ہمیں یہ سوال موصول ہوا:
ایک آدمی پہلے کہتا ہے: قرآن میں آیا ہے (سورۃ البقرۃ 62 کی آیت کے حوالہ سے) کہ ایک بھلے کام کرنے والا آدمی خواہ مسلمان ہے، خواہ یہودی، خواہ عیسائی، خواہ صابئ، بس خدا اور اگلے کسی جہان کو مانتا ہو تو قیامت کے روز اس کی بخشش ہو جانے والی ہے۔ پھر جب اس سے پوچھا جاتا ہے: کیا نبیﷺ کے مبعوث ہو جانے اور آپﷺ کا سن لینے کے بعد بھی جو شخص آپﷺ پر ایمان نہیں لاتا اور یہودی یا عیسائی یا صابئ ہی رہتا ہے، قیامت کے روز اس کی بخشش ہو جانے والی ہے؟ اور اس پر اسے سورۃ البینۃ کی آیت سنائی جاتی ہے إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِكِينَ فِي نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا أُولَئِكَ هُمْ شَرُّ الْبَرِيَّةِ… تو وہ کہتا ہے: یہ تو تب ہے جب وہ دل سے تو جانتے ہوں محمدﷺ سچے رسول ہیں مگر تکبر کی وجہ سے رسول کے ساتھ دشمنی کریں، یہ کفر ہوتا ہے۔اس مسئلہ کو آپ کیسے سلجھاتے ہیں؟
٭ہمارا جواب:
اس سوال کے دو حصے ہیں:
1. ایک: نبیِ خاتم المرسلینﷺ کی رسالت پر ایمان نہ لانے والے کسی بھی یہودی یا عیسائی یا صابئ کا کافر اور مستوجبِ دوزخ ہونا۔
2. دوسرا: اس کفر کرنے کا معنیٰ و مراد۔
سوال کے اِن دونوں حصوں پر ہم الگ الگ گفتگو کریں گے:
٭محمدﷺ پر ایمان نہ لانا.. صاف موجبِ دوزخ
جدید فتنے اگر پوری طرح آپ کے سامنے ہيں تو اس آدمی کو سلیم الفطرت جانئے جو آپ کے اٹھائے ہوئے اِس سوال پر جھینپ ضرور جاتا ہے؛ اور یہ کہنے کا حوصلہ نہیں پاتا کہ خاتم الرسل محمدﷺ کی بعثت ہو جانے کے بعد، اور آپﷺ کا سن کر، کرۂ ارض کا جو شخص یہودی اور عیسائی ہی رہتا ہے اسے قرآن کی جانب سے نجات کی باقاعدہ ضمانت حاصل ہے اور سورۃ البقرۃ (آیت 62) میں وارد وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ کی بشارتِ اخروی کے اندر اس کا پورا حصہ ہے!
ورنہ اس فکرِ جدید کو پھیلانے والے تو دیدہ دلیری سے یہ کہتے ملیں گے کہ: جی ہاں نبیﷺ کا سن کر بھی جو یہودی یا عیسائی آپﷺ پر ایمان نہیں لاتا، اُس کو نجات کی ضمانت خود قرآن مجید دیتا ہے لہٰذا آپ کون ہوتے ہیں اسے جہنم کی وعید سنانے والے؟! اور اس پر حوالہ اسی سورۃ البقرۃ کی آیت سے دیں گے! یہ تو رہے تقاربِ ادیان کے داعی اور دجالی گلوبلزم کے خدمتگار، جس سے بڑی گمراہی اِس دور میں شاید ہی کوئی ہو۔
