اورنگزیب عالمگیرپرلگائےجانےوالےبڑےاعتراضات کاعلمی جائزہ

۔

اورنگزیب عالمگیر کی طرف سے اپنے بھائیوں کو قتل کرنے اور باپ کو قید میں ڈالنے کی اصل حقیقت کیا ہے ؟ اورنگزیب اوربرصغیر کے حالات و واقعات کے بارے میں فرانسس برنیئر اور دیگر مغربی مورخین کے بیانات کیوں کر ناقابل اعتماد ہیں؟ فرانسس برنیئر کی طرف سے شاہ جہان اور اس کی بیٹی جہان آرا کے درمیان جنسی تعلق کے الزام کی حقیقت کیا ہے؟ مغربی، سیکولر اور ملحد مصنفین کی اورنگزیب عالمگیر سے دشمنی اور اس کی کردار کشی کی اصل وجہ کیا ہے ؟
تحریر محمد طارق جان بحوالہ سیکولر لابی، تاریخ اور اورنگزیب عالمگیر۔
تلخیص و ترتیب و مزید اضافہ:
ڈاکٹر احید حسن، عصمت علی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اورنگزیب عالمگیر مغل سلطنت کے تمام حکمرانوں میں سب سے مذہبی بادشاہ تھا، اس نے برصغیر میں اسلام کی ترویج کے لیے کئی اقدامات کئے اور اسلام کی اس صحیح شکل کو برقرار رکھنے کی ایک شاندار اور تاریخی کوشش کی جو ہندو، شیعہ اور دیگر غیر شرعی روایات میں معدوم ہوتی جا رہی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ غیر مسلم مغربی و اکثر ہندو مورخین اور ان کے فکری غلاموں لبرلز، سیکولرز اور ملحدین نے جان بوجھ کر اس کی کردار کشی کی۔ اس پہ بیشمار الزامات عائد کئے گئے جن کے جواب ہم دیگر مضامین میں دے چکے ہیں۔ اورنگزیب عالمگیر پہ ایک بہت بڑا اعتراض یہ ہے کہ اس نے تخت نشینی کی جنگ میں اپنے تین سگے بھائیوں کو قتل کر دیا اور اپنے والد بادشاہ شاہ جہان کو قید میں ڈال دیا۔ ان واقعات سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اورنگزیب عالمگیر ایک ہوس پرست بادشاہ تھا جس کے سر پہ تخت نشینی کا بھوت سوار تھا۔ لیکن اس بات کی اصل حقیقت کیا ہے،یہ بات کس حد تک سچ ہے ؟ اس کی حقیقت کیا ہے اور اورنگزیب عالمگیر کو اس اقدام پہ کن حالات و واقعات نے مجبور کیا۔ ان سب واقعات کو سمجھے اور بیان کئے بغیر سارے معاملے کا ڈھنڈھورا پیٹنا، اورنگزیب کو قاتل اور ہوس پرست بادشاہ ثابت کرنے کی کوشش کرنا اکثر غیر مسلم اور سیکیولر و ملحد مورخین کی بھرپور کوشش رہی ہے۔ ہم محمد طارق جان صاحب کی کتاب سیکولر لابی، تاریخ اور اورنگزیب عالمگیر سمیت مختلف حوالہ جات کے ساتھ اس معاملے کی تحقیق پیش کرنے کی کوشش کریں گے کہ ان نیم سچ واقعات کی اصل حقیقت اور وہ پس منظر کیا ہے جس کو بیان کئے بغیر ان ساری باتوں کا ڈھنڈھورا پیٹا جاتا ہے۔
اورنگ زیب نے ضرور اپنے بھائیوں کا قتل کیا مگر باقی تینوں بھائی بھی اس کے خون کے پیاسے تھے اور اس کا پورا پس منظر کیا تھا، اس کو سمجھنا بہت لازمی ہے۔ مغل سلطنت میں ایسا کوئی اصول یا ضابطہ نہیں تھا کہ وراثت بڑے بیٹے کو ہی ملے گی۔ بیٹوں میں کوئی بھی بادشاہ ہوسکتا تھا۔
اورنگزیب کے بارے میں پھیلی ایسی متنازعہ باتوں کا ذریعہ کیا ہے تو اس کی حقیقت یہ ہے کہ اورنگ زیب کے متعلق ان تصورات کا زیادہ بڑا حصہ فرانسیسی سیاح اور معالج فرانسس برنیئر (1625 – 1688) جیسے لوگوں کی عطا ہے، جو اسلام سے اپنے بغض و عداوت اور عیسائیت کی طرف داری کرتے ہوئے اپنے آپ کو قابو میں رکھنے کی ذرا سی بھی کوشش نہیں کرتے۔ یہ شخص دہلی میں مقیم تھا اور شاہ جہان کے بڑے بیٹے دارا شکوہ اور اورنگزیب کا ذاتی طبیب بھی رہا۔ اس نے برصغیر کی ہر اس چیز اور ہر اس شخصیت کا غلط رنگ پیش کرنے کی کوشش کی جو راسخ العقیدہ مسلمان تھی اور ہر اس شخصیت کی تعریف کی جو اس کے خیال میں عیسائیت کے لیے مفید تھی۔مثال کے طور پر برنیئر، بادشاہ نورالدین سلیم جہانگیر اور داراشکوہ کی بڑی تعریف کرتا ہے کیوں کہ اس کا خیال تھا کہ دونوں عیسائیت کی طرف مائل تھے۔
اسلام سے عداوت کا اظہار ہو تو برنیئر ساری احتیاط بالائے طاق رکھ دیتا ہے۔ اس کے نزدیک اسلام ایک “توہم پرستی” ہے، ایک “مہلک اور تباہ کن مجموعہ قوانین” ہے جو تلوار کے زور پر نافذ ہوا اور اب بھی اُسی ظالمانہ تشدد کے بل پر انسانیت پر مسلط ہے۔ اسلام کو ایک “قابلِ نفرت فریب” کا نام دیتے ہوئے وہ اسے ایک بے معنی اور فضول ٹوٹکا قرار دیتا ہے۔ برنیئر نے اسلام کو “فضول ٹوٹکا ” تک کہہ دیا۔ نبی کریم ﷺ کو نعوذ بااللہ”جعل ساز” قرار دیا اور یہ کہ “یہ دین تشدد سے پھیلا”۔ وہ اپنی اس خواہش کی تکمیل پر مایوسی کا اظہار بھی کرتا ہے کہ “مسلمانوں کو کبھی عیسائی نہیں بنایا جاسکے گا۔ نہ انہیں باور کرایا جاسکتا ہے کہ محمد ﷺ جھوٹے نبی تھے۔
مسلمانوں سے اس کا یہی تعصب ہے جو اسے اورنگ زیب سے متنفر کرتا ہے۔ جب اورنگ زیب نے دکن کی گورنری لینے سے انکار کیا اور اپنے لیے عبادت اور استغراق کی زندگی کو ترجیح دی تو برنیئر کو یہ سب کچھ ایک مذاق آلودہ فریب لگا، “ایسی پرہیزگاری کا ڈھونگ جو اصلاً اس کے دل میں تھی ہی نہیں۔۔۔۔” وہ اورنگ زیب کی ساری زندگی کو “سازش اور اختراع کا مستقل سلسلہ” قرار دیتا ہے۔برنیئر کے مطابق دارا شکوہ اسے “کٹھ ملا، ہٹ دھرم جو ہر وقت نماز اور اذکار میں مشغول رہنے والا” کہہ کر مذاق اُڑاتا تھا۔ گویا کہ دوسرا کوئی بھی فرد اصل عالمگیر کو نہ جان سکا اور شاہ جہانی دربار میں اسے احترام اور استحسان کی نظروں سے ہی دیکھا جاتا رہا۔ ایسی سخن سازی کے سبب برنیئر نہ تو مسلمانوں کے لیے قابلِ اعتماد مؤرخ ہے اور نہ اورنگ زیب کی ذات اور عہد کے تجزئے کے لیے کوئی سنجیدہ حوالہ۔ دارا شکوہ نے اس کی ساری توجہ اپنی طرف کھینچ رکھی ہے۔
اورنگ زیب کی سخت کردار کشی کرنے والے اسی برنیئر نے شاہ جہاں کے اپنی بیٹی شہزادی جہاں آراء (1614 – 1681) کے ساتھ باپ بیٹی کے شفقت پہ مبنی تعلق کو بھی بڑے غلیظ انداز میں بیان کیا اور اس متعصب یورپی عیسائی ایک سیاح جس نے مؤرخ کا روپ دھارا ہوا تھا، نے باپ اور بیٹی جہاں آرا کے معصومانہ رشتے کو جنسی تعلق کا نام دے دیا جو قید کے دوران اپنے بیمار باپ کی تیمارداری کررہی تھی۔ برنیئر کا بیان ایک اخلاق باختہ،گھٹیا اور ماؤف ذہن ہی کی پیداوار ہوسکتا ہے۔ کہتا ہے، ” یہ افواہ مشہور ہے کہ اس کا اپنی بیٹی سے تعلق اس حد کو جا پہنچا جو ناقابلِ یقین ہے، جس کے لیے جواز اُسے مولویوں کے فتوے سے ملا جنہوں نے اُسے بتایا کہ بادشاہ کو اس درخت کا پھل کھانے سے روکنا ظلم ہوگا جسے اس نے خود بویا۔” یہاں جھوٹ، افسانہ طرازی اور سکینڈل بازی نے تاریخ نویسی کے بلند و بالا دعوے کو رسوا کرڈالا ہے۔ پہلے تو باپ بیٹی کا رشتہ زناکاری میں بدل دیا گیا، پھر مبینہ طور پر باپ معاملہ کو خود طشت از بام کردیتا ہے۔ اس کے بعد اس زناکاری کو مذہبی سند دینے کے لیے مولویوں کی مدد حاصل کی جاتی ہے۔ برنیئر نے اس افسانہ طرازی میں حد درجہ غیر ذمہ داری اور لچر پن کو عروج پر پہنچاتے ہوئے غلیظ زبان استعمال کی ہے۔
برنیئر اپنی لچر بیانی میں یہ بات بھول جاتا ہے کہ جو ظاہر ہو اور جس کے متعلق ملاؤں کا فتویٰ موجود ہو، اسے “افواہ” نہیں کہا جاسکتا، وہ امر واقعی ہوتا ہے۔ بات اگر منطق کی ہو اور استدلال پر مبنی واقعات و حالات ہوں تو برنیئر یہاں پر اپنے قاری کو بالکل مایوس کردیتا ہے برنیئر کے مدیر کانسٹیبل نے فراسواکیٹو کا جو حاشیہ اپنے بیان میں ضمناً جوڑا ہے، وہ اس سارے قصو کو لغو اور جھوٹ بتا کر رد کردیتا ہے کہ “بدنیت اور کینہ پرور درباریوں کے علاوہ کہیں اور اس افسانہ طرازی کا شائبہ تک نہیں ملا۔ لہذا یہ واقعہ مکمل جھوٹ ہے۔
اورنگ زیب کے مکتوبات میں شاہ جہان کے اعلیٰ اخلاقی مرتبے اور اسلامی تعلیمات کے لیے اس کے دلی احترام کا بیان موجود ہے۔ بے چاری جہاں آراء، جسے برنیئر اپنے غیر ذمہ دار قلم کاری، جھوٹ، بغض اور تعصب سے ذبح کرکے رکھ دیتا ہے، وفورِ جذبات سے اپنے باپ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتی ہے کہ وہ دین کے لیے احترام کے جذبات رکھتا تھا اور اخلاقی طور پر بلند شخصیت تھی۔یہ اندرونی شہادت زیادہ وزنی اور قابلِ قبول ہے کیونکہ یہ کسی اور نے نہیں بلکہ اُس کی بیٹی نے دی ہے جس سے شاہ جہاں کی طرف منسوب سبھی غلط باتوں کی تردید ہوجاتی ہے۔ اسلام کے لیے شاہ جہاں کی خدمات بڑی واضح ہیں۔
اس مقصد کے لیے اطالوی سیاح نکولاؤ منہوچی(1639 – 1717) یا ژان تیورنیا (1605 – 1689) بھی لائق اعتبار نہیں ہیں کیوں کہ انہوں نے بھی مخصوص نقطہ نظر کے تحت دارا ہی پر نظریں جما رکھی تھیں۔ جو انہیں اپنے خوابوں کا شہزادہ نظر آتا تھا جو مسلم ہندوستان کے تخت پر عیسائیت کو بٹھائے گا۔ مگر اورنگ زیب کی کامیابی نے اُن کی اُمیدوں پر پانی پھیر دیا اور یوں وہ اس کے جانی دشمن بن گئے۔ اس لیے انہوں نے دیانت کا دامن چھوڑ کر پوری ڈھٹائی کے ساتھ اورنگ زیب کی زندگی سے منسوب واقعات میں اپنے خیالات و احساسات کی رنگ آمیزی شروع کردی اور جی بھر کے اس کی کردار کشی کی۔1
سلطنت عثمانیہ کے برعکس مغل سلطنت کی ایک بہت بڑی خامی تھی کہ اس میں تخت نشینی کا باقاعدہ کوئی نظام موجود نہیں تھا جب کہ سلطنت عثمانیہ نے سترہویں صدی کے اوائل میں تخت نشینی کی جنگوں سے بچنے کے لیے یہ نظام مقرر کیا تھا کہ سب سے بڑا بیٹا تخت نشین ہوگا جب کہ مغل سلطنت میں ایسا کوئی نظام نہیں تھا۔ایک بادشاہ کی وفات کے بعد اس کے بیٹے آپس میں جنگ کرتے اور جو جیتا وہی سلطان کا حساب تھا۔ آخر میں یہی نظام بعد ازاں مغل سلطنت کے خاتمے اور زوال کا سبب بنا۔
اورنگزیب عالمگیر کے والد شاہ جہان کے چار بیٹے تھے جن کے نام اورنگزیب عالمگیر، دارا شکوہ، شاہ شجاع اور مراد بخش تھے۔ ان میں سب سے بڑا دارا شکوہ تھا۔ چاروں بیٹے برصغیر کے مختلف علاقوں میں عامل یعنی گورنر تھے۔ شاہ جہان سب سے زیادہ حمایت دارا شکوہ کی کرتا تھا۔2
1657 ء میں شاہ جہان بیمار پڑ گیا اور اس نے اس بات کو واضح کر دیا کہ اس کی خواہش دارا شکوہ کو اپنا جانشین بنانے کی ہے جس پہ اورنگزیب کے چار بیٹوں میں تخت نشینی کی جنگ شروع ہوگئی جس کی تفصیل یہ ہے:
شاہ جہان کی بیماری کے دوران دہلی میں مقیم شاہ جہان کے بیٹے کی سازشوں اور والد کی خیریت، زندگی موت کی خبر چھپانے اور ان خبروں کی وجہ سے کہ دارا شکوہ والد کی وفات کی خبر چھپا کر خود بادشاہ بننے کی کوشش کر رہا ہے، باقی بھائی دارا شکوہ کی بد نیتی سے خبردار ہوگئے اور اس پہ سب سے پہلے شاہ جہان کے ایک بیٹے اور اورنگزیب کے چھوٹے بھائی شاہ شجاع نے جو اس وقت بنگال کا عامل یعنی گورنر تھا، نے نومبر 1657ء میں بنگال میں اپنے آپ کو نیا بادشاہ مقرر کیا اور اپنی گھڑ سوار فوج، توپ خانہ اور دریائی کشتیاں لے کر آگرہ کی طرف چل پڑاجب کہ اس کو آگرہ کی طرف بڑھنے سے روکنے کے لیے شاہ جہان کے سب سے بڑے بیٹے دارا شکوہ نے اپنے بیٹے سلمان شکوہ اور ہندو جنرل جے سنگھ کی قیادت میں دہلی سے ایک لشکر بھیجا جن کا شاہ جہان کے دوسرے بیٹے شاہ شجاع کی فوج سے ورناسی کے قریب مقابلہ ہوا۔3
