مغربی تہذیب کی گمراہیوں کا خاکہ

٭ان مغربی تصورات کی فہرست جن سے دین کے بارے میں غلط فہمیاں اور گمراہیاں پیدا ہوتی ہیں۔
چالیس پچاس سال پہلے تک مستشرقین کی طرف سے یا پادریوں کی طرف سے یا مغربی مفکرین کی طرف سے، یا ہمارے یہاں جن لوگوں نے مغربی تعلیم تک حاصل کی تھی ان کی طرف سے اسلام پر یا عمومی طور سے مذہب پر جو اعتراضات ہوتے تھے اور شکوک و شبہات ظاہر کیے جاتے ہیں وہ اعتراض کی حیثیت سے ہوتے تھے اور ان کی شکست واضح ہوتی تھی۔ اس لیے ان اعتراضات کو سمجھنا اور جواب دیناآسان تھا۔
لیکن اب مستشرقین نے، مغرب کے عام مفکروں نے، پھر ان کی تقلید میں ہمارے یہاں تجدد پسندوں نے ایک نیا طریقہ کار اختیار کیا ہے۔ یہ لوگ بظاہر اسلام کی، یا عمومی طور سے مذہب کی تعریف کرتے ہیں مگر مذہب کا جو تصور ان کے ذہن میں ہوتا ہے وہ دراصل دین میں تحریف کے مترادف ہے۔ یہ سارے گروہ اپنی پوری کوشش اسی بات پر صرف کر رہے ہیں کہ اسی قسم کے مسخ شدہ تصورات رواج پاجائیں۔ عام آدمی ظاہری الفاظ پر جاتے ہیں اور ان تصورات کو قبول کرلیتے ہیں۔ یہ معاملہ صرف اسلام ہی کے ساتھ پیش نہیں آ رہا بلکہ مغرب اور مغرب زدہ لوگوں کی طرف سے یہ حملہ سارے مشرقی ادیان پر ہو رہا ہے۔ چنانچہ ہندوؤں کی تو عام طور سے یہ حالت ہوئی ہے کہ انھیں یاد ہی نہیں رہا کہ ان کا دین کیا ہے۔ مغرب کی طرف سے آنے والی تفسیروں کو وہ آنکھیں بند کر کے قبول کرتے چلے گئے ہیں۔ چنانچہ ہندوؤں میں خود ایسے مصنف پیدا ہوگئے ہیں جو ان ہی مغربی تفسیروں کو اصلی ویدانت کے نام سے پیش کرتے ہیں مثلاً وویکانند، رادھا کرشنن، یہاں تک کہ آرو بندو گھوش، ان ہندو مصنفوں کا اثر مسلمانوں نے بھی قبول کیا ہے۔
مستشرقین اور عام مغربی مفکرین کی طرف سے جو اسلام یا بنفسہٖ مذہب کے متعلق ایسے خیالات کی اشاعت ہو رہی ہے اس میں بڑا دخل مغرب کی مسخ شدہ ذہنیت کا ہے جس کا سلسلہ پندرہویں صدی میں نشأۃ ثانیہ کی تحریک سے شروع ہوا تو بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے اور اس طرح گمراہیوں کی شکلوں میں اضافہ ہوتا گیا ہے۔
یہاں گمراہی کی جتنی شکلیں پیش کی جا رہی ہیں وہ ہمارے یہاں مسلمانوں میں بھی اتنی عام ہوگئی ہیں کہ ان کی سینکڑوں مثالیں اور شہادتیں روزانہ اخباروں سے جمع کی جاسکتی ہیں۔ یہ فہرست مرتب کرنے کے لیے آسانی کی خاطر ایک فرانسیسی کتاب Etudes Sur L’Hindousme سے مدد لی گئی ہے جو ایک فرانسیسی مسلمان عالم رینے گینوں (Rene Guenon) [شیخ عبدالواحد یحییٰ] کے مضامین کا مجموعہ ہے۔ ۱۹۲۰ء سے لے کر ۱۹۵۰ء تک جو مشہور کتابیں ہندوؤں کے علوم کے متعلق مغربی زبانوں میں لکھی گئی ہیں رینے ان پر تبصرہ کرتے رہے ہیں اور غلطیاں گنواتے رہے ہیں۔ اس فہرست کو زیادہ مفید بنانے کے لیے شیخ عبدالواحد یحییٰ کی دوسری فرانسیسی کتابوں سے بھی مدد لی گئی ہے۔
یہاں یہ عرض کر دینا غیر مناسب نہ ہوگا کہ بعض مستشرقین نے ایک نیا طریقۂ کار اختیار کیا ہے، وہ علماء اور مشائخ کے پاس استفادے کے لیے پہنچتے ہیں اور اپنے سوالات ایسے الفاظ میں پیش کرتے ہیں جن کا صحیح مفہوم اور پس منظر علماء پوری طرح نہیں سمجھ سکتے۔ پھر وہ مستشرق (ان) علماء کے جوابات کو اپنی تائید کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس کی بین مثال فرانس کے مستشرق آں ری کوربین (Henry Corbin) ہیں جنھیں زمانۂ حال کا سب سے بڑا مستشرق کہا جاتا ہے۔ وہ ہر مسئلے میں یہی دعویٰ کرتے ہیں کہ میں نے ایران کے علماء اور مشائخ سے دریافت کرلیا ہے۔ اس طریقۂ کار کی بدولت انھوں نے ایران میں اتنا رسوخ حاصل کرلیا ہے کہ تصوف اور معقولات کی کتابوں کی طباعت اور اشاعت کا کام ایران کی حکومت نے انھیں کے سپرد کر دیا ہے۔ اسی طرح حضرت ابن عربیؒ کی نایاب کتابوں کی اشاعت اور ان سے متعلق تحقیق کا کام بھی انھیں کے پاس آگیا ہے۔ چنانچہ ایران اور مصر وغیرہ کے بہت سے نوجوان ان کی سرپرستی میں کام کر رہے ہیں اور ان کے خیالات کی اشاعت اسلامی ممالک میں کر رہے ہیں۔ ان صاحب کی تحقیقات کا ایک نمونہ یہ ہے کہ ان کے نزدیک حضرت ابنِ عربیؒ نے معرفت کا ذریعہ تخیّل کو قرار دیا ہے۔ یہ واقعہ مثال کے طور پر پیش کیا گیا آگے گمراہیوں کی نئی شکلوں کی فہرست پیش کی جاتی ہے:
*مغربی گمراہیوں کی فہرست:
[۱] یہ بات نہ سمجھنا کہ مذہب کے تین لازمی اجزا ہیں ‘‘_ عقائد، عبادات اور اخلاقیات اور ان اجزا کی اہمیت بھی اسی ترتیب سے ہے۔ ان تین میں سے کسی ایک یا دو کو لے لینا اور باقی کو چھوڑ دینا۔
[۲] عقائد کو مذہب کا لازمی جز نہ سمجھنا۔ [یہ ذہنیت پروٹسٹنٹ مذہب والوں نے پیدا کی ہے۔ خصوصاً انگلستان اور امریکہ کے لوگوں نے] اسلام کے عقائد کو بھی Dogma کہنا۔ [یہ لفظ رومن کیتھلک عقائد کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس فرقے میں پوپ کو ایک فرد کی حیثیت سے نہیں، بلکہ اپنے منصب کے اعتبار سے اور اپنے مشیروں سے صلاح لینے کے بعد عقائد میں ترمیم اور اضافے کا حق حاصل ہے۔ اسی معنی میں علماء پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ پادری بن کے بیٹھ گئے ہیں اور اسی معنی میں اسلامی عقائد کو بھی تحقیراً Dogma کہا جاتا ہے]
