جدت پسندوں کےملحدین کیلیےعذرکےدلائل

ملاحدہ کے “حق جنت” کو محفوظ رکھنے کے لیے “جدید محققین” کا اسلوب کچھ یوں ہوتا ہے: “اگر کوئی شخص پورے خلوص کے ساتھ تحقیق کرنے کے بعد بھی وجود باری تعالی پر کوئی قابل اطمینان دلیل نہ ملنے کی وجہ سے اس کا انکار کرے تو اسے معاف کردیا جائے گا.”یعنی وجود باری تعالی کوئی ایسا خفیہ، پیچیدہ و مشکل امر ہے جس میں “پورے خلوص” اور “تحقیق” کے بعد بھی گمراہ رہنے کا امکان موجود ہے، سبحان اللہ۔ بھائی ذرا غور تو کرو کہ تم کیا کہہ رہے ہو۔ اس قدر واضح مسئلے میں غلطی لگنے کی دو ہی وجوہات ہوسکتی ہیں، ایک بدنیتی (یعنی خلوص نہ ہونا) اور دوسرا بدفہمی و عدم تحقیق (یعنی تحقیق نہ کرنا)۔ جب دونوں ہی موجود تھے تو غلطی لگنے کا کیا مطلب؟ الغرض “خلوص و تحقیق” کے ساتھ خدا کے وجود کا انکار، ایں خیال است محال است و جنوں۔ خدارا وجود باری تعالی جیسے واضح مسئلے پر ایمان اور کفر کے امکان کو “خلوص اور تحقیق” کی صفوں میں مساوی تو نہ کھڑا کیجیے، کہ ان کی موجودگی کے باوجود دونوں کا امکان مساوی ہے۔
ایمان اپنی ذات میں عقل (rationality) ہے اور کفر حماقت (irrationality)، اور ہمارے ان حضرات کا فرمانا ہے کہ خلوص و تحقیق کے باجود بھی دونوں کے ظہور کا امکان مساوی ہے، کیا کہنے ان کی فکری پیراڈئم کے۔ کفر (وہ بھی وجود باری تعالی جیسی بدیہی حقیقت کے انکار) کی کوئی “پرخلوص اور محققانہ” توجیہ ممکن نہیں، کفر (irrationality) اپنی ذات میں کج روی اور کج فہمی ہی کا اظہار ہوتا ہے۔ جس طرح دن اور رات مساوی نہیں، اسی طرح خلوص اور تحقیق کے بعد ایمان اور کفر کا امکان مساوی نہیں، یہ بات خود اللہ تعالی کی بیان کردہ سکیم ہی کے خلاف ہے۔ جو کوئی خلوص نیت کے ساتھ خدا کی طرف متوجہ ہو، اس کا رب اسے گمراہیوں کی وادیوں میں بھٹکنے کے لیے تنہا نہیں چھوڑا کرتا۔ پس اس معاملے میں جو کوئی یہاں گمراہ ہے تو سمجھ لیجیے کہ اس کی نیت و تحقیق میں لازما کج روی شامل ہے۔ چنانچہ خلوص و تحقیق سے ماوراء کوئی تیسرا عذر تراشیے کیونکہ یہ دلیل اپنی وضع میں ہی باطل ہے۔
خدا (کائنات کا ایک خالق) ہے” ان معنی میں اس کائنات کا ایک واضح ترین ثابت شدہ قضیہ ہے کہ یہ اس کائنات اور انسان کی سب سے زیادہ قرین قیاس توجیہ ہے۔ جو اس قضیے کا منکر ہے، بار ثبوت اس کے ذمے ہے کہ وہ انسانی ذہن و قلب کے لیے اس کائنات کے بارے میں اس سے زیادہ قرین قیاس و اطمینان بخش توجیہ پیش کرے۔ ایسی کوئی توجیہ کبھی موجود تھی اور نہ ممکن ہے، ایسی ہر توجیہ ایک وہم ہے اور اس توجیہ پر ڈٹے رہنا ضد و سرکشی کی علامت ہے۔ لوگ اس سرکشی کا شکار متعدد وجوہ کی بنا پر ہوتے ہیں، مثلا اپنے ماضی کے بعض برے تجربات کی بنا پر، اہل مذہب سے نفرت کی بنا پر، کسی غلط دلیل کی بنا پر اور یا پھر “الحاد کے فیشن” سے متاثر ہو کر (اکثریت کا تعلق اس آخری قبیل سے ہے)۔ خدا کا انکار کرنا اس کائنات کی سب سے بڑی حماقت ہے، یعنی یہ اپنی ذات میں حماقت (irrationality) ہے، کیونکہ یہ “اپنے وجود کی حقیقت” (کہ میں مخلوق ہوں) کی نفی ہے،اور حماقت کی کوئی عقلی توجیہ ممکن نہیں، ہاں یہ بوجہ “نفسیاتی عوارض” ممکن ہے۔
پس جو شخص مثلا ڈاکنز کی طرح سب کچھ پڑھ لکھ اور سمجھ چکنے کے بعد بھی یہ کہے کہ “میں خدا کے وجود پر مطمئن نہیں ہوسکا” تو یہ صرف اس کی فطرت و عقل کے مسخ ہوچکنے کا اظہار ہوتا ہے، نہ کہ کوئی “عقلی ابہام” وغیرہ۔ ایسا شخص بد نصیب ہونے کے ساتھ ساتھ ان معنی میں قابل رحم بھی ہے کہ اپنی فطرت کو یوں آخری درجے تک مسخ کرلینا، یہ کوئی آسان کام تھوڑی ہے۔ ایسے شخص کے ایمان کے لیے دل سے “دعا” کرنے کا حکم ہے نہ کہ اسے اپنے کفر و الحاد پر مطمئن ہوکر خدا سے مناظرے کا موقع مل سکنے کی امید دلانے کا کہ گویا “آپ ماشاء اللہ نہایت نارمل نفسی کیفیت کا شکار ہیں، کوئی ٹینشن کی بات نہیں ہے، بس اللہ سے مناظرے کی تیاری کر رکھو”۔ خدا کا وجود مذہب کے نزدیک ایک قطعی اور بدیہی (self evident) حقیقت ہے اور جس کا انکار صرف جہالت، بددیانتی، کج روی و ضد وغیرہ ہی کی بنا پر ممکن ہے، کیونکہ یہ خود “اپنی ذات (کہ میں اصلا مخلوق ہوں) کی نفی” کے ہم معنی ہے۔ ذات کی اس نفی کی ایسی کوئی “عقلی توجیہ” ممکن نہیں جو خود بندوں ہی کے آگے چل سکے، چہ جائیکہ اس موضوع پر خدا کے حضور کامیاب مناظرہ کرکے خدا کو چپ کروا کر بچا جاسکے۔

*قرآنی آیات کے ساتھ مذاق
ایک افسوس ناک پوسٹ نظر سے گزری جس میں قرآن کی آیت وَيَتَفَکَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَٰذَا بَاطِلًا (آل عمران) کا خصوصی مصداق اسٹیون ہاکنگ کو قرار دے کر اسے ایک قرآنی ہیرو بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔
اس پر یہی کہنے کو دل چاہتا ہے کہ یہ نہ صرف قرآن بلکہ خود اسٹیون ہاکنگ کے ساتھ بھی کسی مذاق سے کم نہیں۔ قرآن میں ہر جگہ ارض و سموات کی نشانیوں پر غور کرنے کا حاصل و مقصد ایمان کو قرار دیا گیا ہے۔ اس آیت کے سیاق و سباق سے اگر ایک لمحے کے لیے سہو نظر کر بھی لیا جائے (و یتفکرون سے پہلے ہے: الذین یذکرون اللہ قیاما و قعودا و علی جنوبھم۔ اور پھر آگے لمبی دعا ہے جس میں یہ بھی ہے: ربنا اننا سمعنا منادیا ینادی للایمان ان آمنوا بربکم فآمنا۔) تو بھی خود اسی آیت میں کہا گیا ہے کہ ارض و سماوات پر غور و فکر کرنے والے وہ لوگ پکار اٹھتے ہیں کہ اے ہمارے رب! یقینا تو نے یہ سب کچھ یونہی بلاوجہ پیدا نہیں کیا۔ اس کے برعکس مرحوم موصوف تمام عمر اپنے غور و فکر کے ذریعے اس کے برعکس نتیجہ ثابت کرنے میں گھلتے رہے کہ اس کائنات کا کوئی خدا نہیں، نیز عقل کا تقاضا یہی ماننا ہے کہ یہ خود ہی بن گئی۔ تو ایسے غور و فکر کا بھلا قرآنی آیت کے غور و فکر سے کیا لینا دینا؟ اس کے برعکس ایسے لوگوں کے بارے میں قرآن نے کہا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو دنیا کی زندگی پر ہی مر مٹے۔
ایک شخص ذہین ہے، مطالعہ کائنات کے کسی مخصوص شعبے کا ماہر ہے۔ اس علم میں ہونے والی تحقیقات کو اپنے مخصوص ملحدانہ رجحانات کی بنا پر اس طرح منظم انداز میں پیش کرتا ہے جس کی وجہ سے اس علم کے بہت سے طالب علم فتنے میں پڑ جاتے ہیں اور گمراہی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ایسا ذہین شخص صرف اپنی گمراہی کے لیے ہی نہیں بلکہ خدا کی دی ہوئی اس ذہانت کو غلط استعمال کرکے دوسروں کی گمراہی کا سبب بننے کے جرم میں بھی خدا کی عدالت میں جوابدہ ہوگا۔ شاید اس کے دل میں یہ ہو اور وہ ہو جیسے حیلے بہانے اس دوسرے جرم میں خدا کے حضور اس کی کفایت کرنے میں مدد گار نہیں ہوسکتے۔
ایک عجیب و غریب دلیل یہ دی جاتی ہے کہ الحاد ایک شخص کا ذاتی مسئلہ ہے، اور یہ بس ایک نظریاتی اختلاف ہے۔ جاننا چاہیے کہ الحاد نہ کوئی ذاتی چیز ہے اور نہ ہی محض کوئی معمولی نوعیت کا نظریاتی اختلاف، کہ چلو کسی نے خدا کو مان لیا یا نہیں۔ یہ دنیا و مافیہ کو معنی دے کر زندگی بسر کرنے کے دو متضاد تصورات ہیں (اور ان معنی میں الحاد ایک مذہب ہی کی طرح ہے)۔ یہ الحاد یا عقیدہ کسی کا کوئی نجی معاملہ نہیں ہےخصوصا ایسا شخص جس نے الحاد کے فروغ کو زندگی کا مقصد بنا رکھا ہو۔
ملحدین ایک ایسی معاشرت و ریاست تعمیر کرنے کی جدوجہد کرتے ہیں جہاں خدا کا حکم اجتماعی سے لے کر انفرادی ہر سطح میں کھیل تماشا بن جائے۔ ایسے معاشرے میں زندگی بسر کرنے والے کو پھر یہ سمجھ ہی نہیں آتی کہ آخر خدا کو ماننے یا نہ ماننے سے میری تعمیر کردہ دنیا و مافیہ میں ایسا کیا فرق پڑ جاتا ہے کہ اس پر سیخ پا ہوا جائے؟ جدید انسان اسی المیے کا شکار ہوتا جا رہا ہے اور انسان کو اس کے رب کا باغی بناکر اس المیے کا شکار کرنے والے اس نظریے کے مبلغین و علمبردار انسانیت کے بدترین مجرم ہیں۔

ڈاکٹر زاہد مغل

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password