وحی کی کیفیت اور مرگی (Epilepsy) کا اعتراض

dd

مستشرقین نے یورپ میں یہ بات مشہور کرائی کہ محمد صل اللہ علیہ وسلم پر وحی نہیں آتی تھی بلکہ انکو نعوذبااللہ مرگی کا مرض لاحق تھا اور مرگی کے دورے کے بعد وہ جو باتیں کرتے تھے لوگ اسے وحی سمجھ لیتے تھے ۔یہ اتنا بچگانہ اعتراض ہے جس کا جواب دینے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی ۔
مستشرقین کی طرف سے اپنے اس دعوی کے حق میں کوئی ٹھوس ثبوت ، صحیح روایت پیش نہیں کی گئی ، معاملہ چونکہ اسلام کا تھا انہوں نے اپنی اسی پرانی روش کے تحت لفظی مماثلت سے مرضی کے استدلال کیے ، صحیح روایات کو چھوڑ کرگری پڑی ضعیف اور ذومعنی روایات کو بنیاد بنا یا اور رائی کو پہاڑ بنا کر پیش کردیا۔
مستشرقین کی اسلام سے نفرت کا عالم کیا ہے اورنفرت میں بندہ کیسی کیسی ہذیان بکتا ہے اور کیسے کیسے صاحب علم و عقل بھی بیوقوفانہ استدال پیش کرنے لگتے ہیں اسکا اندازہ مستشرقین کے اس اعتراض کی تفصیل سے لگایا جاسکتا ہے ۔۔ حضرت آمنہ ؓ کو فرشتوں کی طرف سے نبی ﷺ کی پیدائش کی خوش خبری کی روایات کے متعلق مستشرقین نے لکھا یہ خوشخبری نہیں دی تھی بلکہ یہ خاندانی طور پر مرگی کا موروثی مرض تھا۔اسی طرح واقعہ شق صدر کو نبی ﷺ کو مرگی کے دورے سے موسوم کیا۔ نبی کریمﷺ پر جب وحی کا نزول ہوتا تو آپ کی کیفیات میں تغیر پیدا ہوتا،ان کیفیات کو مستشرقین نے مرگی کا دورہ قراردے دیا ۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی کی کیفیات کے متعلق صحیح احادیث میں جو تفصیلات آئی ہیں’ پیش خدمت ہیں
1. اک صورت یہ تھی کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کسی انسان کی شکل اختیار کیے بغیر اپنی اصلی صورت میں دکھائی دیتے تھے ، لیکن ایسا آپؐ کی تمام عمر میں صرف تین مرتبہ ہوا ہے ، ایک مرتبہ اس وقت جب آپ نے خود حضرت جبرئیل علیہ السالم کو ان کی اصل شکل میں دیکھنے کی خواہش ظاہر فرمائی تھی، دوسری مرتبہ معراج میں اور تیسری بار نبوت کے بالکل ابتدائی زمانے میں مکہ مکرمہ کے مقام اجیاد پر ، پہلے دو واقعات تو صحیح سَند سے ثابت ہیں ،البتہ یہ آخری واقعہ سنداً کمزور ہونے کی وجہ سے مشکوک ہے (فتح الباری ١١٩،۱/۱۸ و ۱۹١١٨)
2. بعض اوقات اس وحی کی ہلکی ہلکی آواز دوسروں کو بھی محسوس ہوتی تھی، حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ جب آپؐ پر وحی نازل ہوتی تو آپؐ کے چہرہ انور کے قریب شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ جیسی آواز سُنائی دیتی تھی(تبویب مسند احمدؒ کتاب السیرۃ النبویۃ ۲۰٢٠/۲۱۲٢١٢)
3. ایک صورت براہ راست اور بلا واسطہ اللہ تبارک و تعالیٰ سے ہمکلامی کی ہے ، یہ شرف آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو بیداری کی حالت میں صرف ایک بار، یعنی معراج کے وقت حاصل ہوا ہے ، البتہ ایک مرتبہ خواب میں بھی آپؐ اللہ تعالیٰ سے ہمکلام ہوۓ ہیں (اتقان، ١۱/۴۶٤٦)
4. صورت یہ تھی کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کسی بھی صورت میں سامنے آۓ بغیر آپؐ کے قلبِ مبارک میں کوئی بات اِلقاء فرما دیتے تھے ، اسے اصطلاح میں ’’ نفث فی الرّوع‘‘ کہتے ہیں (ایضاً)
