خدائی تعلق –دلیلِ انحصاری [The Divine Link-The Argument from Dependency]

فرض کریں آپ اپنےگھر سے نکلتے ہیں اور اپنی گلی میں ڈومینوز (ایک کھیل کا چھکا) کی ایک قطار دیکھتے ہیں،جو حدِ نگاہ تک پھیلی ہوئی ہے.پھر آپ کو ایک آواز آنی شروع ہوتی ہے جو آہستہ آہستہ بلند ہوتی جاتی ہے.یہ آواز آپ کے لیے جانی پہچانی ہے کیونکہ آپ بچپن میں ڈومینوز کا کھیل کھیلتے رہے ہیں،یہ ڈومنیوز کی ٹائلوں کے گرنے کی آواز ہے.آپ اس بات کے بہت معترف ہوتے ہیں کہ کس طرح طبیعیات کے بنیادی قوانین نے یہ خوبصورت منظر پیش کیا لیکن اس کے ساتھ ساتھ آپ حیران بھی ہیں کیونکہ ڈومینوز کی آخری ٹائل آپ کے قدموں سے کچھ ہی فاصلے پر گر چکی ہے.اس حیرت انگیز واقعے سے جو ابھی ابھی رونما ہوا ہے آپ ابھی تک پرجوش ہیں لہٰذا آپ فیصلہ کرتے ہیں کہ آپ گلی کے آخری سرے تک جائیں یہ امید کرتے ہوئے کہ آپ اس شخص کو جالیں جو اس حیرت انگیز کارنامہ کا ذمہ دار ہے.(نوٹ: ڈومینوز ایک کھیل ہے جو ٹائلوں کے ذریعے کھیلا جاتا ہے)۔
مندرجہ بالا صورتِ حال کو مدِ نظر رکھتے ہوئے میں آپ سے کچھ سوالات پوچھنا چاہتاہوں.گلی میں چلتے ہوئے کیا آپ اس جگہ پہنچ جائیں گے جہاں سے ڈومینوز کے اس تسلسل یا چین کاآغاز ہوا ہے یا آپ ہمیشہ چلتے رہیں گے؟ظاہر سی بات ہے آپ بالآخر پہلے ڈومینو تک پہنچ جائیں گے.تاہم میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں ، کیوں؟ وجہ آپ جانتے ہیں کہ آپ پہلے ڈومینو تک پہنچ جائیں گے کیونکہ آپ کو پتا ہے کہ آپ اگر ڈومینو گرنے کا سلسلہ لامحدود ہوتا تو آخری ڈومینو جو آپ کے قدموں کے بالکل قریب گرا تھا’کبھی نہ گرتا.کیونکہ آخری ڈومینو کے گرنے سے پہلے ڈومینو کی ایک لامحدودتعداد کو گرنا ہوگااور ظاہر ہے کہ لامحدود ڈومینوز کوگرنے کے لیے لا محدود وقت بھی درکار ہے۔دوسرے الفاظ میں آخری ڈومینو کبھی نا گرپاتا۔سادہ الفاظ میں آپ جانتے ہیں کہ آخری ڈومینو گرنے کے لئے لازمی ہے کہ اس سے پہلا ڈومینو گرتا اور اس ڈومینو کے گرنے کے لئے لازمی ہے کہ اس سے پہلے والا ڈومینو گرے،اگر یہ سلسلہ ہمیشہ جاری رہے تو آخری ڈومینو کبھی نہیں گرے۔!
اس مثال کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں آپ سے ایک اور سوال پوچھنا چاہتا ہوں.فرض کریں کہ گلی میں چلتے ہوئے آپ اس پہلےڈومینو تک پہنچ جاتے ہیں جس سے یہ ڈومینو کےگرنے کا سلسلہ شروع ہوا،پہلے ڈومینو کےبارے میں آپ کے خیالات کیا ہونگے؟کیا آپ یہ سوچیں گے کہ یہ ڈومینو خودبخود گرگیا؟دوسرے الفاظ میں کیا آپ یہ سوچ سکتے ہیں کہ پہلے ڈومینو کے گرنے کی وضاحت کسی بیرونی عنصر،قوت کے بغیر کی جاسکتی ہے؟ بالکل نہیں؛ کیونکہ یہ حقیقت کے بارے میں ہماری بنیادی سمجھ کے ہی خلاف ہے۔ کوئی بھی چیز خودبخود نہیں ہوتی،ہر چیز کے وجود یا ہر واقعے کے رونما ہونے کے پیچھے کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہوتی ہے۔ لہذا پہلے ڈومینو کے گرنے کی کوئی اور وجہ(بیرونی عنصر) ہوگی۔ جیسے کوئی شخص، ہوا یا کسی چیز کا اس سے ٹکرانا وغیرہ۔ جب ڈومینو کے گرنے کے واقعے کی وضاحت کی جائے گی تو وہ وجہ ہماری وضاحت کا حصہ ہوگی۔
مذکورہ بالا حقائق کو یکجا کریں تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ نہ تو ڈومینو کا سلسلہ لامتناہی ہوسکتا ہے اور نہ ہی پہلا ڈومینو خود بخود گرسکتا ہے چاہے جو بھی ہو۔
اوپر بیان کی گئی مثال انحصار(Dependency) کے بارے میں ہماری بحث کا خلاصہ ہے۔ کائنات بھی ڈومینو کی ایک قطار کی طرح ہے۔کائنات اور اس میں موجود ہر شے منحصر ہے۔ وہ کسی ایسی چیزیا ہستی پر انحصار نہیں کرسکتی جو خود کسی دوسری چیز پر انحصار کرتی ہو۔اس کی قرین قیاس وضاحت یہی ہے کہ کائنات اور اس میں موجود ہر چیز کسی ایسی ہستی/ذات پر ہی منحصر ہوسکتی ہے جس کا وجود کائنات پر منحصر نا ہو (اور اس حوالہ سے کسی بھی دوسری پر بھی نہیں۔) یا پھر یوں کہیے کہ اس ذات/ہستی کو کائنات کی طرح یا اس طرح کی کسی دوسری چیز پر انحصار نہیں کرنا چائیے جس طرح کائنات میں ہر دوسری چیز کرتی آئی ہے۔ کیونکہ اس طرح “ڈومینو کی چین میں مزید ایک ڈومینو کا اضافہ ہوجائے گا جس کے لئے ایک الگ وضاحت درکار ہوگی۔ لہٰذا کوئی خود مختار اور لازوال ذات ضرور ی ہے جس پر ہر چیز انحصار کرتی ہے۔