[۳]یہ سمجھنا کہ عقائد میں وقتاً فوقتاً تبدیلی ہوسکتی ہے۔
[۴] عقائد کو ضروری تو سمجھنا، مگر ساتھ ہی یہ بھی کہنا کہ عقائد میں صداقت نہیں ڈھونڈنی چاہیے کیونکہ عقائد تو محض جذباتی تسکین کے لیے ہیں۔
[۵]عقیدے کو محض جذباتی چیز سمجھنا اور عقیدے کو ’’منجمد جذبہ‘‘ کہنا ‘‘‘ کبھی تعریف کے لیے، کبھی تحقیر کے لیے۔
[۶]عبادات کو محض رسوم سمجھنا اور رسوم ہی کی حیثیت سے قبول یا رد کرنا۔
[۷]اخلاقیات کو مذہب کا لازمی جز نہ سمجھنا۔
[۸]اخلاقیات ہی کو پورا مذہب سمجھنا اور مذہب کو صرف ایک اخلاقی نظام کہنا۔ [اس خیال کی آج کل ہمارے یہاں ترویج ہو رہی ہے]
[۹]تصوف کو صرف و محض اخلاقی تربیت کا ذریعہ سمجھنا۔
[۱۰]مذہب کو صرف ایک معاشرتی ادارہ سمجھنا، مذہب کو معاشرے کی تنظیم کے ذرائع میں سے ایک ذریعہ کہنا۔
[۱۱]یہ سمجھنا کہ خارجی اور مادی ماحول کو بہتر بنانے سے آدمی ذہنی اور روحانی طور پر بھی ترقی کرتا ہے بلکہ یہاں تک کہنا کہ مذہب کا مقصد ہی یہ ہے کہ ’’انسانی زندگی‘‘ [یعنی مادی زندگی] کو بہتر بنائے۔
[۱۲] مذہب کا مقصد ’’معاشرتی بہبودی‘‘ (Social Welfare) بتانا یا ’’قومی خدمت‘‘۔
[۱۳]یہ کہنا کہ مذہب انسان کے لیے ہے، انسان مذہب کے لیے نہیں۔
[۱۴]یہ سمجھنا کہ مذہب کا مقصد ’’کردار کی تعمیر‘‘ ہے اور ’’کردار‘‘ سے وہ افعال و اعمال مراد لینا جو معاشرتی زندگی کے لیے مفید ہیں۔
[۱۵]مذہب کو صرف جذباتی تسکین کا ذریعہ بتانا اور عقائد، عبادات اور اخلاقیات سب کو ثانوی چیز سمجھنا۔
[۱۶]مذہب، خصوصاً تصوف کو انسانی ہمدردی یا ’’انسان دوستی‘‘ کا ایک طریقہ سمجھنا۔
[۱۷]مذہب میں اشتراکی تصورات، اور مساوات کا مغربی تصور داخل کرنا اور مساوات سے یہ مراد لینا کہ سارے انسان ہر حیثیت سے مساوی ہیں۔
[۱۸]مذہب میں، خصوصاً تصوف میں تخیل کو بنیادی اہمیت دینا اور یہ سمجھنا کہ تصوف کے رموز تخیل کی پیداوار ہیں۔
[۱۹]’’آزاد خیالی‘‘، ’’آزاد اخلاقیات‘‘ اور ’’آزاد دینیات‘‘ کا رواج، جس کے پیچھے یہ مفروضہ ہے کہ مذہب یا اخلاقیات میں وحی کی ضرورت نہیں، انسانی عقل کی مدد سے عقائد تک تیار ہوسکتے ہیں اور اس طرح انسان کو عقائد میں ترمیم کا حق ہے۔
[۲۰]عقائد اور مذہب کو ’’قدیم زمانے‘‘ کے انسان کے ناپختہ ذہن کا مظہر کہنا۔ [یہ خیال پہلے مذہب کی تحقیر کے لیے استعمال ہوتا تھا، لیکن بیسویں صدی میں مذہب کی تحسین کے لیے بھی استعمال کیا گیا ہے]۔
[۲۱]مذہب کو انسانی ذہن کی تخلیق سمجھنا، بلکہ یہ بھی کہنا کہ انسان کی ذہنی ترقی کے ساتھ مذہب بھی بدلتا رہتا ہے، اور [نعوذباللہ] ’’خدا‘‘ یا ’’خدا کا تصور‘‘ بھی ارتقا پذیر چیز ہے۔
[۲۲]’’وسعتِ نظر‘‘ (Tolerance) اور ’’آزاد خیالی‘‘ کے اصول کے ماتحت غلط عقائد کو بھی وہی جگہ دینا جو صحیح عقائد کو حاصل ہونی چاہیے۔
[۲۳]’’اضافیت‘‘ کے اصول کو ہر مذہبی اصول پر بھی عائد کرنا اور یہ اصرار کرنا کہ ہر خیال میں صرف ’’اضافی صداقت‘‘ ہوتی ہے، ’’مستقل صداقت‘‘ نہیں ہوتی۔
[۲۴]دین کو، خصوصاً تصوف کو فلسفہ سمجھنا۔
[۲۵]مذہب اور خصوصاً تصوف کو محض جذبات کی چیز سمجھنا اور وجد و حال اور مکاشفات کو مذہب کا جوہر سمجھنا۔ اس سلسلے میں امریکہ کے فلسفی ولیم جیمز نے ’’مذہبی تجربہ‘‘ اور اس کی ’’انواع‘‘ کی جو اصطلاح رائج کی ہے اسی کو تمام دینی تصورات پر عائد کرنا۔
[۲۶]عقلِ کلی کا انکار، صوفیانے جو ’’دل‘‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے اسے عام انسانی جذبات کے مترادف سمجھنا۔
[۲۷]عام آدمی اور اس کی سمجھ بوجھ (Common Man and Common Sense) کو ہر چیز کا معیار بنانا اور ان تمام دینی تصورات کا انکار جو عام آدمی کی سمجھ میں نہ آسکیں۔
[۲۸]جزوی اور تجزیہ کرنے والی عقل کے ذریعے جو علم حاصل ہوسکتا ہے اس سے آگے کسی علم کو نہ ماننا اور عقل جزوی کے سوا کسی بلند تر ذریعہ علم کو قبول نہ کرنا اور اس طرح علم کے تصور کو مادیات کے علم تک محدود کر دینا۔ عقل پرستی۔
[۲۹]عقلِ کلی اور عقلِ جزوی میں فرق نہ کرنا۔
[۳۰]جو چیز سمجھ میں نہ آئے اسے ضعیف الاعتقادی اور توہم پرستی کہنا۔
[۳۱]جو عقیدہ عقلِ جزوی کی گرفت میں نہ آسکے اسے رد کرنا، یا اس کی عقلی تشریح کرنا۔
[۳۲]احکام کی عقلی مصلحتیں ڈھونڈنا۔
[۳۳]ماّدیت، مادی دنیا کو آخری حقیقت سمجھنا اور ہر چیز کو اسی پیمانے سے ناپنا۔ مذہب سے مادی فوائد کا مطالبہ کرنا۔ (Positivism, Pragmatism)
] ۳۴[محض مادیت نہیں بلکہ ماّدی ’’ترقی‘‘ کو ہر چیز کا معیار بنانا، (Utilitarianism Progress)
]۳۵ [ماّدی ’’ترقی‘‘ کا بنیادی معیار جسمانی راحت اور آسائش کو بنانا اور اسی معنی میں یہ پوچھنا کہ مذہب نے دنیا کو کیا فائدہ پہنچایا ہے۔
[۳۶]حسّیاتی کائنات کو علم کا اولیں اور آخریں موضوع سمجھنا۔
[۳۷]’’محض ’’واقعات‘‘ اور ’’مشاہدہ‘‘ یا ’’تجربہ‘‘ کو کسی خیال کی دلیل یا ثبوت سمجھنا اور مذہبی تصورات کو اسی معیار سے پرکھنا۔
[۳۸]جو چیز نظر نہ آسکے یا محسوس نہ ہوسکے اس کا انکار۔
[۳۹]معجزے اور کرامت کا انکار یا عقلی تاویل۔
[۴۰]نظر کا جسم اور حسیات تک محدود ہوجانا۔
[۴۱]محض جسمانی اور خارجی کام کو انسان کی اعلیٰ ترین سرگرمی سمجھنا۔
[۴۲]صرف اس کام یا عمل کو قابلِ قدر سمجھنا جس سے مادی اور نظر آنے والے نتائج برآمد ہوں۔
