فلسفہ کیوں پڑھیں ؟

جس طرح(یہ ضروری ہے کہ ) اسلامی اصطلاحات کے معانی فقہاء و علماء امت بتائیں گے بالکل اسی طرح مغرب سے آنے والی اصطلاحات اور نظریات کا اصل مطلب مغرب کے فلسفی، ان کے دانشور اور ان اصطلاحات کے موجد ومصنف بتائیں گے۔ اس کے بجائے ان مغربی اصطلاحات کا ترجمہ کرکے ان کی اسلام کاری کرلینا ایک غیر علمی رویہ ہے مثلاً مغرب میں ماڈرن ازم فریڈم ، بینکنگ ، فائینانس ، اکنامکس ، مساوات ، Democracy, Tolerance ، معیار زندگی [Standard of living]، scarcity، capital پروگریس، ڈیویلپمنٹ [Poverty] سٹیزن ، فریڈم آف ایکسپیریشن ہیومن رائٹس کا مطلب وہ قطعاً نہیں ہے جو انگریزی سے واقف ہمارے بعض مذہبی مفکرین اردو ترجمہ کرکے بیان کرتے ہیں۔ کسی بھی اصطلاح کاکامل ترجمہ ممکن نہیں لیکن اس کی تشریح ، توضیح ، تفسیر ممکن ہے جو ترجمے سے عموماً نہیں ہوتی۔ لہٰذا مغربی اصطلاحات کا اصل مفہوم سمجھنے کے لیے ہمیں مغرب کے بڑے فلسفیوں کا مطالعہ کرنا ہوگا ورنہ ہم بد ترین علمی خیانت کے مسلسل مرتکب ہوتے رہیں گے۔
ہمارے بہت سے سکالرز کا اصل مسئلہ یہی ہے کہ یہ حضرات جدید مغربی فلسفے کے ذیلی علوم جدید سائنس اور سوشل سائنس کے نئے دریچے فلسفۂ سائنس سے قطعاً ناواقف ہیں لہٰذا مغربی اصطلاحات اور نظریات کے نا مکمل ، محرف ، غلط سلط غیر علمی ،غیر مصدقہ ترجمے کرکے ان کو خواہ مخواہ اسلامی سمجھنے لگتے ہیں۔ وہ اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ ایک زبان اور تہذیب کی اصطلاحات کا ترجمہ کسی دوسری زبان میں ممکن نہیں صرف اصطلاح کی تشریح و توضیح ممکن ہے ۔ خصوصاً وہ اصطلاحات جو خاص تاریخ ، تہذیب ، ثقافت اور ما بعد الطبیعیات سے نکلی ہوں جیسے ”عدت” کا ترجمہ ناممکن ہے اگر ترجمہ کیا جائے تو اس کا مطلب گننا ہوگا مگر کیا گننا؟ کب؟ کیسے؟ کب تک؟ کیوں؟ کس لیے؟ کس کے لیے؟ ترجمہ ان سوالات کا جواب دینے سے قاصر ہے لیکن ایک ان پڑھ مسلمان بھی اس اصطلاح کے تمام مفاہیم ایک لمحے میں جان سکتا ہے کہ اس اصطلاح کے لیے جو علم درکار ہے وہ اس کی عملی زندگی کا تجربہ ہے۔ یہ تجربہ وہ اپنی تاریخ و تہذیب میں زندہ تجربے کے طور پر برتتا ہے لہٰذا علم کے بغیر وہ عامل ِکامل ہوتا ہے کیونکہ اس اصطلاح کے مکمل تناظر سے وہ واقف ہے۔ لیکن ایک دوسری تہذیب کا بڑے سے بڑا عالم بھی اس اصطلاح کا مطلب نہیں جان سکتا۔ اگر ان اصطلاحات کے تاریخی تناظر سے واقف نہ ہو۔