انحصار/محتاجی سے کیا مراد ہے؟

اس دلیل کو سمجھنے کے لیے مجھے یہ بیان کرنا لازمی ہے کہ منحصر ہونے سے میری مراد کیا ہے؟ جب ہم کہتے ہیں کوئی چیز کسی پر منحصر ہے اس کا کیا مطلب ہوتا ہے :
(1) یہ کوئی ایسی چیز ہے جو لازمی نہیں:
لفظ “لازمی ” کا فلسفے میں ایک خاص تکنیکی مطلب ہے۔ عام استعمال کے برعکس اس سے ایسی کوئی چیز مراد نہیں جس کی آپ کو ضرورت ہو۔ بلکہ جب فلسفی کسی چیز کے بارے میں لزوم کا لفظ استعمال کرتے ہیں ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ ناممکن اور ناقابلِ تصور تھا کہ وہ چیز وجود نا رکھتی۔یہ ذرا مشکل تصور ہے اس لئے کہ ہمارے عملی تجربے میں کوئی ایسی چیز نہیں جو کبھی لازمی ہو۔تاہم اس کے الٹ سوچ کر ہم “کسی چیزکے لازمی ہونے ” کا مناسب مطلب سمجھ سکتے ہیں۔ کوئی شے یا چیز جو لازمی نہ ہو دلالت کرتی ہے کہ اسکا وجود بھی نہیں ہونا چاہیے۔ دوسرے الفاظ میں یہ بات قابل فہم ہے کہ جو چیز کبھی وجود نہیں رکھتی تھی وہ غیر لازمی ہے ۔ وہ کرسی جس پر آپ اس وقت بیٹھے ہیں واضح ہے کہ یہ لازمی نہیں-ہم ایسی ہزاروں صورتوں کا تصور کرسکتے ہیں جہاں یہ(کرسی) موجود ہی نہ ہو.آپ نے اس کو خریدنے کے لیے منتخب نا کیا ہو، بڑھئی نے اسے بنایا نہ ہو،یا پھر تاجر نے اس کو بیچنے کا سوچا نہ ہو.واضح طور پر ایسی کئی آسان صورتیں سامنے آتی جن سے کرسی کا کوئی وجود ہی نا ہوتا۔
اب”یہاں نا پایا جانا”کا امکان انحصار کرنے والی چیزوں کی خاص خصوصیت ہے۔کوئی ایسی چیز جس میں یہ خصوصیت پائی جائے اسکے وجود کی توجیہہ لازمی ہے ۔یہ اس لئے کہ ایک ایسی چیز جس کا پہلے وجود ہی نا ہو ‘ کے بارے میں آپ آسانی سے سوال کرسکتے ہیں؛یہ چیز(مثلاََ کرسی)آخر کیوں موجود ہے؟یا اس کرسی کے وجود میں آنے کی آخر کیا وجہ ہے؟یہ ایک مناسب سوال ہے جو وضاحت مانگتا ہے۔ایسا نہیں ہوسکتا کہ چیز خودبخود موجود ہوں،کیونکہ اس کے وجود کے بارے میں کچھ بھی لازمی نہیں.یہ کہنا کہ چیز کا اپنا وجود آپ اپنی وضاحت کرتا ہے،انحصار کی اس خصوصیت کا انکار کرنا ہے جس کو ہم نے ابھی بیان کیا۔ چنانچہ ، وضاحت اس چیز سے ہٹ کر ہونی لازمی ہے۔ اس سیاق میں وضاحت/توجیہہ سے ہماری مراد وہ خارجی عنصر ہے جو یہ وجہ بیان کرتا ہے کہ کوئی چیز کیوں وجود رکھتی ہے ؟لہٰذا لازمی ہے کہ وضاحت خارجی عنصر پر مشتمل ہو۔
اپنی کرسی کی مثال کی طرف واپس آتے ہیں ، کئی محرکات مثلاََ بڑھئی کا کرسی کو بنانا، تاجر کا اس کو بیچنا اور آپ کا اس کو خریدنا، کرسی کے وجود کی وضاحت کرتے ہیں.لہٰذا اگر کسی چیز کے وجود کے لیے خارجی عناصر درکار ہوں،اس سے یہ ثابت ہوتا ہےکہ وہ چیزاپنے علاوہ کسی دوسری چیز پر انحصار کرتی ہے.لہٰذا اس کا وجود کسی بیرونی چیز پر منحصرہے.یہ استدلال کی ایک بنیادی،بدیہی اور عقلی شکل ہے.یہ اس لئے ہے کہ کسی ایسی چیز کے وجود کے بارے میں سوال کرنا جو پہلے وجود نہ رکھتی ہو،ایک عقل مند ذہن کی نشانی ہے۔
سوچیے کہ سائنس دان کیا کرتے ہیں.وہ حقیقت کے مختلف پہلوؤں پر انگلی اٹھاتے ہیں اور سوال کرتے ہیں.(مثلاََ) یہ پھول اس طرح کیوں ہے؟اس بیکٹریائی جراثیم سے یہ بیماری کیوں لاحق ہوتی ہے؟کائنات موجودہ رفتار سے کیوں پھیل رہی ہے؟وہ وجہ جس سے یہ سارے سوالات مناسب قرار پاتے ہیں وہ یہ حقیقت ہے کہ ان میں سے کوئی بھی چیز لازمی نہیں ۔ مطلب یہ ممکن تھا کہ ان میں سے کوئی بھی چیز اپنی موجودہ حالت میں نہ ہوتی یا سرے سے وجود ہی نا رکھتی ۔ اس تصور کومزید واضح کرنے کے لئے اس مثال پر غور کیجئے؛
آپ صبح صبح اٹھتے ہیں اور سیڑھیاں اتر کر کچن جاتے ہیں.آپ فریج کھولتے ہیں اور انڈوں کے ڈبے پر آپ کو قلم ملتا ہے.سیدھی سی بات ہے یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ فریج بند کردیں اور یہ خیال کریں کہ قلم کا یہاں پر وجود لازمی ہے.آپ یہ بھی نہیں سوچیں گے کہ قلم خودبخود فریج میں پہنچ گیا.آپ اپنے آپ سے یہ سوال ضرور کریں گے کہ قلم انڈوں کے ڈبوں کے اوپر کیوں موجود ہے یا کیوں رکھا ہوا ہے.یہ سوال پوچھنے کی وجہ یہ ہے کہ آپ جانتے ہیں قلم کاانڈوں کے ڈبوں کے اوپر موجود ہونا لازمی نہیں ہے.اس کی اس جگہ پر موجودگی بیان کرنے کے لئے ایک وضاحت لازمی ہے اور جس انداز میں یہ وہاں موجود ہے “اس انداز”کی بھی وضاحت درکار ہے.اس کی کئی وضاحتیں ہوسکتی ہیں لیکن یہ حقیقت کہ قلم کا یہاں وجود بیان کرنے کے لئے ایک وضاحت لازمی ہے ‘ کا مطلب ہے کہ قلم (کسی دوسری چیز) پر انحصار [Dependent] کرتا ہے۔ قلم فریج میں کیا کررہا ہے اور جس انداز میں یہ وہاں موجود ہے،اس کو بھی واضح کرنے کے لئے خارجی عناصر پر مشتمل ایک وضاحت لازمی ہے.مثال کے طور پر یہ قلم کسی جگہ بنایا گیا اور آپ کے بیٹے نے کتابوں کی ایک دکان سے وہ قلم خریدا اور اس کو فریج میں رکھ دیا،یہ وہ خارجی عناصر ہے جو قلم کے فریج میں موجود ہونے کو واضح کرتے ہیں. لہٰذا قلم ان خارجی عناصر پر انحصار کرتا ہے اور یہ خارجی عناصر قلم کے وجود کی وضاحت کرتے ہیں۔
