کیااسلام ایک سائنسی مذہب ہے؟

مدت دراز سے بعض اسلامی مفکرین نے سائنس کی اسلامی توجیہات پیش کرنا اپنا مشن بنا رکھا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ شاید یہ دنیا کا واحد مشن ہے جس کے علمبردار اس کے مافیہ اور مالہ تک سے نا واقف ہیں۔ سائنسی علم کی حقیقت جاننے کے لیے کوئی معتبر کتاب پڑھے بغیر ہی اسلام اور سائنس پر ایسی ایسی کتابیں تحریر کردی گئیں کہ انسان ورطہ حیرت میں ڈوب کر سوچتا ہے کہ اگر تحقیق اسی کا نام ہے تو ہم اب تک خاموش کیوں تھے۔ زیر نظر مضمون میں ہم ایسے حضرات کے ان خیالات و افکار کا تنقیدی جائزہ پیش کرنے کی کوشش کریں گے جو انھوں نے محض سائنس سے مرعو بیت کی بنا پر اپنا رکھے ہیں ۔
کیااسلام ایک سائنسی مذہب ہے؟!
مناسب ہوگا کہ ہم جملے ’اسلام ایک سائنسی مذہب ہے ‘ کا وہ تصور بیان کردیں جو عام طور پر لوگوں کے ذہنوں میں پایا جاتا ہے تاکہ باقی تفاصیل پڑھتے وقت مضمون کا اصل عمود ملحوظ خاطر رہے۔یہ جملہ کہ ’اسلام ایک سائنسی مذہب ہے ‘ آج کل ایک فیشن سا بن گیا ہے۔عام طور پر اس جملے سے مراد یہ سمجھی جاتی ہے کہ:

  1. سائنس اور اسلام ایک ہی حقیقت کے ادراک کے دو مختلف طریقے ہیں ،یعنی دونوں بنیادی طور پر ایک ہی حقیقت کی تلاش میں سرگرداں ہیں نیز دونوں ذرائع سے حاصل ہونے والے حقیقت کے ادراک اور نتائج میں کسی قسم کا تضاد نہیں پایا جاتا۔
  2. جس طرح سائنس آزادعقل کے عین مطابق ہے اسی طرح اسلام بھی آزاد عقل کے تقاضوں کے عین مطابق ہے یاد رہے کہ اسلام آزاد عقل [وہ عقل جو خواہشات کے تابع ہو] نہیں بلکہ عقل سلیم [وہ عقل جو وحی کے تابع ہو] کے مطابق ہے۔
  3. جس طرح سائنس تجربے اور مشاہدے کے اصول کے تحت معروضی علم کی تشکیل کرتی ہے ایسے ہی اسلامی تعلیمات کو بھی معروضی انداز میں تجربے اور مشاہدے کی کسوٹی پر پرکھا جاسکتا ہے۔
  4. جس طرح سائنس تجربے اور مشاہدے کو حتمی ذریعہ علم گردانتی ہے ایسے ہی قرآن بھی تجربے اور مشاہدے پر پوری طرح زور دیتا ہے۔
    ان سادہ سے جملوں میں جو قیامت پنہاں ہے اسکا ایک مختصر جائزہ پیش خدمت ہے۔
    کیا اسلام اور سائنس ایک ہی حقیقت کی تلاش میں ہیں؟
    یہ ایک ایسی غلط فہمی ہے جو عوام و خواص دونوں کو لاحق ہے کہ سائنس اور مذہب ایک ہی حقیقت کی تلاش میں ہیں بس دونوں کے راستے جدا جدا ہیں[ غالباً علامہ اقبال ؒ وہ پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے فلسفیانہ سطح پر اپنے خطبات میں اس نقطہ نظر کا ذکر کیا ہے ، واللہ اعلم]۔ اس غلط فہمی کی وجہ سائنس کے تصور حقیقت [conception of reality] کا غیر علمی ادراک ہے۔ یعنی لوگوں نے سائنس اور اسلام کے تصور حقیقت کابنیادی فرق سمجھے بغیر ہی یہ تسلیم کرلیا کہ حقیقت وہی ہے جسے سائنس معروضیت [objectivity]کہتی ہے۔لہذا اس گمراہی کے ازالے کے لیے ضروری ہے کہ ہم حقیقت اور معروضیت کابنیادی فرق اچھی طرح سمجھ لیں تاکہ قلب و ذہن سائنس کے باطل تصور حقیقت سے پاک و صاف ہو جائیں۔ اسی فرق سے اس بات کی قلعی بھی کھل جائے گی کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ادراک حقیقت کے ذریعہء علم[source of perceiving reality] پر سائنس معروضیت کی شرط کیوں لگاتی ہے۔
    حقیقت اور معروضیت کا فرق:
