حضرت ابوھریرہؓ، کعب الاحبارؒاوراسرائیلی روایات

منکرین حدیث حضرت ابوھریرہؓ کے بارے میں کہتے ہیں کہ “وہ کعب احبار کے شاگرد تھے ، انہوں نے اکثر روایات کعب احبار سے سنی تھیں لیکن وہ ان کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کرتے تھے۔” کعب احبار کے بارے میں کہتے ہیں کہ “انہوں نے اسلام کا لبادہ اوڑھ رکھا تھا ، فی الحقیقت وہ یہودی تھے اور انہوں نے اسرائیلی روایات کی تشہیر کے لیے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو استعمال کیا۔”
چند دن پہلے ایک فیس بکی مفکر نے حضرت ابوھریرہؓ کی شخصیت کو مجروح کرنے کے لیے سلسلہ وار پوسٹیں کیں اور مختلف نئے اور پرانے اعتراضات دوہرائے۔ ان کے اکثر اعتراضات کا جائزہ ہم پہلے پیش کر چکے ہیں ۔ انکی ایک پوسٹ اسرائیلی روایات کے حوالے سے تھی جس میں انہوں نے محض حدیث دشمنی میں انتہائی مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہوئے حضرت ابوھریرہؓ پر کیچڑ اچھالااور اپنے قارئین کو حدیث اور حضرت ابوھریرہؓ سے بدظن کرنے کے لیے بہت سی باتوں کو انتہائی گمراہ کن انداز میں پیش کیا ۔ انکا ایک اقتباس پیش ہے۔
“بنی اسرائیل جو گناہ بھی کرتے تھے اس کی روایت جا کر اپنے انبیاء سے جوڑتے تھے تا کہ اس کو مباح ثابت کر سکیں ، شرک اور زنا سے لے کر شراب نوشی تک ھر وہ عیب جو کسی برے شخص میں بیان کیا جا سکتا ھے وہ بنی اسرائیل نے روایتوں کے زور پر اپنے انبیاء میں ثابت کر دکھایا تھا -اللہ پاک نے بنی اسرائیل کے فریسی راویوں کے شرمناک قصے کہانیوں کا جواب قرآنِ حکیم میں دے کر اپنے رسولوں کا دامن پاک کر دیا تھا – مگر بدقسمتی سے چند یمنی یہودی اور عیسائی علماء کے مسلمان ھونے کے بعد ان کی شاگردی اختیار کرنے والوں نے وہی زھر دوبارہ اٹھا کر اسلامی لٹریچر کا حصہ بنا دیا گویا جو ڈاکٹر علاج کرنے آیا تھا اسی کو اس مرض میں مبتلا کر دیا گیا –
حضرت ابوھریرہؓ نے 17 سے 19 مہینے نبئ کریم ﷺ کے ساتھ گزارے ھیں اور تقریبا 42 سال یہودی نومسلم کعب احبار کی شاگردی میں گزارے ھیں ، آپؓ نے کعب احبار سے تورات بھی حفظ کی اور اس کے مسائل میں بھی ماسٹر کیا یہانتک کے کعب احبار تابعی کے مطابق مسلمانوں میں حضرت ابوھریرۃؓ سے بڑھ کر تورات کا عالم کوئی بھی نہ تھا – حضرت ابوھریرہؓ اور ایک دو نوجوان صحابی ھی ذریعہ بنے ھیں اسرائیلیات کو بطور حدیث اسلامی لٹریچر میں شامل کرنے کے – کعب اخبار نے اسلام کے ساتھ وھی حشر کیا ھے جو سینٹ پال نے عیسائیت کے ساتھ کیا تھا – حضرت ابوھریرہؓ جب بھی کوئی قصہ یا کہانی بیان فرمایا کرتے تھے تو واقعہ تو بیان کر دیتے مگر عموماً اس بات کو واضح نہیں کرتے تھے کہ یہ واقعہ ان سے کس نے بیان کیا ھے- چونکہ آپؓ کو صحابیت کا شرف بھی حاصل تھا ، لہذا سننے والے یہی سمجھتے تھے کہ یہ بات آپؓ سے نبئ کریم ﷺ نے ھی بیان فرمائی ھو گی ، وہ آگے ان کے نام سے روایت کو رسول اللہ ﷺ سے منسوب کر دیتے – یعنی صرف ابوھریرہؓ تک بیان نہ کرتے بلکہ عن ابی ھریرۃؓ قال ، قال رسول اللہ ﷺ بنا دیتے ۔”