(2) کوئی چیز منحصر [dependent] کہلائے گی اگراس میں ڈیزائن ہو یا اسکے اجزاء یا اسکی عمارت کے بنیادی بلاک کو مختلف طریقے سے ترتیب دیا جاسکے:
ایسا اس لئے ہے کہ اس چیز سے ہٹ کر کوئی ذات یا چیز لازمی ہے جس نے اس کی خاص ترتیب کا تعین کیا ہے.مجھے ایک مثال کے ساتھ اس تصور کی وضاحت کرنے دیجئے؛ آپ گھر جارہے ہیں اور آپ کا گزر ایک گول چکر [roundabout]سے ہوتا ہے.آپ کی نظر پھولوں کے ایک خوشے پر پڑتی ہے جو ان تین الفاظ “I Love You” کی ترتیب میں لگے ہوئے نظر آتے ہیں.آپ یہ اخذ کرسکتے ہیں کہ پھولوں کی ترتیب میں کوئی خاص بات نہیں، انکو کسی اور طریقے سے بھی ترتیب دیا جاسکتا تھا ۔ مثال کے طور پر الفاظ”I Love You”کے بجائے”I Adore You” استعمال کیے جاتے .یا پھر پھولوں کو ترتیب ہی نا دیا جاتا ، یہ بےترتیب یابکھرے پڑے ہوتے۔ چونکہ پھول کسی دوسری ترتیب میں لگائے جاسکتے تھے لازمی ہے کہ کسی خارجی قوت نے ہی انکی ترتیب متعین کی ہو ۔ موجودہ معاملے میں یہ کوئی مالی ہوسکتا ہے یا پھر لوکل گورنمنٹ کا کوئی پروجیکٹ بھی ہوسکتا ہے۔یہی حقیقت ان ساری چیزوں کے بارے میں ہے جن کا آپ مشاہدہ کرتے ہیں. ہر چیز خواہ وہ ایک ایٹم،یا لیپ ٹاپ یا ایک جاندار ہی کے اجزا کیوں نہ ہوِں،ایک خاص انداز میں ترتیب دیے گئے ہوتے ہیں۔مزید بر آں ہر بنیادی جز کا موجود ہونا بھی لازمی نہیں ۔کسی چیز کے بنیادی اجزاء اپنے آپ کی یا اپنے وجود کی وضاحت نہیں کرسکتے ،لہٰذا ان کوایک وضاحت کی ضرورت ہوتی ہے.(اوپر بیان کی گئی تعریف دیکھیں)
(3) ایک چیز منحصر ہے ،اگر اس کو اپنے وجود کے لئے کسی بیرونی عنصر کی ضرورت ہے؛
یہ عام فہم بات ہے ۔ ایک منحصر چیز اپنے آپ اپنا وجود برقرار رکھ نہیں رکھ سکتی.مثلاََبلی اپنا وجود خودبخود قائم نہیں رکھ سکتی، اس کو زندہ رہنے کے لئے یااپنی بقا کے لئے بیرونی عناصر پر انحصار کرنا پڑتاہے.ان عناصر میں خوراک،پانی،آکسیجن اور جائے پناہ شامل ہیں.
(4) کسی منحصر چیز کی تعریفی خصوصیات میں سے ہے کہ اس کی طبعیاتی خصو صیات محدودہوتی ہیں؛جیسا کہ شکل،حجم،رنگ، درجہء حرارت ،چارج اور وزن وغیرہ.
ایسا کیوں ہے؟ظاہر ہے جب کسی چیز کی طبعیاتی خصو صیت محدود ہے تو اس کا مطلب یہ ہےکہ اس خصو صیت کے محدود ہونے کی کوئی بیرونی وجہ ہے ،خواہ وہ کوئی ذریعہ یا کئی محرکات ہوں.یہ سوالات اس نکتے کو مزید واضح کرتے ہیں ؛ اس چیز کی یہ خصوصیا ت محدود کیوں ہے؟ یہ اپنے موجودہ وزن سے دگنی کیوں نہیں؟یہ کسی اور رنگ یا شکل میں کیوں موجود نہیں؟یعنی اس چیز نے خودبخوداپنے حدود کا تعین نہیں کیا. مثا ل کے طور پر اگر میں ایک کیک اٹھاتا ہوں جو ایک محدود حجم،شکل،رنگ اور بناوٹ رکھتا ہے اور میں دعویٰ کرتا ہوں کہ اس کا وجود لازمی ہے تو آپ مجھے بےوقوف خیال کریں گے. کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ حجم،رنگت اور بناوٹ کا ذمہ دار کوئی بیرونی ذریعہ ہے؛اس صورت میں اس کیک کو بنانے والا یعنی بیکر۔
لہٰذا یہ ایک معقول اور مناسب دعویٰ ہے کہ محدود طبعیاتی خصوصیت رکھنے والی تمام چیزیں محدود ہوتی ہیں،ان سے پہلے یقیناََ کوئی چیز ہو گی جو ان کی خصوصیات کی ذمہ دار ہوگی.یعنی تمام محدود طبعیاتی اشیاء کا ایک نقطہء آغاز ہوگا،کیونکہ یہ ناقابلِ تصور ہے کہ محدود طبعیاتی خصوصیت رکھنے والی اشیاء دائمی ہوں. اس کی وجہ یہ ہےکہ کوئی بیرونی ذریعہ یا محرکات کا ایک مجموعہ یقیناََ ہر محدود طبعیاتی خصوصیت رکھنے والی چیز سے پہلے موجود ہونا لازمی ہے وہ اس (چیز)کی محدودخصوصیات کا ذمہ دار ہے.
بالفرض اگر میں ایک پودا اٹھا لوں اور آپ سے کہو ں کہ یہ دائمی ہے تو آپ کا ردعمل کیا ہوگا؟آپ اس قسم کے دعویٰ پر یقیناََ ہنسیں گے.اگرچہ آپ نے پودے کو اگتے ہوئے نہیں دیکھا ہو،آپ جانتے ہیں کہ یہ فانی یا محدود ہے کیونکہ یہ محدود طبیعیاتی خصوصیات رکھتا ہے.تاہم اگر محدود طبیعیاتی خصوصیات رکھنے والی چیزیں(بشمول یہ کائنات) دائمی ہوتیں پھر بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وہ “منحصر” ہیں اور ان کا”وجود” لازمی نہیں.یہ دلیل صادق ہے چاہے بیان کی جانے والی شے دائمی ہو یا اس کا کوئی نقطہء آغاز ہو.