بعض اصطلاحات ہر تہذیب ، دین میں یکساں ہوتی ہیں مثلاً عیسائیت یہودیت اسلام میں اللہ ، صلوٰة ، صوم مشترکہ اصطلاحات ہیں لیکن ان اصطلاحات کی حقیقت تینوں مذاہب میں بالکل مختلف ہے۔لہٰذا اگر اصطلاحات یکساں ہوں ان کے الفاظ بھی ملتے جلتے ہوں تب بھی ان کا ما بعد الطبیعیاتی تناظر بدل جانے سے ایک جیسی اصطلاحات کے معانی بھی بدل جاتے ہیں مثلاً عیسائیوں کے یہاں مسیح ابن اللہ ہیں اسلام میں مسیح صرف رسول اللہ روزہ عیسائی اور یہودی بھی رکھتے ہیں لیکن دونوں کے یہاں روزے کا طریقہ بالکل مختلف ہے۔عیسائی روزے میں ایسی چیزیں کھاسکتے ہیں جو آگ پر پکی ہوئی نہ ہوں ، حضرت عزیر اور حضرت عیسیٰ یہودی، عیسائی عقیدے کے مطابق خدا کے بیٹے تھے اسلام توحید اورصوم کے ایسے تصورات کو تسلیم نہیں کرتا لہٰذا اصطلاحات کی یکسانیت اور الفاظ کی مماثلت سے دھوکہ کھانے کی ضرورت نہیں ایک جیسی اصطلاح کے معانی مفاہیم ، مطالب ،بھی ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہو سکتے ہیں۔مثلاً مغرب کی فلسفیانہ اصطلاح فریڈم ]آزادی[ کا ترجمہ عربی میں حریت اور اردو میں آزادی درست ترجمہ نہیں یہ اس اصطلاح کے صرف ایک پہلو کو بیان کرتاہے آزادی مغرب کی قدر[Value] ایمان عقیدہ [Faith believe] ہے یہ اصطلاح ان کے فلسفے ، مذہب ، عقیدے کی اساس ہے دیگر تہذیبوں میں آزادی محض صلاحیت [Ability] ہے اسی طرح مساوات اور ترقی جیسی اصطلاحات جو آزادی کی طرح مغرب کے تمام ازموں کی مشترکہ اقدار ہیں ان کے حقیقی مفاہیم اور تاریخی تناظر کو نظر انداز کرکے ہم انہیں ترجمہ کرکے سادہ طریقے سے بیان کرتے ہیں تو غیر علمی رویہ اختیار کرتے ہیں جو بہت سے شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے اس کے نتیجے میں مغربیت اسلامی معاشروں میں تیزی سے سرایت کرتی ہے ۔ اصطلاحات کی حقیقت سے آگہی کے بغیر جب ہم ان اصطلاحوں کی اسلام کاری کرتے ہیں تو در اصل کفر کی اسلامی توجیہہ بیان کرتے ہیں جو علمی دیانت کے خلاف ہے دیانت داری کا تقاضہ یہ ہے کہ اصطلاح کو اس کے حقیقی تناظر اور اس کی تاریخ و فلسفہ کی روشنی میں سمجھا جائے امت مسلمہ کو اس معاملے میں شدید حساسیت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
الغرض جدید مغربی اصطلاحات کو سمجھنے کے لیے فی الحال The Development Dictionary: A guide to knowledge as power Edited by WOLFGANG SACHS 1993 Zed Books Ltd. London & New Jersey کا مطالعہ کیا جائے۔ اس کتاب میں جدید مغربی اصطلاحات کو تاریخی تناظر میں بیان کیا گیا ہے اور Development، Environment، Equality، Helping، Market,Need، One World، Participation ، Planing، Population ، Poverty، Production، Resources، Science، Socialism ، Standard of Living، State، Technology کی دل فریب ملمع سے پر اصطلاحات کا حقیقی تناظر میں جائزہ لیا گیا ہے۔