البتہ جہاں تک ’تکبر‘ وغیرہ کی شرط لگانے والے ہمارے اِن حضرات کا تعلق ہے… تو یہ محض ایک سنگین تناقض self-contradiction کا شکار ہیں۔ یعنی ایک طرف مانتے ہیں کہ نبیﷺ کی بعثت ہوجانے اور آپﷺ کا سن لینے کے بعد بھی جو یہودی یا عیسائی آپﷺ پر ایمان نہیں لاتا وہ ہے تو صاف جہنم کی وعید ہی کا مخاطب۔ جبھی تو آپ کے سورۃ البینۃ کی آیت سنانے پر اِن صاحب نے اس بات کا اصولی اقرار کیا کہ نبیﷺ پر ایک یہودی یا عیسائی کا جانتے بوجھتے ہوئے ایمان نہ لانا ہے تو واقعتاً ابدی جہنم ہی کا موجب (بس شرط یہ ہے کہ وہ ایسا ازراہِ تکبر کرتا ہو!)۔دوسری طرف یہ حضرات سورۃ البقرۃ والی آیت کی رُو سے ایک یہودی یا عیسائی کے حق میں خدا اور آخرت کو مان رکھنے اور اچھے اعمال کر لینے کو ’’کافی‘‘ بھی قرار دے رہے ہیں، بلکہ اس نظریہ کی پُرزور تبلیغ کرتے پھر رہے ہیں، کیونکہ یہ شرط پوری کر لینے والے کو اِن کے خیال میں آیت کے اندر (محمدﷺ پر ایمان نہ لانے کے باوجود!!!) لَاخَوفٌ عَلَیۡھِمۡ وَلَا ھُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ کی بشارت سنا رکھی گئی ہے۔
بھئی اگر ’خدا‘ اور ’اگلے کسی جہان‘ کو مان رکھنے اور ’بھلے اعمال‘ کرلینے والے ایک یہودی یا عیسائی کو کچھ مزید (محمدﷺ کی رسالت) مانے بغیر ہی نجات کی ضمانت ہے (یعنی اگر آیت البقرۃ سے فی الواقع یہ مقصود ہے) … تو اُس ’مزید‘ کا کفر کر بیٹھنے والے کو (سورۃالبینۃ وغیرہ میں) جہنم کی وعید ہی سرے سے کیوں؟ اور اگر آپ یہ مانتے ہیں کہ اُس ’اضافی چیز‘ (محمدﷺ کی رسالت) کا کفر کرنے والے کو ابدی جہنم کی وعید قرآن میں باقاعدہ سنا رکھی گئی ہے (جیسا کہ سورۃ البینۃ میں مذکور ہوا)… تو وہ سرے سے ’اضافی‘ کیسے؟ وہ نجات کےلیے ’’باقاعدہ مطلوب‘‘ کیسے نہیں؟
یہ ہے ان حضرات کا تناقض۔
یعنی تھوڑی دیر کےلیے مان لیتے ہیں کہ ’’کفر‘‘ وہ ہوتا ہے جو از راہِ تکبر کیا جائے۔ مگر یہ بحث تو ’’کفر‘‘ کا معنیٰ متعین کرنے میں ہوئی نا۔ محمدﷺ کے ساتھ کفر کرنے کو موجبِ جہنم تو آپ نے تسلیم کر لیا! اور ایک اصولی مسئلہ تو ہمارے آپ کے مابین طے ہوا۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ محمدﷺ پر ایمان لانا یعنی مسلمان ہونا کرۂ ارض پر بسنے والے ہر اُس یہودی اور عیسائی پر جس نے محمدﷺ کا سن رکھا ہو (خود آپ کے نزدیک) فرض ہے۔ اور محمدﷺ پر ایمان نہ لانے والا ایسا ہر یہودی اور عیسائی (خود آپ کے نزدیک) دائمی جہنم کا مستوجب۔
پس ہمارے اور اہل کتاب کے مابین پائی جانے والی مشترکات commonalities تو خود آپ کے نزدیک کافی نہ ہوئیں جب تک کہ وہ وقت کے نبی – محمدﷺ – پر اترنے والی ایک ایک بات پر ایمان نہ لے آئیں؛ ورنہ صاف جہنم۔