ہم اس تحریر میں انکے اٹھائے گئے تمام اعتراضات کا علیحدہ علیحدہ جائزہ لیں گے ۔ اس تحریر میں انہوں نے حضرت موسی ؑ کی ایک روایت کا ذکر بھی کیا اسکا ‘متون حدیث پر اعتراضات کے جوابات ‘ کے تحریری سلسلے میں جائزہ پیش کیا جائے گا۔ اس تحریر میں ان پوائنٹس پر بات کی جائیگی ۔
1. کعب الاحبارؒ کون تھے ؟ وہ یہودی تھے یا مسلمان؟
2. کعب الاحبارؒ کی شخصیت کے متعلق علمائے امت کی رائے کیا ہے؟
3. حضرت ابوھریرہؓ کاکعب احبار ؒ کے ساتھ کیا تعلق تھا؟
4. کیا حضرت ابوھریرہؓ انکی روایات کو حدیث میں گڈ مڈ کرکے اور حضورﷺ کے نام سے پیش کرتے تھے ؟
5. اسرائیلی روایات کتب تفاسیر میں کیوں پیش کی گئیں؟
6. کیا اسرائیلی روایات کو من و عن قبول کرلیا یا انکو پرکھنے کا کوئی پیمانہ بھی بنایا گیا؟
7. کتب تفسیر میں موجود اسرائیلی روایات کس قدر نقصان دہ ہیں

کعبؒ کا تعارف:
کعبؒ کو ’’کعب احبار ‘‘اور ’’کعب حبر ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ ’’ابن مانع حمیری ‘‘ہیں۔ یہود کے سرکردہ اہل علم میں سے تھے اور کتب یہود کے بارے میں سب سے وسیع اطلاع رکھتے تھے۔ مخضرمین میں سے تھے جنہوں نے زمانۂ جاہلیت اور زمانۂ اسلام دونوں پائے۔ یمن میں پیدا ہوئے، اور وہیں رہائش پذیر رہے، تا آنکہ وہاں سے ہجرت فرمائی، اور سن ۱۲ ہجری حضرت عمر فاروقؓ کے دور میں اسلام لائے۔ابن سعد ؒنے اہل شام کے تابعین میں آپ کو طبقۂ اولیٰ میں ذکر کیا ہے، اور مزید کہتے ہیں کہ :’’آپ دین یہود پر تھے، پھر اسلام لائے اور مدینہ منورہ ہجرت فرمائی، شام کی طرف روانہ ہوگئے اور تاحیات حمص ہی میں رہے۔ سن ۳۲ ہجری حضرت عثمان ؓکے دور خلافت میں آپؒ کی وفات ہوئی۔سن وفات کے بارے میں ایک سے زائد قول ہیں۔
ابن سعد ؓ نے ابن مسیب ؓ کی روایت نقل کی ہے کہ ابن عباس ؓنے کعبؒ سے فرمایا : آپ کو عہد نبوی، اور عہد صدیقی میں اسلام لانے سے کیا چیز مانع تھی کہ آپ عہد فاروقی میں اسلام لائے؟ تو کعبؒ نے جواب میں کہا: میرے والد نے میرے لیے تورات کے منتخبات سے ایک کتاب تیار کی تھی اور کہا تھا کہ : ’’بس! اس پر عمل کرو‘‘، اور باقی تمام کتب کو مہربند کردیا تھا،اور مجھ سے باپ بیٹے کا عہد لیا تھا کہ میں ان کتب سے مہر کو نہ توڑوں، جب میں نے اسلام کے غلبے کو دیکھا تو میں نے سوچا کہ شاید میرے والد نے مجھ سے ان کتب میں کوئی علم چھپا کر رکھا ہے، چنانچہ میں نے اس مہر کو کھولا تو اس میں آپ ﷺ اور آپﷺ کی امت کا تذکرہ موجود تھا، چنانچہ میں مسلمان ہو کر آگیا۔(طبقات ابن سعد)

کعب الاحبار کا ایمان اور ثقاہت :
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ قبول اسلام سے پہلے یہودیوں کے بہت بڑے عالم تھے ، لیکن حلقہ بگوش اسلام ہونے کے بعد انہوں نے مدینہ میں صحابۂ کرام سے کتاب و سنت کی تعلیم حاصل کی اور بقول حافظ ذہبی بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے ان سے اہل کتاب کے علوم سیکھے۔ کئی روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ بعض اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم بھی ان کے تبحر علمی کے معترف تھے اور ان کا احترام کرتے تھے ۔ کبھی کسی نے ان کے اسلام پر شبہ نہیں کیا بلکہ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے ان سے روایت کی ہے۔