    سائنس کے نزدیک حقیقت کی ماہیت معروضیت میں چھپی ہے، دوسرے لفظوں میں حقیقت [reality]انسان سے باہر علیحدہ سے کہیں موجود ہے [کیونکہ معروضی وہی شے کہلاتی ہے جو انسان سے باہر ہو]اور انسان اسکا ادراک اپنی ذات [self]سے ماوراء ہو کر کرسکتا ہے ۔
    اس بات کو عام الفاظ میں یوں سمجھئے گویا سائنس کے نزدیک حقیقت ایک ایساوجود ہے جیسے کہ گیند یا سیب وغیرہ ،یعنی جیسے انسان ایک گیند کو اپنے وجود سے باہر ایک علیحدہ وجود کے طور پر محسوس کرسکتا ہے بالکل ایسے ہی سائنس کے نزدیک حقیقت ایک ایسی شے ہے کہ جسے انسان اپنے وجود سے باہر اور اس حقیقت سے علیحدہ رہ کر بھی محسوس کر سکتا ہے۔ معروضیت [objectivity]ہی سائنس کاتصور حقیقت [conception of reality] ہے اور ہر وہ شے جو معروضی نہ ہو سائنس کے نزدیک حقیقت نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ سائنس کا یہی وہ تصور حقیقت ہے جس کی وجہ سے سائنس دان اس بات پر مصر ہیں کہ حقیقت [یعنی معروضیت ]کو جاننے کا معتبر ذریعہ بھی وہی ہوسکتا ہے جو معروضیت تک رسائی ممکن بناتا ہواور ہر وہ ذریعہ علم جس کے ذریعے معروضیت تک پہنچنا ممکن نہ ہو تو اس ذریعے سے آنے والی معلومات علم نہیں۔
    اس ضمن میں پہلی بات یہ ہے کہ سائنس کا یہ تصور کہ معروضیت حقیقت ہے بذات خود ایک ایسا دعوی ہے جس کی کوئی دلیل نہیں، بلکہ اس تصور حقیقت کی اپنی حقیقت محض ایک ایمان کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اس کی بنیادی وجہ وہی ہے جس کی طرف اوپر اشارہ کیا گیا کہ اولاً تو انسانی ذرائع علم سے معروضیت کا حصول ممکن ہے ہی نہیں ،
    دوسرااس لیے کہ سائنس نے یہ دعوی کہ معروضیت حقیقت ہے اس بنیاد پر نہیں کیا تھا کہ اس نے معروضیت کو پا لیا تھا، بلکہ یہ محض ایک افسانوی تصور تھا جس کے وجود کی نہ تو آج تک کوئی دلیل دی جاسکی ہے اور نہ ہی اسکا کوئی مسمہ بہ موجود ہے کہ جسے معروضی کہا جاسکے۔ دوسری بات یہ کہ مذہب [بالخصوص اسلام] کے نزدیک حقیقت ہر گز بھی وہ نہیں جسے سائنس معروضیت کہتی ہے، بلکہ اسلام میں حقیقت تو بس ذات باری تعالی ہی ہے اور جس کے ادراک کا ذریعہ وہ خاص علم ہے جو اللہ تعالی اپنے خاص بندوں پر نازل فرماتا ہے، یعنی وحی۔ اور ایک بندہ جب وحی میں بتائے گئے احکام شریعت پر کاربند ہوتا ہے، نیز اپنے قلب کو رذائل نفسانیہ اور گناہوں کی غلاظت سے بچا تے ہوئے اسے اخلاق حمیدہ سے متصف کرتا ہے تو اس کے قلب میں وہ نورانیت پیدا ہوجاتی ہے جس سے حقیقت کا ادراک حاصل ہوتا ہے اور اسی ادراک حقیقت کو خاصان خدا معرفت الہی کہتے ہیں۔ چنانچہ یہی معرفت الہی اصل حقیقت ہے جسکاادراک دائمی پابندیء شریعت اور قلب کی دنیا میں ڈوبے بغیر ہرگز ممکن نہیں۔ وہ علم جس سے یہ معرفت الہی حاصل ہوتی ہے اس کے بارے میں حجۃ الاسلام امام غزالی ؒ فرماتے ہیں:
    ’’اس علم کا نام علم باطن ہے اور یہ علم ہی دوسرے تمام علوم کی غرض وغایت و منتہا ہے۔ یہ ایک نور کا نام ہے۔۔۔جب دل برائیوں سے پاک و صاف ہوجاتا ہے تو یہ نور ظاہر ہوتا ہے اور اس نور سے آدمی پر ایسی بہت سی باتیں منکشف ہوتی ہیں جن کا وہ پہلے محض نام سنا کرتا تھا یا انکے کچھ مجمل اور غیر واضح معنی وضع کرلیا کرتا تھا‘‘ [احیاء العلوم، جلد اول، کتاب العلم: ص ۶۱]