آخرکار تخت نشینی کی اس جنگ میں شاہ شجاع کو بنارس کے قریب 1658ء میں شکست ہوئی اور دارا شکوہ کی فوجیں بہار میں اس کا پیچھا کرتی رہیں۔ شکست کے بعد وہ واپس بنگال اپنے راج محل میں واپس آگیا اور بڑے بھائی دارا شکوہ سے صلح کا معاہدہ کیا جس کے مطابق 17 مئی 1658ء میں شاہ شجاع کے ہاتھ میں بنگال، اڑیسہ اور بہار کے اکثر حصوں کا تسلط دے دیا گیا۔ اس کے بعد شاہ شجاع بنگال پہ حکومت کرتا رہا اور اب جنگ شاہ جہان کے بیٹے دارا شکوہ کی اورنگزیب اور شاہ مراد کی متحدہ فوجوں سے تھی۔ اس جنگ میں اورنگزیب نے دارا کی فوجوں کو دو بار یعنی دھرمات اور سامو گڑھ کے مقام پہ شکست دی۔جب شاہ شجاع نے دیکھا کہ اورنگزیب اور مراد بخش کی متحدہ فوجوں کو دارا کے خلاف فتح ہو چکی ہے اور دارا بھی الحاد کے جرم میں اورنگزیب کے ہاتھوں قتل کیا جا چکا ہے، اس کے دل میں ایک بار پھر تخت حاصل کرنے کی خواہش نے جنم لیا اور اس نے اب اورنگزیب کے خلاف مغل سلطنت کے دارالحکومت کی طرف پیش قدمی شروع کر دی۔ اس دوران اورنگزیب نے کوشش کی کہ جنگ نہ ہو اور اس نے شاہ شجاع کو صلح کی پیشکش کی جس کے مطابق اورنگزیب نے شاہ شجاع کو بنگال کا عامل یعنی گورنر بننے کی پیشکش کی نہ صرف صلح کی پیشکش مسترد کر دی بلکہ الٹا شاہ شجاع نے مزید سے مزید علاقوں پہ قبضہ شروع کر دیا اور اورنگزیب کی طرف سے صلح کی پیشکش کو مسترد کر دیا اور مغل سلطنت کے دارالحکومت کی طرف اورنگزیب کے خلاف پیش قدمی شروع کر دی جو اس وقت اورنگزیب کے زیر اہتمام تھا۔ظاہر ہے شاہ شجاع کے خلاف جنگ میں پہل بھی اورنگزیب نے نہیں کی، بلکہ شاہ شجاع کو انہی علاقوں یعنی بنگال، اڑیسہ، بہار کی حکمرانی کی پیش کش کی جس کا معاہدہ وہ پہلے دارا شکوہ سے بھی کر چکا تھا لیکن شاہ شجاع کے دل میں تخت کی شدید لالچ پیدا ہو چکی تھی اور اس نے اورنگزیب کے علاقوں کو ہتھیانا شروع کر دیا اور الٹا اورنگزیب کے زیر اہتمام سلطنت کے دارالحکومت آگرہ کی طرف پیش قدمی شروع کر دی۔
اس پہ پانچ جنوری 1659ء میں موجودہ اترپردیش کے ضلع فتح پور کے قریب جنگ خواجہ ہوئی۔ اس جنگ میں شاہ شجاع کو شکست اور اورنگزیب کو فتح حاصل ہوئی۔ اس کے بعد وہ بھاگ کر بنگال کی طرف چلا گیا لیکن اورنگزیب کی فوجوں نے میر جملہ کی قیادت میں اس کا پیچھا جاری رکھا۔ اب ہوتا تو یہ کہ شاہ شجاع اب شکست کے بعد اورنگزیب کو اسی طرح صلح کی پیشکش کرتا جیسے اس نے دارا شکوہ سے شکست کھانے کے بعد دارا شکوہ کو پیش کی تھی لیکن الٹا وہ بار بار اورنگزیب کی فوجوں کے خلاف جنگ کرتا رہا۔ آخرکار اپریل 1660ء میں اسے فیصلہ کن شکست ہوئی اور اس کے بعد خود اس کی اپنی فوج کے اکثر افراد اور فوجی سردار چھوڑ کر چلے گئے لیکن اس نے اس موقع پہ بھی اورنگزیب سے صلح کرنے کی کوشش نہیں کی جو اسے پہلے بنگال کی حکومت کی پیشکش کر چکا تھا بلکہ الٹا ایک بار پھر اورنگزیب کے خلاف فوج منظم کی لیکن پھر شکست کھائی۔ اب اسے پتہ تھا کہ اورنگزیب کے خلاف بار بار جنگ کی وجہ سے اس کی جان بخشی مشکل ہے۔ ممکن ہے کہ اب بھی اورنگزیب اسے معاف کر دیتا لیکن اس نے اپنے گھرانے کو لیا اور اراکان یعنی برما کی طرف فرار ہوگیا۔
شاہ شجاع اورنگ زیب سے شکست کھانے کے بعد اراکان کے بدھ مت حکمران ساندا تھوداما کے پاس چلا گیا جس نے اس سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اسے مکہ مکرمہ حج پر جانے کے لئے جہاز فراہم کرے گا لیکن بدھ مت بادشاہ نے شجاع سے کیا ہوا وعدہ توڑ ڈالا اور اس سے اور اس کی بیوی بیٹیوں سے سارا سونا چاندی چھین لیا۔ اس دوران اس کے مغل حامیوں نے بدھ مت بادشاہ سے جنگ کی لیکن شکست کھائی۔ 4 اورنگزیب کے بنگال کے مغل صوبہ دار نے شاہ شجاع کے بیٹوں کو چھڑانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا اور بدھ مت بادشاہ نے 25 جولائی 1663ء میں ان کی گردنیں اڑا دیں۔5
اس موقع پہ شاہ شجاع کے بارے میں دو تفصیلات ملتی ہیں۔ ایک یہ کہ شاہ شجاع اور اس کے بیٹے زین الدین محمد سیمت اس کے دو بیٹوں کو اراکان کے بدھ مت بادشاہ نے اس تاریخ کو قتل کر دیا تھا اور دوسری یہ کہ شاہ شجاع فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ اس کی بیٹی گل رخ بانو بیگم کی بدھ مت بادشاہ نے عزت لوٹ لی اور اس نے اس وجہ سے خود کشی کر لی جب کہ اس کی باقی دو بیٹیوں شہزادی پذیر بیگم( عمر 23 سال)، شہزادی آمنہ بانو بیگم( عمر دو سال) کو شاہ شجاع کے ایک پوتے شہزادہ اعظم شجاع( عمر چھ سال) کے ساتھ اورنگزیب کی طرف آگرہ بھیج دیا گیا۔6
شاہ شجاع کے حامی باقی لوگ اراکان میں مقیم مغلوں اور پٹھانوں کی مدد سے7 پرتگیزی بحری جہاز رانوں کے ساتھ شمال کی طرف چلے گئے جنہوں نے ان سے اس کی سونے چاندی کے بدلے میں بھاری قیمت لی۔کہا جاتا ہے کہ برمی بدھ مت بادشاہ کی طرف سے سونا چاندی لوٹ لیے جانے، وعدہ توڑنے، اس کے بیٹوں کو اس مزاحمت پہ گرفتار کر لیے جانے کے بعد شاہ شجاع اور اس کے حامی دسمبر 1661ء میں مانی پور پہنچے۔8اس موقع پہ اورنگزیب کے حکم پہ مغلوں نے شاہ شجاع کے غم زدہ گھرانے کو مانی پور سے مغل سلطنت میں لانے کی کوشش کی9، جس کا مطلب ہے کہ اس موقع پہ بھی اورنگزیب نے اس کے خاندان کو تنہا نہیں چھوڑا اور ان کی خود ساختہ جلا وطنی ختم کرنے اور انہیں آگرہ واپس لانے کی کوشش کی لیکن مانی پور کے حکمران نے شاہ شجاع کو اس ڈر سے مانی پور کے غاروں میں چھپنے کے لیے بھیج دیا کہ کہیں اورنگزیب شاہ شجاع کو قتل نہ کرا دے۔
یہ تو تھی شاہ شجاع کی کہانی اور اس سے صاف ظاہر ہے کہ اورنگزیب نے شاہ شجاع کو قتل نہیں کیا بلکہ اورنگزیب سے تخت نشینی کی جنگ میں شکست کھانے کے بعد وہ اراکان بھاگ گیا تھا مغل اسے جانی نقصان نہ پہنچائیں۔ اپنی جان کے ڈر سے شاہ شجاع نے اورنگزیب کے پاس آگرہ واپس جانے کی جگہ مانی پور انڈیا کے غاروں میں چھپنے کو ترجیح دی لیکن کیا اورنگزیب اسے قتل کرنا چاہتا تھا یا نہیں اس بارے میں کوئی معلوم نہیں۔ لیکن یہ بات بالکل حقیقت ہے کہ اس خود ساختہ جلا وطنی میں ہی مانی پور کے پہاڑی علاقوں میں شاہ شجاع کا 1661ء میں انتقال ہوا اور اس کے گھرانے کو اورنگزیب عالمگیر پہلے ہی آگرہ میں پناہ دے چکا تھا اور شاہ شجاع کو اورنگزیب نے قتل نہیں کیا بلکہ وہ مانی پور کے پہاڑوں میں اپنی طبعی موت مرا۔ اگر ہم شاہ شجاع کی اس ساری کہانی پہ غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ اس ساری کہانی میں اورنگزیب درج ذیل وجوہات کی وجہ سے قصور وار نہیں:
1۔ شاہ شجاع سے جنگ میں پہل اورنگزیب نے نہیں کی بلکہ شاہ شجاع نے کی۔ تخت نشینی کی جنگ میں دارا شکوہ سے 1658ء میں شکست کھانے کے بعد شاہ شجاع سکون سے بنگال، اڑیسہ اور بہار پہ سکون سے حکومت کر رہا تھا۔ اس کے دل میں ایک بار پھر تخت حاصل کرنے کی خواہش نے جنم لیا اور اس نے اب اورنگزیب کے خلاف جنگ شروع کر دی۔
2۔ اورنگزیب نے کوشش کی کہ جنگ نہ ہو اور اس نے شاہ شجاع کو صلح کی پیشکش کی جس کے مطابق اورنگزیب نے شاہ شجاع کو بنگال کا عامل یعنی گورنر بننے کی پیشکش کی نہ صرف صلح کی پیشکش مسترد کر دی بلکہ الٹا شاہ شجاع نے مزید سے مزید علاقوں پہ قبضہ شروع کر دیا اور اورنگزیب کی طرف سے صلح کی پیشکش کو مسترد کر دیا اور مغل سلطنت کے دارالحکومت کی طرف اورنگزیب کے خلاف پیش قدمی شروع کر دی جو اس وقت اورنگزیب کے زیر اہتمام تھا۔ اس صورت میں شاہ شجاع کے خلاف جنگ کرنا اورنگزیب کے لیے ناگریز ہو گیا تھا۔
3۔ ہوتا تو یہ کہ شاہ شجاع اب شکست کے بعد اورنگزیب کو اسی طرح صلح کی پیشکش کرتا جیسے اس نے دارا شکوہ سے شکست کھانے کے بعد دارا شکوہ کو پیش کی تھی لیکن الٹا وہ بار بار اورنگزیب کی فوجوں کے خلاف جنگ کرتا رہا۔ آخرکار اپریل 1660ء میں اسے فیصلہ کن شکست ہوئی اور اس کے بعد خود اس کی اپنی فوج کے اکثر افراد اور فوجی سردار چھوڑ کر چلے گئے لیکن اس نے اس موقع پہ بھی اورنگزیب سے صلح کرنے کی کوشش نہیں کی جو اسے پہلے بنگال کی حکومت کی پیشکش کر چکا تھا بلکہ الٹا ایک بار پھر اورنگزیب کے خلاف فوج منظم کی لیکن پھر شکست کھائی۔
4۔ اورنگزیب سے مسلسل جنگ اور شکست کھانے کے بعد اسے پتہ تھا کہ اورنگزیب کے خلاف بار بار جنگ کی وجہ سے اس کی جان بخشی مشکل ہے۔ ممکن ہے کہ اب بھی اورنگزیب اسے معاف کر دیتا لیکن اس نے اپنے گھرانے کو لیا اور اراکان یعنی برما کی طرف فرار ہوگیا۔ اب بھی اس نے اورنگزیب سے صلح کا معاہدہ یا جان بخشی کی کوئی کوشش نہیں کی۔ اگر وہ کرتا تو ہو سکتا تھا اورنگزیب اسے معاف کر دیتا بلکہ کچھ علاقوں کی حکمرانی بھی سونپ دیتا۔ اس نے اورنگزیب سے صلح یا امن معاہدہ کی جگہ اپنی ضد، ہٹ دھرمی کی وجہ سے خود ساختہ جلا وطنی اختیار کی اور اپنی ضد اور جنگ پہ اصرار کی وجہ سے خود کو اور اپنے گھر والوں کو جلا وطنی کی ان تمام تکالیف کا شکار کیا جن کا ذکر اوپر ہو چکا ہے۔
5۔ جلاوطنی کے دوران بھی جب برما کے بادشاہ نے شاہ شجاع سے وعدہ خلافی کی، اس کا سونا چاندی چھین لیا، اس کے دو بیٹوں اور بیٹیوں کو قید کر لیا، اس کی ایک بیٹی کی عزت لوٹ لی تو نگزیب کے حکم پہ بنگال کے مغل صوبیدار نے ان کو چھڑانے کی کوشش کی لیکن ان کو برما کے بادشاہ نے قتل کر دیا جب کہ شاہ شجاع کی بیٹیاں اور پوتا اورنگزیب کی طرف گ بھیج دیے گئے جن کو اورنگزیب نے پناہ دی۔
6۔ شاہ شجاع اور اس کے خاندان کے باقی افراد جب بعد ازاں برما سے بھاگ کر مانی پور انڈیا چلے گئے تب بھی اورنگزیب کے حکم پہ مغلوں نے شاہ شجاع کے غم زدہ گھرانے کو مانی پور سے مغل سلطنت میں لانے کی کوشش کی لیکن مانی پور کے حکمران نے شاہ شجاع کو اس ڈر سے مانی پور کے غاروں میں چھپنے کے لیے بھیج دیا کہ کہیں اس موقع پہ شاہ شجاع مانی پور انڈیا کے ایک غار میں چھپا ہوا تھا۔اس موقع پہ بھی شاہ شجاع نے اورنگزیب سے صلح یا معاہدہ کی کوئی کوشش نہیں کی اور اسی جلاوطنی میں انتقال کر گیا۔اس ساری کہانی سے ظاہر ہے کہ اس ساری صورحال اور اپنے خاندان کی اور اپنی جلاوطنی کا ذمہ دار شاہ شجاع اپنی تخت کی لالچ، ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے خود تھا اور یہ بات جھوٹ ہے کہ اورنگزیب نے اسے قتل کیا بلکہ اس نے اپنی خود ساختہ جلا وطنی کے دوران مانی پور انڈیا کے پہاڑوں میں طبعی موت کو گلے لگایا لیکن تاریخ میں اورنگزیب عالمگیر کی کردار کشی کے لیے یہ مشہور کر دیا گیا کہ شاہ شجاع کو اورنگزیب نے قتل کرا دیا تھا۔
اب ہم آتے ہیں تخت نشینی کی جنگ کے ایک بہت بڑے کردار، اس کے اصل ذمہ دار اور شاہ جہان کے سب سے بڑے بیٹے اور اورنگزیب کے بڑے بھائی دارا شکوہ کی تفصیل کی طرف۔