5. صحیح بخاریؒ کی ایک حدیث میں حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت حارث بن ہشامؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا کہ آپ پر وحی کس طرح آتی ہے ؟ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ کبھی تو مجھے گھنٹی کی سی آواز سُنائی دیتی ہے ، اور وحی کی یہ صورت میرے لیے سب سے زیادہ سخت ہوتی ہے ، پھر جب یہ سلسلہ ختم ہوتا ہے تو جو کچھ اس آواز نے کہا ہوتا ہے ، مجھے یاد ہو چکا ہوتا ہے ، اور کبھی فرشتہ میرے سامنے ایک مرد کی صورت میں آ جاتا ہے ، (صحیح بخاریؒ١۲/٢۱)
اس حدیث میں آپؐ نے ’’وحی‘‘ کی آواز کو گھنٹیوں کی آواز سے جو تشبیہ دی ہے شیخ محی الدین ابن عربیؒ نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ ایک تو وحی کی آواز گھنٹی کی طرح مسلسل ہوتی ہے اور بیچ میں ٹوٹتی نہیں دوسرے گھنٹی جب مسلسل بجتی ہے تو عموماً سننے والے کو اس کی آواز کی سمت متعین کرنا مشکل ہوتا ہے ، کیونکہ اس کی آواز ہر جہت سے آتی ہوئی محسوس ہوتی ہے ، اور کلام اِلٰہی کی بھی یہ خصوصیت ہے کہ اس کی کوئی ایک سمت نہیں ہوتی ، بلکہ ہر جہت سے آواز سُنائی دیتی ہے ، اس کیفیت کا صحیح ادراک تو بغیر مشاہدہ کے ممکن نہیں ، لیکن اس بات کو عام ذہنوں سے قریب کرنے کے لیے آپؐ نے اسے گھنٹیوں کی آواز سے تشبیہہ دے دی ہے (فیض الباری، ۱/ ۱۹ و ۲۰)
جب اس طریقے سے آپؐ پر وحی نازل ہوتی تو آپؐ پر بہت زیادہ بوجھ پڑتا تھا، حضرت عائشہؓ اسی حدیث کے آخر میں فرماتی ہیں کہ میں نے سخت جاڑوں کے دن میں آپؐ پر وحی نازل ہوتے ہوۓ دیکھی ہے ، ایسی سردی میں بھی جب وحی کا سلسلہ ختم ہوتا تو آپؐ کی مبارک پیشانی پسینہ سے شرابور ہو چکی ہوتی تھی، ایک اور روایت میں حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں ، کہ جب آپؐ پر وحی نازل ہوتی تو آپؐ کا سانس رُکنے لگتا چہرہ انور متغیر ہو کر کھجور کی شاخ کی طرح زرد پڑ جاتا، سامنے کے دانت سردی سے کپکپانے لگتے ، اور آپؐ کو اتنا پسینہ آتا کہ اس کے قطرے موتیوں کی طرح ڈھلکنے لگتے تھے (الاتقان ۱١/٤۴۶٦)
وحی کی اس کیفیت میں بعض اوقات اتنی شدت پیدا ہو جاتی کہ آپؐ جس جانور پر اُس وقت سوار ہوتے وہ آپؐ کے بوجھ سے دب کر بیٹھ جاتا ، اور ایک مرتبہ آپؐ نے اپنا سر اقدس حضرت زیدؓ بن ثابت کے زانو پر رکھا ہوا تھا، کہ اسی حالت میں وحی نازل ہونی شروع ہو گئی ، اس سے حضرت زیدؓ کی ران پر اتنا بوجھ پڑا کہ وہ ٹوٹنے لگی(زادا المعاد ۱/۱۸ و ۱۹١١)
ظاہر ہے کہ خدائی جلوے اور کلام خدا کو برداشت کرنا انسانی بس کی بات نہیں ہے۔کسی پیغمبر کو اللہ تعالیٰ اپنے خصوصی اہتمام اور نگرانی میں اس بات کے لیے تیار کرتاہے کہ وہ اس کے پیغام کو وصول کرکے آگے پہنچا سکے۔۔ مستشرقین کی بددیانتی کا عالم یہ ہے کہ حضرت موسیٰ کے واقعے میں کوہ طورپر تجلی رب سے قوم موسیٰ کی موت اور حضرت موسیٰ کے بے ہوش ہونے پر تو یقین رکھتے ہیں،لیکن حضرت محمد ﷺ پر سخت کیفیات وحی کو مرگی سے تعبیر کرتے ہیں۔
ایک غریب حدیث
