‘جدیدیت’ محمد حسن عسکری [3]

٭7۔بیسویں صدی:

یہ دور بہت ہی پیچیدہ ہے اور نہایت اہم۔ اہم تو اس لیے ہے کہ مغرب نے اس دور میں موٹر، ہوائی جہاز، ریڈیو، ٹیلی ویژن، ایٹم بم، ہائیڈروجن بم، مصنوعی سیارے اور اس قبیل کی چیزیں ایجاد کر کے اپنی مادی طاقت کا مظاہرہ کیا ہے اور یہ بھی دکھا دیا ہے کہ مغرب کے پاس نفسانی خواہشات کی تسکین کا کتنا کچھ سامان موجود ہے۔ ان مظاہروں سے مشرق کا ذہن بھی شدید طور سے متاثر اور مرعوب ہوا ہے اور مشرق بھی بڑی تیزی سے مغرب بنتا جا رہا ہے۔ اس لیے علماء کو دین کی حفاظت میں بھی مشکل پیش آ رہی ہے کیونکہ بہت سے تعلیم یافتہ لوگ تو علماء کی بات سننے کو ہی تیار نہیں اور جو تیار بھی ہیں وہ سمجھ نہیں سکتے۔
بیسویں صدی: تاریخی اعتبار سے منفرد نوعیت کی صدی
یہ دور پیچیدہ اس لیے ہے کہ یہ دور نہ تو محض عقل [جزوی] کا دور ہے نہ محض سائنس کا، نہ محض اشتراکیت کا، نہ محض بے دینی کا۔ اس دور کی حقیقت یہ ہے کہ سارے رجحانات اور سارے افکار اپنے تضاد کے باوجود بیک وقت موجود ہیں اور ان کے اندر کسی قسم کی درجہ بندی نہیں ہے، بلکہ سب کو ایک ہی سطح پر عمل کرنے کی آزادی ہے۔ عموماً ایک ہی شخص کے ذہن میں دو بالکل متضاد رجحان کام کرتے رہتے ہیں، اسے کبھی ایک طرف لے جاتے ہیں کبھی دوسری طرف۔ خود ہمارے یہاں یہ حال ہوگیا ہے کہ علماء گمراہی کی ایک شکل کا مقابلہ کر کے اسے دباتے ہیں تو ساتھ ہی ساتھ دوسری شکل نمودار ہوجاتی ہے، پھر تیسری، پھر چوتھی۔
جھوٹے ادیان، جھوٹی روایتوں کی صدی
مذہب کی مخالفت کا زمانہ دراصل پہلی جنگِ عظیم [۱۹۱۴ء سے ۱۹۱۹ء تک] کے ساتھ ختم ہوگیا ہے اور اب جدیدیت کا وہ دور آیا ہے کہ جب جھوٹے دین اور جھوٹی روایتیں ایجاد کی جا رہی ہیں اور ہر جھوٹا دین اصلی دین ہونے کا دعویٰ کر رہا ہے۔ مثلاً انیسویں صدی میں بہت سے مغربی لوگ یہ کہتے تھے کہ ہمارے لیے عیسائیت پر ایمان لانا مشکل ہے۔ بیسویں صدی میں بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم عیسائیت پر پورا ایمان رکھتے ہیں، لیکن اس سے ان کی مراد ایک خود ساختہ مذہب ہوتا ہے۔
بیسویں صدی میں خارجی طور پر بھی ایسے زبردست واقعات ہوئے ہیں جن کی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ ان سے پوری دنیا متاثر ہوئی ہے اور خصوصاً یورپ اور امریکا میں تو معاشرے کی بنیادیں ہل گئی ہیں۔ اس قسم کے زلزلے آئے چلے جا رہے ہیں اور مغرب ہر وقت ان کے خوف سے کانپتا رہتا ہے۔ اس قسم کے واقعات کی فہرست یہ ہے:
۱۔ پہلی جنگ عظیم ۱۹۱۴ء سے ۱۹۱۹ء تک۔ اس جنگ نے مغرب والوں کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ ’’ترقی‘‘ کے جتنے دعوے انیسویں صدی میں ہوئے تھے وہ درست بھی ہیں یا نہیں۔
۲۔ ۱۹۲۸ء کے قریب معاشی بحران اور بے روزگاری پھیلنا۔
۳۔ اس بحران کے زیرِ اثر جرمنی میں ہٹلر کے ماتحت اور اٹلی میں مسولینی کے ماتحت آمریت کا قیام اور ہٹلر کا دنیا کو فتح کرنے کا منصوبہ۔
۴۔ ادھر ۱۹۱۸ء میں انقلابِ روس کے بعد کمیونسٹ نظام قائم ہوگیا تھا، اور سرمایہ دار اور مزدور کی جنگ اب براہِ راست دو مادی طاقتوں کی جنگ بن گئی۔
۵۔ بیسویں صدی کے شروع سے لے کر ۱۹۴۰ء تک بہت سی محیّر العقول ایجادات لوگوں کے سامنے آچکی تھیں جنھوں نے لوگوں کے ذہن میں اور عملی زندگی میں انقلاب برپا کر دیا تھا __ موٹر، سینما، ہوائی جہاز، ریڈیو، ٹیلی ویژن۔
۶۔ دوسری جنگِ عظیم [۱۹۳۹ء سے ۱۹۴۵ء تک] جس نے سیاسی طاقتوں کا نقشہ ہی بدل دیا اور امریکہ اور روس دنیا کی دو عظیم ترین طاقتیں بن کر نمودار ہوئے۔
۷۔ ۱۹۴۵ء میں امریکہ نے ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم پھینکا۔ اب لوگوں کو پتہ چلا کہ سائنس میں بربادی پھیلانے کی کتنی بڑی قوت ہے اور اس سے پوری انسانیت کے فنا ہو جانے کا خطرہ ہے۔ چنانچہ لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہوئے کہ سائنس رحمت ہے یا لعنت۔
۸۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد ایشیا اور افریقہ کے ممالک سیاسی طور پر آزاد ہونے لگے، مگر معاشی اور ذہنی اعتبار سے مغرب کے اور بھی زیادہ اسیر ہوگئے، کیونکہ انھوں نے مادی ترقی کو اپنا مطمع نظر بنا لیا۔
۹۔ امریکہ اور روس کی عالمی پیمانے پر کشمکش شروع ہوگئی اور انجمن اقوامِ متحدہ ان دو طاقتوں کا اکھاڑہ بن گئی۔
۱۰۔ ۱۹۴۸ء میں چینی انقلاب ہوا، اور وہاں کمیونسٹ حکومت قائم ہوگئی۔ آہستہ آہستہ چین دنیا کی تیسری بڑی طاقت بننے لگا اور امریکہ کے ساتھ ساتھ روس سے بھی اس کی رقابت شروع ہوگئی۔
۱۱۔ ۱۹۵۶ء میں روس نے خلاء میں مصنوعی سیارہ چھوڑا اور اس کے بعد زمین کی لڑائیاں فضا میں بھی پہنچ گئیں۔ علاوہ ازیں، مغرب کے لوگ چاند اور دوسرے سیاروں تک پہنچنے کے خواب دیکھنے لگے۔
۱۲۔ پہلے کوریا کی جنگ، پھر نہر سویز کی جنگ، پھر ویت نام کی جنگ نے ثابت کر دیا کہ تیسری جنگ عظیم کسی روز بھی شروع ہوسکتی ہے اور انسانیت ہلاکت کے خطرے سے ہر وقت دو چار ہے۔
۱۳۔ اسرائیل کی ریاست کا قیام، اور پھر ۱۹۶۷ء میں اسرائیل کا بیت المقدس پر قبضہ۔
۱۴۔ ۱۹۶۸ء کے آغاز میں سونے کی خرید و فروخت کی وجہ سے مغربی ممالک میں سکوں کا بحران۔ امریکہ کے لوگ یہ سمجھنے لگے تھے کہ سرمایہ دارانہ نظام بالکل محفوظ و مامون ہوچکا ہے اور اب اس نظام میں کوئی بڑا زلزلہ نہیں آئے گا۔ مگر اس واقعے نے ان توقعات کو باطل کر دیا۔
۱۵۔ ۱۹۶۸ء میں امریکہ اور یورپ میں [سرمایہ دار اور اشتراکی دونوں قسم کے ممالک میں] طالب علموں کے زبردست ہنگامے اور طالب علموں کا مطالبہ کہ تعلیمی نظام، معاشی نظام، سیاسی نظام ہر چیز ان کی مرضی کے مطابق ہونا چاہیے۔

٭بیسویں صدی کے فکری رجحانات کا جائزہ:

  1. روح، عقل کلی اور عقل جزوی کا انکار بیسویں صدی کی مذہبیت خطرناک لادینیت:
    اب بیسویں صدی کے فکری رجحانات کی طرف آتے ہیں۔ نیا سائنس ہو یا نئی نفسیات یا نیا فلسفہ، ان سب میں روح اور عقلِ کل ہی نہیں، بلکہ عقل جزوی کا بھی انکار موجود ہے۔ مگر عقلِ جزوی کی مخالفت کرتے ہوئے یہ لوگ اس سے اوپر نہیں جانا چاہتے، بلکہ نیچے اترتے ہیں، یعنی جبلت اور ٹھیٹ جسمانیت کی طرف۔ اٹھارہویں صدی عقلِ جزوی کی پرستش کرتی تھی، انیسویں صدی میں جذبات پرستی کا غلبہ تھا۔ بیسویں صدی جبلّت اور جسم کو پوجتی ہے اور اسی کو روح سمجھنا چاہتی ہے۔ اس دور کے بہت سے مفکّر یہ کہتے رہے ہیں کہ انسانیت کی معراج وہ ہوگی جب روح جسم بن جائے اور جسم روح بن جائے۔ اس قسم کے الفاظ بہت پر فریب ہیں۔ مثلاً ہمارے بعض صوفیا نے کہا ہے ’’اجسادنا ارواحنا و ارواحنا اجسادنا۔ ایسے اقوال عیسوی متصوفین سے بھی منقول ہیں نئے مفکر جان بوجھ کر پرانے ادیان کی اصطلاحیں اور الفاظ استعمال کرتے ہیں تاکہ اشتباہ پیدا ہو اور لوگ دھوکے میں آجائیں۔ آجکل مغرب کے بہت سے لوگ اور ہمارے یہاں بھی کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ موجودہ زمانہ پھر مذہب کی طرف واپس آرہا ہے۔ بعض علماء بھی یہ قول نقل کرنے لگے ہیں۔ مگر یہ بہت ہی خطرناک خیال ہے۔ اٹھارہویں اور انیسویں صدی کی بے دینی بھی اصل دین کے لیے ایسی زہریلی نہیں تھی جیسی یہ نئی ’’مذہبیت‘‘ ہے۔ لہٰذا تمام نئے فلسفوں سے اور نئے سائنس سے چوکنا رہنا لازمی ہے۔