انحصاری کی توجیہات:

منحصر ہونے کی جو جامع تعریف اوپر بیان کی گئی ہے جب اس کا اطلاق کیا جائے تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ کائنات اور اس میں موجود ہر شے منحصر ہیں. کسی بھی چیز پر غور کریں جو آپ کے ذہن میں آئے جیسا کہ قلم،درخت،سورج،الیکڑان اور حتیٰ کہ کوانٹم فیلڈ. یہ سب چیزیں کسی نہ کسی لحاظ سے منحصر ہیں۔ اگر یہ درست ہے تو وہ تمام چیزیں جو ہمارے مشاہدے میں ہیں بشمول کائنات کے ان کے وجود کی توجیہہ/سبب کے لیے یہ نکات ہوسکتے ہیں:
(1) کائنات اور حلقہء ادراک میں آنے والی تمام اشیاء دائمی،لازمی اور خودمختار ہیں.
(2)کائنات کا وجود اور حلقہء ادراک میں آنے والی تمام اشیاء کسی اور چیز پر انحصار کرتے ہیں جو خود بھی کسی نہ کسی پر منحصر ہیں.
(3) کائنات اور حلقہء ادراک میں آنے والی تمام اشیاء نےاپنا وجود ایک ایسی ذات سے حاصل کیا ہے جو واجب الوجود ہے اور اسی طرح دائمی اور خودمختار ہے.
ہم ہر نکتے کو واضح کریں گے جس سے معلوم ہوگا کہ کونسا نکتہ کائنات اور اس میں موجود ہر چیز کی انحصاری کی بہتر وضاحت کرتا ہے۔
(1) کائنات اور حلقہء ادراک میں آنے والی تمام اشیاء دائمی،لازمی اور خودمختار ہیں.
یہ کہنا کہ ہمارے حلقہء ادراک میں آنے والی تمام اشیاء ہمیشہ ہیں اور ہمیشہ رہیں گی اور کسی خارجی عنصر یا علت کی محتاج نہیں،عقلیت کے معیار پر پورا نہیں اترتا. انسانی حلقہء ادراک میں آنے والی اشیاء لازمی وجود نہیں رکھتیں : ان کا وجود نہیں بھی ہوسکتا تھا، انکی طبعی خصوصیات محدود ہیں۔ چونکہ یہ تحدید انہوں نے خود اپنے اوپر نہیں لگائی ،لہٰذا لازماََ کوئی خارجی عنصر یا عناصر ہی اس کا سبب ہوں گے. ہمارے ادراک اور مشاہدے میں آنے والی چیزیں یا اشیاء صرف اپنی وجود کی بناء پر اپنی وضاحت نہیں ہوسکتے اور انکا یہ ڈیزائن بدیہی نہیں تھا انکے اجزاء مختلف طریقے سے بھی ترتیب دیے جاسکتے ہیں ۔
حتی کہ اگر کائنات ازلی بھی ہوتی پھر بھی کچھ خارجی عناصر کا وجود لازمی تھا جو اسے محدود جسمانی خصوصیات مہیا کریں ۔چونکہ کائنات طبیعیاتی طور پر اپنے اندر ایک طرح کی محدودیت رکھتی ہے لہٰذا وہ اپنے وجود کے لئے خارجی علتوں کے ماتحت ہیں. مزید کائنات کا ایک مخصوص ڈیزائن ہے اسکی عمارت کے بنیادی اجزاء موجودہ ترتیب سے الگ کسی اور صورت میں بھی ترتیب دے جاسکتے تھے۔ اس طرح کائنات وجود نہیں بھی رکھ سکتی تھی ، کائنات صرف اپنے وجود کی بناء پر اپنی وضاحت آپ نہیں ہوسکتی . ان نکات کی بناء پر ہم کائنات کے خودمختار ہونے یا خارجی عنصر کے ماتحت نہ ہونے کو باآسانی رد کرسکتے ہیں.
(2)کائنات کا وجود اورہمارے حلقہء ادراک میں آنے والی تمام اشیاء کسی اور چیز پر انحصار کرتے ہیں جو خود بھی کسی نہ کسی پر منحصر ہیں.
کائنات اور انسانی حلقہء ادراک میں آنے والے مشاہدات کسی ایسی چیز پر منحصر نہیں ہوسکتے جو خود کسی پر منحصر ہو۔ چونکہ کائنات اور جو کچھ ہم دیکھتے ہیں اپنی وضاحت خود نہیں کرسکتے،اسی لیے انکی وضاحت کسی ایسے خارجی عنصر سے بھی نہیں ہوسکتی جو خود محتاج ہو. اس لیے کہ اس محتاج چیز جس کو اس وضاحت/توجیہہ کے لیے فرض کیا جائے گا اسکے اپنے وجود کی بھی وضاحت بھی درکار ہوگی اور اسکی وضاحت کو اپنے کی۔۔ یہ سلسلہ لامتناہی ہوگا جو اصل وجوہات کو بیان نہیں کرسکتا. اسی لیے محتاج یا منحصر چیزو ں کی وضاحت کا صرف یہی طریقہ ہے کہ اسے ایسے عنصر کی طرف ریفر کیا جائے جو محتاج نہیں اوراس لیے لازمی ہے۔
اسکے بجائے کوئی اسی لامتناہی سلسلے پر اصرار کرے تو یہ غلط ہے، اگر کائنات کی وضاحت کوئی دوسری کائنات ہو اور اس طرح یہ سلسلہ لامحدود ہو اوروہ سب ایک دوسرے پر منحصر ہوں تو یہ چیز درکار وضاحت کے مسئلے کو حل نہیں کرے گی۔اگر کائناتیں لامتناہی بھی ہوں تو یہ سوال موجود رہے گا کہ یہ کائناتو ں کا لامتناہی سلسلہ کیو ں وجود رکھتا ہے؟چاہے کائنات ہمیشہ سے ہے یا نہیں،اس کو اپنے وجود کی وجوہات کے لئے کسی توجیہہ کی ضرورت ہے ۔
ہم ایک مثال سے اس بات کو سمجھتے ہیں، فرض کریں لامتناہی تعداد میں انسان ہیں ۔ ہر انسان اپنے والدین کے حیاتیاتی عمل کے نتیجے میں پیدا ہوا اور وہ والدین اپنے والدین سے اور یہ سلسلہ چلتا رہتا ہےمنتہا تک ۔ تب بھی یہ سوال اپنی جگہ معقول رہےگا کہ انسان آخر کیوں موجود ہیں ؟چاہے انسانوں کی ابتداء کوئی نہ ہو لیکن انسان در انسان کا یہ سلسلہ وضاحت کا محتاج ہے. چونکہ اس سلسلے میں ہر انسان وجود نہیں بھی رکھ سکتا تھا اور اسکی جسمانی صفات محدود ہیں جیساکہ انسان محدود ہے اور اس نے یہ تحدید خود تخلیق نہیں کی تو لازماََ وہ محتاج ہیں اور لازمی نہیں ۔ انہیں اب بھی وضاحت درکار ہے ۔ صرف یہ کہہ دینے سے کہ انسانوں کا سلسلہ لامحدود ہے اس وضاحت کی ضرورت کو ختم نہیں کرتا۔ (158)
یہ نکتہ یہ بھی فرض کرتا ہے کہ محتاج و منحصر علتوں کا لامتناہی سلسلہ ممکن ہے ۔ یہ بھی کسی طور پر عقلیت کے معیار پر پورا نہیں اترتا. مثلا اگر ہماری کائنات کسی اور کائنات پر منحصر ہو اور وہ کسی اور پر اوراس طرح کائنات در کائنات کا سلسلہ چلتا رہے۔کیا اس کائنات کا وجود ہوسکتا تھا؟ اسکا جواب ہے نہیں کیونکہ اس کائنات کے وجود سے پہلے لا متناہی انحصار وں کی ضرورت ہوگی ۔یادرکھیں چیزو ں کی لا متناہی تعداد کا اختتام نہیں ہوتا اسی لیے یہ کائنات وجود نا رکھتی اگر انحصار لامتناہی ہوتے ۔
(3) کائنات اور حلقہء ادراک میں آنے والی تمام اشیاء نےاپنا وجود ایک ایسی ذات سے حاصل کیا ہے جو خودبخود موجود ہے اور اسی طرح دائمی اور خودمختار ہے: چونکہ کائنات اور انسانی حلقہء ادراک میں آنے والی اشیاء کسی نہ کسی خارجی عنصر کی محتاج ہوتی ہیں لہٰذا یہ وضاحت سب سے ذیادہ عقلی ہے کہ تمام اشیاء کا وجود کسی خود مختار اور ابدی و ازلی ذات کا محتاج ہے۔ اسے خود مختار ہونا چاہیے کیونکہ اگر وہ محتاج ہوتی تو اسکو اپنی وضاحت کی ضرورت ہوتی ۔ اسے ازلی بھی ہونا چاہیے کیونکہ اگر وہ ازلی نا ہوتی (دوسرو ں لفظوں میں محدود ہوتی) تو محتاج ہوتی جیساکہ محدود اشیاد کو اپنے وجود کی وضاحت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی لیے ہم یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ کائنات اور ہر مشاہدے میں آنی والی چیز ایسی ذات پر منحصر ہے جو کہ ازلی اور خودمختار ہے۔ اسکی بہترین وضاحت خدا کے وجود سے ہوتی ہے۔
انحصاری کی یہ دلیل اسلامی علمی روایت سے بھی ثابت ہے. قرآن مجید میں مختلف مقامات پر بارہا اس ذاتِ بےنیاز باری تعالیٰ کا ذکر ہے جس نے ہر چیز کو وجود بخشا.جیسا کہ
“خدا تمام چیزوں سے بےنیاز ہے” (159)
“اے انسانوں! تم لوگ اللہ کے محتاج ہو اور اللہ غنی(اور بےنیاز)ہےاور تمام تعریفیں اسی ہی کے لائق ہیں”(159)
ابنِ کثیرؒ اس ضمن میں فرماتے ہیں “تمام انسانوں کو خدا کی ضرورت ہے جبکہ اسے کسی کی ضرورت نہیں.وہ یکتا اور تمام ضرورتوں سے بے نیاز ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں.” (161)
مشہور فلسفی ابنِ سینا نے اس دلیل کو اس طرح بیان کیا ہے کہ “خدا کی ذات واجب الوجود ہے یعنی خدا کا ہونا لازمی امر ہے.تمام چیزوں کا خالق خدا ہے لہٰذا وہ خدا کے محتاج ہیں اور ان کو ابنِ سینا نے ممکن الوجود کہا ہے.”(ٍ161)
اور بھی بہت سے مشہور اسلامی سکالرز جیسا کہ الرازیؒ، الغزالیؒ اور امام الحرمین جوینی ؒ نے بھی اسی انحصاری کی دلیل سے استدلال کیا ہے.غزالیؒ نے اس دلیل کا جامع خلاصہ پیش کیا ہے:
” واجب الوجود کا انکار ممکن نہیں. کسی ایک کا وجود کا ناگزیر ہے اور اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ کچھ چیز بھی وجود نہیں رکھتی وہ عقل اورلزوم کا مذاق اڑانا ہے. یہ رائے کہ کسی واجب الوجود کا ہونا لازمی ہے ایک لازمی بنیاد ہے. اب یہ وجود جس کو اصولی طور تسلیم کیا گیا ہے دیکھنا یہ ہے کہ وہ لازمی ہے یا امکانی ۔۔مطلب اس ایک وجود کو لازمی طور پر خود مختار یا منحصر ہونا چاہیے ۔ یہاں سے ہم یہ بحث کر سکتے ہیں کہ اگر تو یہ ذات جس کے وجود کو تسلیم کیا گیا ہے لازمی ہے تو لازمی ذات کا وجود ثابت ہوگیا ۔ اگر اسکا وجود امکانی ہے تو ہر امکانی وجود کسی دوسرے لازمی وجود پر منحصر ہوتا ہے ، امکانی کا مطلب ہی یہی ہوتا ہے کہ اسکا وجود ہونا یا نہ ہونا دونوں ممکن ہیں.جو کوئی بھی ایسی صفات رکھتا ہے اسکے وجود کا انتخاب یا تعین’ انتخاب کرنے والے پر منحصر ہے ۔ اور یہ ایک لازمی امر ہے۔ چنانچہ ان لازمی مقدمات سے ایک لازمی ذات کا وجود ثابت ہے۔” (163)
خلاصہ یہ کہ اسلامی الہٰیات میں خدا کی صفات یہ ہیں؛(1)خودمختار(2)وہ ذات جس پر تمام اشیاء کا انحصار ہے۔(3)وہ ذات جو سب کی کفالت کرتی ہے.(4) ازلی و ابدی.(5)غنی/ خودکفیل(6)واجب الوجود(لازمی وجود)