حضرت ابو الدرداء انصاری رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ ” ابن حمیریہ (کعب الاحبار) کے پاس بڑا علم ہے۔” (طبقات ابن سعد ج7، ق 2، ص 156)
امام بخاری نے “تاریخ الکبیر والصغیر” میں حضرت کعب الاحبار کے مفصل حالات لکھے ہیں اور کہیں بھی ان پر اعتراض نہیں کیا۔ بقول ابن صلاح عباد لہ ثلاثہؓ نے کعب الاحبار سے روایت کی ہے۔ حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ کعب الاحبار سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ ، حضرت علی رضی اللہ عنہ اور صحابہ کی ایک جماعت نے روایت کی ہے۔ تابعین میں اصبحی ، عبد اللہ بن رباح انصاری ، عطاء بن ابی رباح ، مالک بن ابی عامر ، عبد اللہ بن حمزہ سلولی ، عبد الرحمن بن شعیب اور سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ وغیرہم نے ان سے روایت کی ہے۔ بعض روایات سے محسوس ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ، حضرت ابوذرؓ، حضرت ابن عباسؓ ؓکعبؒ پر کلی اطمینان نہیں رکھتے تھے لیکن جمہور اہل علم نے کعبؒ کی توثیق کی ہے، یہی وجہ ہے کہ ضعفاء و متروکین کی کتب میں آپ کو ان کا تذکرہ نہیں ملے گا۔ ابن ابی حاتم حافظ ذہبی ، امام نووی اور بہت سے دوسرے علماء نے کعب الاحبار کی جلالت علمی کا ذکر بہت اچھے الفاظ میں کیا ہے۔ ان ساری باتوں کے باوجود حضرت کعب احبار کے ایمان سے انکار کرنا بڑی ناپاک جسارت ہے۔
یہاں یہ وضاحت کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ حضرت کعب الاحبار اگرچہ عہد رسالت میں موجود تھے لیکن ان کو شرف صحابیت حاصل نہیں ہوا اس لیے انہوں نے کوئی حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست نہیں سنی۔ البتہ قبول اسلام کے بعد بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے احادیث ضرور سنیں اور پھر دوسرے صحابہ اور تابعین کے سامنے بیان کیں۔ ان کی روایتوں میں زیادہ تعداد اسرائیلی روایتوں کی ہے۔ ان کے راوی وہ خود ہیں۔ ان میں گزشتہ اقوام کے حالات اور بہت سی عجیب و غریب باتیں ہیں۔

کعب الاحبار کا حضرت ابوھریرہؓ سے تعلق :
جن صحابہ (بشمول حضرت ابوھریرہؓ) نے حضرت کعب احبار سے یہ روایات سنیں ، انہوں نے ان کے نام سے دوسرے لوگوں کے سامنے بیان کیں۔ یہ غلط ہے کہ وہ ان روایات کو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب منسوب کرتے تھے۔ کوئی حدیث روایت کرتے وقت صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے سامنے ہمیشہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہوتا تھا کہ “جو شخص مجھ پر جھوٹ باندھے وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے۔” ان نفوس قدسی کے بارے میں یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ وہ حضرت کعب احبار سے کوئی حدیث سنیں اور اس کو بیان کرتے وقت کہیں کہ ہم نے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے۔یہ ایک مضحکہ خیز بات ہے اسلئے کہ کعب الاحبار نے آنحضور ص کا زمانہ نہیں پایا پھر صحابہ ایک ایسے شخص سے کیونکر حدیثیں روایت کر سکتے تھے جس نے آنحضور ص کا زمانہ ہی نہیں پایا _ البتہ یہ بات درست ہے کہ صحابہ کرام کعب الاحبار اور دیگر نو مسلم اہل کتاب علماء سے اقوام سابقہ کے اخبار و واقعات روایت کرتے تھے _اور یہ اقوام سابقہ کے اخبار وواقعات اہل کتاب سے عبرت پزیری کے نقطہ خیال سے روایت کیے جاتے تھے _ اس لئے نہیں کہ ان واقعات کو قرانی احکام کے مقابلے میں ترجیح حاصل ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ ترجیح کے قابل قران پاک ہی کے مندرجات ہیں _
اب رہی یہ بات کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ، حضرت کعب احبار کے شاگرد تھے تو یہ بات بداہۃ غلط ہے۔ ایک صاحب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو محض اس بناء پر ایک تابعی کا شاگرد ٹھہرانا کہ انہوں نے تابعی سے روایت کی ہے، کج فہمی اور نامعقول جسارت ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ حضرت کعب احبار نے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے احادیث کی سماعت کی اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے ان سے ایسی روایات لیں جن کا تعلق بالعموم تورات یا اقوام ماضی سے تھا۔ اس میں استادی شاگردی کا کوئی سوال نہیں تھا۔ حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں:”کسی مقام و مرتبہ یا عمر کے لحاظ سے بڑی شخصیت اپنے ہم عمر یا چھوٹے شخص سے روایت کرے تو یہ جائز ہے۔”(دفاع ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ صفحہ 261)
بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا تھا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ یا کسی دوسرے صاحب رسولﷺ نے کوئی حدیث بیان کی اور حضرت کعب احبارؒ نے اس کی تائید میں تورات کا حوالہ پیش کر دیا۔ اگر حضرت ابوھریرہؓ نے اپنی کسی روایت میں کعب احبارؒ کا کوئی اس نوع کا قول نقل کر دیا تو اس کو قبول کرنے میں کیا چیز مانع ہو سکتی ہے؟

جہاں تک حضرت کعب احبارؒ کی مرویات کا تعلق ہے تو بلاشبہ ان میں بہت سی بے سر و پا اسرائیلی حکایتیں بھی شامل ہیں جن کو محدثین نے جرح و تعدیل کی کسوٹی پر پرکھ کر رد کر دیا ہے۔ مولانا حافظ مجیب اللہ ندوی اپنی کتاب “اہل کتاب صحابہ و تابعین” میں لکھتے ہیں:
“کعب کی علمی جلالت میں کوئی شک نہیں۔ وہ یہودی مذہب کے بڑے نامور عالَم تھے لیکن چونکہ خود یہودیوں کا سرمایۂ معلومات بھی تمام تر یہی تھا۔ اس سے ایک نقصان یہ ہوا کہ بہت سی بے سر و پا اسرائیلی روایات ان کے ذریعے اسلامی لٹریچر میں داخل ہو گئیں۔ اسی بناء پر بعض ائمۂ حدیث کعب کو روایات میں ساقط الاعتبار سمجھتے ہیں۔” (ترجمہ : حضرت کعب احبارؒ)
