۔ تمام مذاہب کو اس وقت فکری محاذ پر سب سے بڑا چیلنج لامذہبیت کا درپیش ہے۔ پرنٹ، الیکٹرانک اور
سیکولرز کا پیش کردہ اشکال: کونسی شریعت شریعت شریعت تو سب کرتے ہیں۔ مگر اِن داعیانِ شریعت میں سے آج
سیکولر لوگوں کی پھیلائی ھوئی بہت سی مغالطہ انگیزیوں میں سے ایک یہ بھی ھے کہ ”سیکولر ریاست مذہبی ریاست
لبرل ریاستوں کا موجودہ پالیسی فریم ورک علم معاشیات کے مباحث سے ماخوذ ہے۔ معاشیات کی کتب لکھنے والے مصنفین
جنگ آزادی میں ناکامی کے بعد جب سرمایہ دارانہ استعماری ریاست نے خلافت اسلامیہ کے اجتماعی نظم کو تحلیل
ایک عرصہ سے سیکولر حضرات اس کوشش میں سرگرداں ہیں کہ چیدہ چیدہ تاریخی واقعات کو انکے سیاق و سباق
۔ جدید مغربی (تنویری یعنی enlightenment) ڈسکورس خدا پرستی کو رد کرکے انسانیت (یا نفس) پرستی کی دعوت عام کرنے
۔ جدید ملحدوں کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ انکی غالب بلکہ اغلب ترین اکثریت اندھی تقلید کرتی ہے مگر
مغربی فکر انسانوں کو مقدسات سے آزادی دلانے نکلی تھی۔ مقصد اس کا یہ تھا کہ ’مقدسات‘ انسانوں کو بہت
بدقسمتی سے جس مولوی کو ہم معاشرتی مسائل کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں وہ ہماری مرضی سے ہی ہماری مسجد
نظام کی تسخیری قوت اور سائنسی علمیت پر اندھے اعتماد پر مبنی تصورات ۔۔۔ عام بلکہ ‘جدید تعلیم یافتہ’ لوگوں
اکثر و بیشتر مذھبی اور مغربی فکر میں پاۓ جانے والے تصورات آزادی کو بری طرح خلط ملط کرکے ”اسلام
عام طور پر اشتراکیت کو سرمایہ داری سے علی الرغم کوئی نظام سمجھا جاتا ھے۔ اس غلط فہمی کی وجہ
خیر کا تعلق پروسیجر سے نہیں بلکہ شرع سے ھے عام طور پر اخلاقی اقدار کو ‘انسانی شے’ سمجھ کر
ایک “عامی” کے حق میں ‘دلیل’ اس وقت وہ جنگل ہےجس میں ہزاروں خونخوار بھیڑے گھس آئے ہیں جو سود
دیسی ملحدین بسا اوقات اسلام دشمنی میں ایسی بات کر جاتے ہیں ، جس سے ان ملحدین کی عقلی سطحیت
ملحد لوگ ہر بات میں ہم سے عقلی دلیل طلب کرتے ہیں ، ان سے صرف ایک عقلی سوال کیا
امام ذھبی ؒ نے اپنی شاندار کتاب “سِيَر اَعلامِ النُبَلاء” میں ایک نہایت شاطرزندیق ابوالحسن الراوندی کا خاکہ تحریر کیا