ایک “عامی” کے حق میں ‘دلیل’ اس وقت وہ جنگل ہےجس میں ہزاروں خونخوار بھیڑے گھس آئے ہیں جو سود کے حق میں بھی “دلیلوں” کا ایک طومار رکھتے ہیں،تعطیلِ جہاد پر بھی،ابطالِ خلافت پر بھی(بلکہ ابطالِ اُمت پر ہی)،عورت کے برہنہ سرپھرنے پر بھی،مرتد کی سزا غلط ٹھہرانے پربھی،ہندو کو مشرک نہ ٹھہرانے پربھی،بلکہ خودسنت کی تعریف پر ہی،بلکہ قرآن سےدلیلیں اخذ کرنے کے”اصول ومبادی” پر ہی۔یہاں ہر چیز کی تفسیرِنو ہورہی ہے؛اب چونکہ یونیورسٹیوں اور کالجوں کی دوسوسال کی محنت کے نتیجے میں عقل کو کچھ مخصوص ڈھانچوں میں ڈھال لیا گیا ہےاور رہی سہی کسر میڈیا پوری کرنے لگا ہے۔۔۔لہذا ‘دلیل’ کو جب اِن نئے زاویوں سے دکھایا جاتا ہےتو فوراََ دل کو لگتی ہےاور اس کے مقابلے میں ‘مولوی’ کی بات بےدلیل نظرآتی ہےخواہ وہ چودہ سو سال سےچلے آنے والےمسلمات پر مبنی کیوں نہ ہو،(“مسلمات” جب ‘دلیل’ کے خلاف دکھا دیئے جائیں تو ان کو چھوڑنا تو پڑے گا!)۔ایک عامی کے ہاتھ میں جب یہ فیصلہ دے دیا جائے کہ ‘دلیل’ کیا کہتی ہےتو لامحالہ عالم کو عامی کی عدالت میں کھڑا ہونا پڑے گاجہاں عامی ‘فیصلہ’ کرے گا عالم صحیح بات کہتا ہے یا غلط!حالانکہ “دلیل” اور “دلالت” کا تعین کرنے کے لیے جو بنیادی اوزار ہیں وہ صرف عالم کے پاس ہیں۔اس حقیقت کو نظرانداز کرناایک عامی کو ایک سرجن پرحَکَم بنا دینا،یا یہاں کے انجینئریوں،قانون دانوں،معیشت دانوں،سائنسدانوں اور ریاضی دانوں پر یہ شرط عائد کرنا وہ اپنے شعبے کی ہرہر بات کوعامی سے پاس کروا کردکھائیں۔۔۔الا یہ کہ “شریعت” کوآپ کوئی ایسا وسیع و مربوط علم ہی تسلیم نہ کریں جس کے بحر میں اترنے کے لیے کوئی علمی استعداد درکار ہو!ظاہر ہے ایک ایسا عامی جو عالم پر حَکَم ہو،علماء کو “مطاع” کے طور پر کس طرح لے سکتا ہے!
حق یہ ہے کہ اِس “فتنہ عوام” کو بےشمار جہتوں سے آج ہم پر مسلط کروایا جارہا ہے۔۔۔اورہزار ہا جہت سے”شریعت” کا گھونٹ بھرا جارہا ہے۔
حامد کمال الدین