اسی طرح جدید مغربی فلسفے کی تاریخ، مقصد، ہدف منزل اور حقیقت مغربی فلاسفہ کی اصل تحریروں کی روشنی میں سمجھنے کے لیے Alex Callinicos کی کتاب Social Theory: A historical introductiion 2003, Polity Press Cambridge UK کا مطالعہ ضروری ہے جس میں Hegal The Enlightenment ، Marx،Liberals، Life & Power،The golden Age، Weber، Durkheim، Revolution & Counter، Revolution، The illusion of Progress جیسے عنوانات پر مدلل گفتگو کی گئی ہے۔
سائنس و ٹیکنالوجی سے مرعوبیت کے بجائے اس کی حقیقت واضح طور پر سمجھنے کے لیے فلسفۂ سائنس کے مفکر A.F. Chalmer کی کتاب What is this thing called science 1988 Open University Press کا مطالعہ ضروری ہے۔ اس کتاب میں استقرائ، استخراج، کی بنیاد پر اخذ نتائج کی حقیقت کھول کر رکھ دی گئی ہے اس کے مطالعے سے جدید سائنس و ٹیکنالوجی کے سلسلے میں مشرق کے مفکرین کی خواہ مخواہ مرعوبیت کے اسباب بھی معلوم ہوتے ہیں۔ کہ یہ بے چارے نہ سائنس کو جانتے ہیں نہ ٹیکنالوجی کو نہ فلسفۂ سائنس کے مباحث سے واقف ہیں یہ سائنس و ٹیکنالوجی پر ایمان بالغیب کے بعد اس کی اسلام کاری کا عمل شروع کرتے ہیں فلسفہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی اصطلاحات کے سلسلے میںStanford Encyclopedia of Philosophy یا دیگر لغات فلسفہ سے بھی رجوع کیا جاسکتا ہے۔اس کے علاوہ درج ذیل کتب اور رسائل کا مطالعہ مفید رہے گا : [١] جریدہ ٢٩ ، جریدہ ٣٥ ، جریدہ ٣٧ ، شعبہ تصنیف و تالیف و ترجمہ ، جامعہ کراچی۔ [٢] سرمایہ دارانہ نظام :ایک تنقیدی جائزہ ، مرتبہ محمد احمد۔ [٣] جمہوریت یا اسلام ، مرتبہ محمد احمد ، [٤] ماہنامہ ساحل ، کراچی ، ٢٠٠٥ء ، ٢٠٠٦ء ، ٢٠٠٧ء اور ٢٠٠٨ء کے تمام شمارے ۔[٥] مریم جمیلہ کی کتاب اسلام اینڈ ماڈرن ازم ۔ [٦] کشاف اصطلاحات فلسفہ ، قاضی عبدالقادر۔ [٧] Business ethics in Pakistan، ڈاکٹر جاوید انصاری اس کتاب کے آخر میں فلسفیانہ اصطلاحات کی تشریح کی گئی ہے۔ [٨] اصطلاحات فلسفہ کی لغت [انگریزی] آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کراچی۔
جدید دنیا میں جدید مغربی فلسفے اور جدید سائنس اور سوشل سائنس اور جدید اداروں سے واقفیت کے بغیر ان علوم کی اسلام کاری کی تحریک زور و شور سے چل رہی ہے اس تحریک کے چلانے والے مغرب کے علوم، فنون، فلسفے سے سرسری طور پر بھی آگاہ نہیں۔ مغرب کے فہم سے محروم یہ مفکرین تاریخ بلوچستان کے اہم کردار عیدو کی طرح عالم اسلام میں مغربیت، جدیدیت، کے نفوذ، نفاذ کے لیے بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں یہ عید و کون تھا آئیے اس کا مطالعہ کریں۔
