تاریخ حدیث

1

اسلامی تاریخ کے طالبعلموں کے لئے ڈاکٹر حمید اللہ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ ڈاکٹر حمیداللہ نے جامعہ عثمانیہ حیدرآباد دکن سے ایم اے، ایل ایل بی کی ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد جرمنی کی بون یونیورسٹی سے اسلام کے بین الاقومی قانون پر تحقیقی مقالہ لکھ کر ڈی فل کی ڈگری حاصل کی۔ بعد ازاں فرانس کی سوبورن یونیورسٹی پیرس سے عہد نبوی اور خلافت راشدہ میں اسلامی سفارت کاری پر مقالہ لکھ کر ڈاکٹر آف لیٹرز کی سند پائی۔ جامعہ عثمانیہ کے علاوہ جرمنی اور فرانس کی جامعات میں درس و تدریس کے فرایض انجام دینے کے بعد ڈاکٹر حمیداللہ فرانس کے نیشنل سینٹر آف ساینٹفک ریسرچ سے تقریبا بیس سال تک وابستہ رہے۔ آپ اردو، فارسی، عربی اور ترکی کے علاوہ انگریزی، فرانسیسی، جرمن ، اور اطالوی زبان پر بھی عبور رکھتے تھے۔ آپ کی کتابوں اور مقالات کی تعداد سینکڑوں میں ہے جس میں فرانسیسی زبان میں آپ کا ترجمہ قران ، اور اسی زبان میں‌دو جلدوں میں سیرت پاک ، قران کی بیبلیوگرافی ‘القران فی کل اللسان’ کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی زندگی پر محققانہ تصانیف ‘بیٹل فیلڈز محمد صلی اللہ علیہ وسلم ‘ ، ‘مسلم کنڈکٹ آف اسٹیٹ’ اور ‘فرسٹ رٹن کانسٹیٹیوشن’ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

ڈاکٹر صاحب کی تحریر کی خوبی آپ کا آسان، عام فہم اور دعوتی انداز بیاں ہے۔ آپ کی تحریروں میں عالمانہ انکسار اور افہام و تفہیم کا جز جگہ جگہ نظر آتا ہے۔ آپ تحقیق کا نچوڑ اور متقابل قاری کے سامنے رکھ دیتے ہیں اور اپنی راے بیان کر کے قاری کو اپنی راے متعین کرتنے کا موقع دیتے ہیں۔ یہ انداز جدید دور کے قاری کے لئے نہایت متاثر کن ہے۔ آپ کی عمر کا ہر لمحہ علمی تحقیق اور طلب علم میں‌گذرا ۔ 17 دسمبر 2002 کو اسلام کا یہ فرزند اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔ فرانس میں‌قیام کے دوران ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کا اشتیاق رہا لیکن شومی قسمت سے وہ جب تک صحت کی خرابی کی وجہ سےامریکہ منتقل ہو چکے تھے۔ اب جیکسن ول فلارڈا میں‌ہارڈیج گنز فیونرل ہومز میں منوںمٹی کے نیچے آرام فرما ہیں اور آپکا صدقہ جاریہ، کتابیں اور تحقیقی مقالہ جات دین کے طالبعلموں‌کے لئے زاد راہ ہیں۔

خطبات بہاولپور آپ کے مارچ 1980 میں جامعہ اسلامیہ بہاولپور میں‌ دئے جانے والے لیکچرز کی جمع کردہ کتابی شکل ہے۔ ان تیرہ عدد خطبات میں مندرجہ زیل موضوعات پر گفتگو کی گئی ہے۔ تاریخ قران مجید، تاریخ حدیث شریف، تاریخ فقہ، تاریخ اصول فقہ و اجتہاد، قانون بین الممالک، دین عقائد عبادات تصوف، مملکت اور نظم و نسق، نظام دفاع اور غزوات، نظام تعلیم اور سرپرستی علوم، نظام تشریع و عدلیہ، نظام مالیہ و تقویم، تبلیغ اسلام اور غیر مسلموں سے برتاو۔ یہ کتاب عام فہم انداز میں تحریر کردہ ہے لیکن موجودہ دور کے کئی پیچیدہ سوالوں کے عام فہم اور با معنی جوابات کے لئے اس کا مطالعہ نہایت اکثیر ہے اور اس میں ہمارے لئے فروعات سے نکل کر اصول کی پیروی کرنے کے لئے بہت خوب نصیحت ہے۔ ذیل لنک میں انکا خطبہ تاریخ حدیث پیش کیا جارہا ہے۔

تاریخ حدیث

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

محترم وائس چانسلر صاحب محترم اساتذہ کرام! برادران و ہمشیر گان!

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!

جیسا کہ ابھی اعلان کیا گیا آج کی تقریر کا موضوع تاریخ حدیث ہے۔ قرآن مجید کے بعد حدیث کا ذکر ناگزیر ہے، اس لیے کہ یہی دو چیزیں ہیں جو اسلام کا محور ہیں۔ شاید یہ نامناسب نہ ہوگا اگر میں شروع ہی میں تاریخ کے اس پہلو پر نظر ڈالوں کی حدیث کی اہمیت کیا ہے اور یہ کہ حدیث اور قرآن کا ایک دوسرے کے ساتھ کس قسم کا تعلق ہے؟ ظاہر ہے کہ قرآن مجید میں اور کچھ نہیں تو دس پندرہ جگہ صراحت کے ساتھ مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات مانو مثلاً “ماآتاکم الرسول فخذوہ ومانھکم عنہ فانتھوا” (جو تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دے دیں اسے لے لو اور جس سے وہ تمہیں منع کریں اس سے رک جاؤ۔ 7:59) اس سے بھی زیادہ زوردار صراحت کے ساتھ ایک اور آیت ہے: “من یطع الرسول فقد اطاع اللہ” (جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتا ہے وہ گویا خدا کی اطاعت کرتا ہے۔ 80:4) تو یہ آیت نیز اس طرح کی دوسری آیتیں ہمیں بتاتی ہیں کہ قرآنی تصور میں حدیث کوئ کم درجے کی چیز نہیں بلکہ ایک لحاظ سے اس کا درجہ قرآن کے برابر ہی ہے۔ فرض کیجئے کہ ایک سفیر کسی بادشاہ کی طرف سے دوسرے بادشاہ کے پاس ایک خط لے کر جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ خط میں زیادہ تفصیلیں نہیں ہوں گی لیکن جس مسئلے کے لیے سفیر بھیجا جاتا ہے اس مسئلے پر جب گفتگو ہوگی تو سفیر کا بیان کیا ہوا ہر ہر لفظ بھیجنے والے بادشاہ ہی کا پیغام سمجھا جائے گا۔ اس مثال کے بیان کرنے سے میرا منشاء یہ ہے کہ حقیقت میں حدیث اور قرآن ایک ہی چیز ہیں دونوں کا درجہ بالکل مساوی ہے۔ ایک مثال سے میرا مفہوم آپ پر زیادہ واضح ہوگا۔ فرض کیجئے کہ آج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہوں اور ہم میں سے کوئ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر اسلام قبول کرنے کا اعلان کرے اور اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہوکر یہ جاہل شخص اگر کہے کہ یہ تو قرآن ہے خدا کا کلام، میں اسے مانتا ہوں مگر یہ آپ کا کلام ہے اور حدیث ہے یہ میرے لیے واجب التعمیل نہیں ہے، تو اس کانتیجہ یہ ہوگا کہ فوراً ہی اس شخص کو امت سے خارج قرار دے دیا جائے گا اور غالباً اگر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہاں پر موجود ہوں تو اپنی تلوار کھینج کر کہیں گے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اجازت دیجئے کہ میں اس کافر و مرتد کا سر قلم کردوں۔ غرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں یہ کہنا کہ یہ آپ کی نجی بات ہے اور مجھ پر واجب العمل نہیں ہے گویا ایک ایسا جملہ ہے جو اسلام سے منحرف ہونے کا مترادف سمجھا جائے گا۔ اس لحاظ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو بھی ہمیں حکم دیں اس کی حیثیت بالکل وہی ہے جو اللہ کے حکم کی ہے۔ فرق دونوں میں جو کچھ ہے وہ اس وجہ سے پیدا ہوا ہے کہ قرآن مجید کی تدوین اور قرآن مجید کا تحفظ ایک طرح سے عمل میں آیا ہے اور حدیث کی تدوین اور حدیث کا تحفظ دوسری طرح سے۔ اس لیے تحقیق اور ثبوت کا مسئلہ پیدا ہوجاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں تو ثبوت کا کوئ سوال نہیں تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے جو بھی ارشاد ہوا وہ یقینی طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم تھا۔ لیکن بعد کے زمانے میں یہ بات نہیں رہتی۔ میں ایک حدیث سن کر آپ سے بیان کرتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو بالکل سچے ہیں لیکن میں جھوٹا ہوسکتا ہوں۔ مجھ میں انسانی کمزوری کی وجہ سے خامیاں ہوں گی۔ ممکن ہے میرا حافظہ مجھے دھوکہ دے رہا ہو۔ ممکن ہے مجھے غلط فہمی ہوئ ہو۔ ممکن ہے میں نے غلط سنا ہو۔ کسی وجہ سے مثلاً دھیان کم ہوجانے کی وجہ سے یا کوئ چیز حرکت میں تھی اس کے شور کی وجہ سے میں نے کوئ لفظ نہیں سنا تو خلط مبحث پیدا ہوگیا۔ غرض مختلف وجوہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حدیث یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کا دوسروں تک ابلاغ اتنا یقینی نہیں رہتا جتنا قرآن کا یقینی ہے۔ قرآن مجید کو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نگرانی میں مدون کرایا اور اس کے تحفظ کے لیے وہ تدبیریں اختیار کیں جو اس سے پہلے کسی پیغمبر نے نہیں کی تھیں یا کم از کم تاریخ میں ہمیں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ مگر حدیث کے متعلق یہ صورت پیش نہیں آئ اور اس کی وجہ ممکن ہے رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائل مبارکہ کا یہ پہلو بھی ہو کہ آپ میں تواضع بہت تھی۔ اپنے آپ کو محض انسان سمجھتے تھے۔ (انما انا بشر مثلکم) یہ خیال آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر زیادہ غالب رہتا تھا، بہ نسبت اس خیال کے کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ شاید یہ تصور رہا یا کوئ اور، بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث کی تدوین پر وہ توجہ نہ فرمائ جو قرآن مجید کے متعلق رہی۔ اس کی وجہ ایک اور بھی ہے جو بہت اہم ہے اور وہ یہ کہ قرآن کریم میں (وما ینطق عن الھوی۔ ان ھوا الاوحی یوحی 4,3:53) کے ذریعے سے یہ واضح کیا گیا کہ جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم سے بیان کرتے ہیں وہ اپنی خواہش سے نہیں کرتے بلکہ وہ اللہ کی وحی کردہ چیز ہوتی ہے۔ اس طرح ہمیں یقین دلایا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو بھی بیان کرتے ہیں وہ خدا کی وحی پر مبنی ہوتا ہے۔ جب وحی آتی آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں غلطی نہیں کرتے اسے من و عن پہنچاتے ہیں لیکن اگر وحی نہ آئے تو انتظار کرتے ہیں۔ کیونکہ وحی پیغمبر کے اختیار میں نہیں۔ جب خدا چاہتا ہے وحی کرتا ہے اور جب نہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سوائے انتظار کے کوئ چارہ نہیں ہوتا اور وہ اپنی طرف سے کچھ کہہ کر من گھڑت طور سے اپنی بات کو وحی قرار نہیں دے سکتے۔ ہمیں حدیث میں ایسی کافی مثالیں ملتی ہیں جن سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ بعض دنیوی معاملات میں آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مشورہ بھی فرماتے تھے۔ مثال کے طور پر ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ احکام دیے۔ صحابہ نے کہا کہ کیا یہ وحی پر مشتمل ہیں۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ اگو وحی پر مشتمل ہوتے تو میں تم سے مشورہ نہ کرتا۔ ایک دوسری حدیث بہت دلچسپ ہے جو کھجور کے درختوں کے متعلق ہے۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے اور وہاں دیکھا کہ نر درختوں کے پھول مادہ پھول کے اندر ڈالے جاتے ہیں گویا اس عمل کی وجہ سے کھجور پیدا ہوتی ہے۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت میں جو حیا تھی اس کی بناء پر آپ کو یہ عمل پسند نہیں آیا اور کہا کہ نر اور مادہ کا تعلق پیدا کرنا درختوں میں مناسب نہیں ہے، بہتر ہے کہ تم یہ نہ کرو۔ لوگوں نے جب اس حکم پر عمل کیا تو کھجور کی پیداوار اس سال بہت خراب گئ۔ سب لوگ آئے اورعرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے اس سال بیج ڈالنے (Pollination) کا عمل نہیں کیا جس کی وجہ سے کھجور کی پیدا وار نہیں ہوئ اس پر (ترمذی شریف وغیرہ کی حدیثوں کے مطابق) آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب یہ تھا “انتم اعلم بامورر ادنیا کم” (تم اپنے دنیاوی یمعاملات کو میرے مقابلے میں بہتر جانتے ہو) اس مثال سے یہ ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئ چیز وحی کے تحت بیان کریں تو اس کی حیثیت قرآن کے مطابق ہوگی۔ لیکن کوئ بات اپنی طرف سے بیان کریں تو وہ ایک ذہین، ایک فہیم انسان کا بیان ہوگا لیکن خدائ وحی نہیں ہوگی، انسانی چیز ہوگی اور انسانی چیز میں خامیاں ہوسکتی ہیں۔ چنانچہ حدیثوں میں اس کا ذکر آتا ہے کہ کبھی کبھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بجائے چار رکعت کے تین ہی رکعت کے بعد سلام پھیر لیا، یا یہ کہ بجائے دو کے تین رکعتیں پڑھ لیں، سہو ہوگیا تو یہ انسانی بھول چوک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ممکن ہے اور ایسا مصلحت الٰہی کے تحت واقع ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا نے اسوہ حسنہ قرار دیا ہے۔ کوئ رسول اسوہ حسنہ اور کامل نمونہ اس وقت ہوسکتا ہے جب وہ انسانی دائرے میں رہے۔ یعنی وہ ایسا ہی کام کرے جسے اور انسان بھی کرسکتے ہیں۔ اس کے بر خلاف اگر رسول “فوق البشر” بن جائے تو ہمارے لیے اسوہ حسنہ نہیں رہے گا۔ اس لیے ایسی مثالیں پیش آتی ہیں کہ فجر کی نماز کا وقت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سورہے ہیں، بیدار نہیں ہوتے جب سورج طلوع ہوتا ہے تو سورج کی کرنوں کی گرمی اور جلن سے بیدار ہوتے ہیں یا جیسا کہ میں نے بیان کیا، کبھی نماز پڑھنے میں رکعتوں کی تعداد میں سہو فرماتے ہیں، یا اسی طرح کی چیزیں پیش آتی ہیں جن کا حکمت الٰہی کے تحت منشاء اور غرض و غایت یہ ہوتی ہے کہ ہمیں یقین دلایا جائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی انسان ہی ہیں۔ وہ جو کام کرتے رہے اس کے متعلق کبھی یہ خیال نہ کرنا چاہیے کہ ہم نہیں کرسکتے بلکہ ہم بھی چاہیں تو کرسکتے ہیں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں یاد رہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہمیشہ طرز عمل یہ رہا کہ ایسے کام نہ کریں جو امت کی طاقت سے بالاتر اور ان کی استطاعت سے باہر ہوں۔ مثال کے طور پر “وصال” نامی روزے کا میں آپ سے ذکر کروں گا۔ “وصال” کے معنی یہ ہیں کہ چوبیس گھنٹے کی جگہ اڑتالیس گھنٹے کا روزہ رکھا جائے۔ اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شدت سے منع فرماتے تھے اور کہتے تھے کہ چوبیس گھنٹے کا بھی روزہ نہ رکھو بلکہ سحری کرو، اور اس پر بہت زور دیتے تھے۔ ایک مرتبہ صحابہ نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ تو ہمیں حکم دیتے ہیں یوں کرو مگر خود آپ کا طرز عمل اس کے برخلاف ہے۔ ہم بھی ویسا ہی کرنا چاہتے ہیں، تو حدیث میں ایک دلچسپ ذکر آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا اچھا کوشش کرکے دیکھو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چوبیس گھنٹے روزہ رکھا، افطار نہیں کیا اسے اور بڑھایا اور اڑتالیس گھنٹے گزرے، اب لوگوں کو شدید پریشانی ہوئ۔ حسن اتفاق سے شوال کا چاند 29 تاریخ کو نظر نہ آتا تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم شاید 72 گھنٹے کا روزہ رکھتے پھر ان لوگوں کو پتہ چلتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقلید کرنے کی جو تم خواہش رکھتے ہو وہ تمہارے لیے مناسب نہیں ہے۔ امت کے لیے مصلحت یہی ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر عمل کریں، یہ نہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تقلید میں وہ کام کرنا چاہیں جو ان کے بس کی چیز نہیں۔ ممکن ہے کوئ ایک شخص ایسا کرسکے لیکن عوام الناس ضعیف اور کمزور لوگ ہوتے ہیں وہ ایسا نہیں کرسکتے۔ غرض حدیث کی اہمیت قرآن کی اہمیت سے کسی طرح کم نہیں۔ اگر ان دونوں میں فرق ہے تو اس قدر کہ حدیث کا ثبوت ہمیں اس طرح کا نہیں ملتا جس طرح قرآن کے متعلق ملتا ہے کہ متواتر چودہ سو سال سے اس کے ایک ایک لفظ، ایک ایک نقطے اور ایک ایک شوشے کے متعلق ہمیں کامل یقین ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کا جو قرآن تھا وہی اب بھی باقی ہے۔ حدیث کے متعلق ایسا نہیں ہوا۔

