئے ہیں۔ ( جیمس فرگیسن،اسلامی فن تعمیر ہندوستان میں،ص:۱،جامعہ عثمانیہ،حیدر آباد،۱۹۳۲ء)
خلاصہ یہ کہ یہ کہنا بالکل غلط ہے اور ایک سکیم کے تحت ہے کہ اسلام کی اشاعت میں صرف صوفیاء اورعرب تجار کا صرف حصہ ہے۔برصغیر میں اسلام کی اشاعت کی اس کامیابی کے پیچھے مندرجہ ذیل اسباب عوامل کار فرما تھے:
۱۔ عرب تجار کی تبلیغی مساعی۔۲۔ سلاطین کے حملے اوررعایا سے رواداری ۳۔ علماء کی تدریسی،تقریری اورتحریری خدمات۔۴۔ صوفیاء کرام کی جدوجہد۔۵۔ انسانی مساوات وبشر دوستی کا اسلامی عقیدہ۔
۶۔ ذات پات کی تفریق سے نفرت وبیزاری۔
ان میں سے ہر عامل نے اپنے اپنے خطوط پر نمایاں کردار اداکیا۔سلاطین نے ملک فتح کرکے یہاں کے باشندوں کو ایک مرکز سے جوڑااور مسلمانوں کو ا ن کے درمیان رہنے کاموقع فراہم کیاجن کی معاشرت ،تہذیب اور عادات واطوار سے مقامی باشندے متأثر ہوئے اور اس طرح گاہے بہ گاہے وہ مسلمان معاشرہ میں اسلام قبول کرکے ضم ہوگئے۔ اگر مسلمان ہندوستان میں سیاسی افق پر کمزور ہوتے تو بقول ایک ہندودانشور کہ یہ بھی امکان تھا کہ ہندی ادیان کے گھنے جنگل میں اسلام کی شخصیت ہی گم ہوجاتی قطع نظر اس کے مسلمانون کی تعداد کتنی ہوتی؟( این۔سی۔مہتا،ہندوستانی تہذیب میں اسلام کا حصہ،ص:۱۰،نظامی پریس ،بدایوں،۱۹۳۵ء)
اگر سلاطین نہ ہوتے تو پھر صوفیائے کرام جو سلاطین وقت سے الگ تھلگ ہوکر دین کی دعوت کو عام کیے ہوئے تھے کیسے اور کیوں کر یہاں آتے اور کون انہیں اپنے کفرستان میں قال اللہ وقال الرسول کی آواز بلند کرنے کی اجازت دیتے،جسے سن کر دیکھ کراور ان کے کشف وکرامات سے متاثر ہورکربہت سے لوگوں نے اسلام قبول کیا جس کی تعداد کاکوئی حتمی ریکارڈ تو نہیں ملتا البتہ تاریخ اور تذکرہ کی کتابوں میں ایسے واقعات بکھرے پڑے ہیں جن سے یہ نتیجہ اخذکیا جاسکتاہے کہ ان پاک نفوس کی برکت اور ان کی مساعی سے بے شمارلوگ حلقہ اسلام میں داخل ہوئے۔
اسی طرح مسئلہ صرف قبول اسلام تک محدود نہیں بلکہ ان کی تعلیم وتربیت اور دینی فہم کی بھی ضرورت تھی جس کے لیے یہ علماء کرام تھے ۔ ان کی تعلیم وتدریس کے ذریعہ پرورش وپرداخت کرتے تھے ۔ اسی طرح مناظرے کی گرم بازاری نے بھی اسلام کو وسعت دینے میں کافی تقویت پہونچائی ہے۔اسی طرح عرب تجار نے بھی ملک کے ایک حصے میں اپنے اخلاق وکردار اورصفائی معاملات کی وجہ سے اسلام کی اشاعت میں کوشاں تھے۔ اگر صرف انہیں لوگوں کواسلا م کی اشاعت کا ذمہ دار ٹھہرایاجائے تو پھر شمالی ہند کے لوگوں کو کس بات نے مجبور کیا کہ وہ اسلام قبول کریں۔
اس موضوع پر تفصیلی تحریر پہلے پیش کی جاچکی ہے.
