اس سلسلے میں ایک سوال جو قتل مرتد کے حوالے سے بہت سے دماغوں میں تشویش پیدا کرتا ہے وہ یہ کہ جو شخص پہلے غیر مسلم تھا اس نے بااختیار خود اسلام قبول کیا اور اسکے بعد پھر کفر اختیار کرلیا اس کے متعلق تو آپ کہہ سکتے ہیں اس نے جان بوجھ کر غلطی کی، کیوں نا وہ ذمی بن کر رہا اور کیوں اس اجتماعی دین میں داخل ہوا جس سے نکلنے کا دروازہ اسے معلوم تھا کہ بند ہے لیکن اس شخص کا معاملہ ذرا مختلف ہے جس نے اسلام کو خود قبول نا کیا بلکہ مسلمان ماں باپ کے گھر پیدا ہونے سے اسللام آپ سے آپ اسکا دین بن گیا ہو ۔ ایسا شخص اگر ہوش سنبھالنے کے بعد اسلام سے مطمئن نہ ہو اور اس سے نکل جانا چاہے تو یہ بڑا غضب ہے کہ آپ اسے سزائے موت کی دھمکی دے کر اسلام کے اندر رہنے پر مجبور کرتے ہیں یہ نا صرف ایک ذیادتی معلوم ہوتی ہے بلکہ اسکا لازمی نتیجہ یہ بھی ہے کہ پیدائشی منافقوں کی اچھی خاصی تعداد اسلام کے اندر پرورش پاتی رہے۔۔
اس شبہ کا ایک جواب اصولی ہے اور ایک عملی۔
اصولی جواب تو یہ ہے کہ پیدائشی اور اختیاری پیروؤں کے درمیان احکام میں نہ فرق کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی کسی دین نے ان کے درمیان فرق کیا ہے ۔ہر دین اپنے پیروؤں کی اولاد کو فطرتاً اپنا پیرو قرار دیتا ہے اور ان پر وہ سب احکام.جاری کرتا ہے جو اختیاری پیروؤں پر جاری کۓ جاتے ہیں عملا یہ بات ناممکن اور عقلا بالکل لغو ہے کہ پیروان دین یا سیاسی اصطلاح میں رعایا اور شہریوں کی اولاد کو ابتداء کفار یا اغیار (Aliens) کی حیثیت سے پرورش کیا جاۓ اور جب وہ بالغ ہوجائیں تو اس بات کا فیصلہ ان کے اختیار پر چھوڑ دیا جاۓ کہ آیا وہ اس دین کی پیروی یا اس اسٹیٹ کی وفاداری قبول کرتے ہیں یا نہیں جس میں وہ پیدا ہوۓ ہیں اس طرح کوئی اجتماعی نظام دنیا میں کبھی چل نہیں سکتا.۔۔۔۔!!
اجتماعی نظام کے بقا و استحکام کا زیادہ تر انحصار اس مستقل آبادی پر ہوتا ہے جو اس کی پیروی پر ثابت قدم ہو اور اس کے تسلسل حیات کی ضامن ہو اور ایسی مستقل آبادی صرف اسی طرح بنتی ہے کہ نسل کے بعد نسل کو اس نظام کو جاری رکھنے کی ذمہ داری لینی چاھۓ .اگر پیروؤں اور شہریوں کو ہر نسل کے بعد دوسری نسل کا اس پیروی و شہریت پر قائم رہنا اور اس نظام کو برقرار رکھنامشتبہ اور غیر یقینی ہو تو اجتماعی نظام کی بنیاد دائماً متزلزل رہے گی اورکبھی اس کو استحکام نصیب نہیں ہوگا۔۔۔
لہذا پیدائشی پیروی و شہریت کو اختیاری میں تبدیل کردینا اورہر بعد کی نسل کے دین اور دستور و آئین اور تمام وفاداریوں سے انحراف کا دروازہ کھلا رکھنا ایک ایسی تجویز ہے جو بجاۓ خود سخت نامعقول ہے اور دنیا میں آج تک کسی دین اور کسی اجتماعی نظام اور کسی ریاست نے اس کو اختیارنہیں کیا.
اس کا عملی جواب یہ ہےکہ جو اندیشہ ہمارے معترضین بیان کرتےہیں وہ عملی دنیا میں رونما نہیں ہوتا۔ ہر اجتماعی نظام جس میں زندگی کی طاقت اور خواہش موجود ہو وہ پوری توجہ کے ساتھ اس کا انتظام کیا کرتا ہے کہ اپنے دائرے میں پیدا ہونے والی نئی نسلوں کی طرف اپنی روایات اپنی تہذیب اپنے اصولوں اور اپنی وفاداریوں کو منتقل کرے اور انہیں اپنے سے زیادہ قابل اعتماد بناۓ۔۔۔۔
یہ اشکال پیش کرنے والوں کے سامنے موجودہ محکومی ، بے یقینی اور مذہبی مخالف پروپیگنڈے تربیت کے فقدان کے دور میں پلنے والی نسل ہے ، جبکہ اتدداد کی سزا کے لیے ایک اسلامی ریاست کا وجود ضروری ہے۔۔!!!!
