عصر حاضر میں جرائم نے ایک عالم گیر وبا کی صورت اختیار کرلی ہے۔ دنیا کا کوئی خطّہ ان سے محفوظ نہیں ہے۔ تمام ممالک، خواہ وہ ترقی یافتہ ہوں، یا ترقی پذیر، یا پس ماندہ، ان کی لپیٹ میں ہیں۔ ان کا دائرہ سماج کے تمام طبقات تک وسیع ہے۔ خود ہمارا ملکِ عزیز بھی اس معاملہ میں کسی سے پیچھے نہیں ہے، بلکہ اس کا شمار دنیا کے ان چند گنے چنے ملکوں میں ہوتا ہے، جہاں جرائم کا گراف کافی اونچا ہے۔ کسی دن کا اخبار اٹھاکر دیکھ لیجئے، وہ قتل، چوری، ڈکیتی، اغوا، اسمگلنگ، لوٹ کھسوٹ، زنا بالجبر، اقدام زنا، جنسی تشدد، دست درازی، جہیز کے لیے زدو کوب، رحم مادر میں بچیوں کا قتل، بچوں کی خرید و فروخت اور جبری مزدوری، رشوت، شراب نوشی اور منشیات کا استعمال، غرض مختلف جرائم کے واقعات اور ان کی رپورٹوں سے بھرا ہوتا ہے۔
ہر معاشرے/ ملک کے دانش وران اور اربابِ حلّ و عقد جرائم کے انسداد کی تدابیر ڈھونڈنے میں سرگرداں ہیں، لیکن جرائم کم ہونے کے بجائے بڑھتےہی جارہے ہیں ، یہ صورتحال تقاضا کرتی ہے کہ اسلام کے تعزیری قوانین کا مطالعہ کیا جائے اور یہ جاننے کی کوشش کی جائے کہ وہ انسداد جرائم میں کس حد تک معاون ہیں۔ اسلام کے علمبرداروں اور اس کی ترجمانی کرنے والوں پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان قوانین کی معنویت آشکارا کریں اور ان کے بارے میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کودور کریں۔
اسلام کے تعزیری قوانین کے مطالعہ و جائزہ کی ضرورت اس وجہ سے بھی ہے کہ یہ قوانین آزمودہ ہیں۔ تاریخ کے ایک عرصہ میں یہ ایک خطۂ زمین میں نافذ رہے ہیں اور سماج میں ان کے اثرات واضح طور پر محسوس کیے گئے ہیں۔ جس زمانے میں یہ قوانین نافذ کیے گئے اس زمانے میں سرزمینِ عرب فتنہ و فساد کی آماج گاہ بنا ہوا تھا۔ لوٹ مار، قتل و غارت گری، چوری ڈکیتی، عصمت دری، شراب نوشی اور دیگر سماجی برائیاں، جن کا آج ہم اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کررہے ہیں، عام تھیں، ان قوانین کے نفاذ کے نتیجے میں یہ برائیاں تقریباً ختم ہوگئیں اور پورے خطے میں امن وامان کا دور دورہ ہوگیا۔ اس سلسلے میں حضرت عدی بن حاتم ؓ ، جو۹ھ میں مشرّف بہ اسلام ہوئے، بیان کرتے ہیں کہ ایک موقع پر اللہ کے رسول ﷺ نے انھیں مخاطب کرکے فرمایا:
﴿اے عدی، اگر تم کچھ عرصہ مزید زندہ رہے تو ضرور دیکھ لوگے کہ ایک عورت حیرہ سے سفر کرکے مکہ پہنچے گی اور خانۂ کعبہ کا طواف کرے گی، پورے سفر میں اسے اللہ کے سوا اور کسی کا خوف نہ ہوگا﴾ حضرت عدیؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی اس پیشین گوئی کو پورا ہوتے ہوئے میں اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا ہوں۔﴿صحیح بخاری، کتاب المناقب، باب علامات النبوۃ فی الاسلام،۳۵۹۵﴾