    کیا معروضیت حقیقت ہے؟
    یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اصل حقیقتِ انسانی ’عبدیت‘ ہی ہے ، یعنی انسان کی حقیقت اس کے سواء اور کچھ بھی نہیں کہ وہ اللہ کا بندہ ہے اور اس کی یہ حقیقت اس سے کہیں باہر [objective]نہیں بلکہ اس کے اندر ہے ۔دوسرے لفظوں میں معاملہ یہ نہیں کہ انسان اپنی عبدیت کو اپنے وجود سے علیحدہ ہو کر بھی سمجھ سکتا ہے[جیسا کہ سائنس کے تصور معروضیت کا تقاضہ ہے]، بلکہ یہ عبدیت ہی اسکا اصل جوہر [essence] ہے اور اسکا ادراک رسوم بندگی ادا کیے بغیر ہو ہی نہیں سکتا۔ لہذا سائنس کا یہ دعوی کہ معروضیت حقیقت ہے ایک باطل اور مردود دعوی ہے۔ سائنس کے دعوائے معروضیت [یعنی حقیقت انسان سے کہیں باہر ہے ] کا مطلب یہ ہوا کہ حقیقت انسانی عبد ہونا نہیں کیونکہ عبدیت تو اس کے اندر ہے لہذا یہ حقیقت نہیں۔ لیکن پھریہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان کی حقیقت کیا ہے؟ یعنی اگر انسان کی حقیقت عبدیت نہیں ہے، تو پھر سائنس کے نزدیک تصور انسان [conception of man]کیاہے؟ یہی وہ سوال ہے جو موجودہ سائنس کی اصل حقیقت، ماہیت اور مقصد کو کھولنے اور سمجھنے میں مدددے گا، مگر اس سے قبل ایک اور ضروری بات کی وضاحت کرنا ضروری ہے ،اس کے بعد پھر ہم اس سوال پر کچھ کلام کریں گے۔
    تصور حقیقت اور علمیت کا باہمی تعلق:
    یہاں یہ بات بھی نوٹ کرلینی چاہئے کہ تصور علمیت [epistimology]کا حقیقت کے مابعد الطبعیاتی تصور [metaphysics]سے بڑا گہرا تعلق ہوتا ہے۔ یعنی علم کیا ہے، علمی ترقی کیا ہے، نیز علم حاصل کرنے کا ذریعہ کیا ہے ان تمام سوالات کا جواب اس بات پر منحصر ہے کہ کسی شخص کے نزدیک حقیقت کا تصور کیا ہے۔ مذہب سائنس اور فلسفہ حقیقت کے جاننے کا دعویٰ کرتے ہیں تو یہ دعویٰ کچھ اعتقادات، ایمانیات کے بغیر ممکن نہیں لہٰذا سائنس فلسفہ اور مذہب کی بنیاد اعتقادات، الٰہیات، ایمانیات اور مفروضات پر رکھی جاتی ہے۔ چونکہ سائنس کے نزدیک حقیقت معروضیت ہے، لہذا اس کے تصور علم میں :
  5. علم وہی ہے جس میں معروضی حقائق [جسے سائنس ’علت و معلول ‘، Cause and effect، کہتی ہے ]کا بیان ہو۔
  6. علمی ترقی سے مراد اسی نوعیت کے زیادہ سے زیادہ بیانات دریافت کرنا ہے جو معروضی ہوں [چاہے ایسے بیانات جانوروں کے بارے میں ہی کیوں نہ ہوں]
  7. ذریعہ علم وہی ہے جو معروضیت تک لے جانے والاہو۔
    اس کے مقابلے میں اسلام کے تصور حقیقت سے جو تصور علم نکلتا ہے اس کے مطابق :
  8. علم وہی ہے جس میں احکام شریعہ [یعنی وہ بیانات جو یہ بتا ئیں کہ رضائے الہی کس شے میں ہے]کا بیان ہو۔
  9. علمی ترقی سے مراد احکام شریعہ کی زیادہ سے زیادہ تخریج اور اسپر عمل کرنا ہے۔
  10. ذریعہ علم وحی [اور اس میں بتایا گیا علم باطن ]ہے
    چونکہ سائنس اور اسلام کے تصور ات حقیقت ہی جدا جدا ہے لہذا دونوں کے تصور علم میں بھی فرق ہے ۔ اس فرق کو یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ اسلامی نقطہ نگاہ سے رؤیائے صادقہ [انبیاء اور صالحین کے خواب]بھی ادراک حقیقت [معرفت الہی ]کے ضمن میں علم کا ذریعہ ہیں [اس فرق کے ساتھ کہ انبیاء کو خواب میں جس حقیقت کا ادراک ہوتا ہے وہ قطعی اور واجب الایمان واطاعت ہوتاہے جبکہ اور لوگوں کے خواب کے لیے یہ صفات ثابت نہیں] جبکہ سائنس قطعاً اسے ذریعہ علم نہیں مانتی۔