  2. ولیم جیمز اور جان ڈیوی کے فلسفے:
    جبلتیں انسان کی اصل حکمراں ہیں
    بیسویں صدی کے فلسفوں میں سب سے پہلے امریکا کے دو فلسفیوں ولیم جیمز اور جان ڈیوی کا نام آتا ہے۔ ان کے فلسفے کو ’’عملیت‘‘ (Pragmatism) کہتے ہیں۔ ان لوگوں کی رائے ہے کہ کوئی خیال یا نظر بذاتِ خود صحیح یا غلط نہیں ہوتا، بلکہ ہر خیال کی قدر و قیمت کا فیصلہ اس لحاظ سے ہونا چاہیے کہ عملی یعنی مادی زندگی میں اس کے اثرات اور نتائج کیا ہوں گے؟ یہ فلسفہ دراصل فلسفہ اور فکر ہی کا خاتمہ ہے۔ ولیم جیمز نے دراصل فلسفے ہی کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے اور ہوا بھی یہی ہے کہ پرانے زمانے میں جس چیز کو فلسفہ کہتے تھے وہ اب ختم ہوگیا ہے۔
  3. مذہبی تجربے کی الحادی اصطلاح:
    ولیم جیمز نے عقل [جزوی] کے مقابلے میں ’’تحت الشعور‘‘ نکالا۔ اس کے نزدیک انسانی افعال پر عقل کے بجائے تحت الشعور زیادہ اثر انداز ہوتا ہے یعنی جبلتیں انسان پر حکمرانی کرتی ہیں۔ روح کو تو لوگ بھول ہی گئے تھے، جیمز نے نفس کو بھی خالص طور سے جسمانی عوامل میں ملادیا۔
    ولیم جیمز نے ایک اور اصطلاح نکالی جو بہت مقبول ہوئی اور یہ ہمارے یہاں بھی چل پڑی ہے __ ’’مذہبی تجربہ‘‘۔ یہ مذہبی تجربہ واحد بھی نہیں۔ اس کی کتاب کا نام ہے ’’مذہبی تجربے کی انواع‘‘۔ اس کے نزدیک مذہب کی روح عقائد نہیں اور نہ عبادات لازمی ہیں۔ بلکہ اصلی چیز ہے جذباتی تلاطم اور مکاشفات۔ جیمز یوں تو سائنس دان بھی تھا اور فلسفی بھی، لیکن اسے روحوں سے باتیں کرنے اور اس قسم کی جھوٹی ’’روحانیت‘‘ سے گہری دلچسپی تھی۔ چنانچہ اس قسم کے تجربات کی بناء پر اس نے مذہب کا ایک نیا نظریہ تیار کر دیا جو آج تک مقبول ہے۔ اسی طرح اس نے عبادت اور دعا کا بھی ایک فلسفہ نکالا تھا۔ اس کے خیال میں عبادات اور دعا کا مقصد یہ ہے کہ محاسبۂ نفس کیا جائے۔ یہ بات ہمارے یہاں بھی بعض لوگ کہہ رہے ہیں۔
  4. برگساں کا فلسفہ وجدان: فلسفہ الحاد
    بیسویں صدی کے آغاز کا ایک اور بڑا فلسفی ہے برگساں۔ چونکہ اس نے عقل [جزوی] کی مخالفت کی ہے اور ’’وجدان‘‘ کا نام لیا ہے اس لیے ہمارے یہاں بھی بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ مذہب کے بہت قریب آگیا ہے۔ لیکن اس کے افکار سراسر ضلالت اور مادہ پرستی پر مشتمل ہیں۔ عقل کلّی کا اس کے ذہن میں تصور تک نہیں تھا۔ اس کے یہاں عقل سے مراد عقلِ جزوی اور عقلِ معاش ہی ہے۔ چنانچہ اس نے عقل کا فریضہ یہ بتایا ہے کہ معاشی زندگی کی ضروریات اور خارجی اشیاء سے نبٹے۔ انسان کی سب سے بڑی صلاحیت اس کے نزدیک ’’وجدان‘‘ ہے۔ لیکن یہ وجدان عقل کلی سے متعلق نہیں جس طرح ہمارے یہاں ہے۔ برگساں کے وجدان کی بنیاد جبلت پر ہے۔
  5. برگساں کا مادہ پرست مذہب: حیات
    پھر اس نے ’’تخلیقی ارتقاء‘‘ کا تصور بھی نکالا ہے۔ ڈارون تو ’’ارتقاء‘ کو ایک مشینی قانون سمجھتا تھا جو نہ تو شعور رکھتا ہے نہ ارادہ۔ برگساں کے نزدیک نہ صرف انسان بلکہ ’’فطرت‘‘ اور ’’حیات‘‘ اپنے اندر ایک ایسی قوت رکھتی ہے جسے ارادہ بھی حاصل ہے اور شعور بھی۔ یہی قوت ہے جو انسان کو، بلکہ پوری کائنات کو ارتقا کی منزلیں طے کرا رہی ہے۔ یعنی کائنات، فطرت، ’’حیات‘‘ خود اپنی ذات سے زندہ ہے اور اپنے ارادے سے عمل کرتی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ فلسفے صریح شرک اور کفر ہیں۔ چنانچہ برگساں نے ایک نیا مذہب نکالا ہے جس کا خدا ہے ’’حیات‘‘ یا ’’زندگی‘‘۔ نعوذ باللہ۔ یہ مذہب بیسویں صدی میں پوری طرح پھیل چکا ہے اور ہمارے یہاں بھی اس کے شدید اثرات موجود ہیں۔
  6. حیات پرستی کا نیا فلسفہ:
    کہا جاتا ہے کہ برگساں اور دوسرے نئے مفکر مادہ پرستی کے خلاف ہیں۔ لیکن یہ بالکل غلط ہے۔ نئے مفکر اگر مادے کے قائل نہیں تو ’’توانائی‘‘ کے قائل ہیں یا ’’حیات‘‘ کے قائل ہیں۔ اس حیات کو وہ مادے کی شکل میں نہیں دیکھتے تو ’’سیال‘‘ یا ’’بجلی کی لہر‘‘ کی شکل میں یا کسی اور شکل میں دیکھتے ہیں۔ بہرحال فی الحقیقت مادے کی حدوں سے نہیں نکلتے۔ جس چیز کو ہمارے یہاں معقولات میں ’’طبیعیت‘‘ کہا جاتا ہے، یہ لوگ تو اس کے بھی پست ترین درجے پر اتر آئے ہیں۔ اوپر سے ان لوگوں کا اصرار ہے کہ روح اسی توانائی یا حیات کی ایک شکل ہے۔ یعنی یہ لوگ روح کو بھی جسم یا مادے ہی سے نکالتے ہیں۔ نئے مفکر اور سائنس داں جو روح کے قائل ہوئے ہیں تو اس کا مطلب محض یہ ہے۔ علماء کو اس معاملے میں خوشنما الفاظ کے فریب میں نہیں آنا چاہیے۔
    ’’حیات پرستی‘‘ کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ آج کل مغربی لوگوں کے نزدیک انسان کے لیے عروج کا سب سے بڑا نقطہ یہ ہے کہ وہ ظاہر و باطن دونوں میں ایک ’’صحت مند جانور‘‘ بن جائے۔ ہمارے علماء تو طنز کے لیے کہتے ہیں کہ مغرب کے لوگ جانور بن گئے ہیں لیکن مغرب کے لوگ جانور بن جانے پر فخر کرتے ہیں اور جتنے بھی جانور بن گئے ہیں اس سے بھی زیادہ بننا چاہتے ہیں۔
    یوں انسان پرستی تو اب بھی جاری ہے لیکن درحقیقت بیسویں صدی کے سارے فلسفے انسان کو انسان کے درجے سے نیچے لے جانا چاہتے ہیں۔ غرض ’’عقل پرستی‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’انسان پرستی‘‘ کا بھی زوال اس دور میں ہوا ہے۔
  7. مغربی ذہن وحشی پن پسند کرتا ہے:
    انسانوں میں بھی جو لوگ مغربی ذہن کو پسند آتے ہیں وہ وحشی قبائل یا قدیم زمانے کے انسان ہیں۔ مغرب کے لوگوں کی بہت بڑی تعداد وحشیوں کے عادات و اطوار اور رہن سہن کے طریقے اختیار کرنا چاہتی ہے۔ بلکہ مظاہر پرستی اختیار کرنے میں بھی انھیں باک نہیں۔ چنانچہ انسان کو خدا کا درجہ دینے کا رجحان تو خیر چل ہی رہا ہے لیکن اس کے پہلو بہ پہلو انسان سے نفرت بھی روز بروز شدید ہوتی جا رہی ہے۔ آج کل ایسا شعر و ادب نہایت مقبول ہے جو انسان سے نفرت پیدا کرتا ہے۔
    بیسویں صدی کے شروع سے جن نظریات نے مغربی ذہن کو شدید طور سے متاثر کیا وہ کمیونزم اور فرائڈ کی ’’نئی نفسیات‘‘ ہیں۔ اشتراکیت اور کمیونزم یا مارکسیت میں تھوڑا سا فرق ہے۔ اشتراکی جماعتیں تو بہت سی ہیں اور ان میں مشترک اصول صرف یہ ہے کہ ذرائع پیداوار کو افراد کی نہیں بلکہ معاشرے یا ریاست کی ملکیت ہونا چاہیے اور ذرائع پیداوار کا پورا انتظام بھی ریاست ہی کے ہاتھوں میں ہونا چاہیے۔
  8. کمیونزم مارکسیت اشتراکیت کی خاص شکل:
    کمیونزم یا مارکسیت اشتراکیت کی ایک خاص شکل ہے۔ اس کا بانی انیسویں صدی کا جرمن مفکر کارل مارکس ہے۔ اس کے نظریات کی بنیاد اس خیال پر ہے کہ انسان کی پوری زندگی کا دار و مدار معاشیات پر ہے اور تہذیب ہو یا فلسفہ یا شعر و ادب یا مذہب، سب کا تعین معاشی عوامل کرتے ہیں۔ ہر زمانے میں انسان کے پاس جس قسم کے ذرائع پیداوار ہوں گے اس کے مطابق اس زمانے کا فلسفہ اور تمدن ہوگا، یہاں تک کہ مذہب بھی۔ اسی لیے اس کے نظریے کا نام ’’جدلیاتی مادیت‘‘ ہے۔ مادیت کی تشریح تو ہوچکی۔ ’’جدلیات‘‘ کے معنی یہ ہیں کہ ہر زمانے میں معاشرتی طبقے ایک دوسرے کے خلاف صف آرا رہے ہیں۔ ہر زمانے میں ذرائع پیداوار کے لحاظ سے ایک طبقے کی حکمرانی ہوتی ہے اور جب ذرائع پیداوار میں ترقی ہوتی ہے تو حکمراں طبقہ شکست کھا جاتا ہے اور اس سے نیچے کا طبقہ حکمراں ہو جاتا ہے۔ انیسویں صدی کے درمیان میں مارکس نے اعلان کیا تھا کہ اب وہ دور آگیا ہے جب معاشرے میں اقتدار مزدور طبقے کا ہونا چاہیے۔ انقلابِ روس کے رہنما لینن نے اس فلسفے میں یہ اضافہ اور کیا کہ جب مزدوروں کی حکومت پوری طرح مستحکم ہوجائے گی اور طبقاتی کشمکش مٹ جائے گی تو پھر ریاست کی بھی ضرورت نہیں رہے گی اور آہستہ آہستہ ریاست ’’مرجھا کے‘‘ ختم ہوجائے گی۔
