آپ نے لبرلز و سیکولروں کے منہ سے مولویوں کے حلوے مانڈوں کا ذکر تو اکثر سنا ھوگا، کہ ‘جناب یہ مولوی بس اپنی روزی روٹی کیلئے مسجد مدرسے چلاتے ہیں، اپنے پیٹ کیلئے ہی یہ اختلافات کو ھوا دے کر عوام کو بیوقوف بناتے ہیں، حلوے کا لالچ دیکر مولوی سے جو فتوی چاھے لے لو، یہ دینی کاروبار بس انکا دھندہ ھے کہ انکا حلوہ مانڈا چلتا رھے’۔
اس کہانی میں کتنا سچ ھے فی الحال اسے ایک طرف رکھئے، سوال تو یہ پیدا ھوتا ھے کہ یہ لبرلز اور سیکولر لوگ جس علم (سائنس) کے ‘اصل علم ھونے’ کے داعی ہیں وھاں کا حال کیا ھے؟
مولویوں کے حلوے مانڈوں کا ذکر کرنے والے ان لبرلز کا مفروضہ یہ ھوتا ھے گویا سائنسی علم کی تعمیر تو انتہائی بے لوث، انسانیت دوست اور خدمت خلق کے جذبے سے سرشار ھستیوں کے ھاتھوں انجام پزیر ھوتی ھے۔
جبکہ حقیقت یہ ھے کہ سائنسی علم کا تو پورا فریم ورک ہی ”خرید و فروخت” (Buying and selling) کی ذہنیت کا اظہار ھے، یہاں وہی علم تخلیق کیا جاتا ھے جسے نفع پر بیچنا ممکن ھو اور یہاں وہ علم خریدا جاتا ھے جسے حصول لذت کیلئے استعمال کرنا ممکن ھو۔
چنانچہ میڈیکل سائنس کی فیلڈ میں فارماسوٹیکل انڈسٹریز، ھسپتال، ڈاکٹرز، دوائیاں پیچنے والی کمپنیاں کس کس طرح اپنے اپنے ذاتی مفادات کیلئے کروڑوں انسانوں کی صحت سے کھیلتی ہیں وہ کسی سے مخفی نہیں، انجینیرنگ کے مختلف شعبوں میں کس کس طرح کرپشن کی جاتی ھے، جنگی ہتھیار بنانے والی کمپنیاں اپنے نفع کیلئے کس طرح حکومتی اداروں میں اثرو رسوخ استعمال کرکے انسانیت کش ہتھیار بیچتی ہیں، کس طرح سوشل سائنٹسٹ و این جی اوز اپنے مخصوص نظریاتی یا مادی مفادات کیلئے ”تحقیقاتی رپورٹوں” سے من مانے ”سائنسی نتائج” اخذ کرکے پالیسی ساز اداروں اور عالمی ڈونرز کو بیوقوف بناتی ہیں یہ سب باتیں کسی ایسے شخص سے مخفی نہیں جو سائنسی علوم اور جدید ادارتی صف بندیوں کی نوعیت سے آشنا ھے۔
چنانچہ یہ کتنی مضحکہ خیز بات ھے کہ جن لوگوں کے اپنے علمی فریم ورک کا حال یہ ھو کہ وہ حلوے مانڈے سے شروع ھوتا ھے، اسی کو تحفظ دینے کیلئے قائم کیا جاتا ھے نیز اسی پر اختتام پزیر ھوجاتا ھے وہ ایک ایسی علمیت کے وارث کو حلوے مانڈے کا طعنہ دیتے ہیں جس میں قدم رکھتے ہی روزی روٹی کے لالے پڑ جاتے ہیں۔
اگر مولوی کے پاس کچھ اتنا ہی زیادہ حلوہ ھے تو یہ لبرلز آخر اپنے بچوں کو دھڑا دھڑ مولوی کیوں نہیں بنارھے؟ ان عقلمندوں کو مولوی کا ھر اختلاف حلوے اور پیٹ کا اختلاف دکھائی دیتا ھے مگر ‘سائنس کے حلوے کی دکان’ میں سانسیں لینے کے باوجود بھی سائنسی اختلافات انہیں ”علمی اختلافات” ہی دکھائی دیتے ھیں۔
درحقیقت مولوی پر حلوے مانڈے کا الزام لگانے کی دو وجوھات ھوتی ہیں، ایک اپنی حلوے کی دکان کی اصل حقیقت سے عدم واقفیت، دوئم مولوی کی علمیت کو اپنی علمیت پر قیاس کرنا کہ ‘یہ کیسے ممکن ھے کہ علم کی کوئی دنیا ایسی بھی ھوسکتی ھے جہاں حلوے مانڈے کی لالچ کے بغیر بھی لوگ زندگیاں بسر کرسکتے ہیں’۔ انکا یہی تعجب انہیں مولوی پر حلوے مانڈے کا الزام لگانے پر مجبور کرتا ھے۔