لیکن دوسری طرف جب ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت کعب احبار کی بعض روایات قرآن و حدیث کی مؤید ہیں تو ایسی روایات کو رد کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا مگر یہ بات بڑی عجیب ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے معترضین ان کی بعض مرویات کو محض اس بناء پر “اسرائیلیات” میں شمار کرتے ہیں کہ ان کی حضرت کعبؒ نے تائید کی تھی۔ مثلاً “مسند احمد” میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی یہ حدیث:
“”رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جنت میں ایک درخت اتنا بڑا ہے کہ سوار اس کے سایہ میں سو برس تک چلتا رہے گا۔ اگر چاہو تو اس کی تائید میں قرآن کی یہ آیت پڑھ لو وظلٍ ممدودٍ (اور دراز سایہ) “جونہی یہ حدیث حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کی ، کعب بولے “آپ نے سچ فرمایا ، اس ذات کی قسم جس نے تورات حضرت موسیٰ علیہ السلام اور قرآن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا ۔”
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی اس روایت کو اسرائیلیات میں شمار کرنا اور اس سے انکار کرنا ، ستم ظریفی کی انتہا ہے۔ اس حدیث کو تو حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ اور کئی دوسرے صحابہ نے بھی روایت کیا ہے۔ (صحیح مسلم)
اگر اس کا انکار اس وجہ سے کیا جاتا ہے کہ جس درخت کا اس حدیث میں ذکر کیا گیا ہے ، اس کا جنت میں پایا جانا ممکن نہیں (یعنی یہ بات خلافِ عقل ہے) تو پھر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے بارے میں کیا کہا جائے گا کہ جنت میں وہ چیزیں ہیں جو نہ کبھی آنکھوں نے دیکھیں اور نہ کانوں نے سنیں اور نہ انسان کے دل میں کبھی ان کا خیال گزرا۔ (صحیح مسلم جلد ۴ صفحہ ۲۱۷۵)
حقیقت یہ ہے کہ جنت کے عجائب اور اس کی حیرت انگیز نعمتوں کا صرف احادیث نبویؐ ہی میں ذکر نہیں ہے بلکہ قرآنِ حکیم میں بھی جابجا ان کا ذکر آتا ہے۔ یہ عجائب اور تحیر خیز نعمتیں انسانی حدِ ادراک سے باہر ہیں لیکن ہر مسلمان کا ان پر ایمان ہے۔
اب اگر کسی حدیث میں کسی ایسی چیز کا زکر ہو جو انسانی عقل و فکر کے احاطے سے باہر ہو تو اس حدیث کو اسرائیلیات کی قبیل میں شمار کرنا اور اس سے یکسر انکار کر دینا کسی مرد مومن کا شیوہ نہیں ہو سکتا۔ ہاں جو روایات قرآن کریم اور مستند احادیث کے متعارض ہوں ان کو بلا تامل رد کیا جاسکتا ہے۔ محدثین اور ارباب جرح و تعدیل نے ایسا ہی کیا ہے اور کوئی دوسرا بھی ان کو تسلیم کرنے کا مکلف نہیں۔

کیا حضرت ابوھریرہؓ نے اسرائیلی روایات کو احادیث میں مکس کرکے پیش کیا؟