البتہ اگر آپ کے نزدیک محمدﷺ کی بعثت ہوجانے اور آپﷺ کا سن لینے کے بعد بھی ایک یہودی اور عیسائی کو ’’خدا‘‘ اور کسی ’’اگلے جہان‘‘ کو مان رکھنا اور ’’بھلے کام‘‘ کر لینا نجات کےلیے بہت کافی ہے (از روئے آیت البقرۃ!!!) یعنی محمدﷺ پر ایمان لائے بغیر بھی اُس کی جنت کھری ہے… تو پھر محمدﷺ کو نہ ماننے پر (سورۃالبینۃ وغیرہ ایسے قرآنی مقامات کی بنا پر) آپ اُس کےلیے سرے سے پریشان ہی کیوں ہوتے ہیں؟؟؟ جب محمدﷺ کو نہ مانے بغیر (معاذاللہ) اُس کا گزارہ ہوتا ہے اور جنت اُس کی کھری ہے(آپ کے بقول آیت البقرۃ کی رُو سے!!!) تو اب اُس کے حق میں محمدﷺ کو نہ ماننے کی صورت میں ’’کفر‘‘ کا سوال ہی کیوں باقی رہ گیا ہے؟
غرض ’’کفر‘‘ کی تعریف آپ کے نزدیک کیا ہے اور ہمارے نزدیک کیا، یہ تو ہم بعد میں دیکھیں گے، ہم پوچھتے ہیں محمدﷺ کو رد کرنا سرے سے ’’کفر‘‘ اور ’’مستوجبِ جہنم‘‘ ہے ہی کیوں، جبکہ جنت اس کی محمدﷺ پر ایمان لائے بغیر ہی کھری ہے (اس منحرف فہم کی رُو سے جو آپ آیت البقرۃ سے لیتے ہیں)؟!!
چنانچہ سب سے پہلے میں چاہوں گا کہ آپ ان حضرات کے تناقض ہی کی نشاندہی کریں اور پھر انہیں اس سے نکل آنے کی دعوت دیں۔ اس تناقض سے نکل کر:
1. یاتو یہ اُس دجالی عقیدہ پر چلے جائیں جو محمدﷺ پر ایمان کو ناگزیر قرار نہیں دیتا اور سورۃ البینہ وغیرہ ایسے ان مقامات کو سرے سے خاطر میں نہیں لاتا۔ اُس کے قول کی رُو سے محمدﷺ کا پیروکار ہونا ہے ہی دنیا میں محض ایک آپشنل optional چیز (اس کے خیال میں، آیت البقرۃ کی رُو سے آدمی کو پورا آپشن ہے کہ یہودی رہے، یا عیسائی، یا صابئ)! اس دجالی عقیدہ پر چلے جانے کی صورت میں یہ حضرات قرآن کے ان سب محکم مقامات کا کوئی جواب نہ دے پائیں گے جن میں محمدﷺ اور آپﷺ کی لائی ہوئی ہدایت پر ایمان لانے کو کرۂ ارض کے ایک ایک یہودی اور عیسائی اور یہاں کے ہر ہر شخص کے حق میں ناگزیر ٹھہرایا گیا ہے۔ مانند:. قرآن کا یہ صریح اعلان: قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّـهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ يُحْيِي وَيُمِيتُ ۖ فَآمِنُوا بِاللَّـهِ وَرَسُولِهِ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ الَّذِي يُؤْمِنُ بِاللَّـهِ وَكَلِمَاتِهِ وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ “اے محمدؐ، کہو کہ “اے انسانو، میں تم سب کی طرف پیغمبر ہوں اس خدا کا جو زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے، اُس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے، وہی زندگی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے،پس ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے بھیجے ہوئے نبی اُمی پر جو اللہ اور اس کے ارشادات کو مانتا ہے، اورپیروی اختیار کرو اِس کی، امید ہے کہ تم راہ راست پا لو گے”۔