اس تمہید کے بعد میں آپ سے یہ عرض کروں گا کہ قرآن کی مماثل چیزیں اور قوموں میں بھی ملتی ہیں، مثلا یہودیوں کے ہاں توریت اللہ کی نازل کردہ کتاب ہے یا مثلاً اور قوموں کی طرف خدا کی بھیجی ہوئ کتابیں ہیں، تو قرآن کے مماثل الہامی کتابوں کی مثالیں ہمیں ملتی ہیں، لیکن حدیث کی مماثل چیزیں دیگر قوموں میں مجھے نظر نہیں آتیں۔ بدھ مت میں ایسی چیز موجود ہے مگر اس کی اہمیت وہ نہیں ہے جو ہمارے ہاں حدیث کی ہے۔ بدھ مت کی اساسی اور بنیادی کتاب اسی قسم کی ہے جیسے ہمارے ہاں ملفوظات کے نام سے مشہور مجموعے ہیں جن میں کسی ولی، کسی بزرگ یا کسی مرشد کے اقوال کو ان کے مریدوں میں سے کسی نے قلم بند کیا ہے۔ گوتم بدھ کے ملفوظات بھی صرف ایک شخص کے جمع کردہ ہیں لیکن حدیث کے مماثل کوئ ایسی چیز نہیں ملتی کہ بہت سے اہل ایمان اپنے مشاہدات اور اپنے محسوسات کو جمع کرکے بعد والوں تک پہنچانے کی کوشش کریں، جیسا کہ حدیث کے مجموعوں میں کوشش کی گئ ہے۔ یہ بات دوسروں کے ہاں مفقود ہے۔ گویا حدیث ایک ایسا علم ہے اور حدیث کے مندرجات ایسی چیزیں ہیں جن کے مماثل کوئ اور چیز دوسرے مذاہب میں ہمیں نظر نہیں آتی ان حالات میں تقابلی مطالعے کا امکان باقی نہیں رہتا لہٰذا براہ راست رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کی تاریخ ہی پر اکتفا کرنا پڑے گا۔

حدیث کے سلسلے میں اولاً چند اصطلاحوں کا بیان کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ ایک لفظ حدیث ہے اور ایک لفظ سنت، اب یہ دونوں تقریباً مترادف الفاظ سمجھے جاتے ہیں۔ حدیث سے مراد وہی ہے جو سنت کا مفہوم ہے۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کردہ چیزیں، رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کردہ امور جن کا تذکرہ کسی مشاہدہ کرنے والے کی طرف سے ہوکہ میں نے دیکھا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہا یا یوں کیا اور تیسرے وہ امور جنہیں ہمارے مؤلفین “تقریر” کی اصطلاح سے تعبیر کرتے ہیں۔ یعنی وہ امور جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے برقرار رکھا اور اس سے مراد یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کسی صحابی کو کوئ کام کرتے ہوئے دیکھا اور اسے منع نہ کیا یا خاموش رہے، تو گویا اپنی خاموشی سے آپ نے اس عمل کو برقرار رکھا۔ یعنی آپ کے سکوت سے بھی اسلامی قانون بن جاتا ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فریضہ ہے کہ وہ کسی برائ کو دیکھیں تو “نہی عن المنکر” کریں یعنی اپنے صحابی کے کسی ایسے فعل کو جو اسلام کے مطابق نہیں ہے آپ معاف تو کردیں گے کہ اس صحابی نے غفلت سے یا ناواقفیت سے کیا ہے لیکن اسے روکیں گے ضرور کہ آئندہ ایسا نہ کرے۔ مختصر یہ کہ حدیث سے متعلق تین چیزیں پائ جاتی ہیں، ایک رسول اللہ کا قول، دوسرا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل، تیسرا رسول اللہ کا کسی دوسرے کے قول و فعل کو برقرار رکھنا یعنی اصطلاحی طور پر رسول اللہ کی “تقریر” پہلی دو اصطلاحو یعنی حدیث اور سنت میں اب تو کوئ فرق نہیں لیکن ابتدا میں فرق تھا۔ حدیث کے معنی بولنا یعنی قول اور سنت کے معنی ہیں طرز عمل۔ اب گویا قول اور فعل دونوں ایک ہی طرح کی چیزیں ہوگئ ہیں کیونکہ بارہا صحابہ کی نقل کردہ روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول بھی ہوتا ہے اور رسول اللہ کا عمل بھی مگر اس کے لیے حدیث کو حدیث اور سنت میں تقسیم کرکے ان کو الگ الگ کرکے جمع کرنا ناممکن بات تھی۔ اس لیے کثرت استعمال سے حدیث سے مراد قول بھی ہے اور عمل بھی۔ اسی طرح سنت سے مراد قول بھی ہے اور عمل بھی۔ اب عملاً ان میں کوئ فرق باقی نہیں ہے، جہاں تک میرے علم میں ہے۔

حدیث اور قرآن کے مابین ایک تیسری چیز بھی آتی ہے اس سے بھی واقفیت ہوجانی چاہیے۔ اگر چہ اس میں اور حدیث میں کوئ بڑا فرق نہیں ہے، لیکن ایک حد تک فرق ضرور ہے وہ چیز ہے حدیث قدسی۔ حدیث قدسی کے معنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کردہ وہ حدیث جس کے شروع میں یہ الفاظ آتے ہیں “اللہ کہتا ہے کہ ۔۔۔ فلاں فلاں” یوں ہم کہہ سکتے ہیں۔ حدیث ساری ہی اللہ کے الہام پر مبنی ہے کیونکہ یہ (وما ینطق عن الھوی ان ھوالا وحی یوحی 4,3:53) کی آیت کے مطابق ہے۔ لیکن اگر حدیث میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صراحت فرمائیں کہ “اللہ کہتا ہے کہ فلاں چیز تو اس کو ہمارے مؤلف ایک مستقل درجے میں رکھتے ہیں اور اسے “حدیث قدسی” کا نام دیتے ہیں البتہ اس کی روایت اس کا ایک دور سے دوسرے دور تک منتقل ہونا بالکل اسی طرح ہوا جس طرح عام حدیثوں کا ہے۔ ہم ان میں کوئ فرق نہیں پاتے ہیں۔ ایسی حدیث کی ابتدا عموماً اس طرح ہوتی ہے کہ “اللہ” ضمیر متکلم کے ذریعے سے ایک امر ذکر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں ایسا کروں گا تو خدا خود کلام کرتا ہے اور اس کو رسول اللہ ہم تک پہنچاتے ہیں۔ اس موضوع پر قدیم زمانے ہی سے متعدد مؤلفوں نے کتابیں لکھی ہیں جو ہم تک پہنچی ہیں۔ بعض چھپ بھی گئی ہیں اور بعض ممکن ہے ابھی تک قلمی حالت میں موجود ہوں۔ اس موقع پر آپ کی دلچسپی کے لیے ایک واقعہ سناتا ہوں۔ پیرس میں ایک نومسلم لڑکی آج کل اس موضوع پر اپنے ڈاکٹریٹ کا مقالہ تیار کررہی ہے اس لڑکی کا نام عائشہ ہے یہ بہت ذہین لڑکی ہے۔ دوسال ہوئے اس نے عربی شروع کی اور اب اس درجہ کی اسے عربی آگئ ہے کہ ریاض الصالحین نامی سات آٹھ سو صفحوں کی ضخیم کتاب کا ترجمہ عربی سے اس نے فرنچ میں کرڈالا ہے اور اب ایک مقالہ لکھ رہی ہے اس موضوع پر کہ “حدیث قدسی کیا ہے” اور ایسی حدیثوں کے اندر کیا کیا چیزیں ملتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اس میں ہر چیز حدیث قدسی کے موضوع کی تشریح کے ساتھ ساتھ آئے گی۔ حدیث قدسی کے دو چار رسالے جو دستیاب ہیں ان میں سے بھی بعض کا وہ ترجمہ کررہی ہے تاکہ مقالہ میں شامل کرسکے۔

حدیث کی دوبڑی قسمیں بیان کی جاسکتی ہیں ایک سرکاری مراسلے اور دوسرے صحابہ کا اپنے طور پر مراسلے یا سرکاری تحریریں۔ ہجرت سے پہلے ہی ہمیں چند چیزوں کا پتہ چلتا ہے مثلاً آپ واقف ہیں کہ تقریباً سنہ 5 نبوت میں ہجرت سے سات آٹھ سال پہلے مکے میں جب مشرکین مکہ نے مسلمانوں پر ظلم و ستم کیا تو کچھ لوگ رسول اللہ کے حکم اور اجازت سے حبشہ کو ہجرت کرگئے، اس سلسلے میں ایک دستاویز ہمیں ملتی ہے۔ ممکن ہے آپ میں سے بعض اس سے واقف بھی ہوں کہ اس کا ذکر سیرت کی کتابوں میں آتا ہے یہ ایک خط ہے جو رسول اللہ نے اپنے چچا زاد بھائ جعفر طیار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیا کہ یہ خط نجاشی کو جو حبشہ کا حکمران تھا پہنچادیں۔ اس کے آخر میں الفاظ یہ ہیں:

“میں اپنے چچا زاد بھائ جعفر کو تیرے پاس بھیج رہا ہوں اس کے ساتھ کچھ اور بھی مسلمان ہیں جب یہ تیرے پاس پہنچیں تو ان کی مہمانداری کرنا۔”