مستشرقین ایک کمزور روایت کوزور شور سے پیش کرتے ہیں جس کے مطابق “جب جبریل کو ان کی اصلی صورت میں دیکھا (حضور انور نے) تو ہیبت سے بے ہوش کر گر پڑے ۔ پھر وہ (جبریل امین) نیچے آئے اورآں حضرت صل اللہ علیہ وسلم کو ہوش میں لائے اور منہ سے جھاگ پونچھی۔ ۔ ۔”
اسلامی کتب میں ضعیف اور موضوع روایات کا ذٰخیرہ موجود ہے انکی حیثیت علمائے اسلام نے واضح کی ہے لیکن مستشرقین کو اس سے کچھ بحث نہیں ۔ ایسی کوئی روایت جب ایک مستشرق یا متعصّب غیر مسلم کے سامنے آتی ہے تو اس کو وہ مواد میسّر آجاتا ہے جس کی بنا پر وہ مزید اس میں اپنی رائے شامل کر کے بات کہیں سے کہیں لے جاتا ہے ،مستشرقین اور متعصّبین کو اس روایت کے معاملے میں بھی اس سے کوئی بحث نہیں حدیث غریب ہے اور اس میں یہ بھی بیان ہورہا ہے کہ جبریل کودیکھا اور جبرئیل نیچے آئے۔۔انہیں ان الفاظ سے وحی کا ثبوت نہیں ملتا، لیکن روایت میں جھاگ کے الفاظ سے مرگی ضرور ثابت ہوجاتی ہے۔!
مندرجہ بالا کے مقابلہ میں ”صحیح اور متفقہ علیہ حدیث“ یوں ہے کہ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے فترۃ الوحی (وحی کا وقفہ) کا حال یوں بیان فرمایا تھا کہ ”ایک بار میں کہیں جارہا تھا ۔ اچانک میں نے آسمان سے ایک آواز سنی ۔ نظر اٹھا کر دیکھا تو وہی فرشتہ جو غار میں میرے پاس آیا تھا زمین اور آسمان کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا ہے ۔ میں اس منظر سے پھر دھشت زدہ ہوگیا ۔ واپس ہو کے گھر والوں سے کہا ‘مجھے کپڑا (یا کمبل) اڑھاؤ مجھے کپڑا اڑھاؤ’۔ اس وقت اللہ تعالےا نے یہ آیات نازل فرمائیں:(يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ()قُمْ فَأَنذِرْ()وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ()وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ) اے کمبل اوڑھنے والے اٹھ اور لوگوں کو ڈرا اور اپنے رب کی بڑائی بیان کر اور اپنے کپڑے کو پاک رکھ اور ناپاکی کو چھوڑ دے ، پھر وحی کا سلسلہ گرم ہوگیا اور لگاتار آنے لگی،
(متفقہ علیہ)، (صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 481 حدیث مرفوع)
حضرت محمد ﷺ پرصرف نچلے طبقے کے چند غریب یا جاہل لوگ ہی ایمان نہیں لائے تھے ،بلکہ عرب کے عظیم دانش ور،شاعر،خطیب،سپہ سالار،طبیب ،فلسفی،علمائے یہود و نصاریٰ بھی ایمان لائے تھے اور زندگی بھر آپ ﷺ کے ساتھ رہے۔ ان میں سے کسی کوکبھی آپ ﷺ پر نازل ہونے والی وحی کی کیفیت میں مرگی یا کسی اور بیماری کی جھلک نظر نہیں آئی۔ اسی طرح اس دور کے مخالفین نے بھی آپ پر ہر طرح کی الزام تراشی کی، جادوگر، کاہن، مجنون، شاعر قرار دیا لیکن لیکن وحی کی کسی کیفیت کو مرگی قرار نہیں دیا۔
مرگی کا دور ہ اور علامات
اس مرض اور اس سے متاثرہ مریض کے بارے میں اہل علم و فن نے بہت کچھ لکھا ہے اس کے مطابق مرگی ایک دماغی مرض ہے ۔اس بیماری کو انگریزی میں Epilepsy کہا جاتا ہے۔ انسان کے دماغ میں جو بجلی کی حرکت ہوتی ہے وہ وقتی طور پر جب بے قابو ہوجاتی ہے۔ اور ایک ہی وقت میں پورے دماغ میں بہت زیادہ برقی رو پھیل جاتی ہے تو انسان کے جسم پر ایک دورے کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔اس بیماری کی عام علامات یہ ہیں کہ:
