زنابالجبر-حدود کی شرائط کی عدم موجودگی اور سزا

.

سیکولرز طبقہ کی طرف سے زنا بالجبر وغیرہ کی شرعی سزا کے خلاف بہت سے اعتراضات پڑھنے سننے کو ملتے رہتے ہیں ،حال ہی میں اسلامی نظریاتی کونسل کے طرف سے جب یہ فیصلہ سنایا گیا کے ڈی این اے کا ثبوت زنا کی سزا کے لئے صرف ثانوی شہادت کے طور پر ہی قبول کیا جاسکتا ہے’ملاؤوں کےخوب لتے لئے گئے۔ اسلام کو سائنس مخالف قرار دیا گیا اور سائنس کی واجبی معلومات رکھنے والے بھی تھوڑی دیر کےلیے سائنس گردی پر آمادہ ہوگئے۔یہ بھی کہا گیا کہ زنا کی سزا کے لئے چار گواہ ہونا ضروری ہے اور ظاہر بات کہ زنا یاریپ کرنے والا خواہ مخواہ چار گواہوں اور وہ بھی ثقہ گواہوں کے سامنے عورت کی آبرو ریزی نہیں کرے گا۔اب اسلامی نظریاتی کونسل نے واحد گواہی ڈی این اے کو بھی قبول کرنے سے انکار کردیا ہے۔!!!
اس تحریر میں ایسے تمام شبہات پر بات ہوگی۔ پہلے چند ضروری پوائنٹ سمجھ لیں اس سے مسئلے کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔
٭زنا اور ریپ-اسلام اور مغرب کے تصورات میں فرق:
اسلام اور موجودہ مغربی نظام کے بنیادی تصورات میں اتنا فرق ہے کہ بعض دفعہ اسلام کے پیش کردہ ان بہترین اصولوں کو جسے ہر ذی شعور تسلیم کرے گا مغرب کے نکتۂ نظر سے پیش کیا جاتا ہے تو اس میں بہت بڑی زیادتی نظر آتی ہے۔
مغربی اصول ہم دیکھیں تو انکے مطابق زنا اگر باہمی رضامندی سے ہو تو ایک جائز عمل ہےجبکہ ریب انتہائی گھناؤنا جرم سمجھا جاتا ہے۔ یہاں واضح ہو کہ ریپ کے واقع ہونے کے لئے ضروری نہیں ہے کہ وہ زنا ہو بلکہ صرف “بالجبر” ہونا کافی ہوتا ہے ۔ یعنی اگر میاں بیوی کے درمیان تعلقات میں بھی اگر جبر ہو تو وہ بھی اسی سطح کا گھناؤنا جرم سمجھا جائے گا جسے ریپ کہتے ہیں.مغرب کی تصور آزادی میں عورت کو آزادی ہوتی ہے کہ وہ مرد کو جتنا چاہئے جنسی اُکساوے فراہم کرے لیکن ایک خاص حدود پار کرنے کے بعد مرد ریپ کا قصور وار ٹہرا دیا جاتا ہے۔بلکہ مغربی معاشرے میں ایسی صورت حال بکثرت فراہم کی جاتی ہے کہ عورت جب چاہےکسی کو جنسی اکساوے فراہم کرے اور پھر اس پر آسانی کے ساتھ “ریپ” کا الزام دھر دے۔ اس ریپ کا ثابت ہونا اور نہ ہونابعد کی چیز ہوتی ہے۔ لیکن جب تک عدالتی فیصلہ نہ آجائے ریپ کے الزام کی وجہ سے اسے جو بھی بھگتنا ہے وہ بھگت سکتا ہے۔ عورت کواس کی کھلی آزادی ہے کہ وہ جب چاہے الزام لگادے۔