جب ان سرحدی بلوچوں کی حریت پسندی خطر ناک حد تک تمام علاقے میں پھیل گئی تو فروری ١٩١٦ء میں انگریزوں نے جنرل ڈائرکو بھیجا تاکہ سرحدی بلوچوں کو کچل دے ۔ یہ جنرل ڈائر وہی ظالم ہے جس نے بعد ازاں جلیانوالہ باغ میں ہندوؤں ، مسلمانوں اور سکھوں کا قتل عام کرایا۔ ڈائر نے ”کچو” کے مقام پر پہنچ کر بلوچ سرداروں سے ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کیا لیکن انھوں نے اس مطالبے کو حقارت سے ٹھکرادیا۔ ڈائر ایک تجربہ کار اور مکار انگریز جنرل کی حیثیت سے بخوبی اندازہ لگا چکا تھا کہ اس کوہستان جس کی چپہ چپہ زمین سے دشمن واقف ہے ،براہ راست مقابلے کی دعوت دینا انگریز سپاہ کی تباہی و بربادی کا سبب بن سکتا ہے۔چنانچہ اس نے بلوچوں کی مجموعی طاقت سے ٹکرانے کی بجائے ان میں خوف و ہراس، بد نظمی اور انتشار پھیلانے کی تجویزیں سوچ لیں۔ ڈائر نے مشّاق اور ہوشیار جاسوسوں کے پروپیگنڈے سے بلوچوں کو انگریزوں کی پانچ ہزار مسلح فوج اور بہت بڑے توپ خانے اور جنرل ڈائر کی ”موٹر” کی ہیبت ناک داستانیں سنا کر ڈرانا چاہا۔ یہاں کسی نے موٹر کار نہیں دیکھی تھی۔ اس لیے جاہل خانہ بدوش اور جنگلی بلوچ قبائل موٹر دیکھ کر اس قدر حواس باختہ اور حیران ہوتے کہ ان کی چیخیں نکل جاتیں اور بے تحاشا بھاگ اٹھتے، ان میں جو زیادہ سمجھدار تھے وہ موٹر کو خطر ناک جنگی مشین خیال کرتے تھے اور اس کے مقابلے میں آنے سے گھبراتے تھے۔ جنرل ڈائر نے اپنے دو انگریز افسروں اور عید و نامی بلوچ رہبر کے ساتھ کوہستان میں کاروانوں کے راستے پر موٹر دوڑائی، راستے میں جہاں کہیں خانہ بدوش نظر آتے موٹر ٹھہرائی جاتی عیدو ان کے پاس جاتا اور موٹر کی شکل و صورت ، برق رفتاری اور ہولناکی کے ایسے ایسے من گھڑت قصے بیان کرتاکہ بلوچوں پر سکتے کی سی کیفیت طاری ہو جاتی۔ موٹر کے ریڈی ایٹر کے ساتھ سوراخ دکھا کر عید و بلوچوں سے کہتا کہ ہر سوراخ بندوق کی نالی ہے اور ایک بٹن دباتے ہی ان میں سے ہزاروں سنسناتی ہوئی گولیاں نکل کر مینہ کی طرح دشمن پر برسنے لگتی ہیں۔ عیدو انہیں موٹر کی بتیاں دکھا کر کہتا کہ یہ اس کی دور بین کی آنکھیں ہیں دشمن کہیں بھی اور کتنی ہی ہوشیاری سے چھپا ہوا ہو یہ آنکھیں اسے ڈھونڈ نکالتی ہیں اور پھر اس پر گولیاں برساکر اسے ختم کردیتی ہے۔ عید و نہایت ذہین اور طرار بلوچ تھا اسی قسم کی بیسیوں داستانیں گھڑ کر ان کے ہوش اُڑاتا ۔ عید و کا پروپیگنڈہ کوہستانوں اور وادیوں میں آگ کی طرح پھیلتا گیا، جنگ جو اور بہادر بلوچ پتھروں پر اپنی رائفلیں رکھ کر حیران پریشان ایک دوسرے کا منہ تکتے رہ جاتے۔ایک مقام پر عزت نامی ایک بلوچ نے اپنے آدمیوں کے ساتھ جنرل ڈائر کا رستہ روکا۔ انہیں دیکھ کر ڈرائیور نے زور سے موٹر کا ہارن بجایا اور تیزی سے ان کی طرف موٹر دوڑائی نتیجہ یہ نکلا کہ عزّت اور اس کے آدمی حملے سے باز رہے ]تاریخ بلوچستان بہ حوالہ اثیر عبدالقادر شاہوانی، جنگ ، مڈ ویک میگزین ١٤اکتوبر٢٠٠٩ئ[۔