  9. عمرانیات کا زندگی پر اثر:
    بیسویں صدی میں مغربی ذہن پر عمرانیات کا بھی خاص طور سے اثر پڑا۔ کمیونزم تو ہر انسانی سرگرمی کا ماخذ معاشیات کو سمجھتی ہے۔ عمرانی نظریے بنیادی طور سے اس خیال کی وسیع تر شکل ہیں۔ یوں عمرانی فلسفے تو درجنوں ہیں اور ان کے درمیان بہت سے اختلافات ہیں، مگر ان میں مشترک خیال یہ ہے کہ اصلی چیز انسان کی عمرانی زندگی اور اس کے مسائل ہیں، دوسری چیزیں اس کی شاخیں ہیں۔ فلسفہ ہو یا مذہب یہ بھی عمرانی مسائل کے حل کرنے کے طریقے ہیں۔ عمرانیات والے بظاہر مذہب کی مخالفت نہیں کرتے، بلکہ بعض تو مذہب کو ضروری سمجھتے ہیں لیکن ان کی نظر میں مذہب کی وہی قدر و قیمت اور نوعیت ہے جو شادی بیاہ کی رسموں کی، یا کھیل کود کی۔
  10. نفسیات کا الحاد:
    بیسویں صدی میں جو عقلیت پرستی ختم ہوئی ہے تو اس میں بڑا ہاتھ ’’نئی نفسیات‘‘ کا ہے۔ اس دائرے میں سب سے گہرا اثر فرائڈ کا ہے۔ اس کے نزدیک انسان کے افعال، اقوال اور افکار میں عقل [جزوی] اور شعور کا دخل بہت ہی کم ہے۔ انسان پر اصل میں حکمرانی ’’لاشعور‘‘ کی ہے۔ اس ’’لاشعور‘‘ سے مراد جبلتیں ہیں اور جبلتوں میں بھی سب سے اہم جنسی جبلت (Sex Instinct) یا ’’جنسی توانائی‘‘ (Libido) ہے۔ انسان کی جتنی بھی ظاہری اور باطنی سرگرمیاں ہیں وہ سب بلاواسطہ یا بالواسطہ جنسیت سے ہی نکلی ہیں اور کسی نہ کسی شکل میں اسی جبلت کا اظہار کرتی ہیں۔ یہاں تک کہ مذہب بھی۔
  11. فرائد کے نظریات میں تبدیلی:
    ۱۹۲۱ء کے قریب فرائڈ نے اپنے نظریات میں ایک بنیادی تبدیلی کی۔ پہلے تو وہ اس مفروضے کی بنیاد پر چلتا تھا کہ انسان لذت (Pleasure) کا طالب ہے اور تکلیف (Pain) سے بچتا ہے۔ لیکن اب اس نے یہ خیال پیش کیا کہ نہ صرف انسان بلکہ ہر جاندار چیز موت کی طالب ہے اور بے جان بننا چاہتی ہے۔ اپنی تائید میں اس نے عربی کا یہ مقولہ بھی پیش کیا۔ کل شی یرجعُ الیٰ اصلہٖ یعنی اس کے نزدیک حیات کی اصل عدم ہے اور حیات اپنی اصل کی طرف جانے میں کوشاں رہتی ہے۔ غرض انسانی زندگی سے مراد ہے دو اصولوں کی مسلسل کشمکش۔ ایک طرف جنس یا محبت (Eros) ہے دوسری طرف موت (Thanatos) اور یہ کشمکش آخر فنا پر ختم ہوتی ہے۔
  12. یونگ کا فلسفہ جنسیت اور فلسفہ اجتماعی لاشعور:
    نئی نفسیات میں دوسرا مشہور نام یونگ کا ہے۔ اس نے ’’جنسیت‘‘ (Libido) کے مفہوم کو وسعت دے کر ’’زندگی کی بنیادی توانائی‘‘ کا مفہوم اس لفظ میں داخل کیا۔ فرائڈ نے جس ’’لاشعور‘‘ کا ذکر کیا تھا اس کا تعلق فرد سے ہے۔ یونگ نے ’’اجتماعی لاشعور‘‘ دریافت کیا جس کا مطلب یہ ہے کہ پوری انسانیت کا ایک واحد ’’لاشعوری ذہن‘‘ ہے اور یہی ہر انسانی سرگرمی کا منبع و مخرج ہے۔ جو باتیں مختلف مذاہب خدا کی ذات و صفات کے بارے میں کہتے رہے ہیں یا روح کے بارے میں، ان میں سے اکثر یونگ نے ’’اجتماعی لاشعور‘‘ کی طرف منتقل کر دی ہیں۔ نعوذباللہ۔ اسی طرح افلاطون نے جن ’’اعیان‘‘ کا ذکر کیا ہے، یونگ انھیں عالمِ مثال سے اتار کر ’’اجتماعی لاشعور‘‘ [یعنی نفس] میں لے آیا ہے۔ بلکہ آخر میں تو اس نے یہ کہا ہے کہ ’’اعیان‘‘ نامیاتی اجسام کی حیاتیاتی ساخت میں موجود ہیں، یعنی جسمانی اور مادی چیز ہیں۔
    یونگ: وحی اجتماعی لاشعور کا حصہ ہے
    فرائڈ تو مذہب کو ایک ’’فریب‘‘ اور ’’وحشیانہ دور‘‘ کی یادگار سمجھتا تھا۔ یونگ مذہب کا قائل ہے اور اسے ضروری سمجھتا ہے۔ لیکن وحی کو نہیں مانتا، بلکہ یہ کہتا ہے کہ وحی بھی اجتماعی لاشعور کا ظہور ہے۔ نعوذباللہ۔ عموماً مشہور یہ ہے کہ یونگ کے اثر سے مغرب میں مذہب زندہ ہو رہا ہے۔ ہمارے یہاں بھی بعض لوگ یہی کہہ رہے ہیں لیکن اس کے نظریات انتہائی گمراہ کن ہیں۔ خصوصاً اس وجہ سے کہ اس نے تمام دینی تصورات اور متصوفانہ رموز کی نفسیاتی تشریح کر دی ہے اور اس طرح انھیں یوں مسخ کیا ہے کہ جو لوگ اس کے زیر اثر آئے ہیں ان کے لیے مذہب کو سمجھنا تقریباً ناممکن ہوگیا ہے۔
  13. علم نفسیات کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں:
    غرض، نئی نفسیات کے جتنے بھی نظریات ہیں سب کے سب صریح نفس پرستی ہیں اور نفسیات کا مذہب سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد سے تو روس اور امریکا میں یہ رجحان غالب آتا چلا جا رہا ہے کہ جتنے بھی نفسیاتی اور ذہنی عوامل ہیں وہ سب دراصل عضویاتی اور جسمانی عوامل ہیں۔ چنانچہ نفسیات بحیثیت ایک علیحدہ علم کے ختم ہو رہی ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ روح کو تو خیر مغرب بھول ہی گیا تھا، اب ذہن یا نفس سے بھی بیگانہ ہوتا جا رہا ہے اور آخر جسم ہی جسم رہ گیا ہے۔
  14. ایک نیا علم Cybernetics:
    نفسیات کے ساتھ ہی ایک اور نئے علم کا ذکر ہونا چاہیے جس کا نام Cybernetics ہے۔ اس علم کے ذریعے کمپیوٹر بنایا گیا ہے، یعنی وہ مشینیں جو انسانی ذہن کے بعض عوامل خود سر انجام دے سکتی ہیں، مثلاً ریاضی کے پیچیدہ مسئلے حل کر دینا، سوالوں کے جواب دینا، بلکہ معاشی اور سیاسی عوامل کے متعلق پیشین گوئیاں کرنا بھی۔ اس علم کے پیچھے مفروضہ یہ ہے کہ انسانی ذہن مشین کی طرح کام کرتا ہے، اور جس طرح کے قوانین مشینوں کو چلاتے ہیں، ایسے ہی قوانین ذہن کو بھی چلاتے ہیں۔ اگر یہ قوانین معلوم ہوجائیں تو انسان مشینوں سے وہی کام لے سکتا ہے جو ذہن سے لیے جاتے ہیں۔ چنانچہ یہ امید بندھتی ہے کہ جس طرح انسان کائنات اور فطرت کی تسخیر کرسکتا ہے، اسی طرح انسانی ذہن کی بھی تسخیر کرسکتا ہے اور اسے اپنی مرضی کے مطابق ڈھال سکتا ہے۔ یعنی ذہن بھی دراصل جسم یا مادہ ہی ہے اور اسی وہی سلوک کیا جاسکتا ہے جو مادے کے ساتھ ہوتا ہے۔
  15. ماورائے حسی ادراک کا نیا فلسفہ: مادہ پرستی کی جدید شکل
    انیسویں صدی میں بہت سے لوگوں نے ’’روحانیت‘‘، ’’تصوف‘‘ اور ’’باطنی علم‘‘ کے معنی یہ لیے تھے کہ ان چیزوں کا مقصد ہے انسانی ذہن کی ’’پوشیدہ قوتوں‘‘ کو بیدار کرنا۔ مثلاً بغیر کسی خارجی ذریعے کے لوگوں کے ذہن کو متاثر کرنا، بغیر کسی آلے کے دوسرے شہر یا ملک کا حال بتانا وغیرہ۔ مگر انیسویں صدی کے سائنس دان ایسی چیزوں کو ضعیف الاعتقادی اور توہم پرستی بتاتے تھے۔ لیکن بیسویں صدی کے بعض سائنس دان ان چیزوں پر تحقیقات کر رہے ہیں اور انھیں اصولاً ممکن ماننے لگے ہیں۔ ایسی ذہنی قوتوں کو یہ لوگ ’’ماورائے حسی ادراک‘‘ کہتے ہیں۔ ایسی تحقیقات کا شوق روس تک کے سائنس دانوں کو ہے۔ اس رجحان سے بعض دفعہ یہ دھوکا ہوتا ہے کہ اب سائنس روحانیت اور مذہب کے قریب آ رہا ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ اس نظریے کی بنیاد بھی مادیت پر ہے۔ بلکہ روح اور مذہب کی حقیقت پر پردہ ڈالنے میں اس سے اور بھی مدد ملتی ہے۔
  16. سائنس، نفسیات، فلسفہ: دین کی حقیقت سے بے گانہ