ظاہر ہے کہ خط پر تاریخ نہ ہونے کے باوجود یہ خط ہجرت حبشہ کے زمانے ہی کا ہوسکتا ہے۔ اسی طرح ہمیں اس زمانے کی ایک اور چیز ملتی ہے جو کافی دلچسپ کہی جاسکتی ہے۔ بعض لوگوں کو اس پر حیرت بھی ہوتی ہے۔ یہ تمیم داری کا واقعہ ہے۔ تمیم داری شام کے رہنے والے ایک عیسائ تھے۔ وہ مکہ آتے ہیں، اسلام قبول کرتے ہیں اور پھر اپنے قصے بھی بیان کرتے ہیں۔ وہ ایک جہاز ران تھے بہت سے بحری سفر کرچکے تھے۔ جن کا تفصیل کے ساتھ “صحیح مسلم” میں ذکر آیا ہے۔ تمیم داری نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہا کہ مجھے یقین ہے کہ آپ کی فوج بہت جلد میرے وطن یعنی شام کو فتح کرے گی جب یہ ہو تو مجھے فلاں فلاں گاؤں بطور جاگیر مرحمت فرمائیں۔ تاریخی کتابوں کے مطابق رسول اللہ نے ایک پروانہ لکھوایا اور اس کو دیا۔ اس کے الفظ یہ ہیں کہ اگر مرطوم، خبرون (اور چند گاؤں کے نام ہیں) وغیرہ فتح ہوجائیں تو تمیم داری کو دیے جائیں۔ غرض یہ بھی ہجرت مدینہ سے پہلے کی تحریری چیزوں میں ایک چیز کہی جاتی ہے۔ اسی طرح کچھ اور چیزیں ہمیں ملتی ہیں۔ دوسرا مختصر دور ہجرت کا وقت ہے۔ یعنی مکہ سے مدینہ کے سفر کے دس بارہ دن کا زمانہ۔ اس زمانے میں بھی ہمیں بعض تحریری چیزوں کا پتہ چلتا ہے۔ مثال کے طور پر سراقہ بن مالک کا واقعہ ہے کہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تعاقب کیا۔ چاہا کہ آپ کو گرفتار کرلے اور قریش کے ہاتھ حضور کو بیچ دے۔ کیونکہ قریش نے اعلان کیا تھا کہ جو محمد کو گرفتار کرے گا اسے اتنا انعام دیا جائے گا وغیرہ وغیرہ۔ اس اثناء میں کئ معجزات بھی پیش آئے۔ کہتے ہیں کہ آخر میں سراقہ نے معافی چاہی۔ رسول اللہ نے اسے معاف کیا تو اس پر اس نے درخواست کی کہ مجھے پروانہ امن دیا جائے۔ ہمارے راوی بیان کرتے ہیں کہ اس ہجرت کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دوات قلم اور کاغذ بھی موجود تھا اور حضور کے ہمراہیوں میں لکھنا پڑھنا جاننے والا ایک غلام بھی موجود تھا جس کا نام عامر بن فہیرہ تھا۔ چنانچہ اس کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے املا کروایا، جس میں سراقہ بن مالک کو رسول اللہ کی طرف سے امن اور پناہ دینے کا ذکر تھا۔ بعد میں سراقہ مسلمان ہوگیا اور جس وقت وہ ملسمان ہونے کے لیے آیا اس نے بتایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عطا کردہ پروانہ میرے پاس ہے، چنانچہ اس تحریر کی اساس پر صحابہ نے اسے قریب ہونے کا موقعہ دیا، باوجود ہجوم کے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ گیا اور گفتگو کی۔ اسے ہجرت کے زمانے کی تحریروں میں شامل کیا جائے گا۔ ایسی چیزیں زیادہ تو نہیں ہیں۔ غالباً ہجرت کے دوران کی یہ واحد مثال ہے۔ مگر جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ پہنچے تو اب سرکاری تحریروں کی تعداد روز بروز بڑھتی چلی گئ۔ ان میں کچھ سرکاری کاغذات ہیں اور کچھ تحریریں خالص پرائیویٹ قسم کی ہیں۔ بعض تحریریں ایسی ہیں جن کی کوئ توقع بھی نہیں ہوسکتی کہ ایسی چیزیں بھی اس زمانے میں پائ جاتی ہوں گی۔ مثلاً “صحیح بخاری” میں ہے کہ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ جتنے لوگ مسلمان ہوئے ہیں ان کے نام لکھو۔ چنانچہ مردم شماری کی گئ۔ صحیح بخاری کے مطابق اس فہرست میں پندرہ سو لکھے گئے۔ مردوں، عورتوں، بچوں، بوڑھوں سب کی تعدار پندرہ سو کی تعداد ایسی ہے کہ میرے خیال میں ہجرت سے عین بعد کی معلوم ہوتی ہے۔ فرض کیجئے کہ مکہ سے آئے ہوئے مہاجرین دو سو خاندان ہوں گے تو پانچ سو کے لگ بھگ افراد ہونے چاہئیں۔ اسی طرح اس میں مدینہ منورہ کے مسلمان بھی ہوں گے تو اس طرح پندرہ سو مسلانوں کا ہونا ہجرت کے ابتدائ سالوں کا واقعہ معلوم ہوتا ہے، بہت بعد کا نہیں۔ کیونکہ بعد میں مسلمانوں کی تعداد اتنی زیادہ ہوگئ کہ شمار نہیں کیا جاسکتا۔ مثلاً حجۃ الوداع میں ایک لاکھ چالیس ہزار حضرات فریضہ حج ادا کرنے کو آئے تھے تو پندرہ سو اور ایک لاکھ چالیس ہزار میں ظاہر ہے کوئ نسبت نہیں پائ جاتی۔ مردم شماری کے علاوہ ایک اور چیز بھی ملتی ہے جس کا تعلق غالباً سنہ ١ھ سے ہے اس کی بھی ہمیں کوئ توقع نہیں تھی۔ یہ بھی ایک عجیب و غریب چیز ہے۔ پہلے میں بتادوں کہ یہ ایک دستور مملکت ہے۔ اس کی ضرورت کیوں پیش آئ؟ جیسا کہ معلوم ہے کہ ہجرت کے موقع پر قریش کی اذیت کے باعث مکے کے مسلمان اور آخر میں خود رسول اللہ ہجرت کرکے مدینہ چلے آئے تھے۔ اب اگر قریش چپ رہتے تو شاید مسلمان جلدی ہی اپنی مصیبت، اپنی جائیداد کی تباہی، اپنے وطن سے بے وطنی وغیرہ کو بھی بھول جاتے اور نئے ملک اور نئے وطن میں نئی زندگی کا آغاز کرلیتے لیکن قریش مکہ نے ان کو چین لینے نہ دیا۔ قریشیوں کو یہ دیکھ کر کہ ان کے دشمن، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ہاتھ سے بچ کر چلے گئے ہیں، اتنی جلن ہوئ اور اتنا غصہ آیا کہ مدینہ والوں کو ایک خط لکھا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہمارا دشمن تمہارے ملک میں آیا ہے یا تو اس کو مارڈالوں یا اس کو اپنے ملک سے نکال دو، ورنہ ہم مناسب تدبیریں اختیار کریں گے۔ ظاہر ہے کہ مدینے کے مسلمان ان میں سے کسی بات کو قبول نہیں کرسکتے تھے۔ آخری دھمکی یا الٹی میٹم کہ ہم مناسب تدبیریں اختیار کریں گے، اگر کوئ حکمران جاہل یا غافل ہوتا تو اس کو غیر اہم چیز سمجھ کر نظر انداز کردیتا لیکن جس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسوہ حسنہ بننا تھا ان کے لیے ضروری تھا کہ اپنے بعد آنے والے حکمرانوں کو بتائیں کہ ان حالتوں میں کیا کرنا چاہیے، یعنی دشمن خاص کر قومی دشمن سے اپنے اور اپنی قوم کے مفادات کو محفوظ رکھنے کے لیے کیا تدابیر اختیار کرنا چاہئیں۔ چنانچہ آپ نے دو تین احتیاطی تدابیر اختیار فرمائیں پہلی تدبیر یہ تھی کہ جو لوگ ہجرت کرکے بے وطن ہوکر ایک نئے ملک میں آئے تھے اور جن کے پاس، ان کے بدن کے کپڑوں کے سوا، کوئ چیز نہ تھی، ان کی گزر بسر کا انتظام کیا۔ آپ لوگوں کو پاکستان میں مہاجرین کے مسائل کے پیش نظر اچھی طرح واقفیت ہے کہ یہ کتنا دشوار کام ہے۔ برسوں گزر جانے کے بعد بھی مہاجرین کی ساری گتھیاں، ساری دشواریاں حل نہیں ہوپائیں، اور پھر باوجود ان وافر وسائل کے جو موجودہ زمانے میں ہمارے پاس ہیں اور باوجود اس حقیقت کے کہ ہماری حکومت کی آمدنی کروڑوں روپے کی ہے، ہم مہاجرین کے مسائل آسانی سے حل نہیں کرسکے۔ پاکستان ہی میں نہیں، جرمنی وغیرہ جیسے بہت سے ممالک میں یہ واقعات پیش آئے ہیں اور ہر جگہ یہ ایک نہایت ہی دشوار اور پیچیدہ مسئلہ رہا ہے۔ جو لوگ مدینہ سے آئے تھے ان کی تعداد اگرچہ زیادہ نہیں تھی۔ شاید چند سو آدمی ہوں گے لیکن اس زمانے میں وسائل بہت کم تھے۔ ان چند سو آدمیوں کو ایک چھوٹی سی بستی میں مستقل گزر بسر کے وسائل فراہم کردینا آسان کام نہیں تھا۔ تقریباً اتنا ہی مشکل کام تھا جتنا کسی بڑے ملک میں آج کل مثلاً ایک ہزار کی جگہ ایک لاکھ یا دس لاکھ افراد کا آنا۔ تو ایسی ہی دشواری اس وقت پیدا ہوئ ہوگی۔ مگر اس مشکل کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سیاسی فراست سے ایک لمحے میں حل کرلیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہر مدینہ کے ان لوگوں کو بلایا جو نسبتاً خوشحال تھے اور ساتھ ہی مکی مہاجرین کے ان نمائندوں کو بھی بلایا جو اپنے اپنے خاندان کے سربراہ تھے۔ جب دونوں جمع ہوگئے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین کی سفارش کرتے ہوئے انصار سے خطاب فرمایا کہ یہ تمہارے بھائ ہیں، تمہارے ہی دین والے ہیں اور اس دین ہی کی خاطر اپنے وطن، اپنے ملک اور اپنی ہر چیز کو چھوڑ کر یہاں آئے ہیں۔ اس لیے تمہارا فریضہ ہے کہ ان کی مدد کرو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجویز کی کہ انصار میں سے ہر خاندان مکہ والوں کے ایک خاندان کو اپنے خاندان میں شامل کرلے۔ مواخاۃ یا بھائ چارہ کا مفہوم یہ نہیں کہ یہ کوئ طفیلی Parasite کے طور پر مفت خوری کرنے والے مہمانوں کی طرح رہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب بجائے چھوٹے خاندانوں کے بڑا خاندان ہوگا۔ بجائے دو آدمیوں کے چار آدمیوں کا خاندان ہوگا اور دونوں خاندان کام کریں گے۔ جب کام زیادہ کیا جائے گا تو آمدنی زیادہ ہوگی۔ آمدنی زیادہ ہوگی تو دونوں کی گزر بسر کا انتظام با آسانی ہوسکے گا۔ کوئ شخص کسی خاندان پر بار نہیں بنے گا۔ اس لیے سب ہی نے یہ تجویز بخوشی قبول کرلی۔ مواخات کے اس اصول کا یہ نتیجہ نکلا کہ کئ سو خاندان ایک لمحے میں گزر بسر کے انتظامات حاصل کرنے کے قابل ہوگئے اور پھر اس کے بعد کبھی یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوا کہ کون خوش حال ہے کون بے روزگار ہے، کون پناہ دہندہ ہے اور کون باہر سے آیا ہوا مہاجر ہے۔ اس اہم کام سے فارغ ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور امر کی طرف توجہ فرمائ وہ یہ کہ اس زمانے سے پہلے یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے پہلے مدینہ میں کوئ ریاست یا ممکلت نہیں پائ جاتی تھی۔ وہاں آبادی کا ایک گروہ تھا جو قبیلوں میں بٹا ہوا تھا۔ تقریباً بپچیس تیس قبیلے تھے اور ہر قبیلہ دوسرے قبیلیے سے اتنا ہی آزاد اور خود مختار تھا جتنا آج کل کی دنیا کی سلطنتیں ہوتی ہیں اور اس خودمختاری کا نتیجہ بھی وہی تھا جو آزاد مملکتوں میں ہوتا ہے یعنی آپس میں جنگ بھی ہوتی ہے۔ ہمارے مؤرخوں نے لکھا ہے کہ مدینے کے انصار درحقیقت دوبڑے قبیلوں میں بٹے ہوئے تھے (بلکہ دو بڑے گروہوں میں، اور ہر گروہ میں کئ قبیلے تھے) یعنی اوس اور خزرج۔ ان دونوں میں ایک سو بیس سال سے خانہ جنگیوں کا سلسلہ جاری تھا۔ ظاہر ہے کہ جب دو قبیلوں میں جنگ ہورہی ہو تو دونوں کی مشترکہ حکومت کا کوئ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مدینہ میں ان عربوں کے علاوہ اور بھی لوگ آباد تھے۔ مثلاً یہودیوں کے قبائل وہاں تھے۔ ان کی کئ ہزار کی آبادی تھی تخمیناً نصف آبادی یہودیوں پر مشتمل تھی اور نصف آبادی عربوں پر۔ یہودیوں کے علاوہ کچھ عیسائ بھی تھے جن کی صحیح تعداد معلوم نہیں۔ ایک روایت میں پندرہ، ایک روایت میں پچاس کا ذکر ملتا ہے اور یہ قبیلہ اوس کے اندر تھے۔

بہر حال اس آبادی میں جس میں یکجہتی نہیں پائ جاتی تھی، ایسا انتظام کرنا کہ سب کی مشترکہ حکومت قائم ہو یہ بظاہر خیال و خواب کی بات معلوم ہوتی ہے۔ مگر اس کی ضرورت تھی، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین کی مواخات کے ذریعے سے گزر بسر کا انتظام کرنے کے بعد جو کام کیا وہ یہ تھا کہ ان سارے گروہوں کے نمائندوں کو اپنے پاس بلایا، مسلمان بھی یہودی بھی، صحیح بخاری میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میرے والد کے مکان پر یہ اجتماع ہوا۔ اس میں یہودیوں کے نمائندے بھی تھے، عربوں کے بھی۔ عربوں میں اوس کے نمائندے بھی تھے، خزرج کے بھی۔ اسلام قبول کرنے والے اوس اور خزرج کے نمائندہ بھی اور وہ بھی جو تاحال مسلمان نہیں ہوئے تھے، اور مہاجرین کے نمائندے بھی تھے۔ ان سب کو جمع کیا اور ان سے مخاطب ہوکر غالباً یہ فرمایا (کیونکہ صراحت نہیں ملتی کہ اجتماع میں کیا چیز شروع میں پیش آئ) کہ آپ اس وقت مختلف قبیلوں میں بٹے ہوئے ہیں اور بالکل ایک دوسرے سے آزاد ہیں اور نتیجہ یہ ہے کہ اگر ایک قبیلہ پر اس کا دشمن باہر سے حملہ آور ہوتا ہے تو باقی سب لوگ غیر جانبدار رہتے ہیں اور اس قبیلہ کو دشمن کی مجموعی قوت سے تنہا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ اسے شکست ہو۔ پھر کچھ دنوں کے بعد دوسرے قبیلے پر کوئ بیرونی دشمن حملہ آور ہو اور اسی طرح تیسرے اور چوتھے پر تو نتیجہ یہی ہوگا کہ رفتہ رفتہ دشمنوں کے ہاتھوں سب ختم ہوجاؤ گے۔ اس لیے، کیا یہ مناسب نہیں کہ تم سب قبیلے اپنی ایک مشترکہ حکومت قائم کرو تاکہ تمہاری مشترکہ حکومت کے باعث دشمن کو بھی یہ خوف ہو کہ ہمارا ایک دشمن نہیں، بلکہ بہت سے قبیلے وہاں موجود ہیں وہ سب ہمارا مقابلہ کریں گے اور ہم اپنی تنہا قوت پر اس سارے شہر مدینہ کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ یہ ایک مشترکہ معاہدہ ہے جو دشمنوں سے تمہارے تحفظ ، تمہارے معاشی اور مالی فوائد کا ضامن ہوگا۔ تجویز معقول تھی اس لیے سبھوں نے یا کم از کم اکثر قبیلوں نے قبول کرلیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اکثر کا لفظ صحیح ہے کیونکہ اس واقعہ کا ذکر ملتا ہے کہ اوس کے چار قبیلے شروع میں اس میں شریک نہیں تھے۔

بہر حال اہل مدینہ کے اجتماع کا مقصد صرف یہی نہ تھا جو میں نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہوگا کہ تمہاری مشترکہ قوت تم سب کی حفاظت کا باعث ہوگی۔ بلکہ ایک اور چیز بھی تھی جس کو ہم اس دستور کے اندر دیکھتے ہیں اور جس پر سب نے اتفاق کیا، وہ یہ کہ ہر قبیلے کو بہت سے امور میں حسب سابق کامل آزادی رہے گی صرف چند چیزوں کے متعلق یہ وضاحت کی گئ کہ وہ بجائے انفرادی کے مشترکہ ہوں گی اور مرکزی حکومت سے متعلق رہیں گی۔ ان مرکزی امور میں سے ایک عسکری مسئلہ بھی تھا یعنی جنگ۔ اجنبیوں سے جنگ کرنا اور صلح کرنا ناقابل تقسیم قرار دیا گیا یعنی یہ نہ ہوگا کہ جنگ صرف ایک قبیلہ سے ہو اور صلح صرف ایک قبیلہ سے ہو اور باقی لوگ اس میں شریک نہ ہوں بلکہ آئندہ سے صلح اور جنگ ناقابل تقسیم، ایک مشترکہ مسئلہ سمجھی جائے گی۔ اسی طرح انشورنس (یعنی بیمہ زندگی) کا ایک انتظام کیا گیا جس کی تفصیل میں آگے بیان کروں گا۔ یہ سب گویا مشترکہ امور قرار پائے۔

عدالت کے متعلق ایک حد تک قبائلی نظام برقرار رکھا گیا لیکن اگر فریقین مقدمہ دو مختلف قبیلوں کے ہوں تو مرکز سے رجوع کرنا ہوگا، اپیل کورٹ کو (اگر ہم ایسا کہہ سکیں) مشترکہ قرار دیا گیا، یعنی جھگڑوں کے آخری فیصلے کے لیے شہر کے حکمران سے رجوع کیا جائے گا۔ اسی طرح اس میں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ مذہبی آزادی ہوگی۔ یہود کے لیے یہود کا دین رہے گا، مسلمانوں کے لیے مسلمانوں کا دین، دین میں مذہب، قانون اور عدل گستری سب داخل سمجھے گئے، وغیرہ وغیرہ۔ ایک دستاویز مرتب کی گئ جو ہم تک لفظ بہ لفظ پہنچی ہے اور اس کی 52 دفعات ہیں ان میں تفصیل بتائ گئ ہے کہ کیا کام انجام دینے چاہئیں۔ میں کہہ سکتا ہوں کہ یہ اس وقت کی اسلامی مملکت کا تحریری دستور تھا۔