اگر بلوچ اس موٹر کی حقیقت سے آگاہ ہوتے تو اس پر پتھراؤ کردیتے، اس کے سامنے آگ کی خندق بچھادیتے اس کے ٹائر پنکچر کردیتے لیکن رعب، خوف و دبدبہ ۔ قرآن میں بار بار اس سے پناہ اسی لیے مانگی گئی ہے۔موٹر کار سے خوف زدہ سادہ دل بلوچ ہیبت کا شکار ہوگئے۔ وہ توڑے دار بندوق سے موٹر کے اگلے حصے کو نشانہ بناتے تو موٹر چلنے کے قابل نہ رہتی اس میں آگ لگ جاتی وہ موٹر پر چٹانیں گرا کر اسے تہس نہس کر دیتے مگر خوف، دہشت، ہیبت جب طاری ہو تو کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ دلوں پر کسی شے کا رعب قائم ہوجائے تو اسے دور کرنا محال ہوجاتا ہے۔
عہد حاضر کے جدید مسلم مفکرین ، مغرب سے مرعوب بعض راسخ العقیدہ علماء ، مغرب کی معیشت ، سیاست ، ثقافت ، تہذیب ، اقدار ، روایات ، ما بعد الطبیعیات ، ایمانیات ، اعتقادات ، مقاصد ، اہداف ، معاشرت سائنس ، ٹیکنالوجی ، سوشل سائنسز کا تنقیدی جائزہ لیے بغیر اسے غیر اقداری [Value Nutral] تصور کر کے اس کی مدح و ثناء میں مصروف بعض مشائخ اور ذرائع ابلاغیات خصوصاً برقیاتی ذرائع ابلاغ ]الیکٹرانک میڈیا[ عیدو بلوچ کا کردار ادا کررہے ہیں میڈیا کے اینکر پرسن ، کالم نگار ، صحافی عیدو بلوچ کی طرح عالم اسلام کے لوگوں کو مغرب کی سائنس ، ٹکنالوجی ، ترقی سے اسی طرح ڈرا کر مرعوب و مغلوب کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے مغرب سے واقفیت از حد ضروری ہے۔صحف ابراہیم میں عجیب قول ہے : وعلی العاقل ان یکون بصیراً بزمانہ ۔دانا شخص پر لازم ہے کہ وہ اپنے زمانے کو جاننے والا ہو۔ اور حضرت عمر کا ارشاد کہ وہ شخص دین کی کڑیاں بکھیر دے گا جو جاہلیت کی حقیقت سے واقف نہیں ہے۔ فتویٰ دینے سے متعلق جو شرائط امہات کتب میں بیان کی گئی ہیں ان میں اہم ترین شرط یہ ہے کہ مفتی اپنے زمانے سے واقف ہو ورنہ وہ جاہل ہے فھو جاھل ۔
اپنے زمانے سے واقف ہونے اور جاہلیت کی حقیقت سے آگاہ ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ حق کی شناخت، حق کی تلاش، حق کا حصول صرف اور صرف جاہلیت کے فہم پر منحصر ہے۔ لہٰذا جب تک مغرب کا فلسفہ اس کی سائنس گہرائی سے نہ پڑھی جائے اس کا ادراک، فہم اور مقابلہ ممکن نہیں بلکہ جاہلیت سے آگہی ان کے لیے ضروری ہے جو مغرب اس کے فلسفے اور اس کی سائنس کو پڑھے، جانچے، آزمائے اور جانے بغیر قبول کرلیتے ہیں اور خذ ما صفاء و دع ماکدر کے فلسفے کے تحت مغرب سے آنے والی دل پسند اشیاء کے استعمال کی بھرپور وکالت شروع کر دیتے ہیں ایسے لوگ پہلے عصر حاضر پر اس کے تعقل غالب پر روح عصر پر مغرب کے اداروں ارادوں اور اس کی مصنوعات ایجادات ترقی پر ایمان لے آتے ہیں اس کے بعد اس ایمان ویقین کی اسلامی توضیحات تصریحات تشریحات بیان کرتے ہیں ان لوگوں کے لیے مغرب کے فلسفے، مذہب اور ما بعد الطبیعیات کا مطالعہ ضروری ہے ۔ کسی شے میں کیا شے اچھی ہے کیا بری ہے، کتنے فی صد بہتر ہے ،کتنے فی صد ناقابل قبول ہے، اس کا اندازہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک شے کی ماہیت ، حقیقت ، اصلیت ، علمیت ، ما بعد الطبیعیات ، مقاصد سے واقفیت نہ ہو۔ اس لیے رسالت مآبۖ نے فرمایا کہ اے اللہ مجھے چیزوں کی حقیقت ویسی ہی دکھا جیسا کہ وہ ہیں۔ اللّٰھم ارنا الحق حقاً وارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلاً وارزقنا اجتنابہ اے اللہ ہمیں حق کو حق دکھا اور اس کی اتباع کرنے کی توفیق عطا فرما اور باطل کو باطل دکھا اور اس سے اجتناب کرنے کی توفیق عطا فرما ۔
لہٰذا جو شخص مخالف تہذیب، مذہب علم کی ہر شے کو رد کرتا ہے اس کے لیے کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوتا۔ مسئلہ اس وقت شروع ہوتا ہے جب آپ اپنے مدمقابل تہذیب مذہب کی اشیاء افکار ، علوم ، نظریات ، حاصلات ، سائنس ، ٹیکنالوجی نظریۂ افادیت کے تحت قبول اور استعمال کرنے لگتے ہیں ، کیونکہ اسلامی ، علمیت میں افادہ پرستی، مادہ پرستی اور نتائجیت پرستی [Utilitaerianism, Matrialism, Pragmatism] کی بنیاد پر فیصلے نہیں کیے جاتے فیصلوں کی بنیاد شریعت ہوتی ہے کہ مالک حقیقی کی رضا کیا ہے؟۔ جدیدیت اور لبرل ازم کا اصول یہ ہے کہ کیا ممکن ہے! اور اکثریت کو کس شے سے فائدہ ہوسکتا ہے خواہ یہ فائدہ شریعت کو مطلوب نہ ہو لیکن نفس کا خدا چاہتا ہو، اسلامی علمیت میں افادہ پرستی نفس پرستی اور حرص و ہواکے ایسے کسی نظریے کی کوئی گنجائش نہیں یہ خالص مغربی فسادات قلب ہیں ۔اسلامی علمیت میں ہر شے کو اصول پر جانچا پرکھا جائے گا کہ وہ مقاصد شریعہ کے حصول میں معاون ہے یا مزاحم ہے۔ ایک شے خلق کے لیے بے حد فائدہ مند ہے لیکن دل ،روح ، مقاصد شریعہ اور ایمان کے خاتمے کا اعلامیہ ہے تو اسے کسی صورت میں قبول نہیں کیا جائے گا چنانچہ واضح ہوا کہ خذ ما صفا و دع ماکدر یعنی جو اچھا ہے وہ لے لو اور جو برا ہے اسے ترک کردو کے فلسفہ پر عمل پیرا مکاتب فکر پر لازم ہوگا کہ اس جاہلیت جدیدہ کی علمیت ، مابعد الطبیعیات اور جدید اشیاء میں مستور خیر قلیل و کثیر اور شر کثیر و قلیل کا میزانیہ مغربی فلاسفہ و مفکرین کی تصریحات اور نصوص اسلامی کی روشنی میں قائم کریں۔ بصورتِ دیگر یہ مکاتب فکر تاریخ کے میزانیے میں ”مصیب” ]صحیح رائے تک پہنچنے والا [ قرار نہیں دیے جاسکتے۔ ٹرائے [Troy] کے گھوڑے کو استعمال کرنے والے کو اس کی باطنی، اندرونی حقیقت بھی معلوم ہونا چاہیے ورنہ یہ گھوڑا ایک تہذیب و تاریخ کوشکست دینے کے لیے کافی ہوتا ہے۔
