گذشتہ چند عشروں سے پوری دنیا جنسی مسائل اور گفتگو میں الجھی ہوئی ہے۔ اس بحث و تمحیص نے ایک
ہامان جرمنی میں روشن خیال تحریک Aufklarung کے مقابلے میں اٹھنے والی تحریک Sturm und Drang کا نمائندہ فلسفی تھا۔وہ
. اس حقیقت کے اظہار میں کوئی مبالغہ نہیں ہے کہ بیسوی صدی عیسوی کے علم کلام کا تذکرہ مولانا
برعظیم پاک و ہند میں گزشتہ دو عشروں سے مشرق و مغرب کی کشمکش جاری و ساری ہے۔ اس کشمکش
٭5۔عقلیت پرستی کا دور: یہ دور تقریباً سترہویں صدی کے وسط سے شروع ہو کر اٹھارہویں صدی کے وسط تک
٭7۔بیسویں صدی: یہ دور بہت ہی پیچیدہ ہے اور نہایت اہم۔ اہم تو اس لیے ہے کہ مغرب نے اس
٭ان مغربی تصورات کی فہرست جن سے دین کے بارے میں غلط فہمیاں اور گمراہیاں پیدا ہوتی ہیں۔ چالیس پچاس
دنیا کی ٢٣ روایتی، الہامی دینی تہذیبوں میں انسان عبد تھا۔ وہ جو اس نیلی کائنات میں خدا کے آگے
احمد جاوید صاحب کے محاضرہِ جدیدیت کے چیدہ چیدہ اہم نکات پیش خدمت ہیں 1۔روایت انسان،کائنات اور خدا کی تثلیث
مغربی دنیا میں مذہب اور عقل کی کشمکش ماضی قریب کی انسانی تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔ اس کشمکش
جدید انسان صرف وہ ہے جو حسی، تجربی، سائنسی ذریعہ علم پر یقین رکھتا ہے، اور غیر حسی، غیر تجربی،
جدید لسانیاتی مباحث اپنی وضع میں پوسٹ ماڈرن مباحث سے ماخوذ ہیں۔ ان مباحث کی رو سے الفاظ کے تمام
ڈی کنسٹرکشنزم یعنی ردِّ تشکیلیت کے مفہوم تک پہنچنے کی کوشش: کسی لفظ یا فقرے میں ’’معنی‘‘ فی الحقیقت کہاں
قرانِ پاک پر ڈی کنسٹرکشن کے حملے کا دفاع اس مضمون میں روایتی لسانی تحریکوں کے نتیجے میں پیدا ہونے
منشائے کلام متکلم بتائے گا یا کوئی اور؟ Athense کے میلے میں ایک مصور کا شاہکار نصب کیا گیا اور
مصنف ابن ابی شیبہ میں ابن محیریز سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”فارس نطحة أو نطحتان،
ہم عالم اسلام پر اللہ کا یہ فضل ہے کہ اپنے تہذیبی وفکری وجود کا آ غاز ہم ”اسلام“ سے
کوئی اگر سوال کرے کہ وہ کونسی قوم ہے جس کے ساتھ پچھلے چودہ سو سال سے عالمِ اسلام کی
دنیا میں انسان کی زندگی کے لیے جو نظام نامہ بھی بنایا جائے گا اس کی ابتدا لامحالہ ما بعد
مغربی ذرائع ابلاغ اور مختلف فورموں کے ذریعے سے یہ تاثر پیدا کیا جاتا ہے کہ اسلام اپنے اصل کے
مغربی تہذیب پر ہم خواہ کتنی ہی تنقید کیوں نہ کریں مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کے سلسلے میں
ہمارے ایک دوست نے گزشتہ دنوں یہ سوال اٹھایا کہ کیا اہل مغرب نے اپنے علم، معاشرے اور تہذیب کے
ایک عزیز نے چند دن قبل ایک استفسار فرمایا جس کا خلاصہ طبیعی یا قدرتی شر (Natural Evil) اور اخلاقی
جواب: سوال یہاں تک ہی کیوں محدود ہو کہ اگر اللہ سب کو دولت مند بنا دیتا تو اس کے
ملحدین میں بہت بڑی اکثریت ایسے لوگوں کی دیکھی ہے جو نہ منطق کے باریک نکات سے واقفیت رکھتے ہیں
ہمارے خوش یا غمگین ہونے سے یہ حق نہیں بدلتا کہ زمین گول ہے. کسی پر ظلم ہو یا
خدا کے وجود پر شک کرنے کے لیے جو باتیں کہی جاتی ہیں ، ان میں سے ایک وه ہے
اس نے کہا کہ جناب سب خیر ہے، بس دعا کریں کہ اللہ اپنے امتحان سے محفوظ رکھے۔ میں نے
ایساسوال اگرحصول معرفت کے سواکسی اورمقصدکے لیے پوچھاجائے تو پوچھنے والا گناہ گار ہوگا۔ اگرکوئی شخص تنگی میں مبتلاہو تواسے
سوال: سُناہے اللہ پتھر میں چھپے کیڑوں تک کو رزق پہنچاتا ہے، پھر اسے افریقہ و تیسری دنیا کے قحط