اسکے بالمقابل اسلام زنا کو ہی بہت بڑا گناہ قرار دیتا ہے، اتنا بڑا کہ چار گواہوں کے میسر آنے کی صورت میں ایسی سخت سزا تجویز کرتا ہے کہ جس کے تصور سے ہی رونگٹے کھڑے ہوجائیں۔سزا چونکہ بہت سخت ہے اس لیے اس معاملے میں تحقیق کا معیار بھی بہت سخت رکھا گیا ہے ۔ یہاں عورت کا صرف یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ فلاں نےا سکے ساتھ زنا کیا ہے۔
اگر اس مرحلہ پر کسی عورت کا اکیلا بیان ہی مرد کو زانی ثابت کرنے کے لئے کافی ہو تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ زنا کے تمام جرائم کا فیصلہ ہر وقت عورت کے ہاتھ میں رہے گا۔ اس بنا پر عورت کا زنا کے الزام میں سزا پانا بھی ناممکن ہوجائے گا باوجود اس کے کہ اس نے رضامندی سے بدکاری کا ارتکاب کیا ہو۔ عورت جب چاہے گی تو اس کو زنا بالجبر قرار دے کراپنے آپ کو تو بری کرا لے گی لیکن مرد کو زنا کی سنگین سزا سے دوچار کردے گی۔ زنابالجبر میں اس پہلو کے حوالے سے قانون سازی کا نتیجہ یہی نکلے گا کہ زنا کی سزا عورت کے رحم وکرم پر ہوجائے گی۔زنا کے معاملہ ميں اس شدت کے ساتھ گواہى کى تخصيص ميں عزت و ناموس کى بھی حفاظت ميں احتياط ہے، تا کہ لوگ طعن اور تہمت لگانا آسان نہ سمجھيں۔.
امام مارودى رحمہ اللہ لکھتے ہيں:
” جس معاملے کى گواہى دى جارہى ہے اس کے سخت ہونے اور شديد ہونے کے اعتبار سے گواہى بھى شديد ہو گى، جب زنا اور لواطت و بدکارى سب سے برے اور فحش کام ميں شامل ہوتى ہے جس سے منع کيا گيا ہے تو اس کے آخر ميں گواہى بھى اتنى ہى شديد رکھى گئى، تا کہ حرمت کى بےپردگى نہ ہو، اور اسے ختم کرنے کا باعث بنے ” انتہى.
ديکھيں: الحاوى ( 13 / 226 ).
یہ اتنی سخت شرط رکھنے کی وجہ تھی کہ کوئی کسی کی عزت مجروع نا کرسکے اور نا اتنی سخت سزا کسی ایسے کو دی جاسکے جس نے جرم کیا ہی نا ہو، اس معاملے میں سیکولر عناصر یہ منافقت کرتے ہیں کہ اک طرف وہ اس گواہی کی سخت شرط پر شور مچاتے ہیں اور دوسری طرف زنا کے جرم میں سنگساری اور کوڑوں کی سزا کو غیر انسانی بھی کہتے ہیں۔ یعنی نہ اُدھر خوش نہ ادھر!!
