مقبول عام سائنسی لٹریچر کے قارئین کے لئے مشہور ماہر حیاتیات رچرڈ ڈاکنز کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ۔ سام ہیرس، ڈینیئل ڈینیٹ اور کرسٹوفر ہچنز کے ساتھ ان کا شمار جدید الحاد کے ’’چار شاہ سواروں‘‘ میں ہوتا ہے جن کی خاص وجہ شہرت ان کی شد ت پسند اور مادیت میں ڈوبی ہوئی مذہب دشمنی ہے۔ ڈاکنز ایک کٹر ڈاروینی مبلغ کے طور پر جانے جاتے ہیں اور ان کی تما م مشہور تصنیفات مثال کے طور پر ’خود غرض جین (Selfish Gene)‘، ’مبسوط جینیاتی ترکیب (Extended Phenotype)‘ ، ’باغ عدن سے پھوٹتا دریا(River Out of Eden)‘ اور ’نابینا گھڑی ساز(The Blind Watchmaker)‘ وغیرہ حیاتیات میں ڈاروینی روایت کا تسلسل ہونے کے ساتھ ساتھ مذہب، اخلاقیات اور نظریہ ءتخلیقِ عالم کے خلاف ثانوی تبصروں کے طور پر بھی مانی جاتی ہیں۔ مگر ان کی کتاب ’خدائی مغالطہ(The God Delusion)‘ مذہب کے خلاف ایک کھلا اعلان ِ بغاوت ہے ۔ ڈاکنز کے بقول اس کتاب میں انہوں نے خدا کے مفروضے کوسائنسی بنیادوں پر پرکھا ہے اور ان کی کتاب عوامی شعور اجاگر کرنے کے لئے کم از کم چار مقدمات قائم کرتی ہے۔ اوّل یہ کہ ملحدین ایک پر اطمینان، اخلاقی اور متوازن زندگی گزار سکتے ہیں، دوم، قدرتی چناؤ وغیرہ جیسے سائنسی نظریات خدائی مفروضہ کی بہ نسبت کائناتی تعبیرات کے لئے زیادہ معتبر ہیں،سوم، بچوں کو ان کے والدین کے مذہب سے منسوب کرنا زیادتی ہے اور چہارم یہ کہ ملحدین کو معذرت خواہانہ رویہ کی بجائے اس پر افتخار ہونا چاہئے کیونکہ الحاد ایک آزاد اور صحت مند ذہن کی دلیل ہے۔ ذیل میں ڈاکنز کی کتاب پر تبصرہ پیش خدمت ہے۔
عصرِ جدیدمیں مغربی فلسفیانہ روایت نے ، جس کی جڑیں سولہویں صدی کی روشن خیالی کی تحریکوں بالخصوص کانٹ اور ہیوم کے فلسفے میں ہیں، سائنسی جدوجہد کو وہ بنیادیں فراہم کیں جنہوں نےبلاواسطہ طور پر عمومی لاادریت اور بلاواسطہ طور پر الحادکو فروغ دیا ۔ ان رجحانات کے بانیوں میں بنیادی طور پر اہلِ منطق، طبعی علوم کے ماہرین اور ماہرین رکازیات وغیرہ شامل تھے سائنس کو جتنا مقبول ِعام ان کی تحریروں نے بنایا، ویسا سائنسی ثقافت کی پوری تاریخ میں کسی اور نے نہ کیا تھا یہی نہیں بلکہ انہوں نے سائنسی دائرہء کار کو مابعدالطبیعات، اخلاقیات اور الٰہیات جیسے خالص فلسفیانہ میدانوں تک پھیلا دیا۔ مگر اس پوری روایت میں مذہب کو اس قدر معاندانہ طور پر عقل سے متصادم نہیں دکھایا گیا جتنا کہ ہمیں رچرڈ ڈاکنز کی کتاب ’’خدائی مغالطہ‘‘[1] (God Delusion) میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ ڈاکنز ایک شدید سائنسی فطرت پرستی کے پس منظر میں یہ قضیہ قائم کرتے ہیں کہ الحاد انسانی ارتقاء کا قدرتی نتیجہ ہے۔ہر قسم کا مذہبی عقیدہ لازما عقل و استدلال سے ناموافق ہوتاہے کیونکہ اس کا تجرباتی اثبات ناممکن ہے۔