[۴۳]علم اور عمل یا فکر اور عمل کو ایک دوسرے کا مخالف اور متضاد سمجھنا۔
[۴۴]عمل کو فکر یا علم سے برتر سمجھنا۔
[۴۵]محض عمل برائے عمل یعنی خارجی حرکت کو بجائے خود گراں سمجھنا۔
[۴۶]’’سکون‘‘ اور ’’حرکت‘‘ کے صرف خارجی اور جسمانی معنی سامنے رکھنا اور اس طرح بلاکسی شرط کے حرکت کو سکون پر فوقیت دینا اور اس میں اتنا غلو کرنا کہ لفظ ’’حرکی‘‘ (Dynamic) کو تحسین کے لیے اور ’’پرسکون‘‘ (Static) کو تحقیر کے لیے استعمال کرنا۔ مثلاً یہ کہنا کہ اسلام dynamic مذہب تھا، مولویوں نے اسے static بنا دیا۔
[۴۷]مراقبہ، ذکر و فکر، بلکہ عبادات کو بھی ’’مجہولیت‘‘ کا لقب دینا۔
[۴۸]حرکت پر ایسا اعتقاد رکھنا کہ ہر دینی چیز میں ’’رہبانیت‘‘ دیکھنا۔
[۴۹]مذہب پر ذہنی اور مادی جمود کا الزام لگانا (Quietism)
]۵۰ [بعض دفعہ مذہب کو اسی لیے پسند کرنا کہ اس کے ذریعے آدمی دنیا کے بکھیڑوں سے چھٹ جاتا ہے۔ (Quietism)
]۵۱ [ہر دینی مسئلے کو انسانی نقطۂ نظر سے دیکھنا (Humanism) بلکہ دین کو انسانی فکر کا نتیجہ سمجھنا اور جو چیز ماورائے انسان ہیں انھیں انسان کی سطح پر لانے کی کوشش۔
[۵۲]سائنس اور دین میں اس طرح مطابقت پیدا کرنے کی کوشش کہ دین سائنس کے نظریوں کا تابع ہو جائے۔ سائنس کو آخری معیار بنانا۔
[۵۳]فقہ کے احکام کو انسانی قوانین کی طرح سمجھنا۔
[۵۴]یہ دعویٰ کرنا کہ دین ’’سیدھی سادی‘‘ چیز ہے اور علماء نے اسے پیچیدہ بنا دیا ہے۔ دین میں ’’سادگی‘‘ پیدا کرنے کا دعویٰ۔
[۵۵]دین میں تحریف کرنا اور پھر یہ دعویٰ کرنا کہ ہم ’’اصلی‘‘ دین کو دوبارہ زندہ کر رہے ہیں۔
[۵۶]دین کے ہر عنصر کو تاریخی نقطۂ نظر سے دیکھنا اور یہ سمجھنا کہ دینی ادارے، عقائد، ہر چیز تاریخ کے ساتھ بدلتی رہتی ہے۔
[۵۷]محض تاریخی واقعات کی چھان بین کو ’’علم‘‘ اور ’’علمیت‘‘ سمجھنا اور اس طریقے سے دین کو سمجھنے کا دعویٰ کرنا۔
[۵۸]تحقیق کو دینی اصولوں کے ماتحت نہ رکھنا، بلکہ تحقیق برائے تحقیق۔
[۵۹]سائنس کے تجرباتی طریقے کو علم کا واحد طریقہ سمجھنا اور یہ یقین رکھنا کہ روحانی اور دینی امور کا علم بھی اسی طریقے سے حاصل ہوسکتا ہے۔
[۶۰]محض تفصیلات پر تحقیق کرتے رہنا اور واقعاتی یا تاریخی تفصیلات اتنی تعداد میں جمع کرنا کہ حقیقت غائب ہو جائے۔
[۶۱]یہ سمجھنا کہ مطلق اور مستقل صداقت اوّل تو ہوتی نہیں اور اگر ہو بھی تو حتمی طور پر کبھی حاصل نہیں ہوسکتی۔ اس لیے مسلسل تحقیق ہونی چاہیے۔ اس کا نتیجہ ہے تلاش برائے تلاش۔
[۶۲]یہ نظریہ کہ خالص علم کوئی چیز نہیں، بلکہ صرف وہ ہے جس کے ذریعے کوئی مادّی چیز بنائی جاسکے۔ یعنی علم کو صرف ایجادات کا ذریعہ سمجھنا۔
[۶۳]’’مذاہب کا تقابلی مطالعہ‘‘ (Comparative-Religion) یعنی مختلف مذاہب میں اختلاف یا مشابہت ڈھونڈنا بغیر کسی مقصد یا اصول کے۔
[۶۴]ہر دین کے پہلو میں دوسرے ملکوں، قوموں اور مذاہب کے اثرات تلاش کرنا مثلاً یہ کہنا کہ مسلمانوں میں تصوف ایرانیوں یا ہندوؤں کے اثر سے آیا۔
[۵۶]’’تہذیب‘‘ [کلچر] یا ’’معاشرے‘‘ کو دین سے وسیع تر یا بلند سر سمجھنا، اور دین کو تہذیب کا ایک جزو قرار دینا۔
[۶۶]دینی کتابوں کا صرف ظاہری اور خارجی مطلب دیکھنا۔
[۶۷]اپنی ذاتی رائے سے دین کی تفسیر کرنا اور تفسیر کا حق عام کر دینا۔
[۶۸]دین کی چیزوں کو یورپ کے اداروں یا تصورات کے پیمانے سے ناپنا۔
[۶۹]اسلامی تصورات کو عیسوی تصورات کے معیار سے جانچنا یا انھیں عیسوی تصورات کے سانچے میں ڈھالنا۔
[۷۰]مشرقی اصطلاحات کا غلط مطلب لینا اور مغربی الفاظ کو مشرقی الفاظ کے مترادف سمجھنا۔
[۷۱]یورپ اور ’’تہذیب‘‘ کو مترادف سمجھنا اور مغربی تہذیب کو معیار بنانا اور اسی معیار سے دین کو جانچنا۔
[۷۲]دین کو ’’جدید‘‘ بنانے کی کوشش، یہاں تک کہ عقائد کو بھی۔
[۷۳]یہ دعویٰ کرنا کہ شریعت موجودہ زمانے میں کام نہیں دے سکتی۔
[۷۴]عقائد اور شرعی احکام اور عبادات کو نسلی، جغرافیائی یا تاریخی اثرات کے ماتحت رکھنا اور یہ دعویٰ کرنا کہ یہ تصورات ایک خاص مقام اور ایک خاص وقت میں خارجی اثرات کے ماتحت پیدا ہوئے تھے اور صرف انھیں حالات سے مناسبت رکھتے ہیں۔
[۷۵]عام آدمیوں کو سمجھانے کی خاطر عقائد اور خصوصاً تصوف کے رموز کو مسخ کرنا۔ یا ایسی تفسیریں پیش کرنا جو مروجہّ خیالات کے مطابق ہوں تاکہ لوگ سن کر خوش ہوں۔
[۷۶]یونانی فلسفے کو دانش مندی کی معراج سمجھنا اور اسی کی رو سے ہر مذہب پر تنقید کرنا یا مذہبی تصورات کو یونانی فلسفے کے سانچے میں ڈھالنا۔
[۷۷]دین اور دنیا کو یا تو بالکل الگ کر دینا، یا دین کو دنیا کے تابع کرنا۔ یہ دوسرا رجحان آج کل زیادہ غالب ہے۔
[۷۸]’’نظریہ ارتقا‘‘ اور ’’ترقی‘‘ (Evolution, Progress) کے نظریے کو مذہب اور تصورات پر بھی عائد کرنا، بلکہ یہاں تک کہنا کہ نعوذ باللہ ’’خدا‘‘ بھی ’’ترقی‘‘ کر رہا ہے۔
[۷۹]مختلف مذاہب کو ایک دوسرے میں گڈمڈ کرنا اور مختلف نوعیت کے تصورات لے کر انھیں اپنی مرضی کے مطابق ایک جگہ جمع کرنا۔ (Syncretism)
