سائنس، معقولیت اورحتمی سچائی

ہم میں سے اکثر احباب سائنس کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں کیوں کے سائنس انکے نزدیک سچ تک پہنچنے کا واحد اور بہت ہی ویلڈ ذریعہ ہے ۔جبکہ سائنس بہت ہی کمزور ریزننگ پر کھڑی ہے اور وہ ریزننگ ہے انڈیکشن یعنی استقراء ۔اس عمل میں آپ کیا خطا کرتے ہیں اس کی وضاحت میں ایک مثال سے کرتا ہوں ۔ایک شخص ایسے گاؤں میں پیدا ہوتا ہے جس میں کوے سیاہ رنگ کے ہوتے ہیں وہ بہت عرصہ وہاں رہتا ہے اور اپنے روز مرہ کے مشائدے سے یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ تمام کوے کالے ہوتے ہیں مگر کچھ عرصے بعد اس کا گزر ایک ایسے علاقے سے ہوتا ہے جہاں کوے سفید گردن والے ہوتے ہیں وہ اپنا نتیجہ ڈیولپ کرتا ھے اور بدل دیتا ہے کچھ کوے کالے ہوتے ہیں اور کچھ سفید گردن والے۔ پھر کچھ عرصے بعد اس کا گزار ایک ایسے علاقے سے ہوتا ہے جہاں کوے سفید ہوتے ہیں ایک مرتبہ پھر وہ اپنا نتیجہ بدلتا ہے پھر سے ڈیولپ کرتا ھے کچھ کوے سفید ہوتے ہیں کچھ کالے اور کچھ سفید گردن والے ہوتے ہیں۔ یہ وہ طریقہ کار ہے جس سے سائنس اگے بڑھتی ہے۔آپ نے دیکھا کے ہر دفعہ اس شخص کو یہ گمان ھوا کے وہ مکمل سچ پے کھڑا ہے مگر ہر دفعہ اسے اپنا نتیجہ بدلنا پڑا ۔یہی وہ وجہ تھی کے ڈیوڈ ہیوم نے تمام سائینسی علمیت کو نہ صرف چیلنج کیا تھا بلکہ اس نے کہا تھا کے یہ ساری بنیاد جن تجربات پہ کھڑی ہے وہ آنے والے کل اگر غلط ثابت ہو جاتے ہیں تو یہ ساری عمارت دھڑم سے نیچے آ گرے گی ۔
میں یہ نہیں کہتا کے سائنس پر بالکل اعتبار نہیں کرنا چاہيے بلکہ میرا کہنا یہ ہے کہ حقیقت تک پہنچنے کے لئے یہ کوئی ویلڈ یا ایتھینٹک وے آف ریزننگ نہیں ہے بلکہ ہر اسٹیج پر آپکو یہ گمان ہو گا کہ آپ مکمل سچ پے کھڑے ہیں مگر آپ ادھورے ہوں گے ۔ مزید سائنس حقیقت کی تلاش کا واحد راستہ نہیں بلکہ اس کی تلاش کے اور بھی کئی راستے ہیں، سائنس کی ایک اور کمزوری یہ ہے کہ یہ ‘جز’ کے بارے میں تو بتا سکتی ھے مگر’ کل ‘اسکی حدود سے باہر ہے ۔

کیا سائنس واقعی حقیقت کی تلاش میں ھے؟
جدید سائنس کے بارے میں یہ غلط العام تصور پایا جاتا ھے گویا یہ حقیقت کی تلاش کا کوئی دائرہ ھے، یعنی سائنس تلاشِ حقیقت میں سرکرداں ھے۔ یہی مفروضہ اسلام اور سائنس کی پیوندکاری کی بنیاد فراھم کرتا ھے کہ چونکہ یہ تلاش حقیقت میں سرکرداں ھے اور اسلام بھی حقیقت ھے لہذا سائنس اس حقیقت کو پالے گی جسے اسلام حقیقت کہتا ھے۔ اگر آج سائنس کوئی ایسی بات کہہ رھی ھے جو بظاھر قرآن کے خلاف ھے تو کل کلاں کو مزید تحقیق کے نتیجے میں ترقی کرکے وہ یقینا اپنی اصلاح کرلے گی۔مگر اسلام اور سائنس کی یہ پیوندکاری جس مفروضے پر قائم ھے وہ مفروضہ ہی محل نظر ھے۔