    غرض موجودہ سائنس ہو یا نفسیات یا فلسفہ، کہیں بھی دین کی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی جا رہی۔ ایسے لوگ مذہب اور روحانیت کی جتنی مدح سرائی کرتے ہیں وہ سب فریب ہے۔ بنیادی طور سے ذرا بھی فرق نہیں ہوا ہے۔ اب تک سائنس مذہب کا دشمن بن کر سامنے آتا تھا، اب دوست بن کر آ رہا ہے۔ یہ زیادہ خطرناک ہے۔ انیسویں صدی تک کا سائنس مذہب پر بہت سے اعتراض کرتا تھا اور شکوک و شبہات پیدا کرتا تھا۔ نئی سائنس اب ان پرانے اعتراضات کو چھوڑ چکی ہے۔
  17. نئی سائنس: نیا مذہب
    کیونکہ سائنس نے عقلیت پرستی چھوڑ دی ہے۔ لیکن نئی سائنس ’’جبلت پرستی‘‘ یا ’’جسم پرستی‘‘ یا ’’حیات پرستی‘‘ کرنے لگا ہے۔ اس لیے مذہب کو ختم کرنے کے بجائے ایک نیا مذہب بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ سائنس پرانے سائنس سے بھی زیادہ مہلک ہے۔ پرانی سائنس خدا کے وجود سے منکر تھی۔ نئی سائنس نئے خدا ایجاد کر رہی ہے۔ یہ نئے مذہب اس وجہ سے اور بھی گمراہ کن ہیں کہ:
    ۱۔ یہ مذہب، روح، خدا سب کو مانتے ہیں۔ ۲۔عموماً سارے مذاہب کو برحق کہتے ہیں۔ ۳۔الفاظ اکثر وہ استعمال کرتے ہیں جو مذاہب استعمال کرتے رہے ہیں۔ ۴۔مختلف مذاہب سے عقائد یا رموز لے کر انھیں آپس میں جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ۵۔بنیادی طور سے ان سارے ’’مذاہب‘‘ کا خدا ایک ہی ہے، یعنی مادہ، خواہ اس کا نام کچھ بھی رکھا جائے۔
    جیسا کہ اوپر دکھایا گیا ہے، جس چیز کو انیسویں صدی تک فلسفہ کہا جاتا تھا اسے تو بیسویں صدی کے شروع میں ولیم جیمز کی ’’عملیّت‘‘ نے فی الحقیقت ختم ہی کر دیا۔ لیکن دوسری جنگِ عظیم کے بعد چند ایسے نظریات ابھرے ہیں جو فی الاصل فلسفہ بھی کہلانے کے مستحق نہیں، لیکن انھیں فلسفہ کہا جاتا ہے۔ پھر ان کا اثر نئی عیسوی دینیات پر بھی ہوا ہے اور ہمارے یہاں بھی اس کا اثر خاصا پھیل گیا ہے۔
  18. وجود پرستی کا فلسفہ: ایک نیا الحاد
    ان فلسفوں میں سب سے نمایاں ’’وجود پرستی‘‘ (Existentialism) ہے۔ یہاں ’’وجود‘‘ سے مراد کسی طرح کا ’’وجودِ مطلق‘‘ نہیں بلکہ انسان کا ’’نفسی وجود‘‘ ہے۔ یہ فلسفہ موجود تو تھا پہلے سے، مگر اسے رواج فرانس کے فلسفی اور ادیب ژاں پال سارتر نے ۱۹۴۵ء کے بعد دیا ہے اور مذہبی میدان میں اس فلسفے کا سب سے بڑا امام ہے کیر کے گارڈ (Kierkegaard) جو تھا تو انیسویں صدی کا، مگر اس کا اثراب ہوا ہے۔ اس فلسفے کے پھیلانے میں زیادہ حصہ ادب کا ہے اور یہ نوجوانوں میں زیادہ مقبول ہوا ہے۔
    اب تک یہ فلسفے کا مسلمہ مسئلہ تھا کہ جوہر پہلے آتا ہے، عرض بعد میں۔ یہ فلسفی کہتے ہیں کہ عرض پہلے ہے، جوہر بعد میں۔ ان لوگوں کے نزدیک انسان میں دو قسم کا وجود ہے ایک وہ وجود (Being) جو پتھروں کو بھی حاصل ہے یعنی محض مادی اور جسمانی وجود [یہاں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ پرانے فلسفے میں Being کا لفظ وجودِ مطلق کے معنی میں استعمال ہوتا تھا، مگر یہ لوگ اسے وجودِ خارجی اور مادی کے معنی میں استعمال کرتے ہیں] دوسرا وجود وہ ہے جس کا ادراک انسان اپنے حسی یا ذہنی شعور کی مدد سے کرتا ہے۔ اس وجود کو یہ لوگ Existence کہتے ہیں۔
  19. انسان کے وجود کا جوہر بدلتا رہتا ہے:
    اسی دوسرے قسم کے وجود کو یہ لوگ زیادہ اہم سمجھتے ہیں، اور اسے انسان کا مابہ الامتیاز قرار دیتے ہیں۔ ان کی رائے ہے کہ انسان کے وجود کا جوہر یا ماہیت یا اصلیت کوئی پہلے سے متعین چیز نہیں۔ بلکہ ساری انسانیت کے لیے اس کا تعین حتمی اور مستقل طور پر ہو بھی نہیں سکتا۔ یہ سوال تو صرف فرد کے سامنے آتا ہے اور اس وقت آتا ہے جب اسے اپنے ’’وجود‘‘ کا احساس پیدا ہو اور یہ احساس اس وقت پیدا ہوتا ہے جب اسے کوئی داخلی یا خارجی فیصلہ کرنا پڑتا ہے۔ ایسے فیصلے انسان کو ہر وقت کرنے پڑتے ہیں یہاں تک کہ پانی پینے کے لیے گلاس اٹھاتے ہوئے بھی۔ غرض فرد کو ہر لمحے کوئی نہ کوئی فیصلہ کرنا پڑتا ہے اور ہر فیصلے کے ساتھ وہ اپنے جوہر اور اپنی ماہیت کا تعین کرتا ہے۔ لیکن چونکہ ہر لمحے نئی قسم کا فیصلہ کرنا پڑتا ہے، اس لیے ماہیت کا تعین بھی مستقل طور سے نہیں ہوسکتا۔ ہر فیصلے اور ہر لمحے کے ساتھ جوہر اور ماہیت کا تعین بھی بدلتا رہتا ہے۔
    اس سارے فلسفے کا خلاصہ یہ ہے کہ:
    ۱۔ اپنی ماہیت کا تعین انسان خود کرتا ہے خدا نہیں۔
    ۲۔ اس ماہیت کا تعین عمل کے ذریعے ہوتا ہے۔
    ۳۔ یہ ماہیت مستقل چیز نہیں بلکہ بدلتی رہتی ہے۔
    ظاہر ہے کہ یہ سارے خیالات دین کی نفی کرتے ہیں، لیکن آج کل بہت سے مغربی مفکر عیسوی دینیات کو یہی رنگ دے رہے ہیں اور ہمارے یہاں بھی بعض نوجوان اسلام اور خصوصاً تصوف کی ایسی ہی تفسیر کرنے کو بے قرار ہیں۔
    ’’وجود پرستی‘‘ کے فلسفے نے ایک اور تصور دنیا میں پھیلایا ہے یہ لوگ کہتے ہیں کہ زندگی کے جتنے مظاہر ہیں وہ ’’مہمل‘‘ ہیں۔ بہرحال زندگی کو اسی رنگ میں قبول کرنا چاہیے اور زندگی کی ’’مہملیت‘‘ کو قبول کر کے ہی انسان اپنا جوہر دریافت کرسکتا ہے۔ مغرب کے نوجوانوں میں آج کل جو انتشار پھیلا ہوا ہے اس میں بہت بڑا دخل اسی فلسفے کو ہے۔
  20. خدا کے وجود اور عدم کی بحث ختم کر دی جائے: منطقی ثبوتیت کا فلسفہ
    مغرب میں آج کل ایک اور فلسفہ مقبول ہو رہا ہے جس کے نام مختلف ہوسکتے ہیں، مگر جس کا ماحصل یہ ہے کہ خدا کے اقرار یا انکار کے مسئلے ہی کو ختم کر دیا جائے۔ فلسفہ انگلستان سے شروع ہوا ہے اور وہاں اس کا نام ’’منطقی ثبوتیت‘‘ (Logical Positivism) ہے۔ اب تک ہر ملک اور ہر زمانے میں یہ مسلّمہ امر رہا ہے کہ جملے کے تین لازمی اجزاء ہوتے ہیں، اسم، فعل، حرف۔ اور یہ بھی مسلّمہ بات رہی ہے کہ اسم کسی چیز کے نام پر دلالت کرتا ہے۔ مگر یہ لوگ کہتے ہیں کہ اسم کسی چیز پر دلالت نہیں کرتا، بلکہ ہر لفظ اور جملہ کسی مخصوص حالت (Situation) میں بولا جاتا ہے، چنانچہ جملے میں معنی ڈھونڈنے کے بجائے ہمیں اس حالت کا تجزیہ کرنا چاہیے جس میں یہ جملہ بولا گیا ہے۔ اس قسم کے تجزیے کے ذریعے یہ لوگ یہ ثابت کرتے ہیں کہ روح یا خدا کے بارے میں جتنے جملے بھی بولے جاتے ہیں وہ نہ سچے ہیں نہ جھوٹے، بلکہ بے معنی ہیں۔
  21. وقت اور فلسفہ زماں کا نیا تصور:
    بیسویں صدی میں ایک چیز بڑی اہمیت اختیار کر گئی ہے ۔ دقت یا فلسفۂ زماں۔ سائنس، فلسفہ، نفسیات، ادب ہر جگہ وقت کی ماہیت سے ضرور تعرض ہے۔ کہا یہ جاتا ہے کہ وقت کا پرانا نظریہ بالکل غلط ہے۔ وہ پرانا نظریہ وقت کو ایک لکیر یا خط کی شکل میں پیش کرتا تھا (Linear Time)۔ یعنی وقت تین الگ الگ حصوں میں بٹا ہوا تھا۔ ماضی، حال اور مستقبل۔ اور یہ تینوں حصے الگ الگ تھے۔ چنانچہ جو لمحہ ماضی بن گیا وہ نہ تو حال بن سکتا تھا نہ مستقبل۔ دوسرے لفظوں میں ہر لمحہ پیدا ہونے کے بعد مر جاتا تھا۔ وقت کا نیا نظریہ کہتا ہے کہ وقت لکیر کی طرح نہیں، بلکہ دائرے کی طرح یا چکردار ہے (Circular Time)۔ ماضی حال اور مستقبل الگ الگ نہیں، بلکہ ہر لمحے میں موجود ہیں۔ وقت کبھی نہیں مرتا، بلکہ ابدی ہے۔ اس سارے فلسفے کی غرض یہ ہے کہ وقت خارجی چیز نہیں، بلکہ اندرونی چیز ہے۔ یا یوں کہیے کہ نفس وقت کو جو معنی چاہے دے سکتا ہے۔
    کیا وقت اضافی داخلی اور اندرونی شے ہے؟