﴿الاعراف: ١٥٨﴾ یا جیسے خود سورۃ البقرۃ کا ہی بنی اسرائیل کو باقاعدہ مخاطب کر کے صاف صاف یہ فرمانا: وَآمِنُوا بِمَا أَنزَلْتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُمْ وَلَا تَكُونُوا أَوَّلَ كَافِرٍ بِهِ ۖ “اور ایمان لاؤ میری اس تنزیل پر جو تمہارے پاس پہلے سے موجود (صحیفوں) کی تصدیق میں ہے۔ اور سب سے پہلے تم ہی اس کےکافر نہ بن جاؤ”۔﴿البقرة: ٤١﴾ مزید آیات کیلئے لنک دیکھیے:
2 اور یا پھر اس تناقض سے نکل کر یہ امت کے اس معروف عقیدے پر لوٹ آئیں جو کرۂ ارض کے ہر اس یہودی اور عیسائی کو جس نے محمدﷺ کا سن رکھا ہے مگر وہ آپﷺ پہ ایمان لانے پر آمادہ نہیں دوزخ کی ان وعیدوں کا مستوجب ٹھہراتا ہے جو ابھی اوپر ذکر ہوئیں… یہاں؛ اِنہیں قرآن سے نکالے جانے والے اِس متشابہ کو کہ (البقرۃ 62 میں) بظاہر محمدﷺ کی رسالت پر ایمان کے بغیر بھی نجات کا عندیہ نظر آتا ہے، قرآن کے ان محکم مقامات کی طرف لوٹانا ہو گا جن میں محمدﷺ پر ایمان نہ لانے والے کو دوزخ کی واضح دوٹوک وعید سنا دی گئی ہے، اور جن میں سے چند (آیات) ابھی اوپر ہم ذکر کر چکے۔
پس اِس تناقض کو اِنہیں کسی ایک کروٹ بٹھانا ہو گا:
یا یہ میدان کے اُس پار چلے جائیں؛ اور محمدﷺ کی بعثت ہو جانے کے بعد آپﷺ پر ایمان کو آپشنلoptional ٹھہرا دیں (اور اس صورت میں محمدﷺ پر ایمان کو ناگزیر ٹھہرانے اور محمدﷺ پر ایمان نہ لانے والے کو ابدی جہنم کی وعید سنانے والی نصوص کی تکذیب یا تاویل کریں)۔
یا یہ اِدھر ہماری طرف آ جائیں؛ اور محمدﷺ کی بعثت ہو جانے کے بعد آپﷺ کا سن رکھنے والے ہر یہودی و عیسائی ودیگر پر محمدﷺ کا پیروکار ہونے کو ناگزیر ٹھہرائیں؛ اور اس کو محکم مانتے ہوئے آیت البقرۃ سے نکالے جانے اس متشابہ کو اسی محکم ہی کی طرف لوٹائیں۔
متشابہ کو محکم کی طرف لوٹانا یہ ہوتا ہے کہ: ایک محکم مدلول تو بہرحال اور کسی قیمت پر ساقط نہ ہو۔ جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ متشابہ کے صرف وہ احتمالات مانے جائیں جو محکم سے متعارض نہ ہوں۔ البتہ اس کے وہ احتمالات جو محکم سے متعارض ہوں خودبخود ساقط ہو جائیں (ورنہ محکم کو ساقط ماننا پڑے گا)۔
اس تعارض سے ان کے نکل آنے کی:
ö اگر تو پہلی صورت ہے… یعنی یہ محمدﷺ پر ایمان کو کرۂ ارض کے کسی بھی باشندے کے حق میں ناگزیر نہیں بلکہ ’آپشنل‘ optional ٹھہرا دیتے ہیں… تو یہ قرآنی محکمات کا صاف کفر کرتے ہیں۔ کیونکہ قرآن نے اپنے آپ کو اور اپنے لے کر آنے والی ہستی (محمدﷺ) کو جس حیثیت میں پیش کیا ہے وہ یہ کہ اس پر ایمان نہ لانا صاف دوزخ کا موجب ہے۔قرآن کے اِس محکم کو کسی متشابہ کی بنا پر متنازعہ ٹھہرانا قرآن کے ساتھ صریح تصادم ہے۔