شاہجہان کی بیماری کے دوران میں داراشکوہ نے تمام انتظام حکومت اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ داراشکوہ کی اس جلدبازی سے شاہجہان کی موت کی افواہیں پھیلنے لگیں اور ملک میں ابتری پھیل گئی۔ شاہ شجاع نے بنگال میں اپنی بادشاہت قائم کرلی اور آگرہ پر فوج کشی کے ارادے سے روانہ ہوا۔ بنارس کے قریب دارا اور شجاع کی فوجوں میں جنگ ہوئی جس میں دارا کو فتح اور شجاع کو شکست ہوئی جس کا بیان اوپر ہو چکا ہے۔10باربیرا ڈی میٹکاف اور تھامس آر میٹکاف کے مطابق دارا شکوہ ایک نااہل جنرل تھا لیکن تخت نشینی کی جنگ دونوں کے درمیان مذہبی نظریات کے فرق کی وجہ سے نہیں تھی۔11جب کہ کئی دیگر مورخین نے مذہبی نظریات کے فرق کو دونوں کے درمیان تخت نشینی کی جنگ کی وجہ قرار دیا ہے۔دارا شکوہ لبرل مذہبی خیالات کا مالک تھا جب کہ اورنگزیب راسخ العقیدہ مسلمان تھا۔دارا شکوہ نے شاہ محمد دلربا کے نام اپنے ایک خط میں واضح طور پر تسلیم کیا ہے کہ سرمد، بابا پیارے، شاہ محمد دلربا، میاں باری، محسن فانی کشمیری، شاہ فتح علی قلندر، شیخ سلیمان مصری قلندر جیسے آزاد مشرب صوفیا کی صحبت کی بدولت اسلام مجازی اس کے دل سے برخاست ہو چکا ہے اور کفر حقیقی رونما ہو رہا ہے اور وہ انہیں کی صحبت کی برکت سے کفر حقیقی کی صحیح قدر سمجھ سکا ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ اب وہ صحیح معنوں میں زنار پوش، بت پرست بلکہ خود پرست و دیر نشین بنا ہے۔12
برنیئر جو دارا شکوہ کا طبیب رہا تھا، اس کی دل کھول کر تعریفیں کرتا ہے۔ وہ دارا کے عیسائیت کی طرف جھکاؤ کے سوتے ریورنڈ بوزی سے نیازمندانہ تعلقات کا نتیجہ سمجھتا ہے، جس نے اُسے عیسائیت کی تعلیم دی تھی اور بہت سے عیسائی توپچی بھی مہیا کیے تھے جن سے اُس کا توپخانہ تیار ہوا۔ برنیئر کے سفرناموں کا مدیر، آرچی بالڈ کانسٹیبل، فراسواکیٹو کی “ہندوستان میں مغل خاندان کی تاریخ” کی سند کے ساتھ، جو 1826 کو لندن سے شائع ہوئی، یہ اضافہ کرتا ہے کہ اگر ریورنڈ ہنری بوزی کے مشوروں پر عمل کیا جاتا تو قطعی ممکن تھا کہ عیسائیت تخت (دہلی) پر براجمان ہوجاتی۔مذہب اور ثقافتوں کے حوالے سے داراشکوہ کا طرزِ عمل ہندو اشرافیہ اور انتظامی اہلکاروں کے لیے جذباتی اپیل رکھتا تھا۔ وہ دارا کی شکل میں اکبر بادشاہ کا دوسرا جنم دیکھ رہے تھے کہ جس کی تخت نشینی سے بالآخر اسلام مقامی اثر پذیر ثقافت میں اپنا وجود کھو بیٹھے گا۔ اسی لیے انہوں نے اپنا سب کچھ دارا پر لگادیا تھا۔
دارا شکوہ کا کوئی مذہب نہیں تھا ،ہندوؤں میں ہندوؤں کی ، انگریزوں میں انگریزوں کی ، یہودیوں میں یہودیوں اور محمدیوں ﷺ کے مذہبی تعلیمات کی بیک وقت تعریف کرتا جسکی وجہ سے اورنگ زیب اسے کافر کہتا تھا۔وہ دیگر صوفیوں کے علاوہ ایک گمراہ ننگے پیر سرمد کاشانی کا بھی مرید تھا جس کے نظریات اتنے متنازعہ تھے کہ اورنگزیب کے دربار میں موجود یورپی بھی برداشت نہ کر سکے۔ اورنگزیب کا ذاتی طبیب فرانسس برنیئر کہتا ہے کہ مجھے اس کے ننگے پن سے سخت نفرت ہے۔ ان دنوں دہلی میں مقیم اٹلی کے ڈپلومیٹ نکولو مینوسی نے بھی دارا شکوہ اور سرمد دونوں کو ملحد قرار دیا جو اپنے نظریات کی ترویج تیزی سے کر رہے تھے۔ سرمد کاشانی نے دارا شکوہ کو اپنے اسلام دشمن اور متضاد نظریات سے بہت متاثر کیا اور وہ اس کا شاگرد بن گیا۔ یہی وہ نقطہ آغاز تھا جس سے راسخ العقیدہ سنی مسلمان اورنگزیب عالمگیر کا اپنے بڑے بھائی دارا شکوہ اور اس ننگے فقیر سرمد سے اختلاف شروع ہوا جو درحقیقت ایک ننگے فقیر کا روپ دھارے ایک خفیہ یہودی یا ملحد کے طور پہ اسلام اور مغل شاہی خاندان کے شہزادوں کے مذہبی نظریات کی جڑیں کاٹ رہا تھا۔دارا شکوہ آزاد خیال بھی تھا اور مذہبی معاملات میں، عقائید میں تطبیق دینے والا صلح کل، یعنی اکبری پالیسی کا پیروکار بھی تھا۔ اسے ہندو دانشوروں اور مذہبی پنڈتوں نے گھیرا ہوا تھا۔ ایک ایسے مسلم معاشرے میں جو ہندو انڈیا میں اپنی شناخت اور بقا کے حوالے سے روز افزوں پریشانی کا شکار تھا، وہ قابل قبول کردار نہ تھا۔ مسلمان عوام سمجھ رہے تھے کہ اگر دارا اقتدار میں آیا تو یہ ان کی بربادی کا پیغام ہوگا۔ یہی وجہ تھی کہ اورنگزیب اپنے بڑے بھائی دارا شکوہ کی مغل تحت پہ بادشاہی کے خلاف تھا اور اس کے خلاف جنگ کرکے خود بادشاہ کے طور پہ تخت نشین ہوا۔13، 14اور یہی وجہ تھی کہ اورنگزیب نے سرمد اور اپنے بڑے بھائی دارا شکوہ دونوں کو قتل کرایا اور لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ تخت نشینی کی سیاسی جنگ تھی۔بقول یورپی مؤرخ ونسنٹ سمتھ، جس نے اکبر پر تحقیقی کام کیا ہے، اسے اکبر مسلمان نظر نہیں آتا تھا۔ برنیئر کا مدیر ارچی بالڈ کانسٹیبل، کارتو کی سند کے ساتھ کہتا ہے، ارتداد شاہی خاندان میں درآیا تھا۔ شاہ جہاں کی دو بیٹیوں نے عیسائیت قبول کر لی تھی۔ اس درجہ سنگین صورتِ حال میں مسلمان جانتے تھے کہ وہ عددی اعتبار سے اقلیت ہیں اور بحیثیت مسلم امت اُن کا وجود اپنے عقیدے کے مضبوطی سے جڑے رہنے پر منحصر تھا۔ کفر کے اس ماحول میں بقا کے لیے وہ لازمی طور جانتے تھے کہ ان کے تہذیبی رویے ہر طرح کے غیر اسلامی اثرات سے پاک رہنے ضروری ہیں۔
اس پس منظر میں اورنگ زیب، داراشکوہ چپقلش محض تختِ دہلی کا جھگڑا نہ تھا۔ یہ مسلمانوں اور ہندوؤں کے مابین تہذیبوں کے ٹکراؤ کا فطری مظہر تھاجن کی نمائندگی دو مثالی نمونے (عالمگیر اور دارا) کررہے تھے۔ داراشکوہ سمجھتا تھا کہ “اُپِنشد” قرآن پاک سے برتر کتاب ہے۔ اس نے “سیر الاسرار” کے نام سے خود اس کا فارسی ترجمہ کیا۔ الہ آباد کے شیخ محب اللہ کے نام اس کا خط تاریخ نے محفوظ رکھا ہےجس میں وہ اس حد تک جاتا ہے کہ وہ اپنے وجدانی معارف و اثرات کو (الہامی) کتب کے مندرجات سے بدرجہا بہتر سمجھتا ہے۔ دارا شکوہ کے ایسے خیالات مسلمانوں میں بے چینی اور اشتعال پیدا کررہے تھے۔ شاہی تخت پر اس کے ممکنہ قبضے کا خیال ہندوؤں کو اس کی طرف کھینچ رہا تھا، کیونکہ دارا کی کامیابی میں انہیں مسلمانوں کے تسلّط کے خاتمے کی جھلک نظر آرہی تھی۔ مسلمانوں کے لیے ہندوؤں کا داراشکوہ کی نامزدگی پر مجتمع ہونا گزرے ہوئے عہدِ اکبری کی تاریخ دہرائے جانے کے مترادف تھا۔ دارا شکوہ سے جنگ محض تخت نشینی کی جنگ نہیں تھی بلکہ اورنگزیب اسے اس کے اسلام دشمن نظریات کی وجہ سے حکومت کے قابل نہیں سمجھتا تھا۔اس کے انہی اسلام متضاد نظریات اور تخت نشینی کی لالچ کی وجہ سے تخت نشینی کی وہ جنگ شروع ہوئی جس میں دارا شکوہ کے بعد سب سے پہلا کردار شاہ شجاع تھا اور دوسرا کردار دارا شکوہ کے خلاف شاہ جہان کے باقی دو متحد بھائی اورنگزیب اور مراد بخش۔
اس کا مزید پس منظر یہ ہے کہ اپنی بیماری سے برسوں پہلے اپنی اولاد کی حکمرانی کی صلاحیتوں پر ایک درباری سے بات کرتے ہوے اس نے دارا شکوہ پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا، جبکہ اورنگ زیب کے متعلق اُس نے مثبت رائے دی۔ بیشک اس کا دل دارا کے ساتھ تھا اور عقل کا فیصلہ اورنگ زیب کے حق میں تھا۔ دارا کی کوشش تھی کہ کسی طرح شاہجہاں کو اعتماد میں لے کر تخت پر قبضہ کرلیا جائے۔ طویل وقت تک دارا اور باقی تین بھائیوں کے درمیان شہ اور مات کا کھیل چلتا رہا۔ دارا نے شاہجہاں کو اعتماد میں لے کر کئی ایسے فرمان جاری کروائے، جس سے تینوں بھائی دارا کے تئیں بدظن ہوگئے۔اس مقصد کے لیے دارا شکوہ نے دربار کو ایسے امراء سے پاک کرنا شروع کیا جن کے متعلق اندیشے تھے کہ وہ دوسرے شہزادوں خصوصاً اورنگ زیب سے مراسم رکھتے ہیں۔ دربار میں اورنگ زیب کے رابطہ افسر عیسیٰ بیگ کو پہلے حوالۂ زندان کردیا گیا، پھر اس کی جائیداد ضبط کر لی گئی۔ داراشکوہ نے مراد بخش (م: 1661 ء) کے خلاف بھی اقدام کیااور گجرات میں اس کی جگہ اپنے حامی قاسم خان کو مقرر کردیا۔ فتنہ انگیزی بڑھانے کے لیے اُس نے مراد کو آمادہ کیا کہ برار میں اورنگ زیب کا علاقہ اپنے قبضے میں لے لے تاکہ دونوں میں جنگ بھڑک اُٹھے۔ لین مراد کو سازش کی سُن گن مل گئی۔ اس نے سورت فتح کرکے خود اپنی بادشاہت کا اعلان کردیا۔
اورنگ زیب اس ساری صورتِ حال کا دکھ اور افسوس کے ساتھ مشاہدہ کررہا تھا۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ وہ داراشکوہ کے ہاتھ اپنی گردن پر تنگ ہوتے دیکھ رہا تھا۔ اگر داراشکوہ کی صوفی طبیعت میں کوئی خفیہ پہلو تھا تو وہ جلدہی ظہور میں آنے والا تھا۔ اس کے ضمن میں تین باتیں بالکل واضح تھیں، وہ اسلام کا مخالف اور آزاد رو تھا اور تخت پر قبضہ کرنے کے لیے پوری بے رحمی سے سب کچھ کرگزرنے پر تُلا ہوا تھا، خواہ اس کی جو بھی قیمت اُسے چکانی پڑے۔ اس نے قبیح حربے جاری رکھے۔ وہ شاہ جہاں کے جعلی دستخطوں کے ساتھ شاہی فرامین جاری کرتا ، شاہ جہاں کے صحت مند ہونے کا تاثر پھیلاتا اور بھائیوں کے خلاف ایک عظیم جنگی مشن کی تیاری اور تقویت میں جتا رہا۔ پہلے قدم کے طور پر اس نے دکن سے مغل افسران کو واپس بُلالیا جو دراصل اورنگ زیب کا سیاسی حلقۂ اثر تھا۔ پھر اس نے مالوہ کو ضبط کرلیا جو اورنگ زیب کی جاگیر تھی۔ یہ گویا اورنگ زیب کی پشت میں خنجر گھونپنا تھا، جو اس وقت بیجا پور میں جنگجو ہندو مرہٹوں سے برسرِ پیکار تھا جو سلطنتِ دہلی کے دشمن تھے۔ کوئی شک نہیں کہ اورنگ زیب کے لیے بے حد مشکل صورتِ حال پیدا کردی گئی جو بیجاپور اور گولکنڈہ کو یہ تاثر نہیں دینا چاہتا تھا کہ مملکت مختلف دھڑوں میں بٹی ہوئی ہے۔ مرکزی اقتصادی امداد اور فوجوں میں کٹوتی نے دکن میں اس کی موجودگی قریب قریب غیر یقینی بنادی تھی۔ بڑا بھائی کھل کر اس کے خلاف میدان میں آگیا تھا۔ اورنگ زیب کی تحقیر کرنے والے بتائیں کہ ان حالات میں اُسے کیا کرنا چاہئے تھا؟ کیا وہ اپنا آپ ایک منتقم مزاج بھائی کے سامنے ڈال دیتا یا اپنی زندگی بچاتا؟
دارا وقت کے ساتھ ساتھ اتنا مضبوط ہو چکا تھا کہ اس نے شاہی دربار میں شاہجہاں کے قریب ہی اپنا تخت بنوا لیا تھا۔ وہ بادشاہ کی جانب سے احکامات جاری کرنے لگا تھا۔ دارا کو سب سے زیادہ خوف اورنگزیب سے تھا۔ اس نے ایک نہیں کئی مرتبہ اورنگزیب کے خلاف فرمان صادر کیا ، جس کی وجہ سے اورنگ زیب اور دارا کے درمیان دشمنی مزید گہری ہو گئی۔دارا نے اپنے والد اور باقی بھائیوں کے درمیان نفرت بڑھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ وہ خفیہ طور پر بھائیوں کو بھیجے گئے یا پھر ان کی طرف سے آئے پیغامات کو شاہجہاں کو دکھا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا رہا کہ تینوں سازش کر رہے ہیں۔ غور کرنے والی بات یہ ہے کہ خود شاہجہاں کو دارا شکوہ پر اعتماد نہیں تھا۔ اسے لگتا تھا کہ دارا اس کو زہر دینے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ اس وقت دارا اور اورنگ زیب کے درمیان جو خط و کتابت ہوئی ، وہ خود شاہجہاں کے لئے ڈر پیدا کرنے والی تھی۔شاہجہاں نے دارا کو مشورہ دیا کہ اورنگ زیب سے نمٹنے میں تحمل کا ثبوت دے لیکن دارا کے دماغ پہ بادشاہ بننے کا جنون سوار تھا۔