    یہ فلسفۂ زماں اس لیے خطرناک ہے کہ اس کی پشت پناہی کے لیے دینی تصورات سے مدد لی گئی ہے۔ ہمارے یہاں تو لوگوں نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ یہ فلسفۂ زماں سراسر اسلامی ہے۔ یہ لوگ ’’ایام اللہ‘‘ کی تفسیر اسی فلسفے کے معنوں میں کرتے ہیں لیکن اگر اس فلسفے کو مان لیا جائے تو نعوذ باللہ شریعت کے سارے احکام معطل ہوجاتے ہیں۔ مثلاً ایٹم کو توڑنے کے سلسلے میں جو تجربے کیے گئے ہیں ان کے سلسلے میں سائنس دان کہتے ہیں کہ وقت پیچھے کی طرف بھی لوٹتا ہے۔ اس نظریے کو Time Reflection Symmetry کہتے ہیں۔ اگر اس نظریے کو روز مرہ زندگی پر بھی عائد کر دیا جائے، یا وقت کے دوسرے فلسفوں کے مطابق وقت کو ایک اضافی اور داخلی یا اندرونی چیز سمجھ لیا جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آدمی نماز کس وقت پڑھے اور روزہ کس وقت رکھے۔ ہمارے یہاں ان جدید نظریوں کی حمایت میں اولیاء کے اوقات یا حضرت علیؓ کا یہ واقعہ پیش کیا جاتا ہے کہ ان کی عصر کی نماز کا وقت گزر گیا تھا، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اشارے پر سورج واپس آگیا۔ لیکن ہمارے یہاں ایسے واقعات کی حیثیت معجزوں اور کرامتوں کی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ فطرت کا نظام معجزانہ طور پر تھوڑی دیر کے لیے بدل گیا، مگر ان کرامتوں سے کوئی شرعی احکام برآمد نہیں ہوتے۔ اس کے برخلاف وقت کے نئے فلسفے آدمی کو یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ وقت کا نظام آدمی کے تابع ہوسکتا ہے بلکہ حدیث ’’الوقتٌ سیفٌ قاطعٌ‘‘ کو ایسے ہی جدید معنی پہنائے گئے ہیں۔ [الوقت سیف قاطع کو بعض جگہ حدیث کہا گیا ہے اور بعض جگہ کسی بزرگ کا مقولہ بتایا گیا ہے۔]
  22. بیسویں صدی کی سائنس: نیا تصوف: نیا رمزی علم
    بیسویں صدی کی ایجادات نے انسانی زندگی میں ایک تلاطم برپا کر دیا ہے۔ ان ایجادات کے پیچھے جو نظریے ہیں انھوں نے خود سائنس کی دنیا میں انقلاب برپا کیا ہے اور اب سائنس وہ نہیں رہی جو انیسویں صدی کے آخر تک تھا۔
    اس نئی سائنس کی چند خصوصیات ذہن میں رکھنی چاہئیں:
    ۱۔ سائنس دانوں کا دعویٰ ہے کہ اس نئی سائنس کے اصول اور قوانین الفاظ کے ذریعے بیان نہیں کیے جاسکتے، بلکہ صرف ریاضی کی علامتوں کے ذریعے بیان ہوسکتے ہیں۔ ان نظریات کو الفاظ میں جس طرح بھی بیان کیا جائے سائنس دان اسے غلط کہیں گے۔ سائنس دانوں کا دعویٰ ہے کہ جس حقیقت کی وہ نمائندگی کرتے ہیں وہ الفاظ کی حدود سے باہر ہے اور اسے وہ خود ہی سمجھتے ہیں۔ حالت بھی دراصل یہی ہے کہ سائنس کی ہر شاخ میں ایک ایسا مقام آتا ہے جہاں صرف اس فن کا ماہر ہی اسے سمجھ سکتا ہے، دوسری قسم کا سائنس دان نہیں سمجھ سکتا۔ اس طرح سائنس ایک ’’نیا تصوف‘‘ یا ’’نیارمزی علم‘‘ بن گئی ہے۔ ہمارے زمانے کو ’’عام آدمی کی صدی‘‘ کہا جاتا ہے، لیکن اس صدی کے علوم عام آدمی کی دسترس سے باہر ہیں۔
    ۲۔ دورِ جدید کا آغاز سولہویں صدی میں فلکیات کی ترقی سے ہوا تھا۔ سترہویں صدی میں طبیعیات کی زیادہ اہمیت ہوگئی، انیسویں صدی میں حیاتیات کا زور ہوا، اب بیسویں صدی میں پھر طبیعیات کا عروج ہے۔
    ۳۔ نئی سائنس نے مادے کا پرانا تصور، یعنی مادے کو طبیعیات کی بنیاد سمجھنا چھوڑ دیا۔ اس کے بجائے ’’توانائی کا تصور سامنے آیا ہے۔ لیکن دراصل بنیادی طور سے دونوں ایک ہیں۔
    ۴۔ کہتے ہیں کہ انیسویں صدی تک سائنس نظامِ فطرت کو ایک مشین سمجھتا تھا، لیکن نیا سائنس کائنات کو ایک زندہ چیز سمجھتا ہے۔
    نئی اور پرانی سائنس کا فرق:
    ۵۔ اب تک یہ تصور کیا جاتا تھا کہ سائنس کا ہر قانون صحیح اور اصل ہے، لیکن اب ہر قانون میں ایک ’’غیر یقینی‘‘ عنصر شامل ہوتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہیے کہ پرانا سائنس سختی سے ’’تعین‘‘ کا قائل تھا اور نیا سائنس عدم تعین کو صداقت کے لیے لازمی سمجھتا ہے۔
    ۶۔ پرانا سائنس ’’حقیقت‘‘ کو ایک ’’ٹھوس‘‘ چیز سمجھتا تھا، نیا سائنس ’’حقیقت‘‘ کو ’’مبہم‘‘ اور ’’دھندلی‘‘ چیز سمجھتا ہے۔ ایک فرانسیسی مفکر نے کہا ہے کہ اب خارجی دنیا انسانی ذہن کے انتشار کی تصویر بن گئی ہے۔
    ۷۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ سائنس میں جتنے نظریاتی انقلاب آئے ہیں وہ ۱۹۰۰ء اور ۱۹۲۰ء کے درمیان آئے ہیں۔ ۱۹۲۰ء کے بعد کوئی بڑا نظریہ سامنے نہیں آیا۔ اس کے بعد تو زیادہ زور عملی پہلو پر رہا ہے۔ نئے نظریے پیدا ہوئے ہیں تو ان کا تعلق تفصیلات سے ہے یا ثانوی درجے کی چیزوں سے۔
    نئی سائنس الحاد کو دین بنا کر پیش کرتی ہے:
    ۸۔ نئے سائنس کے بنیادی نظریے کچھ بھی ہوں، دینی نقطۂ نظر سے زیادہ اہم چیز یہ ہے کہ ان نظریات کا مغربی ذہن پر کیا اثر پڑا ہے اور ان سے فکری نتائج کیا مرتب ہوئے ہیں۔ یہ بات پھر دُہرا دینا چاہیے کہ پُرانی سائنس اور عقلیت پرستی کی تحریک کی طرف سے جو اعتراضات مذہب پر ہوتے تھے وہ نئی سائنس نے دور کردیے ہیں لیکن مغربی افکار کی مادیت گھٹنے کی بجائے بڑھ گئی ہے کیوں کہ پرانی سائنس تو خدا اور روح سے انکار کرتاتھا، مگر نئی سائنس یہ تصور پیدا کرتی ہے کہ نعوذ باللہ روح اور خدا مادے کے اند ر یا کائنات اور فطرت کے اندر موجود ہیں اور تجرباتی طریقے سے ان کی حقیقت دریافت ہوسکتی ہے ۔ اس لیے نئی سائنس لا دینی کو دین بنا کر دکھا رہا ہے۔

نئی سائنس – بُنیادی نظریات کی فہرست
سائنس کے نئے نظریات کی تشریح عام الفاظ میں ممکن نہیں، اور ریاضی و طبیعیات سے اچھی واقفیت کے بغیر انھیں سمجھنا بھی ممکن نہیں۔ اس لیے ان نظریات کی فہرست اور ان کا فکری رُخ پیش کرنے پر اکتفا کی جائے گی۔
(a)آخری حقیقت مادہ کی جگہ توانائی نے لے لی:
سب سے پہلی چیز جس نے ساری دنیا کو بھونچکا کردیا وہ یہ تھی، اُنیسویں صدی کے آخر تک سائنس کی بُنیاد مادے کے تصور پر تھی۔ اور مادے کی تعریف آج کل یوں کی گئی ہے:
’’مادہ توانائی کی ایک خاص شکل ہے جس کی لازمی خصوصیات ہیں کمیت اور زمان و مکان میں پھیلاؤ‘‘۔
(“Matter is a specialised form of energy which has the attributes of mass and extension in space and time.”)
[اس تعریف کے ضمن میں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ یہاں ’’زمان ‘‘ لفظ بیسویں صدی میں بڑھایا گیا ہے،پہلے صرف ’’مکان ‘‘ تھا۔] غرض پُرانے سائنس کے لحاظ سے آخری حقیقت مادّہ تھی3یعنی وہ چیز جسے دیکھا یا محسوس کیا جاسکے اور مادّے کی سب سے بنیادی شکل تھی جزو لایتجزیٰ یا ’’جوہر‘‘ (atom) ۔ اسی لیے پُرانے سائنس کو کائنات اور فطرت ایک ٹھوس چیز نظر آتی تھی۔
لیکن انگریز سائنس دان رو در فورڈ نے جوہر کو توڑکے دکھا دیا۔ چنانچہ اب سائنس دان مادے کے بجائے توانائی (energy) کا ذکر کرنے لگے۔ نئے سائنس کی نظر میں کائنات ٹھوس چیز نہیں رہی، بلکہ ایک طرح کی دُھند بن گئی ۔
جوہر یا ایٹم کی تعریف یہ ہے:
’’جوہر کسی عنصر کی وہ سب سے چھوٹی وحدت ہے جو اپنی کیمیاوی انفرادیت باقی رکھتی ہے‘‘۔
“Atom is the smallest unit of an element to retain its chemical identity”.
لفظ توانائی اصلاً مادہ پرستی کا مترادف ہے:
اور’’ توانائی ‘‘کی تعریف یوں ہے:’’کام کرنے کی صلاحیت‘‘۔”Capacity for doing work”.