مندرجہ بالا دلائل پر اٹھائے گئے اعتراضات :


کائنات خود مختار وجود رکھتی ہے[The universe exists independently]:
ملحدین کی طرف سے ایک عام اعتراض یہ ہوتا ہے کہ اگر ہم کہتے ہیں کہ خدا خودمختار اور لازمی ہے تو یہ بات ہم کائنات کے بارے میں کیوں نہیں کہہ سکتے؟
ان وجوہات کی بناء پر ایک غیر ضروری اعتراض ہے: پہلی بات یہ کہ کائنات کا ہونا کوئی لازمی امر نہیں ہے، یہ وجود نہیں بھی رکھ سکتی تھی ۔ دوسری بات کائنات میں ڈیزائن ہے اس کے بنیادی اجزا ایک مختلف طریقے سے ترتیب دے جاسکتے ہیں ۔ کوئی ان اجزا کو کوارک(quarks) سمجھے یا کسی طرح کی کوانٹم فیلڈ یہ سوال اپنی جگہ رہے گا کہ اجزاء کی ترتیب موجودہ ڈھب میں کیوں ہے؟چونکہ کوارک یا فیلڈ کی اس موجودہ ترتیب سے ہٹ کر ایک مختلف ترتیب کا وجود ہوسکتا ہے ، اسکا مطلب ہے کائنات محتاج و منحصر ہے ۔ (164)یہ اپنی ماہیت کے لئے کسی چیز کی محتاج ہے۔ کائنات کے اندر تمام چیزیں جو ہمارے ادراک میں ہیں ہم دیکھتے ہیں کہ ان تمام چیزوں کی کچھ جسمانی حدود ہوتی ہیں.چاہےچاند،ستارے،کہکشائیں اور جانور وغیرہ انکی ایک مخصوص بناوٹ، سائز اور جسمانی شکل ہے چنانچہ یہ تمام چیزیں جن پر کائنات مشتمل ہے محدود اور منحصر ہیں۔
کائنات ایک سفاک حقیقت ہے[The universe is just a brute fact]
ایک اور حیلہ یہ کیا جاتا ہے کہ ہمیں کائنات کےبارے میں سوال نہیں کرنا چاہیے.برٹرینڈ رسل نے فادر کوپلسٹن کے ساتھ اپنی مشہور ریڈیو بحث میں کہا تھا ” مجھے یہ کہنا چاہیے کہ کائنات موجود ہے اور بس “(I should say that the universe is just there, and that’s all)(165) اس دلیل میں عقلی شکست خوردگی واضح ہے۔ ہوا میں معلق سبز گیندوں کی یہ مثال دیکھیے۔ (166)
فرض کریں کہ آپ مقامی پارک میں چہل قدمی کرتے ہوئے بچوں کے کھیل کے میدان کے اوپر ایک سبز رنگ کی گیند ہوا میں تیرتی دیکھتے ہیں ، آپ کا کیا ردعمل ہوگا؟کیا آپ اسکو میدان کا ضروری حصہ سمجھتے ہوئے نظر انداز کردیں گے؟ظاہر ہے نہیں کریں گے، آپ یہ سوال کریں گے کہ یہ گیند کیوں وجود رکھتی ہے اور اپنی موجودہ حالت میں ہی کیوں ہے؟اب اس گیند کو آپ کائنات جتنا بڑا کردیں یہ سوال موجود رہے گا : یہ گیند کیوں وجود رکھتی ہے اور اپنی موجودہ حالت میں ہی کیوں ہے؟ چنانچہ کائنات کے وجود کے بارے میں بھی سوال اسی طرح معقول ہے۔
مزید یہ اعتراض احمقانہ ہے کیونکہ یہ سائنس کو بھی بے وقعت کرتا ہے ۔ سائنسی مطالعے کی ایک خصوصی فیلڈ ہے جو کہ کائنات کے وجود اوراس کے سربستہ رازوں کو کھوجنے کے لیے وقف ہے ۔ اس فیلڈ کو کونیات (Cosmology) کہتے ہیں ۔ یہ سائنسی دریافتوں کا ایک بالکل مستند شعبہ ہے لہٰذا یہ کہنا کہ کائنات محض ا یک ‘سفاکانہ حقیقت’ ہے’ مسلمہ سائنسی طرزِ فکر اور اصولوں کا مذاق اڑانے والی بات ہے۔
سائنس بالاآخر جواب تلاش کرلے گی ![Science will eventually find an answer!]
اس اعتراض کے مطابق جو کچھ اس باب میں پیش کیا گیا ہے وہ ‘خلا کا خدا ‘ مغالطے [God of the gaps fallacy] کی طرح ہے ، ہماری سائنسی لاعلمی یا ناکامی کو وجود خدا کے ثبوت کے طور پر نہیں لیا جاسکتا کیونکہ ایک نہ ایک دن سائنس وضاحت/توجیہہ مہیا کردے گی ۔یہ ایک غیر متعلق اعتراض ہے کیونکہ محتاجی کی دلیل (argument from dependency)کا مقصد کسی سائنسی سوال کا جواب دینا نہیں ہے۔ کائنات کی توجیہہ/ علت کا تعلق سائنس سے نہیں بلکہ ما بعد الطبیعیات سے ہے، یہ محتاج یا منحصر چیزوں کی فطرت اور اثرات کو جانے کی کوشش ہے ۔ یہ دلیل تمام سائنسی وضاحتوں اور مظاہر پر لاگو کی جاسکتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر ہم بہت سی کائناتوں کوبھی فطری مظاہر کی توجیہہ کے لیے پیش کردیں ، وہ محتاج ہی رہیں گی ۔ کیوں ؟ کیونکہ اس توجیہہ (کائناتوں) کے اجزا کو مختلف طریقے سے ترتیب دیا جاسکتا ہے اور وہ اپنی وضاحت خود نہیں پیش کرسکتیں ، یا وہ اپنے وجود اور اپنی محدود صلاحیتوں کے لیے خارج میں ایک وجود کی محتاج ہیں ۔ اسی لیے وہ منحصر یا محتاج ہیں اور جیسا کہ اس تحریر میں بیان کیا گیا ہے کہ آپ ایک محتاج چیز کی وضاحت کے لیے دوسری محتاج چیز نہیں پیش کرسکتے ۔
اگر سائنسدان کائنات کے وجود کی وضاحت کے لیے ایک خودمختار اور ازلی وجود کی دریافت کا دعوی بھی کرلیں ، ہم ثبوت مانگیں گے ۔مزے کی بات یہ ہے کہ وہ مشاہداتی ثبوت انکے اس اپنے ہی دعوی کے متضاد ہوگا کیونکہ جو چیزیں حسی طور پر مشاہدے میں آتی ہیں وہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ وہ محدود طبیعی صفات رکھتی ہے لہٰذا منحصر ٹھہرتی ہیں۔