اورنگزیب عالمگیر اور اس کے بڑے بھائی دارا شکوہ کے درمیان جنگ کی ایک اور وجہ یہ بھی تھی کہ دارا شکوہ ہر صورت خود کو بادشاہ دیکھنا چاہتا تھا اور اس نے اس مقصد کے لیے اورنگزیب عالمگیر سمیت اپنے باقی بھائیوں کے خلاف سازشیں شروع کر دی اور ان کے خلاف اپنے والد شاہ جہان کے کان بھرنا شروع کر دیے۔ ملا صالح کمبوہ کی کتاب عمل صالح جس کا ترجمہ شاہجہان نامہ کے نام سے اردو میں ہوا ہے، کے مطابق شاہ جہان کی بیماری کے دوران دارا شکوہ نے اپنے آپ کو آگے لانا شروع کیا اور سلطنت کے معاملات میں مداخلت شروع کر دی اور اپنے والد شاہ جہان سے غلط فیصلے کرائے جس کی وجہ سے انتشار پھیلا۔ اس نے اپنے بھائی اور شاہ جہان کے دوسرے بیٹے مراد کے خلاف شاہ جہان کے کان بھرے اور اسے کہا کہ وہ ٹھیک طور طریقوں سے ہٹ گیا ہے اور احمد آباد کی عاملی یعنی گورنری ٹھیک طرح سے نہیں کر رہا لہذا اسے معزول کرکے برار کی جاگیر دیں ورنہ اسے قید کرکے دربار واپس بلا لیں۔ پھر اس نے شاہ جہان کے دوسرے بیٹے اورنگزیب کے خلاف شاہ جہان کے کان بھرے اور کہا کہ اسے شاہ جہان کے خلاف سازشیوں نے راستے سے ہٹا دیا ہے اس لئے اس کے صوبے دکن میں موجود تمام مغل اشرافیہ کو آگرہ بلا لیں، بعد ازاں وہاں کا شاہی خزانہ ہاتھ میں لے لیں، اس طرح اورنگزیب کی طاقت کم پڑ جائے گی اور وہ کچھ نہیں کر سکے گا۔ جب شاہ جہان کے قاصد یہ پیغام لے کر پہنچے تو اورنگزیب بیجا پور کے خلاف جنگ میں مصروف تھا لیکن ان خطوط کی وجہ سے اس کے کئی اہم افراد اسے چھوڑ کر چلے گئے اور اسے بیجا پور کے لوگوں کے مطالبے منظور کرنے پڑے اور اسے فتح کی جگہ وہاں کے لوگوں سے صلح کا معاہدہ کرنا پڑا۔
اس خونیں اور مایوس کن منظر میں شہزادہ شجاع (م: 1660 ء) نے بھی اپنی تخت نشینی کا اعلان کردیا۔ بالفاظِ دیگر اورنگ زیب جس نے اپنی شاہی خواہشات کو تھامے رکھا تھا، مگر اس کے سامنے تخت کے تین دعویدار سامنے آگئے تھے۔ تنِ تنہا اس نے جلد سے جلد شاہ جہاں تک پہنچنا چاہا۔
جنوری 1658 ء میں اورنگ زیب برہان پور پہنچا۔ وہیں سے اس نے باپ کو خط لکھ کر اُس کی صحت کا پوچھا۔ مہینہ بھر انتظار کے باوجود اُسے کوئی جواب نہ ملا۔ اُسے اب بھی معلوم نہ تھا کہ آگرہ میں کیا کچھڑی پک رہی تھی۔ ایسے میں اچانک عیسیٰ بیگ، قید خانے سے آزادی ملتے ہی اورنگ زیب کے لشکرگاہ میں وارد ہوااور شاہی دربار میں جاری داراشکوہ کی ریشہ دوانیوں کے قصے عالمگیر کے گوش کزار کردیے۔ یوں خبردار ہوکر اورنگ زیب مراد سے ملنے دیپال پور چل پڑا۔ وہاں سے دونوں بھائی آگرہ کی طرف روانہ ہوئے تاکہ بیمار باپ کو دیکھ سکیں اور اس سے داراشکوہ کے ضمن میں انصاف کے طلب گار ہوں، جو اُن کے خلاف “مارو یا مرجاؤ” کے منصوبے باندھے بیٹھا تھا۔ جنگی چالوں کا ماہر ہونے کی بناء پر اورنگ زیب ایک ہی حملے میں شہر پر قبضہ کرسکتا تھا لیکن وہ اب بھی صبر و ضبط سے کام لے رہا تھا۔ اس نے اپنا قاصد راجا جسونت سنگھ کے پاس بھیجا اور اس پر زور دیا کہ وہ بادشاہ تک اورنگ زیب کے جانے کی راہ میں مزاحم نہ ہو، کیونکہ اس کے پیش نظر صرف ملاقات تھی۔ لیکن جسونت سنگھ نے سخت ہتک آمیز انداز میں اُسے راستہ دینے سے انکار کردیا۔ اس نے اورنگ زیب کی شخصیت کا ذرا بھی لحاظ نہ کیابلکہ مزید یہ بھی کہہ دیا کہ یہی بادشاہ سلامت کی مرضی تھی۔
یہ دیکھ کر کہ جھگڑا بڑھ رہا ہے، دربار کے مسلمان امراء نے بھی داراشکوہ کو مشورہ دیا کہ اورنگ زیب کو باپ سے ملنے دے۔ لیکن اس وقت تک ہندو حلقہ دارا شکوہ کے گرد مکمل ہوچکا تھا اور دارا کو اب باپ، بھائیوں کے برعکس وہی اچھے لگ رہے تھے۔ راؤ ستر سال اور رام سنگھ نے رائے دی کہ مقابلہ کیا جائےاور دارا شکوہ فوراً تیار ہوگیا۔ کیونکہ اُسے اورنگ زیب کے خلاف من کی مراد اسی میں پوری ہوتی نظر آرہی تھی۔ اس طرح ہندو مدد اور تائید سے حوصلہ پا کر اس نے مسلمانوں کے خلاف یہ ذلت آمیز الفاظ کہے، “بہت جلد میں ان کوتاہ لباسوں کو ستر سنگھ کے ذاتی ملازموں کی طرح بھاگنے پر مجبور کردوں گا۔”
اُدھر وہی ہوا جو ہونا تھا کہ راجہ جسونت سنگھ، اورنگ زیب کے دستوں سے پہلی جھڑپ ہوتے ہی بھاگ دوڑا۔ اورنگ زیب چاہتا تو اسے روند کر رکھ دیتا لیکن اس نے خود اُسے فرار ہوجانے دیا۔ شاہ جہاں کے نام اپنے ضمنی مکتوب میں وہ اپنی سوچ کا اظہار یوں کرتا ہے،
“اگر میرا آپ سے ملنے کے علاوہ کچھ اور مقصد ہوتا تو میں بڑی آسانی سے جسونت سنگھ اور اس کے لشکریوں کا تعاقب کرکے ان سب کو موت کے گھاٹ اُتار دیتا۔ خصوصاً جبکہ وہ بے بس اور ذلیل ہوکر شکست کی وادی میں بھٹکتے پھر رہے تھے۔۔۔۔ لیکن مقصد تو آپ تک پہنچنے کے لیے راستہ حاصل کرنا تھا۔”
بنگالی نژاد ہندو مؤرخ سرجادوناتھ سرکار (م: 1958ء) جو اپنے تعصبات پر بمشکل پردہ ڈال پاتا ہے، اورنگ زیب سے دشمنی کے جذبات رکھنے کے باوجود اس کی تائید کرتا ہے:”اورنگ زیب نے رحم دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تعاقب کی ممانعت کردی اور کہا کہ انسانی جانوں کی یہ معافی خالق کے حضور اس کی طرف سے زکوٰۃ تھی۔”
تاہم جادوناتھ سرکار ڈنک مارے بغیر نہیں رہا: “لیکن ظاہر ہےاورنگ زیب کے عقیدے کے مطابق خالق صرف مسلمانوں کا خالق ہے۔ شہزادے نے افسروں کو حکم دیا تھا کہ ہر مسلمان جو میدان میں نظر آئے اس کی جان بخش دی جائےاور دشمن کے کیمپ میں مسلمانوں کے مال اور عصمت کو بچایا جائے۔ لیکن ہندو اس کے دائرۂ ترحم سے باہر تھے۔”
جادوناتھ سرکار کی معلومات کا ذریعہ مشتبہ ہے۔ اورنگ زیب کا اپنا مکتوب اصل بات سامنے لا رہا ہے کہ اس کا حکم مسلمانوں کے لیے مخصوص نہ تھا بلکہ وہ جسونت سنگھ اور اس کے لشکریوں کا عمومی ذکر کرتا ہے۔ اس کے الفاظ ہیں، “میں بڑی آسانی سے جسونت سنگھ اور اس کے لشکریوں کا تعاقب کرکے ان سب کو موت کے گھاٹ اتاردیتا۔”
اس کے خط سے یہ بھی ظاہر ہورہا ہے کہ اس کے مقابل فوج جسونت سنگ کے کمان میں تھی کیونکہ برنیئر کے بقول قاسم خان لڑائی چھڑتے ہی میدانِ جنگ سے بھاگ گیا تھا۔ چنانچہ رہ جانے والی فوج سنگھ کے کمان میں لڑ رہی تھی۔ شجاع کے نام مراد بخش کے خط سے واضح ہوتا ہے کہ کون سے دستے کس کی کمان میں تھے، بلاشبہ سادات، راجپوت، افغان اور مغل سبھی دستوں کی قیادت جسونت سنگھ کے ہاتھ میں تھی۔ اسے اگر اورنگ زیب کے خط کے ساتھ ملا کر پڑھیں تو کوئی ابہام نہیں رہتااور جادوناتھ سرکار والی تاریخ نویسی کے چہرے سے نقاب اُتر جاتا ہے۔ معاملہ کچھ بھی ہو، جادوناتھ سرکار کو یاد نہیں رہتاکہ جسونت سنگھ نے اورنگ زیب کو باپ کے پاس جانے سے روکتے ہوئے ہتک آمیز رویہ بھی اپنایا اور داراشکوہ کی طرف سے اس سے عملاً لڑنے بھی آیا۔ اگر اورنگ زیب سنگ واقعی متعصب اور سنگ دل انسان تھا تو اس کا جسونت سنگھ کو چھوڑ دیناجبکہ وہ کافر بھی تھا اور شہزادے کے سامنے بے بس ہوگیا تھا، اور بعد میں اسے اہم انتظامی عہدوں پر فائز کرنا تو کچھ اور ہی ظاہر کررہا ہے۔ لیکن متعصب دل فیاضیوں کو تسلیم نہیں کیا کرتابلکہ یہ ہمیشہ دلی ارادوں اور افعال و واقعات کا من پسند مطلب ہی نکالتا ہے۔
اس دوران میں شاہ جہاں کو حالات کی سنگینی کا احساس ہوگیا کہ پانسہ پلٹ گیا ہے۔ اس نے دارا کو سمجھایا کہ بھائیوں کو آگرہ آنے دے، لیکن اس نے التفات نہ دکھائی۔ ہندو اپنے خوابوں کی تکمیل کی خاطر اس پر اپنی گرفت مضبوط کیے جارہے تھے۔ اس موقع پر اورنگ زیب پھر کوشش کرتا ہے کہ باپ کو قائل کرے کہ وہ خود مداخلت کرے اور اس طرح خون ریزی کے خطرے کو ٹال دے۔ اس نے شاہ جہاں کو دو خط لکھے۔ پہلا جعفر خان لے کر گیا، لیکن اس وقت تک شاہ جہاں اپنا سارا وزن داراشکوہ کے پلڑے میں ڈال چکا تھا۔ اس نے خط کے مندرجات پر توجہ ہی نہ دی، بلکہ دارا کی فوجوں کو رخصت کرتے ان کی کامیابی کے لیے خصوصی دعا کی۔ اورنگ زیب نے دوسرا خط اس وقت لکھا جب داراشکوہ کا لشکر جرار دھول پور پہنچ گیا تھا۔ وہ پھر باپ سے گزارش کررہا تھا کہ داراشکوہ کو اس کے خلاف جنگ سے روکے، بصورتِ دیگر داراشکوہ کے لیے شکست سے بچنا ممکن نہیں ہوگا۔
شاہ جہان، اورنگزیب اور دارا شکوہ کے ہم عصر تاریخی ذریعے ملا کمبوہ کی تصنیف کتاب عمل صالح سے بالکل ظاہر ہے کہ تخت نشینی کی یہ جنگ اورنگزیب نے شروع نہیں کی بلکہ دارا شکوہ کی ہوس اور تخت کے لالچ سے شروع ہوئی۔ یہ وہ حقیقت ہے جس کو اسلام دشمن اور مغربی مورخین چھپا کر تخت نشینی کی اس جنگ کا سارا ملبہ اورنگزیب عالمگیر پہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں جس میں دارا شکوہ سمیت اورنگزیب کے دو بھائی مارے گئے اور تیسرے یعنی شاہ شجاع کو برما کی طرف جان بچانے کے لیے بھاگنا پڑا۔ دارا شکوہ کی ان باتوں کی وجہ سے اس کے باقی بھائیوں نے اس کے خلاف بغاوت کر دی جس میں اورنگزیب بھی شامل تھا۔ اس دوران یہ افواہ بھی مشہور ہوگئی کہ شاہ جہان وفات پا چکا ہے اور دارا شکوہ جو اس وقت شاہ جہان کے قریب تھا، کے علاوہ باقی بیٹوں نے یہ سمجھا کہ دارا شکوہ جان بوجھ کر شاہ جہان کی وفات کی خبر چھپا رہا ہے۔ ساتھ ہی اس دوران دارا شکوہ نے اورنگزیب کے خلاف جنگ کی تیاری شروع کر دی۔
دارا کو اس کے ساتھیوں نے کافی روکا کہ وہ جلدبازی نہ کرے، لیکن دارا جسے لگتا تھا کہ شاہی خزانہ، بھاری فوج اور باپ کا ساتھ ، جب تک اس کے ساتھ ہے ، تو اسے کوئی نہیں ہرا سکتا، اس نے اورنگزیب اور مراد بخش کی متحدہ فوجوں کے خلاف کوچ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ پوری فوج کو تیار ہونے کا حکم دیا اور خود اپنے والد شاہجہاں کے سامنے رخصتی کے لئے حاضر ہوا۔ دکھی باپ نے بیٹے کو گلے لگالیا۔ شاہجہاں نے کہا کہ ٹھیک ہے بیٹا، اگر تم نے راستہ منتخب کر ہی لیا ہے ، تو اوپر والا تمہاری خواہشوں کی حفاظت کرے۔ لیکن ساتھ ہی رنجیدہ ہوتے ہوئے کہا کہ اگر تم جنگ ہارتے ہو تو سوچ لینا کہ میرا سامنا کس طرح کر پاؤ گے۔ والد کی باتوں سے زیادہ متاثر ہوئے بغیر دارا نے اورنگزیب اور مراد کے خلاف فوج لے کر نکل پڑا۔15
اورنگزیب اور مراد کو دارا کی سازشوں کا علم ہوا تو وہ جنگ کے لیے تیا ر ہو گئے ،شاہ جہان کی بیماری اور وفات کے دوران اس کے ایک اور بیٹے مراد نے جو اس وقت گجرات کا عامل یعنی گورنر تھا، وہاں اپنے آپ کو مغل سلطنت کا نیا سلطان مقرر کیا اور اورنگزیب سے اتحاد کرکے دارا شکوہ کے خلاف جنگ کر دی۔ کہا جاتا ہے کہ اورنگزیب اور مراد کے درمیان معاہدہ ہوا تھا کہ دارا شکوہ کے خلاف جنگ میں کامیابی کی صورت میں وہ سلطنت آپس میں تقسیم کر لیں گے۔ اپریل 1658ء میں دھرمات کے قریب مراد اور اورنگزیب کی متحدہ فوج کی دارا شکوہ کی فوج سے جنگ ہوئی۔ اس جنگ میں دارا شکوہ کو شکست ہوئی کیونکہ اس نے اپنی غلط جنگی حکمت عملی کی وجہ سے اپنی فوج کا بڑا حصہ شاہ شجاع کا پیچھا کرنے میں لگا رکھا تھا جو پہلے ہی شکست کھا چکا تھا۔ اس دوران اس کو کچھ فوجی امراء نے مشورہ بھی دیا کہ شاہ جہان کی طبیعت بہتر ہو چکی ہے اور وہ یہ جنگ خود اورنگزیب کے خلاف نہ لڑے لیکن اس نے خود کو شاہ جہان کی جگہ نیا بادشاہ سمجھتے ہوئے ان مشوروں کو نظر انداز کر دیا۔ایک طرف دارا ساری مغلیہ فوج ،لا تعدادہاتھیوں اور بڑے توپ خانے کے ساتھ میدان جنگ میں پہنچ چکا تھا اور دوسری طرف اورنگزیب اور مراد نے سمو گڑھ کے تپتے ریگستانوں میں ڈیرے ڈال دیئے تھے،یہ ہندو ستان کی تاریخ کی دوسری بڑی لڑا ئی تھی جس میں دارا شکوہ کی اپنے بھائیوں کے خلاف درباری سازشوں، والد شاہ جہان کے کان بھرنے اور جنگ کی وجہ سے ہزاروں مسلمان مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہوئے اور اس کی کمزور فوج کو اورنگزیب کی بڑی منظم فوج کے مقابلے میں شکست ہوئی۔ اس دوران اورنگزیب نے آگرہ پہ قبضہ کر لیا۔