اسلام کا مزاج یہ ہے کہ یہ انسانوں کو عقیدہ کی پوری آزادی دیتا ہے اور انھیں دائرۂ ایمان میں داخل ہونے پر مجبور نہیں کرتا، لیکن وہ کسی شخص کو اس بات کی چھوٹ بھی نہیں دیتا کہ وہ انسانی مصالح کو پامال کرے، انسانوں کی جانوں کے درپے ہو، ان کے مالوں میں لوٹ کھسوٹ کرے، ان کی عزت و آبرو پر حملہ آور ہو، یا ایسے کام کرے جن سے نسل انسانی کے تسلسل میں رکاوٹ آئے، یا عقل انسانی میں فتور پیداہو۔ ان مصالح میں سے کسی مصلحت پر دست درازی کو وہ سنگین جرم قرار دیتا ہے اور اس پر سزا عائد کرتا ہے۔ اس موضوع پر امام غزالیؒ نے تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ انھوں نے پانچ مقاصدِ شریعت کاتذکرہ کرنے کے بعد لکھا ہے:
’’ان پانچوں اصولوں کی حفاظت ’ضروریات‘ ﴿انتہائی ناگزیر چیزوں﴾ کے درجے میں ہے، اس لیے کہ یہ انسانی مصالح کااعلیٰ ترین درجہ ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ شریعت نے اس منکر دین کو ،جو دوسروں کو گم راہ کرنے کے درپے ہو، قتل کرنے اور اس بدعتی کو، جو دوسروں کو اپنے خود ساختہ عقیدہ کی طرف دعوت دے، سزا دینے کا حکم دیا ہے۔ اسی طرح شریعت نے قصاص کو واجب کیا ہے، تاکہ انسانی جانیں محفوظ رہیں۔ شراب نوشی پر سزا لازم کی ہے، تاکہ عقلیں محفوظ رہیں، جن کی وجہ سے انسانوں کو احکام کامکلّف کیا گیا ہے۔ زنا پر حد واجب کی ہے، تاکہ نسل اور نسب محفوظ رہیں۔ چوروں اور لٹیروں کی سرزنش کا حکم دیا ہے، تاکہ اموال محفوظ رہیں، جو انسانوں کی معیشت کا ذریعہ ہیں اور جن کے وہ محتاج ہیں۔ ان پانچوں بنیادی اصول کی پامالی کی ممانعت اور اس پر تنبیہ و سرزنش دنیا کی ہر قوم اور ہر مذہب میں پائی جاتی ہے۔ ‘‘ ﴿المستصفیٰ،۱/۲۸۷۔۲۸۸﴾
اسلامی سزاؤں کے مقاصد
جرائم کے ارتکاب کی صورت میں سزاؤں کے بیان کے ساتھ قرآن کریم میں ان کے مقاصد پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ مقاصد بنیادی طور پر دو ہیں: ایک یہ کہ مجرم اپنے جرم کا بدلہ پائے، جو گھناؤنی حرکت اس نے کی ہے اس کا انجام جھیلے، جس حرام کام کا اس نے خواہش نفس سے مغلوب ہوکر ارتکاب کیا ہے، دوبارہ اس کے ارتکاب کی جرأت نہ کرے اور سزا کا خوف اس کے دل سے اس کا داعیہ ختم کردے، دوسرے یہ کہ یہ سزائیں دیگر افراد کے لیے عبرت کا باعث ہوں، ان کے ذہنوں میں ہر وقت یہ بات تازہ رہے کہ اگر انھوں نے ان جرائم کا ارتکاب کیا تو انھیں بھی ویسے ہی بھیانک انجام سے دوچار ہونا پڑے گا۔ یہ شعور انھیں ارتکابِ جرم سے باز رکھے گا اور ان میں مجرمانہ ذہنیت نہیں پنپنے پائے گی۔ آیتِ قصاص کے آخر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَلَکُمْ فِیْ الْقِصَاصِ حَیَوٰۃٌ یَاْ أُولِیْْ الأَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ۔ ﴿البقرہ:۱۷۹﴾