ö اور اگر دوسری صورت ہے… یعنی یہ محمدﷺ پر ایمان کو کرۂ ارض کے ہر یہودی، عیسائی اور صابئ کے حق میں ناگزیر ہی ٹھہراتے ہیں… تو پھر یہ اصولاً درست پٹڑی پر چڑھ آتے ہیں۔ تب ہمارے اور ان کے مابین مسئلہ صرف اتنا رہ جاتا ہے کہ محمدﷺ پر ’’ایمان‘‘ لانے کا کیا مطلب ہے اور محمدﷺ کے ساتھ ’’کفر‘‘ ہو جانے کا کیا معنی؟
پس اگر یہ اصولی بات ہمارے اور ان کے مابین سرے لگ چکی؛ اور انہوں نے تسلیم کر لیا کہ کرۂ ارض پر بسنے والا کوئی یہودی، عیسائی اور صابئ جب تک محمدﷺ پر ایمان نہیں لاتا اس وقت تک وہ دائمی دوزخ کی قرآنی وعید سے باہر نہیں… تو پھر ہم آگے چلتے ہیں۔
ایمان اور کفر کو ’دل کے فعل‘ میں محصور کرنا:
قرآنی استعمال میں یہ دو لفظ ’’ایمان‘‘ اور ’’کفر‘‘ ایک دوسرے کے مقابلے پر استعمال ہوتے ہیں۔ یعنی ایمان نہ لانے کی حالت کو ہی ’’کفر‘‘ کہا جاتا ہے؛ اور کفر سے نکل آنے کی حالت کو ہی ’’ایمان‘‘۔چونکہ ’’ایمان نہ لانے‘‘ کو ہی قرآنِ مجید میں ’’کفر‘‘ کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے لہٰذا علمائے عقیدہ نے کفر کو اس کی کسی ایک صورت میں محصور نہیں ٹھہرایا بلکہ دلائل کی بنیاد پر کفر کی چار صورتیں بیان کی ہیں:
1. کفرِ استکبار۔ یعنی حق (نبی یا اس کی لائی ہوئی کسی بات) کے آگے تکبر کرنا۔
2. کفرِ جحود۔ یعنی (نبی یا اس کی لائی ہوئی کسی بات کو) ساده رد کر دینا۔
3. کفرِ شک۔ یعنی (نبی یا اس کی لائی ہوئی کسی بات میں) شک کرنا۔ (جی ہاں یہ بھی کفر ہی کی ایک صورت ہے)۔
4. کفرِ اعراض۔ (رُوگردانی)۔ یعنی (نبی یا اس کی لائی ہوئی کسی بات کو) توجہ دینے کا ہی سرے سے روادار نہ ہونا۔
اب ہم معزز معترض سے پوچھتے ہیں: ’’کفر‘‘ کا یہ جو معنیٰ آپ نے بیان فرمایا ہے: یعنی دل میں تو وہ اس کو سچ مان گیا ہو (جسے جاننے کا ہمارے پاس ظاہر ہے کوئی ذریعہ نہیں ہے) لیکن از راہِ تکبر وہ اس سے تصادم ہی پر آمادہ ہو… اگر تھوڑی دیر کےلیے ہم یہ مان لیں کہ ’’کفر‘‘ کا صرف یہی ایک مطلب ہے… تو کیا آپ اسے صرف رسالتِ محمدی کے معاملہ میں ہی لاگو کریں گے یا دیگر ارکانِ ایمان کی بابت بھی ’’کفر‘‘ کا یہی معنیٰ لاگو فرمائیں گے؟
صرف ایک رسالتِ محمدی کی ہی قربانی کیوں؟
اگر تمام ارکانِ ایمان کے معاملہ میں ہی آپ ’’کفر‘‘ کا یہ معنیٰ لاگو کریں گےجیسا کہ آپ نے فرمایا کہ ’’ یہ تو تب ہے جب وہ دل سے تو جانتے ہوں محمدﷺ سچے رسول ہیں بس از راہِ تکبر آپﷺ سے دشمنی کریں‘‘… کیونکہ لفظِ کفر کا آپ بس یہی ایک معنیٰ جانتے ہیں… تو اللہ کے ساتھ ’’کفر‘‘ بھی تو پھر اسی وقت معتبر ہونا چاہئے جب ’’وہ دل سے جانتا ہو کہ اللہ ہے‘‘ لیکن محض تکبر سے اللہ کے ساتھ دشمنی کرے!!!
