سیرت
سیرت کے ماخذ و مصادر کے متعلق عوام میں بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں ، بہت سے لوگ
حیات طیبہ کی جمال وجلال آفریں روشنی اور ضیاء بار کرنیں انسانی زندگی کے ہر شعبہ پر یکساں پڑتی ہے۔
سیرت نویسی یا تحقیق و تصنیف میں اولین مرحلہ مواد کی نشاندہی، تعین اور تلاش و تدوین کا ہے۔
سات نسلوں کا تعارف ہے یہ لہجہ جب کوئ بولے تو نام ونسب کُھلتاہے ° جانتے ہو لہجہ کسے کہتے
ایک عالی نسب ،خوبرو اور نیک نام شخص جس کے لئے جوانی میں متعدد شادیاں کرنے میں معاشر تی اور
ڈاکٹر نور احمد نور، فزیشن ملتان لکھتے ہیں کا فی عرصہ کی با ت ہے کہ جب میں لیا قت
انسانی زندگی دو عظیم شعبوں میں تقسیم ہے. ایک مادی جب کہ دوسرا روحانی ہے.ان دونوں شعبوں میں ہم آہنگی
چند روز قبل ایک ملحد کی جانب سے اسلام میں غلامی کے موضوع پر ایک پوسٹ کی گئی، جس میں
سوشل میڈیا پر ملحدین کا ایک پیج جو اپنے جھوٹ گھڑنے کی وجہ سے مشہور ہے نے سانحہ پشاور کے
عیسائی مشنریوں کے سب حملے دور دراز کے جاہل و پسماندہ علاقوں میں ہی ہوتے جہاں یہ ’روٹی‘ کے بدلے
”اے بادشاہ! ہم لوگ ایک ایسی قوم تھے کہ سر تا سر جاہلیت میں گرفتار تھے۔ بت پوجتے تھے۔ مردار
دلیل کی قوت، حقانیت کا رعب ، سادگی، گہرائی، گیرائی، بے ساختگی، قوتِ منطق، وحدتِ مضمون (consistency) اور وسعتِ بیان
جس کسی نے عربوں کی زندگی چند سال پہلے دیکھ رکھی ہو، کیا وہ یقین کرسکتا ہے کہ عمرؓ بن
دِل کو دِل سے راہ ہوتی ہے۔ رسول اللہ ﷺاس بات کو یوں بیان کرتے ہیں:الاَرواح جنود مجندۃ (صحیح مسلم:
. عمر عائشہ اور حدیث: بہت سے لوگ اپنی علمی کم مائیگی کی بناء پر ان احادیث صحیحہ پر زبان
چچ نامے میں لکھا ہے کہ محمد بن قاسم کے آنے سے پہلے ہندوستان کا جو حکمران تھا، اس کو
یہود و نصاریٰ نے جب دیکھ لیا کہ صلیبی جنگوں جیسی بڑی تخریبی کارروائیوں کے باوجود مسلم اقوام میں کبھی
اس کا مشاہدہ آپ اکثر کریں گے۔ کسی ایک میدان میں کوئی انسان اگر ’بڑا‘ اور ’قابل ذکر‘ ہو جائے
یہ ہے وہ معلمِ اخلاق جس نے برہنہ ہوچکی انسانیت کے تن کو تہذیب کی چادر از سر نو پہنائی۔
آنحضورﷺ کی اپنی قوم نہ یہودی تھی اور نہ عیسائی۔ مگر آپ نے یہود ہی نہیں نصاریٰ کے ساتھ بھی
یہ عدیؓ بن حاتم طائی ہیں، جو تاج دارِ مدینہ کی کٹیا میں آپ کو دم بخود ہو کر سن
انبیاءکی زندگی میں دیکھنے کی بات یہی نہیں کہ وہ کیا کیا معجزات کر گئے ہیں بلکہ دیکھنے کی بات
ہَل تَطلُبُونَ مِن المُختَارِ معجزۃ یَکفِیہِ شَعب ٌ مِنَ الَجدَاثِ اَحیَاہُ! اِس برگزیدہ ہستی سے معجزہ مانگتے ہو! یہ کم
کیا اعتراض اُس چیز پر ہو جو پہلے بھی انبیاءکے ہاں پائی گئی، جبکہ اُن انبیاء پر اِن لوگوں کا
ظالموں کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی تو تکلیف ہے کہ خدا کا یہ آخری نبی آیا تو
دنیا کے ہر براعظم میں قبولِ اسلام کا شور ہے۔ وہی ”اللہ اکبر“ کے نعرے جو کسی شخص کے پہلی
اسلام کی ’تلوار‘ کو موضوع بنانے والے عیسائیوں کیلئے یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ وہ پہلا عیسائی
’بنوقریظہ‘ کے قصے نشر کرنے والے یہ بھی دیکھیں کہ ان کی بائبل ’موآبیوں‘ کا قصہ کیونکر سناتی ہے: “داؤد
پہلے ایک وضاحت :کوئی شخص اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے وہ موسیٰ علیہ السلام، سموئیل، یوشع اور
بُغض کے بھرے عیسائی مبلغین لوگوں کے محمد کی جانب بڑھنے کی راہیں مسدود کردینے کیلئے چند گھسی پٹی باتوں