]۸۰ ]دین کو ’’فلسفۂ مثالیت‘‘ (Idealism) کی ایک قسم سمجھنا۔ اس فلسفے کا ماحصل یہ ہے کہ حقیقت مادی اشیاء میں نہیں ہوتی، بلکہ ان کے پیچھے جو ’’تصور‘‘ (Idea) ہے اس میں ہوتی ہے۔ مگر یہ تصور کہاں ہے اور کس کے ذہن میں ہے اس کا کوئی واضح جواب ایسے فلسفی نہیں دیتے۔ ’’عالمِ مثال‘‘ کا جو تصور ہمارے یہاں ہے اسے بھی یہ لوگ نہیں مانتے۔ ’’تصور‘‘ یا ’’خیال‘‘ کو غیر مادّی کہتے ہیں مگر ہمارے معنوں میں روح کے بھی قائل نہیں ہیں۔ اس لیے دراصل یہ فلسفہ بھی مادیّت ہی کی ایک قسم ہے۔
[۸۱]مغرب کے ہر مفکر کے پاس ایک الگ فلسفہ ہوتا ہے جسے ایک ممتاز ’’نظام‘‘ (System) کہا جاتا ہے۔ اس لیے مغربی لوگ اور مغرب زدہ لوگ دین میں بھی ’’فکری نظام‘‘ دیکھتے ہیں مثلاً ان کے نزدیک تصوف ایک ’’فکری نظام‘‘ ہے جس کا شریعت سے تعلق نہیں بلکہ اسی معنی میں حضرت امام ابو حنیفہؒ کا ایک نظام بتایا جاتا ہے اور حضرت امام شافعیؒ کا ایک نظام‘‘۔
[۸۲]’’فطرت پرستی‘‘ یعنی مادے یا نظامِ فطرت کو سب سے بڑی حقیقت سمجھنا اور اس کے سوا کسی چیز کو حقیقت نہ سمجھنا (Naturalism)۔ اس رجحان کے بہت سے شاخسانے ہیں۔
[۸۳]حالانکہ ’’فطرت‘‘ کی دنیا تبدیلیوں کی دنیا ہے مگر اسے مستقل اور اٹل حقیقت سمجھنا اور دین کو سمجھنے کے لیے ’’فطرت‘‘ اور فطرت کے قوانین کو معیار بنانا۔
[۸۴]جو حقائق ’’فطرت‘‘ سے اوپر ہیں انھیں ’’فطری‘‘ بنانے کی کوشش یعنی فوق الفطرت حقائق کے بارے میں ’’فطرت‘‘ کے اصول استعمال کرنا۔
[۸۵]یہاں تک کہ جو حقائق مابعد الطبیعی ہیں انھیں حیاتیاتی حقائق بنا کے دکھانا۔ مثلاً روح کو مادے میں سے نکالنا۔ ’’اعیان‘‘ کو جاندار اجسام کے خلیوں میں ڈھونڈنا۔
[۸۶]تمام حقائق کو مادیات اور جسمانیات میں تبدیل کرنا۔ مثلاً عالمِ مثال اور مادی عالم یا جسمانی عالم کو ایک سمجھنا۔
[۸۷]روحانی حقائق کو نفسیات کی شکل دینا۔ خصوصاً تصوف کو نفسیات کی ایک قسم سمجھنا اور سلوکِ کے طریقوں کو ذہنی معالجے کا ایک طریقہ بنانا۔
[۸۸]’’وجدان‘‘ کے اصلی معنی نہ سمجھنا، بلکہ برگساں کے نظریات کے زیرِ اثر ’’وجدان‘‘ (Intuition) کو ایک ایسی صلاحیت خیال کرنا جو جبلت (Instinct) یعنی جسمانی اور عضویاتی عوامل سے پیدا ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عقلِ جزوی کو رد کر کے اس سے اوپر عقلِ کلّی کی طرف نہ جانا بلکہ نیچے جسمانیات میں اتر جانا۔ [کہا جاتا ہے کہ آج کل فلسفہ اور سائنس مادیّت اور عقلیت پرستی کے خلاف ہوگیا ہے اور روحانیت کا قائل ہے اس کا فی الاصل مطلب یہ ہے] اکثر ’’دل‘‘ کے بھی یہی معنی سمجھے جاتے ہیں۔
[۸۹]دیکارت (Descartes) کے فلسفے سے جو ذہنیت سترہویں صدی کے درمیان میں شروع ہوئی ہے اس کے اثرات کے ماتحت روح اور مادے یا روح اور جسم کو ایک دوسرے سے بالکل الگ سمجھنا۔
[۹۰]سب سے زیادہ تو برگساں کے اثر سے، اور پھر دوسرے فلسفیوں مثلاً وائٹ ہیڈ کے اثر سے، ایک ’’زندگی کا یاحیات کا مذہب‘‘ (Religion of Life) نکلا ہے۔ اس میں قوتِ حیات‘‘ کو حقیقتِ عظمیٰ سمجھا جاتا ہے۔ اصلی مذہب کو بھی اسی رنگ میں ڈھالنے کی شدید کوشش ہو رہی ہیں اور نعوذ باللہ ’’خدا‘‘ کو بھی قوتِ حیات کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ برگساں نے اس قوت کا نام Elan Vital رکھا ہے۔ چنانچہ بعض لوگ ’’خدا‘‘ کے اندر اس قوت کا سب سے عظیم مظہر دیکھتے ہیں۔ نعوذ باللہ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ پرانے لوگ چونکہ اس قوتِ حیات کی صحیح نوعیت سمجھنے سے قاصر تھے اس لیے خدا کا نام ایجاد کرلیا۔ یہ فلسفہ بھی ’’فطرت پرستی‘‘ کی ایک شاخ ہے۔ اسلام کو بھی یہی شکل دینے کی کوشش ہوئی ہے اور ہو رہی ہے۔
[۹۱]برگساں ہی کے اثر سے یہ فلسفہ پیدا ہوا ہے کہ حقیقت عظمیٰ جامد اور ساکن نہیں بلکہ حرکت میں ہے اور ہر وقت تغیّر پذیر ہے اور کائنات کا سارا کارخانہ اسی کی شانِ تغیر کا مظہر ہے۔ اس فلسفے کا نام Philosophy of Becoming ہے یعنی ’’فلسفۂ شدن‘‘ جو نظریہ حقیقت کو ساکن یا قائم سمجھے اسے Philosophy of Being ’’فلسفہ بُودن‘‘ کہا جاتا ہے۔ برگساں کے اس فلسفے کی رو سے بھی اسلام کی تفسیر ہو رہی ہے۔
[۹۲]اسی فلسفے سے ملحق حیاتیاتی نقطۂ نظر ہے۔ یعنی ہر چیز، یہاں تک کہ عقائد تک کی تشریح حیاتیات کی رو سے کرنا، جبلت کو ہر انسانی سرگرمی، یہاں تک کہ مذہب کا بھی ماخذ سمجھنا۔ اس قسم کے بہت سے فلسفے ایک ساتھ رائج ہیں۔ مگر اس کی تازہ ترین شکل فرانسیسی پادری اور سائنس دان Teihard de Chardin تائی آردشاردیں کے نظریات ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ جس طرح بھاپ زمین سے اٹھتی ہے۔ تو فضا میں بادل بن جاتے ہیں، اسی طرح خیالات انسانوں کے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں تو ان سے بھی ایک لطیف جو ہر نکل کے فضاء میں جمع ہوتا چلا جاتا ہے۔ پھر ان لطیف بادلوں کے فیض سے انسانوں کے ذہن میں اور نئے خیالات پیدا ہوتے ہیں۔ اس طرح انسان ذہنی ارتقا کی منزلیں طے کرتا چلا جا رہا ہے۔ بلکہ انسان کے ساتھ ساتھ خدا کا بھی ارتقا ہو رہا ہے۔ نعوذ باللہ۔ غرض اس شخص نے مذہب کے اعلیٰ ترین حقائق کو حیاتیاتی اور طبیعی چیز بنا دیا ہے۔
[۹۳]روحانی فیوض کو تسلیم کرنا، مگر انھیں برقی یا مقناطیسی طاقت سمجھنا۔
[۹۳]دینی اداروں اور تصوّرات کو بھی معاشیاتی عوامل کے تابع سمجھنا، مارکسیّت کا اثر۔