جیسا کہ ہم اوپر عرض کیا کہ اس بات کو تو قطعاً تسلیم نہیں کیا جاسکتا کہ حضرت ابوھریرہؓ نے کوئی روایت حضرت کعب احبارؒ سے لی ہو اور اس کو رسول اللہ ﷺ سے منسوب کر دیا ہو۔ ہاں اس بات کا امکان ہے کہ ان کے بعض تلامذہ نے غلط فہمی کی بناء پر ان کی نسبت حضرت کعب سے کی ہوگی۔بعض روایات کو بعض ایسی احادیث میں گڈ مڈ کر دیا ہو جو انہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھیں۔ اس امکان کا اشارہ اس تقریر سے ملتا ہے جو مشہور صحابی حضرت بشیر بن سعد  رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسلمانوں کے ایک مجمع کے سامنے کی تھی۔ انہوں نے تقریر میں فرمایا :
“لوگو! اللہ سے ڈرو اور حدیثوں کو خوب یاد رکھو۔ واللہ ہم ابو ہریرہ کی مجلسوں میں شریک ہوتے رہے ہیں۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی حدیثیں روایت کرتے اور کعب سے بھی۔ اب میں دیکھ رہا ہوں کہ جو لوگ ان مجلسوں میں ہمارے ساتھ شریک ہوتے تھے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول روایات کو کعب کی طرف اور کعب سے مروی قصص و اخبار کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب منسوب کرتے ہیں۔” (سیر اعلام النبلاء جلد صفحہ ۴۳۶)
بہر صورت اگر کسی حدیث نبوی ﷺ اور روایتِ کعب میں کہیں گڈ مڈ ہوگئی تو اس کی تمام تر ذمہ داری حضرت ابوھریرہؓ کے رواۃ اور تلامذہ کے سر ہے۔ ان کا اپنا اس میں مطلق کوئی قصور نہیں اس لیے ان پر زبانِ طعن دراز کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ عربی زبان کا ابجد خوان جو اس عبارت کو سمجھنے پر قادر ہے, یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس میں ابوہریرہ پر الزام عائد کیاگیا ہے ۔
پھر بعد میں ارباب جرح و تعدیل نے دونوں قسم کی روایات میں فرق و امتیاز واضح کر دیا وہ نقصان دہ بھی نہیں رہیں۔ جیسے مصر کے مشہور منکر حدیث ابوریہ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پر اعتراض کے ضمن میں دجل و تلبیس سے کام لیتے ہوئے ایک روایت پیش کی جو ابوہریرہ سے صحیح مسلم میں مرفوعا روایت ہے, جس میں آسمان و زمین کی تخلیق کا ذکر کیا گیا ہے.اس حدیث کے شروع میں حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا.. اس کے آگے ابوریہ بخاری اور ابن کثیر سے نقل کرتا ہے کہ یہ حدیث ابوہریرہ نے کعب الاحبار سے اخذ کی تھی.ابوریہ بذعم خویش یہ سمجھتا ہے کہ اسے ابوہریرہ کے کاذب ہونے پر ایک زبردست دلیل مل گئی ہے.اور اب وہ ابوہریرہ کے ساتھ عقیدت رکھنے والوں کو ایک عجیب ورطۂ حیرت میں ڈال سکے گا.
اگر ابوریہ کو فنِ حدیث میں معمولی سی دسترس بھی حاصل ہوتی اور اور عربی عبارت کو سمجھنے پر قادر ہوتا تو اسے معلوم ہوتا کہ بخاری و ابنِ کثیر ابوہریرہ کو کاذب قرار نہیں دے رہے کہ انہوں نے کعب کی حدیث کو دانستہ رسول(ص) کی جانب منسوب کردیا تھا.یہ دونوں بزرگ ایسی جسارت نہیں کرسکتے تھے.یہ کبھی نہیں ہوسکتا تھا کہ بخاری و ابن کثیر دونوں بے دینی کی اس سطح تک اتر آتے،جہاں ابوریہ پہنچ چکا ہے.ہم قبل ازیں بیان کرچکے ہیں کہ یہ دونوں اکابر ابوہریرہ کی مدح و ستائش میں رطب اللساں تھے.ان کی علمی و دینی امانت و دیانت اور ورع و تقویٰ کے معترف تھے.
