یہ عدیؓ بن حاتم طائی ہیں، جو تاج دارِ مدینہ کی کٹیا میں آپ کو دم بخود ہو کر سن رہے ہیں۔۔ کیا واقعتا دنیا سر تا پیر بدل جانے والی ہے اور یہ جن چور اچکوں سے بھری ہوئی ہے وہ کیسے ولی بن جائیں گے؟!مگر حیران کیوں ہوں، اِس ہستی کے ساتھ عالمِ بالا کا اتصال ہونے پر آسمانوں میں پہرے بٹھا دیے جاتے ہیں تو زمین پر اِس کی راہ میں تبدیلیاں رونما ہوجانا کیا بڑی بات ہے!
قبیلہ ٔ طئے کے رہزن، عرب میں ضرب المثال مانے جاتے ہیں۔ حِیرہ سے حضرموت تک انہی کی مار ہے۔ اِسی ’طئے‘ کے یہ ایک سردار ہیں جو اپنی بہن کے ترغیب دلانے پر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں۔ عدیؓ کہتے ہیں:
رسول اللہ ﷺ مسجد نبوی سے مجھے (بطور اعزازِ خاص) اپنے ساتھ گھر لے گئے۔ راستے میں ایک بے حال بڑھیا آپ کو روک کر کھڑی ہو گئی۔ بڑی دیر تک آپ اُسکی بات سنتے اور اُسکا مسئلہ حل کرتے رہے۔ میں نے دل میں کہا: یہ بادشاہ تو ہرگز نہیں ہوسکتا! گھر میں ایک ہی تکیہ، جس میں کھجور کی چھال بھری ہے، آپ مجھے دے دیتے ہیں کہ اُس پر بیٹھوں اور میرے انکار کے باوجود مجھے ہی اس پر بٹھا دیتے ہیں اور خود میرے سامنے زمین پر بیٹھ جاتے ہیں۔ میں نے پھر دل میں کہا: یہ شخص بادشاہ تو ہرگز نہیں ہو سکتا!تب آپ مجھ سے مخاطب ہوتے ہیں:
عدی! تجھے کیا چیز روک کر بیٹھی ہے کہ تو کہہ دے ’اللہ کے سوا کوئی پوجا کے لائق نہیں‘؟۔۔۔۔ تو کیا تجھے کوئی نظر آتا ہے جو پوجا کے لائق ہو؟
عدی! تجھے کیا چیز روک کر بیٹھی ہے کہ تو کہہ دے ’اللہ سب سے بڑا ہے‘؟۔۔۔۔ تو کیا کوئی ہے جو اللہ سے بڑا ہو؟
عدی! کیا تجھے یہ چیز روک کر بیٹھی ہے کہ تو دیکھ رہا ہے آج ہمارے ہاں تنگ دستی نے ڈیرہ ڈال رکھا ہے اور دنیا ہماری مخالفت میں تلی بیٹھی ہے؟ عدی! کیا تو نے حِیرہ دیکھ رکھا ہے؟ میں نے عرض کی، حِیرہ میرا دیکھا ہوا تو نہیں مگر جانتا ہوں کہاں واقع ہے۔ فرمایا: تو پھر اگر تیری زندگی رہی تو تو دیکھ لے گا، حیرہ سے ایک عورت ذات کجاوے میں بیٹھی تن تنہا بیت اللہ کا طواف کر کے جاتی ہے پورا راستہ سوائے اللہ کے اُسے کسی کا ڈر نہیں، نہ کسی کی پناہ میں آتی ہے اور نہ کسی کی ضمانت میں۔ (اور میں جی ہی جی میں سوچ رہا تھا: تو ’طئے‘ کے غنڈے اُس دن بھلا کہاں چلے جائیں گے!)
پھر فرمایا: عدی! اگر تیری زندگی رہی تو دیکھ لے گا کہ کسریٰ بن ہرمز کے خزانے فتح ہو کر آتے ہیں۔ میں نے پوچھا: کیا فرمایا: کسریٰ بن ہرمز؟؟؟! فرمانے لگے: ہاں کسریٰ بن ہرمز!!!
عدی! اگر تیری زندگی رہی تو دیکھ لے گا کہ ایک آدمی سونے یا چاندی سے مٹھی بھر کر نکلتا ہے اور آواز لگاتا ہے کہ کوئی یہ صدقہ وصول کر لے، مگر اُسے کوئی صدقہ لینے والا نہیں ملتا!