غرض نئے سائنس میں مادّے کے بجائے توانائی کا ذکر ہونے لگا۔ اسی معنی میں کہا جاتا ہے کہ نیا سائنس مادّہ پرستی کے خلاف ہے لیکن در اصل توانائی بھی طبعی چیز ہے، اور نیا سائنس بھی اتنا ہی مادّہ پرست ہے جتنا پُرانا سائنس تھا۔ بلکہ سائنس دان ان دو لفظوں ’’توانائی‘‘ اور ’’مادّے‘‘ کو مترادفات کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
مادہ، توانائی کے بجائے ’’ساخت‘‘ حقیقت بن گئی:
جب سے ’’جوہر‘‘ کو توڑا گیا ہے، جوہر کی اندرونی ساخت (structure) مطالعے، تجربے اور فکر کا موضوع بنی رہی ہے۔ اس لفظ نے ذہنوں کو اتنا متاثر کیا ہے کہ بعض لوگ تو مادے اور توانائی کے بجائے ’’ساخت‘‘ ہی کو بنیادی حقیقت سمجھنے لگے ہیں، اور کہتے ہیں کہ ’’جوہر‘’ کے اندر جو محتلف قسم کے ذّرے ملتے ہیں وہ بھی ’’حقیقت‘‘ یا ’’حیات‘‘ نہیں ، بلکہ ان کا’’باہمی رشتہ‘‘ اور ان کی ’’اندرونی تنظیم‘‘ ہی اصل حقیقت ہے ۔ چنانچہ ایک تازہ ترین فلسفہ نکلا ہے جس کا نام ہے Structuralism فلسفۂ ساخت] اور اس نقطۂ نظر سے معاشرہ ، شعرو ادب، زبان، مذہب ہر چیز پر غور کیا جارہا ہے۔
(b)توانائی کا فلسفہ خدائے زندہ کی تعبیر بنا دیا گیا:
جس طرح پہلے بعض لوگ مادے کو قدیم مانتے تھے اور کہتے تھے کہ مادے کو فنا نہیں کیا جاسکتا، اسی طرح آج کل بیشتر سائنس دان توانائی کی قدامت کے قائل ہیں، اور کہتے ہیں توانائی کو نہ تو پیدا کیا جاسکتا ہے نہ فنا کیا جاسکتا ہے ، بس اس کی شکلیں بدلتی رہتی ہیں چنانچہ توانائی کی لازمی اور بُنیادی صفت سمجھی گئی ہے۔ عدم تعّین (indeterminacy) سائنس میں اس اصول کا نام ہے ’’توانائی کی بقا‘‘ (Conservation of Energy) ۔ سائنس کے اس اصول سے کئی فلسفیانہ نظریے بر آمد ہُوئے ہیں جو آج کل خاصے مقبول ہیں۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ’’ فطرت ‘‘ یا ’’حیات‘‘ خود اپنی توانائی سے زندہ ہے اور اس کی لازمی صفت ہے عدم تعین سائنس کے ایسے اصول اور ایسے فلسفے مشرقی لوگوں کے لیے دینی لحاظ سے بہت خطر ناک ہیں، کیوں کہ مشرقی مذاہب کی بنیاد ’’لا تعیّن ‘‘ کے عقیدے پر ہے چنانچہ جو مشرقی لوگ مغرب کے زیرِ اثر آتے ہیں وہ ’’لا تعیّن ‘‘ اور ’’عدم تعیّن‘‘ کو ایک ہی چیز سمجھنے لگتے ہیں۔اس قسم کی گمراہی ہندوؤں میں بہت پھیل گئی ہے۔ لیکن اب بہت سے اسلام کے عاشق بھی خدا کو’’ کائناتی توانائی‘‘ کہنے لگے ہیں اور خدا کو بھی اسی معنی میں ’’زندہ‘’ اور ’’باقی‘‘ سمجھتے ہیں جس معنی میں ’’فطرت ‘‘ زندہ ہے۔ نعوذ باللہ یہ گمراہی ہمارے یہاں روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔
(c)آئن اسٹائن کا نظریہ اضافت: حق و صداقت دائمی اقدار نہیں
حق و صداقت اضافی relative چیزیں ہیں:
نئے سائنس میں سب سے بنیادی اور انقلاب انگیز نظریہ آئن سٹائن کا نظریہ ’’اضافیت‘‘ ہے اور اسی نظریے نے ایٹم بم اور مصنوعی سیّارے پیدا کیے ہیں۔ اس نظریے کی تشریح عام الفاظ میں بالکل ممکن نہیں۔ مگر اس نظریے نے چند اصطلاحات پیدا کی ہیں جو سب کی زبان پر چڑھ گئی ہیں۔ اس لیے ان کا بیان ضروری ہے۔
اِس نظریے کی سب سے مشہور اصطلاح ’’بُعدِ رابع‘‘ (Fourth Dimension) ہے آئن سٹائن سے پہلے صرف تین ابعاد تسلیم کی جاتی تھیں۔لمبائی، چوڑائی، اونچائی یا موٹائی۔ آئن سٹائن نے بتایا کہ کسی چیز کی نوعیت کو سمجھنے کے لیے صرف تین ابعاد کو دیکھنا کافی نہیں ،بلکہ یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ وہ کس جگہ ہے اور کس وقت وہاں ہے۔ کیوں کہ زمان و مکان کی تبدیلی سے چیز کی نوعیت بدل جاتی ہے زمان و مکان کو ملا کر اسے چوتھے ’’بُعد‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ پھر آئن سٹائن نے یہ بھی کہا ہے کہ ہر چیز میں زمان و مکان بیک وقت داخل ہوتے ہیں اور اُس کے وجود میں شریک رہتے ہیں اس لیے زمان و مکان حقیقت کا لازمی جزو ہیں۔ اس اصول کو’’ زمانی و مکانی تسلسل ‘‘کہتے ہیں (Space Time Continuun)۔ اسی اصول سے ظاہر ہے کہ نیا سائنس زمان و مکان میں گرفتار ہے اور ’’لاتعیّن‘‘ تک پُہنچنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے۔
اگر ’’نظریہ اضافیت‘‘ کو عام الفاظ میں سمجھنا چاہیں تو یوں کہہ سکتے ہیں کہ ایک چیز جو ایک جگہ اور ایک وقت میں صحیح ہے وہ دوسری جگہ اور دُوسرے وقت میں غلط ہوگی مثلاً جو اقلیدس یونانیوں کے زمانے سے چلی آرہی ہے وہ ہموار سطح یعنی زمین پر تودرست ہے لیکن خلا میں غلط ہے کیوں کہ خلا خم دار ہے [خلا کے خم دار curvature of the Spaceہونے کا اُصول بھی آئن سٹائن نے نکالا ہے]۔ اسی طرح عام زندگی میں تو دو اور دو کا مجموعہ چار ہی ہوتا ہے لیکن دوسرے حالات میں ممکن ہے کہ یہ مجموعہ تین یا پانچ ہو جائے۔ ٹھیٹ ریاضی اور طبیعیات میں آئن سٹائن کے نظریات کا جو بھی مطلب ہو اس سے عمومی طور پر یہ نتیجہ بر آمد ہوتا ہے کہ حق یا صداقت کوئی مستقل اور قائم بالذات چیز نہیں، بلکہ اضافی چیز ہے اور زمان و مکان کے ساتھ بدلتی رہتی ہے۔ آئن سٹائن کے نظریات سے لازمی طو رپر یہ جو تاثر پیدا ہوتا ہے، اس نے موجودہ زمانے کی زندگی میں بہت کچھ انتشار پیدا کیا ہے۔

(d)پلانک کا نظریہ کوانٹم: الحاد کی نئی جہت
بیسویں صدی کے سائنس میں ایسی ہی اہمیت پلانک (Max Planck) کے نظریے (Quantum Theory) کی ہے۔ فی الجملہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ توانائی کی حرکت میں تسلسل نہیں۔ اس کی مثال یوں سمجھئے کہ سڑک پر موٹر جارہی ہے، دو منٹ تک تو نظر آتی ہے ، پھر یکایک غائب ہوجاتی ہے، پھر نظر آنے لگتی ہے، پھر غائب ہوجاتی ہے۔ یہاں مسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ جتنی دیر موٹر نظروں سے غائب رہی وہ کہاں چلی گئی تھی؟ ایک عام آدمی کو یہ نظر یہ سُنایا جائے تو وہ سوچنے پر مجبور ہوجائے گا کہ میں زندہ بھی ہوں یا نہیں۔ چنانچہ موجود ہ ز مانے کی زندگی کو ہیبت ناک بنانے میں اور قتل و غارت گری کرنے میں اس نظریے کو بھی خاصا دخل ہے۔
بعض لوگوں نے اس نظریے کو رُوح اور خُدا کے وجود کی دلیل سمجھا ہے۔ اور ہمارے یہاں تو بعض لوگوں نے تصوف کے مسئلے ’’تجدّدِ امثال‘‘ کو اسی نظریے کی مدد سے ثابت کیا ہے۔ لیکن بعض تصوّرات کی ظاہری مشابہت کے باوجود دین کو سائنس کے ذریعے مدد پہنچانے کی ہر کوشش آخر میں دین کے لیے مضر ہوگی کیوں کہ دین کا انحصار طبیعیات پر نہیں۔
( e)جدید سائنس کا نیا فلسفہ حیات خودکش ہے:
کائنات خودکشی پر تلی ہوئی ہے لہٰذا خودکشی کی شرح بڑھ گئی:
اُنیسویں صدی تک عموماً سائنس دان یہ کہتے تھے کہ مادہ فنا نہیں ہوسکتا اس لیے وہ قیامت کے عقیدے پر ایمان لانے کو تیار نہیں تھے لیکن نئے سائنس میں ایک اصول دریافت ہوا ہے جس سے قیامت پر یقین آسان ہوگیا ہے۔ اس اصول کا نام The Second Law of Thermodynamics ہے۔ یہ علم Thermodynamics حرارت اور توانائی کا مطالعہ کرتا ہے۔ اس کے تین قوانین مشہور ہیں۔ ’’پہلا قانون‘‘ تو اوپر بیان ہوچکا ‘‘۔ توانائی کی بقا کا اصُول یعنی کسی مستقل نظام کے اندر توانائی نہ تو پیدا کی جاسکتی ہے اور نہ فنا کی جاسکتی ہے ۔دوسرا قانون یہ ہے کہ توانائی ہے تو ’’کام کرنے کی صلاحیت‘‘ لیکن کام کرتے کرتے توانائی ایک تخریبی قوت بن جاتی ہے اور انتشار پیدا کرتی ہے۔ چنانچہ بعض سائنس داں کہتے ہیں کہ ایک دن ایسا آئے گا جب کائنات اپنی توانائی سے کام نہیں لے سکے گی اور منتشر ہوجائے گی۔ اس نظریے کو Heat Death of the Universeکہتے ہیں۔ لیکن کائنات کے اس طرح فنا ہو نے کا انحصار اس بات پر ہے کہ کائنات ایک ’’ہر طرف سے بند نظام ‘‘(Closed system) ہے یا نہیں۔
اس نظریے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ’’حیات‘‘ خود اپنے آپ کو ہلاک کرتی ہے۔ یہ اُن نظریات میں سے ہے جنھوں نے بیسویں صدی کے انسان کے ذہن پر ایک مستقل دہشت بٹھادی یہ اور انسان کو اپنی زندگی بے معنی نظر آنے لگی ہے ۔ امریکہ میں جتنے قتل اور خود کشی کی وارداتیں ہوتی ہیں، ان کے پیچھے یہ نظریہ بھی ہے جب ’’زندگی‘‘ اور ’’کائنات‘‘ ہی خود کشی پر تلی ہوئی ہو تو فرد کی زندگی کے کیا معنی اور اس کی کیا قدرو قیمت ہے۔
(f)مادیت کے پہلو بہ پہلو غیر مادیت کا فلسفہ مادیت:
سائنس کے نظریات جو امکان قیامت ثابت کرتے ہیں خطرناک ہیں