    یہ بات بہت اچھی طرح سمجھ لینے کی ہے کہ (ہمارے نزدیک) وحی اور انبیاء کی تعلیمات کے علاوہ اور کوئی ایسا ذریعہ علم نہیں جس کے ذریعے انسان حقیقت کا ادراک کرسکے ۔ حقیقت کی معرفت ایمان اور دائمی شریعت پر عمل کیے بغیر کسی اور ذریعے سے ممکن ہی نہیں۔ اور اس ادراک کا پرتو ’قلب مومن‘ پر پڑتا ہے نہ کہ ’عقل انسانی ‘ پر ۔ چونکہ سائنس کا تصور حقیقت [معروضیت] ہی مذہب کے تصور حقیقت [معرفت الہی] سے مختلف ہے، لہذا وہ وحی کو ادراک حقیقت کا ذریعہ علم نہیں مانتی۔ اور تو اور پورے مغربی فلسفیانہ فکر میں جہاں حواس خمسہ، زبان، عقل اور وجدان پربحیثیت منبع علم کے طویل بحثیں ملتی ہیں وہاں قلب کو بطور ذریعہ علم کے کہیں ذکر ہی نہیں کیا گیا۔ اس ضمن میں ایک عجیب بات یہ ہے کہ جدید مسلم مفکرین تو اب قرآنی اصطلاح ’قلب‘ کا ترجمہ ہی ’عقل‘[reason] کرنے لگے ہیں جس کی بنیادی وجہ اس سائنسی دعوے سے مرعوبیت ہے کہ سوچنے کا کام دماغ کرتا ہے نہ کہ دل [اس پر مزید بحث مضمون کے آخری حصے میں دیکھئے ]۔
    چونکہ سائنس حقیقت کا یکسر مختلف تصور رکھتی ہے ، لہذا اس کے ادراک کے لیے اسکا مفروضہ ذریعہ علم بھی مختلف ہے۔ اس ضمن میں مزے کی بات یہ ہے کہ سائنس آج تک اپنی مفروضہ حقیقت [معروضیت] تک بھی نہیں پہنچ سکی۔ اور یہی نہیں بلکہ پس جدیدیت [Post-modernism] نے تو اس بات کو پایائے تکمیل کو پہنچا دیا ہے کہ معروضیت کی تلاش کا یہ سفر کبھی بھی اپنی منزل تک نہیں پہنچ سکتا۔ اور پہنچے بھی کیسے، کیونکہ جس شے [معروضیت] کو سائنس حقیقت سمجھ کر تلاش کر رہی ہے وہ حقیقت ہے ہی نہیں، بلکہ وہ تو سراب ہے۔چونکہ سائنس کا تصور حقیقت ہی باطل اور مردودہے، لہذا سائنس نہ تو کبھی حقیقت تک پہنچ سکتی ہے اور نہ ہی وہ انسان کو کوئی ایسا ذریعہ علم بتا سکتی ہے جو اسے اصل حقیقت [معرفت الہی] تک لے جاسکے۔ [اسی لیے پس جدید مفکرین [Post-modernist] کے یہاں مابعد الطبیعیاتی سوالات لایعنی ٹھہرے اور موت پر تفکر و تدبر ختم ہوگیا اور ان سوالات کا جواب دینے میں ناکامی کے بعد اپنی اصلاح کے بجائے فلاسفہ نے زندگی، موت، کائنات، خدا، آخرت کے سوالات کو بے کار قرار دیا۔]
    غلط فہمیوں کی جڑ:
    اصل بات یہ ہے کہ سائنس کاتصور حقیقت بس مخلوقات تک ہی محدود ہے اور اس سے نکلنے والا تصور علم انسان کو مخلوق میں اور دنیا اس طرح الجھا دیتا ہے کہ اسے اپنے خالق سے لو لگانے کی فرصت ہی نہیں ملتی ۔ پس یہ بنیادی بات بہت اچھی طرح سمجھ لینے کی ضرور ت ہے کہ سائنس اور اسلام ہر گز ایک حقیقت کی تلاش میں نہیں ہیں اور یہی غلط فہمی سب غلط فہمیوں کی جڑ ہے۔

سائنس کا اصل خدا کون؟
یہ غلط فہمی کہ سائنس اسی حقیقت کی تلاش میں ہے جو مذہب بتا تا ہے اس وجہ سے بھی دلوں میں گھر کر گئی ہے کیونکہ مسلم مفکرین کے خیا ل میں جدید سائنسی تحقیقات اب کسی ایسے وجود کی طرف اشارہ دے رہی ہیں جو اس منضبط کائنات کو چلانے کے لیے لازم ہے ۔ اثبات خدا کے ضمن میں یہ ہرگز کوئی نئی دلیل نہیں بلکہ وہی پرانی دلیل ہے جسے متکلمین اور فلاسفہ ’دلیل ربط‘[Design argument]کہتے ہیں۔چنانچہ اہل علم پر اس دلیل کی کمزوریاں واضح ہیں[اس کی تفصیل بیان کرنا مضمون کا مقصد نہیں]۔ لیکن فرض کریں کہ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ سائنس کسی طرح ایک ایسے وجود کی طرف اشارہ کرتی ہے جسے خدا کہا جاسکتا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے سائنسی خدا کا کردار اس دنیا میں سوائے اس کے اور کیا رہ جاتا ہے جسے سائنس اور فلسفے کی زبان میں clock maker god کہتے ہیں۔ یعنی خدا اگر ہے بھی تو اس کی حیثیت بس ایک گھڑی میں چابی بھرنے والے شخص کی سی ہے جو گھڑی میں جب ایک دفعہ چابی بھر دے تو گھڑی اس چابی بھرنے والے کے بغیر خود بخود چلتی رہتی ہے، اسی طرح خدانے علل و معلول کے اصولوں کے تحت ایک مرتبہ یہ دنیا بنا کر چھوڑ دی ہے اور اب اس کی حقیقت اور معنویت سمجھنے کے لیے اس خدا کی ہرگز کوئی ضرورت نہیں۔گویا علت و معلول کا قانون ہی اشیاء کی اصل حقیقت ہے نیز یہ کہ حوادثات عالم کی تشریح اور حقیقت کے لیے کسی ایسی مقصد یت کو تلاش کرنا جس کی نسبت ارادہ انسانی سے باہر مثلاً خدا کی طرف ہو سائنس کے نزدیک ایک لایعنی اور مہمل بات ہے۔ مثلاً اگر کوئی مومن یہ سنتا ہے کہ جب زنا کی کثرت ہوتی ہے تو زلزلے کثرت سے آتے ہیں [جیسے کہ حدیث میں آیا ہے] تو حوادث عالم [زلزلہ آنے] کی حقیقت کا یہ ادراک اس میں برے اعمال سے توبہ اور اصلاح احوال کی فکر کرنے کے جذبات پیدا کرتا ہے۔ مگر سائنس کے نزدیک یہ بات ہی مہمل اور بے معنی ہے کیونکہ یہ اس کے تصور حقیقت سے مطابقت نہیں رکھتی ۔
چنانچہ ایک ایسا شخص کہ جس کی عقل و خرد پر سائنس کے تصور حقیقت کی گرد پڑ گئی ہو اس واقعے کو معروضیت [objectivity] کی نظر سے دیکھ کر یہ کہے گا کہ زلزلہ زمین کے اندرچند جغرافیائی نوعیت کی تبدیلیوں کی وجہ سے آتا ہے۔ اس نقطہ نظر کی کوئی ٹھوس دلیل نہیں ہے یہ صرف سائنس کا ایمان عقیدہ اور مفروضہ ہے کہ زمین میں ہلچل رکابیوں کے ہلنے سے پیدا ہوتی ہے۔ رکابیاں کیوں ہلتی ہیں کون ہلاتا ہے۔ رکابیاں [Plates] کس نے بنائیں، سائنس یہاں چپ ہوجاتی ہے یا مفروضات اور اپنی دیو مالا پر بھروسہ کرتی ہے۔ سائنس کے نزدیک اس دنیا میں رونما ہونے والا ہر واقعہ علت و معلول کے اسی قانون کے ماتحت ہوتا ہے اور اگر انسان یہ سلسلہ دریافت کرلے تو وہ نہ صرف یہ کہ اس کی حقیقت کو سمجھ سکتا ہے بلکہ اسے قابو میں لاکر اس پر اپنا تسلط قائم کرسکتا ہے اور سائنس کے نزدیک انسان کا کائناتی تسلط ہی اصل حقیقت اور مقصد انسانی ہے۔ دوسرے لفظوں میں سائنس کا اصل خدا انسان ہی ہے کیونکہ سائنس کا تصور حقیقت [conception of reality] انسان کو قائم بالذات تصور کرتاہے، اور یہی سائنس کا تصور انسان [conception of man]ہے جسکا ذکر اوپر کیا گیا تھا۔
عقل ہی واحد ماخذ علم ہے:
اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ سائنس کا تصور حقیقت اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ حقیقت [معروضیت ]کا ادراک انسانی ذرائع علم [خاص طور پر عقل] کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ سائنس کے نزدیک عقل انسانی ہر حقیقت سے ماوراء اور بلند تر ایک ایسا وجود ہے جو ہر شے کی حقیقت جاننے کے لیے بمثل میزان ہے کہ ہر شے کی حقیقت تو اس پر منحصر ہے مگر یہ کسی اور شے کے تابع نہیں ۔ گویا عقل انسانی قائم بالذات ہے اور یہی انسان کا جوہر [essence]ہے [چنانچہ ڈیکارٹ [Descartes]کے ہاں تو یہ تصور سب سے واضح طور پر I think, therefore I am ، یعنی ’میں سوچتا ہوں اسی لیے میں ہوں ‘ کے الفاظ میں ملتا ہے]۔