وہی ہوا کہ دارا شکوہ نے شکست کھائی اور آگرہ کی طرف بھاگا۔ وہ اپنی زندگی کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا تھا لیکن شاہ جہاں اس بڑے بیٹے کی محبت میں بے قرار تھا۔ اس نے سونے جواہرات سے داراشکوہ کی مدد کی۔ مزید یہ کہ اس نے صوبوں کے گورنروں کو لکھا کہ داراشکوہ کی مدد کو پہنچیں۔ لیکن قسمت کی بازی پلٹی اور شاہ جہان اورنگ زیب سے ملاقات پر مجبور ہوا۔ اس نے آمادگی کی اطلاع دینے کے لیے فضل خان اور سید ہدایت اللہ کو اورنگ زیب کے پاس بھیجا۔ اورنگ زیب نے حامی بھرلی کہ جنگی صورتِ حال معمول پر آتے ہی وہ باپ سے ملنے پہنچ جائے گا۔
شاہ جہان کچھ انتظار کرسکتا تھا لیکن اب اسے ملاقات کی بے چینی لگی ہوئی تھی۔ اس سے اورنگ زیب کے کانوں میں خطرے کی گھنٹی بج گئی۔ اگر وہ قلعہ میں داخل ہوتے ہی قتل کردیا گیا تو؟شاہ جہان کے نام اس کے ایک خط میں ان اندیشوں کا اظہار موجود ہے:
“میری انسانی کمزوریاں اور میرے اندیشے اور شبہات جو میرے ذہن پر یورش کررہے ہیں، مجھے حوصلہ نہیں دے رہے کہ میں اعلیٰ حضرت کی قدم بوسی کی سعادت حاصل کروں۔ تاہم اگر میری ذاتی تسلی کی خاطر آپ میرے کچھ دستوں کو قلعے میں داخل ہونے اور دروازوں پر متعین ہونے کی اجازت مرحمت فرمادی تو میں ضرور حاضر ہوں گا اور آپ کے پائے مبارک چوم کر معذرت خواہی کروں گا۔”
اورنگ زیب کے اندیشے بلاوجہ نہ تھے۔ ماضی میں تو اس کی بار بار درخواستوں پر بھی باپ ملاقات پر آمادہ نہیں ہورہا تھا، کیونکہ وہ پوری طرح داراشکوہ کے ساتھ تھا۔ اب وہ خط درخط لکھ کر ملاقات کے لیے اتنا بے چین کیوں ہورہا ہے؟ یہاں سینیورا منہوچی کی گواہی، جو دل و جان سے داراشکوہ کا حمایتی تھا، سمورگڑھ میں اس کے فوج کے ساتھ تھا، قابل توجہ ہے۔ منہوچی کہتا ہے کہ شاہ جہان دراصل اورنگ زیب کو قوی الاعضاء تاتاری، قلمک اور اُزبک خواتین کے ہاتھوں قتل کرانا چاہتا تھا۔
فرانسیسی سیاح برنیئر نے بھی اپنے سفرنامے میں ایسی ہی بات لکھی ہے۔ محل کے اندر کی بات اورنگ زیب کی چھوٹی بہن روشن آراء جان گئی تھی اور اسی نے بھانڈا پھوڑا اور بھائی کو باپ کے ارادوں سے خبردار کردیا۔ اورنگ زیب کو یقین ہوگیا کہ جب تک باپ کے ہاتھ میں استعمال کے لیے طاقت اور وسائل ہیں، وہ داراشکوہ کی معاونت سے باز نہیں آئے گا۔ دانش اور تجربہ تقاضا کررہے تھے کہ وہ قلعہ آگرہ کو شاہ جہاں کے آدمیوں سے خالی کرانے کا مطالبہ کرے۔ یہ ساری باتیں جان کر بھی سیکولر حضرات اورنگ زیب کو ظلم و زیادتی کا الزام دیتے ہیں۔ اورنگ زیب کی جگہ کوئی بھی دوسرا شخص ایسے حالات میں کیا کرتا؟
جی ہاں! اورنگ زیب نے دارا شکوہ کو شکست دینے کے بعد آگرہ کا قلعہ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ لیکن اس کے باوجود کہ شاہ جہاں نے اس کے لیے سخت مخاصمانہ صورتِ حال پیدا کردی تھی، اس نے باپ سے نرمی اور مہربانی کا سلوک روا رکھا۔ اس سے کم تر اخلاق والا اُس کا کوئی دوسرا بھائی اس کیفیت کو انتقام کا بہانہ بنالیتا۔برنیئر اس واقعے کے تذکرے میں اورنگ زیب کے رویے کو باپ کے حق میں غیر پسرانہ اور ظالمانہ قرار دیتا ہے۔ لیکن وہ واقعاتِ ماسبق جو اس حادثے کا سبب بنے، بیان نہیں کرتا۔ سچ یہ ہے کہ جب شاہ جہاں نے شہد میں گھلے اندازِ گفتگو سے اورنگ زیب سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا: زود آئی، دلِ تنگ مارا مانوسِ جاں باش، یعنی جلد آجا، اور میرے بھینچے ہوئے دل کے لیے راحتِ جاں بن جا۔لیکن قلعہ میں اورنگ زیب کے جانے سے پہلے ہی اس کے ماموں شائستہ خان اور شیخ میر اسے روکنے میں کامیاب ہوگئے۔ جس واقعے نے حتمی فیصلہ کرنے میں مدد دی، وہ ناہر دل خان چیلہ نامی شخص کا پکڑا جانا تھا جو شاہ جہاں کا خط دارا کے پاس لے جارہا تھا۔ بادشاہ نے داراشکوہ سے دارالحکومت میں رُکنے کے لیے کہا تھا کہ سیم و زر اور فوجوں کو کوئی کمی نہیں: “میں یہ معاملہ یہیں ختم کردوں گا۔” بات واضح رہے کہ اس کے ارادے اورنگ زیب کو قتل کرنے کے تھے۔ان خطوط کی بناء پر اورنگ زیب کو یقین ہوگیا تھا کہ باپ اُسے قتل کردے گا۔ چنانچہ اس کا فیصلہ تھا کہ دارا شکوہ کی رخصتی لازم ہے۔ اس کا تختِ دہلی کا ہندو پسند دعوے دار کے طور پر موجود ہونا، سلطنت میں فتنہ و فساد کا باعث تھا۔ بلکہ جنوبی ایشیا میں مسلم اقتدار کو ختم کرنے کا باعث بن سکتا تھا۔ اس طرح مجبور ہو کراس نے شاہ جہاں کا ذاتی عملہ اس کے پاس سے ہٹا دیا، اور اس کے گرد ایک نیا انتظامی ڈھانچا قائم کردیا۔ یہاں اورنگ زیب کا ایک خط جو اس کے مجموعۂ مکاتیب میں موجود ہے، لازماً زیرِ نظر رہنا چاہئے۔
“میں اعلیٰ حضرت سے بار بار درخواست کرتا ہوں کہ یہ آگ بھڑکانے والے خطوط نہ لکھے جائیں۔ اب میں بے بس ہوگیا ہوں۔ میں ان فتنہ پرداز خواجہ سراؤں کو آپ کے عملے سے فارغ کررہا ہوں۔ میں کئی دفعہ یہ یقین دہانی بھی کراچکا ہوں کہ آگرہ کی طرف بڑھتے ہوئے میری ذرا بھی خواہش نہیں تھی کہ میں شاہِ اسلام سے تخت چھین لوں۔ میں اللہ کو گواہ ٹھہراتا ہوں کہ ایسا بُرا خیال میرے ذہن میں آیا ہی نہیں۔
آپ کی علالت کے ابتدائی ایام میں جب شہزادہ نے، جس میں ایک مسلمان کے شریفانہ کردار کا ذرہ بھر نقش موجود نہیں، اقتدار ہاتھ میں لیا اور الحاد اور بے دینی کا علم بلند کیا تو میں نے اسے اپنی اسلامی ذمہ داری سمجھا کہ اسے مسندِ اقتدار سے اُتار پھینکوں۔ چونکہ آپ عالی وقار کا ایک ہی جانب جھکاؤ رہا، حالات کی سنگینی کا احساس نہ کرپائے اور بڑے شہزادے کو بے دینی پھیلانے کی آزادی دیے رکھی۔ میں نے تہیہ کرلیا کہ اس کے خلاف جہاد کروں۔”
وہ تشویش ناک صورتِ حال کیا تھی جو اورنگ زیب کے ذہن کو پریشان کررہی تھی؟ یہ ہندوستا ن نامی غیر مسلم سمندر میں مسلم امہ کے مستقبل کا سوال تھا۔ مسلمان ایک دوسرا اکبر نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ داراشکوہ کی تخت نشینی سوسائٹی اور مملکت کے اسلامی خدوخال مٹا کررکھ دیتی۔ بلکہ مملکت، مسلم حمایت سے محروم ہوجاتی، جو اس کے وجود اور تسلسل کا بڑا ذریعہ تھا۔ حکیم الامت اقبال نے تقریباً یہی بات فرمائی تھی۔
تخمِ الحادے کہ اکبر پرورید
باز اندر فطرتِ دارا ارمید
(اکبر نے الحاد کا جو بیج بویا وہ دارا کی شکل میں دوبارہ پھوٹ پڑا۔)
اورنگ زیب کے ارادوں کا پتہ شاہ جہاں کے نام اس کے ایک اور خط سے بھی ہوتا ہے:
“جب تک طاقت اور اختیار آپ کے مبارک ہاتھوں میں رہا، آپ کی اطاعت مجھ پر لازم تھی۔ اللہ بزرگ وہ برتر گواہ ہے کہ میں نے اپنی حدود سے کبھی تجاوز نہیں کیا۔ لیکن جب آنجناب بیمار پڑگئے تو شہزادے (دارا) نے آپ کے اختیارات سلب کرلیے۔ اس نے پیغمبر اسلام ﷺ کے دین کی جگہ ہندوؤں کا بت پرستانہ مذہب پھیلانا شروع کردیا، جس سے سلطنت میں بے چینی پھیل گئی۔ اپنے آپ کو آپ کا حقیقی جانشین سمجھ کر اُس دارا نے آپ کو بادشاہی سے معزول کردیا، جس کا میں نے گزشتہ خطوط میں ذکر کیا۔ چنانچہ میں برہان پور سے چل پڑا کہ کہیں یومِ آخرت اللہ تعالیٰ مجھے ذمہ دار نہ ٹھہرائے کہ میں نے فساد کو کیوں نہیں دبایا۔”
دوسرے خطوط کی طرح اس خط میں بھی اورنگ زیب اپنی کامیابی کو اللہ کی عطا کردہ بتاتا ہے، جو اُس کے مومن بندوں کو نصیب ہوتی ہے۔ وہ باپ سے پوچھتا ہے کہ اگر آپ کی مدد سے داراشکوہ کامیاب ہوجاتا ہے، تو کیا صورتِ حال بن جاتی؟ کیا اس سے مسلمانوں پر تباہی نہ آجاتی اور دنیا بے نور نہ ہوجاتی؟ اس کے باوجود باپ کے لیے محبت اور احترام کا جذبہ اس کے دل میں موجزن رہا۔ اس خط میں وہ لکھتا ہے:
“ان حالات میں اللہ تعالیٰ کی عنایات پر شکر گزار ہوں جو مجھ پر ہوئیں۔ آپ نے میری تعلیم و تربیت اور نگہداشت کے لیے جو کچھ کیا اس پر اظہارِ تشکر بھی میرے لیے ممکن نہیں۔ میں کسی صورت اس سعادت سے محروم نہیں ہونا چاہتا، نہ میں اپنے فرائض سے کوتاہی کا ارتکاب گوارا کرسکتا ہوں۔ نہ میں اس مختصر عرصۂ حیات کی خاطر اپنے آپ کو اجازت دوں گا کہ آپ کے احساسات کو ذرا بھی ٹھیس پہنچ پائے۔ جو کچھ پیش آیا وہ اللہ کی مشیت تھی اور اسی میں قوم اور سلطنت کے لیے خیر اور بھلائی ہے۔”
یہ ایک عظیم بادشاہ کا اپنے “قیدی” باپ کے نام خط ہے۔ اس میں پسرانہ جذبات ہیں، وہ باپ کو تسلی دے رہا ہے کہ اللہ کی مشیت اور رضا کے سامنے سر جھکالے اور دل میلا نہ کرے۔ فی الاصل یہ حالات کو معمول پر لانے اور مصالحت کی ایک پیشکش تھی، تاکہ محبت اور اعتماد کی فضا بحال ہو۔ اس سے اسلام کے لیے اس کی گہری محبت کا اظہار بھی ہوتا ہے اور یہ کہ اسے مسلم امت اور مملکت کے متعلق کیا اندیشے لاحق تھے ان سے بھی آگاہی ہوتی ہے۔ شاہ جہاں جو ہمیشہ ہی ایک مشکل باپ بنا رہا، آمادہ نہیں ہورہا تھا کہ نظام کی اصلاح ہو اور معاملات پھر سے ٹھیک ہوجائیں۔ انسان جب اُن حالات کو دیکھتا ہے جن میں اورنگ زیب پھنس چکا تھااور ساری موجود شہادتوں کا جائزہ لیتا ہے تو اسے حیرت ہوتی ہے کہ آخر اُس نے باپ سے وہ کیا بُرا سلوک کیا جس کا الزام اسے ہندو، یورپی اور سیکولر مؤرخین اور تجزیہ نگار دیتے ہیں۔
اور اپنے والد شاہ جہان کو قلعے میں نظر بند کر دیا لیکن اس سے بد سلوکی نہیں کی اور نہ ہی دیگر بادشاہوں کے برعکس تخت نشینی کی اس جنگ میں اپنے والد کو قتل کیا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اورنگزیب نے اپنے سگے والد شاہ جہان کو قلعے میں محدود کیوں کیا۔ اس کی وجہ مورخین یہ بتاتے ہیں کہ اورنگزیب کے خلاف دارا شکوہ کی قیادت میں تمام تر جنگیں شاہ جہان کے حکم پہ لڑی گئیں اور اس بات پہ اورنگزیب نے فتح کے بعد شاہ جہان کو قلعے تک محدود تو کر دیا لیکن نہ اس سے بدتمیزی کی، نہ اس کی روزمرہ ضروریات میں کمی کی اور نہ اس کو قتل کیا۔
اورنگ زیب کی تخت نشینی سے لے کر 1666ء تک شاہجہاں قلعہ آگرہ میں قیام پزیر رہا۔اس دوران شاہ جہان کو روپے پیسے، کھانے پینے، نگہداشت کسی چیز کی کمی نہیں دی گئی صرف اس کے قلعے سے باہر جانے پہ پابندی تھی۔ ملا صالح کمبوہ نے شہنشاہ شاہجہاں کے اُن اواخر ایام کا تذکرہ “عمل صالح میں کیا ہے جو شاہجہاں نے سنہ 1658ء سے 1666ء تک آگرہ کے قلعہ میں نظر بندی کی مدت میں گزارے۔