اثبات قیامت کے باوجود اثبات آخرت نہیں ہوتا:
حال ہی میں مادیت کے پہلو بہ پہلوAnti-Matter [غیر مادہ] کا نظریہ بھی نکلا ہے جس پر روسی سائنس دانوں نے زیادہ کام کیا ہے کہتے ہیں کہ مادے کے ذرات کے مقابل ایک ایسی چیز کے ذرات بھی موجود ہیں جو نہ صرف غیر مادہ ہے بلکہ مادے کی دشمن ہے ۔ چنانچہ ہر مادی چیز کے مقابل اور متوازی ایک غیر مادی چیز بھی موجود ہے اس طرح ہماری کائنات کے ساتھ ایک ’’غیر مادی‘‘ کائنات بھی ہے جو اس کا عکس ہے۔ مگر یہ معلوم نہیں کہ یہ عکسی کائنات کہا ں ہے بہر حال اتنا طے ہے کہ جب مادہ اور غیر مادہ ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں تو ایک دُوسرے کو فنا کردیتے ہیں۔ اگر کبھی ایسا ہوا کہ ’’غیر مادی‘’ کائنات مادی کائنات کے قریب آگئی تو دونوں ایک دوسرے کو فنا کردیں گی۔
ہمیں یہ نظریہ بھی در اصل روحانیت کے قریب نہیں لاتا، کیوں کہ ’’غیر مادہ‘‘ چاہے مادہ نہ ہو لیکن ہے بہر حال طبیعی چیز سائنس کے سارے ایسے نظریات جو قیامت کا امکان ثابت کرتے ہیں انسان کے دل میں خوف تو پیدا کرتے ہیں، لیکن امید کا کوئی پہلو نہیں رکھتے۔ اگر ان نظریات کو مان لیا جائے اور خدا پر یقین نہ ہو تو انسان بس یہی کرسکتا ہے کہ اپنے اوپر مکمل بے حسی طاری کرلے، اور اندھا بہرا ہو کے زندگی بسر کرے۔ مغربی انسان کی یہی حالت ہوتی جارہی ہے۔
(g)کائنات محدود ہے یا لامحدود: سائنس حتمی جواب نہیں دے سکی:
اُوپر جتنے نظریات بیان ہوئے ان کا تعلق طبیعیات سے تھا۔ علاوہ ازیں فلکیات میں بھی بہت سے نظریے نکلے ہیں۔ مگر وہ سب قیاس آرائی سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔
بطلیموسی نظام کے مطابق کائنات محدود تھی۔ کوپر نیکس نے لا محدود کائنات کا تصور پیش کیا آگے چل کر پھر محدود کائنات کا نظریہ آگیا۔ ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوسکا کہ کائنات محدود ہے یا لامحدود ۔
پھر ایک اختلاف اور ہے۔ یہ تو خیر طے ہوگیا کہ کائنات ایک نہیں، بلکہ بہت سی کائناتیں یا ہمارے نظام شمسی کی طرح کے بہت سے نظام ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ یہ عظیم تر کائنات:
۱: جتنی ہے ہمیشہ سے اتنی ہی رہی ہے اور ہمیشہ اتنی ہی رہے گی یا ۲: بڑھتی جارہی ہے۔۳: یا گھٹ رہی ہے۔
کائنات کس طرح وجود میں آئی: اتفاق نہیں ہوسکا
سائنس داں اس معاملے میں بھی کوئی فیصلہ نہیں کرسکے، روز رائے بدلتی ہے۔ ایک مسئلہ یہ ہے کہ کائنات کس طرح وجود میں آئی۔ یہاں بھی مختلف نظریے ہیں ۔
۱: مادے کے سُکڑنے سے کائنات صورت پذیر ہوئی۔
۲: ایک بڑے دھماکے کے ساتھ مادہ ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا، اور ان ٹکڑوں کے انجماد سے کائنات بنی۔ اس نوع کے مختلف نظریے ہیں۔
یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کوئی نئی کائنات بن رہی ہے یا نہیں۔ اور یہ مسئلہ بھی درپیش ہے کہ کائنات ختم ہوگی یا نہیں ۔ بہر حال واضح جواب کسی مسئلے کا موجود نہیں۔ سائنس داں اس امید میں بیٹھے ہیں کہ جب انسان سیاروں میں پہنچے گا تو شاید یہ مسئلے حل ہوجائیں گے۔
بیسویں صدی میں عیسوی کلیسا:
بیسویں صدی کے افکار کے اس جائزے کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر مذہب پر ہر طرف سے اتنے حملے ہورہے ہیں تو عیسوی کلیسا کیا کررہا ہے؟
پروٹسٹنٹ کلیسا کا تو معاملہ صاف ہے پروٹسٹنٹ مذہب اور جدیدیت شروع سے ایک دوسرے کے ساتھ چلے ہیں۔ چنانچہ پروٹسٹنٹ مذہب تو در اصل مذہب ہی نہیں البتہ رومن کیتھلک کلیسا مذہب کی مدافعت کی کوشش کرتا رہا ہے۔ لیکن اب یہ کلیسا بھی جدیدیت سے دبتا چلا جارہا ہے اور آہستہ آہستہ جدیدیت کے مطالبے تسلیم کرتا جارہا ہے۔
عظیم گمراہی: یہ تصور کہ جدید سائنس و فلسفہ عین اسلام ہے
دوسری جنگ عظیم کے بعد سے پروٹسٹنٹ فرقے کے ماہر دینیات تو بالعموم اور بعض رومن کیتھلک بھی اپنے مذہب کو نئے فلسفوں اور سائنس کے نئے نظریوں کے سانچے میں ڈھالتے چلے جارہے ہیں، اور ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس طرح عیسائیوں کے بنیادی عقائد تک ہر سال بدل رہے ہیں اور دس سال کے اندر مغرب میں کوئی ایسی چیز باقی نہیں رہے گی جسے رعایتاً بھی مذہب کا نام دیا جاسکے۔
ان نئے عیسوی مفکرین کے خیالات سے ہمارے بعض نوجوان بھی متاثر ہو رہے ہیں، اور اسلام کو بھی یہی رنگ دینا چاہتے ہیں۔ بلکہ یہاں تک دعوی کررہے ہیں کہ نئے سائنس اور نئے فلسفوں نے جتنے خیالات پیش کیے ہیں وہ نعوذ باللہ عین اسلام ہیں بہر حال اللہ اپنے دین کی حفاظت کرے گا۔
سبحان ربک رب العزت عما یصفون ۔ وسلام علی المرسلین
والحمدللّٰہ رب العالمین
حصہ اول
حصہ دوئم

  • ‘جدیدیت’ محمد حسن عسکری [2] | الحاد جدید کا علمی محاکمہ
    April 9, 2019 at 9:18 am

    […] مستشرقین کی تحریک: انیسویں صدی نے ہی مستشرقین کی تحریک پیدا کی ہے۔ مشرقی علوم اور ادیان کے بارے میں مغربی لوگ پہلے بھی لکھتے رہے ہیں، خصوصاً اٹھارہویں صدی میں ہندوؤں اور چینیوں کے علوم کی طرف خاص توجہ ہوئی ہے، لیکن مستشرقین کے کام نے ایک باقاعدہ تحریک کی شکل انیسویں صدی میں اختیار کی۔ اس کام کی ایک تو سیاسی ضرورت تھی، کیونکہ مغرب نے مشرقی ممالک میں اپنی شہنشاہیت قائم کرلی تھی، لہٰذا مفتوحہ قوموں کے متعلق معلومات حاصل کرنے کی ضرورت پیش آرہی تھی۔ دوسرے عیسائی مشنریوں کو اپنا کام کرنے کی پوری آزادی اور حکومتوں کی حمایت حاصل ہوگئی تھی۔ انھوں نے بھی اپنے مقاصد کے تحت مشرقی علوم کے مطالعے کی طرف توجہ کی۔ مگر ان دو مقاصد کے علاوہ مستشرقین کے پیچھے بہت سے وہ رجحانات کام کر رہے تھے جو اوپر گنوائے گئے مثلاً مذاہب کا تقابلی مطالعہ، تاریخ پرستی، عمرانیات، آزاد خیالی وغیرہ۔ چنانچہ مستشرقین میں بعض ’’پرخلوص‘‘ لوگ بھی ہوئے ہیں، لیکن ان کا ذہن ایسا مسخ ہوچکا ہے کہ وہ چیزوں کی حقیقت کو سمجھنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے۔ مستشرقین کی بنیادی خامیاں یہ ہیں: ۱۔ مذاہب کے مطالعے میں سینہ بہ سینہ چلنے والی روایت کو سمجھنے کے بجائے کتابوں پر تکیہ کرنا۔ ۲۔ دین کے مستند شارحین کے اقوال کے بجائے اپنی ذاتی رائے کے مطابق تشریح کرنا۔ ۳۔ ہر دین اور ہر تہذیب میں مغربی تصورات اور مغربی ادارے ڈھونڈنا اور ایسے عناصر کو فوقیت دینا جہاں مغرب کی جدیدیت کا رنگ نظر آئے۔ ۴۔ عقائد تک کو تاریخی نقطۂ نظر سے دیکھنا۔ ۵۔ لسانیات کے مطالعے پر زور دینا اور عقائد و احکام کی تشریح لغت کے اعتبار سے کرنا۔ ۶۔ ادیان کو نظریۂ ارتقاء کی رو سے دیکھنا۔ ۷۔ ’’تحقیق‘‘ برائے تحقیق میں مصروف رہنا۔ محض ’’واقعات‘‘ کی چھان بین کرنا، چاہے ان سے کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوسکے۔ ۸۔ پرانی کتابیں تلاش کر کے شائع کرنا اور یہ معلوم کرنے کی کوشش نہ کرنا کہ ان کی دینی حیثیت کیا ہے؟ دینی معاملات میں قصہ کہانی کی کتابوں تک کو شہادت میں پیش کرنا۔ ۹۔ سائنس کے طریقے سے مذہب کا مطالعہ کرنے کا زعم۔ ۱۰۔ دین اور تصوف کو فلسفہ سمجھنا۔ ۱۱۔ دین کے معاملات میں اخلاقیات پر زور دینا۔ ۱۲۔ مذہب کی حقیقت نہ سمجھنا۔ ۱۳۔ عقلیت۔ ۱۴۔ یونانی فلسفے کو دین سے برتر سمجھنا اور مشرقی ادیان کو یونانی فلسفے کی نظر سے دیکھنا۔ ۱۵۔ خود عیسوی دین بلکہ مغربی تہذیب سے بھی قرار واقعی آگاہی نہ رکھنا اور اس کے باوجود مشرق کی ہر چیز پر محاکمہ کرنے کا دعویٰ کرنا۔ ۱۶۔ اپنے مطالعہ اور اپنی تحقیقات کی بنیاد اس مفروضے پر رکھنا کہ مشرق کا ذہن منجمد ہوگیا ہے اور مغرب کا ذہن برابر ترقی کرتا رہا ہے اور ترقی کرتا رہے گا۔ (جاری ہے) حصہ اول حصہ سوئم […]

  • ‘جدیدیت’ محمد حسن عسکری | الحاد جدید کا علمی محاکمہ
    April 9, 2019 at 9:34 am