جدید سائنس نہ تو کسی حقیقت کی تلاش میں ھے اور نہ ہی اسے پریکٹس کرنے والے ماھرین کی اکثریت کو اس امر سے کوئی سروکار ھوتا ھے۔ جدید سائنس صرف ایک فنکشنل (”کام چلانے”) والی شے ھے اور بس، اس علمیت کا کام تسکین لذات کیلئے نت نئی ایجادات کو فروغ دیکر سرمائے میں مہمیز اضافے کے نظام کو ممکن بنائے رکھنا ھے۔ گویا سائنسی علمیت حقیقت کی ”تلاش” نہیں بلکہ ایسی حقیقت ”تخلیق” کرنے کا دائرہ ھے جسے جدید انسان پسند کرتا ھے۔یہاں بہت سی ایسی تحقیقات اور اشیاء تخلیق ہوتی ہیں جو بظاھر انسانوں کیلئے مفید ھوسکتی ہیں اس لئے نہیں چل پاتیں کہ وہ نفع آور نہیں ھوتیں۔ چنانچہ سائنس اور سرمایہ داری کے درمیان چولی دامن کا ساتھ ھے، بغیر نفع آور فنڈنگ سائنس ممکن نہیں۔ یہاں چلتی وہ بات ھے جو نفع آور ھو، اگرچہ اپنے دور رس اثرات کے اعتبار سے وہ نقصان دہ ہی ھو۔ اس تگ و دو کے دوران اگر سائنسی علمیت سے کوئی ایسی بات معلوم ھوجائے جو بظاھر اسلام کے مطابق ھو تو یہ ایک حادثہ ھوتا ھے کہ اصولا یہاں جس قدر امکان ان میں مطابقت کا ھوتا ھے اسی قدر امکان مخالفت کا بھی ھوتا ھے۔لہذا سائنس کی کسی بات کو قرآن کے حق یا اسکے خلاف پیش کیا جانا اصولا دونوں ہی بے معنی باتیں ہیں۔
سائنس کی فوقیت کے اس تصور کی ایک وجہ یہ پیش کی جاتی ہے کہ ‘چونکہ سائنس کام کرتی ہے لہذا یہ ٹھیک ہے’ ۔ یہ ایک نہایت لغو علمی دلیل ھے کیونکہ کسی شے کا ‘کام چلاسکنا’ اور اسکا ‘ٹھیک ھونا’ دو الگ الگ چیزیں ہیں اور ان میں کوئ منطقی ربط نہیں۔ سائنس میں ایک نظریہ سالہا سال تک ٹھیک سمجھا جاتا رھتا ہے، سائنس دان اسے پڑھتے پڑھاتے رھتے ہیں، لیکن پھر سائنس کی دنیا میں وہ نظریہ چنداں متروک ہوجاتا ھے لیکن ماضی کے ان تمام غلط ترین حسابات و تجربات کے باوجود اسی غلط نظرئیے کے تحت بے شمار ایجادات بھی ہوتی رہتی ہیں جن سے لوگوں کے ‘کام چلتے رھتے ہیں’۔تمام سائنسی علوم اس قسم کی مثالوں سے بھرے پڑے ہیں۔معلوم ھوا کہ سائنس کے ورک کرنے کیلئے اسکا ٹھیک ہونا نہ تو ضروری ہے اور نہ ہی کافی (neither necessary nor sufficient)، یہ بس کام چلانے کا ایک طریقہ ھے، چونکہ کام چل رہا ہے لہذا لوگوں کو یہ بھلی معلوم ہورہی ھے،لیکن نادان لوگ اس کے ‘اس کام چلانے کی صلاحیت’ کو اسکے ‘ٹھیک ہونے کا پیمانہ’ سمجھے بیٹھے ہیں۔سائنس میں سچائ اور حقیقت کا کتنا عنصر ہے یہ خود سائنسدانوں کو بھی معلوم نہیں ہوتا، جدید مغربی سائنس کا اصل میدان ‘تلاش حقیقت’ اور ‘تفہیم کائنات’ نہیں، بلکہ نفس انسانی کی تسکین کیلئے ‘تخلیق حقیقت’ ھے، یعنی یہ ذھن انسانی سےابلنے والے لہو لعب کو مادی پیکر میں ڈالنے، انسانی خوہشات کو کائنات پر مسلط کرنے نیز سرمائے میں لامحدود اضافہ کرنے کے امکانات بڑھانے کا دائرہ ھے۔ سائنس درحقیقت اٹکل پچو سے کام لینے کا دوسرا نام ھے، کبھی یہ اٹکل پچو چلتے ہیں اور کبھی نہیں۔پھر موجود سائنس کی اس workability کی قیمت پوری نوع انسانی ماحولیاتی الودگی، لاتعداد بیماریوں اور معاشرتی بگاڑ کی صورت میں چکا رہی ھے؟ چنانچہ science works, but at an irreparable cost۔یہ بات اب پایہ تکمیل کو پہنچ چکی ھے کہ ٹیکنوسائنسز کے تحت تکمیل خواہشات کائنات کے وجودیاتی ڈھانچے سے ھم آھنگ نہیں ھے۔اس عہد کے انسان کا المیہ یہ ھے کہ ہر فرد اپنی انفرادی لذت اور ذاتی جنت کی تعمیر و تشکیل کیلئے اس دنیا کو اجتماعی جہنم میں تبدیل کررہا ھے۔