شاہجہاں قلعہ آگرہ میں نظر بند تھے، اِس کے باوجود اُن کے فیض و کرم کا دروازہ کھلا رہا۔ ضرورت مند ہمیشہ اُن تک پہنچ کر اُن کے جود و اِحسان سے فیض یاب ہوئے۔ سید محمد قنوجی سال 32 جلوس کے آغاز سے ہی ہمیشہ شاہجہاں کی مجلسِ خاصہ میں حاضر رہتا، قرآن کریم کے نکتے اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم بیان کرکے حاضرین کو مستفید کیا کرتا۔ اِس مدت میں شاہجہاں صبر و قناعت کے ساتھ قلعہ آگرہ میں گوشہ نشیں تھے۔ دِن رات کا زیادہ حصہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور فرض و سنت نمازیں ادا کرنے، کلام اللہ کی تلاوت و کتابت میں بسر ہوتا۔ بزرگوں کے اقوال اور رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سنا کرتے تھے، فیض و بخشش اور سخاوت کا دروازہ کھلا رہتا تھا۔16
اگر اورنگزیب قلعے میں نظربندی کے دوران شاہ جہان کے حقوق اور روپے پیسے کھانے پینے میں کمی کرتا تو کس طرح ممکن تھا کہ وہ ضرورت مندوں کو نوازتا، اگر اورنگزیب اس کی۔حق تلفی کرتا تو شاہ جہان کے پاس تو اپنے معمولات کے پیسے نہ ہوتے، ضرورت مندوں کی مدد تو بعد کی بات تھی۔
تیورنیا کا معاملہ یہ ہے کہ اورنگ زیب اور شاہ جہاں کے تعلقات کے بیان میں اُس نے بدترین تعصب کا مظاہرہ کیا ہے۔ اسے یہ بات “عجیب” لگتی ہے کہ اورنگ زیب نے باپ کے اخراجات پر قدغن لگائی اور خزانہ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ حالانکہ وہ جانتا ہے کہ اورنگ زیب کو ختم کرنے کے لیے دارا کی کوششوں کو مالی معاونت شاہ جہاں ہی فراہم کررہا تھا۔ تیورنیا کو یہ بات جاننا چاہئے تھی کہ داراشکوہ کو ملنے والی رقوم کا سلسلہ نہ روکا جاتا تو ملک میں افراتفری، انتشار اور ہنگامہ جاری رہتا۔
طرفہ تماشا یہ ہے کہ تختِ شاہی سے تو شاہ جہاں کے بڑے بیٹے داراشکوہ نے اُتارا تھا، نہ کہ اورنگ زیب نے، جو آخری گھڑی تک باپ کے احترام میں دوسرے بھائیوں کے برعکس تخت پر بیٹھنے سے انکار کرتا رہا۔ اگر اس نے قلعہ میں داخلے کے مقامات پر محافظ بٹھادیے تھے یا شاہ جہاں کو گھیرے رکھنے والے خواجہ سراؤں کو نکال دیاتا تو اس میں کون سی ایسی بُری بات تھی؟ سیکولر دانشور شاید یہی سمجھتے ہیں کہ آگرہ کا قلعہ بھی لاہور یا اٹک قلعوں کی طرح کا کوئی قید خانہ تھا۔ حقیقت اس سے بالکل مختلف تھی۔ سچ یہ ہے کہ قلعہ کے اندر موجود شاہی محل مرتے دم تک شاہ جہاں کے قبضہ میں رہا۔ برنیئر کا اظہارِ عداوت و خصومت اُسے یہ ماننے کی اجازت دے دیتا ہے کہ اگرچہ شاہ جہاں کی رہائش گاہ پر محافظ بٹھادیے گئے تھے، لیکن اورنگ زیب ہمیشہ باپ سے عزت و احترام سے پیش آیا اور اُسے عیش وہ تنعم اور توقیر سے نوازتا رہا۔ برنیئر کی گواہی یہ بھی ہے کہ شاہ جہاں نے جو کچھ مانگا اورنگ زیب نے مہیا کردیا: “اُس نے اُسے تحائف سے لاددیا۔ ایک فال گر کاہن کی طرح اُس سے مشورے لیتا رہا اور اس کے باپ کے نام لکھے گئے خطوط سے فرض شناسی اور اطاعت گزاری کا اظہار ہوتا ہے۔”
اورنگ زیب نے ان جذبات اور فیاض رویوں کا برتاؤ اس والد کے ساتھ کیا جس نے جواب میں پدرانہ شفقت سے ہاتھ اُٹھالیے تھے، جو اُسے ختم کرنے کے لیے پہلے داراشکوہ سے ملا رہا، پھر خود قلعہ میں اس کو موت کے گھاٹ اُتارنے کی منصوبہ بندی کی، بلکہ مراد کو بھی اکسایا کہ اُسے قتل کردے۔ شاہ جہاں کا مراد کے نام خفیہ خط جسے اورنگ زیب کے چست اور بیدار خفیہ کاروں نے راستے میں اُچک لیا، واقعی ایک متعصب اور مایوس ذہن کی پیداوار ہے۔ پوری سلطنت مراد پر نچھاور کرکے وہ اُسے شہہ دے رہا ہے کہ اورنگ زیب کو کھانے کی دعوت میں بُلا کر قتل کردے۔ خط کے الفاظ خون منجمد کرنے والے ہیں:
“بادشاہیِ کل ہندوستان باطبیب نفس و توئی ضمیر بہ آں فرزند سعادت پیوند حوالہ نمودہ ایم۔ برادر زادہ رابہانہ ضیافت بہ خانۂ خود طلب داشتہ کار۔۔۔۔”
شاہ جہاں نے یہ سازشی انداز کیوں اختیار کیا؟ ایک پیچیدہ سوال ہے۔ شاید یہ ایک غیر متوازن نفسیات کا مسئلہ ہے۔ بہر کیف، اورنگ زیب نے ہر پیمانے سے اپنے آپ کو عظیم ترین مغل حکمران ثابت کیا کہ وہ خود اپنے نام کی طرح تختِ شاہی میں جڑا ہوا ہیرا دکھائی دیتا ہے۔ باپ کے متعلق اس کے خدشات بے بنیاد نہ تھے۔ اس امر کے کافی شواہد موجود ہیں کہ باپ کی نگرانی کا فیصلہ اس نے جوابی طور پر خود حفاظتی کے پیشِ نظر کیا۔ یہی وجہ ہے کہ بقول برنیئر جب اورنگ زیب ابتدائے حکومت میں سخت بیمار پڑا تو اس نے اپنے بیٹے سلطان معظم کو وصیت کی کہ اس کی وفات کی صورت میں وہ اپنے دادا ( شاہ جہاں) پر سے نقل و حرکت کی ساری پابندیاں اُٹھادے۔
اپنے ایک خط میں، جس کے متعلق برنیئر کا دعویٰ ہے کہ اس نے خود لکھا ہے، اورنگ زیب کھل کر باپ سے ایک متنازع فیہ بات کرتا ہے۔ برنیئر کے مطابق اس قضیے میں اورنگ زیب عام مغل رواج کے مطابق میت کی جائیداد شاہی خزانے کے لیے ضبط کرنے کے خلاف ہے اور کہتا ہے، “بے شک یہ طریقہ سودمند ضرور ہے لیکن کیا اس میں موجود بے انصافی اور ظلم کا ہم انکار کرسکتے ہیں؟”
خط کے مندرجات بتاتے ہیں کہ شاہ جہاں نہ صرف مرنے والوں کی جائیداد ضبط کرنے کی تجویز دے رہا ہے بلکہ سلطنت کی جغرافیائی حدود اور اموال میں اضافہ کی تلقین بھی کرتا ہے۔ مگر اورنگ زیب کا اسلامی ضمیر یہ باتیں گوارا نہیں کرتا۔ سلطنت کی توسیع سے بھی وہ انکاری ہے۔ اس کا خیال ہے، “عظیم فاتح ہمیشہ عظیم بادشاہ ثابت نہیں ہوئے۔ واقعی عظیم حکمران وہ ہے جو اپنی زندگی کا بڑا مقصد یہ بنائے کہ اپنی رعیت پر عادلانہ حکومت کرنی ہے۔۔۔”
اپنے بارے میں شاہ جہاں کا منفی تاثر زائل کرنے کے لیے وہ کہتا ہے، “جیسا آپ کا گمان ہے، تخت پر بیٹھنے کے بعد میں مغرور اور گستاخ نہیں ہوگیا۔ آپ کا چالیس سالہ تجربہ آپ کو بتانے کے لیے کافی ہے کہ تاج شاہی کتنا بوجھل زیور ہے اور عوام کی نظروں سے ہٹتے وقت حکمران کتنا دکھی اور مغموم ہوتا ہے۔”
قطعِ نظر اس کے کہ یہ خط اورنگ زیب کے خلاف بدخواہوں کے ان الزامات کو دفن کردیتا ہے کہ وہ تخت سنبھالنے کے بعد باپ کو قید کرنے اور اس کے ساتھ زیادتیاں کرنے کا مرتکب ہوا۔ تصویر یہ بنائی جاتی ہے کہ باپ جیل میں سڑ رہا ہے، کوئی اس سے بات نہیں کرسکتا، نہ مل پاتا ہے، واقعات کے اعتبار سے قطعاً نادرست ہے۔ مذکورہ خط اورنگ زیب کی صحیح شخصیت بھی سامنے لاتا ہے۔ باپ بیتا ایک دوسرے سے صلاح مشورہ کرتے پائے جاتے ہیں۔ جہاں وہ اپنے باپ سے اختلاف کرتا ہے، وہاں دلیل اور برہان ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ اس نے دو ٹوک فیصلے کیے لیکن وہ نہ بدخو تھا اور نہ ظالم۔ اس کے بیان سے صرف اسلامی جوہر آشکارا ہورہا ہے، جسے اپنی رعیت کے بہبود کی فکر لاحق تھی اور اس کا یہ عزم تھا کہ وہ عوام کو عدل و انصاف دے گا۔
“رقعاتِ عالمگیر” ہمارے ذہنوں میں ایسے بیٹے کا تصور بٹھاتا ہے جو والد کے احترام کا بے حد خیال رکھتا ہے اور اپنے بیان میں بیچ بیچ میں گہری احترامی کیفیت اور اطاعت کے الفاظ استعمال کرتا جاتا ہے۔ مثلاً وہ اکثر و بیشتر باپ کو خطاب کرتے ہوئے “پیر و مرشد”، قبلہ و کعبہ”، قبلۂ دین و دنیا”، قبلۂ جہاں و جہاں سلامت”، “اعلیٰ حضرت”، “مرشد کامل سلامت” جیسے القاب استعمال کرتا ہے۔ جبکہ اپنی ذات کے لیے “مریدفدوی” اور “مرید عقیدت کیش” جیسے الفاظ ہی مناسب سمجھتا ہے۔
باپ کی وفات کے بعد ایک وزیر نے اورنگزیب کو ملا مت کیا کہ تم نے اپنے باپ کو قید کر کے سنگین غلطی کی،اورنگزیب کی آنکھوں میں آنسو آ گئے وہ بولا ”جس دن میں نے اپنے والد کو قید کیا وہ میری زندگی کا مشکل ترین دن تھا لیکن یہ حالا ت کا تقاضا تھا ،اوراگر اس وقت میں یہ مشکل فیصلہ نہ کرتا تو آج مغلیہ سلطنت کا سورج غروب ہو چکا ہو تا “۔17
جہاں تک بات ہے شکست کے بعد دارا شکوہ کے انجام اور اس ےک واورنگزیب کے ہاتھوں قتل کی تو برنیئر کی اطلاع ہے کہ داراشکوہ کی موت علماء کی ایک مجلس کے اجتماعی فیصلے کے نتیجے میں ہوئی تھی نہ کہ اورنگ زیب کے شاہی فرمان کے نتیجے میں۔ علماء کی مخاصمت کی وجہ ظاہر ہے داراشکوہ کے کافرانہ عقائد تھے، جن کا وہ اپنے آغازِ جوانی سے برملا اظہار کررہا تھا۔ اس نے سات کتابیں لکھیں جن میں دو اشتراک سے لکھی گئیں، نیز اُپنشد کا فارسی ترجمہ کیا۔ چنانچہ اشرافیہ کی اکثریت، علمائے کرام اور عوام الناس میں اس کے کفریہ عقائد کا چرچا تھا۔
برنیئر کا مدیر کانسٹیبل منہوچی کے حوالے سے بتاتا ہے، “عیسائی جذبات جن کے ذریعے مشنری پادریوں نے کوشش کرکے اسے (یعنی دارا کو) سرگرم کیا تھا، اس کی زندگی کے آخری لمحات میں بیدار ہوگئے تھے۔” موت سے پہلے اُسے کہتے سناگیا:
“محمد ﷺ مارہ مکوشد، ابن اللہ مریم می باشید۔” (محمد ﷺ مجھے موت دے رہا ہے، جبکہ ابن اللہ اور مریم مجھے نجات دلائیں گے)
ہمیں یقین نہیں ہے کہ دارا کا سر اورنگ زیب کو دکھایا گیا تھا یا نہیں، برنیئر کا بیان ہے کہ سر بادشاہ کے پاس لایا گیا۔ اس نے پانی منگایا، سر دھویا اور چہرے پر نظر پڑتے ہی وہ بھائی کے انجام پر رودیا اور کہا، “آہ بدبخت! یہ منظر میری آنکھوں کو مزید اذیت نہ دے۔ یہ سر لے جاؤ اور مقبرۂ ہمایوں میں دفن کردو۔” اگر اورنگ زیب اتنا ہی ظالم اور سخت گیر تھاجیسے کہ ازام دیا جاتا ہے تو خود اپنے بھائی کے انجام پر وہ رو کیوں رہا تھا؟ اور سب کو چھوڑ کر اس نے کٹا ہوا سر خود کیوں دھویا؟ کیا ظالم اور سنگ دل انسان کا رویہ ایسا ہی ہوتا ہے؟ لیکن جھوٹ بولنے والوں نے یہ کہانی گھڑ دی کہ اس نے کٹے ہوئے سر سے بدتمیزی کی اور اسے شاہ جہان کے پاس بھیج دیا جو اسے دیکھ کر غم کے مارے بے ہوش ہو گیا جب کہ خود برنیئر جو ان دنوں دربار میں موجود تھا اور اورنگزیب سے تعصب کی بنیاد پہ بار بار اس کو نشانہ تنقید بناتا ہے وہ بھی یہ بات نہیں کرتا۔
سچ یہ ہے کہ داراشکوہ ہندو مدد اور عیسائی مشنریوں، تجار اور کرائے کے قاتلوں کی درپردہ تائید حاصل کرکے لوگوں کی اسلامی روح کچلنا چاہتا تھا۔ اورنگ زیب نے مسلم عوام کی مضبوط حمایت کے ذریعے اس کا مقابلہ کیا۔ تاہم دارا آخر بھائی تھا۔ وہ مسلمان گھرانے میں پیدا ہونے والے شہزادے کے انجام پر فطری طور پر آبدیدہ تھا، لیکن ان احساسات کے علی الرغم اُسے کچھ اور کرنا پڑا کیوں کہ نہ قانونِ شرع کا کوئی ضابطہ اجازت دے رہا تھا اور نہ سلطنت کی سلامتی کے حوالے سے یہ بات قابلِ قبول تھی کہ کفر اور ارتداد کو سزا دیے بغیر بچ جانے دیا جاتا۔ جس حوالے سے بھی دیکھیں، داراشکوہ مسلم تشخص کے تزویراتی تقاضوں کے لیے خطرہ بن گیا تھا، وہ مسلمان جو اقلیت میں ہونے کے باوجود ہندوستان کے حکمران تھے۔ یہاں پر ایک اور حیرت انگیز بات پیشِ نظر رہنی چاہئے اور وہ یہ کہ اورنگ زیب سے پہلے بھی برادر کشی کی جنگیں ہوئیں اور خون بہائے گئے۔ ان سب میں صرف اورنگ زیب کو خنجر آزمائی کے لیے منتخب کرنا خاص مقصد اور ارادے کا پتہ دیتا ہے۔