ابھی میں نے اشارتاً کہا کہ اس میں کچھ انشورنس کا بھی ذکر ہے۔ یہ ایک عجیب و غریب شے ہے۔ قدیم زمانے میں وہ ضرورتیں جو آج پائ جاتی ہیں نہیں پائ جاتی تھی، اس زمانے کی جو ضرورتیں تھیں وہ آج کل ہمارے لیے بے سود نظر آتی ہیں۔ قدیم زمانے میں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں، مدینہ منورہ میں دو مسئلے بہت اہم تھے۔ ایک یہ کہ اگر کوئ شخص غلطی سے (یعنی عمداً نہیں) کسی شخص کے قتل کا مرتکب ہوتا تو اسے خون بہا دینا پڑتا تھا۔ خون بہا کی رقم رواج و قانون کے مطابق اتنی زیادہ تھی کہ عملاً ساری آبادی میں سے ایک آدھ شخص ہی اس کو ادا کرسکتا تھا۔ دوسرے لوگوں کے لیے وہ ناممکن سی بات تھی، یعنی ایک سو اونٹ کی قیمت کا اندازہ یوں کیجئے کہ ایک اونٹ سو آدمیوں کے لیے دن بھر کی پوری غذا کا کام دیتا ہے۔ اس حساب سے سو اونٹ کے معنی ہوئے دس ہزار دن تک ایک شخص کو غذا مہیا کرنا۔ یہ ہوتا تھا خون بہا۔ اتنی بڑی رقم دینا اتنا بڑا خون بہا ادا کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہ تھی۔ سوائے مال دار سردار قبیلے کے کسی اور شخص کے لیے یہ ناممکن تھا۔ لیکن یہ واقعات روز مرہ پیش آتے تھے اس کے لیے اجتماعی انشورنس کا انتظام کیا گیا یعنی ایک قاتل ہی اس کا ذمہ دار نہ ہوگا بلکہ پوری انشورنس کمپنی اس کی ذمہ داری قبول کرے گی اور اس کی طرف سے خون بہا ادا کرے گی۔ دوسری چیز جس کی اس زمانے میں ضرورت تھی اور آج ہمارے عہد میں اس کی ضرورت عملاً نظر نہیں آتی وہ یہ ہے کہ کسی شخص کو دشمن گرفتار کر کے قید کرلے تو وہ فدیہ دے کر اپنی آزادی حاصل کرتا تھا۔ یہ فدیہ بھی بہت گراں تھا یعنی سواونٹ فدیہ دینا ہوتا تھا۔ کوئ غریب شخص گرفتار کرلیا جاتا تو اس کی رہائ کی کوئ صورت نہ ہوتی تھی۔ وہ عملاً اپنے دشمن کا غلام بن جاتا۔ ایسے وقت میں انشورنس کمپنی کام دیتی۔ اس کی طرف سے ذمہ داری قبول کرتی اور فدیہ ادا کرتی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ انتظام کیا کہ مدینہ منورہ میں ہر ہر قبیلے میں ایک انشورنس یونٹ قائم ہوا اور یہ کہا کہ تمہارے قبیلے کے کسی آدمی کو قتل یا گرفتاری کے سلسلے میں رقم اداکرنی ہو اور وہ شخص ادا نہ کرسکے تو یہ انشورنس یونٹ ادا کرے گی اور اگر کسی یونٹ کے پاس اتنی گنجائش نہ ہوتو حکم تھا کہ اس کی قریبی محلے کی انشورنس یونٹ جو ہے اس کے ساتھ تعاون کرکے رقم ادا کرے اور اگر اس کے پاس بھی نہ ہوتو دوسری یونٹ سے انتظام کیا جائے۔ جب ساری آبادی کی انشورنس یونٹیں بھی بار نہ اٹھاسکیں تو ایسی صورت میں مرکزی حکومت بھی مدد کرے گی۔ یہ ایک خاص نظام تھا جو مدینہ منورہ میں قائم کیا اور اس دستور کے اندر ضبط تحریر میں لے لیا گیا۔ غرض سرکاری طور پر حدیث کے لکھوانے کی ایک مثال یہ دستور مملکت مدینہ کی دستاویز بھی ہے۔ ان ابتدائ کاموں میں ایک اور چیز یہ ہے کہ جب مہاجرین کی بسر و بود کا انتظام مواخات کے ذریعے کردیا گیا اور اس کے بعد شہری مملکت وجود میں آگئ یعنی ایسی مملکت جس کا رقبہ صرف ایک شہر تھا اور اس کے اندر عدالت اور قانون غرض ساری چیزوں کا انتظام کردیا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی پر اکتفا نہیں فرماتے ہیں، آپ مکہ کے الٹی میٹم کے جواب میں ایک اقدام فرماتے ہیں وہ اقدام یہ تھا، کہ مدینہ منورہ کے اطراف کا آپ دورہ شروع کردیتے ہیں۔ مثلاً شمال کی طرف جاتے ہیں وہاں کے قبیلوں سے کہتے ہیں تم اس وقت ایک آزاد قبیلہ ہو اور خودمختار ہو، لیکن دشمن سے مقابلہ ہوتو تنہا ہوگے۔ کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ ہم دونوں میں ایک حلیفی معاہدہ ہوجائے۔ تم پر کوئ دشمن حملہ کرے تو ہم تمہاری مدد کو دوڑیں گے، اگر ہم پر کوئ دشمن حملہ کرے اور ہم تمہیں بلائیں تو تم بھی ہماری مدد کو آنا۔ یہ بات ان کے دل کو لگی اور ان کے ساتھ معاہدہ ہوگیا۔ یہ معاہدہ تحریری طور پر عمل میں آیا اور وہ ہم تک پہنچا ہے۔ پھر آپ مشرق کی طرف جاتے ہیں، پھر جنوب کی طرف، غرض مختلف علاقوں میں، مدینہ کے اطراف میں وقتاً فوقتاً دورہ کرکے ہجرت کے پہلے اور ہجرت کے دوسرے سال مختلف غیر مسلم قبائل سے حلیفی کے معاہدے کیے گئے اور یہ معاہدے تحریری صورت میں لائے گئے اس کے بعد اس کا سلسلہ اور چلتا رہا۔ غرض یہ ابتدائ نظام تھا کہ ایک طرف مدینے کے اندر امن و امان کا اور یکجہتی کا انتظام کیا جائے اور مدینے کے اطراف میں دوست قبائل کا جال پھیلا دیا جائے تاکہ دشمن اگر حملہ کرے تو اولاً اسے ہمارے آس پاس کے قبیلوں سے جنگ کرنا پڑے اور ہم محفوظ رہیں، یہ سیاسی تدبیر تھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائ اور جس کے سلسلے میں تحریر کا بار بار ذکر آیا ہے۔

اس کے بعد اور بے شمار چیزیں ایسی ملتی ہیں جو تحریراً عمل میں آئیں ان میں سے بعض چیزیں پرائیویٹ ہیں۔ مثلا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک غلام خریدتے ہیں اس کا پروانہ موجود ہے کہ میں نے یہ غلام فلاں شخص سے خریدا، اتنی رقم دی گئ یا ایک غلام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آزاد فرماتے ہیں، اسے آزادی کا تحریری پروانہ دیا جاتا ہے کہ فلاں شخص کو آزاد کیا جاتا ہے، اسے سب تسلیم کرلیں کہ یہ شخص آزاد ہے، اب آئندہ اسے غلام نہ قرار دیا جائے وغیرہ وغیرہ۔ ایک اور چیز ذرا بعد کی ہے غالباً ٨ ہجری میں رسول اللہ ایک شخص کو خط لکھتے ہیں کہ “جیسے ہی یہ پیغام رساں پہنچے زمزم کا پانی صبح ہوکہ شام فوراً اس کے ہاتھ مجھے بھیجو”۔ اسی طرح مثلاً جب اسلامی مملکت توسیع پاتی ہے تو مختلف اضلاع اور صوبوں کے گونروں کے نام پروانے بھیجے جاتے ہیں کہ فلاں کام انجام دو۔ یا گورنر خود دریافت کرتا ہے کہ اس خاص صورت میں ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ تو اس کا جواب مدینہ سے بھیجا جاتا ہے۔ غرض سرکاری تحریروں کی کثیر تعداد ہے اور اس وقت ان کی تعداد جو ہم تک پہنچی ہے، کم سے کم چار سو مکتوبات نبی پائے جاچکے ہیں جن میں کچھ تبلیغی بھی ہیں۔ مثلاً قیصر و کسریٰ کو دین اسلام کی دعوت دی گئ ہے۔ کچھ حلیفی کے معاہدے ہیں وغیرہ وغیرہ۔

اب تحریری حدیث کا دوسرا پہلو لیجئے یعنی وہ حدیثیں جو سرکاری تحریریں نہیں ہیں بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اسے نجی طور پر مرتب کرنا شروع کردیتے ہیں۔ عام طور پر صحابہ کرام امی تھے۔ لکھنا پڑھنا انہیں نہیں آتا تھا لیکن اچھے مختلص مسلمان ضرور تھے۔ جب مدینہ میں ہوتے تو اکثر مسجد نبوی میں حاضر ہوتے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کو سنتے، اس پر عمل کرتے۔ لیکن ایک واقعہ ایسا پیش آیا جو غالباً آغاز ہے حدیث کے مدون کرنے کا۔ واقعہ یوں ہے کہ ایک دن ایک صحابی آئے، ان کا نام بیان نہیں ہوا ہے۔ ترمذی میں یہ حدیث موجود ہے کہ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا “یا رسول اللہ! آپ روزانہ جو چیزیں ہمیں بیان کرتے ہیں وہ بے حد دلچسپ، بے حد اہم اور ضروری ہوتی ہیں لیکن میرا حافظہ کمزور ہے، میں انہیں بھول جاتا ہوں، کیا کروں؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں الفاظ فرمائے “استعن بیمینک” (اپنے سیدھے ہاتھ سے مدد لو) یعنی لکھ لیا کرو۔ غالباً انہوں نے اس اجازت سے فائدہ اٹھایا ہوگا اور لکھا ہوگا۔ ہمیں، بعد میں کیا ہوا، اس کے متعلق تفصیل نہیں ملتی۔ بعد میں ایک دوسرا واقعہ جو غالباً اسی حکم اور “استعن بیمینک” کے الفاظ کا نتیجہ سمجھنا چاہیے وہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا واقعہ ہے۔ یہ نوجوان تھے غالباً سولہ سترہ سال کی عمر ہوگی۔ بے حد ذہین، بے حد دیندار اور علمی ذوق رکھنے والے تھے۔ ان کے علمی ذوق کا اندازہ اس سے کیجئے کہ بعد میں انہوں نے سریانی زبان بھی سیکھی اور وہ عیسائیوں کی دینی کتاب انجیل کو سریانی زبان میں پڑھ بھی سکتے تھے۔ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت بھی دی تھی کہ اپنے علمی مشاغل جاری رکھیں۔ یعنی قرآن کے ساتھ ساتھ بائیبل بھی پڑھ سکتے ہیں۔ غرض عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب یہ سنتے ہیں کہ فلاں شخص کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “استعن بیمینک” تو انہوں نے خود لکھنا شروع کردیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کچھ بھی سنتے اسے فوراً نوٹ کرلیتے تھے۔ دو چار دن غالباً اسی طرح کا واقعہ گزرا ہوگا، پھر ان کے دوستوں نے ان سے کہا “اے عبداللہ یہ تم کیا کررہے ہو؟ رسول اللہ بشر ہیں، کبھی خوش ہوتے ہیں، کبھی خفا ہوتے ہیں، تم ان کی ہر چیز نوٹ کرتے جارہے ہو، یہ مناسب نہیں۔ کوئ اور شخص ہوتا تو وہ ان کے کہنے پر عمل کرتا اور اسے چھوڑ دیتا، مگر وہ ذہین تھے۔ انہوں نے سوچا کہ بجائے ان سے مشورہ لینے یا ان کی بات ماننے کے کیوں نہ براہ راست اصل سے رجوع کیا جائے۔ ان کے استفسار پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ضرور لکھو۔ اطمینان کے لیے وہ پوچھتے ہیں کہ کیا اس وقت بھی جب آپ خفا ہوں؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب یہ ہے “اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، یہاں سے جو چیز نکلتی ہے (اپنے منہ کی طرف اشارہ فرمایا) وہ حق ہی ہوتی ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ پورے اطمینان کے ساتھ حدیثوں کو لکھتے رہے۔ بعض روایتوں سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے مجموعہ احادیث میں کوئ دس ہزار حدیثیں تھیں اور اس کے بعد ان کے بیٹے اور ان کے پوتے اس قلمی نسخے کی مدد سے دوسرے لوگوں کو حدیث کی تعلیم دیا کرتے تھے۔ عمرو بن شعیب بن عبداللہ بن عمرو بن العاص مشہور محدث گزرے ہیں۔

ایسی اور بھی مثالیں ملتی ہیں۔ مثلاً ابو رافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک آزاد شدہ غلام تھے وہ بھی ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر کہتے ہیں کہ کیا میں آپ کی حدیثوں کو لکھ سکتا ہوں؟ حضور نے انہیں بھی اجازت دے دی۔ انہوں نے بھی مجموعہ تیار کیا ہوگا۔ ان میں سب سے اہم حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ ان کا قصہ یہ ہے کہ ہجرت کے وقت ان کی عمر دس سال کی تھی۔ بہت کم سن بچے تھے لیکن ایک ایسے بچے جس کے والدین نہایت مخلص مسلمان تھے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود فرماتے ہیں کہ جب مدینہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میری والدہ نے میرا ہاتھ پکڑ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان پر جاکر حضور کے سامنے پیش کیا اور بہت ہی فخر کے ساتھ کہنے لگیں “یا رسول اللہ! میرا بچہ لکھنا پڑھنا بھی جانتا ہے” ٹھیک اسی طرح جیسے آج ہم آپ کہیں کہ میرا بیٹا ڈاکٹریٹ یعنی پی ایچ ڈی کی ڈگری لے چکا ہے غرض بڑے فخر سے بیان کرتی ہیں اور پھر کہتی ہیں “یا رسول اللہ! میری عزت افزائ کا باعث ہوگا کہ اگر اسے آپ خادم کے طور پر قبول کرلیں۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میری والدہ کی درخواست کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول کیا چنانچہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان میں آپ کی وفات تک رہا۔ اس دس سال کے عرصہ میں ہمیشہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ظاہری و باطنی زندگی کو دیکھتا۔ مسجد میں آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے ہیں وہ بھی دیکھتا، مکان کے اندر اپنی ازواج مطہرات سے کس طرح برتاؤ کرتے ہیں، کیا کھاتے ہیں، کس طرح سوتے ہیں، غرض ہر چیز کا میں مشاہدہ کرسکتا تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ سہولت، جو ان کو حاصل تھی بڑے سے بڑے صحابہ مثلاً حضر ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی میسر نہیں آسکتی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو اس قدر قریب سے دیکھیں۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کے زمانے میں مسلمانوں کی جماعت کی تعداد بڑھی اور انہیں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات معلوم کرنے کا شوق پیدا ہوا تو میرے پاس بہت سے شاگرد آیا کرتے تھے۔ اس بارے میں ان کی روایت کے دو الفاظ ہیں “اذا کثروا” (جب ان کی تعداد زیادہ ہوتی) اور “اذا اصروا” (اور جب وہ زیادہ اصرار کرتے) بہر حال جو بھی صحیح ہو، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایسے موقع پر میں ایک صندوق میں سے ایک پرانا رجسٹر یا پرانی کتاب نکالتا اور اپنے شاگردوں کو بتاتا اور کہتا کہ یہ وہ چیز ہے جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق نوٹ کی ہے اور اسے رسول اللہ کے حضور میں وقتاً فوقتاً پیش بھی کیا ہے۔ میری تحریر میں اگر کوئ کمی یا غلطی ہوتی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم اصلاح فرمادیتے۔ یہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مجموعہ ہے جو یقیناً کئ ہزار حدیثوں پر مشتمل ہوگا۔ یہ ایک ایسی حدیث کی کتاب کہی جاسکتی ہے جو صحیح ترین حدیث کی کتاب ہے، کیونکہ لکھنے کے بعد خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر نظر ثانی فرماتے ، یعنی سن کر اس کی اصلاح فرماتے ایسی اور مثالیں بھی ملتی ہیں۔ غرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں، ان کی اجازت سے، ان کے حضور میں حدیث کی تدوین ہورہی تھی۔ بخاری شریف میں دو ہزار سے زیادہ حدیثیں نہیں ہیں جبکہ بعض روایات کے مطابق حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مجموعہ احادیث میں دس ہزار حدیثیں تھی۔ اس سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ کتنی کثیر حدیثیں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں تحریری طور پر مدون ہوچکی تھیں۔ بد قسمتی میں وہ سب کی سب کتابی صورت میں ہمارے پاس نہیں پہنچیں بعد کے مؤلفوں نے ان کو تتر بتر کردیا ہے۔ یعنی حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیثوں میں سے ایک حدیث کو ایک باب میں دوسری حدیث کو دوسرے باب میں تحریر کیا ہے۔ اس طرح ان کا جو اصل مجموعہ تھا وہ ہم تک نہیں پہنچ سکا۔ بہر حال یہ بالکل واضح ہے کہ عہد نبوی میں حدیثوں کی جمع و تدوین کا آغاز ہوچکا تھا اور اس میں اضافہ بھی ہوتا گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ہم کو ایسے صحابہ کی تعداد روز افزوں نظر آتی ہے جو اپنی یادداشتوں کو مدون کرنا ضروری سمجھتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں انہیں خیال نہیں آیا، اب انہیں احساس ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باقی نہ رہے میں بھی آج نہیں کل مرنے والا ہوں، اگر میں اپنی یادداشتوں کو محفوظ نہ کرسکا تو یہ سب ضائع ہوجائیں گی۔ کم از کم میں خود اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات تحریر کرلوں۔ چنانچہ ایسی متعدد کتابوں کا ذکر حدیث کی کتابوں میں آتا ہے۔ حضرت سمرہ بن جندب، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دوسرے بہت سے صحابہ تھے جنہوں نے کتابیں اور رسالے لکھ ڈالے۔ ان مجموعہ ہائے حدیث میں سے ایک کے متعلق ابن حجر نے لکھا ہے “فیہ علم کثیر” (اس میں بہت علم ہے)۔ ایک اور رسالے کے متعلق لکھا ہے کہ بہت ضخیم تھا۔ یہ جمع حدیث کی ایک صورت ہوئ۔ ایک دوسری صورت تدوین حدیث کی یہ ہے کہ لوگ صحابہ سے لکھ کر پوچھتے تھے۔ مثلاً ایک شخص کو کسی مسئلے کے متعلق کچھ دریافت کرنا ہے تو وہ کسی بزرگ صحابی کو اس خیال سے ممکن ہے وہ جانتے ہوں ایک خط لکھتا ہے۔ وہ صحابی جواب میں حدیث لکھ بھیجتے ہیں کہ ہاں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا ہے یا رسول اللہ کو یہ کرتے دیکھا ہے۔ غرض خط و کتابت کے ذریعے سے حدیث کی تدوین اور حدیث کی تعلیم کا یہ سلسلہ ہمیں نظر آتا ہے اور اس میں ایسی بڑی شخصیتیں بھی ہیں جیسے ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو ان کے ہاں اکثر خطوط آیا کرتے تھے اور وہ جواب لکھوا کر بھیجتیں۔ حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ دوسرے صحابی ہیں اور ان کے متعلق صحیح بخاری میں یہ مذکور ہے کہ ان کے پاس ایک خط آیا جس کا انہوں نے جواب لکھ بھیجا۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بھی یہی حال تھا۔ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے خلیفہ وقت ان سے لکھ کر دریافت کرتے کہ اس بارے میں آپ کی کیا معلومات ہیں۔

