فقہ
اسلامی نقطۂ نظرسے قانون کا اصل سرچشمہ اللہ تعالیٰ کی ذاتِ پاک ہے، اس لیے تمام قوانین کا رشتہ بہرحال
٭فقہ :٭ لغت میں لفظ فقہ کو کسی چیز کے جاننے اور سمجھنے کے معنی میں استعمال کیاجاتا تھا، بعد
ہرعلم وفن کی تدوین اور اس کے ارتقاء بتدریج پایہ کمال کو پہونچتا ہے ،فقہ اسلامی پر بھی تدوین کے
آٹھویں قسم :ابواب فقہیہ پر تفصیلی کتب عصر حاضر اختصاص و تخصص کا دور ہے،پورے فن کی بجائے فن کے
فقہ اسلامی زمانہٴ تدوین سے لے کر عصرِ حاضر تک مختلف مراحل سے گزری،اس پر متنوع انقلابات آئے،فقہ اسلامی کے
اسلام کا نظامِ قانون بنیادی طور پر جن پاکیزہ عناصر سے مرکب ہے وہ کتاب اللہ اور سنتِ رسول ہے،
اختلاف کی تعریف : خلاف کی لغوی تعریف ہے ، الاختلاف والمخالفة ، یعنی ایک شخص حال یا قول میں
انسان کا ایک نفسیاتی مسئلہ یہ ہے کہ جو شے اسے بغیر محنت حاصل ہوجائے تو اسے بالعموم اس کی
اسلامی قانون یافقہ اسلامی قانون فطرت کے ان ازلی، ابدی اور انقلابی اصولوں کے مجموعہ کا نام ہے جس کے
مستشرقین کا اعتراض: بعض مستشرقین نے یہ لکھا کہ فقہ اسلامی براہِ راست قرآنِ حکیم سے اخذ نہیں کیا گیا
یہ اسلامی قانون کے متعلق ان stereotypes میں سے ہے جو ہمارے “اجتہاد کے علم بردار اردوخوان طبقے “میں پچھلی
آج فقہ اسلامی کا شمار دنیا کے چند قدیم ترین نظام ہائے قوانین میں ہوتا ھے۔ فقہ اسلامی جس دور
مستشرقین کومشرق اور خصوصیت سے اسلام کی کوئی خوبی ایک نظر نہیں بھاتی، اگرہنرکو عیب بنانے میں کامیاب نہ ہوں
مستشرقین کا فقہی کتابوں کے مسائل اور رومی قوانین کے کچھ مسائل میں یکسانیت ثابت کرنا اسی طرح مسائل کی
اسلامی قانون پر کام کرنے والے مستشرقین کے ائمۂ اربعہ : “استشراق” ایک مخصوص پس منظر کے ساتھ ، اور
مستشرقین کی طرف سے اسلامی شریعت پر عام اعتراض یہ رہاہے کہ یہ نظام قانون رومی قانون سے ماخوذ یا
یہ مضمون اس حیثیت سے بہت اہم ہے کہ اس میں خود ایک یورپین محقق نے اس مشہور اعتراض کہ
قانون کا اصل اور حتمی ماخذ کیا ہونا چاہیے؟ ایک بنیادی سوال کا جواب نا گزیر ھے جس سے فقہ