لہٰذا ایک ملحد کو بھی جو (بیچارہ!!!) کسی وجہ سے ’’دل سے یقین نہیں کر پایا کہ اللہ ہے‘‘ جنت کی خوشخبری دے دیجئے! (براہِ کرم یہاں کوئی اور بحث مت چھیڑیے؛ یہاں صرف ’’کفر‘‘ کا معنیٰ ہمارے زیرِبحث ہے)۔ دوسرا ایک ملحد جو ’’دل سے نہیں جانتا کہ قیامت ہے‘‘ اس کو بھی بخشش کی نوید سنا دیجئے۔ کیونکہ ’’کفر‘‘ کی تعریف آپ کے نزدیک یہ ہے کہ وہ ’’دل سے ایک بات جان گیا ہو اور بس از راہِ تکبر ہی وہ اس سے تصادم کرے‘‘۔
تب اکیلا ’’رسالتِ محمدی پر ایمان‘‘ ہی کیوں آپ کے اس اصول کی بھینٹ چڑھے، جبکہ رسالتِ محمدی کے دلائل اور شواہد اللہ کے فضل سے روئےزمین پر کسی بھی نبی کی رسالت کے دلائل و شواہد سے بڑھ کر ہیں۔ ایسے آدمی کو تو پھر اس سے کہیں بڑھ کر چھوٹ ملنی چاہئے جو مثلاً موسی علیہ السلام کی رسالت پر مطمئن نہیں یا جو مثلاً عیسی علیہ السلام کی رسالت پر مطمئن نہیں۔ یا جو مثلاً نوح علیہ السلام کی رسالت پر مطمئن نہیں۔ یا جو شخص یومِ آخرت پر مطمئن نہیں۔ اصول تو پھر یہ ہونا چاہئے کہ آدمی ایمانیات کی جس بھی چیز پر ’غیرمطمئن‘ ہو جائے وہ اس کے حق میں موجبِ کفر نہ ہو۔ مثلاً ایک آدمی کہے کہ بھئی میں تو ملائکہ کے وجود پر مطمئن نہیں، یا دوسرا کہے کہ میں تو کسی بھی رسالت پر مطمئن نہیں، اور تیسرا کہے کہ میں تو اس کائنات کو پیدا کرنے والی کسی ہستی پر ہی سرے سے مطمئن نہیں… تو یہ تینوں آدمی آپ کے بیان کردہ اس اصول کی رُو سے ’’کفر‘‘ کے مرتکب نہیں ہیں! ان سبھی کو نجات اور بخشش کی خوش خبری دیجئے!
حق یہ ہے اسلامی تاریخ میں ایک گمراہ فرقہ گزرا ہے، جہمیہ۔ یہ اس کا فلسفہ ہے کہ ’’کفر‘‘ اور ’’ایمان‘‘ کے مباحث کو ’دل سے جاننے‘ کے مسئلہ میں محصور کیا جائے۔ (جہمیہ کو بھی ’قرآن و حدیث‘ سے شاید وہی دلیلیں بھائی ہوں جو آپ کو بھا سکی ہیں!)۔ لہٰذا آپ کے معترض کی خدمت میں گزارش ہے کہ یہ سب گھوڑے جو یہ حضرات ’تحقیق‘ کے نام پر آج دوڑا رہے ہیں امت کی تاریخ میں بہت پہلے اور بڑی ’کامیابی‘ کے ساتھ دوڑائے جاچکے ہیں اور ان پر سواری کر کے امت کے کچھ ٹولے گمراہی کے کچھ بڑے بڑے گڑھوں میں گر بھی چکے ہیں۔ (تشابھت قلوبھم!!!)۔ سلامتی مطلوب ہے تو دین کے بنیادی امور (عقیدہ وغیرہ ایسے امہات المسائل) کی بابت سلف صالحین کے طریقے پر رہئے اور فہمِ نصوص میں ان کے راستے سے ہٹ کر کوئی نئی اپج اختیار کرنے سے بچئے۔ تسلی رکھئے، خوارج، جہمیہ، قدریہ اور معتزلہ وغیرہ بھی کچھ چھوٹے دماغ نہ تھے۔ وہ بہت بہت مخلص بھی تھے، بڑے بڑے محنتی اور نکتہ رس بھی، اور ’دلائل‘ کی بحث میں بہت بہت سنجیدہ بھی۔ بس صرف ایک چیز مفقود تھی اور وہ ہے مدرسۂ صحابہ کی پابندی، باقی ان کے پاس سب کچھ تھا، بلکہ آپ سے کچھ زیادہ ہی ہوگا۔ مگر مدرسۂ صحابہ سے آزاد، ’دلیل‘ کے تعاقب میں وہ بڑی بڑی سنجیدگی اور اخلاص کے ساتھ کیسے کیسے گڑھوں میں جا گرتے رہے، افکار کی تاریخ پڑھنے والے پر یہ بات اوجھل نہیں۔ ان میں سے جس جس نے اپنی بربادی کےلیے کسی گڑھے کا چناؤ کیا، اغلب یہ ہے وہ اسے ’بربادی کا گڑھا‘ جان کر اس میں نہیں کودا ہوگا! آگے آپ کی مرضی۔
