کچھ انبیاء کاذکرتاریخ میں موجودنہیں ۔موسیٰ محض ایک کردارتھا،کوئی حقیقی شخصیت نہیں۔

اعتراض: ۔ کچھ انبیاء کا ذکر تاریخ میں موجود نہیں ۔ اس کی وجوہات کیا ہیں ؟ بعض تاریخ دانوں کے مطابق حضرت موسیٰ ساڑھے تین ہزار سال پہلے ]پندرہ سو سال قبل مسیح[ تشریف لائے تھے۔]جدید تاریخ داں کہتے ہیں کہ موسیٰ محض ایک کردار تھا، کوئی حقیقی شخصیت نہیں[
جواب :پہلے تو یہ عرض کر دوں کہ تاریخ میں کچھ انبیاء نہیں بلکہ کسی بھی نبی کا ذکر موجود نہیں ماسوائے چند ایک کے ۔ نبیوں کے اذکار زیادہ تر آپ کو مذہبی کتابوں میں ہی ملیں گے ۔اس کی وجہ کیا ہے یہ میں آپ کو سمجھاؤں گا ۔ مگر پہلے یہ سمجھ لیں کہ تاریخ کیا ہوتی ہے اور تاریخ دان کسے کہتے ہیں ۔
ہماری غلطی یہ ہے کہ جب ہم کسی علم سے متعلق بات کرتے ہیں تو یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ شائد یہ کوئی غیر انسانی قسم کا نظام ہے جو اس علم کی بابت جو بھی بات کرے گا مستند ہو گی ۔مثلاً ہم اکثر کہتے ہیں کہ سائنس کہتی ہے یا تاریخ بتاتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں سائنس کہتی ہے یا تاریخ بتاتی ہے سے مراد یہ نہیں ہوتی کہ یہ کوئی غیر انسانی قسم کا مستند نظام ہے جس میں غلطی کی گنجائش نہیں ہے ۔ بلکہ ہوتا یوں ہے کہ سائنس کے علم سے متعلق کچھ انسان ایک معاملے پر ریسرچ کرتے ہیں ۔ اسے انسانوں کی دیگر جماعت کے سامنے رکھتے ہیں ۔ جب اسے تسلیم کر لیا جاتا ہے تو اس کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ سائنس یہی کہتی ہے ۔یہی معاملہ قدرے فرق کے ساتھ تاریخ کا بھی ہے ۔
ایک بات تاریخ کے حوالے سے یہ بھی سمجھی جاتی ہے کہ تاریخ ہمیشہ غیر جانبدار ہوتی ہے اور ہمیشہ سچ بیان کرتی ہے ۔ حالانکہ یہ دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ ہے ۔
تاریخ دان کوئی بھی ہو وہ غیر جانبدار نہیں ہوتا ۔ وہ ہر واقعے کو ایک خاص تناظر میں دیکھتا ہے اور اگر اسے لگے کہ یہ واقعہ صحیح حقائق کے ساتھ لوگوں تک پہنچا دینا اس کے یا اس کی قوم کے لیئے مناسب نہیں ہے تو وہ اس میں من چاہی تبدیلیاں بھی کر لیتا ہے ۔زیادہ دور کی مثال نہیں دوں گا ۔ ابھی محض 25 سال گزرے ہیں موغادیشو کی لڑائی کو ۔
1993 کے دور میں سومالیہ میں کشیدگی جاری تھی ۔ وہاں کی فوج دو حصوں میں تقسیم ہو کر آپس میں لڑ رہی تھی ۔ اقوام متحدہ کی فورسز جن میں پاکستانی فوج کے دستے بھی موجود تھے وہاں عام عوام کو بچانے اور ان کے لیئے خوارک وغیرہ اتارنے کے لیئے کوشاں تھے ۔ عوام دو گروپوں کی لڑائی میں بری طرح پس رہی تھی ۔