سائنس کبھی بھی ابدی و ازلی اور اور خودمختار چیز دریافت نہیں کرسکتی کیونکہ اسکا کام کا دائرہ صرف مشاہداتی اور منحصر چیزوں تک محدود ہے ۔ اسی لیے یہ کہنا بے معنی ہے کہ سائنس ایک غیر سائنسی چیز دریافت کرلے گی۔سائنس کیا ہے ۔ سائنس ایک طریقہ ہے جو جواب اور وضاحتیں مہیا کرتا ہے(ہماری یہ تحریر دیکھیے) ۔ اور وضاحت صرف منحصر چیزوں کی ہی پیش کی جاسکتی ہے۔ اسکو ذہن میں رکھتے ہوئے ہم جان سکتے ہیں کہ سائنس کا دائرہ منحصر چیزوں تک ہی محدود ہے وہ چیزیں جن کے متعلق ہم یہ سوال کرسکتے ہیں: یہ کیوں وجود رکھتی ہے ؟ یہ اس طرح کیوں موجود ہے؟ چنانچہ سائنس جو جواب مہیا کرتی ہے وہ کسی دوسری محتاج/منحصر چیز سے ہی تعلق رکھتا ہے۔ تاہم جیسا کہ ہم نے وضاحت کی آپ ایک محتاج وجود کی وضاحت ایک دوسرے محتاج وجود سے نہیں کرسکتے کیونکہ اس محتاج وجود کو بھی وضاحت درکار ہوگی ( اگر آپ یاد کریں ہم اوپر یہ ڈسکس کرچکے ہیں کہ ایسی چیز کا وجود نہیں ہوسکتا جو کسی اور منحصر چیز پر منحصر ہو اور وہ کسی منحصر چیز پر اور یہ سلسلہ لامتناہی چلتا رہے)۔ چونکہ درکار توجیہہ/ وضاحت خودمختار اور ازلی ہے اس لیے سائنس کبھی اس بحث میں شامل نہیں ہوسکتی کیونکہ سائنس کا دائرہ کار مشاہداتی اور منحصر چیزوں تک محدود دہے ۔
ایک روحانی بات پر اختتام :
خدا کا یہ تعارف کوئی علمی مشق نہیں ہے بلکہ یہ خدا کی محبت اور چاہت کا احساس پیدا کرتی ہے.ہم نےاس باب میں صرف یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ خدا ایک لازمی وجود / واجب الوجود ہے اور تمام اشیاء اسی کی وجہ سے وجود رکھتی ہیں ۔ ہم انسان صرف فلسفیانہ قضیوں اور مسئلوں کے نتیجوں میں ہی خدا کے محتاج نہیں ہے بلکہ حقیقتاََ ہر حوالے سے اس ذات کے محتاج ہے چاہے وہ جسمانی ہو یا روحانی.
ایک چھوٹی سی کہانی اسی حوالے سے پیشِ خدمت ہے جو یہ بتاتی ہے کہ چونکہ ہم چار و ناچار الله تعالیٰ کے وجود کے ہی محتاج ہیں اور دنیا اور آخرت دونوں کی کامیابی صرف الله کے فضل سے ہی ممکن ہے لہذا ہمیں الله تعالیٰ کی ہی بندگی اختیار کرنی چاہیے اور اسی کی خوشنودی تلاش کرنی چاہیے:
” اک دن میں اپنے چھوٹے سے کتے کیساتھ اپنے کھیتوں کے دورے پر نکلا جوکہ کھیتی خراب کرنے والے بندروں کا سخت دشمن ہے۔وہ سخت گرمیوں کے دن تھے. میں اور میرا کتا گرمی کی شدّت کی وجہ سے صحیح سے سانس بھی نہیں لے پا رہے تھے. مجھے احساس ہو رہا تھا کہ ہم میں سے کوئی کسی بھی لمحے گر کر بے ہوش ہوجائے گا. پھر الله کے فضل سے ایک درخت نظر آیا جس کے نیچے بہترین سایہ موجود تھا. میرا کتا خوشی سے ممیاتے ہوۓ چھاؤں کی طرف چل دیا.
جب وہ درخت کے نیچے پہنچ گیا تو وہاں رکنے کے بجائے واپس میرے پاس ہانپتا ہوا آگیا. اسکو ہانپتا دیکھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ وہ تھکن سے چور تھا. میں سائے کی طرف چل دیا یہ دیکھ کر میرا کتا خوش ہوگیا. پھر میں نے کچھ دیر کے لیے اسے اپنے راستے پر چلتے رہنے کا تاثر دیا، بیچارہ جانور تھوڑا درد بھرا غرغرایا لیکن پھر دم دبا کر میرے پیچھے چل دیا .
وہ واقعی تھکن سے چور تھا لیکن کسی قیمت میرا ساتھ نہیں چھوڑنا چاہتا تھا. اس کی اس ادا نے مجھ پر گہرا اثر چھوڑا. اس جانور کی حد درجہ وفاداری کو کوئی کیسے سمجھے جبکہ وہ وفاداری کرتے ہوۓ بغیر کسی دباؤ کے اپنی جان کی پرواہ بھی نہ کرے. یہ مجھ سے وفادار ہے صرف اس لئے کہ یہ مجھے اپنا آقا جانتا ہے اسلیۓ اپنی زندگی کی بازی لگانے کو بھی تیار ہے.یا مرے الله، میں کراہ گیا، میری بیمار روح کو شفا بخش دے،مرے آقا مجھے اس جاندار کی طرح اپنا وفادار بنا دے جسے میں حقارت سے کتا کہتا ہوں. مجھے بھی وہ طاقت عطا فرما دے کہ میں بلا کم و کاست، بغیر سوال اٹھائے تیرے بتائے راستوں پر چلوں. میں اس کتے کا خالق نہیں لیکن یہ میرا ہی وفادار ہے اور وہ بھی بیشمار پریشانیوں کے ساتھ.یا اللہ یہ تو ہے جس نے اس کتے کو یہ خوبی عطا فرمائی. اے مرے رب، یہ خوبیاں اسے بھی عطا فرمادے جو آپسے انکا سوال کرے، جیسے میں نے کیا ، محبّت اور بے لوث اطاعت کی ہمّت.پھر میں واپس درخت کی پرسکون چھاؤں میں جا بیٹھا اور میرا چھوٹا سا ساتھی بھی مرے سامنے ایسے آ بیٹھا جیسے کوئی سنجیدہ بات کرنا چاہتا ہو” (167)