جب یہ معلوم ہوگیا کہ سائنس کا تصور انسان ایک ایسا قائم بالذات ، آزاد اور خود مختار وجود ہے جسکا مقصد اپنے ارادہ [خواہش]کی تکمیل ہے تو اب اگلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے انسان کا کائنا ت کے ساتھ تعلق کس نوعیت کا ہوگا؟ دوسرے لفظوں میں سائنسی طریقہ علم سے انسان کائنات میں جس حقیقت [معروضیت جو علل و معلول کی شکل میں اپنا اظہار کرتی ہے ]کا ادراک کرے گا اس کی معنویت کیا ہوگی نیز یہ معنی انسان کہاں سے حاصل کرے گا؟ چونکہ انسان آزاد اور قائم بالذات ہے، لہذا اسکا ارادہ ہی معنویت کا واحد منبع ہے اور اسی ارادہ انسانی کے نقطہ نگاہ ہی سے ہر حقیقت کو معنی دئے جائیں گے۔ اس ارادہ انسانی کے نقطہ نگاہ سے علت و معلول کی صورت میں ظاہر ہونے والے ہر قانون کا مطلب ہے ’انسانی ارادے کی تکمیل کی نئی حد‘ [limit to freedom]۔مثلاً فرض کریں کوئی یہ چاہتا ہے کہ وہ کسی اونچے مقام سے چھلانگ لگائے مگر زمین پر نہ گرے تو کشش ثقل کے قانون نے اسے بتا دیا کہ ایسا کرنا ممکن نہیں۔ لہذا اب اگر انسان اپنے ارادے [ہو ا میں اڑنا وغیرہ] کی تکمیل چاہتا ہے تو کوئی ایسا طریقہ اختیار کرے جس کے ذریعے اس طبعی قانون کو غیر مؤثر کر دے۔ گویا ہر نیا سائنسی قانون ایک طرف تو انسان کو یہ بتا رہا ہے کہ وہ کیا نہیں کر سکتا، دوسری طرف کائنات پر اپنے ارادے کے تسلط کی خواہش انسان کو اس حد[limit] کو پیچھے دھکیلنے کے لیے اسی ٹیکنالوجی [تدبیر] کو بطور آلہ استعمال کرنے پر ابھارتی ہے۔ یعنی اب وہ کچھ ایسا کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ کشش ثقل کے قانون کے باوجود ہوا میں اڑنے کا سامان مہیا کرسکے [مثلاً جہاز کے ذریعے] تاکہ اپنے ارادے یا خواہش کی تکمیل کرسکے۔ بالکل اسی طرح ایک سائنسی ذہنیت کا حامل شخص زلزلے کے حادثے کو کسی خدائی تنبیہہ یا سزا وغیرہ کے معنوں میں نہیں بلکہ ان معنوں میں دیکھتا ہے کہ یہ حادثہ اس کے ارادے اور خواہشات سے علی الرغم اس کی زندگی اور اس کے سارے سکھ چین چھین لیتا ہے، گویا یہ حادثہ اسے اس کے ارادے یا آزادی کی ایک نئی حد متعین کر رہا ہے۔ لہذا اب وہ اس فکر میں لگ جاتا ہے کہ جتنا جلد ہو سکے اس حادثے کا سبب تلاش کرکے اسے اپنے قابو میں لے آئے تاکہ اس کے ان اثرات سے بچا جا سکے جو اس کی خواہش کے خلاف رونما ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ زیادہ سے زیادہ انسانی خواہشات کی تکمیل کا سامان فراہم کرنے کے لیے ارادہء انسانی کو کا ئنات پر مسلط کرنے کی ذہنیت [subordination of nature to human will for the maximum satisfaction of human wants]ہی موجودہ سائنس کی اصل حقیقت و ماہیت ہے۔سائنس ہر شے کی معنویت کو انسانی نقطہ نگاہ [anthoprocentric approach]سے دیکھتی ہے جبکہ مذہب اسے خدا کی نظر [God procentric approach]سے دیکھنے کا نام ہے۔