1۔ اچانک سے بے ہوشی کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔2۔ اچانک انسان نیچے گر جاتا ہے۔3۔ انسان کا جسم اکڑ سکتا ہے۔4۔ انسان کو جھٹکے لگ سکتے ہیں۔5۔ انسان کا منہ ایک جانب ٹیڑھا ہوسکتا ہے۔6۔ سانس وقتی طور پر رک سکتی ہے جس کی وجہ سے ہونٹ نیلے پڑ سکتے ہیں۔7۔ منہ میں جھاگ آسکتی ہے جبکہ زبان دانتوں کے درمیان آکر کٹ سکتی ہے۔8۔ کپڑوں میں پیشاب بھی خارج ہوسکتا ہے۔
مرگی کے کچھ دورے ایسے بھی ہوتے ہیں جن میں مریض ہوش و حواس مکمل طور پر نہیں کھوتا چہرہ کا تاثّر بدل جاتا ہے مگر مریض بات سن سکتا ہے اور بول بھی سکتا ہے اگرچہ وہ بے مطلب یا بے مقصد سی بات ہوتی ہے ۔ ایسے دوروں کو انگریزی میں ٹمپورل لوب اٹیک (Temporal Lobe attack or Epilepsy or TLE) کہتے ہیں اگر شدّت ہو یا تشنّج ہو تو پسینہ بھی آجاتا ہے (سارے جسم پر) ۔ یہ بات کنفرم ہے کہ مرگی کا دورہ کسی قسم کا ہو اس میں اکثر بول پر قابو نہیں رہتا۔ ان تمام باتوں کے باوجود مریض کو ہوش میں آنے پر کچھ یاد نہیں رہتا کہ اس دوران اس نے کیا سنا کیا دیکھا یا کیا کہا۔
‘وحی’ کی کیفیات کو مرگی کی ان علامات کے ساتھ موازنہ کیجیے ،کیا ان میں کوئی مماثلت نظر آتی ہے ؟ ذرا سا پسینہ ہے وہ بھی سب وحیوں میں نہیں پایا جاتا۔ جیسا کہ اوپر بیان ہوا کہ مرگی کے دورے کی سب سے قوی علامت ہے کہ مریض دورہ کے سب واقعات اور باتیں بھول جاتا ہے یہ ایسی علامت ہے کہ اگر مریض بیان کرے کہ اس نے یہ سنا ہے تو مرگی کے دورے کی تشخیص ہی سخت مشکوک ہو جاتی ہے۔ جبکہ وحی کا معاملہ بالکل برعکس ہے نہ صرف یہ کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم لمبی اور مختصر سورتیں حرف بحرف سناتے تھے بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو املا بھی کراتے مزید یہ کہ قرآن کریم کی آیات تو حسبِ ضرورت یا موقع محل کے مطابق اُترتی رہیں ۔ ان کی ترتیب وہ نہیں تھی جو آج ہم قرآن کریم کی صورت میں دیکھتے ہیں ۔ رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم یہ بھی یہ بھی ھدائت فرماتے کہ اسے فلاں سورۃ کے تحت فلاں آیۃ کے بعد اور فلاں آیۃ سے قبل لکھا جائے۔( ڈاکٹر وھاج الدین احمد ،نیورولوجسٹ ،نارتھ کیرولائنا، امریکہ)
ایسا جامع اور متسلسل کلام جو ۲۳ برس تک مختلف اوقات میں نازل ہوتا رہا جس میں انسان کی ہدایت کے لئے احکامات، اوامر و نواہی کا ایک جامع دین مکمل ہوا ۔ پھر ایسا معجز بیاں اور فصیح و بلیغ کلام جس کی نظیر نا پہلے موجود تھی نا آج تک دی جاسکی ہے ، عربی شعر وادب ، فصاحت وبلاغت کا ماہر ولید بن مغیرہ قریش کی طرف سے حضور ﷺ کو سمجھانے جاتا ہے اور ان الفاظ کے ساتھ واپس آتا ہے : “واللہ ان لقولہ الذی یقول حلاوۃ وان علیہ لطلاوۃ …وانہ لیعلوا ومایعلی” خدا کی قسم !جویہ کلام بولتے ہیں اس میں بلا کی شیرینی اورر ونق ہے یہ کلام غالب ہی رہتا ہے، مغلوب نہیں ہوتا۔(الخصائص الکبری،للسیوطی:۱/۱۱۳)۔۔۔اسکو مرگی کے دورے کی قرار دے دینا مستشرقین کا ہی کمال ہے۔
