انسان کا مقصد تخلیق

ایک عقلمند انسان جب کوئی کام کرتا ہے تو اس کے کچھ مقاصد اور اغراض ہوتے ہیں ، جن کی تکمیل کے لیے وہ شب و روز جد و جہد کرتا ہے ، جانی ومالی قوت صرف کرتا ہے اور ان کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرتا ہے ، اگر کچھ مسائل و مصائب درپیش ہوں تو انہیں خندہ پیشانی سے برداشت کرلیتا ہے ؛ لیکن اپنے مقصد اور مشن سے قدم پیچھے نہیں ہٹاتا اور نہ ہی لا یعنی اوربیکار چیزوں میں اپنا وقت ضائع کرتا ہے ، ایک انسان جب بلا مقصد کوئی کام نہیں کرتا تو کیا آپ نے کبھی اپنے وجود میں غور کیا کہ یہ حیرت انگیز جسمانی ساخت ، دماغ اور معدہ کا پیچیدہ نظام ، آنکھ ، کان ، ناک ، ہونٹ ، زبان اور دیگر اعضاء کی مناسب تخلیق کس نے اور کیوں کی ؟ کیا یہ سارا نظام یوں ہی وجود میں آگیا یا اس کا کچھ مقصد اور غرض ہے ؟اللہ تعالی نے قرآن حکیم کی متعدد آیات میں بتایا ہے کہ انسانو ں کی تخلیق اور انہیں زمین پر آباد کرنے کا مقصد یہ ہے کہ:
تَبٰرَكَ الَّذِيْ بِيَدِہِ الْمُلْكُ۝۰ۡوَہُوَعَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرُۨ۝۱ۙ الَّذِيْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيٰوۃَ لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا۝۰ۭوَہُوَالْعَزِيْزُ الْغَفُوْرُ۝۲ۙ (ملک:۱۔۲)
’’نہایت بزرگ وبرتر ہے وہ جس کے ہاتھ میں (کائنات کی) سلطنت ہے، اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ جس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تاکہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے، اور وہ زبردست بھی ہے اور درگزر فرمانے والا بھی)۔
وَہُوَالَّذِيْ جَعَلَكُمْ خَلٰۗىِٕفَ الْاَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّيَبْلُوَكُمْ فِيْ مَآ اٰتٰىكُمْ۝۰ۭ اِنَّ رَبَّكَ سَرِيْعُ الْعِقَابِ۝۰ۡۖ وَاِنَّہٗ لَغَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝ (انعام: ۱۶۵)
’’وہی ہے جس نے تم کو زمین کا خلیفہ بنایا، اور تم میں سے بعض کو بعض کے مقابلے میں زیادہ بلند درجے دیئے ، تاکہ جو کچھ تم کو دیا ہے اس میں تمہاری آزمائش کرے۔ بے شک تمہارا رب سزا دینے میں بھی بہت تیز ہے اور بہت درگزر کرنے والا او رحم فرمانے والا بھی ہے‘‘۔
اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَي الْاَرْضِ زِيْنَۃً لَّہَا لِنَبْلُوَہُمْ اَيُّہُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا۔(سورہ کہف:۷)
’’یہ جو کچھ سروسامان بھی زمین پر ہے ہم نے زمین کی زینت بنایا ہے تاکہ ان لوگوں کو آزمائیں، ان میں کون بہتر عمل کرنے والا ہے‘‘۔

امتحان زندگی میں کامیابی کا طریقہ یہ ہے کہ اللہ کی عبادت کی جائے۔ اسی لئے فرمایا:
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ۝(ذاریات:۶۵)
’’میں نے جن اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لئے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں‘‘۔
عبادت وہی معتبر ہے جو شریعت کے مطابق ہو۔
قُلْنَا اھْبِطُوْا مِنْہَا جَمِيْعًا۝۰ۚ فَاِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ مِّـنِّىْ ھُدًى فَمَنْ تَبِــعَ ھُدَاىَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ۝ (بقرہ:۳۸)
’’ہم نے کہا تم سب یہاں سے اتر جاؤ، پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تم تک پہنچے تو جو لوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریں گے ان کے لئے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں رہے گا‘‘۔