قابلِ غور پہلو یہ ہے کہ جانشینی کی جنگ داراشکوہ نے شروع کی تھی۔ عملاً آگرہ میں ڈیرہ ڈال کر باپ کو تنہا کردیا تھا (برنیئر کہتا ہے “قید کردیاتھا” )۔ باپ کے جعلی دستخط کیے اور جسونت سنگھ کی کمان میں متحدہ افواج کو مسلمانوں سے لڑنے بھیجا۔ اس کے باوجود دارا تو بے قصور ہے، خوش اطوار ہے، اعلیٰ حسیات کا مالک اور عقل و دانش میں پورا صوفی بزرگ، “مرشدِ باصفا” اور جانے کیا کیا ہے۔ دارا شکوہ کےاگلا بادشاہ بننے کا پورا امکان تھا ، مگر ایسا ہو نہ سکا۔ اس کی وجہ اس کی بدمزاجی، غرور، اورنگزیب سمیت باقی بھائیوں کے خلاف سازشیں اور جنگی مہارت میں کمزوری تھی ۔اورنگزیب نے دارا شکوہ کے بیٹے سلیمان شکوہ کو بھی گوالیار کے قلعے میں جیل میں ڈال دیا تھا کیونکہ وہ بھی اپنے باپ کے زیر اثر اور اس کے نظریات سے متاثر تھا اور اس لیے کہ کہیں وہ باپ کے انتقام کے نشے میں پھر کوئی انتشار نہ پھیلائے۔
اب ہم تیسرے بھائی مراد بخش کی طرف آتے ہیں۔ دارا کی شکست کے بعد اورنگزیب کے قدم مضبوط ہو تے چلے گئے ،مراد اور شجاع کو اورنگزیب کی کامیابیوں کا احساس ہو اتو انہیں اپنا مستقبل تاریک دکھا ئی دینے لگا ، وہ دونوں اورنگزیب کے خلا ف سازشیں کرنے لگے ۔
شہزادہ مراد کے معاملہ میں بھی جھوٹ کی آمیزش ہے۔ اورنگ زیب نے اُسے بھی قتل نہیں کیا تھا۔ بلکہ دونوں بھائی داراشکوہ اور اس کے ہندو مشرکانہ عقائد کی ترویج کے خلاف صف آراء تھے۔ کئی مؤرخین بتاتے ہیں کہ مراد مزاجاً تند و تیز تھا۔ شرابی اور خوشامد پسند تھا۔ اس پر اس کی جرأت اور حوصلہ مندی نے مہمیز لگائی۔ مفاد پرستوں کے گھیرے میں آکر وہ جلد ہی ان کے سازشی چکروں میں آگیا۔
اورنگ زیب سے معاہدہ کے نتیجے میں اُسے کابل، لاہور، کشمیر، ملتان، بھکر، ٹھٹھہ سے لے کر خلیجِ اومان تک حکمرانی کے لیے وسیع علاقہ مل گیاتھا۔ لیکن اس کی ذہانت کے مقابلے میں اس کے لمبے چوڑے ارادے اور حوصلے اسے لے ڈوبے۔ اورنگ زیب سے تعاون کے عہد وپیمان کو پسِ پشت ڈال کر اس نے شاہ جہاں سے تعاون کی پینگیں بڑھائیں۔ یہ جانتے ہوئے کہ شاہ جہاں اورنگ زیب کے معاملات میں الجھے ہوئے ہیں اور معاملہ اورنگ زیب کی فتح بھی ختم نہیں ہوگا، اپنے لیے خصوصی معافی کا خواست گار ہوا۔ شاہ جہاں نے بھی معذرت قبول کرکے معافی دے دی اور ساتھ ہی پورے مسلم ہندوستان پر اس کا حقِ حکمرانی بھی تسلیم کرلیا۔ اہم ترین بات یہ تھی کہ یہاں پر بھی شاہ جہاں نے اسے یعنی مراد بخش کو اورنگ زیب اور اس کے بیٹوں کے قتل کا مشورہ دیا۔
یہ وہ دن تھے جب آگرہ پر اورنگ زیب نے کنٹرول حاصل کرلیا تھا۔ اس نے زخمی مراد کو صحت یابی کے لیے پیچھے چھوڑ ا اور خود داراشکوہ کے تعاقب میں چل پڑا، جو دہلی میں دیرہ جمائے بیٹھا تھا۔ لگتا ہے بیٹے (دارا) اور باپ کی یکجائی انہیں اورنگ زیب کے خلاف سازشوں کا موقع دے رہی تھی۔ اس موضوع پر اورنگ زیب کے خطوط کافی روشنی ڈالتے ہیں۔ مراد کے خدشات جو اورنگ زیب کے ارادوں کے متعلق اس کے ذہن میں جنم لے سکتے تھے، ختم کرنے کے لیے اورنگ زیب نے اُسے دو سو گھوڑے اور بیس لاکھ روپیہ بھیجا۔ ساتھ ہی یہ یقین دہانی بھی کرادی کہ دارا کا معاملہ کامیابی سے سلجھاتے ہی اُسے واپس اپنے موعودہ علاقہ کی طرف جانے کی اجازت ہوگی۔لیکن مطلق بادشاہی کے خواب مُراد کو اندھا کرچکے تھے۔ اس نے شاہ جہاں کی بات مان لی اور تختِ شاہی پر اپنے دعوے کا اعلان کردیا۔ اس صورتِ حال نے اورنگ زیب کو دکھی اور آزردہ کردیا۔ اُسے نتائج کا خوف لاحق ہوگیا کیونکہ اب تین حریف اُس کے سامنے تھے۔ چنانچہ اس نے خطرے کو سر ابھارنے سے پہلے کچل دیا۔ مراد کو پکڑ کر گوالیار کے قلعے میں ڈال دیا۔ وہاں اسےفیاضانہ عطیات سے نوازا گیا۔ اس کا گھرانہ اس کے ساتھ رہا اور اس کی خاص محبوبہ سرستی بائی اُس کی دسترس میں رہی۔ لیکن مراد کی بگڑی نفسیات کو چین نہیں آیا، اُس نے فرار کی کوشش کی۔ اُسے اس وقت گرفتار کرلیا گیا جب وہ اپنی محبوبہ سے رخصت ہورہا تھا۔ اورنگ زیب اُسے قتل کرسکتا تھا، لیکن اس نے اس کے خون سے ہاتھ رنگنا پسند نہ کیا۔ اسے چار سال حفاظتی حراست میں رکھا گیا، یوں اسے اچھی خاصی مہلت دی گئی کہ وہ کوئی فیصلہ کرسکے۔
تاہم جب اورنگ زیب سریر آرائے سلطنت ہوا تو قاضی کی عدالت میں مراد کے خلاف قصاص کا مقدمہ دائر ہوگیا۔ اس پر الزام تھا کہ اُس نے اپنے وزیر سید علی نقی کو قتل کردیا تھا۔ یہ مقدمہ مقتول کے بیٹے کی استدعا پر قائم ہوا تھا۔ عدالت نے علی نقی کے بیٹے کو دیت قبول کرنے پر آمادہ کرنا چاہا لیکن وہ قصاص (خون کے بدلے خون) پر اڑا رہا۔ اورنگ زیب کو اس کے خلاف قصاص کا مقدمہ اچھا نہ لگا۔ اس نے مقتول کے بیٹے کے سامنے ناراضگی کا اظہار کیا۔ خافی خان کا حوالہ میاں محمد نے دیا ہے کہ “مغضوب النظر بادشاہ گردید” (بادشاہ کی نظر میں مغضوب ٹھہرا)۔ کچھ لوگ کہیں گے کہ اورنگ زیب قاضی کے فیصلے کو ختم کرسکتا تھا ۔ ہاں وہ کرسکتا تھا لیکن اس نے نہیں کرنا تھا۔ بطور ایک مسلمان کے جس کی نظر میں اہمیت شریعتِ الٰہی کی تھی اور عدالتی فیصلے کا احترام تھا، اسے معاملے سے دور ہی رہنا تھا۔ دل میں وہ بے شک کڑھتا رہتا اور غم سے گھلتا رہتا لیکن اس نے قانون کو راستہ دینا تھا کہ وہ اپنا آپ منوائے۔
اورنگ زیب کو بدنام کرنے کے لیے برنیئر کہانی بنتا ہے کہ مراد کے ساتھ دھوکا کیا گیا اور اُسے دارا کو ختم کردینے کے بعد بادشاہ بنانے کا وعدہ پورا نہیں کیا گیا۔ برنیئر کی دلیل یہ ہے کہ جب دارا کے خلاف متحدہ محاذ بنانے کے لیے اورنگ زیب کوشاں تھا تو اس نے مراد سے وعدہ کیا تھا کہ کامیابی کی صورت میں سلطنت اُسے ملے گی۔ لیکن یہاں پھر برنیئر کی زنبیل چالبازیوں سے بھری ہوئی ہے اور وہ منہ بھر بھر کر جھوٹ بولتا ہے۔ وہ اپنے دعوے کے ثبوت میں کوئی دستاویز سامنے نہیں لاتا۔ بس دونوں کے درمیان معاہدے کی اپنی تاویل بیان کرتا ہےکہ اورنگ زیب نے اپنے چھوٹے بھائی کو “اعلیٰ حضرت” کہہ کر مخاطب کیا تھا۔ کیونکہ طے شدہ برتر مرتبے کا ادب و لحاظ اسے کرنا تھا۔
خوش قسمتی سے معاہدے کا متن اورنگ زیب کے مکاتیب کے مجموعے میں موجود ہے، جس میں واضح طور پر لکھا ہے کہ دارا کا معاملہ نمٹانے کے بعد وہ اپنے تفویض شدہ علاقوں پر حقِ حکمرانی رکھے گا۔ معاہدے میں من جملہ یہ بھی ہے کہ دونوں بھائی اکھٹے رہیں گے۔ اورنگ زیب کے سامنے مراد نے جو اقرار کیا تھا کہ اس “دشمنِ دین وہ جان (دارا)” کو ختم کرنے کے بعد وہ ہمیشہ اورنگ زیب کا ساتھ دے گا، اور وہ اپنے طے شدہ علاقوں کے علاوہ کچھ طلب نہیں کرے گا۔
مراد کے اس عہد کے جواب میں اورنگ زیب کہتا ہے کہ جب تک “عزیز تر از جان” بھائی مخلص رہے گا، ہماری بخشش اور عنایات کا سلسلہ جاری رہے گا۔ ہماری باہمی محبت اور توجہ اپنے مقاصد کے حصول اور داراشکوہ لعین کا کانٹا نکال دینے کے بعد پہلے سے بھی زیادہ شدت سے جاری رہے گی۔ اس کے ایک سنجیدہ مقصد کے طور پر یہ عہد بھی اس میں درج ہے کہ، “سید المرسلین محمد رسول اللہ ﷺ کے دین کے قیام اور سربلندی کے لیے اور دارالاسلام سے زندقہ وہ الحاد کو اُکھاڑ پھینکنے کی کوشش جاری رہے گی۔ عہد نامے میں دو آیات قرآنی کا حوالہ موجود ہے، جن میں عہد کی پابندی پر زور ہے۔ دستاویز کا سرنامہ بھی کافی اہم ہے، یعنی “عہدنامہ کہ بوجہ التماس بادشاہ زادہ مراد بخش قلمی شد” (عہدنامہ جو بادشاہ زادہ مراد بخش کی درخواست پر لکھا گیا)۔
اب دیکھیے، اس عہد نامے سے کیا بات سامنے آرہی ہے:
1۔ پہلے ایک زبانی معاہدہ ہوا جسے مراد کی خواہش پر ضبطِ تحریر میں لایا گیا۔
2۔ کہ قول اورنگ زیب نے دیا، جبکہ مراد کے ساتھ یہ عہد ہورہا تھا۔
لیکن برنیئر بددیانتی سے اورنگ زیب کو قابلِ نفریں بنا کردکھاتا ہے۔ وہ اپنا ہی عہدنامہ ایجاد کرتا ہے اور پھر اس نقل کو اصل کردکھاتا ہے جس کا الزام اورنگ زیب کے سر پر آتا ہے اور یوں اسے “برائی کا مجسمہ” بنا کر پیش کرتا ہے۔
دو شہادتیں ایسی ہیں کہ ان سے صرفِ نظر ممکن نہیں۔ ایک کا ذکر ہوچکا، جس کا تعلق عہدنامہ سے ہے جو اورنگ زیب کو عہد کرنے والا بنا کر اونچا مرتبہ دیتا ہے کہ وہ دوسروں پر عنایات کرتا ہے۔ اور ان دوسروں میں مراد بخش بھی شامل ہے۔ دوسری شہادت سمور گڑھ کی لڑائی کی کمان ہے۔ سٹینلے لین پول (1712 – 1764 ) لکھتا ہے کہ اورنگ زیب نے لڑائی کی قیادت اپنے ہاتھ میں رکھی، اس کے الفاظ یہ ہیں،
“کمان (قلبِ لشکر) اپنے ہاتھ میں رکھتے ہوئےاس نے مراد کو میسرہ (دائیں بازو) پر رکھا اور بہادرخان کو میمنہ (دائیں بازو) سونپا۔ اور ہر اول دستے کے ساتھ اپنے بیٹے محمد کو بھیجا کہ وہ توپ خانے کے ساتھ رہے، جو حسبِ معمول سب سے اگلی صف میں تھا۔”
لشکر کی یہ ترتیب بتاتی ہے کہ مرکزی کمان اورنگ زیب کے ہاتھ میں رہی جبکہ مراد کو بائیں بازو میں اضافی کمک والی پوزیشن پر رکھا گیا۔
لڑائی کے بعد اورنگ زیب مراد بخش اور دوسروں کو انعامات دیتا ہے۔ یہ عطیات قبول کرکے اور عہد نامہ کی درخواست دے کر مراد اورنگ زیب کے مقابلے میں ثانوی حیثیت تسلیم کرتا ہے اور نہ کہ بادشاہ کی پوزیشن اختیار کرتا ہے، جیسا کہ برنیئر کا دعویٰ ہے۔
اورنگ زیب کے لیے سب سے پہلے اپنی جان کو لاحق خطرات سے نمٹنا ضروری تھا، جو بھائیوں اور باپ کی طرف سے اُسے لاحق تھے۔ اس کے بغیر وہ اسلام کی خدمت بھی نہ کرپاتا۔ اس کے بڑے بھائی داراشکوہ کو اصل نفرت اورنگ زیب کے دینی جذبے سے تھی۔ دارا نے جب اپنی بادشاہی کا اعلان کردیا تو پھر اورنگ زیب اُس کی نظر میں صرف ایک باغی تھا۔
اورنگ زیب کے لیے سب سے پہلے اپنی جان کو لاحق خطرات سے نمٹنا ضروری تھا، جو بھائیوں اور باپ کی طرف سے اُسے لاحق تھے۔ اس کے بغیر وہ اسلام کی خدمت بھی نہ کرپاتا۔ اس کے بڑے بھائی داراشکوہ کو اصل نفرت اورنگ زیب کے دینی جذبے سے تھی۔ دارا نے جب اپنی بادشاہی کا اعلان کردیا تو پھر اورنگ زیب اُس کی نظر میں صرف ایک باغی تھا۔
اورنگ زیب نے گجرات کے تاجر شانتی داس کا قرض لوٹا دیا جو اس کے بھائی مراد نے لیا تھا۔ اورنگ زیب نے ایسا اس لیے کیا تاکہ مراد اس کے پالےمیں آسکے۔ اورنگ زیب نے اپنی بیٹی کی شادی دارا شکوہ کے بیٹے سے کی۔ دارا شکوہ کے فوجیوں اور درباریوں کو اس نے معاف کردیا اور اپنے دائرے میں لے لیا۔ کچھ کو ہی قتل کیا یا سزا دی۔ 18