اب میں ایک اور خاص پہلو کی طرف رجوع کرتا ہوں۔ وہ یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے جب حدیثوں کو اس طرح لکھ کر مدون کرنا شروع کیا اور اس کی تعلیم اپنے زمانے کے نوجوان مسلمانوں کو دینے لگے تو ابتداءً صحابہ کے ناموں کے تحت حدیثیں مدون ہوئیں۔ مثلاً میں اپنے شہر میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی کے پاس جاکر سبق لیتا ہوں اور ان سے سنی ہوئ حدیثوں کو جمع کرتا ہوں۔ دوسرے شہر میں رہنے والے صحابہ سے مجھے استفادہ کا موقع نہیں ملتا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ابتداءً صحابہ وار حدیثیں جمع ہوتی رہیں۔ صحابہ کے بعد کے دور میں ایک شخص کئ استادوں سے سے درس لیتا ہے۔ مثلاً وہ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شاگرد سے درس لینے اور ان کی روایت کردہ ساری حدیثوں کو قلم بند کرنے کے بعد ایک دوسرے صحابی کے شاگرد کے پاس جاتا ہے اور ان سے ان کی حدیثیں سنتا ہے۔ اس طرح رفتہ رفتہ دو تین نسلوں کے بعد ساری حدیثیں علماء کے علم میں آگئیں۔ ایک اور چیز کا ذکر کرتا چلوں جو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق ہے اور ان کا قصہ بہت دلچسپ ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایسے صحابی ہیں جو دیر سے مسلمان ہوئے یعنی سنہ ٧ ہجری میں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے تین چار سال پہلے اسلام لائے۔ اس کے باوجود ان سے بے شمار حدیثیں مروی ہیں۔ اس کی وجہ وہ خود بیان کرتے ہیں کہ “دیگر صحابہ مثلاً ابوبکر، عمر، عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور فلاں فلاں صحابی سارا دن اپنے کاروبار میں لگے رہتے، اپنی تجارت اور اپنی دکان میں مصروف رہتے۔ میں پیٹ بھرا بن کر مسجد نبوی کے اندر پڑا رہتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کو سننے کا جتنا موقع مجھے ملتا، اتنا بڑے بڑے صحابہ کو بھی نہ ملتا، ان کا حافظہ بھی بڑا اچھا تھا، علمی ذوق بھی تھا، لکھنا بھی آتا تھا۔ انہوں نے بہت سی حدیثیں لکھیں۔ چنانچہ ان کے ایک شاگرد حسن بن عمرو بن امیہ ضمری نے ایک دن غالباً حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پیرانہ سالی کے زمانے میں، اپنے استاد سے کہا کہ “استاد، آپ نے فلاں چیز بیان کی تھی” انہیں یاد نہیں تھا مکر گئے۔ نہیں صاحب میں نے کبھی یہ نہیں کہا ایسی کوئ حدیث مجھے بالکل یاد نہیں۔ نہیں استاد، آپ نے ہی ہم سے یہ چیز بیان کی ہے۔ اس پر ان کا بیان ہے کہ استاد نے میرا ہاتھ پکڑا، اپنے گھر کی طرف چل دیے اور راستے میں یہ کہتے چلے کہ اگر واقعی میں نے وہ حدیث تم سے بیان کی ہے تو وہ میرے پاس تحریری صورت میں موجود ہونی چاہیے۔ چنانہ گھر لائے، اپنی الماری سے ایک جلد نکالی ورق گردانی کی مگر نہیں ملی پھر دوسری جلد اور پھر تیسری جلد میں نظر دوڑائ۔ پھر اس کے بعد یک بہ یک خوشی کی حالت میں پکار اٹھے کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ اگر میں نے بیان کیا ہے تو وہ میرے ہاں تحریری صورت میں موجود ہونا چاہیے۔ دیکھو یہ موجود ہے۔ ٹھیک ہے۔ ابن حجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کے مزید برآں الفاظ یہ ہیں: “ارانا کتبا کثیرۃ من الحدیث” (ہمیں ابو ہریرہ نے حدیث کی بہت سی کتابیں دکھائیں) یعنی میں نے ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بہت سے کتابیں ان کے گھر کے کتب خانے میں دیکھیں۔ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا طرز عمل عالمانہ اور بہت دلچسپ تھا۔ ان کے پاس جو شاگرد آتے، سارے شاگردوں کو وہ ایک ہی چیز نہیں پڑھاتے تھے۔ ہر شاگرد کو الگ الگ حدیثیں پڑھاتے تھے۔ چنانچہ جب ہمام بن منبہ ان کے پاس آتے ہیں تو ان کو ایک خصوصی رسالہ سو ڈیڑھ سو حدیثوں کا مرتب کرکے دیتے ہیں۔ جو “صحیفہ ہمام بن منبہ” کہلاتا ہے۔ ایک دوسرا شاگر آتا ہے، اس کے لیے ایک نیا مجموعہ تیار کرتے ہیں جو اس شاگرد کے نام سے منسوب ہوا۔ غرض حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ ہزاروں حدیثیں انہیں حفظ تھیں اور اپنے متعد شاگردوں کو انہوں نے جو رسالے لکھ دیے تھے وہ آج تک محفوظ چلے آرہے ہیں۔

بعض حدیثوں میں ذکر ملتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ حدیث کو مت لکھو اور بعض حدیثوں میں جن کا میں نے ابھی ذکر کیا، صراحت کے ساتھ حکم ہے کہ اپنے دائیں ہاتھ سے مدد لو یعنی انہیں ضرور لکھو کیونکہ اس منہ سے کوئ چیز جھوٹی نہیں نکل سکتی۔ ان باتوں کے تضاد کو کیسے دور کریں گے؟ اس بارے میں اب ہمارے لیے کوئ دشواری باقی نہیں رہی۔ مختصر قصہ یہ ہے کہ ایسے متعدد صحابہ ملتے ہیں جن کا بیان ہے کہ حدیث کو نہیں لکھنا چاہیے۔ لیکن وہ اس امر کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب نہیں کرتے کہ رسول اللہ نے کہا کہ حدیث کو مت لکھو۔ جو صحابی اپنی رائے بیان کرتے ہیں اس پر ہمیں بحث کرنے کی ضرورت نہیں لیکن جو صحابہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ حکم دیا کہ نہ لکھیں، اس پر ہمیں غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ان میں تین صحابی ملتے ہیں، ایک حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، خود انہوں نے حدیث کی کثیر کتابیں لکھ رکھی تھیں، دوسرے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں اور تیسرے ابو سعید الخذری رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ جہاں تک زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کا تعلق ہے ہمارے ماہرین حدیث اس کو رد کردیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ درمیان کے راوی ثقہ نہیں ہیں۔ انہوں نے غلطی کی ہے۔ علم حدیث کے اصول کی رو سے یہ حدیثیں قابل قبول نہیں ہیں۔ صرف ابو سعید الخذری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث اصول کی رو سے بہت اہم ہے کیونکہ “صحیح مسلم” جیسی حدیث کی صحیح کتاب میں یہ موجود ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے کہا کہ مجھ سے کوئ حدیث نہ لکھو اور اگر لکھ چکے ہوتو اسے مٹاڈالو۔ اس حدیث کی موجودگی میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کسی سیاق و سباق context میں خاص حکم سے متعلق تھا یا کوئ عام حکم تھا؟ ہمارے دوست، مصطفیٰ الاعظمی حدیث کے ایک ماہر استاد، جو آج کل ریاض یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں، انہوں نے ایک دلچسپ تحقیق کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ “صحیح مسلم” میں جو حدیث آئ ہے امام بخاری رح اسے رد کردیتے ہیں۔ امام بخاری کہتے ہیں کہ یہ غلط فہمی پر مبنی ہے۔ حقیقت میں یہ ابو سعید الخذری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ذاتی رائے تھی جو کسی درمیانی راوی کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہوگئ ہے۔ ان حالات میں ہم دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم کہ حدیثیں نہ لکھو، اس کا اصول حدیث کی رو سے کوئ ثبوت نہیں۔ اگر فرض بھی کرلیں کہ کسی وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ممانعت فرمائ تھی تو اس کا حل آسان ہے غالباً کسی خاص سیاق و سباق context میں یہ حکم صادر ہوا تھا کہ کیونکہ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مثال موجود ہے۔ وہ نہایت ہی دین دار اور حدیث پر عامل شخص تھے۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واقعی ممانعت کی ہوتی تو وہ کبھی جسارت نہ کرتے کہ حدیث کی بہت سی کتابیں خود لکھ ڈالیں۔ ممکن ہے کس وجہ سے منع کیا گیا ہو اور اس واقعہ کے مطابق اسے نہ لکھا گیا ہو۔ مثلاً ایک معین دن کی حدیثوں کو نہ لکھا اور بعد میں عام اجازت کے تحت لکھ ڈالا۔ غرض کوئ خاص سیاق و سباق ہوگا۔ مثلاً کسی دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جیسا کہ حدیث میں اس کا ذکر آتا ہے، قیامت تک پیش آنے والے واقعات کو مسلمانوں سے بیان فرمایا کہ تم فلاں ملک فتح کرو گے، ایسے علاقوں میں جاؤ گے، ایسے ایسے امور پیش آئیں گے۔ غرض کبھی قیامت تک پیش آنے والی باتوں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا۔ اس سلسلے میں یہ بیان بھی موجود ہے کہ بعض صحابہ نے کہا کہ یا رسول اللہ جب یہ مقدر ہیں تو پھر ہمیں کوشش کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوشش کرنا بھی مقدر ہے، ایسا کرنا پڑے گا۔ ممکن ہے اس دن حضور نے فرمایا ہوکہ ان باتوں کو مت لکھو کیونکہ بعض صحابہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہوکر یہ کہہ دیتے تھے کہ جب مقدر ہوچکا ہے تو کوشش کرنے کی کیا ضرورت؟ یا کوئ اور وجہ ہوئ ہوگی۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف بھی بعض کتابیں منسوب ہوئیں۔

ایک آخری نکتہ ہے جس پر میں اس تقریر کو ختم کرتا ہوں، وہ یہ کہ ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے مقرب ترین صحابہ نے حدیث کے متعلق کیا کام کیا؟ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق یہ روایت ملتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد، انہوں نے اپنی بقیہ مختصر زندگی کے دو ڈھائ سال کے عرصے میں حدیث کا ایک مجموعہ تیار کیا۔ جس میں پانچ سو حدیثیں تھیں۔ لکھنے کے بعد ان کو وہ اپنی بیٹی حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے سپرد کرتے ہیں۔ میرا گمان یہ ہے کہ شاید بیٹی ہی نے فرمائش کی ہو کہ “ابا جان مجھے کچھ حدیثیں کتابی صورت میں لکھ دیجئے” کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو علم کا بے پناہ ذوق و شوق تھا۔ بیٹی کی تمنا پر حدیثیں مرتب کیں اور انہیں دے دیں۔ مگر اس رات کو وہ حضرت عائشہ ہی کے مکان میں لیٹے اور سو نہ سکے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ میرے اباجان ساری رات کروٹیں بدلتے رہے، مجھے ذرا خوف ہوا کہ وہ بیمار ہیں۔ صبح کو بھی میں نے جسارت نہیں کی کہ خود پوچھوں کہ کیا آپ بیمار ہیں۔ خود ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ “بیٹی! میں نے تمہیں جو کتاب دی ہے وہ لے آنا۔ میں لائ تو اسے فوراً پانی سے دھوکر مٹادیا اور کہا “اس میں بعض حدیثیں وہ ہیں جو میں نے خود سنی ہیں”۔ ان کے متعلق مجھے یقین ہے۔ بعض کو میں نے کسی اور صحابی سے سنا تھا۔ مجھے جھجھک اور خوف ہے کہ شاید وہ الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نہ ہوں۔ میں نہیں چاہتا کہ رسول اللہ کی طرف کوئ ایسا لفظ منسوب کروں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نہ ہو اور کسی بالمعنی روایت کے تحت آیا ہو۔ مگر اس حدیث کا یہ پہلو بہت اہم ہے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث لکھنے کی ممانعت کی ہوتی تو یقیناً حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس سے واقف ہوتے اور وہ لکھنے کی جسارت نہ کرتے۔ لکھنے کے بعد آپ کا مٹانا اس بناء پر نہیں تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ممانعت کی تھی بلکہ اس بناء پر تھا کہ انہیں خوف تھا کہ کہیں صحیح حدیث میں کمی بیشی نہ ہوجائے۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق بھی ایسی ایک روایت ملتی ہے۔ ایک زمانے میں انہوں نے حدیث کو مدون کرنے کی کوشش فرمائ تھی۔ انہوں نے لوگوں کو جمع کرکے مشورہ کیا۔ سب کا مشورہ یہی تھا کہ “لکھنا چاہیے” مگر کافی عرصہ بحث مباحثہ اور مشورہ کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ نہیں لکھنا چاہیے۔ اور کہا کہ ہم سے پہلے کی امتوں نے انبیاء کے اقوال پر عمل کیا، ان کو محفوظ رکھا لیکن خدا کی نازل کردہ کتاب کو بھول گئے۔ اس کی تحریفیں ہونے لگی۔ میں نہیں چاہتا کہ قرآن کے متعلق بھی یہ سانحہ پیش آئے۔ اس طرح حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حدیث کی تدوین کا جو ارادہ فرمایا تھا، اس سے یہ یقینی طور پر ثابت ہوجاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کوئ ممانعت نہیں ہوئ ورنہ وہ لکھنے کا ارادہ نہ کرتے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نہ لکھنے کی وجہ ایک دوسری ہی تھی کہ لوگ قرآن سے غافل نہ ہوجائیں۔