ایسے میں امریکہ کو خبر ملی کہ باغیوں کا سردار فرح ادید کسی میٹنگ کے سلسلے میں موغادیشو کے اولمپک ہوٹل میں موجود ہے ۔ امریکہ نے فوراً ایک پلان بنایا اور اس ہوٹل پر ریڈ کر کے اسے گرفتار کرنے کے لیئے اپنی تین فورسز کو تعینات کیا ۔ ڈیلٹا فورس, یو ایس رینجرز اور امریکن کوئیک رسپونس فورس اس کا حصہ تھیں ۔ 160 سے زیادہ فوجی اور 16 ائر کرافٹ اس مشن کے لیئے اس ہوٹل کی طرف روانہ ہوئے ۔ دشمن کی طاقت سے بے خبر یہ امریکی فوجی دستے وہاں ایسے طمطراق کے ساتھ گئے جیسے کوئی بکری کا بچہ پکڑنے جا رہے ہیں ۔ اس آپریشن کے لیئے وقت کا اندازہ 45 منٹ لگایا گیا تھا بالکل ایسے جیسے 3 ماہ میں افغانستان فتح کرنے کا دعویٰ تھا ۔ یعنی ان کو لگا تھا کہ امریکی فوجی 45 منٹ میں اس ادید کو گرفتار کر کے لے آئیں گے جو اپنے آپ کو سومالیہ کا حکمران کہلواتا ہے ۔
امریکہ کے بلیک ہاک ہیلی کاپٹرز نے اس ہوٹل کی نزدیکی سڑک پر رسیوں کے ذریعے اپنے فوجی اتارنے شروع کیئے ۔ جب کافی سے زیادہ فوجی وہاں اتارے جا چکے تو جانے کہاں سے دو راکٹ لانچر فائر ہوئے اور دو بلیک ہاک ہیلی کاپٹرز تباہ ہو گئے ۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا اسے لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے ۔ ہر طرف سے امریکی فوجیوں پر فائرنگ شروع ہو گئی ۔ جو شکار کھیلنے آئے تھے وہ خود شکار بننا شروع ہو گئے ۔
ایک ہیلی کاپٹر کا پائلٹ گرفتار ہو گیا اور باقی فوجیوں نے آس پاس کی عمارتوں میں پناہ لے کر جان بچانے کی جدوجہد شروع کر دی ۔امریکی فوج کی جو گراؤنڈ فورسز زمینی راستوں سے اس علاقے کی طرف بڑھ رہی تھیں انہوں نے جب حالات اپنی سوچ سے زیادہ کشیدہ دیکھے تو بجائے اس کے کہ وہ بہادری کے ساتھ اپنے ہی ہم وطن فوجیوں کو بچانے کے لیئے اپنی جانوں کو جوکھم میں ڈالتے بھاگنے میں ہی عافیت سمجھی اور واپس چلے گئے ۔ ہیڈ کوارٹرز پہنچ کر انہوں نے اپنے حکام کو صفاچٹ جواب دے دیا کہ کچھ فوجیوں کی جان بچانے کے لیئے مزید فوجیوں کو خطرے میں نہیں ڈالا جا سکا ۔ مجبوراً امریکی حکام کو پاک فوج کی کوئیک رسپانس فورس جو اسی علاقے کے آس پاس موجود تھی سے مدد کی درخواست کرنی پڑی ۔ اس وقت تک امریکی فوجیوں کو وہاں پھنسے ہوئے تین گھنٹے گزر چکے تھے ۔ٹیکنالوجی کے بل پر سپر پاور بن جانا کمال نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیئے اس بہادری کی ضرورت بھی پڑتی ہے جو پاک افواج کے پاس بدرجہ اتم موجود ہے ۔
پاک افواج کے دستے حرکت میں آئے اور ٹینکس اور بکتر بند گاڑیوں کے ساتھ اس علاقے کی طرف پیش قدمی شروع کر دی ۔ جس تنگ سی گلی میں امریکی فوجی عمارتوں میں پناہ لے کر جان بچانے کی کوششوں میں مصروف تھے اس میں پاک فوج کے ٹینکس داخل ہوئے ۔ پوری رات شدید لڑائی جاری رہی ۔ اتحادیوں کے 18 افراد موت کے گھاٹ اتر گئے جن میں 15 امریکی فوجی اور تین پاک فوج کے جوان بھی شامل تھے جنہوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیئے ۔ پاک فوج نے پوری رات لڑ کر ان عمارتوں سے ایک ایک امریکی فوجی کو نکالا اور اپنی بکتر بند گاڑیوں میں پناہ دی ۔ 70 سے زائد امریکی شدید زخمی ہو چکے تھے اور ان کے پاس موجود اسلحہ بھی ختم ہو چکا تھا ۔ جن آنکھوں کو موت نظر آچکی تھی انہوں نے جب اپنے آس پاس اپنے اتحادیوں کی بکتر بند گاڑیاں دیکھیں تو سکون کا سانس لیا ۔