[۹۵]عمرانیات اور اجتماعیات کی رو سے دین کا مطالعہ، مذہب کو بھی ایک عمرانی ادارہ سمجھنا اور مذہب کو بھی رسم و رواج کی سطح پر رکھنا۔
[۹۶]جس طرح معاشرتی یا سیاسی اداروں کی ’’تنظیم‘‘ ہوتی ہے، دین کو اسی طرح کی ’’تنظیم‘‘ (Organization) سمجھنا، خصوصاً تصوف کے سلسلوں کو ’’تنظیم‘‘ یا ’’نظام‘‘ قرار دینا۔
[۹۷]دینی معاملات میں کسی نہ کسی قسم کی سیاست کے نقطۂ نظر سے فیصلے کرنا۔
[۹۸]مقدّس کتابوں سے سائنس کے اصول اخذ کرنے کی کوشش کرنا۔
[۹۹]کسی نہ کسی نظریۂ کائنات (Cosmology) کو دین کا لازمی جزو سمجھنا، اور اس حقیقت سے بے خبر رہنا کہ ہر مذہب میں کم و بیش نظریۂ کائنات کی حیثیت ثانوی اور تشبیہی رہی ہے۔ اگر کوئی خاص نظریۂ کائنات غلط قرار پا گیا ہے تو جس مذہب سے اس کا ظاہری تعلق رہا ہے اسے بھی محض اسی بنا پر باطل قرار دینا۔
[۱۰۰]مغربی فکر اور جس قسم کا ’’تصوف‘‘ مغرب میں رائج رہا ہے وہ عالمِ مثال سے آگے نہیں جاتا۔ اس لیے اسلامی تصوف کو بھی یہیں تک محدود سمجھنا، بلکہ اس سے آگے کسی درجے کا تصور تک ذہن میں نہ ہونا، چنانچہ اسلامی تصوف کو مغرب کی mysticism کی طرح کی چیز سمجھنا جس کی آخری حدمکاشفات ہیں۔
[۱۰۱]’’مراتبِ وجود‘‘ کا اصول نہ جاننا اور مختلف مراتب کو ایک دوسرے میں گڈمڈ کر دینا۔
[۱۰۲]ازمنہ وسطیٰ میں Spirit کا لفظ روح کے لیے اور soul کا لفظ نفس کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ اب لوگ یہ فرق بالکل بھول چکے ہیں اور ان دونوں الفاظ کو مترادف سمجھتے ہیں چنانچہ ’’روح‘‘ کی حقیقت سے تو مغرب کے لوگ بالکل بے خبر ہوگئے ہیں اور نفس یا ذہن کو روح سمجھتے ہیں چنانچہ soul کا لفظ عموماً ’’روح‘‘ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور spirit کا لفظ ذہنی عوامل کے لیے۔
[۱۰۳]’’روایت‘‘ کا اصلی مطلب نہ سمجھنا اور اسے رسم یا رواج کے ہم معنی خیال کرنا۔ اسی طرح جو چیزیں ’’روایت‘‘ کے خلاف ہیں انھیں بھی ’’روایت‘‘ کی سطح پر رکھنا۔ مثلاً معتزلہ کو اتنا ہی بڑا درجہ دینا جتنا اصلی اسلامی ’’روایت‘‘ کو۔
[۱۰۴]دین اور روایت کو انسانی ’’فکر‘‘ (speculation) کی پیداوار سمجھنا جس کا ظہور ایک خاص زمانے میں خاص حالات کے ماتحت ہوا۔ اسی طرح صوفیا کو ’’مفّکر‘‘ سمجھنا اور جس طرح کی ’’اپج‘‘ (Originality) مغربی مفکروں میں ہوتی ہے وہی صوفیا میں ڈھونڈنا۔
[۱۰۵]یا پھر لفظ ’’روایت‘‘ کو تحقیر کے لیے استعمال کرنا، اور ہر ’’روایتی‘‘ چیز کو بجائے خود برا سمجھنا۔ انگریزی میں لفظ Orthodox عموماً اور لفظ traditional بعض دفعہ اسی طرح استعمال ہوتا ہے۔
[۱۰۶]مغرب میں اور وہاں کے اثر سے ہمارے یہاں ایک طرح کی ’’روایت پسندی‘‘ بھی رائج ہے۔ (Traditionalism) اس کا مطلب ہے ہر پرانے رسم و رواج کو محض اس لیے زندہ رکھنے کی کوشش کرنا کہ وہ پرانا ہے۔ بعض لوگ مذہب کو بھی اسی لیے قبول کرتے ہیں کہ مذہب آباء و اجداد سے چلا آ رہا ہے اور معاشرتی ’’روایت‘‘ کا حصّہ ہے۔
[۱۰۷]’’انفرادیت پرستی‘‘ کا زور۔ اس کے دو پہلو ہیں ایک تو ہر فرد کو دین کے معاملے میں رائے دینے کا حقدار سمجھنا اور استعداد کے سوال کو ناقابل توجہ خیال کرنا۔ یہ تو جمہوریت اور مساوات کے معاملے میں غلو اور اسی کے ماتحت تفسیر بالرائے کا حق مانگا جاتا ہے۔
[۱۰۸]دوسرا پہلو یہ ہے کہ علوم دین کے بڑے سے بڑے اماموں کو محض افراد سمجھنا، اور انھیں صرف اتنی ہی اہمیت دینا جتنی کسی عام فرد کو دی جاسکتی ہے اور اس طرح ان کو سند ماننے سے انکار۔
[۱۰۹]ہر معاملے میں تحریری ثبوت مانگنا اور دین کی جو باتیں زبانی روایت کے ذریعے قائم ہیں انھیں نہ ماننا اور اس اصول کی اہمیت نہ سمجھنا۔
[۱۱۰]پھر تحریری ثبوت کے ضمن میں ہر قسم کی کتاب کو سند ماننا۔ مثلاً دینی معاملات میں قصوں کی کتابوں سے ثبوت لانا۔
[۱۱۱]علماء پر آزادئ فکر چھیننے کا اور دوسری طرف ذہنی جمود کا الزام لگانا۔
[۱۱۲]جو نقائص ازمنۂ وسطیٰ کے پادریوں سے ایک زمانے میں منسوب کیے جاتے تھے انھیں علماء کی طرف منتقل کرنا۔
[۱۱۳]علماء کو یہ طعنہ دینا کہ ان کی ذہنیت ’’ازمنۂ وسطیٰ‘‘ کی ہے اور یہ بات بھول جانا کہ مغرب میں بھی ’’ازمنۂ وسطیٰ‘‘ کا اب وہ تصور نہیں رہا جو ساٹھ ستر سال پہلے تھا۔
[۱۱۴]دین کے باطنی پہلو کا یا تو سرے سے انکار یا اسے ’’نفسیاتی تجربہ‘‘ سمجھنا۔ ’’داخلیت‘‘ اور ’’اندروں بینی‘‘ کے بھی یہی معنی لیے جاتے ہیں۔ یہ سب الفاظ کبھی تحقیر کے لیے استعمال ہوتے ہیں کبھی تحسین کے لیے۔ مگر مراد ہر جگہ نفسانی عوامل سے ہے۔
[۱۱۵]تصوف کو کبھی فلسفہ کہنا، کبھی اخلاقیات، کبھی نفسیات، کبھی بے عملی اور زندگی سے گریز کبھی کمیونزم کا ابتدائی نمونہ، کبھی ’’ذہن کی پوشیدہ قوتوں‘‘ کو بیدار کرنے کا طریقہ۔
[۱۱۶]تصوف خصوصاً وحدت الوجود کو Pahtheism کہنا جس سے دراصل مراد مظاہر پرستی ہے۔
[۱۱۷]تصوف کو ایسی ’’پراسرار‘‘ چیزوں سے ملا دینا جیسے روحوں کو بلانا، مستقبل کا حال بتانا وغیرہ (Occultism-Spiritualism) [۱۱۸]ایک طرف دین کی ’’اصلاح‘‘ اور دین کو ’’جدید‘‘ بنانے کا دعویٰ، دوسری طرف ’’اصلی دین‘‘ کو زندہ کرنے کا دعویٰ۔