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی خلافت کے زمانے میں ایک دن فرمایا: “جسے ایک درہم خرچ کرنے کی توفیق ہے وہ کاغذ خرید لائے، میں حدیثیں لکھواتا ہوں، لکھ لے، ان کے ساتھیوں میں سے ایک صاحب بازار جاکر ایک درہم میں کاغذ کی ایک گڈی خرید لائے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بہت سی چیزیں لکھوائیں اور وہ ان کے پاس محفوظ رہیں۔ اس قصے سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث لکھنے کی ممانعت نہیں کہ ورنہ حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت علی رضی اللہ تالیٰ عنہم جیسے اصحاب کباار حدیث لکھنے یا لکھوانے کی جسارت نہیں کرسکتے تھے۔

سوالات و جوابات

سوال ١:

مسلمانوں کی حدیث کی کتابوں میں اختلاف کیوں ہے۔ مثلاً اہل سنت کے نزدیک “صحاح ستہ” اور دوسری کتب ہیں، لیکن اہل تشیع ان سب کے منکر ہیں، اور ان کی اپنی حدیث کی کتب ہیں۔ اس اختلاف کی وجہ نیز “حق” کی وضاحت فرمائیں؟

جواب:

آپ نے بڑا مشکل سوال کیا ہے۔ اگر ایک ہی فرقے کی چیزیں ہوں تو آدمی آسانی سے جواب دے سکتا ہے۔ جب فرقہ داری مسئلہ بن جائے تو میں ہمیشہ اس سے بچنے کی کوشش کرتا ہوں۔ میں ایک فرقے سے تعلق رکھوں اور دوسرے فرقے پر اعتراض کروں خاص کر اس کی غیر موجودگی میں کہ اسے جواب کا موقع نہ ہوتو یہ علمی نقطہ نظر سے ٹھیک نہیں ہوتا۔ بہر حال جس حد تک ممکن ہے مختصر الفاظ میں آپ کو اس کا جواب دیتا ہوں۔ جیسا کہ میں نے تھوڑی دیر پہلے اشارۃً ذکر کیا، حدیثوں کو مدون کرنے اور اس کو محفوظ کرکے ایک نسل کے بعد دوسری نسل تک پہنچانے کا عمل سرکاری نگرانی میں نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہوا، نہ خلفائے راشدین کے زمانے میں بلکہ پرائیوٹ طور پر مختلف افراد اپنی ذاتی ذمہ داری پر یہ کام کرتے رہے۔ پھر ایک استاد کے درس میں آنے والے بالفرض دس پندرہ شاگرد تھے۔ ظاہر ہے کہ ان کی صلاحیتیں یکساں نہیں ہوسکتیں۔ ایک ہی استاد کی بیان کردہ حدیث کو اس کے سامعین میں سے وہ شخص روایت کرتے ہیں اور اس انفرادی فرق کی وجہ سے اس میں اختلاف پیدا ہوجاتا ہے۔ یہ ایک فطری امر ہے جس کو روکا نہیں جاسکتا۔ خصوصاً اس وجہ سے کہ بعض وقت لفظ بہ لفظ حدیث کی روایت کرنے کی جگہ اس کا خلاصہ یا اس کا مفہوم اپنے الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے۔ ایسے نازک مقامات بھی آتے ہیں کہ لفظ کے بدلنے سے مفہوم میں فرق پیدا ہوجاتا ہے۔ اسی طرح ایک آدمی کا حافظہ اچھا ہوتا ہے، دوسرے کا حافظہ کمزور ہوتا ہے یا کسی ایک شخص کا ایک زمان میں حافظہ ٹھیک ہے، اس کے بعد مثلاً بڑھاپے کی وجہ سے اس کا حافظہ کمزور ہوگیا ہے اور اس کے باوجود اپنے تدریسی کام کو جاری رکھتا ہے۔ انہی وجوہ سے حدیثوں میں باہم تضاد بھی نظر آسکتا ہے۔ اس کی ایک وجہ تو وہی ہے کہ راوی سے غلطی ہوئ ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتداً ایک حکم دیا اور بعد میں اسے کسی نہ کسی وجہ سے منسوخ کردیا اور نیا حکم دیا۔ ان حالات میں “الف” صحابی کے پاس پہلے دن کی بات تو موجود ہے لیکن دوسرے دن کی بات یا دوسری مرتبہ بیان کی ہوئ بات موجود نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کی بیان کردہ حدیث اور دوسرے شخص یعنی بعد والے صحابی کی بیان کردہ حدیث میں اختلاف ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ بعض وقت امت کی صلاحیتوں کے پیش نظر یا کسی خاص سیاق وسباق میں ایک حکم دیا جاتا ہے اور بعد میں اسے بدلنا پڑتا ہے۔ اس کی ایک مثال میں عرض کرچکا ہوں یعنی کھجور کے نر اور مادہ پھولوں کو ملانے کا مسئلہ۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتداً صراحت کے ساتھ اس کا حکم دیا، بعد میں صراحتاً اسے منسوخ بھی فرمایا۔

ایک اور مثال اس سے بھی زیادہ دلچسپ ہے۔ قبر پرستی انسانی سوسائٹی میں ایک عام مرض رہا ہے۔ عرب میں بھی اسلام سے پہلے اس کا رواج تھا، آج بھی ہم میں پایا جاتا ہے۔ غالباً اس کو روکنے کی غرض سے (تاکہ آدمی قبر میں سونے والوں سے مانگنے کی بجائے خدا سے مانگے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی زیارت ہی کی ممانعت فرمادی۔ کچھ عرصہ بعد ان الفاظ کے ساتھ اس کی مکرر اجازت دے دی۔ “کنت نھیتکم عن زیارۃ القبور الا فزوروھا” (میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا، سنو! اب تم زیارت کرسکتے ہو) اس دوسرے حکم کی وجہ یہ نہیں تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے بدل گئ بلکہ یہ کہ سیاق و سباق بدل گیا۔ قبر پرستی سے بے شک روکنا چاہتے تھے لیکن قبرستان میں جانے سے جو عبرت ہوتی ہے، یعنی ہم سوچتے ہیں کہ ہمیں بھی ایک روز مرنا ہے تو کیا ہمیں اس کے لیے تیار نہیں ہونا چاہیے؟ کیا ہمیں جھوٹ، دغابازی اور فریب وغیرہ پر ہی قائم رہنا چاہیے؟ تو عبرت حاصل کرنے کی خاطر آپ نے اجازت دے دی۔ غرض حدیث میں اختلاف ایک طرف فرقہ وارانہ ہے اور دوسری طرف ایک فرقے کے اندر بھی ہے۔ ان دشواریوں کو دور کرنے کے لیے ماہرین علم حدیث نے کبھی کوتاہی نہیں کی۔ اس کو انہوں نے مختلف تدبیروں کے ذریعہ سے حل کیا، مثلاً ایک خصوصیت جو مسلمانوں ہی میں پائ جاتی ہے دوسری قوموں میں عملاً غیر موجود ہے وہ یہ کہ حوالہ نامکمل نہ ہو۔ مثلاً میں آج سے چودہ سو برس پہلے کی ایک حدیث بیان کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ یوں کرو یہ نامکمل حوالہ ہوگا۔ اس کے برخلاف اگر میں بیان کروں کہ میرے استاد “الف” نے کہا کہ اسے اس کے استاد “ب” نے “ج” نے اس طرح تمام استادوں کا نسلاً بعد نسل ذکر کرتے ہوئے کہوں کہ آخری استاد فلاں صحابی نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا ہے تو وہ حوالہ مکمل ہوگا۔ چنانچہ حدیث کی کتابوں میں ہر آدھی سطر یا ایک سطر کی جو حدیث ہوتی ہے، اس کے شروع میں ایک لمبی فہرست ہوتی ہے کہ عن فلاں، عن فلاں عن فلاں۔ مثلاً بخاری جو قدیم ترین مؤلفوں میں سے ایک ہیں، ان کی حدیثیں بعض دفعہ تین درمیانی راویوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی ہیں اور زیادہ سے زیادہ نو تک۔ گویا ڈھائ تین سو سال کے عرصے میں نو پشتیں راویوں کی آچکی تھیں۔ اس بات کی تحقیق کے لیے کہ حوالہ مکمل ہے یا نہیں، یہ ضروری ہے کہ ہمارے سامنے ایسی کتب ہوں جن میں ہر راوی کی سوانح موجود ہو۔ مثلاً یہ بیان کیا جائے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شاگرد “الف” “ب” “ج” تھے اور پھر میرے سامنے ایک روایت آتی ہے جس میں عن فلاں ، عن فلاں، عن فلاں، کرتے ہوئے مثلاً “ب” یا “ج” نامی شخص بیان کرتا ہے کہ “حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا” تو اس کتاب کی مدد سے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ چونکہ یہ سب راوی ثقہ ہیں اور استاد شاگرد رہے ہیں، اس لیے یہ روایت قابل قبول ہے، یہ بھی کہ ہر ایک کا ذاتی کردار کیسا تھا۔ یا اس کا حافظہ اچھا تھا یا نہیں، یہ بھی کہ اس کے استاد کون کون تھے۔ اور شاگرد کون کون تھے، تاکہ اس قسم کی سوانح عمریوں کی مدد سے ہم استاد کو جانچ سکیں اور یہ معلوم کرسکیں کہ راویوں کی تاریخ کا جو حوالہ دیا گیا ہے وہ واقعی صحیح ہے یا فرضی ہے۔ اس کے بعد علم اصول حدیث وجود میں آیا، جس میں یہ بیان کیا جانے لگا کہ اگر حدیثوں میں ایسی باتیں نظر آئیں جو خلاف عقل ہوں یا حدیثوں میں فلاں فلاں عیب یا کمی ہو، تو ایسی صورتوں میں ہم کیا کریں؟ کس طرح ان گتھیوں کو سلجھائیں! چنانچہ روایت اور درایت کے دو اصول مسلمانوں نے اختیار کیے۔ روایت کے اصول کے مطابق یہ دیکھا جاتا ہے کہ جو لوگ حدیث کو بیان کرتے ہیں آیا وہ بیان کرنے والے فرضی ہیں یا حقیقی، قابل اعتماد ہیں یا جھوٹ بولنے والے ہیں۔ استاد شاگرد ہیں یا نہیں؟ یہ روایتاً حدیث کو کنٹرول کرنے یا جانچنے کا طریقہ ہے۔ درایت کے اصول کے مطابق یہ دیکھا جاتا ہے کہ حدیث میں جو بات بیان کی گئ ہے وہ عقلاً درست ہے یا نہیں۔ فرض کیجئے ایک حدیث میں ذکر آتا ہے کہ مثلاً شہر بہاولپور میں فلاں چیز ہوگی۔ لیکن درایتاً اس زمانے میں شہر بہاولپور موجود تھا ہی نہیں، یہ ذکر کیسے آیا۔ لہٰذا ہم یہ نتیجہ اخذ کری گے کہ غالباً یہ سہو کتاب ہے، یا یہ کہ حدیث جعلی ہے اس شہر کا نام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہاولپور بیان نہ کیا ہوگا، بلکہ اور لفظ ہوگا جو بگڑ کر بہاولپور بن گیا۔ یہ اور اس طرح کی چیزیں ہم درایت سے معلوم کرسکتے ہیں اور ان اصولوں کے مطابق ہم ان دشواریوں کو حل کرسکتے ہیں جو حدیث کے اندر نظر آتی ہیں۔ اسی طرح دو حدیثوں میں اختلاف کا مسئلہ ہوتا ہے۔ ایک میں کہا گیا ہے کہ یہ کام کرو، دوسری میں ہے کہ نہ کرو۔ تو ان دشواریوں کو جن طریقوں سے دور کیا جاسکتا ہے، وہ “علم اصول حدیث” کی کتابوں میں ملتا ہے۔ مثلاً یہ بات ممکن ہے کہ ایک حکم قدیم ہو، دوسرا حکم جدید ہو تو جدید ترین حکم قدیم حکم کو منسوخ کردے گا۔ یا یہ کہ ایک حکم خاص ہے، دوسرا حکم عام ہے۔ ایک شخص کو یہ کہا گیا کہ یوں کرو یا یوں نہ کرو اور دوسرے لوگوں کو حکم دیا گیا کہ تم یہ کام کرسکتے ہو۔ ایک مثال ذہن میں آتی ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ چند لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور ایک شکایت کی کہ مدینہ کی آب و ہوا ہمیں موافق نہیں آرہی ہے، ہم فلاں فلاں بیماریوں میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا، سرکاری جانوروں کے ریوڑ میں جاکر رہو اور سرکاری اونٹوں اور اونٹنیوں کے دودھ اور ان کے پیشاب پیو۔ بظاہر یہ بات ہمیں حیران کن معلوم ہوتی ہے کہ پیشاب پینے کا حکم کیسے دیا جاسکتا ہے، جب کہ وہ نجس چیز ہے۔ اس مشکل کا حل ہمیں اصول روایت یا درایت کے ذریعے ملتا ہے اور یہ ٹیکنیکل چیز بھی ہے جو میری آپ کی رائے پر مبنی نہیں، بلکہ طبیبوں اور ڈاکٹروں کی رائے پرمبنی ہوگی۔ مثلاً زہر ہمارے لیے سم قاتل ہے لیکن ایک ڈاکٹر کسی خاص بیماری میں مریض کے لیے زہر ہی تجویز کرتا ہے۔ زہر کے بغیر اس کا کوئ علاج ممکن نہیں۔ اس طرح یہ ممکن ہے کہ کوئ خاص بیماری اونٹوں کے پیشاب کے بغیر دور نہ ہوسکتی ہو۔ جب کوئ اور چارہ کار نہ ہوتو ممنوع اور مکروہ چیزیں جائز ہوجاتی ہیں۔ اونٹنیوں کے پیشاب کے متعلق بعض ہمعصر سیاح بیان کرتے ہیں کہ وہ آج بھی بعض بدوی قبائل میں کچھ مخصوص بیمارییوں کے علاج کے لیے مستعمل ہے۔ غرض مختلف طریقے ہیں جن کے ذریعے ہم حدیثوں کی اندرونی دشواریوں کو دور کرسکتے ہیں اور اس سے ہمارے علماء غافل نہیں رہے۔ گزشتہ چودہ سو سال سے وہ اس پر توجہ کرتے رہے ہیں اور ہم آج ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ حدیثوں کی صحت کو جانچنے کا جو وسیلہ یا طریقہ ہمارے پاس ہے اس کا عشر عشیر بھی کسی اور قوم میں نہیں پایا جاتا۔ میں اپنے عیسائ بھائیوں کو ناراض کیے بغیر یہ کہہ سکتا ہوں کہ ان کی انجیل پر اتنا اعتماد نہیں کیا جاسکتا، جتنا ہماری بخاری، مسلم اور ترمذی پر کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ انجیل کی تدوین، انجیل کا تحفظ، انجیل کا نسل بعد نسل منتقل ہونا، اس طریقے سے عمل میں نہیں آیا جس طریقے سے حدیث کی کتابوں میں عمل ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ مثلاً حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے تین سو سال بعد تک انجیلوں کے متعلق ہمیں کوئ علم نہیں کہ کس نے اس کو لکھا، کس نے اس کا ترجمہ کیا اور کس نے اسے نقل کیا، اصل زبان سے یونانی زبان میں کس کے حکم سے منتقل کیا گیا۔ آیا کاتبوں نے صحت کا التزام رکھا یا نہیں۔ تین سو سال بعد چار انجیلوں کا ذکر ہمیں پہلی مرتبہ ملتا ہے۔ کیا ہم ایسی بلاسند کتاب پر اعتماد کریں یا بخاری پر جو ہر دوسطری بیان کو بھی تین سے لے کر حوالوں تک بیان کرتا ہے کہ رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان کیا ہے۔ لیکن اس کا ثبوت کیا ہے کہ بخاری نے سچ بیان کیا ہو، ممکن ہے کہ انہوں نے گھڑ لیا ہو اور راویوں سے منسوب کردیا ہو کہ مجھے “الف” نے “ب” سے اور “ب” نے “د” سے، اسی طرح رسول اللہ تک پہنچا ہو۔ اعتراض عقلاً بالکل صحیح ہے لیکن حقیقتاً بے بنیاد اعتراض ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ بخاری سے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک جن محدثین نے حدیث کی روایت کی ہے ان کی کتابیں بھی ہمیں موجود ملتی ہیں۔ لہٰذا بخاری پر ہمیں شبہ کرنے کی کوئ وجہ نہیں نظر آتی۔ مثال کے طور پر بخاری کہتے ہیں مجھے یہ حدیث امام احمد بن حنبل رح نے بیان کی اور کہا کہ مجھے عبدالرزاق بن ہمام نے بیان کی جنہوں نے کہا کہ میرے استاد معمر نے بیان کیا تھا۔ معمر نے کہا کہ مجھے میرے استاد ہمام بن منبہ نے ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سن کر بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہا ہے۔ بخاری کی کتاب ہمارے پاس موجود ہے۔ درمیانی روایتوں کا ہمارے پاس کوئ وجود نہ ہو تو ہم علمی نقطہ نظر سے فرض کرسکتے ہیں کہ شاید امام بخاری نے جھوٹ کہا ہو۔ لیکن اگر ہمیں احمد حنبل کی کتاب مل جائے جو امام بخاری کے استاد ہیں اور اس میں من و عن وہی حدیث انہی الفاظ مین ایک شوشے کے فرق کے بغیر ملے تو ہمیں ماننا پڑے گا کہ امام بخاری جھوٹے نہیں، کیونکہ احمد بن حنبل کے پاس واقعی وہی حدیث انہیں الفاظ کے ساتھ موجود ہے۔ امام احمد بن حنبل پر ہم شبہ کرسکتے ہیں۔ اس وقت جب کہ ان کا بیان ہے کہ مجھے عبدالرزاق بن ہمام رح نے بیان کیا تھا اور عبدالرزاق بن ہمام کی کتاب موجود نہ ہو۔ الحمد اللہ! احمد بن حنبل کی “مسند” کی طرح عبدالرزاق بن ہمام کی “مصنف” بھی دنیا میں موجود ہے۔ اب چھپ کر شائع ہوچکی ہے۔ بعض حدیثوں کے متعلق تلاش کیا گیا کہ یہ کہاں ہیں، وہ بھی بالکل انہی الفاظ میں بیان کرتے ہیں جن الفاظ میں بخاری کے ہاں ہے۔ اسی طرح ان کے استاد معمر بن راشد کی کتاب “الجامع” ہمیں مل گئ ہے۔ اس کے اندر بھی وہی حدیث جو بخاری نے بیان کی تھی انہیں الفاظ میں موجود ہے۔ اسی طرح ان کے استاد ہمام بن منبہ کا “صحیفہ” بھی دستیاب ہوچکا ہے اور چھپ چکا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ امام بخاری نے جو چیزیں بیان کیں وہ بالکل صحیح ہیں، کیونکہ ان کی کتابیں جو بخاری کا ماخذ ہیں دستیاب ہوچکی ہیں اور ان کے اندر وہی الفاظ موجود ہیں۔ ان حالات میں عقل کہتی ہے کہ بے وجہ شبہ کرنا نامناسب بات ہے۔ عقل کا تقاضا ہے کہ ہم یہ تسلیم کرلیں کہ امام بخاری رح کی بیان کردہ حدیث بالکل صحیح ہے۔ پھر کچھ چیزیں ایسی ملتی ہیں جن سے ایک دوسرے کی تصدیق ہوئ ہ۔ مثلا ایک دوسرے سلسلسہ اسناد سے امام ترمذی رح نے وہی حدیث بیان کی ہے تو یہ ناممکن ہے کہ پچاس آدمی جو مختلف ادوار سے متعلق ہیں، جھوٹ پر پیشگی متفق ہوگئے ہوں۔ غرض یہ ٹیکنیکی اصول ہیں جن کا استعمال حدیث کے متعلق کیا گیا ہے اور دنیا کی کوئ کتاب حتیٰ کہ مقدس ترین کتب توریت، انجیل وغیرہ میں بھی التزام صحت کا اتنا خیال نہیں رکھا گیا جتنا حدیث کے متعلق ہمیں ملتا ہے۔ اصولاً یہ بیان صحیح ہے کہ حدیث کی کتابوں میں جو سنیوں کی حدیثیں ہیں اور جو شیعوں کی حدیثیں ہیں، ان میں اختلاف ہو۔ لیکن عملاً ایسا نظر آتا ہے کہ مفروضہ ہی ہے۔ راویوں کا بے شک فرق ہے۔ مثلاً میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت پر ایک چیز بیان کرتا ہوں، وہی بات میرا شیعہ بھائ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت پر بیان کرتا ہے، تو یہ مفروضہ کہ شیعہ سنی کی ساری حدیثوں میں فرق ہے، غلط ہے۔ فرق صرف روایت کرنے والوں میں ہے، حدیث کے مندرجات میں فرق نہیں ہے۔ تضاد شاذ و نادر ہوگا۔ اب تک کوئ ایسی خاص چیز ملی بھی نہیں، جس سے یہ کہا جائے کہ شیعہ کتابوں میں الف، چیز کا حکم ہے اور سنی کتابوں میں اس کے بالکل برعکس الف، کی ممانعت کا حکم دیا گیا ہے۔ اختلافی باتیں جو ہمیں نظر آسکتی ہیں ان کی طرف اشارہ کرتا ہوں۔ سنی خاص کر حنفی، شافعی اور حنبلی نمازوں میں ہاتھوں کو سینے پر باندھتے ہیں اور ہمارے شیعہ بھائ ہاتھوں کو چھوڑ کر نماز پڑھتے ہیں۔ یہ اس لیے نہیں کہ حدیثوں میں اختلاف ہے بلکہ اس لیے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض اوقات ہاتھ باندھ کر نماز پڑھی۔ بعض اوقات ہاتھ چھوڑ کر پڑھی۔ یہ بات آسانی سے سمجھ میں آتی ہے مثلاً فرض کیجئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک جنگ میں زخمی ہوگئے اور ہاتھ باندھ نہیں سکتے تھے، کیا کریں، ہاتھ چھوڑ کر ہی پڑھیں گے۔ ایک شخص نے دیکھا کہ رسول اللہ ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھ رہے ہیں۔ پھر اسے موقع نہیں ملا کہ کچھ عرصہ بعد دیکھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ ہاتھ باندھ کر نماز پڑھ رہے ہیں تو وہ اسی سنت پر عمل کرے گا جس کو وہ دیکھ چکا ہے۔ یہ چیز ایک پہلو سے ہمارے لیے اہمیت اختیار کرجاتی ہے۔ میرے استاد نے آج سے کوئ ساٹھ پینسٹھ سال پہلے پرائمری اسکول میں یہ نکتہ بیان کیا تھا، جسے میں کبھی بھول نہیں سکتا کہ اللہ کو اپنے حبیب سے جو محبت تھی، اس کی خاطر اللہ نے چاہا کہ اپنے حبیب کی ہر ہر حرکت کو قیامت تک محفوظ رکھے، لہٰذا چند لوگوں کے ذریعہ سے مثلاً شیعہ فرقے کے ذریعے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حرکت محفوظ کرلی گئ۔ کہ ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری حرکت ایک دوسرے گروہ کے ذریعے سے اللہ نے قیامت تک کے لیے محفوظ رکھی۔ اس طرح جو اختلاف عمل میں نظر آتا ہے وہ حدیث کی غلطی کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو مختلف زمانوں کے عملوں اور حرکتوں پر مبنی ہے۔ اس لیے ہمیں باہم ایک دوسرے کا متحمل ہونا چاہیے۔ حدیث کے اختلاف پر جھگڑنے کی جگہ یہ فرض کرنا چاہیے کہ اس خاص صورتحال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم دیا تھا۔ دوسری صورتحال (context) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرا حکم دیا۔ ایک دوسری مثال لیجئے، جس کا آج کل اخباروں میں بھی ذکر آتا ہے یعنی “چوری کے جرم میں ہاتھ کاٹنا” سنیوں کے ہاں پہنچے سے ہاتھ کاٹنے کا ذکر ملتا ہے اور شیعوں کے ہاں ہاتھ کی صرف انگلیاں کاٹنے کا ذکر ملتا ہے۔ مگر یہ خیال نہ کیجئے کہ حدیثوں میں اختلاف ہے، بلکہ سنیوں کے ہاں کی حدیثوں میں بھی اس کا ذکر آیا ہے کہ ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف انگلیوں کو کٹوایا تھا۔ تو ان حالات میں بجائے اس کے کہ اسے فرقہ واری اختلاف قرار دیں ہم ایک دوسرے کا تحمل کریں اور حدیث پر اپنے فرقے کے بیان کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کریں، جو ہماری نجات کے لیے کافی ہے۔ یہ نہیں کہ ان اختلافات کو دور کرنے کی لاحاصل کوشش کریں جو کبھی دور نہیں ہوسکتے۔