رات بھر کی لڑائی کے بعد صبح تک پاک فوج کے یہ دستے تمام امریکی فوجیوں کو متاثرہ علاقے سے نکالنے میں کامیاب ہوئے ۔ جب یہ دستے پاکستانی کیمپ میں پہنچے تو امریکی فوجیوں کی جذباتی کیفیت یہ تھی کہ وہ کیمپ میں لگے سبز و سفید پرچموں کو سیلیوٹ مارنے میں مصروف تھے ۔ زخمیوں کے چہروں پر پاکستانی فوجیوں کے لیئے خوشی اور تشکر کے تاثرات تھے ۔
لیکن ۔ ۔کیا یہ واقعہ ایسے ہی ہوا تھا جیسا میں نے بیان کیا ہے ؟
پاکستانی جرنیلوں نے اس واقعے کو ایسے ہی بیان کیا ہے مگر اگر آپ اسی موضوع پر بننے والی ہالی ووڈ فلم Black hawk down دیکھیں تو آپ کو کہانی مختلف ملے گی ۔امریکہ کے لیے یہ ایک سیاہ ترین واقعہ ہے جس پر اس وقت کے صدر بل کلنٹن کو شدید ترین تنقید کا سامنا کرنا پڑا ۔ بوسیدہ پلاننگ, حالات سے واقفیت نہ ہونا اور حماقت سے بھرپور اس فیصلے کو کسی حد تک اخلاقی حدود میں لانے کے لیئے واقعے کے مندرجات میں تبدیلی کی گئی اور دنیا کو یہ جتانے کی کوشش کی گئی کہ امریکی فوجی بے خبری میں پھنس چکے تھے مگر وہ انتہائی کڑی جدوجہد کر کے وہاں سے “اپنے زور بازو” پر نکل جانے میں کامیاب رہے اور اپنے قریب ترین اتحادی پاکستان کے کیمپوں میں پناہ لی ۔ پاکستانیوں نے “ہاسپٹالیٹی” کی سہولیات فراہم کیں ۔آپ بلیک ہاک ڈاؤن فلم دیکھ لیں ۔ اس میں بھی آپ کو یہی سب کچھ ملے گا ۔
یہ میں نے آپ کو کوئی تین ساڑھے تین ہزار سال پرانا قصہ نہیں سنایا بلکہ یہ محض 25 سال پرانا واقعہ ہے ۔ آج آپ کے لیئے فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ کون سچ بول رہا ہے اور کون جھوٹ ۔ اس واقعے پر پاکستانی تاریخ جو کچھ مرضی کہتی رہے مگر مستند تاریخ وہی تسلیم کی جائے گی جو امریکہ بتا رہا ہے ۔ کیوں کہ طاقت امریکہ کے پاس ہے لہٰذا وہی سچا بھی ہے ۔ پاکستان کا فرض ہے کہ وہ دوست ہونے کی حیثیت سے دوسرے دوست کی بےعزتی والی باتوں پر خاموشی اختیار کرے ۔
یہی بات میں نے ابھی کچھ عرصہ پہلے اپنی پوسٹ “ابرہہ کے ہاتھی” میں بھی بیان کی تھی ۔ ابرہہ کی پوری تاریخ موجود ہے لیکن اس کے مرنے کا واقعہ بیان نہیں کیا گیا ۔ ابرہہ کی تاریخ 552 عیسوی کے بعد خاموش ہو جاتی ہے ۔ پھر اگلی تاریخ اس بات سے شروع ہوتی ہے کہ ابرہہ کے بعد اس کے بیٹوں نے حکومت سنبھال لی ۔ ابرہہ کا کیا بنا یہ کسی تاریخ دان نے نہیں لکھا ۔ یمن کے تاریخ دان اگر لکھتے تو کیا لکھتے ؟ کہ ہمارا بادشاہ خانہ کعبہ ڈھانے گیا تھا اور اللہ کے عذاب کا شکار ہو گیا ؟
یہ بھی کوئی لکھنے والی بات ہے ؟ وہ بھی ابرہہ کے بیٹوں کی حکومت کے زیر سایہ ۔ جان سب کو پیاری ہوتی ہے ۔ لہٰذا اس واقعے میں یمن کی تاریخ خاموش ہے اور مذہب کی تاریخ جانبدار ہی کہلائے گی ۔ابرہہ کی موت کے واقعے کی صداقت کا سب سے بڑا ثبوت میں نے یہ بیان کیا تھا کہ اس واقعے کے محض چالیس سال کے عرصے میں تمام یمن کی ریاستوں نے بغیر کسی جنگ کے اسلام قبول کر لیا اور اس قران پر ایمان لے آئے جو ان کے بادشاہ کی موت کا حال کھل کر بیان کر رہا تھا ۔
اب آپ کیا کہیں گے کہ تاریخ نے یہ واقعہ بیان نہیں کیا لہٰذا واقعہ ہی جھوٹا ہے ؟
