خدا کی تلاش۔۔!!

10593119_1510205702549390_6963290069992043888_n

چلتے چلتے تھک کر پوچھا دل سے پاؤں کے چھالوں نے !
بستی کتنے دور بسا لی ، دل میں بسنے والوں نے ؟

اس دوست کے نام جسے خدا کی تلاش ھے ! مگر وہ اپنے آپ کو دھریہ کہتا ھے !

اگر آپ کو دھریت پہ یقین ھے تو پھر تلاش کیسی ؟
اور اگر تلاش ھے تو پھر دھریت پہ ایمان کیسا ؟

اگر اللہ کی ذاتِ اقدس کے بارے میں شک پیدا ھو جائے تو یقین نکل جاتا ھے،، جب تک یقین ھو ، شک پیدا نہیں ھوتا ! یہ دو اضداد ھیں ،، جن کا ایک جگہ جمع ھونا نہ عقل تسلیم کرتی ھے نہ منطق اور نہ سائنس !

پھر دھریت کے بارے میں شک پیدا ھو جائے تو اس پر یقین و ایمان کیسا ،، کیسے اور کس طرح لوگ اپنا تعارف دھریت کے حوالے سے کرا لیتے ھیں !

اگر آپ مومن نہیں تو آپ دھریئے بھی نہیں ،، آپ تلاش میں ھیں ! آپ سب سے پہلے اپنے موقع و محل کا ٹھیک ٹھیک جائزہ لیں ،،یہیں سے خدا کی تلاش شروع ھوتی ھے ! جب بھی آپ کسی سے رستہ پوچھتے ھیں تو وہ آپ سے پہلا سوال یہ کرتا ھے کہ آپ ھو کس جگہ ؟
تو آپ ھو کس جگہ ؟

جو شخص یہ تک نہ بتا سکے کہ اس کی لوکیشن کیا ھے ،، وہ کس مقام پہ کھڑا ھے ،، اس کے قریب کوئی بڑی اور اھم عمارت ،،کوئی مشہور اسپتال ،،کوئی فارمیسی ،،کوئی پارک کوئی بینک ،، ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
ایسے شخص کی مدد کوئی بھی نہیں کر سکتا – ایسے بندے کو شہر کا میئر بھی رستہ نہیں بتا سکتا،، جو اپنے مقام سے غافل ھو !
گویا گھوم پھر کر بات انسان کی اپنی ذات پر آ جاتی ھے ! جو اپنے آپ کو پہچانے گا ، اپنے مقام اور اسٹیٹس کو پہچانے گا ،، بس پلٹ کر دیکھے گا تو رب کو سامنے پائے گا .
کائنات میں اپنا مقام دیکھو ؟ ایک دن سر سجدے میں رکھ کر اسے اپنی مادری زبان میں بتا دو کہ تم کہاں کھڑے ھو ؟ چھوڑ گئے ھو تو بھی بتا دو ،،کوئی نوٹس دے دو اسے ،، کسی ادارے کو بھی بندہ چھوڑتا ھے تو کوئی الزام لگاتا ھے ،، کوئی عذر پیش کرتا ھے ،، جتنی اعلی پوسٹ پہ ھوتا ھے اتنا قوی سبب بیان کرنا پڑتا ھے تو لوگ یقین کرتے ھیں ،، رب کی نیابت کو ترک کرنے کا سبب تو بتاتے جاؤ اسے ،، چلو الزام ھی لگا دو ،، میں یقین سے کہتا ھوں کہ جس دن تم نے سر سجدے میں رکھ اس سے اپنی مادری زبان میں گفتگو شروع کی – بات تمہید سے آگے بڑھ ھی نہیں سکے گی ،، وہ تمہیں اس طرح اپنی طرف کھینچے گا جس طرح سمندر قطرے کو کھینچ لیتا ھے تم اپنی بات مکمل نہیں کر پاؤ گے ،،
افسوس یہ ھے کہ اللہ کے کلام کو ھم سمجھتے نہیں،، اور اپنی زبان میں اس سے بات کرتے نہیں ،،نہ ھمیں نماز میں خدا ملتا ھے ،نہ نیاز میں خدا ملتا ھے،، نہ راز ونیاز ھوتے ھیں نہ دل ھلکے ھوتے ھیں ،، انسان اگر عربی سے واقف ھو تو اللہ کا طرز تخاطب ھی انسان کو اللہ کے پیار سے اس طرح بھر دیتا ھے جیسے شہد کا چھتہ شہد سے بھرا لِچ لِچ کرتا ھے ! انسان الفاظ کی بھول بھلیوں میں کھو جاتا ھے ،، الفاظ پیار کھا جاتے ھیں ،،بعض دفعہ کہنے سے زیادہ چپ کر کے اپنے آپ کو اللہ کے آگے ڈال دینا زیادہ سودمند ھوتا ھے ،، جذبوں کو بےلگام چھوڑ دینا زیادہ اچھا ھوتا ھے،، الفاظ رب کی طرف سے آتے ،وہ الفاظ زندگی ھوتے ھیں وھی روح ھوتے ھیں ،،
فتلقی آدم من ربہ کلماتٍ ،، فتاب علیہ ،،،
آدم علیہ السلام نے صرف آنسو دیئے تھے ،، الفاظ رب نے دیئے تھے !