[۱۱۹]بیعت اور تصوّف کے سلسلوں وغیرہ کو دین سے خارج قرار دینا انگریزوں نے مدراس میں جو تھیوسوفیکل سوسائٹی قائم کرائی تھی اس کے بنیادی مقاصد میں سے یہ بھی تھا کہ لوگوں کو یقین دلایا جائے کہ روحانی مدارج حاصل کرنے کے لیے بیعت کی ضرورت نہیں۔
[۱۲۰]بیعت کو ’’نفسیاتی تجزیے‘‘ کا ایک طریقہ بتانا۔
[۱۲۱]یہ بھول جانا کہ ہر دین میں چیزوں کی درجہ بندی کی گئی ہے اور ہر چیز کا ایک خاص مرتبہ ہے۔ مراتب کے امتیاز کو نظر انداز کر دینا۔ ثانوی درجے کی چیزوں کو اوّلیت دینا یا سب چیزوں کو ایک ہی سطح پر رکھنا۔ یہاں بھی ’’جمہوریت‘‘ اور ’’مساوات‘‘ کا اصول کام کر رہا ہے۔ اس قسم کی غلطیوں میں یہ بہت عام ہے کہ عالمِ امثال ہی کو عالمِ ارواح سمجھ لیا ہے۔
[۱۲۲]جدّت برائے جدّت اور تبدیلی برائے تبدیلی کا شوق، دین کی نئی تفسیریں کرنا محض اس لیے کہ کوئی نئی بات پیدا کی جائے اسی لیے بہت سی نئی تشریحات صریحی طور پر مہمل اور مضحکہ خیز ہیں۔
[۱۲۳]نظریۂ ’’اضافیت‘‘ کا رواج۔ دین کی ہر بات کو اور خود دین کو ’’اضافی‘‘ چیز سمجھنا۔
[۱۲۴]جیسا کہ فرانس کے مسلمان عالم رینے گینوں [شیخ عبدالواحد یحییٰ] نے اپنی کتابوں میں بار بار کہا ہے یونانی فلسفہ ہو یا ازمنۂ وسطیٰ کی عیسوی الٰہیات اور فلسفہ، کوئی بھی ’’وجود‘‘ Being کے دائرے سے آگے نہیں جاتا، اسی لیے ارسطو نے بھی ’’علم وجود‘‘ (Ontology) ہی کو مابعد الطبیعیات سمجھا ہے۔ اس طرح مغرب والوں کا دائرۂ نظر محدود ہو کے رہ گیا ہے، اور وہ سارے ادیان کو اسی تنگ دائرے کے اندر لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں، مغرب والوں کے ذہن میں ’’لاتعیّن‘‘ کا کوئی صحیح یا واضح تصور موجود نہیں۔ وہ لوگ عموماً ’’لاتعین‘‘ سے یہ مراد لیتے ہیں ‘‘_ کوئی ایسی چیز جس کی کوئی صاف مادّی اور خارجی شکل نہ ہو۔ اس ذہنیت کا اثر ہمارے یہاں کے انگریزی پڑھنے والوں پر بھی بہت گہرا پڑ رہا ہے۔ اس بنیادی خامی سے اور بھی شاخیں نکلی ہیں جن کی وجہ سے ’’توحید‘‘ کو صحیح طور سے سمجھنا لوگوں کے لیے مشکل ہوتا جا رہا ہے اور ’’توحید‘‘ کی ایسی تعبیریں نکلی ہیں اور مقبول ہو رہی ہیں جو صریح شرک ہیں۔ ان ثانوی غلط فہمیوں میں سے چند ذیل میں پیش کی جائیں گی۔
[۱۲۵]’’وجود‘‘ (Being) اور ’’وجودِ خارجی‘‘ (Existence) میں امتیاز نہ کرنا۔ بالفاظِ دیگر، جوہر اور عرض میں صحیح طور سے فرق قائم نہ کرنا۔ [اس ابہام نے موجودہ عیسوی دینیات پر گہرا اثر ڈالا ہے اور ہمارے یہاں بھی بعض لوگ اس سے متاثر ہو رہے ہیں]
[۱۲۶]’’عمومی‘‘ (General) کو ’’کلی‘‘ (Universal) سمجھنا۔ جو باتیں صرف ’’کلی‘‘ حقائق کے بارے میں کہی جاسکتی ہیں انھیں ’’عمومی‘‘ حقائق پر عائد کرنا۔
[۱۲۷]’’انسان کامل‘‘ اور ’’انسان‘‘ کو مترادف سمجھنا، اور مختلف ادیان میں جو باتیں ’’انسانِ کامل‘‘ کے متعلق کہی گئی ہیں ان کا عام انسانوں پر یا نسلِ انسانی پر اطلاق کرنا۔
[۱۲۸]’’لامحدود‘‘ (Indefinite) اور ’’لاانتہا‘‘ (Infinite) کو مترادف سمجھنا۔ اس غلط فہمی کی وجہ سے جدید ذہن کے لیے تنزیہہ کو پوری طرح سمجھنا مشکل ہو گیا ہے اور مغرب میں ’’خدا‘‘ کے متعلق طرح طرح کے نئے تصوّرات پیدا ہو رہے ہیں۔
[۱۲۹]’’خدا کے متعلق نئے نئے تصوّرات اور نظریات کی پیداوار روز افزوں ہے۔ ان سب تصوّرات کے پیچھے یہ خیال کار فرما ہے کہ ’’خدا‘‘ انسانی ذہن کی تخلیق ہے [نعوذ باللہ] اور جس طرح انسانی ذہن ارتقا پذیر ہے اسی طرح ’’خدا کے تصور‘‘ میں بھی ارتقا کی ضرورت ہے۔ بعض لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’خدا‘‘ کے جتنے بھی نام ہیں وہ نئے دور میں کام نہیں دے سکتے۔ اب کوئی نیا نام ایجاد کرنا چاہیے۔
[۱۳۰]چنانچہ ۱۹۶۰ء کے بعد سے بعض عیسوی مفکر ایک ایسی الٰہیات اور دینیات ایجاد کر رہے ہیں جس میں ’’خدا‘‘ کے تصور کی ضرورت پیش نہ آئے۔ (Theology without God) [۱۳۱]خالق کے افعال کو مخلوق کے افعال کی طرح سمجھنا۔
[۱۳۲]وحدت (Monism) کے عقیدے کو کمیت (Quantity) کے معنوں میں لینا۔
[۱۳۳]’’دوئی‘‘ اور ’’غیریت‘‘ کے یہ معنی لینا کہ دو مساوی حقیقتیں ایک دوسرے کے مقابل ہیں۔ ’’دوئی‘‘ جو ایک اضافی چیز ہے اسے ایک مستقل اور مطلق اصول بنا دینا۔ انگریزی اصطلاح میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ Duality کو Dualism بنا کر پیش کرنا۔ [مثلاً مصر کے ڈاکٹر عبدالقادر کی انگریزی کتاب حضرت جنید بغدادیؒ کے بارے میں]
[۱۳۴]’’خدا‘‘ کے متعلق تمام جدید نظریات میں ایک بات مشترک ہے ‘‘ خدا کو ایک ’’نامیاتی حقیقت‘‘ (Organic Reality) سمجھنا۔ نعوذباللہ۔ اسی خیال کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ خدا کائنات اور حیات کے اندر موجود ہے۔ (Immanentism) نعوذ باللہ۔ اسی معنی میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ نیا سائنس مذہب کے قریب آگیا ہے اور روحانیت کا قائل ہے۔ دراصل ’’تنزیہہ‘‘ اور ’’تشبیہہ‘‘ کے لیے مغربی زبانوں میں صحیح مترادفات موجود نہیں ہیں۔ عموماً ان دو اصطلاحات کا ترجمہ Transcendentalism اور Immanentism سے کیا جاتا ہے جو پوری طرح درست نہیں اور اسی سے غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں۔ مغربی زبانوں میں پہلے لفظ سے مراد ایسی حقیقت ہے جس کا مادّی کائنات سے کوئی علاقہ نہ ہو اور دوسرے لفظ سے مراد ایسی حقیقت ہے جو مادّی کائنات کے اندر رہتی ہو۔ انسانی ’’انا‘‘ (Moi) اور خدا کی ’’انا‘‘ (Soi) کو آپس میں ملا دینا۔ چنانچہ بہت سے ماہرینِ نفسیات اور فلسفی یہی سمجھتے ہیں کہ انسان کی معراج ’’انا‘‘ کا حصول ہے۔ اسی نقطۂ نظر سے تصوف کی بھی تشریح کی گئی ہے۔