سوال2:

یہ سوال مکرر ہے کہ کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھی؟ حدیث سے ثابت کریں؟

جواب:

امام مالک رح کی کتابیں آپ پڑھیں تو آپ کو نظر آئے گا کہ وہ اس کا ذکر کرتے ہیں اور وہ حدیث کی بناء پر کرتے ہیں۔ جب کہ امام مالک رح خود سنیوں ہی کے ایک امام ہیں اور مالکی مذہب کے بانی ہیں۔ یہ لوگ بھی ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتے ہیں۔

سوال3:

جو حدیثوں کا رجسٹر حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تیار کیا تھا وہ کب تک موجود رہا اور کب ضائع ہوا؟

جواب:

مجھے اس کا کوئ علم نہیں۔ صرف یہ حدیث بیان ہوئ ہے کہ انہوں نے ایک مجموعہ تیار کیا تھا اور اسے اپنے شاگردوں تک پہنچایا تھا اور وہ کب ضائع ہوا، اس کا مجھے علم نہیں۔

سوال4:

کیا حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ لکھنا پڑھنا جانتے تھے جب کہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ میں حدیثیں کافی بیان کرتا ہوں مگر عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ مجھ سے زیادہ جانتے تھے کیونکہ وہ لکھتے تھے اور میں لکھتا نہیں تھا۔

جواب:

اس میں کوئ تضاد نہیں ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہ صرف عربی لکھنا جانتے تھے بلکہ وہ حبشی زبان بھی جانتے تھے، فارسی زبان بھی جانتے تھے، کئ زبانیں جانتے تے۔ گویا بہت عالم شخص تھے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پہلے لکھنا شروع کیا، ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بعد میں اس کا خیال آیا۔ ظاہر ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس حدیثوں کا زیادہ ذخیرہ تحریری صورت میں جمع ہوگیا اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ان حدیثوں کو جانتے تھے لیکن تحریری صورت میں نہیں تھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ مکی مسلمان ہوئے ہیں۔ لازمی بات ہے کہ وہ شخص جو شروع سے لکھتا رہا ہو اس کے پاس حدیثیں زیادہ ہوں گی اور وہ شخص جسے لکھنے سے تو خوب واقفیت ہے لیکن دیر سے حدیثیں لکھنے کا موقع ملا، اس کے پاس حدیثیں کم ہوں گی۔ ان دونوں باتوں میں کوئ تضاد نہیں۔

سوال5:

آپ نے ابھی اپنے خطبہ میں فرمایا کہ ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کے سوال کے جواب میں فرمایا، خدا کی قسم! جو کچھ میری زبان سے نکلتا ہے وہ اللہ کی طرف سے ہوتا ہے یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، اللہ کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں بولتے جب کہ بعض علماء کے نزدیک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اختلاف ہوسکتا ہے۔ یعنی ان کی ہر بات درست نہیں، وضاحت فرمائیں؟

جواب:

میں واضح کرچکا ہوں کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی و الہام سے کوئ چیز معلوم ہوچکی ہو اور وہ بیان کریں گے تو وحی پر مبنی ہوگی۔ لیکن وحی ابھی آئ نہیں ہے، وحی کے انتظار میں ہیں، فوری معاملہ درپیش ہے تو اجتہاد کریں گے۔ یعنی اپنی رائے سے کوئ حکم دیں گے اور اس کے متعلق وہ حدیث ملتی ہے کہ اگر مجھے وحی آچکی ہوتی تو میں تم لوگوں سے مشورہ نہ کرتا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض وقت وحی کا انتظار رہتا تھا اور فوری ضرورتوں سے وہ خود اجتہاد کرکے اپنے فہم و فراست سے احکام دیا کرتے تھے اور ان احکام میں بعض وقت وحی کے ذریعہ سے تنسیخ بھی ہوجاتی ہے۔ اس ضمن میں یہ مثال ملاحظہ ہوکہ جنگ کے قیدیوں سے کیا برتاؤ کیا جائے؟ جنگ بدر کے موقع پر یہ معاملہ پیش آیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی وحی کی غیر موجوگی میں اور انتظار میں صحابہ سے مشورہ کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مشورہ دیا کہ ان سب کا سرقلم کردیا جائے، یہ کبھی مسلمان نہیں ہوں گے۔ اسلام کے ازلی وہ ابدی دشمن ہیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا نہیں، آج وہ مسلمان نہ ہوں لیکن ممکن ہے ان کے بچوں میں سے کوئ مسلمان ہوجائے۔ میری رائے میں ان کو قتل نہیں کرنا چاہیے۔ ہماری دوسری ضرورتیں ہیں، انہیں فدیہ لیکر رہا کردیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مشورے کو قبول کیا اور وہی حکم دیا کہ انہیں قتل نہ کیا جائے بلکہ فدیہ لیا جائے۔ اللہ کو یہ بات پسند نہ آئ۔ فرمایا “لو لا کتاب من اللہ سبق لمسکم فیما اخذتم عذاب عظیم” (اگر پہلے ہی سے اللہ اس کا فیصلہ نہ کرچکا ہوتا (کہ اس پرانے قانون کو بدلا جائے) تو تم جو فدیہ لے رہے ہو اس پر تم لوگوں کو سخت سزا دی جاتی) آپ دیکھ رہے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وحی کی غیر موجودگی میں بعض اوقات انسانی ضروتوں سے اور انسانی طریقہ سے مشورے کے ساتھ یا بغیر مشورے کے اپنی صوابدید کی بناء پر احکام دیا کرتے تھے اور بعض وقت وہ اللہ کو پسند نہیں آتا تھا۔ اس وقت فوراً تنسیخ کی وحی آجاتی تھی تاکہ امت غلط چیزوں پر عمل نہ کرے۔ اس واقعے کی تھوڑی سی توجیہ میں اور کروں گا۔ قرآن مجید میں ایسی آیتیں ہیں جب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ پرانے انبیاء کی شریعت پر عمل کرو۔ توریت میں حکم دیا گیا ہے کہ دشمن سے لیے ہوئے مال غنیمت کو جلاڈالو۔ وہ خدا کا مال ہے، خدا تک پہنچانے کے لیے تم اس کو جلا ڈالو۔ تم اس سے استفادہ نہ کرو۔ جب کوئ نئ وحی نہیں آتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فریضہ تھا کہ اس پرانے خدائ قانون یعنی توریت پر عمل کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی مصلحت سے اس پر عمل نہیں فرمایا، اس سے خدا نے وہ آیت نازل کی “لو لا کتاب من اللہ سبق لمسکم فیما اخذتم عذاب عظیم” (اگر پہلے ہی سے اللہ اس کا فیصلہ نہ کرچکا ہوتا (کہ اس پرانے قانون کو بدلا جائے) تو تم جو فدیہ لے رہے ہو اس پر تم لوگوں کو سخت سزا دی جاتی) بہر حال ان دونوں میں کوئ اختلاف نہیں ہے۔ اس حدیث کو کہ میری زبان سے میرے منہ سے جو بات نکلتی ہے وہ برحق ہوتی ہے، اس معنی میں لیں کہ اولاً یا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم وحی کے ذریعے معلوم کردہ چیزوں کو بیان کرتے ہیں۔ یا بشری حیثیت سےبھی بیان کرتے ہیں، عمداً کسی کو بھٹکانے یا گمراہ کرنے کے لیے نہیں بلکہ جو چیز مناسب ترین ہے اور جس کی خدا نے ممانعت نہیں کی ہے اس کا حکم دیتے ہیں۔ ان دونوں میں کوئ تضاد نہیں رہتا۔ ضمنی طور پر ایک سوال ہے کہ ہم حدیث کے صحیح ہونے کا اندازہ کس طرح لگائیں؟ اس کا جواب میں دے چکا ہوں کہ علمائے حدیث نے مختلف علوم اختراع کیے ہیں جن سے حدیث کی روایتہً اور درایتہً دونوں طرح سے جانچ ہوسکتی ہے اور ہم معلوم کرسکتے ہیں کہ کس حدیث پر اعتماد کیا جائے اور کس حدیث پر اعتماد نہ کیا جائے۔