چلئے میں حسن ظن رکھتا ھوں کہ آپ نے اپنے آپ کو اللہ کے حضور پیش کر دیا ،، اس نے پوچھا کہاں سے رستہ بھولے تھے ؟ تو آپ کے پاس کیا جواب ھو گا ؟ بتانا پڑتا ھے ناں کہ میں نے فلاں جگہ سے دائیں یا بائیں ٹرن لے لیا ھے تا کہ اگلے کو پتہ چلے کہ آپ کس رخ پہ ھیں ؟ یہ سوال اللہ پاک ھر بھولنے والے سے کرتا ھے !
یا ایہا الانسان ! مَا غَرَۜک بِرَبِک الکریم ؟ ائے حضرتِ انسان تمہیں اپنے رب جیسی کریم ھستی کے بارے میں دھوکا کہاں سے لگا ؟
الذی خلقک ،فسواک ،فعدلک ،، فی ائ صورۃٍ ما شاء رکبک؟؟؟
وہ تمہیں سیدھا مسٹر وائی نام کے اس دُمدار کیڑے کے سامنے لا کھڑا کرتا ھے ،، یہاں سے تو چلا تھا ناں ؟
افرأیتم ما تمنون ؟
جو تم ٹپکاتے ھو اسے کبھی غور سے دیکھا ھے؟ یہاں سے تو چلا تھا ،، اسی گندگی سے نکلا تھا تو ،،تو جس کپڑے کو لگا وہ کپڑا چھونے کا روادار بھی کوئی نہ تھا ،اسے پاؤں کی ٹھوکر سے ھینڈل کیا جاتا تھا ،، ھم نے تمہیں اٹھا لیا ،، اور انہیں مجبور کر دیا کہ وہ تمہیں چومیں ، ھم نے محبت کی چادر تجھے اوڑھا دی !
اپنی جسامت کو دیکھ ! یہ 6 فٹ والی نہیں وہ نمک کے دانے کے پچاسویں حصے والی جو کھلی آنکھ سے نظر بھی نہیں آتی تھی ،، تیرے اس حجم کے حساب سے رحم مادر تک تجھے جانے میں 25 ھزار کلومیٹر کا سفر کرایا گیا،تیرے دائیں بائیں محافظ لگائے گئے رستے میں ھر کیمیکل تجھے کھانے اور مارنے کو کافی تھا ،مگر ھم تمہیں لے گئے تیری منزل تک،، تیری والدہ میں جو تیرا آدھا حصہ رکھا تھا تجھے اس سے جا ملایا ،،

أانتم تخلقونہ ام نحن الخالقون ؟
اب اس مسٹر وائی کو ھم نے تخلیق کے مراحل سے گزارا یا تم نے پیدا کیا یا وہ کیڑا خود ھی فیصلے کر رھا تھا ؟

چلئے آ پ کہتے ھیں کہ وہ تو جینز فیصلے کر رھے تھے ، بفرض محال ھم بھی مان لیتے ھیں کہ بقول آپ کے جینز شکل و صورت کے فیصلے کر رھے تھے، اور ان جینز کے پیچھے کسی بڑے کا ارادہ نہیں تھا !!
مگر باپ بھی وھی ھے ۔ پھر ایک مسٹر وائی بھی وھی ھے ۔ تیری ماں بھی وھی ھے ،، مؤنث کا انڈہ بھی وھی ھے ،، ڈی این ائے بھی وھی ھے !
پھر تیرے بھائی کی شکل بالکل تیرے جیسی کیوں نہیں ؟ آواز اور عادتیں تیرے جیسی کیوں نہیں ھیں – چال ڈھال اور پسند ناپسند تیرے جیسی کیوں نہیں ھے ؟ تیری اپنی تھیوری کے مطابق اسے تیرے جیسا ھونا چاھئے تھا ناں ،،؟؟
بدلا کیا ھے جو تیرے بھائی کی شکل بدل گئ ھے ؟ فی ای صورۃٍ ما شاء رکبک ! یہ کسی اور کا ارادہ بدلا ھے کہ تیرے بھائی کی شکل تجھ سے الگ بنائی جائے !! بس وھی خدا ھے ،، وھی جو
یخلقکم فی بطون امہاتکم خلقاً من بعد خلقٍ فی ظلماتٍ ثلاث ،،
جو تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹ میں ایک کے بعد ایک شکل دیئے چلے جاتا ھے ،، اور وہ بھی تین اندھیروں کے اندر !!! وہ تو تمہیں اندھیروں میں ڈیویلپ کر کے روشنیوں میں لایا تھا ،،
اور تم پلٹ کر پھر اندھیروں میں جا پھنسے ھو ! توبوا الی اللہ ،، پلٹو اللہ کی طرف،،، اللہ ھی کائنات میں روشنی کا واحد ذریعہ ھے ،، باقی سارے ذرائع اس کی مخلوق ھیں،، اللہ نور السماوات والارض ،، روشنی کا سورس آسمان پر ھو یا تمہاری اپنی ذات کے اندر کا Visual System ھو اس کا خالق صرف اور صرف اللہ ھے،، وھی اللہ جو آج تمہیں نظر نہیں آتا حالانکہ وہ ھر چیز کے پیچھے سے جھانکتا ھے،،
کھول آنکھ زمیں دیکھ ، فلک دیکھ ، فضا دیکھ !
مشرق سے ابھرتے ھوئے سورج کو ذرا دیکھ !
قاری حنیف ڈار

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password