٭اسلامی نظریاتی کونسل اور ڈی این اے :
” زنا بالجبر کے مقدمات میں صرف ڈی این اے ٹیسٹ ہی کی بناء پر حد (یعنی سنگساری کی سزا ) نافذ نہیں کی جا سکتی اسے صرف ضمنی شہادت کے طور پر قبول کیا جائے”
اسکی وجہ یہ ہے کہ ڈی این اے کی شہادت شناخت تو کرسکتی ہے لیکن یہ زنا بالرضا اور زنا بالجبر میں تفریق کرنے میں معاون نہیں ہے۔ اس سلسلے میں دیگر شہادتیں بھی درکار ہوتی ہیں۔۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہی قانون دیگر کئی جرائم کے فیصلے میں پٌہلے سے موجود ہے مثلاً قتل کے کسی کیس میں فنگر پرنٹس یا پوسٹ مارٹم رپورٹ سے مدد لی جاتی ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ان میڈیکل شہادتوں سے کسی مخصوص فعل کا وقوع تو ثابت ہوسکتا ہے لیکن اس کی حتمی نوعیت ، جیتے جاگتے انسانوں کی گواہی کے بغیر ممکن نہیں۔یہی صورتحال ڈی این اے کے بارے میں بھی ہے۔ ڈی این اے کو نظریاتی کونسل نے ضمنی شہادت قرار دیا ہے اس طرح اُنہوں نے اوقوعہ کے ثبوت میں اسے تائیدا ًقبول کرنے کی بات کی ہے۔ ڈی این اے سے فعل زنا کا ثبوت مل سکتا ہے ، اس سے یہ پتہ نہیں چلتا ہے کہ یہ فعل رضا مندی سے ہوا یا جبر واکراہ اور ظلم کی بنا پر ۔ اس سے جتنا فائدہ لیا جاسکتا تھا اتنا لینے کی بات کی ، یہ بات معقو ل اور واضح سمجھ آنے والی تھی لیکن پھر بھی حسن نثار، یاسر پیرزادہ اور بی بی سی کے محمد حنیف جیسے کالم نگاروں نے عوام کو گمراہ کرنے کے لیے طوفان اٹھائے رکھا۔
جنگ کے کالم نگار یاسر پیرزادہ ‘اسلامی نظریاتی کونسل کا اسلامی نظام’کے زیر عنوان رقم طراز ہیں:
”اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنے حالیہ اجلاس میں یہ ‘فتوٰی’ صادر کیا ہے کہ اجتماعی عصمت دری کے مقدمات میں ڈی این اے ٹیسٹ کو بنیادی شہادت کے طور پر قبول نہیں کیا جائے گا۔ یہ خبر ریپ ملزمان کے لئے تازہ ہواکا جھونکا ثابت ہوسکتی ہے لہٰذا ایسے تمام ملزمان کو چاہئے کہ وہ کونسل کے چیئرمین کو شکریے کی اِی میل ارسال کریں اور جیل سے چھوٹنے کے فوراً بعد اُن کے ہاتھ پر بیعت کرلیں۔…اس فیصلے کے دور رَس اثرات ابھی سے سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں… کراچی کی ایک عدالت نے اس نظام پر عمل درآمد کا آغاز کردیا ہے۔ان غلط فیصلوں کے نتیجے میں گینگ ریپ ہونے والی خواتین کی آواز دب جائے گی اور ملزم دندناتے پھریں گے۔ کیا اسلامی نظریاتی کونسل کا یہی انصاف ہے؟ (روزنامہ جنگ لاہور،3جون 2013ء)
‘شرعی ڈین اے’ کے نام سے لکھے جانے والی رپورٹ میں محمد حنیف لکھتے ہیں کہ
”کونسل میں شامل تمام اراکین اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، اِس ملک کے معروضی حالات سے واقف ہیں، اُمید ہے فقہ اور حدیث کے ساتھ ساتھ ہائی سکول کی سائنس بھی پڑھی ہو گی۔یہ بھی جانتے ہوں گے کہ آپ شاختی کارڈ جعلی بنوا سکتے ہیں، کسی اور کے پاسپورٹ پر اپنی تصویر لگا سکتے ہیں، پلاسٹک سرجری سے چہرہ بھی تھوڑا بہت بدل سکتے ہیں، لیکن ابھی تک دریافت ہونے والے انسانی جینیاتی شناخت میں ڈی اے این ہی وہ کوڈ ہے جو کسی دو اِنسانوں میں مشترک نہیں ہوتا۔لیکن اسلامی نظریاتی کونسل والے بھی کیا کریں وُہ مذہبی بھی ہیں اور نظریاتی بھی اور ہر ایسی سائنسی ایجاد جو اُن کے رُتبے کو چیلنج کرے، اُن کے لیے قابل قبول نہیں ہے… ڈی این اے ٹیسٹ جس کے ذریعے ‘ریپ’ جیسے قبیح جرم کا شکار ہونے والی ایک بچی کو انصاف مل سکتا ہے، ہمارے ملک کے چنیدہ علما اس پر متفق ہیں کہ نہیں ہونے دیں گے۔”(بی بی سی اردو ویب سائٹ:30 مئی 2013ء)
خبر کا انداز اور لہجہ، رپورٹ اورحقیقت سے بڑھ کر طنز وتمسخر کی بھونڈی مثال ہے، بی بی سی کی سابقہ روایات کے عین مطابق، خبر سے زیادہ اس میں اپنے قاری کی ذہن سازی کی کوشش کی گئی ہے۔ حیرانی اس امر پر ہے کہ کسی نے بھی خبر کی حقیقت کو سمجھنے یا اسےبیان کرنے کی لمحہ بھر کوشش نہ کی اور لگے علما کے بہانے سے اسلام کو کوسنے…!!
