آج اہل یورپ بضد ہیں کہ شرق وغرب کی صحیح ومستند تاریخ وہی ہے جو حکماءمغرب نے لکھی ہے۔ مگر یہ دعویٰ کرنے والے مغربی دانش ور ہمیں یہ کبھی نہیں بتاتے کہ خود اہل مغرب کا بابائے سائنس راجر بیکن بھی عربوں کاشاگرد تھا۔ وہ خود اپنے شاگردوں کو تلقین کیا کرتا تھاکہ اگر صحیح علم حاصل کرنا ہے تو عربی پڑھنا سیکھو۔
مورخین مغرب یونانیوں کو سرچشمہ علوم بتاتے ہیں لیکن یہ نہیں بتاتے کہ اُن کی تصنیفات چھ سو برس تک اسکندریہ، ایتھنز اور قسطنطنیہ کی بوسیدہ عمارات میں مقفل پڑی رہیں او ربالآخر انہیں ان خرابوں سے مسلمانوں ہی نے نکالا، اُن کے عربی تراجم کئے۔ یہی تراجم نشاتہ ثانیہ میں اہل یورپ تک پہنچے اور اُنکے لئے مشعل راہ بنے۔
آج تاریخ کا طالب علم اگر غور کرے تو اُسے باآسانی وہ اثرات نظر آسکتے ہیںجو اسلامی تہذیب نے یورپ اور اہل یورپ پر ڈالے۔ آج مغربی زبانوں کے بہت سے الفاظ اپنی ہئیت اور ساختگی سے خود بتاتے ہیں کہ اُن کے اصل عربی مصادر ہیں۔ جیسے انگریزی زبان کا لفظ (مئير) عربی لفظ ”معیار“ سے مشتق ہے۔ انفلوانزا ”انزال الانف“ (ناک بہنا) سے۔ اسی طرح آج سبھی جانتے ہیں کہ انگریز لفظ (ايڈميرل) عربی ”امیر البحر“ کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ سوچنا یہ ہے کہ یہ سب عربی لفظ یورپی زبانوں تک کیسے پہنچے؟ عربی لفظوں کے اس کھلے سرقہ کی یہ بات ہمیں مغربی علماءتو بتائیں گے نہیں کیونکہ یہ سچائی بیان کرنے سے اُن کی تہذیبی اور تمدنی ترقی کی اصل قلعی کھل جائے گی۔
اسی طرح اصل کو چھپاتے ہوئے اہل مغرب کو لمبس اور واسکو ڈی گاما کو امریکہ اورہندوستان کا دریافت کنندہ مشہور کرتے ہیں لیکن یہ کبھی نہیں بتاتے کہ کولمبس نے بحر پیمائی کی تعلیم اسلامی درس گاہوں سے حاصل کی تھی اور اُس نے بحری مہمات کے دوران رہنمائی کیلئے جو کمپاس (قطب نما) استعمال کیا تھا وہ مسلمان جہاز رانوں کی ایجاد تھا۔
١٤٩٨ءمیں جب واسکو ڈی گاما مشرقی افریقہ کے ساحل پر ملندی پہنچا تو اُسے وہاں ایک ایسا بحری ناخدا مل گیا جس نے اُسے براہ راست جنوبی ہند کے ساحل کالی کٹ تک پہنچا دیا۔ دوسری صورت میں اگر اُسے اس ناخدا کی رہنمائی میسر نہیں آتی تو وہ کبھی ساحل ہندوستان تک نہ پہنچ پاتا اور آج دنیا کی تاریخ کچھ اور ہوتی۔ یہ بحری ناخدا ”شہاب الدین احمد ابن ماجد“ تھا جو پندرھویں صدی عیسوی کا ایک عرب جہاز راں ہے اور اُس نے علم بحریات پر ایک ایسی کتاب تصنیف کی تھی جس میں بحر ہند، بحر قلزم، خلیج فارس، بحیرہ چین کے مغربی حصے اور مجمع الجزائر میں جہاز رانی کی ہدایات درج ہیں۔ واسکو ڈی گاما کی رہنمائی کرنے والا واقعہ مختصر طور پر اُس کے ملاحوں میں سے ایک نے اپنے روزنامچے میں درج کیا ہے۔ اس واقعہ کی مزید تفصیلات سولہویں صدی کے پرتگالی مورخوں نے بیان کی ہیں۔