اس واقعے کے سب سے بڑے گواہ تو یمنی تھے ۔ انہوں نے کلمہ پڑھ کر اسلام قبول کر لیا ۔
موسیٰ علیہ السلام کا ذکر بھی تاریخ میں موجود نہیں ہے اور فرعون کی ممی تو اہرام مصر سے برامد ہوئی ہے ؟موسیٰ علیہ السلام کا ذکر کیوں ہونا چاہیئے تھا تاریخ میں ؟ کیا فرعون اور اس کے لشکر کے نیل میں ڈوبنے کے بعد مصر پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی حکومت آگئی تھی ؟جی نہیں ۔ موسیٰ علیہ السلام تو آگے نکل گئے تھے ۔ فرعون کے مرنے کے بعد اس کا بھی کوئی بیٹا اقتدار پر قابض ہو گیا ہو گا ۔ اب لکھ لو آپ تاریخ کہ اس کا باپ کیسے مرا تھا ؟
کیسے لکھیں گے ۔وہ آپ کو یہ بھی لکھنے نہیں دے گا کہ موسیٰ نام کا کوئی بندہ کبھی اس دنیا میں آیا تھا ۔فرعون کی لاش بجائے دریائے نیل سے ملنے کے بجائے اہرام مصر سے دریافت ہوئی تھی ؟تو اور اسے کہاں سے دریافت ہونا چاہیئے تھا ؟دریائے نیل سے ؟
سائنس کا یہ اصول تو ہر شخص جانتا ہے کہ انسان اس وقت تک ڈوبتا ہے جب تک زندہ ہے ۔ جب مر جاتا ہے تو لاش سطح پر تیرنے لگتی ہے ۔عموماً ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جب موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کے لوگوں کو لے کر مصر سے نکلے تھے تو پوری کی پوری مصر کی سلطنت اپنے بادشاہ سمیت موسیٰ علیہ السلام کے پیچھے لگ گئی تھی اور سارے کے سارے نیل میں ڈوب گئے تھے ۔پھر تو موسیٰ علیہ السلام کو مزید آگے بھاگنے کی ضرورت ہی نہیں تھی ۔ واپس آکر مصر کی حکومت سنبھال لیتے ؟
چالیس سال تک بنی اسرائیل بھٹکتے رہے تھے صرف ایک ملک کی خاطر کہ جہاں رہائش اختیار کر سکیں ۔ کیوں ؟ مصر واپس کیوں نہ چلے گئے ؟ وہ تو خالی پڑا تھا ؟ ان سب نے تو نیل کی تہہ میں رہائش اختیار کر لی تھی ؟ ایسے ڈوبے کہ پھر سائنس کا کوئی قانون بھی انہیں باہر نہ نکال سکا ؟
ایسا نہیں ہے ۔
فرعون نے اپنے ایک لشکر کے ساتھ موسیٰ علیہ السلام کا پیچھا کیا تھا ۔ جب وہ لشکر فرعون سمیت ڈوب گیا تو ظاہر ہے اس کی اطلاع مصر میں موجود حکام کو ہوئی ہو گی ۔ انہوں نے نیل کے کنارے مزید لوگ بھیجے ہوں گے تو انہوں نے اپنے بادشاہ کی لاش کو پانی پر تیرتا پایا ہو گا ۔ اس وقت انہیں کیا کرنا چاہیئے تھا ؟کیا لاش کی ٹانگ کے ساتھ پتھر باندھ کر واپس ڈبو دیتے ؟انہوں نے وہی کیا جو باقی بادشاہوں کی لاشوں کے ساتھ مصر میں کیا جاتا تھا ۔ اس کی لاش کو حنوط کر کے ممی بنا دی ۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں تاریخ دانوں کو کیا لکھنا چاہیئے تھا ؟کہ ایک شخص تھا جو مردوں کو زندہ کر لیا کرتا تھا ؟ ازلی اندھے کو بینائی دے دیا کرتا تھا ؟ کوڑھی کو شفا دے دیا کرتا تھا ؟مگر ۔
مگر یہودیوں نے اسے پھانسی پر چڑھا دیا ۔ یہودی اسی صلیب پر اس تاریخ دان کو بھی پھانسی پر چڑھا دیتے کہ وہ تو مردوں کو زندہ کرتا تھا ہم زندوں کو مردہ کر دیتے ہیں ۔
قبر میں بیٹھ کر لکھنا یہ الٹی سیدھی باتیں ۔
تحریر محمد سلیم

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password