سندھ اور اشاعت اسلام :
سندھ کے مایہ ناز مورخ رحیم داد خان مولائی شیدائی اپنی کتاب جنت السندھ میں رقمطراز ہیں کہ عربی فتوحات کی وجہ سے سندھ باب الا سلام بنا اور یہ مقام ایک معلم کی حیثیت سے سارے ہندوستان کی رہنمائی کرنے لگا ( جنت السندھ ۔ ص ۱۰۲)
آگے لکھتے ہیں
” محمد بن قاسم نے سندھ فتح کرنے کے بعد بڑے بڑے شہروں مثلاً دیبل نیرون کوٹ سیوستان برھمن آباد الور ملتان دیپالپور قنو چ میں جامع مسجدیں تعمیر کرائیں جن میں ائمہ خطبہ مقرر کیے اور مسلمانوں کے حسن خلق کو دیکھ کر لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہوئے دیبل اور دیگر شہروں سے کئی سو علماء پیدا ہوئے جن کا تذکرہ علامہ سمعانی نے کیا ہے۔۔۔ عرب حکمرانوں نے سندھ میں جن نئے شہروں کی بنیاد رکھی۔ مثلاً منصورہ محفوظ اور بیضاء یہ حقیقت میں اسلامی نشرو اشاعت کے عظیم ادارے تھے۔عمر بن عبد العزیز کا زمانہ سن ۹۹ ہجری سے سن ۱۰۱ ہجری تک تقریباً ڈھائی سال کا قلیل عرصہ رہا۔ اس قلیل عرصے میں اسلام سندھ میں انتہائی سرعت سے پھیلا ۔عمر بن عبد العزیز نے اسلام کی اشاعت کے لیے سلطنت کے صوبوں کی طرف مبلغین و اعظین مفتیان کرام کو روانہ کیا تاکہ وہ وہاں کے لوگوں کو حدیث فقہ حلال حرام وغیرہ سے واقف کریں اور اس نے اسلامی دنیا میں رہنے والے سب غیر مسلموں کے طرف اسلام اختیار کرنے کے دعوت نامے ارسال کیے ( جنت السندھ ۔ ص ۱۰۳)
رحیم داد خان عرب حکمرانوں کی اسلام کے لیے خدمات کا تذکرہ کر تے ہوئے قمطراز ہیں کہ
’’ولید بن عبد الملک نے سلطنت کے چاروں طرف قرآن کریم کے حافظ مقرر کیے کہ لوگ قرآن کی تعلیم حاصل کریں اور ان حفاظ کے لیے وظائف جاری کیے نیز قرآن مجید کا سب سے پہلا سندھی ترجمہ بھی اسی عہد میں ہوا‘‘۔
مزید لکھتے ہیں کہ
’’ قرآن مجید تو خلافت راشدہ کے عہد میں مرتب و مدون ہو چکا تھا مگر اس میں اعراب و نقاط نہیں تھے جس سے عرب تو اسے آسانی سے پڑھ لیتے تھے مگر عجمی قاریوں کو تلاوت میں دشواری پیش آتی تھی۔حجاج بن یوسف ویسے تو ظلم و زیادتی کے حوالے سے مشہور تھے مگر قرآن مجید کی اشاعت کے سلسلے میں یہ نیک عمل ان کا یاد گار ہے کہ انہوں نے عجمیوں کی سہولت کے لیے قرآن کریم کو اعراب لگوائے۔ اورکئی نسخے لکھوا کر مشرقی صوبوں کے طرف بھیجے جس سے نو مسلموں کو بھی تلاوت کرنے میں آسانی میسر ہوئی‘‘۔ (جنت السندہ ۔ ص ۱۰۲)
محمد بن قاسم کے بعد متعدد مسلم حکمراں آئے اور تھوڑی تھوڑی مدت میں بدلتے رہے جس کی وجہ سے پہلے کے بنسبت نظم و نسق خاصا اثر انداز ہوا۔ البتہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے اپنے دور اقتدار میں اہل سندھ و ہند کے نام دعوتی خطوط روانہ کیے۔ جن میں توحید و رسالت کی دعوت اور بت پرستی و بداخلاقی سے باز رہنے کی بات تھی۔ جس کا سردست نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ بہت سارے ہندو سرداران اسلام میں داخل ہوگئے جن میں سرفہرست ”جے سنگھ“ بن داہر تھا۔
سندھ کے ایک اور گراں قدر محقق و مورخ ڈاکٹر میمن عبد المجید سندھی رقمطراز ہیں کہ
’’ سندھ نے اس زمانے میں ممتاز علماء پیدا کیے جن میں مختلف علوم مثلاً حدیث تفسیر نحو ادب فقہ اور شعر و شاعری میں بہت بڑا مقام پیدا کیا ہے‘‘
(سندھ سیاحن جی نظر میں ص ۲۱)
yousaf chaudhry
February 23, 2016 at 5:23 pmthink good approch
Muhammad bilal
September 27, 2018 at 4:05 pmNice