ڈاکنز کی تعبیر کے مطابق اس دنیا میں تمام بدنما مظاہر کی جڑ وں میں کہیں نہ کہیں مذہب ضرور موجود ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ انسانی شعور میں موجود تصورِ خدا ارتقاء کے نتیجے میں پیدا ہونے والا عالمِ کل اور قادرِ مطلق ہستی کو ماننے کا محض ایک فطری محرک ہے ، یہ ایک ایسی خصوصیت ہے جو ارتقائی عمل میں ’’کسی مفید شے‘‘ کا ماحصل ہوسکتی ہے یا پھر سادہ انداز میں دیکھا جائے تو عظیم الشان ارتقائی عمل میں ایک چھوٹی سی غلطی کا نتیجہ ہے۔ اپنے چند پیش رو مفکرین مثلا تھامس ہکسلے، برٹرنڈ رسل اور اسٹیفن ۔جے ۔ گولڈ کے برعکس جو الحاد کی بجائے کی لاادریت سے منسوب ہونا پسند کرتے ہیں، رچرڈ ڈاکنز یہ تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں کہ کوئی تجربی ثبوت نہ رکھنے کے باعث انکارِ خدا ایک بلا جواز مابعدالطبیعاتی دعویٰ ہے اور اس پر اصرار ِمحض ایک کٹر راسخ الاعتقادی ۔ لہٰذا مذہب اور سائنس دو بالکل مختلف میدان ہیں جن کے اپنے اصول و ضوابط اور باہم غیر مربوط دائرہ کار ہیں[2]۔ نتیجے کے طور پر خدا کی ہستی سے متعلق کوئی بھی دعویٰ یا سوال سائنسی تصور کیا جانا چاہئے کیونکہ یہ سوال کسی بھی طرح انسانی زندگی اور کائنات کے متعلق کونیاتی استفسارات کو نظرانداز نہیں کر سکتا۔
بہت سے مفکرین کی جانب سے ڈاکنز کے طریقہ کار کو بجا طور پر ’’متشدد دہریت‘‘ کہا گیا ہے کیوں کہ وہ مذہب کے تمام عملی مظاہر کو ڈھا دینے کی حمایت کرتے ہیں اور ایسے ہر ضابطہ کی نفی کرتےہیں جو مذہب کو عملی طور ممکن بنائے اور اس کی انفرادی یا اجتماعی بنیادوں کو مضبوط کرے۔ جیسا کہ کیرن آرمسٹرانگ اپنی کتاب ’’ خدا کامقدمہ ‘‘[3] میں جامعیت کے ساتھ بیان کرتی ہیں، ڈاکنز ایک مخصوص تخفیفی میلان کی ترجمانی کرتے ہیں جو غیر معمولی طور پر مذہبی شدت پسندوں سے متشابہ ہے اور دونوں ایک دوسرے کو ’’بدی کا نمونہ ‘‘ سمجھتے ہیں۔یہ دونوں فکری رجحانات غیر ضروری تسہیل اور تعمیم کی بناء پر اپنی اپنی جگہ کچھ ناگزیر قضایا قائم کرتے ہیں جن سے اخذ کردہ نتائج آخر کار ایک دوسرے کے بدترین اور بدشکل مظاہر کو نمایا ں کرتے ہیں۔ لہٰذا یہ امر کسی حیرانی کا باعث نہیں کہ مصنف کرسٹوفر ہچنز اور ابن وراق وغیرہ کی تنقیدی تحریروں[4] کے اطلاق سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ مذہب کے متعلق ایک روادار، متحمل اور مبنی براحترام زاویہ ءنگاہ بھی شدیدقابل مذمت ہے کیوں کہ مذہب کی کوئی بھی شکل مذہبی شدت پسندی کا جواز فراہم کرتی ہے۔ اس طرح کے بودےمنطقی تجزیات کی سطحیت واضح ہے اور یقینا کسی مستعد علمی تنقید کی متقاضی نہیں ، مزید یہ کہ ان دونوںمتشدد رجحانات کے درمیان مماثلت دریافت کرنا نہایت سہل ہے۔