بخاری و ابن کثیر نے مسلم کی ذکر کردہ حدیث پر یہ اعتراض کیا ہے کی یہ حدیث بروایت ابوہریرہ مرفوع نہیں ہے.اس کو مرفوع کہنے کی غلطی دوسرے راویوں سے ہوئی ہے.ابوہریرہ کا اس میں کوئی قصور نہیں.امام بخاری نے اپنی تاریخ اور ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں یوں ہی تحریر کیا ہے.علامہ معلمی یمانی نے اپنی کتاب “الانوار الکاشفہ” میں ایسا سیر حاصل تبصرہ کیا ہے جس سے ایک محقق کو شرح صدر نصیب ہوتا ہے.اور ابوریہ جیسے معاندین اس سے جل بھن جاتے ہیں،(انوار الکاشفہ ص ۸۸-۱۹۲)

کتب تفاسیر میں اسرائیلی روایات کیوں آئی ہیں اور یہ کس حدتک نقصان دہ ہیں؟
جیسا کہ اوپر ذکر ہوا کہ کچھ صحابہ حضرت ابن عمرؓ، حضرت ابن عباسؓ اور حضرت ابوہریرہ ؓ نے کعبؒ سے کچھ روایات بھی نقل کی ہیں، اس لیے کہ تمام اسرائیلیات ایک فیصلہ کن قاعدے کے تحت آتی ہیں کہ ان میں سے جس روایت کی شریعت اسلامیہ تصدیق کرے، اس کی تصدیق کی جائے اور شریعت اسلامیہ جس روایت کی تکذیب کرے، اس کی تکذیب کی جائے، اور اس کے علاوہ دیگر روایات کی تصدیق و تکذیب کے بارے میں توقف کیا جائے۔ جیسا کہ حافظ ابن کثیر ؒ مقدمہ تفسیر ابن کثیر میں لکھتے ہیں :اسرائیلیات کی تین قسمیں ہیں۔
(1) وہ روایات ، جن کی سچائی قرآن و سنت کے دوسرے دلائل سے ثابت ہے۔مثلاً : فرعون کا غرق ہونا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا کوہِ طور پر تشریف لے جانا وغیرہ۔
(2) وہ روایات جن کا جھوٹ ہونا قرآن و سنت کے دوسرے دلائل سے ثابت ہے۔مثلاً : اسرائیلی روایات میں مذکور ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) اپنی آخری عمر میں (معاذاللہ) مرتد ہو گئے تھے۔ جبکہ اس کی تردید قرآن کریم سے ثابت ہے۔وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلَ۔كِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُواْ۔سلیمان (علیہ السلام) نے (کوئی) کفر نہیں کیا بلکہ کفر تو شیطانوں نے کیا۔( سورة البقرة : 2 ، آیت : 102 )اسی طرح مثلاً : اسرائیلی روایات میں مذکور ہے کہ (معاذ اللہ) حضرت داؤد (علیہ السلام) نے اپنے سپہ سالار “اوریا” کی بیوی سے زنا کیا ، اسے (اوریا) مختلف تدبیروں سے مروا کر اس کی بیوی سے نکاح کر لیا۔ یہ بھی کھلا جھوٹ ہے اور اس قسم کی روایتوں کو غلط سمجھنا لازم ہے۔
(3) وہ روایات جن کے بارے میں قرآن و سنت اور دوسرے شرعی دلائل خاموش ہیں جیسے کہ تورات کے احکام وغیرہ۔ ایسی روایات کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم یہ ہے کہ ان کے بارے میں سکوت اختیار کیا جائے۔ نہ ان کی تصدیق کی جائے اور نہ تکذیب۔
البتہ اس مسئلہ میں علماء کا اختلاف ہے کہ آیا ایسی روایات کو نقل کرنا جائز بھی ہے یا نہیں؟حافظ ابن کثیر نے قولِ فیصل یہ بیان کیا ہے کہ :انہیں نقل کرنا جائز تو ہے ، لیکن اس سے کوئی فائدہ نہیں کیونکہ شرعی اعتبار سے وہ حجت نہیں ہے !!