سوال 6:

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جس صحابی کو “استعن بیمینک” کے الفاظ فرمائے تھے ان صحابی کا اسم گرامی کیا ہے؟

جواب:

میں بیان کرچکا ہوں کہ صحابی کا نام حدیث میں مذکور نہیں۔ ایک صحابی آئے، انہوں نے کہا میں بھول جایا کرتا ہوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا “استعن بیمینک” چونکہ ماخذ میں نام درج نہیں، اس لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ میں آپ کو نام بتاسکوں البتہ ابو رافع کے متعلق بھی ذکر آیا ہے اور میں عرض کرچکا ہوں کہ وہ ایک آزاد شدہ غلام تھے انہیں بھی یہ دقت پیش آتی تھی کہ وہ بھول جاتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، کیا میں آپ کی بیان کردہ چیزوں کو لکھ سکتا ہوں؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے دائیں ہاتھ سے مددلو۔ یعنی لکھ لیا کرو۔

سوال 7:

جو حضرات غلط قسم کا پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ احادیث کو تین سو سال بعد مدون کیا گیا وہ کیا دلیل پیش کرتے ہیں؟

جواب:

وہ دلیل یہ ہے کہ ان کے نزدیک اولاً صحیح بخاری جو تیسری صدی کی تالیف ہے وہ حدیث کی قدیم ترین کتاب ہے لیکن بخاری سے لیکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک جو دور گزرے ہیں اور امام بخاری رح کے استاد اور استاد کے استاد، انہوں نے حدیث کو تحریری صورت کبھی نہ دی۔ لیکن اب ان سب کی کتابیں بڑی حد تک دستیاب ہوچکی ہیں۔ اس لیے وہ پرانا اعتراض جو گولڈ سہیر Goldzeir نے کیا تھا باقی نہیں رہتا۔ اس سلسلے میں ایک چھوٹا سا لطیفہ میں آپ سے بیان کرتا ہوں۔ کوئ چار پانچ سال کا عرصہ ہوا، میں نے جرمن زبان میں ایک مضمون لکھا تھا جو جرمنی کے ایک رسالے میں شائع ہوا۔ اس میں یہی بات بیان کی گئ تھی کہ حدیث کے متعلق یہ تصور کہ وہ تین سو سال بعد مدون ہونا شروع ہوئ، فلاں فلاں اسباب سے صحیح نہیں۔ مضمون چھپنے کے کوئ چھ آٹھ مہینے کے بعد ایک جرمن پروفیسر نے اس موضوع پر ایک نیا مضمون لکھا، اور وہی پرانی دلیلیں اس میں دہرائیں کہ حدیث ناقابل اعتماد ہے، وہ تین سو سال بعد جمع ہونی شروع ہوئ۔ میرا اصول رہا ہے کہ کسی پر اعتراض نہ کروں، واقعات کو اس طرح پیش کروں کہ لوگ اپنے ممکنہ اعتراض کا جواب خود ہی پالیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب یہ دوسرا مضمون چھپنے کے لیے آیا، اسے بھی شائع کردیا گیا ایڈیٹر نے فٹ نوڈ دیا کہ صاحب مضمون کو چاہیے کہ فلاں نمبر میں شائع شدہ، حمید اللہ کے مضمون کو پڑھ لے۔ اس سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ کون سا اصول بہتر ہے۔

سوال8:

امام مہدی رح کے بارے میں متعارض احادیث کا کیا حل ہے؟

جواب:

مجھے کوئ علم نہیں کہ کیا متعارض حدیثیں ہیں۔ حدیث کی کتابوں میں ذکر آیا ہے کہ آخری زمانے میں میری امت سے ایک شخص پیدا ہوگا، جس کا نام میرے ہی نام کے مطابق ہوگا، یعنی “محمد” اس کے باپ کا نام میرے باپ ہی کے نام کے مطابق ہوگا یعنی “عبداللہ” اس کی ماں کا نام میری ہی ماں کے نام کے مطابق ہوگا یعنی “آمنہ” اور وہ یہ یہ کام کرے گا۔ میرے علم میں ایسی کوئ حدیثیں نہیں ہیں کہ انہیں متعارض کہا جائے۔ البتہ حدیث میں کہیں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ فلاں سال پیدا ہوں گے، کب ہوں گے؟ ہمیں کوئ پتہ نہیں۔ جب بھی آئیں گے اس کے لیے ہمیں تیار رہنا چاہیے تاکہ امام مہدی رح کے اچھے رفیق بننے کا شرف حاصل ہوسکے۔

سوال9:

حدیث قدسی چونکہ خدائے پاک کے الفاظ ہیں تو حدیث قدسی کو قرآن پاک میں کیوں نہیں شامل کیا گیا؟ وضاحت کریں۔

جواب:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مناسب نہیں سمجھا، یہی اصل جواب ہے کیونکہ ضرورت نہیں تھی کہ قرآن مجید کو ایک لا محدود کتاب بنایا جائے۔ بہتر یہی ہے کہ قرآن مجید مختصر ہو۔ ساری ضرورت کی چیزیں اس کے اندر ہوں اور وقتاً فوقتاً اس پر زور دینے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دیگر چیزیں بیان کریں جو حدیث میں بھی آئی ہیں اور حدیث قدسی میں بھی۔ اس سے ہم استفادہ کرسکتے ہیں لیکن اس کو قرآن میں شامل کرنے کی ضرورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محسوس نہیں فرمائ۔ حدیث قدسی کی جو کتابیں ہیں ان میں کوئ چیز ایسی نہیں ہے جو قرآن پر اضافہ سمجھی جاسکتی ہے، بلکہ قرآن ہی کی بعض باتوں کو دوسرے الفاظ میں زور دے کر بیان کیا گیا ہے۔

سوال10:

آپ نے تقریر میں فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں انشورنس کا نظام رائج تھا۔ ذرا وضاحت فرمائیں کہ کیا موجودہ انشورنس کے نظام میں اور اس انشورنس میں کیا فرق ہے؟ کیونکہ موجودہ انشورنس کے نظام کو غیر شرعی کہا جاتا ہے۔

جواب:

زمانہ حال میں دوطرح کے بیمے یا انشورنس ہے ایک سرمایہ دارانہ Capitalist انشورنس اور دوسرے کو تعاونی Mutualist انشورنس کہتے ہیں۔ Capitalist میں سرمایہ دار انشورنس کمپنیاں قائم کرتے ہیں اور Clients سے اتنی رقم لیتے ہیں جو انشورنس کے متوقع ہرجانوں سے کچھ زیادہ ہو۔ گویا پوری منفعت سرمایہ دار لے لیتے ہیں۔ Mutualist سسٹم میں Clients منفعت میں شریک ہوتے ہیں۔ مثلاً موٹر کار کی انشورنس کمپنی کو لیجئے۔ پانچ سو آدمی اس کے ممبر بنتے ہیں اور ہر شخص ہر سال ایک سو روپیہ ادا کرتا ہے۔ اگر کمپنی کو پہلے سال پچاس ہزار روپے کی آمدنی ہوئ جب کہ ایک ممبر کے حادثے کا معاوضہ دوہزار روپے دینا پڑا۔ اس کے علاوہ دس ہزار روپے ملازمین کو تنخواہوں کے لیے دینے پڑے اور باقی رقم محفوظ رہی۔ دوسرے سال پرانے ممبروں سے سو سوپے کی جگہ کچھ کم رقم لی جاتی ہے۔ Capitalist انشورنس میں پوری منفعت سرمایہ دار لیتے ہیں۔ Mutualist سسٹم میں Clients کو استفادے کا موقع ملتا ہے۔ عہد نبوی میں جو انشورنس کا نظام تھا وہ Mutualist سے کچھ قریبی مشابہت رکھتا ہے۔ وہ حقیقت میں ایک دوسرے کے تعاون اور امداد باہمی کے اصول پر مبنی تھا۔ یعنی ایک قبیلہ کے جملہ افراد اپنے قبیلے کی انجمن کے خزانے کو سالانہ تھوڑی تھوڑی رقم دیتے ہیں۔ مثلاً ہر شخص ایک درہم، دو درہم دیتا ہے اور جب کبھی کوئ حادثہ پیش آتا ہے تو کمیٹی کا یہ سرمایہ جو سارے افراد قبیلہ کی طرف سے آیا تھا، اس شخص کی ضرورت کے لیے کام آتا تھا جسے ہرجانہ ادا کرنا ہے پھر اس میں Mutualist سسٹم کو بڑھا کر یہ نظام قائم کیا گیا تھا کہ اگر ایک قبیلہ کے خزانے میں رقم کافی نہ ہوتو اس کے ہمسائے میں جو کمیٹی ہے وہ بھی اس کی مدد کرے اور بالآخر حکومت مدد کرے۔ یہ دو مختلف سسٹم رہے ہیں ظاہر ہے کہ اس ٹیکنیکل چیز کو میں چند الفاظ میں پوری طرح واضح نہیں کرسکتا۔

سوال11:

کیا غلطی تسلیم کرنے کے بعد احادیث کی روشنی میں انتقام، سزا، جرمانہ، ضروری ہے یا معاف کردینا اسلام کے اصولوں کے منافی ہے؟ جواب ضرور دیں التجا ہے۔

جواب:

مجھے اعتراف ہے کہ میں آپ کا مفہوم پوری طرح نہیں سمجھ سکا۔ یہاں لفظ “غلطی” سے جرم مراد لیتا ہوں۔ اس کی دو قسمیں ہیں۔ بعض جرم ایسے ہیں جن کے لیے شریعت نے سزا مقرر کردی ہے، اسے حد کہا جاتا ہے، مثلاً چوری، مئے نوشی اور قتل وغیرہ۔ یہ سات آٹھ جرائم ہیں جن کے لیے حد مقرر ہے۔ ان پر معافی مانگنے کے باوجود سزا معاف نہیں ہوتی۔ مثلائ کوئ چوری کرے تو اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا، چاہے وہ معافی مانگ لیے۔ قتل کے سلسلے میں قاضی سزائے موت تو دے گا لیکن سزائے موت کا نفاذ مقتول کے قریبی رشتہ داروں کی مرضی پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ وہ خون کی جگہ خون بہا لیکر اس ملزم کو چھوڑ دیں۔ یہ ساری تفصیلیں حدیث اور فقہ کی کتابوں میں ملتی ہیں۔

سوال12:

قرآن نظم اور معنی دونوں کا مجموعہ ہے، جب کہ حدیث صرف قول رسول ، فعل رسول، تقریر رسول کا نام ہے، اگرچہ قول رسول کا ترجمہ کسی اور نے کیا ہو۔ تو حدیث کے قرآن سے برابر ہونے کے کیا معنی ہیں؟

جواب: پہلے میں کافی وضاحت سے بیان کرنے کی کوشش کرچکا ہوں۔ اس کو مختصراً پھر دہراتا ہوں کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں ایک شخص یہ کہے کہ یا رسول اللہ یہ قرآن ہے، اس پر عمل کرتا ہوں لیکن اپنے آپ کو حدیثوں کا پابند نہیں کرتا۔ تو ایسے شخص کو مسلمان قرار نہیں دیا جاسکتا اسے امت سے خارج کردیا جائے گا۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد چونکہ حدیث کے ثابت کرنے کا وہ وسیلہ نہیں ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں روبرو ہوکر، شخصی طور پر سننے میں ہوتا تھا۔ حدیث کی تدوین، تحفظ اور نقل ایک نسل کے بعد دوسری نسل میں جانا، اس احتیاط سے نہیں ہوسکتا جو قرآن کے متعلق ہوئ ہے، تو اب ہم قرآن اور حدیث میں فرق کرنے پر مجبور ہیں، لیکن اصولاً دونوں یکساں ہیں کیونکہ قرآن خود کہتا ہے “من یطع الرسول افقد اطاع اللہ” ان حالات میں میری دانست میں دونوں یکساں ہیں لیکن ثبوت اور شہادت کی ضرورتوں کے تحت ہم ان میں فرق کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں آپ کے حضور میں یہ سوال پیدا نہیں ہوتا۔

سوال13:

اولیاء اللہ کی قبروں پر جاکر السلام علیکم یا اھل القبور کہنا، فاتحہ پڑھنا اور ان کے طفیل سے خدا سے فضل و کرم کی التجا کرنا یہ امور قبر پرستی میں شامل ہیں یا نہیں؟

جواب:

میں سمجھتا ہوں کہ اس سوال کی کوئ اہمیت نہیں ہے۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم مزارات کی زیارت فرماتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم السلام علیکم یا اھل القبور کہا کرتے تھے، ان کے لیے فاتحہ پڑھتے تھے تو میں اگر کروں تو سنت ہی کی پیروی ہوگی، بدعت اور جدید چیز نہ ہوگی۔ باقی کسی کے طفیل سے اللہ کے فضل و کرم کی التجا کرنا، یہ نیت پر منحصر ہے۔ اگر آپ یہ خیال ظاہر کریں کہ چونکہ میں اس صاحب قبر کو رشوت دے چکا ہوں، اس پر پھول چڑھا چکا ہوں، لہٰذا ان کا فریضہ ہے کہ جو چیز اللہ میاں نہیں چاہتے وہ کرڈالیں، یہ چیز شرک ہوگی۔

سوال14:

یتیم بچے کو اس کے دادا کی وراثت سے کیوں محروم کیا گیا۔ وراثت سے محرومی کے پس پشت جو مصلحت کار فرما ہے اس پر روشنی ڈالیے؟

جواب:

قانون کا ایک اصول ہوتا ہے اور اس اصول سے بعض وقت اتفاقاً کسی فرد کو نقصان پہنچ سکتا ہے، تو ایک فرد کے نقصان کی خاطر عام اصول کو بدلا نہیں جاسکتا۔ عام اصول یہی ہے کہ ایک شخص کی وفات پر اس کے فلاں فلاں رشتہ داروں کو ایک حصہ وراثت میں دیا جاتا ہے جو قرآن نے مقرر کردیا ہے۔ اگر اتفاقاً اس قانون کی وجہ سے کسی ایک فرد کو نقصان پہنچتا ہے تو اس کا حل بھی قرآن و حدیث میں بیان کردیا گیا ہے۔ چنانچہ وصیت کا ایک قانون اسلام میں پایا جاتا ہے کہ جس شخص کو وراثت میں سے حصہ نہیں ملتا تو اسے مرنے والا شخص وصیت کے ذریعے سے کوئ چیز دے دے۔ عام قاعدہ یہ ہے کہ کسی شخص کے مرنے پر اس کے بیٹے کو حصہ ملے اور پوتے اپنے دور میں حصہ پائیں گے۔ ان کو اس مرنے والے شخص سے یعنی دادا سے حصہ لینے کی ضرورت نہیں۔ لیکن ایک خاص صورت میں جب اس پوتے کا باپ مرچکا ہے، دادا کے لیے ممکن ہے کہ اپنے مال کا ایک حصہ، وصیت کے ذریعے سے، اس پوتے کو دے دے تاکہ اسلامی قانون کے عام قاعدے کو بدلنے کی ضرورت پیش نہ آئے اور اس انفرادی دشواری، پیچیدگی اور مصیبت کو، جو پوتے کو پیش آنے والی ہے اسے بھی دور کیا جائے۔ یہ ہے فلسفہ اسلامی قانون کا کہ قانون، قانون ہی رہے اور جو استثنائ صورتیں پیش آئیں، ان کا بھی استثنائ حل پیش کیا جائے۔

تبصرہ عدنان مسعود

کمپوزنگ خاور بلال

Leave Your Comment

Your email address will not be published.*

Forgot Password