سیکولر عناصر کا جھوٹ یہ ہے کہ ہیں کہ عورت اگر چار گواہ نا لاسکے تو ملزم کو کوئی سزا نہیں دی جائیگی اور نا سزا کے لیے ڈی این اے کی شہادت قبول کی جائیگی ۔یہ بالکل خلاف حقیقت بات ہے ۔ اگر گواہوں کی شرط پوری نا ہوسکے تو اس صورت میں مجرم کو آزاد نہیں چھوڑ دیا جاتا بلکہ اسے تعزیری سزا دی جاتی ہےیہ حالات کے مطابق سخت سے سخت بھی ہوسکتی ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ تعزیری سزا بھی اس سزا سے سخت ہے جتنی یہ زانی کو دینے کا مطالبہ کرتے ہیں یا جتنی مغربی ممالک میں دی جاتی ہے ۔ گزشتہ تحریر میں اسکی تفصیل موجود ہے۔
خلاصہ :
علماء کے درمیان اجماع پایا جاتا ہے کہ اگر حد کی شرائط پوری ہوجائیں یا مجرم خود اعتراف کر لے تو زبردستی زنا کرنے والے پر حد نافذ ہوگی(شادی شدہ کو سنگسار، غیر شادی شدہ کیلئے اسی کوڑے )۔ اور اگر حد کی شرائط پورے نہیں ہوتی تو اس کو دوسری سزا(تعزیر) دی جائے گی ( یعنی قاضی کو حق حاصل ہے کہ اس کو دوسری ایسے سزا دے جس سے سبق حاصل کر کے وہ خود اور دوسرےلوگ اس قسم کے جرم کی جرأت نہ کر سکے)۔ گزشتہ ایک تحریر میں تعزیر پر تٖفصیل پیش کی جاچکی ہے۔اگر زنا بالجبر کے معاملے میں ہتھیاروں تک کا استعمال کیا گیا ہو تو مجرم کو محارب مانا جائے گا اور اسکے ساتھ سورہ مائدہ کی مندرجہ ذیل آیت کے مطابق معاملہ کیا جائیگا۔”جو لوگ خدا اور اسکے رسول سے لڑائی کریں اور ملک میں فساد کرنے کو دوڑتے پھریں انکی یہی سزا ہے کہ قتل کر دیئے جائیں یا سولی چڑھا دیئے جائیں یا انکے ایک ایک طرف کے ہاتھ اور ایک ایک طرف کے پاؤں کاٹ دیئے جائیں یا ملک سے نکال دیے جائیں یہ تو دنیا میں انکی رسوائی ہے اور آخرت میں انکے لیے بڑا (بھاری) عذاب تیار ہے”۔
تو قاضی صورت حال کے پیش نظر مندرجہ بالا آیت میں مذکور چار سزاؤوں میں جو بھی موقع کے حساب سے مناسب سمجھے دے سکتا ہے۔اس کلام کا خلاصہ یہ ہے:
اگر زنا بالجبر کی سی صورت حال پیدا ہواگئی، تو مندرجہ ذیل میں سے کوئی ایک صورت ہوسکتی ہے:
۱۔ زنا کی حد قائم کرنے کی شرائط پوری ہوجائے تو اس پر حد نافذ ہوگی۔