حوالہ جات :

158 Analogy adapted from Wainwright, W.]. (1988) Philosophy of Religion. 2nd. Edition. Belmont, CA: Wadsworrh Publishing.
159 The Qur’an, Chapter 3, Verse 97.
160 The Qur’an, Chapter 35, Verse IS.
161 Ibn Kathir, 1. (1999) Tafsir al-Qur’an al-‘Adheem. Edited by Saami As-Salaama. 2nd Edition. Riyadh: Dar Tayiba. Vol 6, p. 541.
162 Hossein, S. (1993) An Introduction to Islamic Cosmological Doctrines. Albany: State University of New York Press, pp. 197-200.
163 Al-Ghazali, M. (1964) Fada’ih al-Batiniyya. Edited by Abdurahman Badawi. Kuwait: Muasassa Dar al-Kutub al-Thiqafa, p. 82.
164 Craig, W. L. (2008) Reasonable Faith: Christian Truth and Apologetics. 3rd Edition. Wheaton, Illinois: Crossway Books, p. 109.
165 Godwin, S. J. (no date) Transcript of the Russell/Copleston radio debate. Available at: http://www.scandalon.co.uk/philosophy/cosmological_radio.htm [Accessed 4rh October 2016].
166 Adapted from Craig, W.L. Reasonable Faith. Available at: http://www.reasonablefaith.orgl defenders-1-podcast/ transcript/ s04-0 1 [Accessed: 24rh October 2016].
167 Eaton, G. (2001) Remembering God: Reflections on Islam. Lahore: Suhail Academy, pp.18-19.