بخاری کے الفاظ ہیں
عدیؓ نے (راوی کے ساتھ گفتگو میں) کہا: (اکیلی)عورت کجاوے میں حیرہ سے طوافِ بیت اللہ کیلئے روانہ ہوتی میں خود دیکھ چکا ہوں جسے (راستے میں) خدا کے سوا کسی کا ڈر نہ تھا۔ کسریٰ بن ہرمز کے خزائن جس لشکر نے لئے میں خود اُس میں شامل تھا۔ اور اگر تم لوگوں کی زندگی رہی تو (تیسری چیز بھی) تم دیکھ لوگے۔
(یہ واقعہ ہم نے، اختصار کے ساتھ، متعدد مصادر سے اپنے الفاظ میں بیان کیا ہے، جوکہ مندرجہ ذیل ہیں:
صحیح البخاری، کتاب: المناقب، باب: علامات النبوۃ فی ال اِسلام
سنن الترمذی، کتاب: التفسیر، باب: ومن سورۃ فاتحۃ الکتاب
مسند اَحمد، اَول مسند الکوفیین، حدیث عدی بن حاتم الطائی رضی اللہ عنہ
قبیلہ ٔ طئے کے رہزن، عرب میں ضرب المثال مانے جاتے ہیں۔ حِیرہ سے حضرموت تک انہی کی مار ہے۔ اِسی ’طئے‘ کے یہ ایک سردار ہیں جو اپنی بہن کے ترغیب دلانے پر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں۔ عدیؓ کہتے ہیں:
رسول اللہ ﷺ مسجد نبوی سے مجھے (بطور اعزازِ خاص) اپنے ساتھ گھر لے گئے۔ راستے میں ایک بے حال بڑھیا آپ کو روک کر کھڑی ہو گئی۔ بڑی دیر تک آپ اُسکی بات سنتے اور اُسکا مسئلہ حل کرتے رہے۔ میں نے دل میں کہا: یہ بادشاہ تو ہرگز نہیں ہوسکتا! گھر میں ایک ہی تکیہ، جس میں کھجور کی چھال بھری ہے، آپ مجھے دے دیتے ہیں کہ اُس پر بیٹھوں اور میرے انکار کے باوجود مجھے ہی اس پر بٹھا دیتے ہیں اور خود میرے سامنے زمین پر بیٹھ جاتے ہیں۔ میں نے پھر دل میں کہا: یہ شخص بادشاہ تو ہرگز نہیں ہو سکتا!تب آپ مجھ سے مخاطب ہوتے ہیں:
عدی! تجھے کیا چیز روک کر بیٹھی ہے کہ تو کہہ دے ’اللہ کے سوا کوئی پوجا کے لائق نہیں‘؟۔۔۔۔ تو کیا تجھے کوئی نظر آتا ہے جو پوجا کے لائق ہو؟
عدی! تجھے کیا چیز روک کر بیٹھی ہے کہ تو کہہ دے ’اللہ سب سے بڑا ہے‘؟۔۔۔۔ تو کیا کوئی ہے جو اللہ سے بڑا ہو؟
عدی! کیا تجھے یہ چیز روک کر بیٹھی ہے کہ تو دیکھ رہا ہے آج ہمارے ہاں تنگ دستی نے ڈیرہ ڈال رکھا ہے اور دنیا ہماری مخالفت میں تلی بیٹھی ہے؟ عدی! کیا تو نے حِیرہ دیکھ رکھا ہے؟ میں نے عرض کی، حِیرہ میرا دیکھا ہوا تو نہیں مگر جانتا ہوں کہاں واقع ہے۔ فرمایا: تو پھر اگر تیری زندگی رہی تو تو دیکھ لے گا، حیرہ سے ایک عورت ذات کجاوے میں بیٹھی تن تنہا بیت اللہ کا طواف کر کے جاتی ہے پورا راستہ سوائے اللہ کے اُسے کسی کا ڈر نہیں، نہ کسی کی پناہ میں آتی ہے اور نہ کسی کی ضمانت میں۔ (اور میں جی ہی جی میں سوچ رہا تھا: تو ’طئے‘ کے غنڈے اُس دن بھلا کہاں چلے جائیں گے!)
پھر فرمایا: عدی! اگر تیری زندگی رہی تو دیکھ لے گا کہ کسریٰ بن ہرمز کے خزانے فتح ہو کر آتے ہیں۔ میں نے پوچھا: کیا فرمایا: کسریٰ بن ہرمز؟؟؟! فرمانے لگے: ہاں کسریٰ بن ہرمز!!!
عدی! اگر تیری زندگی رہی تو دیکھ لے گا کہ ایک آدمی سونے یا چاندی سے مٹھی بھر کر نکلتا ہے اور آواز لگاتا ہے کہ کوئی یہ صدقہ وصول کر لے، مگر اُسے کوئی صدقہ لینے والا نہیں ملتا!
بخاری کے الفاظ ہیں
عدیؓ نے (راوی کے ساتھ گفتگو میں) کہا: (اکیلی)عورت کجاوے میں حیرہ سے طوافِ بیت اللہ کیلئے روانہ ہوتی میں خود دیکھ چکا ہوں جسے (راستے میں) خدا کے سوا کسی کا ڈر نہ تھا۔ کسریٰ بن ہرمز کے خزائن جس لشکر نے لئے میں خود اُس میں شامل تھا۔ اور اگر تم لوگوں کی زندگی رہی تو (تیسری چیز بھی) تم دیکھ لوگے۔
(یہ واقعہ ہم نے، اختصار کے ساتھ، متعدد مصادر سے اپنے الفاظ میں بیان کیا ہے، جوکہ مندرجہ ذیل ہیں:
صحیح البخاری، کتاب: المناقب، باب: علامات النبوۃ فی ال اِسلام
سنن الترمذی، کتاب: التفسیر، باب: ومن سورۃ فاتحۃ الکتاب
مسند اَحمد، اَول مسند الکوفیین، حدیث عدی بن حاتم الطائی رضی اللہ عنہ