یہ وجہ ہے کہ ہم اس پر زور دیتے ہیں فہمِ نصوص کے معاملہ میں امت کے معروف عقائد اور مسلمات کی تعلیم سب سے پہلے لیں اور اپنا تصورِ دین پیچھے سے چلے آتے دستور پر ہی استوار کریں۔ ’پہیے کی ایجادِ نو‘ کی کوشش ویسے تو سائنس اور ٹیکنالوجی میں بھی ایک فضول بات جانی جاتی ہے، البتہ دین میں تو اس کی گنجائش ہی نہیں۔عبداللہ بن مسعود کی مشہور نصیحت: علیکم بالأمر العتیق ’’قدیمی ٹکسالی طریق پر رہو‘‘۔
ہمارے جواب کے اِس دوسرے حصے کا خلاصہ یہ کہ:
’دل سے جاننے‘ کی یہ جہمیہ والی شرط عائد کرنے لگے تو اس کی زد میں پھر تمام رسالتیں اور سب ارکانِ ایمان ہی آ جائیں گے؟ صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر تو یہ معاملہ پھر نہیں رکے گا۔ لہٰذا ’’کفر‘‘ کا مطلب اگر وہی جہمیہ والا ہے تو پھر اللہ کا نام لے کر اس کااطلاق سب غیبیات پر ہی کر دیجئے۔ معاملہ از حد آسان ہو جائے گا!
البتہ علمائے کتاب و سنت نے قرآنِ مجید ہی سے کفر کی چار اقسام بیان کر کے دی ہیں (آپ کی بیان کردہ “کفرِ استکبار” ان چار میں سے صرف ایک قسم ہے)۔ جبکہ ان میں سے ایک قسم کفرِ شک ہے اور ایک قسم کفرِ اعراض۔ یعنی کسی کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت میں شک بھی ہو تو وہ کافر ہے۔ ’’شک‘‘ ظاہر ہے تبھی ہو گا جب وہ دل سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا نہ مانتا ہو! اور اگر شک کرنا آپ کے نزدیک کفر نہیں ہے (بلکہ کفر آپ کے نزدیک صرف یہ ہے کہ آدمی کو یقین ہو اور پھر وہ دشمنی پر اتر آئے) تو اس قاعدہ کا اطلاق پھر صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر کیوں؟ ایسے کتنے لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ ان کو اللہ پر ہی شک ہے (نعوذ باللہ)۔ اب ان لوگوں کے دل میں جا کر تو ہم نے نہیں دیکھا کہ وہ اللہ کے وجود پر دل سے یقین رکھتے ہیں مگر تکبر کی وجہ سے اسے ماننے اور اس کے آگے جھکنے پر آمادہ نہیں۔ ایک بڑی تعداد تو ضرور ہی ایسی ہو گی جو اپنے اِس ’’شک‘‘ کے دعویٰ میں سچے ہوں۔ لہٰذا اس اصول کی سان پر سارے ارکانِ ایمان کو کیوں نہ رکھ دیں۔ نتیجتاً؛ خدا کو نہ ماننے والے ان سب ملحدوں اور ماں اور بیوی کی تمیز ختم کر رکھنے کے داعی ان تمام زنادقہ کی بھی بخشش کی امید رکھیں جو انبیاء کی بتائی ہوئی غیبیات پر کسی وجہ سے ’دل سے‘ مطمئن نہیں ہو پائے!
تحریر حامد کمال الدین ، سہ ماہی ایقاظ