خدا کا وہ تصور جو ڈاکنز اپنا مقدمہ پیش کرنے کے لئے قائم کرتے ہیں نہایت سوقیانہ تجسیم پر مبنی ہے۔ تحریر میں جا بجا قاری کو یہ ماننے پر مجبور کیا جا تا ہے کہ ہر خدا پرست، اس سے قطع نظر کے وہ کس عقیدے یا مذہب سے تعلق رکھتا ہے، کسی ایسی مافوق الفطرت ہستی کامکانی تصوررکھتا ہے جسے ڈاکنز اپنے مخصوص ہجویہ انداز میں ’’فلکیاتی چائے دانی[5]‘‘ یا ’’اڑنے والے سپیگٹی عفریت[6]‘‘ سے تشبیہ دیتے ہیں۔ ڈاکنز کی فطرت پرست استغراقی کیفیت کے لئے کوئی ایسا تصور جس میں ایک عالمگیر رمزیت کے استعمال سے کسی ماورائے زمان و مکان ناقابلِ بیان ہستی کی طرف اشارہ و کنایہ ہو بالکل ناممکن اور عجیب ہے۔ لہٰذا مذہبی عقیدہ ، جیسا کہ مصنف گلا پھاڑ کر وکالت کرتے ہیں ، ایک نادانی اور سادہ لوحی پرمبنی ہے جس کی کسی ذہین ، غیر متعصب اور معقول آدمی سے ہر گز توقع نہیں کی جا سکتی۔ مابعدالطبیعاتی مسائل و مضامین کی جانب اپنے تشکیک آمیز رویے اور سہل پسند ی کے باعث ڈاکنز شایدجان بوجھ کر مذہبی صداقت میں پوشیدہ اساسی یا جوہری نامعلومیت کو نظر انداز کرتے ہیں جو اس صداقت کی ملکیت کےکسی بھی انفرادی دعوے کا ایک جزو لاینفک ہے۔ وہ یہ تسلیم کرنے پر آمادہ نظر نہیں آتے کہ کچھ مذہبی انتہا پسندوں کے علاوہ کوئی خدا پرست صراحت کے ساتھ یہ دعویٰ ہرگز نہیں کرتا کہ وہ حقیقت ِ مطلق کی کوئی ہمہ گیر قابلِ بیان شبیہ رکھتا ہے ۔وحی خود بھی لیس کمثلہ شئی جیسے کے ذریعے اس قسم کے کسی بھی دعوے کا راستہ ہمیشہ کے لئے بند کر چکی ہے اورحقیقت ِمطلق اور معاد کے باب میں جو کچھ ہمارے پاس ہے اب محض رمز وکنایہ کے اسلوب میں ہے جس کی توجیہ کرنے میں ہر خدا پرست اپنی انفرادی حیثیت میں آزاد ہے۔
ڈاکنز ،شاید اپنے غیر فلسفیانہ میلانات کے باعث، بظاہر یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ایک خدا پرست کے لئے اسی تحیر میں ایک مسرت ، ایک ہیبت و استعجاب کی ملی جلی نفسیاتی کیفیت پوشیدہ ہے جو کائنات میں اس کے اپنے مبہم ہونے کے عاجزانہ احساس کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔ مگر اتنا تو ضرور ڈاکنز بھی تسلیم کریں گے کہ سائنس اگرچہ ہمارے ارد گرد پھیلی پیچیدگی کو سلجھانے کی سعی کرتی ہے اس کے باوجود وہ مذہب کے ساتھ اس تحیر میں شریک ہے کیونکہ بالآخر اسے بھی ایک تجرباتی تسلسل کے ساتھ ساتھ ایک عملی اعتقاد کا سہارا لینا ہی پڑتا ہے۔ اس مخصوص فکری پسِ منظر میں ایک احتمالی نمونےکی بنیاد پر نام نہاد’’ مفروضہء خدا‘‘ کا رد غیر معمولی طور پر ناقابل یقین ہے۔ جب تک ’’احتمال ‘‘ کو ’’صداقت‘‘ یا ’’حق‘‘ کے مترادف تصور نہ کیا جائے ڈاکنز کااخذ کردہ نتیجہ ’’خدا تقریبا یقینی طور پر موجود نہیں‘‘ فلسفیانہ نکتہ نگاہ سے کوئی علمی قضیہ نہیں مانا جا سکتا ۔ یہ ایک لطیف مگر اہم نکتہ ہے جسے کارل پاپر نے اپنی تصنیف ’’سائنسی دریافت کی منطق[7]‘‘ میں اس طرح بیان کیا ہے:[8]
’’۔۔۔ہمیں سائنس کو ایک’’مجموعہء علم‘‘ کی بجائے ’’ مفروضوں کے ایک نظام‘‘ کے طور پر دیکھنا چاہئے، یعنی اندازوں یا توقعات کا ایک نظام جو اصولی طور پر تو قابل دفاع نہیں مگر ہم اسے اس وقت تک استعمال کرتے رہیں گے جب تک کہ وہ تجربے کی کسوٹی پر پورا اترتا رہے اور اس بارے میں ہم کبھی یہ کہنے میں حق بجانب نہیں کہ ہمیں علم ہے کہ یہ ’’سچ‘‘یا ’’کم و بیش یقینی ‘‘ یا پھر’’احتمالی‘‘ ہے۔‘‘