موجودہ یعنی جدید سائنس کو اس کی مابعد الطبعیات اور اس کے تصور علم سے ہٹا کر یہ سمجھنا کہ یہ ایک غیر اقدار ی اور فطری قسم کا علم ہے اور جسکا مقصد نوع انسانیت کی بھلائی ہے ایک نہایت غیر علمی اور خطرناک طرز تحقیق ہے۔خطرناک اس لیے کیونکہ آج تک جن معاشروں میں بھی علوم عقلیہ کو علوم نقلیہ پر علمی برتری حاصل ہوئی یا دونوں علوم کو مساوی تصور کیا گیا۔ وہاں مذہبی حقائق اورمذہبی معنویتِ زندگی بے معنی ہو کر رہ گئی جس کی وجہ یہ ہے کہ ہر علم کی اٹھان حقیقت کے جن مابعدالطبیعیاتی تصورات پر ہوتی ہے وہ تصورات اس علم کے ساتھ ہی افراد اور معاشروں میں منتقل ہوتے ہیں۔بالکل اسی طرح سائنسی علم کے ساتھ ساتھ ایک خاص قسم کی ذہنیت بھی افراد میں پروان چڑھتی ہے جسکا آخری اور لازمی نتیجہ وہی ہوتا ہے جو مغربی معاشروں میں ہمیں نظر آرہا ہے۔ علمیت سے شخصیت ظہور پذیر ہوتی ہے، تصور علم کے سانچے بدلنے سے شخصیت بھی بدل جاتی ہے۔ مثلاً اسلامی معاشروں میں کسی عریاں شخص کو دیکھ کر لوگ حیرت و افسوس کا اظہار کریں گے۔ مغرب میں لوگ اس حیرت و افسوس پر حیرت کریں گے اور کہیں گے یہ لوگ Tolerent نہیں ہے کیونکہ مغرب میں عریانی کوئی مسئلہ نہیں ہے ان کی علمیت میں یہ حلال جائز اور ٹھیک رویہ ہے۔ مغربی معاشروں میں پائی جانے والی ذہنیت کی تاریخ اور اسکا تجزیہ جناب عسکری صاحب کے مضمون میں بہت عمدہ طریقے سے بیا ن کیا گیا ہے [اسکی تفصیل کچھ عرصہ پہلے پیش کی جاچکی ہے ]۔ عسکری صاحب کے مطابق :
’نشاۃ ثانیہ کا اصلی مطلب ہے وحی پر مبنی اور نقلی علوم کو بے اعتبار سمجھنا، اور عقلیت اور انسان پرستی اختیار کرنا۔اسی لیے اس تحریک کا دوسرا نام ’انسان پرستی [Humanism]بھی ہے۔
۱۔ انسان پرستی ۔۔۔۔یعنی ہر بات پر انسان کے نقطہ نظر سے غور کرنا۔
۲۔ آخرت کا انکار بھی نہ کرنا مگر ایک بہت بڑا فرق رونما ہوجانا۔ ازمنہ وسطی [Medieval]کے لوگ کہتے تھے کہ اصل حقیقت تو آخرت ہی ہے ، یہ دنیا محض فریب ہے۔اب لوگ کہنے لگے کہ آخرت بھی حقیقی ہے اور دنیا بھی حقیقی ہے۔
۳۔ آخرت چونکہ نظر نہیں آتی، اسلیے کہا گیا کہ آخرت کی فکر میں گھلنا بیکار ہے،مرنے کے بعد دیکھا جائے گا۔ دنیا نظروں کے سامنے ہے،پہلے اسکا بندوبست کرو۔ اس رجحان کی بہترین مثال انگریزفلسفی بیکن ہے جسے ’سب سے پہلا جدید مفکر ‘ [اور سائنس دان ] کہا جاتا ہے۔
۴۔ یہ خیال بھی اس زمانے میں بہت مقبول ہوا کہ خدا کی دو کتابیں ہیں، ایک تو انجیل اور دوسری فطرت [اسی فکر کے ماتحت ہمارے ہاں ’دو قرآن ‘ جیسی کتب سامنے آئیں]۔چنانچہ انجیل کے مطالعے کی طرح فطرت کا مطالعہ بھی دینی فریضہ ہے ۔کچھ لوگ تو اس سے بھی آگے گئے اور کہنے لگے کہ انجیل کو فطرت کے مطالعے کی روشنی میں سمجھنا چاہئے۔ یہ نقطہ نظر گیلیلیو کا بھی تھا
۵۔ فطرت کے حسن کی طرف بھی خاص طور پر توجہ کی گئی۔ انسان کا فریضہ قرار پایا کہ فطرت کے حسن اور دنیا کی رنگینیوں سے پوری طرح لطف اندوز ہو۔سینکڑوں شاعر اس موضوع پر نظمیں لکھنے لگے کہ زندگی چند روزہ ہے، اس سے جتنا لطف اٹھایا جاس کے اٹھالو۔ یعنی نفس پرستی کو اصول زندگی بنایا گیا۔
۶۔ فطرت کا مطالعہ برائے مطالعہ نہیں ہونا چاہئے، بلکہ تسخیر فطرت کے لیے ہو تاکہ انسان فطرت کی قوتوں کو اپنے کام میں لا سکے۔