۲۔ زنا کی حد قائم کرنے کی شرائط پوری نہ ہوں۔ لیکن یہ ثابت ہوجائے کہ مجرم نے جبراًایسی کوئی صورت حال پیدا کردی تھی جس میں مجرم عورت کے ساتھ زیادتی کرنے کی پوزیشن میں تھا جیسے جبراً گھر میں گھس جانا یا عورت کو اغوا کرنا۔ ایسے میں مجرم کو تعزیری سزا دی جاسکتی ہے۔ اور موجودہ پاکستان کے قانون کے مطابق یہ سزا زیادہ سے زیادہ پچیس سال قید تک ہوسکتی ہے۔اس سزا کے لئے چار گواہوں کی کوئی شرط نہیں ہے۔اس معاملے میں واقعاتی شہادتیں بھی کافی ہیں۔
۳۔ اگر مجرم نے جرم کا ارتکاب کرنے کی خاطر یا دھمکانے کے لیے ہتھیاروں کا استعمال کیا ہو تو ا سے محارب مان کر سخت سے سخت سزا دی جاسکتی ہے۔ محاربہ کی صورت میں سنگسار تک کی سزا دی جاسکتی ہے چاہے مجرم شادی شدہ نہ ہو۔ اس سزا کے لئے بھی چار گواہوں کی شرط نہیں ہے۔
٭شرعی سزاؤوں سے نالاں سیکولرزم کے علمبردار اور مغربی نظریات کے داعیوں کو آخر شکایت کیا ہے؟
1. ریپ کی سزا سخت ہونی چاہئے تو وہ موجود ہے۔
2. چار گواہوں کی شرط(سزاکیلئے) نہیں ہونی چاہئے تو یہ بھی طے ہے کہ ایسی کسی شرط کے پورے نہ ہونے کی صورت میں بھی سزا موجود ہے۔
3. ہتھیاروں کا استعمال کرکے عوام کو اور خصوصاً عورتوں کو ہراساں کرنے کی سزا اور بھی سخت ہونی چاہئے، تولیجئے وہ بھی موجود ہے۔
4. حد ود کی سزائیں بہت ہی سخت ہیں اس لئےیہ سزائیں عمل میں لانی ہی نہیں چاہئے۔ تو جناب ان کے اپنے قول کے مطابق حدود کی سزا دینے کے لیے شرائط ایسے کڑے ہیں کہ وہ کبھی پورے نہیں ہوسکتے تو ان کی دانست میں حدود کی سزائیں عملاً کالعدم ہی ہیں۔
تو پھرشکایت ہے کیا؟
شاید شکایت یہ ہے کہ زنا بالرضا پر سزا کیوں ہے؟ حالانکہ ان کے مطابق سزا دینے کی شرائط پوری ہی نہیں ہوسکتی۔ تو شکایت یہ ہے کہ یہ سزا لکھی ہوئی بھی کیوں ہے؟
یا پھر غصہ اس بات کا ہے کہ چار ثقہ گواہوں کے سامنے انہیں زنا کرنے کی اجازت کیوں نہیں ہے؟
یا پھر یہ کہ اس سزا کے لکھے ہونے کی صورت میں ریاست زنا کو غلط تسلیم کرتی ہے اور انہیں یہ گوارا نہیں ہے؟
یا پھر ریاست کے معاملےمیں نام کو ہی سہی “اسلام”کے حوالے سے کچھ تو لکھا ہوا ہے اور انہیں یہ تسلیم نہیں ہےچاہے وہ لکھا ہونا ان کی اپنی شرائط کو بھی کافی حد تک پورا کرتا ہو۔
الغرض عورت کی مظلومیت کا نام لے کر جو کوشش ہورہی ہے وہ یہ ہے کہ مسلم معاشرے میں فواحش کی نشر و اشاعت پر کوئی روک نہ لگے یا پھر اسلام کے حوالے سے کوئی چیز پائی جانا انہیں قبول نہیں ہے۔
استفادہ تحریر: ابوزید، سہ ماہی ایقاظ

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password