    […] چنانچہ ’’نشأۃ ثانیہ‘‘ کا اصلی مطلب ہے وحی پر مبنی اور نقلی علوم کو بے اعتبار سمجھنا، اور عقلیت اور انسان پرستی اختیار کرنا، اسی لیے اس تحریک کا دوسرا نام ’’انسان پرستی‘‘ (Humanism) بھی ہے۔ چونکہ نیا دور اسی زمانے میں شروع ہوتا ہے اور جدیدیت کے خدوخال نمایاں ہونے شروع ہوتے ہیں، اس لیے اس دور کی فکری اور عملی خصوصیات پیش کی جاتی ہیں: ۱۔ یونانی علوم کو دینی علوم پر ترجیح دینا۔ ۲۔ انسان پرستی ‘‘ یعنی انسان کو موجودات میں سب سے اہم سمجھنا اور ہر بات پر انسان کے نقطۂ نظر سے غور کرنا۔ ۳۔ چونکہ عوام مذہبی رنگ میں رنگے ہوئے تھے، اس لیے عموماً خدا کے وجود سے انکار نہیں کیا گیا۔ لیکن خدا پر ایمان محض ایک رسمی چیز بن گیا۔ ۴۔ آخرت سے بھی انکار نہیں کیا گیا لیکن ایک بہت بڑا فرق پیدا ہوا۔ ازمنۂ وسطیٰ کے لوگ کہتے تھے کہ اصل حقیقت تو آخرت ہی ہے، یہ دنیا محض فریب ہے۔ اب لوگ کہنے لگے کہ آخرت بھی حقیقی ہے، اور یہ دنیا بھی حقیقی ہے۔ ۵۔ آخرت چونکہ نظر نہیں آتی اس لیے کہا گیا کہ آخرت کی فکر میں گھلنا بیکار ہے، مرنے کے بعد دیکھا جائے گا۔ دنیا نظروں کے سامنے ہے۔ پہلے اس کا بندوبست کرو۔ اس رجحان کی بہترین مثال انگریز فلسفی بیکن ہے جسے ’’سب سے پہلا جدید مفکر‘‘ کہا جاتا ہے۔ گمراہی کا نیا روپ: خدا کی دو کتابوں کا تصور : ۶۔ یہ خیال بھی اس زمانے میں بہت مقبول ہوا کہ خدا کی دو کتابیں ہیں، ایک تو انجیل اور دوسری فطرت۔ چنانچہ انجیل کے مطالعے کی طرح فطرت کا مطالعہ بھی دینی فریضہ ہے۔ کچھ لوگ اس سے بھی آگے گئے اور کہنے لگے کہ انجیل کو فطرت کے مطالعے کی روشنی میں سمجھنا چاہیے۔ یہ نقطۂ نظر گیلیلیو کا بھی تھا۔ [اسی لیے کلیسا نے اسے سزا دی تھی۔ یہ محض افسانہ ہے کہ کلیسا سائنس کی ترقی کا مخالف تھا[ نفس پرستی کی شکل: فطرت پرستی: ۷۔ فطرت کے حسن کی طرف بھی خاص طور سے توجہ کی گئی۔ انسان کا فریضہ قرار پایا کہ فطرت کے حسن اور دنیا کی رنگینیوں سے پوری طرح لطف اندوز ہو۔ سینکڑوں شاعر اس موضوع پر نظمیں لکھنے لگے کہ زندگی چند روزہ ہے، اس سے جتنا لطف اٹھایا جاسکے اٹھالو یعنی نفس پرستی کو اصولِ زندگی بنایا گیا۔ ۸۔ فطرت کا مطالعہ برائے مطالعہ نہیں ہونا چاہیے، بلکہ تسخیر فطرت کے لیے تاکہ انسان فطرت کی قوتوں کو اپنے کام میں لاسکے۔ چیزوں کی حقیقت: مشاہدہ و تجربہ ۹۔ مطالعۂ فطرت کا طریقہ بھی بیکن نے مقرر کر دیا جس چیز کو ’’سائنس کا طریقہ‘‘ کہا جاتا ہے وہ اسی سے شروع ہوا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چیزوں کی حقیقت صرف مشاہدے اور تجربے سے معلوم ہوسکتی ہے۔ اس سے براہِ راست منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جو چیز مشاہدہ نہ کی جاسکے اور حسی تجربے میں نہ آسکے وہ حقیقی نہیں۔ [اس کا اعلان انیسویں صدی میں ہوا] ۱۰۔ لفظ ’’فطرت‘‘ کا مفہوم بھی اس دور میں بدلنے لگا۔ ازمنۂ وسطیٰ کے مفکر دو چیزوں میں امتیاز اور فرق ملحوظ رکھتے تھے۔ ایک تو ہے Natura Naturans جس کی حیثیت ’’جوہر‘‘ کی ہے۔ لہٰذا غیر مادی چیز ہے۔ دوسری چیز ہے Natura Naturata جس کی حیثیت ’’عرض‘‘ کی ہے لہٰذا مادی چیز ہے۔ اس دور سے یہ دوسرے معنی غالب آنے لگے، اور عرض کو جوہر کی جگہ دی جانے لگی۔ آہستہ آہستہ لوگ جوہر کو بھول ہی گئے۔ [سرسید اور دوسرے ’’نیچیری‘‘ یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ لفظ ’’نیچر‘‘ انگریزی میں کتنے معنی رکھتا ہے] ۱۱۔ تسخیر فطرت سے مراد ہے طاقت کا حصول۔ یہ اس دور کا سب سے بنیادی اور مرکزی اصول حیات تھا۔ انسان کا سب سے بڑا فریضہ یہ قرار پایا کہ طاقت حاصل کرے، خواہ کسی شعبے میں ہو اور کسی طریقے سے ہو۔ ۱۲۔ طاقت کے اصول سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اخلاقیات کوئی چیز نہیں جو آدمی طاقت حاصل کرلے وہ اچھا ہے اور اس کا طریقہ کار بھی اچھا ہے جو آدمی طاقت حاصل نہ کرسکے وہ برا ہے اور اس کا طریقہ کار بھی برا ہے اور پھر طاقت بھی لامحدود ہونی چاہیے۔ اس دور کے مصنف صاف الفاظ میں کہتے ہیں کہ انسان کو خدا بننے کی کوشش کرنی چاہیے۔ نعوذ باللہ۔ اس ’’نئی اخلاقیات‘‘ کو فلسفے کی شکل اٹلی کے مفکر میکیاویلی نے دی۔ وہ کہتا تھا کہ عام افراد کو تو اخلاقیات کا پابند ہونا چاہیے، لیکن بادشاہ اخلاقی اصولوں سے بالکل آزاد ہے۔ بادشاہ اپنی قوم کی خاطر جو چاہے کرسکتا ہے، جو چیز بھی اسے مفید معلوم ہو وہ اچھی ہے ‘‘ چاہے قتل ہو یا جھوٹ۔ ۱۳۔ چنانچہ اس دور میں ’’قوم‘‘ اور ’’قومیت‘‘ کا جدید تصور پیدا ہوا۔ ’’قوم‘‘ اور ’’وطن‘‘ کو وہ جگہ دی گئی جو خدا کی ہونی چاہیے۔ لہٰذا اس زمانے میں بادشاہوں کو مطلق اور جابرانہ طاقت حاصل ہوئی، اور انگلستان میں تو کلیسا بھی بادشاہ کے زیرنگیں آگیا۔ یہی دور تجارت کی ترقی کا ہے۔ موجودہ سرمایہ داری کا آغاز یہیں سے ہوتا ہے۔ ۱۴۔ یہی زمانہ سیاحت کی انقلاب انگیز کامیابیوں کا ہے۔ امریکہ جیسا براعظم دریافت ہوا، ہندوستان کا سمندری راستہ معلوم ہوا، بحرالکاہل دریافت ہوا۔ نئی ایجادات کا آغاز بھی اسی دور میں ہوا۔ بارود اور چھاپہ خانہ جن کو دور جدید کی بنیاد کہا جاتا ہے اسی زمانے میں بنائے گئے۔ ادھر سائنس کے شعبے میں کوپرنیکس، کیپلر اور گیلیلیو نے بطلیموسی نظام اور ارسطو کی طبیعیات کو الٹ کر رکھ دیا۔ غرض یورپ کے لوگوں کی نظر میں نہ صرف دنیا بلکہ کائنات ہی کا نقشہ بدلنے لگا، اور روایتی علوم بے کار معلوم ہونے لگے۔ ۱۵۔ ان خارجی اور مادی کامیابیوں نے مغربی ذہنیت کو ایسا متاثر کیا کہ لوگ ’’فکر‘‘ اور ’’عمل‘‘ کو ایک دوسرے کا مخالف اور متضاد سمجھنے لگے بلکہ ’’عمل‘‘ [یعنی خارجی اور جسمانی عمل] کو ’’فکر‘‘ پر فوقیت دینے لگے۔ ۱۶۔ یورپ کے روایتی اور دینی علوم تو خیر برباد ہو ہی رہے تھے لیکن یہ مادی کامیابیاں اور ترقیاں بظاہر مثبت چیز معلوم ہوتی ہیں۔ مگر اس کے ساتھ ایک دوسرا فکری رجحان ابھر رہا تھا جو فی الاصل فکر ہی کی جڑ کھود دیتا ہے۔ اس دور سے پہلے جتنے بھی دیندار یا بے دین لوگ ہوئے ہیں وہ سب یہی دعویٰ کرتے تھے کہ ہم حقیقت یا صداقت یا حق کی تلاش میں ہیں۔ اس دور کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ اس نے صداقت یا حق کے وجود ہی سے انکار کر دیا۔ اس رجحان کا سب سے بڑا نمائندہ فرانس کا مفکر موں تینیہ (Montaigne) ہے ‘‘ جسے انگریز مون ٹین کہتے ہیں۔ اس نے ایک مثال دی ہے کہ بچپن میں مجھے ککڑی بہت پسند تھی، مگر اب پسند نہیں آتی۔ اس مثال سے نتیجہ یہ اخذ کیا ہے کہ حق یا صداقت کوئی مطلق یا مستقل چیز نہیں، بلکہ اضافی چیز ہے جو ہر آدمی کے ساتھ اور زمان و مکان کے ساتھ بدلتی رہتی ہے۔ شک: عقل مند کی پہچان : اس لیے انسانی ذہن کی معراج معرفت یا علم کا حصول نہیں، بلکہ تشکیک ہے۔ سب سے عقل مند آدمی وہ ہے جو ہر چیز اور ہر خیال کو شک کی نظر سے دیکھتا ہو۔ تشکیک کا یہ فلسفہ موجودہ مغربی ذہن کا لازمی جز بن گیا ہے جس کا آخری نتیجہ مادی ضروریات اور نفسیاتی خواہشات کی تسکین کے سوا ہر چیز سے مکمل بے نیازی ہے۔ تشکیک کا فلسفہ نفسانی خواہشات پر شک نہیں کرتا اس تشکیک کے فلسفے نے ہر چیز پر شک کیا سوائے جسمانی ضروریات اور نفسانی خواہشات کے۔ ان دو چیزوں کی تسکین چونکہ ضروری اور لازمی قرار پائی، اس لیے تسکین کا آلۂ کار بھی ڈھونڈنا لازمی تھا۔ یہ آلۂ کار دو ہوسکتے تھے۔عقلِ جزوی (Reason) اور تخیل۔ چنانچہ اس دور سے مغرب کے لوگ عقلِ کلی (Intellect) کو بھولنے لگے، اور آہستہ آہستہ عقل جزوی ہی کو عقلِ کلی سمجھنے لگے۔ اب یورپ میں مفکروں کے دو گروہ ہوگئے۔ ایک گروہ تو عقل [یعنی عقل جزوی] کو انسانی ذہن کی صلاحیتوں میں سب سے بڑا درجہ دینے لگا اور دوسرا گروہ تخیل کو۔ ان دونوں گروہوں میں پچھلے تین سو سال سے لڑائی جاری ہے جس کے عنوانات بدلتے رہتے ہیں لیکن ہمیں یہ بات نہ بھولنی چاہیے کہ عقلِ جزوی ہو یا تخیل، دونوں ہی کی بنیاد حسیات پر ہے۔ لہٰذا دراصل دونوں گروہ ہی حسی تجربے کے قائل ہیں، اور ظاہری اختلاف کے باوجود بنیادی طور سے ایک ہی بات کہہ رہے ہیں۔ انفرادیت پرستی کا فلسفہ: اب تک اس دور کے جتنے خصائص بیان ہوئے ان سب میں ایک چیز مشترک ہے۔ یعنی فرد کی اہمیت کا اثبات۔ نہ صرف نشأۃ ثانیہ کے دور، بلکہ پوری جدیدیت کی اصل و روح یہی انفرادیت پرستی ہے۔ مذہب ہو یا اخلاقیات یا معاشرتی زندگی، ہر جگہ آخری معیار فرد اور اس کے تجربے کو سمجھا گیا ہے۔ پچھلے پانچ سو سال میں مغرب نے گمراہی کی جتنی شکلیں بھی پیدا کی ہیں وہ سب اسی انفرادیت پرستی کے بیج سے نکلی ہوئی شاخیں ہیں۔ یہی وہ اصول ہے جو نشأۃ ثانیہ کی تحریک کا رشتہ ’’اصلاحِ دین کی تحریک‘‘ سے جوڑ دیتا ہے۔ (جاری ہے) حصہ دوئم حصہ سوئم […]

Leave Your Comment

Your email address will not be published.*

Forgot Password