اک اسلامی ریاست میں تعلیم و تربیت کی وجہ سے نئی نسلوں کی بہت بڑی اکثریت 999 فی ہزار سے بھی ذیادہ اکثریت اس بظام کے اتباع پر راضی اوراس کی وفادار بن کر اٹھتی ہے جس میں وہ پیدا ہوتی ہے ۔ ان حالات میں صرف چند ہی لوگ ایسے پیدا ہوسکتے ہیں جو مختلف وجوہ سے انحراف و بغاوت کا میلان لۓ ہوۓ اٹھیں یا بعد میں اس کا اکتساب کرلیں ظاہر ہےکہ اس قسم کے چند افراد کی خاطراصول میں کوئی ایسا تغیر نہیں کیا جا سکتا جس سے پوری سوسائٹی کی زندگی خطرے اوربے اطمینانی میں مبتلا ہوجاۓ۔۔!!
ایسے چند افراد اگر اجتماعی دین سے انحراف کرنا چاھیں تو ان کیلۓ دروازے کھلے ہیں یا تو ریاست کی حدود سے باہر جا کر انحراف کریں یا اگر وہ اپنے اس انحراف میں راسخ ہیں اور جس دوسرے نظام.کو انہوں نے ہسند کیا ہے اس کی پیروی میں صادق الایمان ہیں اور اپنے آبائی دین کی جگہ اسے قائم.کرنے کا سچا عزم رکھتے ہیں تو اپنی زندگی خطرے میں ڈالیں اورجان جوکھوں کا وہ کھیل کھیلیں جس کے بغیر نظام کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا..
پس جہاں تک نفس کا تعلق ہے تو بہرحال وہ یہی رہے گا کہ مسلمانوں کی نسل سےپیدا ہونے والی اولاد مسلمان ہی سمجھی جاۓ گی اور قانون اسلام.کی طرف سے ان کیلۓ ارتداد کا دروازہ ہرگز نہیں کھولا جاۓ گا اگر ان میں سے کوئی اسلام سے پھرے گا تو وہ اسی طرح قتل کا مستحق ہوگا جس طرح وہ شخص جس نے کفر سے اسلام کی طرف آکر پھر کفر کا راستہ اختیار کرلیا ہو یہ تمام فوہاۓ اسلام کا متفق علیہ مسئلہ ہے اور اس باب میں ماہرین علم شریعت کے درمیان قطعاً کوئی اختلاف نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صاحب تحریر کی رائے:۔
البتہ اس معاملہ کا ایک پہلو ایسا ہے جس میں مجھے کچھ پیچیدگی نظر آتی ہے وہ یہ کہ ایک مدت دراز سے ہمارا اجتماعی نظام کچھ ڈھیلااور سست رہا ہماری کئ نسلیں ایسی گذر چکی ہیں کہ ہر نسل نے بعد کی نسل کو اسلامی تعلیم و تربیت دینے میں سخت کوتاہی کی ہے خصوصا پچھلے دور غلامی میں ہماری فومی بے شعوری اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ ہمارے لاکھوں افراد نے بے پروائی کے ساتھ اور ہزاروں نے جان بوجھکر اپنی اولاد کو کافرانہ تعلیم کے حوالے کردیا اس وجہ سے ہمارے ہاں اسلام سے بغاوت و انحراف کے میلانات رکھنے والوں کا تناسب کا خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے اور بڑھتا چلا جارہا یے اگر آگے چل کر اسلامی نظام حکومت قائم ہو اور قتل مرتد کا قانون نافذ کر کے ان سب لوگوں کو بزور اسلام کے دائرے میں مقید کردیا گیا جو مسلمانوں کی اولاد ہونے کی وجہ سے اسلام کے پیدائشی پیروقرار دئے جاتے ہیں تو اس صورت میں بلاشبہ یہ اندیشہ ہے اسلام نظام کے اجتماعی میں منافقین کی ایک بہت بڑی تعداد شامل ہوجاۓ گی جس سے ہر وقت غداری کا خطرہ رہے گا میرے نزدیک اس کا حل یہ ہےکہ واللہ الموفق للصواب. کہ جس علاقہ میں اسلامی انقلاب رونما ہو وہاں کی مسلمان آبادی کو نوٹس دے دیا جاۓ کہ جولوگ اسلام سے عملا و اعتقادامنحرف ہوچکے ہیں اورمنحرف ہی رہنا چاھتے ہیں وہ تاریخ اعلان سے ایک سال کے اندر اندر اپنے غیر مسلم ہونے کا باقاعدہ اظہار کرکےہمارے نظام اجتماعی سے نکل جائیں اس مدت کے بعد ان سب لوگوں کو جو مسلمانوں کی نسل سےپیدا ہوۓہیں مسلمان سمجھا جاۓ گا تمام قوانین اسلامی ان پر نافذ کۓ جائیں گے فرائض و واجبات دینی کے التزام پر انہیں مجبور کیا جاۓ گا اور پھر جو کوئی دائر اسلام سے باہر قدم رکھے گا اسے قتل کردیا جاۓ گا اس اعلان کے بعد انتہائی کوشش کی جاۓ کہ مسلمان زادوں اور مسلمان زادیوں کو کفر کی گود میں گرنے سے بچایا جاسکتاہے بچایا لیا جاۓ پھو جو کسی طرح نہ بچاۓ جاسکیں تو انھیں دل پر پتھر رکھ کے سوسائٹی سے کانٹ پھینکا جاۓاور اس عمل تطھیر کے بعد نئ زندگی کا آغاز صرف ایسے مسلمانوں سے کیا جاۓ جو اسلام پر راضی ہوں۔