۷۔ مطالعہ فطرت کا طریقہ بھی بیکن نے مقرر کردیا۔جس چیز کو سائنس کا طریقہ کہتے ہیں اسی سے شروع ہوا ہے جسکا مطلب یہ ہے کہ چیزوں کی حقیقت صرف مشاہدے اور تجربے سے معلوم کی ہوسکتی ہے ۔اس سے براہ راست منطقی نتیجہ یہ نکلا کا جو چیز مشاہدہ نہ کی جاس کے اور حسی تجربے میں نہ آسکے وہ حقیقی نہیں۔
۸۔ تسخیر فطرت سے مراد ہے طاقت کا حصول۔ یہ اس دور کا سب سے بنیادی اور مرکزی اصول حیا ت ۔ انسان کا سب سے بڑا فریضہ یہ قرار پایاکہ طاقت حاصل کرے، خواہ کسی شعبے میں ہو اور کسی طریقے سے ہو۔ ‘ [ مغربی گمراہیوں کی تاریخ از حسن عسکری[
ان سب سے بڑھ کر یہ کہ موجودہ سائنسی ترقی کو اس کی اس اصل حیثیت نیز سرمایہ دارنہ نظام زندگی میں اس کے کردار کو جانے بغیر سمجھنا ممکن ہی نہیں . یہ سائنس اور سرمایہ داری کے تعلق ہی کا مظہر ہے کہ نئی سے نئی خواہشات نفسانی کی تکمیل کے لیے سائنسی عمل کے ذریعے جس نہج پر کائناتی قوتوں کا استحصال کیا گیا وہ کائنات کی وجودی ساخت [ontology]سے مطابقت نہیں رکھتا۔یعنی سائنسی عمل کے ذریعے سرمایہ دارانہ ترقی [growth] کا حصول ماحولیاتی نقطہ نگاہ سے کائناتی قوتوں کا ناجائز استعمال کرکے ہی ممکن ہوسکا ہے، جس کے نتیجے میں انسان خود اوزون کی تہہ پھٹنے اور دیگر خطرنات ماحولیاتی تبدیلیوں سے دو چار ہے۔ سائنس کی ہر ایجاد دنیا سے انسان کی محبت تعلق اور لگاؤ میں اضافے کا سبب بنتی ہے اور آخرت فراموشی کا درس دیتی ہے کوئی ایسی سائنسی ایجاد موجود نہیں جسے دیکھ کر آخرت یاد آئے، دنیا کی زندگی حقیر نظر آئے اور معرفت الٰہی کا ادراک ہوسکے کیونکہ جدید سائنس کی بنیاد آزادی کے فروغ پر رکھی گئی ہے جس کا مادی مظہر محض سرمایہ ہے۔
سائنس کا تصور حقیقت قبول کرلینے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ ہم یہ مان لیں کہ علم کا اصل منبع وحی نہیں بلکہ عقل انسانی ہے، نیز یہ کہ وحی تب ہی معتبر ہوگی کہ جب وہ سائنس کے اصولوں کے مطابق ہو۔ دوسرے لفظوں میں وحی عقل پر نہیں، بلکہ عقل وحی پر حاکم ہے۔یہ دعوی کہ سائنس کے ذریعے حق تک پہنچنا ممکن ہے اس بات کا اقرار ہے کہ عقل کے ذریعے خیر اور شر، حق اور باطل کا ادراک کرلینا ممکن ہےاور اگر عقل کے ذریعے ایسا کرنا ممکن ہے تو پھر وحی، نبوت اور شریعت بے کار باتیں ہیں جنکی کوئی ضرورت ہی نہیں۔یہی وہ رجحانات ہیں جو قرون اسلام میں معتزلہ فرقے کے ہاں پائے جاتے تھے جب انھوں نے عقل کو وحی سے بالاتر گردانا تو خود کو شریعت، نبوت اور وحی سے بے نیاز سمجھنے لگے۔ اور یہ کوئی قصہ پارینہ ہی نہیں، بلکہ اگر کوئی شخص اس رجحان کا عملی نظارہ کرنا چاہتا ہے تو وہ مغربی فلاسفہ اور ان کے الحادی خیالات پر بننے والے معاشروں کو دیکھ لے کہ جہاں عقل اور سائنس کی غیر منطقی بالا دستی کے نتیجے میں فکر آخرت ، خوف خدا، للہیت، عشق رسول، تقوی،عفت، حیا، زہد، فقر، قناعت وغیرہ جیسے مذہبی حقائق اور اعلی صفات کس طرح مہمل اور بے معنی ہوکر رہ گئی ہیں۔ اور بدقسمتی یہ ہے کہ اب مسلمان معاشروں میں بھی جدید سائنسی علوم کی اعلی سطح پر بالادستی کی وجہ سے اخروی نجات کے بجائے دنیاوی عیش و آرام، اصلاح و تسخیر قلب نیز علم باطن کے حصول کے بجائے سائنسی ایجادات اور تسخیر کائنات کرنے کی فکر اور رجحانات عام ہوتے جارہے ہیں جو ایک نہایت خطرناک امرہے۔
ڈاکٹر زاہد مغل

Leave Your Comment

Your email address will not be published.*

Forgot Password