رسالت مآبۖ اور حضرت عمر کے ارشادات کا مقصد یہی ہے کہ امت مسلمہ اپنے عہد کے عیدو بلوچ سے خبردار رہے اور کسی تہذیب سائنس، ٹکنالوجی اورکسی قوم سے مرعوب نہ ہو۔یہ اسی وقت ممکن ہے کہ ہم ہر عہد کے عیدو بلوچ سے واقف ہو ں جو ہر شعبہ زندگی میں داخل ہو کر مغرب کی سائنس اسلحہ، مغرب کی ترقی،اس کے اداروں اس کے مقاصد ، اس کی چکا چوند ، اس کے طریقوں اس کی ترقی اس کی طاقت ، برتری ، بلندی ، عظمت ، عروج و اقبال کے قصیدے سنا کر اس جھوٹ ، فریب ، ملمع اور دجل سے عالم اسلام کو خوف زدہ کرنے میں مصروف ہیں لہٰذا مغربی سائنس اور فلسفہ پڑھنا ضروری ہے تاکہ کفر کی حقیقت سے آگہی ہو۔اس آگہی کے بغیر عہد حاضر کے پیدا کردہ سوالات کا جواب دیتے ہوئے نہایت توجہ، احتیاط اور توقف کی ضرورت ہے تاکہ دین کی ایسی تعبیر و تشریح سامنے آسکے جو مقاصد شریعہ کو ممکن بناسکے عجلت میں دی جانے والی رائے اسلامی روایت کو کم زور کرنے کا باعث بن سکتی ہے ہماری علمی تاریخ احتیاط، توازن اور توقف کی تاریخ ہے عجلت کی تاریخ نہیں عجلت علم کی دنیا کے لیے نا قابل قبول رویہ ہے ۔اسی لیے حضرت عبداللہ بن عمر فتویٰ دینے میں احتیاط برتتے اور بلاتکلف لا ادری فرما دیتے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے کہ میں نہیں جانتا کہنا نصف علم ہے۔ امام مالک سے چالیس مسئلے پوچھے گئے، آپ نے صرف آٹھ کا جواب دیا اور بقیہ بتیس مسائل کے بارے میں فرمایا لا ادری سائل نے کہا میں چھ سو میل سفر طے کر کے آیا ہوں اگر آپ نہیں جانتے تو پھر کون جانے گا۔ فرمایا ملائکہ کہتے ہیں لاعلم لنا الا ما علمتنا۔ یہ رویہ ، مزاج ، اسلوب ، دیانت عہد حاضر میں کیوں مفقود ہوگئی ہے۔ ہم ہرسوال کا جواب دینا کیوں ضروری سمجھتے ہیں جس کے بارے میں ہم آگہی نہیں رکھتے۔ کیا ہمارارویہ اسلامی علمیت، دیانت اور ایمان سے ہم آہنگ رویہ ہے.
تحریر : حقیقت Reality کیا ہے؟ یہ کون بتائے گا؟ منشائے کلام متکلم بتائے گا یا کوئی اور؟ سید خالد جامعی
بشکریہ الواقعۃ شمارہ ٣ ,سیّد خالد جامعی ( کراچی یونی ورسٹی ،کراچی )۔یہ ضمون جریدہ “الواقۃ” کراچی کے شمارہ، شعبان معظم 1433ھ/ جون، جولائی 2012- سے ماخوذ ہے۔

Leave Your Comment

Your email address will not be published.*

Forgot Password