اس سخت ارتقائی فکری قالب کی بدولت ڈاکنز کے لئےاپنے نظریہ اخلاق کوکسی نہ کسی قسم کی ڈاروینی بنیادیں فراہم کرنا ناگزیر تھا ۔انسانی عقل کو بالآخر حیاتیاتی ارتقاء کا نتیجہ قرار دینا شاید کتاب کا سب سے بودا اصرار ہے جس کی بنیاد پرشاید یہ دعویٰ کرنا مقصود ہے کہ ہمارے اجداد عقلی طور پر حقیقتِ مطلق کےمعروضی فہم کی نسبتا کم صلاحیت رکھتے تھے۔یہ کم و بیش وہی بات ہے جس کی طرف اقبال اپنے دوسرے خطبے میں مذہبی تجربے کی ہیئت کا ذکر کرتے ہوئے اشارہ کرتے ہیں : کوئی بھی ایسا نقطہء نگاہ جس کی رو سے عقل ارتقاء کا ماحصل ٹھہرے ، سائنس اور اس کے اپنے ہی معروضی اصول ِ تحقیق کے مابین تعارض پیدا کر دے گی۔ اس تعارض کے ایک مناسب بیان کے لئے وہ ویلڈن کار کا حوالہ دیتے ہیں:[9]
’’اگر عقل ارتقاء ہی کی پیداوار ہے تو زندگی کی نوعیت اور اس کے آغاز کے بارے میں تمام میکانکی تصور لغو ٹھہرتا ہے۔ لہٰذا وہ اصول جسے سائنس نے اختیار کیا اس پر یقینا نظر ثانی کی جانی چاہیے۔ ہم اس سلسلے میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ خود متناقض بالذات ہے۔ عقل جسے ادراک ِ حقیقت کا رویہ کہا جاتا ہے کس طرح بجائے خود کسی ایسی چیز کا ارتقاء ہو سکتی ہے جو اگر موجود ہے تو اس طریقِ ادراک یعنی عقل کی ایک تجرید کی حیثیت سے۔ اگر عقل زندگی کا ارتقاء ہے تو زندگی کا یہ تصور کہ اس سے عقل کا ارتقاء ادراکِ حقیقت کے ایک مخصوص طریق کی صورت میں ہو ا ہے لازما کسی مجرد میکانکی حرکت کی نسبت زیادہ محسوس فعالیت کا تصور ہونا چاہیے تھا جواپنے محتویات کے ادراک کے تجزیےکے ذریعے عقل کو اپنے آپ ظاہر کر سکتی ہے۔اور پھر مزید اگر عقل زندگی کے ارتقاء کا نتیجہ ہے تو یہ مطلق نہیں بلکہ زندگی کی سرگرمی کے حوالے سے اضافی ہے۔اب اس صورت میں سائنس ادراک کے موضوعی پہلو کو خارج کر کے ایک مطلق معروضی تصور پر کس طرح اپنی عمارت استوار کر سکتی ہے؟ ایسے میں ظاہر ہے کہ علومِ حیات کے لئے لازم ہے کہ وہ سائنسی اصولوں پر دوبارہ غور کرے۔‘‘[10]
ڈاکنز اپنی کتاب ایک ایسی معاشرتی مہم کے طور پر متعارف کرواتے ہیں جس کا مقصد مختلف مفروضوں کے متعلق عوامی شعور کو اجاگر کرناہے مثال کے طور پر الحاد کا لاادریت کے مقابلے میں زیادہ معقول ہونا، مذہب کا ہر برائی کی جڑ ہونا، مذہبی تعلیم کا بچوں سے زیادتی کے مترادف ہونا، مذہب اور اخلاقیات کا مکمل طور پر باہم غیر متعلق ہونا اور الحاد کا ایک ایسامعروضی نتیجہ ہونا جس کا اخذ کرنا ایک فرد کے لئے باعثِ شرم نہ ہو اور صرف اسی کا ایک ایسا واحد معقول عقیدہ ہونا جو کوئی بھی انسان فخر کے ساتھ رکھ سکے۔ اگر انصاف کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے تو یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ان تمام مقاصد میں سے چند تو وہ ضرور جزوی طور پر حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں، بالخصوص ایک خاص قسم کے تشکیک پسند اور سادہ لوح جدید ذہن کو مذہب ترسی کی طرف مائل کرنا اور ساتھ ہی ساتھ ملحدین کوایسی مضبوط مگر بازاری مناظرانہ بنیادیں فراہم کرنا جن سے ان کا فکری تفاخر قائم ہو سکے۔