  • کیا کائنات عدم سے وجود میں آگئی؟ [A Universe from Nothing?] | الحاد جدید کا علمی محاکمہ
    May 6, 2019 at 12:23 pm

    […] بنیاد اس حقیقت پر ہے کہ کائنات محدود ہے، تاہم اگلی بحث (آرگومنٹ فرام ڈیپینڈینسی )سے واضح ہے کہ اگر کائنات کی ابتداء نا بھی ہو پھر بھی یہ […]

  • الہامی توازن :ڈیزائن شدہ کائنات [Divine Precision:The Designed Universe] | الحاد جدید کا علمی محاکمہ
    May 6, 2019 at 12:27 pm

    […] 3۔کثیرکائناتی مفروضہ (Multiverse): کچھ کی رائے یہ ہے کہ اس فائن ٹیونگ کی وضاحت کثیرکائناتی مفروضہ سے کی جاسکتی ہے۔ یعنی کائناتوں کی ایک کثیر تعداد میں سے ایک ہماری ہے۔ اگر کائناتیں ایک بہت بڑی تعداد میں موجود ہیں تو اس بات کا امکان ہے کہ زندگی کو ممکن بنانے والی کائنات بھی موجود ہو۔ اگر ہم اوپر پیش کی گئی بروس لی کی تصویر کی مثال پر غور کریں تو یہ کثیر کائناتی مفروضہ ایسا ہی ہے کہ یہ مان لیا جائے کہ کاغذ پر متعدد بار سیاہی گرانے سے یہ ممکن ہے کہ ایک باقاعدہ تصویر بن جائے۔ کثیرکائناتی مفروضہ کی مختلف صورتیں بیان کی گئ ہیں، ان سب کا جواب تو یہاں ممکن نہیں، مگر ہم ان سب کے بنیادی نکات پر بات کرکے اس مفروضہ کا رد کریں گے۔ دوسری بات یہ کثیرکائناتی مفروضہ فضول [superfluous] ہے۔ یہ بلاضرورت کثیر کائناتوں کے امکان کو ضروری قرار دیتا ہے[It unnecessarily multiplies entities beyond necessity]۔ پروفیسر Richard Swinburne کہتے ہیں، ” یہ ایک مضحکہ خیز بات ہے کہ ایک کائنات کی خصوصیات کو بیان کرنے کے لیے اربوں کھربوں کائناتوں کے وجود کا مفروضہ پیش کیا جائے، جبکہ ایک ذات (خدا) کا ماننا یہی کام کرسکتا ہے۔“(242) مزید کثیرکائناتی مفروضہ کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ پروفیسر Anthony Flew لکھتے ہیں ”۔۔۔ اس بات کا امکان کہ اپنے طبعی قوانین کے ساتھ کائناتوں کا کثیر تعداد میں ہونا اس بات کی دلیل نہیں کہ ایسی کائناتیں موجود بھی ہیں۔ اس وقت کثیرکائناتی مفروضہ کا کوئی ثبوت نہیں۔ یہ ابھی تک محض ایک افواہ ہے۔“ (243)نہ صرف یہ کہ کثیرکائناتی مفروضہ کا کوئی ثبوت نہیں، یہ غیر سائنسی بھی ہے۔ Luke A. Barnes، سڈنی کے فلکیاتی ادارے میں ایک محقق ہیں ، وہ کہتے ہیں کہ کثیرکائناتی مفروضہ مشاہدہ کی حد سے باہر ہے”۔ ”سائنس کی تاریخ نے ہمیں بار بار سمجھایا ہے کہ تجرباتی ٹیسٹ کوئی اضافی فضول شے نہیں۔ کائناتوں کا کثیر تعداد میں ہونے کا مفروضہ ہمیشہ تجربے سے باہر ہی رہے گا۔ اس کا سب سے آسان مثبت ثبوت کسی ایسی طبعی تھیوری کا ہونا ہوگا، جس کا اچھی طرح تجربہ ہماری کائنات میں ہو چکا ہو، اور وہ کائنات کی تشکیل کا کوئی کلیہ ہمیں بتائے۔ پھر بھی ایسے سوال رہیں گے جو مشاہدے کی حد سے باہر ہیں، جیسا کہ آیا ایسی تشکیل کے لیے ضروری ابتدائی شرائط اس کائنات سے باہر خلا میں موجود ہیں ؟۔۔۔۔ اور کائنات کی تشکیل جس عمل کے ذریعہ ہوسکتی ہے اس کا مشاہدہ کیا ہی نہیں جاسکتا“۔ (244) کثیرکائناتی مفروضہ کا سب سے مشہور بیانیہ جو کہ اکثر ماہرینِ فلکیات و طبعیات کی جانب سے سامنے آتا ہے، یہ ہے کہ کائناتیں طبعی قوانین کے تحت تشکیل پاتی ہیں۔ یعنی اس طرح یہ سب لوگ یہ مانتے ہیں کہ طبعی قوانین کا موجود ہونا ضروری ہے جو کہ اس کائنات اور دیگر کائناتوں کے وجود میں آنے کے ذمہ دار ہیں۔ اس بیانیہ کا مسئلہ یہ کہ ان قوانین کے موجود ہونے پر یقین لانا خدا پر ایمان لانے سے زیادہ مشکل امر ہے، کیونکہ اس طرح ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ قوانینِ فطرت جادوئی طور پر خود ہی ظاہر ہوگئے ۔ مزید یہ کہ ہمارا علمی حق ہوگا کہ ہم یہ سوال کریں کہ یہ قوانینِ فطرت کہاں سے نمودار ہوئے ہیں۔ سب سے اہم یہ کہ ان قوانین کا اپنے آپ سے ایسے ڈیزائن میں وجود میں آنا لازمی ہے جس سے ایسی ایک کائنات بنے جو ہمارے وجود کو ممکن بنائے۔(234) چنانچہ ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ اس مفروضے کے ماننے والے صرف نظمِ کائنات اور فائن ٹیونگ تک ہی محدود ہیں اس سے ذیادہ بات نہیں کرنا چاہتے ۔ مزید برآں، اگر کثیرکائناتی مفروضہ صحیح بھی ہو تو اس سے خدا کے وجود پر کوئی اشکال وارد نہیں ہوتا۔ (دیکھئے تحریر آرگومنٹ فرام ڈیپین ڈینسی ) […]

  • خداومذہب | الحاد جدید کا علمی محاکمہ
    May 11, 2019 at 9:55 am

    […] خدائی تعلق –دلیلِ انحصاری [The Divine Link-The Argument from Dependency] […]

Leave Your Comment

Your email address will not be published.*

Forgot Password