یہ مورخ اس اسلامی بحری معلم کا نام Barros, Malemo Canaqua۔ ”معلم کنکا“ بتاتے ہیں یعنی ستاروں کی مدد سے جہاز رانی کے فن کا اُستاد۔ اس روایت کی تائید ایک عربی کتاب ”البرق الیمانی فی الفتح العثمانی“ سے ہوتی ہے جس میں پرتگالیوں کے اس مسلمان رہنما کا نام واضح طور پر احمد بن ماجد درج ہے۔ اس عربی کتاب کا مصنف قطب الدین النہروانی رقمطراز ہے کہ ”پرتگالیوں کا (جو فرنگیوں کی ہی ایک شاخ ہیں) ممالک ہند میں داخلہ۔ اُن کا ایک گروہ سبتہ کی تنگنائے میں جہازوں میں سوار ہوتا تھا اور بحر ظلمات (بحر اوقیانوس) میں داخل ہو کر کوہ قمر کے پیچھے سے گزر کر افریقہ کے مشرقی ساحل تک پہنچ جاتا تھا۔ جب وہ تنگنائے میں سے ایک ایسے مقام سے گزرتا جس کی ایک جانب پہاڑ ہے تو اُن کے جہاز نہ سنبھلتے اور ٹوٹ جاتے کیونکہ یہاں ہر وقت تلاطم رہتاتھا۔ اس لئے فرنگی کبھی بھی صحیح وسالم بحر ہند میں داخل نہ ہو پاتے۔ تاآنکہ اُن کی ایک کشتی بحر ہندتک پہنچ گئی۔ یہ لوگ اس سمندر کے متعلق معلومات کی تلاش میں تھے کہ اُنہیں ایک مسلمان ماہر ملاح احمد بن ماجد کی رہنمائی حاصل ہو گئی۔ اس عرب معلم نے پرتگالی بیڑے کے امیر (واسکو ڈی گاما) کی رہنمائی اس وعدے پر کی تھی کہ اُسے اس کی خدمات کا بڑا بھاری معاوضہ دیا جائے گا۔ مغربی مورخ اُسے مے نوشی کے قصے کا غلط رنگ بھی دیتے ہیں۔
پرتگالی مورخین نے اس واقعہ کو اس طرح بیان کیا ہے کہ واسکو ڈی گاما ملندی میں مقیم تھا۔ اُسے وہاں گجرات (ہند) کے کچھ ہندو ملے جن کے ہمراہ ایک مسلمان (مُور) بھی تھا۔ اس مسلمان نے واسکو ڈی گاما کو ہندوستان کے پورے ساحل کا نقشہ دکھایا جس میں دوائر نصف النہار اور خطوط متوازیہ بڑی تفصیل سے دکھائے گئے تھے۔واسکو ڈی گاما نے اِسے دیکھ کر یوں محسوس کیا جیسے اُسے ایک بہت بڑا خزانہ مل گیا ہو۔ اس خوف سے کہ کہیں وہ اس رہنما کو کھو نہ بیٹھے اُس نے جس قدر جلد ممکن ہو سکا جہاز میں سوار ہو کر (٢٤ اپریل ١٤٩٨ء)ارض ہند کی طرف سفر شروع کیا۔
ایک مغربی مصنف جیمز پرنسپ ابن ماجد کی علمی فوقیت کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ”میں نے کوشش کی کہ ایک عربی قطب نما حاصل کروں مگر بہت سے جہازوں میں سے ایک میں بھی قطب نما نہ مل سکا۔ آخر ایک عرب دوست سید حسین سیدی کے توسط سے ایک کتاب میں ایک عربی قطب نما کی تصویر ملی۔ یہ کتاب ”ماجد کتاب“ کہلاتی تھی یعنی ابن ماجد کی لکھی ہوئی تھی۔میرا یہ دوست اُسے عربوں کا ”جان ہملٹن“ کہتا تھا۔ یہ کتاب ایک جہاز کے ناخدا کے پاس تھی جو اس کتاب کی رہنمائی کے بغیر سفر نہیں کر سکتا تھا۔ لہٰذا میں نے اُس کتاب سے یہ تصور پھاڑ لی۔
عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ بحری قطب نما بھی ابن ماجد ہی کی ایجاد ہے مگر وہ اپنی ”کتاب الفوائد“ میں اس بات کی تردید کرتا ہے اور وضاحت کرتا ہے کہ یہ آلہ اُس کی ایجاد نہیں البتہ اُس نے اس آلے پر مقناطیس ضرور لگایا ہے۔ جس سے آلہ پہلے سے مغربی اور مصری جہاز رانوں کے استعمال میں آنے والے قطب نمائوں سے ہزار درجہ بہتر ہوگیا۔
ابن ماجد کو مورخین نے اڑتیس کتابوں کا مصنف بتایا ہے جن میں سے اکثر فلکیات، بحریات اور جہاز رانی کے موضوعات کا احاطہ کرتی ہیں۔ فرانسیسی مستشرق فیراں لکھتا ہے کہ جہاز رانی اور بحری علوم پر جدید انداز میں لکھنے والا پہلا مصنف ابن ماجد ہے۔ اگر عرض بلد کی ناگزیر غلطیوں کو نظرانداز کیا جائے تو آج بھی بادبانی جہاز رانی کیلئے اُس کی کتب بے مثال ہیں۔
تحریر :اخلاق احمد قادری
تاریخ | الحاد جدید کا علمی محاکمہ
May 30, 2019 at 8:58 am[…] یورپ کے مشہورلوگوں کے مسلمان معلم […]