(مقدمہ”معارف القرآن” از : مفتی محمد تقی عثمانی)

یہی وہ درست راہ ہے، جس پر اسرائیلیات کے کسی خطرے کا خوف نہیں ہے، اس لیے کہ جنہوں نے اسرائیلیات ذکر کیں، انہوں نے اسی نظریے کے ساتھ ذکر کیں کہ یہ اسرائیلیات اس خالص اور سچی کسوٹی پر پرکھی جاسکتی ہیں۔ چنانچہ نہ کعبؒ اور نہ ہی اسرائیلیات کا کوئی اور راوی ہی اسلامی افکار، نظریات اور تعلیمات پرکسی بھی طرح اثر انداز ہو سکتا ہے، جب تک کہ ان کی روایات اس دقیق معیار پر جانچی جاتی رہیں گی۔ اسی بنا پر آپ نے بہت کئی مفسرین کو دیکھا ہوگا کہ وہ ہر نفع بخش روایت کو نقل ضرور کرتے ہیں، تاکہ ان مفسرین کے زمانے میں مروج یہودوغیرہ اہل کتاب سے منقول معارف و روایات کی روشنی میں قرآن کریم کی ذکر کردہ اخبار وقصص کے بعض پہلو واضح ہو جائیں، ساتھ ہی یہ مفسرین ان روایات کی چھان بین بعد میں آنے والے نقاد کے حوالے کرتے ہیں۔اس طرح اسرائیلیات کے ذکر کرنے کا مقصد ان کے پیش نظر یہ ہوتا ہے کہ کم از کم یہ معارف بعد میں آنے والوں تک پہنچ ضرور جائیں، اس لیے کہ یہ احتمال تو بجا طور پر موجود ہوتا ہے کہ ان اسرائیلیات سے قرآن کریم کے اجمالی بیانات کی وضاحت میں مدد لی جاسکے۔ مفسرین کی یہ غرض نہیں ہوا کرتی کہ ان روایات کو مسلمانوں کی نظر میں حقائق و عقائد کا درجہ دے دیا جائے، جن کے صحیح ہونے کا عقیدہ رکھا جانا ضروری ہو، اور کسی چھان بین کے بغیر ان روایات کو ان کی کمزوریوں کے باوجود قبول کر لیا جائے۔چنانچہ اسرائیلیات کی تدوین کرنے والوں پرجب تک کہ ان کا مقصد یہی ہوکسی قسم کی ملامت وتنقید نہیں کی جاسکتی۔
سلیمان بن عبد القوی طوفیؒ نے اپنی کتاب ’’الاکسیر فی قواعد التفسیر‘‘میں مفسرین کے اپنی تفاسیر کو اسرائیلیات سے بھر دینے کے بارے میں اعتذار پیش کرتے ہوئے ان کا مقصد یہی بیان کیا ہے۔ ۔ انہوں نے مفسرین کے اس طریق کار کی مثال روات حدیث کے طریق کار سے دی ہے کہ جس طرح انہوں نے شروع شروع میں تمام روایات کے بلا کم و کاست نقل کردینے کا اہتمام کیا اور ان روایات کے صحیح و ضعیف ہونے کا معاملہ آنے والے ناقدین پر چھوڑ دیا، یہی طرز عمل ان مفسرین نے بھی اختیار کیا ہے۔یہ عذر واقعی عمدہ ہے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ باطل اسرائیلیات سے صرف وہی شخص دھوکہ کھاسکتا ہے جو کثیر پہلو مباحث میں بھی اہل علم کی طرف رجوع کیے بغیر ہر ایک سے روایات لے لینے کا عادی ہو۔ مزید یہ کہ اہل علم کی ایک کثیر تعداد نے ان کھوٹی روایات کی، جو امت کو کسی طرح نقصان پہنچاتیں، جانچ کا خصوصی اہتمام فرمایا ہے، چنانچہ انہوں نے تفسیر کو باطل اسرائیلیات سے خالی کرنے کی خدمت بھی انجام دی ہے، جیسا کہ شیخ عبد الحق بن عطیہ ؒنے اپنی تفسیر’’ المحرر الوجیز فی تفسیر کتاب اللّٰہ العزیز‘‘ میں کیا۔ نتیجہ یہ کہ اسرائیلیات اور اسی قسم کی ساری خرافات اسلامی تعلیمات پر کسی طرح اثر انداز نہیں ہو سکتی ہیں۔ البتہ ان سے بعض عوام اور وہ حضرات جو اپنے آپ کو اہل علم سمجھتے ہیں اور اہم مسائل و معاملات میں بھی علماء اور مستند مآخذ کی طرف رجوع کرنے سے اپنے آپ کو مستغنی خیال کرتے ہیں‘ ضرور متأثر ہو سکتے ہیں۔اللہ ہی سیدھی راہ دکھلانے والے ہیں۔

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password