ثُمَّ جَعَلْنٰكَ عَلٰي شَرِيْعَۃٍ مِّنَ الْاَمْرِ فَاتَّبِعْہَا وَلَا تَتَّبِعْ اَہْوَاۗءَ الَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ۔(سورہ جاثیہ:۱۸)
’’اس کے بعد اے نبیﷺ ہم نے تم کو ایک صاف شاہراہ (شریعت) پر قائم کیا۔ لہٰذا تم اس پر چلو اور ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہ کرو جو علم نہیں رکھتے‘‘۔
شریعتیں بھی امتحان وآزمائش کے لئے دی جاتی ہیں۔
وَاَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْہِ مِنَ الْكِتٰبِ وَمُہَيْمِنًا عَلَيْہِ فَاحْكُمْ بَيْنَہُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ وَلَا تَتَّبِعْ اَہْوَاۗءَہُمْ عَمَّا جَاۗءَكَ مِنَ الْحَقِّ۝۰ۭلِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَۃً وَّمِنْہَاجًا۝۰ۭ وَلَوْ شَاۗءَ اللہُ لَجَعَلَكُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّلٰكِنْ لِّيَبْلُوَكُمْ فِيْ مَآ اٰتٰىكُمْ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرٰتِ۝۰ۭ اِلَى اللہِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيْعًا فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ فِيْہِ تَخْتَلِفُوْنَ۝ (مائدہ: ۴۸)
’’پھر اے نبیﷺ ہم نے تمہاری طرف یہ کتاب بھیجی جو حق لے کر آئی ہے اور الکتاب میں سے جو کچھ اس کے آگے موجود ہے اس کی تصدیق کرنے والی اور اس کی محافظ ونگہبان ہے لہذا تم خدا کے نازل کردہ قانون کے مطابق لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرو اور جو حق تمہارے پاس آیا ہے اس سے منھ موڑ کر ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو۔ ہم نے تم (انسانوں) میں سے ہر ایک کے لئے ایک شریعت اور ایک راہ عمل مقرر کی۔ اگرچہ تمہارا رب چاہتا تو سب کو ایک امت بھی بنا سکتا تھا لیکن اس نے یہ اس لئے کیا کہ جو کچھ تم لوگوں کو دیا ہے اس میں تمہاری آزمائش کرے لہذا بھلائیوں میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرو آخر کار تم سب کو خدا کی طرف پلٹ کر جانا ہے پھر وہ تمہیں اصل حقیقت بتادے گا جس میں تم اختلاف کرتے رہے ہو‘‘۔
وَلَوْ شَاۗءَ رَبُّكَ لَاٰمَنَ مَنْ فِي الْاَرْضِ كُلُّھُمْ جَمِيْعًا۝۰ۭ اَفَاَنْتَ تُكْرِہُ النَّاسَ حَتّٰى يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ۝ (یونس:۹۸)
’’اگرتیرے رب کی مشیت ہوتی (کہ زمین میں سب مومن وفرماں بردار ہی ہوں) تو سارے اہل زمین ایمان لے آتے، پھر کیا تو لوگوں کو مجبور کرے گا کہ وہ مومن ہوجائیں؟‘‘۔
یہی وہ فریضہ اور ذمہ داری ہے جس سے آگاہ کرنے کے لیے انبیاء کرام علیہم السلام کو بھیجا گیا ، جنہوں نے انسانوں کو معبود حقیقی سے ملانے کا کام کیا ، قدم قدم پر ان کی رہنمائی کی اور ایسے اصول و ضوابط بیان کئے جن پر چل کر ایک انسان حقیقی کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے ، بہت سے بندوں نے ان کی دعوت قبول کی اور جن کے مقدر میں ہدایت نہیں تھی ،وہ اس دعوت سے دور رہے اور ہمیشہ کے لیے ذلت و رسوائی ان کا مقدر بن گئی ، قرآن نے اس اصول خداوندی کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے :
وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللہَ وَاجْتَـنِبُوا الطَّاغُوْتَ۝۰ۚ فَمِنْہُمْ مَّنْ ہَدَى اللہُ وَمِنْہُمْ مَّنْ حَقَّتْ عَلَيْہِ الضَّلٰلَۃُ۝۰ۭ فَسِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَۃُ الْمُكَذِّبِيْنَ۝۳۶ (النحل : ۳۶)
’’ ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیج دیا اور اس کے ذریعہ سے سب کو خبر دار کردیا کہ اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو ، اس کے بعد ان میں سے کسی کو اللہ نے ہدایت بخشی اور کسی پر ضلالت مسلط ہوگئی ‘‘
حضرت نوح ں ، حضرت ہود ں ، حضرت صالح ں ، حضرت ابراہیم ں ، حضرت یعقوب ں ، حضرت شعیب ں ، حضرت موسی ں ، حضرت عیسی ں اور جتنے بھی انبیاء کرام علیہم السلام آئے سب کی مشترکہ دعوت توحید و آخرت تھی ، یعنی تمام نبیوں اوررسولوں نے بندوں کو خدا سے جوڑنے اور اسی کی عبادت کرنے کی تلقین کی ، معبودان باطلہ اور دنیا کی چمک دمک سے منہ موڑنے کی ہدایت دی اور صاف صاف واضح کردیا کہ عبادت کے لائق صرف ایک خدا کی ذات ہے ، اسی کی عبادت کرنی چاہئے اور اسی کو اپنا سہارا اور ٹھکانا بنانا چاہیے۔
سورۂ شعراء میں مختلف انبیاء کرام کا تذکرہ کرتے ہوئے ان سب کی ایک ہی دعوت کا تفصیلی بیان ہے ، تمام انبیاء کرام کی یہی فکر تھی کہ کسی طرح ہماری قوم خدا آشنا ہوجائیں ، اس کی عبودیت اور بندگی کو مقصد حیات بنالیں ، انبیاء کرام علیہم السلام جو اللہ کے حقیقی نمائندے تھے ، انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ ہمارا مقصد تم سے دنیا حاصل کرنا یا کچھ اجرت طلب کرنا نہیں ہے ، اس کام کا اجر تو اللہ تعالیٰ ہی دینے والا ہے ، تم لوگوں سے صرف اتنی ہی خواہش ہے کہ اپنے حقیقی خالق و مالک اور اپنے حقیقی محسن پر ایمان لاؤ اور اسی کو اپنا مرجع و ملجا بنالو ۔قرآن شاہد ہے کہ خدا کے تمام فرستادہ نمائندوں نے حق کی آواز خدا کے بندوں تک پہنچادی اور ان کو آگاہ کردیا کہ وحدانیت ہی کامیابی کی راہ ہے ، جسے دنیاو آخرت کی سرخروئی عزیز ہے اور جو ابدی راحت و آرام کا طالب ہے ، اسے چاہئے کہ جب تک جسم سے روح کا رشتہ باقی ہے وہ خدا کے لیے ہی اپنی عبودیت کا دم بھرتا رہے ، اسی کو اپنا معبود اور مسجود بنائے ۔
مفتی تنظیم عالم قاسمی, ڈاکٹرمحمدنجات اللہ صدیقی

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password