ڈاکٹر حمید اللہ رحمہ اللہ نے بھی مستشرق اشپرنگر کے اس اعتراض کا ذکر کیا ۔ خطبات بہاولپور،اقتباس پیش ہے۔
” میرے ایک ڈاکٹر دوست (ڈاکٹر وھاج الدین) نے مرگی کی بیماری کے متعلق علمی نقطہ نظر سے کچھ تازہ ترین معلومات مہیا کی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مرگی کا بیمار تشنج کی حالت میں ہوتا ہے، ہاتھ پاؤں مارتا ہے، بے قرار ہوتا ہے۔ دوسرے یہ کہ اس کی زبان سے کچھ آوازیں نکلتی ہیں لیکن وہ بالکل ناقابل فہم ہوتی ہیں۔ وہ کچھ کہتا ضرور ہے لیکن کوئی ایسی بات نہیں ہوتی جسے ہم سننے والے سمجھ سکیں اور یہ کہ مرگی والے شخص کی اولاد میں بھی یہ مرض منتقل ہو جاتا ہے۔ ان حالات میں غور کرنا چاہیے کہ تشنج اور ہاتھ پاؤں مارنے اور بے قرار ہو جانے کا کوئی ذکر رسول اللہﷺ کی زندگی میں اور وحی کے مشاہدات سے متعلق روایتوں میں نہیں ملتا۔ اس لحاظ سے مرگی کا انتساب رسول اللہﷺ کی طرف درست معلوم نہیں ہوتا اس کے برعکس ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ رسول اللہ وحی کے وقت ہمیشہ ساکت و صامت ہو جاتے تھے۔ یہ نہیں کہ آپ ہاتھ پاؤں مارتے تھے یا تشنج کی کیفیت پیدا ہو جاتی تھی، کبھی نہیں کبھی نہیں، ایک بار بھی ایسا نہیں ہوا۔ دوسری چیز ہمیں یہ بھی نظر آتی ہے کہ وحی کے دوران شروع سے آخر تک اور وحی کے ختم ہو جانے کے بعد رسول اللہﷺ کی زبان سے جو آوازیں نکلتیں وہ قابل فہم عبارتیں ہوتیں، یعنی قرآن کی آیتیں جن کو سن کر ہر شخص سمجھ سکتا تھا، یہ نہیں کہ جانوروں کی طرح چیخیں مارتے ہوں یا جیسے کہ بیمار بعض اوقات کراہتا ہے اور ایسی آوازیں نکالتا ہے جو سمجھ میں نہیں آ سکتیں، ایسا کبھی نہیں ہوا۔ یہ صحیح ہے کہ ایک زمانے میں وحی کے دوران ہی رسول اللہﷺ بلند آواز سے وحی سناتے۔ بعض اوقات وحی کے ختم ہونے کے بعد سناتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن مجید میں ایک آیت ہے کہ لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ (16:75) یعنی ابتداء ہی سے جیسے جیسے وحی نازل ہوتی اور جیسے جیسے فرشتہ آپ کو کچھ الفاظ پہنچاتا رسول اللہﷺ اسی وقت اس کو با آواز بلند دہراتے رہتے۔ اس طرح کی فوری تبلیغ آپ کی نیک نیتی پر مبنی تھی کہ کچھ بھول نہ جائیں تو اللہ نے کہا ایسا نہ کریں، پہلے سکون کے ساتھ پوری وحی کو سن لیں، وہ آپ کے ذہن سے غائب نہیں ہو گی، ہم اسے محفوظ رکھیں گے۔ وحی کا نزول ختم ہونے کے بعد آپ اسے دوسرے تک پہنچائیں۔ اس کے بعد سے رسول اللہﷺ نے اپنے اس معمول کو بدل دیا اور وحی کے اختتام تک سکوت فرماتے۔ ان تفصیلات کی روشنی میں ہمیں نظر آتا ہے کہ مرگی کی بیماری، تشنج وغیرہ بے معنی آوازوں کا آپ کی زبان سے نکلنا، ان باتوں کا کوئی وجود نہیں ہے۔ اسی طرح رسول اکرمﷺ کی چھ سات لڑکے لڑکیاں ہوئیں اور لڑکیوں کی اولاد اب تک دنیا میں باقی ہے اور مرض کے توارث سے تاریخ ساکت ہے۔”
(خطباتِ بہاولپور ڈاکٹر حمید اللہ ، خطبہ ۔ ۶ ، عقائد اور عبادات )

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password