اورنگزیب اور دارا شکوہ کی بہن شہزادی جہاں آرا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے بھائی دارا شکوہ کے آزاد اور ملحدانہ نظریات سے متاثر تھی اور اسے اورنگزیب کی طرح بادشاہ بنانے کی خواہش رکھتی تھی۔جہاں آرا کے بارے میں یہ بات تو تصدیق شدہ ہے کہ وہ صوفی نظریات رکھتی تھی اور ملا شاہ بدخشی کی مرید تھی لیکن اس کے بارے میں آج تک یہ ثابت نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی دارا شکوہ کی طرح کسی بے دین یا صوفی کی مرید ہو یا ملحدانہ نظریات رکھتی ہو۔ ہمیں اس بات کا کوئی مستند تاریخی حوالہ میسر نہیں ہوسکا۔ اگر اس بات کا کوئی ہم عصر تاریخی حوالہ میسر ہو تو ہمارے قارئین ہمیں ضرور آگاہ کریں۔ لیکن اس کے نظریات کے غلط ہونے کے خلاف جو بات جاتی ہے وہ اس کا اپنے بھائی اورنگزیب سے بے تکلف ہونا اپنے بھائی اورنگ زیب کو “سفید سانپ“ (ہو سکتا ہے اورنگ زیب کے چہرے کی رنگت کی وجہ سے ہو) کر پکارنا کرتی، کبھی کبھی، شیر اور چیتا کے نام سے پکارنا ہے۔ مزید یہ کہ اورنگزیب نے جہاں آرا کو صاحب-شاہزادی کا لقب دیا۔ اس بارے میں صحیح جاننا اس لیے مشکل ہے کہ جہاں آرا کے بارے میں مستند تاریخی حوالے نایاب ہیں۔
دارا شکوہ سے اورنگزیب کی جنگ کے دوران اس نے اورنگزیب کو صلح کے ایک معاہدے پہ قائل کرنے کی کوشش کی جس کے مطابق پنجاب کے علاقے دارا شکوہ کے پاس رہیں گے جب کہ مرکزی حکومت اورنگزیب عالمگیر کے پاس رہے گی لیکن اورنگزیب عالمگیر نے اس بات کو دارا شکوہ کے ملحدانہ خیالات کی وجہ سے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔19دارا شکوہ کی وفات کے بعد دونوں بہن بھائیوں کے اچھے تعلقات رہے اور اورنگزیب نے باوجود اس کے جہاں آرا نے جنگ میں اورنگزیب کے خلاف دارا شکوہ کی حمایت کی تھی، بہن کے بارے میں اعلٰی ظرفی کا مظاہرہ کیا اسے روشن آرا کی جگہ صاحب الزمانی کا لقب دیا-20اور اسے پھر سے حرم کی خاتون اول کا وہ مرتبہ دیا جو وہ شاہجہان کے دور میں رکھتی تھی۔آگرہ میں اپنی تخت نشینی موقع پہ اورنگزیب نے اسے ایک اعشاریہ چار ملین روپے مالیت کا سونا دیا اور اس کا سالانہ وظیفہ ایک ملین روپے سے بڑھا کر سات ملین روپے کر دیا۔21
نکولاؤ مینوسی اور فرانسس برنیئر جیسے متعصب یورپی سیاحوں نے جو ان دنوں آگرہ مغل دربار میں موجود تھے، نے اس صوفی خاتون کی کردار کشی کی کوشش کی اور اس پہ کئی مردوں سے جنسی تعلقات، شراب نوشی اور رقص کے الزامات عائد کئے جب کہ یہ مکمل جھوٹ ہے جس کی تصدیق کوئی بھی غیر جانبدار تاریخی حوالے نہیں کرتے۔جہاں آرا کو اتنے اختیارات تھے کہ وہ اورنگزیب کی نکتہ چینی کرتیں اورنگزیب کے انتظامی طریقوں پر تنقید بھی۔ اورنگزیب اور اس کی بہن جہاں آرا کے درمیان بعد ازاں بہت اچھے تعلقات تھے۔ جہاں آرا کی وفات پر، اورنگ زیب نے انہیں “صاحباۃالزمانی“ کا لقب دیا۔ جہاں آرا دارا شکوہ کے برعکس ملحد یا گمراہ صوفی خیالات کی مالک نہیں تھی۔
اگر اورنگزیب عالمگیر سلطنت کا بھوکا ہوتا تو دو بار وہ دکن کی عاملیت یعنی گورنری نہ چھوڑتا لیکن برنیئر اس پہ الزام لگاتا ہے کہ وہ ریاکار مذہبی بادشاہ تھا۔اورنگ زیب کے مکتوبات کے مطابق اس نے دو بار گورنری سے دست برداری کی پیش کش کی، لیکن باپ کی ناراضی دیکھ کر فیصلہ واپس لے لیا۔ اس کا پہلا استعفیٰ اس وقت سامنے آتا ہے جب اسے دکن کا گورنر نامزد کیا جاتا ہے۔ دس برس بعد وہ پھر اُس موقع پر یہ پیش کش دہراتا ہے، جب اس کی بہن شہزادی جہاں آراء آگ میں جھلس جاتی ہے اور اورنگ زیب اُسے دیکھنے آتا ہے۔اس کے ایک مکتوب میں دست برداری کی وجہ درج ہے۔ اپنی بہن کو لکھے گئے خط میں وہ ان ناانصافیوں کا تذکرہ کرتا ہے جو اُس کے ساتھ کی گئیں۔ اگر چہ وہ کسی کا نام نہیں لیتا، لیکن واضح طور پر اس کا اشارہ باپ اور بڑے بھائی داراشکوہ کی طرف ہے۔ زیادہ دُکھ اُسے داراشکوہ کے ہتک آمیز رویے سے تھا، جس نے شاہ جہاں کو آمادہ کرکے شورش زدہ دکن کے گورنر کی حیثیت سے اس کے انتظامی فنڈ کاٹ دیے اور ایک ایسے وقت اس کی زیر کمان فوج میں کمی کرادی جبکہ وہ مملکت کے دشمنوں سے برسرِ پیکار تھا۔ اس تجربے نے اسے داخلی سطح پر توڑ پھوڑ کر رکھ دیا۔ان خطوط سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ اورنگ زیب کو اقتدار کی کوئی شدید خواہش تھی، بلکہ وہ تو سب کچھ دوسروں کے لیے چھوڑ کر گوشہ نشین ہونا چاہتا تھا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ وہی اورنگ زیب جو ان لوگوں کی نظر میں ایک ہٹ دھرم شخص تھا، جس نے ان کے بقول چالاکی سے زہد و تقویٰ کا لبادہ اوڑھ رکھا تھا، وہ تخت نشینی کے بعد 43 سال کی عمر میں قرآن پاک حفظ کرلیتا ہے۔
اُس کا 43 سال کی عمر میں قرآن پاک کو حفظ کرنا خصوصاً اہم بات ہے۔ کیونکہ چھوٹی عمر کے برعکس اتنی بڑی عمر میں حفظِ قرآن بہت مشکل کام ہے۔ بچے تو والدین کے دباؤ اور استاد کی سختی کے تحت ایسا کرتے ہیں، لیکن بڑی عمر کا انسان آزاد مرضی سے حفظ کی مشقت اسی وقت اُٹھائے گا جب دینی جذبہ اسے ایسا کرنے پر اُبھارے گا۔”مأثر عالمگیری” میں ہے کہ حالتِ جنگ میں بھی وہ خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کیا کرتا تھا۔ بلخ کی مہم کے دوران دشمن کے دستوں نے اُسے گھیر لیا تھا لیکن (نماز کے وقت) وہ گھوڑے سے اُترا اور امامت شروع کردی۔ امیرِ بلخ عبدالعزیز خان یہ منظر دیکھ کر اتنا سخت متاثر ہوا کہ اُس نے لڑائی سے یہ کہہ کر ہاتھ کھینچ لیا کہ ” ایسے شخص سے لڑنا اپنی موت کو دعوت دینا ہے”۔ اورنگ زیب عالمگیر کا رویہ اپنے ذاتی سٹاف، امرائے درباعر اور عام لوگوں کے ساتھ یکساں لحاظ، مروت اور مساوات کا تھا۔ باپ نے جب نصیحت کی کہ “سب کو ایک سا نہ سمجھے اور مقام و مرتبے کے لحاظ سے تمیز روا رکھے۔” تو اس نے جو جواب دیا وہ اس کے اعلیٰ اخلاق کا مظہر تھا۔ کہتا ہے، “عزت اور سربلندی انسانوں سے نہیں ملتی، بلکہ کائنات کے خالق اور ماک اللہ کے حضور سے نصیب ہوتی ہے۔” تخت نشینی کے بعد اُس نے نفاذِ شریعت کے لیے بنیادی اقدامات کیے۔ اخلاقی ماحول کو گندگیوں سے پاک کیا۔ جیّد علماء کی مجلس قائم کرکے قوانین کی تدوین کی، جس کے نتیجے میں “فتاویٰ عالمگیری” منصہ شہود پر آگئی۔ یقیناً اس کے یہ سارے اقدامات مذہبی بہروپ کے زمرے میں قطعاً نہیں آتے۔
نرم و گداز بستر سے علیحدہ رہ کر اس کی راتیں تہجد میں گزرتیں۔ زیادہ اہم بات یہ کہ وہ تہذیبوں کے اسبابِ زوال پر بڑی گہری نظر رکھتا تھا۔ وہ اکثر اس کے فکر اور تشویش میں مبتلا رہا کہ برصغیر جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کا مستقبل کیا ہوگا۔ اُسے سامنے تاریک دن نظر آرہے تھے۔ اس کے اجداد اور پیش روؤں نے اسلام کی تبلیغ اور استحکام میں برس ہا برس جس تساہل اور لاپروائی سے کام لیا تھا، اس کے اثرات سامنے آرہے تھے۔ وہ اس تباہی و بربادی کا رُخ موڑنا چاہتا تھا۔
اورنگ زیب کا اصل جرم کچھ اور ہے، جس کے لیے ہر ڈھنگ کے سیکولر عناصر، خواہ ہندو ہوں، مغربی مؤرخین ہوں یا نام نہاد مسلمان پاکستانی سیکولر، اسے کبھی نہیں بخشیں گے۔ اس نے ہندو دلدل میں پھنسے مسلمانوں کا تشخص بچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔ ہندو تو خاص طور پر آتش زیر پا ہیں ۔ اورنگ زیب نے اسلام دشمنوں کی فتح کی امیدوں پر اس وقت پانی پھیر دیا کہ “دو چار ہاتھ جب لبِ بام” رہ گئے تھے۔ عیسائی مؤرخ اس لئے آگ بگولا ہیں کہ تختِ دہلی پر عیسائیت کی حکمرانی کے خواب اس نے بکھیر کر رکھ دئے۔ اگر مسلمانوں پر اکبر اور دارا شکوہ کی طرح کے چند اور حکمران حکومت کرلیتے تو صحیح تر الفاظ میں نہ صرف آج پاکستان نام کی کسی مملکت کا وجود ہوتا، نہ اسلام کی سربلندی یا سیکولر ازم کی مخالفت کے نعرے گونج رہے ہوتے۔
ایک علامت کے طور پر ہمارے جذبات و احساسات پر اورنگ زیب کی گرفت بہت مضبوط ہے، کیونکہ اس نے مسلم شعور کو حیاتِ تازہ بخشی، ہماری لڑکھڑائی قومی شخصیت کو سہارا دیا اور خطرے کو بھانپنے کی ہماری سوچ کو بیداری اور توانائی بخشی۔ اس نے ہمیں یہ بھی سمجھا دیا کہ جب خونیں رشتےبھی اسلام کے خلاف صف آراء ہوجائیں تو ان کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہتی۔ عالمگیر کو آزادروی پر مبنی کفر کی حقیقی فطرت کا بہ خوبی اندازہ تھا۔ یہ اُسی نے ہمیں سمجھا دیا کہ مذہبی معاملات میں آزادروی محض ایک نظریہ یا فلسفہ نہیں، یہ تو قوت اور اختیار کی ڈاکٹرائن ہے جو حکومت پر قبضے سے کم پر راضی نہیں ہوتی۔ یا تو آپ اسے سینگوں سے پکڑیں ورنہ یہ خود آپ کو اُدھیڑ کر ختم کردے گی۔ بہ ایں ہمہ سیکولر اندازوں کے مطابق اورنگ زیب کو رگیدتے رہنا بہت ضروری ہے، ورنہ وہ اپنے کردار سے لوگوں کو بتاتا رہے گا کہ آج اس اکیسویں صدی میں بھی اصل مسئلہ کیا ہے۔
مزید براں اورنگ زیب محض بادشاہ نہ تھا، وہ ایک نجات دہندہ تھا، ایک دوراندیش انسان تھا، جسے اپنا عظیم و مقدس کردار صاف نظر آرہا تھا۔ اپنے عہد کے منظر نامے پر اس نے اپنا کردار کمال خوبی اور حوصلہ مندی سے ادا کیا۔ فی الواقع اس نے مسلمانوں کو شک، تذبذب اور خوف کی بے سکون کیفیت سے نکالا۔ انہیں یقین و ایمان اور ولولۂ تازہ دیا، جس نے انہیں اپنی نظروں میں باوقار بنادیا۔ آج چار صدیاں گزرنے کے بعد بھی اس کے مخالفین کی زہریلی پھنکاریں ثابت کرتی ہیں کہ اپنے وقت کی نیام میں وہ اسلام کی بہترین تلوار تھی۔ اقبال نے کیا خوب کہا:
پایۂ اسلامیاں برتر ازوں
احترامِ شرع پیغمبر ازوں
(مسلمان ان کی کوششوں کے نتیجہ میں دنیا میں بہتر مقام پر ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کی شریعت کا احترام انہی کے رہینِ منت ہے۔)

حوالہ جات
1۔ بنیادی حوالہ: سیکولر لابی، تاریخ اور اورنگزیب عالمگیر، مصنف محمد طارق جان صاحب
2 – “Aurangzeb and Dara Shikoh’s fight for the throne was entwined with the rivalry of their two sisters”
3 – Richards, John F (2008). The New Cambridge History of India. Delhi: Cambridge University Press. p. 159. ISBN 978-81-85618-49-4.
4 – https://books.google.com/books…
5 – http://www.royalark.net/India4/delhi6.htm
6 – S. Harvey, 1971, Burma; Suhas Chatterjee, 2008.
7 – Niccolai Manucci, Storia do Mogor.
8 – Cheitharol Kumbaba, p.45.
9 – A. Hakim Shah, 2008, The Manipur Governance.
10 – https://ur.m.wikipedia.org/wiki/اورنگزیب_عالمگیر
11 – Metcalf, Barbara D.; Metcalf, Thomas R. (2006). A Concise History of Modern India (Second ed.). Cambridge: Cambridge University Press. pp. 20–21. ISBN 978-0-521-86362-9.
12۔ رقعات عالمگیر، مرتبہ نجیب اشرف ندوی ص22
13۔ مراۃ الخیال، شیر خان لودھی، طبع کول 1848ء ص154
14۔ مآثر الامراء، ص225/1-224
15 – http://urdu.news18.com/…/dara-shikoh-could-not-become-mugha…
16۔ ملا صالح کمبوہ : عمل صالح، ص 550/551
17 – https://www.urdupoint.com/…/hamain-aurangzeb-banna-pare-ga.…
18 – https://www.urdupoint.com/…/hamain-aurangzeb-banna-pare-ga.…
19 – Nath, Renuka (1990). Notable Mughal and Hindu Women in the 16th and 17th Centuries A.D. New Delhi: Inter-India Publications. p. 131. ISBN 81-210-0241-9.
20 – Preston, page 285.

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password