مگرایک ایسے خدا پرست قاری کے لئے جو مذہب اور سائنس کی انفرادی اقالیم سے یکساں درجے میں تحیرزدہ ہے اور پل باندھ کر فاصلے کم کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے شاید کتاب کا واحدمفید مگر مخفی پہلو وہ سوالات و اعتراضات ہیں جو اس کو اپنی داخلی اور پوشیدہ ترین ایقانی کیفیات کو جانچنے میں مدد دیتے ہیں۔ برٹرنڈ رسل سے جب ایک بار ایسے ثبوت کے بارے میں دریافت کیا گیا جو ان کو خدا کی ہستی کے بارے میں قائل کر دے گا تو انہوں نے جواب دیا کہ اگر آسمان سےآنے والی ایک غیبی صدا انہیں اگلے چند گھنٹوں میں پیش آنے والے واقعات سے آگاہ کر دے اور وہ تمام واقعات بعینہ اسی طرح وقوع پذیر بھی ہو جائیں تو وہ شاید خدا کی موجودگی کے امکا ن کے بارے میں غور کریں۔ مجھے شک ہے کہ اتنا صریح معجزانہ تجربی کشف بھی شاید ڈاکنز کو ’’مفروضہ ء خدا‘‘ کی حقانیت کی جانب فکر پر آمادہ نہ کر سکے۔ ان کی اپنی ہی تحریر سے مستعار یہ طنزیہ جگت شاید ان کی باغیانہ فکر کی صحیح ترجمانی کرتی ہے کہ وہ خدا کے نہ ہونے کومحض اعتقادی درجہ میں مانتے ہی نہیں بلکہ جانتے ہیں[11]۔
حواشی:
۲. یہ اسٹیفن ۔ جے ۔ گولڈ کی اختراع کردہ اصطلاح non-overlapping magisteria کی طرف اشارہ ہے ۔
3. Karen Armstrong, The Case for God, Anchor Reprint Edition, 2010.
4. Christopher Hitchens, The Portable Atheist: Essential Readings for the Non-Believer, [Editor] Perseus Publishing; Christopher Hitchens, God is not Great: The Case Against Religion, Atlantic Books, 2007; Ibn Warraq, Why I Am Not a Muslim, Prometheus Books, 1995.
5. Cosmic Teapot.
6. Flying Spaghetti Monster.
7. Karl Popper, The Logic of Scientific Discovery, Routledge Classics, 2nd Edition, 2002.
8. ibid
۹. ملاحظہ ہوں تجدید فکریاتِ اسلام کے حواشی۔
۱۰. علامہ محمد اقبال، تجدید فکریاتِ اسلام ، ترجمہ ڈاکٹر وحید عشرت ، اقبال اکادمی پاکستان(۲۰۰۲)
۱۱. یہ کارل یونگ کے ایک انٹرویو میں دیئے گئے جواب کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔
Shaukat khattak
June 9, 2015 at 11:45 amThe font and lines’ spacing, on the site, are not good at all; a reader finds it hard to read. Please improve it to make it easily readable. Thanks
م ز اسلم
April 14, 2016 at 4:20 amمحترم منتظمین اور عاصم بخشی صاحب!
السلام علیکم و رحمۃاللہ و برکاتہ
آپ حضرات کی بیش بہا کاوشیں انتہائی گراں قدر اور بہت قابلِ ستائش ہیں۔
آج کے اس دور میں سوشل میڈیا پر الحادی پروپیگنڈا زوروں پر ہے ۔
ہماری نئی نسل کنفیوژ ہے اور گستاخ ملحدوں کے بعید از عقل دلائل کا فوری جواب چاہتی ہے۔
ملحدین کے دلائل کے جوابات کے لیے آپ کی ویب سائٹ یقینا موزوں ترین ہے۔
اللہ ربّ العزت آپ کی مخلصانہ محنت کو قبول فرماۓ
آمین ثم آمین ثم آمین