آج جب ہمارے یہاں کے جدیدیت پسند اور نام نہاد عقل پرست حلقے سائنس کی عظمت کا راگ الاپ رھے ہیں، اسے غیر اقداری نیز حقیقت و اقدار کی تلاش و اثبات کا حتمی ذریعہ اور نجانے کیا کیا سمجھ رھے ہیں، دوسری طرف خود مغرب کے سنجیدہ علمی حلقوں میں سائنس اپنی علمی قدروقیمت کھو رھی ہے،آج اسکی علمی حیثیت سرمایہ دارانہ ریاستوں اور کارپوریشنز کی زرخرید لونڈی سے زیادہ اور کچھ نہیں رہی۔ ذیل میں اس سائنس کی منظر کشی کی گئ ھے جو ”حاضروموجد” ھے۔
Science has no special features that render it intrinsically superior to other branches of knowledge such as ancient myths or Voodoo. There is no timeless and universal conception of science or scientific method which can serve the purpose of defending science as superior body of knowledge because there is no ready-made criterion of scienticity. The popular misconception that science is an impersonal, dispassionate and thoroughly objective enterprise is manifest nonsense. Science is a people driven activity like all human endeavors, and just as subject of fashion and whim. Growth in science is largely driven by the social, political, cultural and financial priorities of capitalists who fund science.
While the state-religion dichotomy was justified at the name of freedom, the same kind of oppressive relationship is now celebrated in modern societies between state-and-science. A high regard for science in modern societies is like that for modern religion, playing a similar role to that played by Christianity in Europe in early eras. The choice between theories boils down to choices determined by the subjective values and wishes of individuals. Bacon in the early seventeenth century proposed that the ultimate objective of science is the fulfillment of infinite human wants on earth, of course this was no more than a subjective choice of modern man. Those who recourse to prove the superiority of science by pointing out its relative success to achieve its own declared objective (fulfillment of human wants) are stuck in the fallacy of circular argument.
[See for details:
(1) Feyerabend, “Against Method: Outline of an Anarchistic Theory of Knowledge”
(2) Feyerabend, “How to Defend Society Against Science”
(3) Feyman, “Six Easy Pieces: Essentials of Physics Explained by its most Brilliant Teachers”
(4) Kuhn, “Structure of Scientific Revolution”
(5) Chalmers, “What is this Called Science?”
(6) Lakatose, “Falsification and Scientific Research Program”
(7) Ziauddin Sardar, “How Do You Know? Reading Ziauddin Sardar on Islam, Science and Cultural Relations”]
تحریر زاہد سرفراز، ڈاکٹر زاہد مغل

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password