﴿اور تمھارے لیے قصاص میں زندگی ہے اے عقل و خرد رکھنے والو۔ امید ہے کہ تم اس قانون کی خلاف ورزی سے پرہیز کروگے۔﴾
اسلامی تعزیرات کی حکمت و معنویت پر روشنی ڈالنے والی یہ ایک معنیٰ خیز آیت ہے۔ قصاص میں قاتل کو بھی قتل کردینے سے بہ ظاہر ایک اور جان کا ضیاع ہوتاہے، لیکن قرآن کہتا ہے کہ اس میں زندگی ہے۔ اس کی تشریح کرتے ہوئے علامہ قرطبیؒ نے لکھا ہے:
’’یہ آیت بلاغت اور ایجاز کا نمونہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب قصاص کو نافذ کیا جائے گا تو جو شخص کسی کو قتل کرنے کا خواہاں ہوگا وہ اس خوف سے رک جائے گا کہ بدلے میں اسے بھی قتل کردیا جائے گا۔ اس طرح دونوں زندہ بچ جائیں گے۔ عربوں میں جب کوئی شخص کسی کو قتل کردیتاتھا تو دونوں کے قبیلے غیظ و غضب سے بپھر جاتے تھے اور ان میں باہم جنگ ہونے لگتی تھی۔ اس طرح بہت بڑی تعداد کے قتل کی نوبت آجاتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے جب قصاص کو مشروع کیا تو تمام لوگ قانع ہوگئے اورانھوں نے باہم لڑائی جھگڑا بند کردیا۔ اس طرح انھیں زندگی مل گئی۔‘‘
(ابوعبداللہ القرطبی، الجامع لاحکام القرآن، الہیئۃ المصریۃ العامۃ للکتاب، ۲/۲۵۶)
اس آیت کی بلاغت پر علامہ زمخشریؒ اورامام رازی نے بھی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ ملاحظہ کیجیے جاراللہ الزمخشری، الکشاف عن حقائق التنزیل، مطبعۃ مصطفی البابی الحلبی واولادہ، مصر، ۱/۳۳۳، فخر الدین الرازی، مفاتیح الغیب المعروف بالتفسیر الکبیر، المکتبۃ التوفیقیۃ مصر، ۵/۵۰-۵۱
اسلامی سزاؤں کے نفاذ سے ہر دور میں ان کے مطلوبہ مقاصد حاصل ہوتے رہے ہیں۔ موجودہ دور میں بھی اگر دنیا کے مختلف ممالک میں رو،نما ہونے والے جرائم کے اعداد و شمار پر نظر ڈالی جائے تو یہ حقیقت پورے طور پر ابھر کر سامنے آتی ہے کہ جن ممالک میں یہ سزائیں نافذ ہیں ان کے مقابلہ میں جن ممالک میں نافذ نہیں ہیں ان میں جرائم کا تناسب کئی ہزار گنا زیادہ ہے۔
اسلامی تعزیرات کے سلسلے میں ایک اہم بات یہ ملحوظ رکھنے کی ہے کہ ان کا نفاذ اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ جس خطۂ زمین میں اسلامی ریاست قائم نہ ہو وہاں کوئی دوسرا ادارہ یااجتماعیت انھیں نافذ کرنے کاحق نہیں رکھتی۔ امام رازیؒ لکھتے ہیں
’’ امت کا اس بات پراجماع ہے کہ عوام کو مجرموں پر حدود جاری کرنے کا اختیار نہیں ہے، بلکہ آزاد مجرمین پرحد جاری کرنے کااختیار صرف امام کو ہے۔ ‘‘ ﴿تفسیر کبیر، حوالہ سابق، ۹﴾