[۱۳۶]ازمنۂ وسطیٰ میں Personality کا لفظ خدا کی ’’ذات‘‘ کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ بعد میں اس کا اطلاق انسان کی شخصیت پر ہونے لگا۔ اب مغرب مفکرّ انسانی ’’شخصیت‘‘ کا اطلاق ’’خدا‘‘ پر کر رہے ہیں۔ نعوذبااللہ۔ اور اس بات پر زور دیتے ہیں کہ خدا کا تصور ’’شخصی‘‘ ہونا چاہیے یعنی خدا کی بھی ایسی ہی ’’شخصیت‘‘ ماننی چاہیے جیسے انسان کی ہوتی ہے۔ انگریزی مستشرق نکلسن نے اس بات پر بہت اصرار کیا ہے کہ اسلام میں خدا کا تصور ’’شخصی‘‘ ہے۔ اس طرح بعض مغربی مفکرّ نعوذباللہ ’’خدا‘‘ کو انسان کے سانچے میں ڈھال رہے ہیں۔ (Anthropomorphism)
]۱۳۷ ]تصوف کے رموز اور علامات کے مستند مطالب کو رد کر کے ان کی لفظی یا حسی یا نفسیاتی یا اخلاقی تعبیریں کرنا۔
[۱۳۸]لفظ ’’اصول‘‘ کا دینی مطلب نہ سمجھنا اور ہر اچھے یا برے نظریے کو ’’اصول‘‘ کا نام دینا۔
[۱۳۹]کمیت (Quantity) کی پرستش اور ’’کیفیت‘‘ (Quality) کو نظر انداز کرنا۔
[۱۴۰]روایتی چیزوں کو ’’داستان‘‘ (Myth, Legend) کہنا، کبھی تحقیر کے لیے اور کبھی تحسین کے لیے۔
[۱۴۱]ہر دینی مسئلے کے متعلق مختلف نظریوں کی اتنی بڑی تعداد کہ نظریوں کے اژدہام میں حقیقت غائب ہوجائے۔
[۱۴۲]اس بات سے قطعی بے خبری کہ اسلام کے دینی علوم کے مماثل علوم مغرب میں موجود نہیں، دینی علوم کو مغربی علوم، خصوصاً جدید علوم کے دائرے میں بند کرنے کی کوشش۔
[۱۴۳]یہ نہ سمجھنا کہ ہر دائرے میں مسائل کے مطالعے کے طریقے الگ ہوتے ہیں اور تاریخی یا عمرانی یا سائنسی طریقہ ہر جگہ کام نہیں دیتا۔
[۱۴۴]مغربی علوم کا طریقہ تجزیاتی اور تحلیلی ہے یہاں تفصیلات جمع کر کے کسی نتیجے تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دینی علوم وحی کے ذریعے قائم ہونے والے اصولوں سے استنباط کرتے ہیں مگر مغربی مفکر اس لازمی فرق کو نہیں سمجھتے۔
[۱۴۵]تلاوت کے روحانی فیض کا انکار۔ یہ اصرار کہ سمجھے بغیر تلاوت سے کوئی فائدہ نہیں۔ یہیں سے انفرادی رائے کو تفسیر کی آزادی ملتی ہے۔
[۱۴۶]جدیدیت الفاظ کے جادو سے کام لیتی ہے اور لوگوں کے ذہنوں کو مسحور کر کے سوچنے سمجھنے کی طاقت کو معطل کرنا چاہتی ہے۔ چنانچہ کسی چیز کی تحسین کے لیے اسے ’’جدید‘‘ یا ’’سائنٹفک‘‘ کہہ دینا کافی سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح کے الفاظ ہیں ‘‘ ’’آزادی‘‘، ’’انسانی مسرت‘‘، ’’خوش حالی‘‘، ’’زندگی کا معیار بلند کرنا‘‘، ’’روزمرہ کی زندگی‘‘، ’’عام آدمی‘‘۔
[۱۴۷]انیسویں صدی کی ’’تشکیک‘‘ (Scepticism) اور ’’لاادریت‘‘ (Agnosticism) بھی ابھی تک ختم نہیں ہوئی ہے اور وقتاً فوقتاً سر ابھارتی ہے۔ یہی حال انیسویں صدی کی عقلیت پرستی (Rationalism) کا ہے۔
[۱۴۸]انسان کی مادّی خوشی حالی کو ہر چیز کا معیار بنانا، قناعت سے انکار۔
[۱۴۹]’’صحت مند جانور‘‘ کو انسانی زندگی کا معیار بنانا۔
[۱۵۰]’’انسانی وحدت‘‘ کا یہ تصور کہ سب انسانوں کی مادّی ضروریات ایک سی ہیں، اس لیے ان کا ذہن بھی ایک جیسا ہونا چاہیے۔ اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ مغرب نے مادّی ضروریات پورا کرنے کا سب سے زیادہ سامان فراہم کیا ہے اس لیے سب کو مغربی اقدار قبول کرنی چاہئیں۔
[۱۵۱]مذہب کی صریح مخالفت کا زمانہ پہلی جنگِ عظیم کے بعد سے ختم ہوچکا ہے۔ اب زیادہ رواج نئے جعلی مذہب اور ’’روائتیں‘‘ بنانے کا ہے۔
[۱۵۲]زمان و مکان کے نئے فلسفے۔ خصوصاً وقت کے نئے تصورات۔ [ان پر تفصیلی بحث درکار ہے]۔
[۱۵۳]استناد کا مسئلہ:
یہ مسئلہ دورِ جدید میں بہت پیچیدگی اختیار کر گیا ہے۔ بلکہ دراصل ’’جدیدیت‘‘ کی بنیاد ہی یہ مسئلہ ہے۔ یورپ میں ’’اصلاحِ دین کی تحریک‘‘ کے بانی مارٹن لوتھر نے پوپ کو سند ماننے ہی سے انکار کیا تھا اور یہ دعویٰ کیا تھا کہ ہر دینی معاملے میں پہلی اور آخری سند انجیل ہے، اور ہر شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ خود انجیل پڑھے اور خود سمجھے۔
یہ اسی ذہنیت کا نتیجہ ہے کہ تجدّد پسند لوگ کسی امام کی سند تسلیم نہیں کرتے بلکہ قرآن شریف سے ثبوت مانگتے ہیں۔
لیکن مستشرقین اور ان کے پیرو اپنے نظریات پیش کرتے ہوئے الٹا ہی اصول برتتے ہیں۔ اسناد اور حوالوں کے سلسلے میں وہ کسی قسم کے مراتب کا لحاظ نہیں رکھتے، بلکہ حدیث، فقہ، فلسفہ، تاریخ، یہاں تک کہ داستانوں کو بھی ایک ہی سطح پر لے آتے ہیں، اور یہ بھی نہیں دیکھتے کہ کوئی مصنف دینی لحاظ سے بھی مستند ہے یا نہیں۔
جہاں تک مغربی علوم کا تعلق ہے یہاں استناد اور حوالے کا معاملہ بہت ہی ٹیڑھا ہے کیونکہ جدیدیت کی روح ہی یہ اصول ہے کہ کسی کتاب یا فرد کو آخری اور حتمی سند نہ سمجھا جائے۔ چنانچہ اگر مغربی علوم کے کسی مسئلے پر بحث کرنی ہو تو سند اور حوالہ پیش کرنے میں بہت سی دشواریاں اور پیچیدگیاں سامنے آتی ہیں۔ ان میں سے چند یہ ہیں:
۱۔ ایک علم سے تعلق رکھنے والا آدمی عموماً دوسرے علم سے تعلق رکھنے والے کی سند قبول نہیں کرتا اور اپنے ہی علم کے دائرے میں سند مانگتا ہے۔
۲۔ بیسویں صدی کے مغربی علم میں تخصص (Specialization) واقعی اتنا بڑھ گیا ہے کہ ایک علم کا بڑے سے بڑا عالم دوسرے علم کے مسائل اچھی طرح نہیں سمجھ سکتا۔
۳۔ نظریۂ ارتقاء کی رو سے علم بھی ترقی کر رہا ہے۔ اس لیے کتابیں پرانی پڑ جاتی ہیں۔ عموماً یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کسی کتاب میں جو باتیں کہی گئی ہیں وہ صحیح ہیں یا غلط، بلکہ سب سے پہلے یہ دیکھا جاتا ہے کہ کب لکھی گئی اگر کتاب پرانی ہے تو غیر معتبر ہے، اگر نئی ہے تو اعتبار کے لائق ہے۔ پہلے تو تیس چالیس سال تک ایک کتاب مستند رہتی تھی لیکن دوسری جنگِ عظیم کے بعد سے تو یہ حال ہوگیا ہے کہ کتاب دس سال بعد بلکہ پانچ سال بعد مستند نہیں رہتی۔
۴۔ کتابوں میں بھی فیشن کا اصول چلتا ہے۔ کتاب پرانی ہو یا نئی، بغیر کسی وجہ کے یکایک مستند بن جاتی ہے۔ تھوڑے دن بعد پھر غیر مستند ہو جاتی ہے اور کوئی دوسری کتاب فیشن میں آجاتی ہے۔
۵۔ پڑھنے والوں کے الگ الگ طبقے بن گئے ہیں۔ ہر طبقہ ایک خاص قسم کی کتابوں کو باوقعت سمجھتا ہے اور صرف انھیں کی سند مانتا ہے اور عموماً دوسری قسم کی کتابوں سے بے خبر رہتا ہے۔
۶۔ مغربی علوم سے متعلق کتابوں کو دو قسموں میں بانٹا جاسکتا ہے۔ ایک طرف تو وہ کتابیں ہیں جو کسی علم کے بڑے عالم اور ماہر اپنے جیسے ماہروں کے لیے لکھتے ہیں۔ عام پڑھنے والے ایسی کتابوں سے بے خبر ہوتے ہیں اور ان کی سند تسلیم نہیں کرتے۔ دوسری طرف وہ کتابیں ہیں جو عام پڑھنے والوں کے لیے لکھی جاتی ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں چھپتی ہیں۔ ایسی کتابوں کے مصنفّ عموماً اپنے علم پر پوری طرح حاوی نہیں ہوتے، اور اگر ماہر ہوتے بھی ہیں تو مسائل کو اس انداز سے پیش کرتے ہیں کہ عام آدمی کا ذہن انھیں قبول کرسکے۔ ایسی کتابوں کو ذی شعور لوگ سند کے قابل نہیں سمجھتے۔ پھر یہ بھی ہے کہ ان دو قسم کی کتابوں میں بعض دفعہ مسائل بالکل متضاد طریقے سے بیان کیے جاتے ہیں۔ آج کل امریکہ کے ایک مشہور پروفیسر، مورخ اور ادبی نقاد ہیں ژاک بارزاں (Jaques Barzuo) انھوں نے موجودہ علمی فضا کا نقشہ اپنی کتاب The House of Intellect میں کھینچا ہے۔ اس میں انھوں نے یہ واقعہ سنایا ہے کہ ایک مصنف نے سائنس کی تاریخ پیش کرتے ہوئے یہ لکھا تھا کہ انیسویں صدی میں اسپنسر (Spencer) نے ’’بقائے اصلح‘‘ (Survival of the fittest) کا اصول نکالا۔ جب ناشر کے یہاں سے کتاب کے پروف آئے تو اس نے دیکھا کہ اسپنسر کے بجائے ڈارون کا نام لکھ دیا گیا ہے۔ مصنف نے احتجاج کیا اور شہادتیں پیش کیں تو ناشر نے جواب دیا کہ عام پڑھنے والے اس نظریے کو ڈارون ہی سے منسوب کرتے ہیں، اس لیے اگر انھیں صحیح بات بتائی گئی تو ان کے ذہن پر بار پڑے گا۔ مغرب میں ہر دلعزیز اور مقبول ’’علمی‘‘ کتابیں آج کل اسی طرح لکھی جا رہی ہیں۔ اس لیے مقبول کتابوں پر بھروسہ کرنا مشکل ہوگیا ہے۔
۷۔ بعض علمی کتابوں میں بھی شعوری طور پر کسی خاص قسم کی سیاست یا نظریے کو زبردستی فروغ دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ’’انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا‘‘ دنیا کی ایک مشہور کتاب ہے، لیکن ہر معاملے میں اعتبار کے لائق بھی نہیں۔ کچھ دن پہلے تک یہ ادارہ انگریزوں کی ملکیت میں تھا، اس لیے انگریزوں کے سیاسی مفادات پیش نظر رکھتا تھا اور رومن کیتھلک مذہب سے تعصبّ بھی اس کتاب میں نمایاں رہتا تھا۔ اب اس ادارے کو امریکہ کے لوگوں نے خرید لیا ہے اس لیے اب امریکہ کے سیاسی مفادات پیش نظر رہتے ہیں اور رومن کیتھلک مذہب کے بارے میں بھی رویہ نرم اور مصالحت آمیز ہوگیا ہے۔ کیونکہ امریکہ کے صدر کے انتخاب میں اس مذہب کے لوگوں کا ووٹ خاص قدر و قیمت رکھتا ہے۔ غرض جب مالکوں کی سیاسی اور مذہبی پالیسی بدلتی ہے تو اس کتاب کے بہت سے مضامین بھی بدل دیئے جاتے ہیں۔
۸۔ آج کل کتابوں کی اتنی بھرمار ہے کہ انھیں پڑھنا تو الگ رہا ان کی مکمل فہرست بھی نہیں بن سکتی۔ اس لیے بعض دفعہ تو ماہرین بھی نہیں بتا سکتے کہ کوئی کتاب مستند ہے یا نہیں۔ اس لیے سند اور حوالہ عموماً برائے وزن بیت رہ گیا ہے۔
۹۔ آج کل مغرب میں عموماً اور امریکہ میں خصوصاً اسناد اور حوالے پیش کرنے ہی کو ’’علم‘‘ سمجھ لیا گیا ہے۔ چنانچہ آج کل کتابوں میں حوالوں کی بھرمار ہوتی ہے، بلکہ بعض کتابیں تو اقتباسات کا مجموعہ ہوتی ہیں۔ اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ یہ حوالے درکار بھی ہیں یا نہیں اور ان حوالوں کی قدر و قیمت کیا ہے چنانچہ سند، حوالے اور شہادتیں پیش کرنا محض ایک بے معنی رسم بن کے رہ گیا ہے۔
۱۰۔ ہر مغربی علم کے دائرے میں ’’ماہرین‘‘ اور ’’غیر ماہرین‘‘ کے درمیان رقابت چل رہی ہے۔ ’’غیر ماہر‘‘ نے خواہ کتنی ہی اچھی کتاب لکھی ہو لیکن ’’ماہرین‘‘ اس کی سند قبول نہیں کرتے۔
۱۱۔ ان حالات کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ چاہے جتنے حوالے اور سندیں پیش کی جائیں ان کا کوئی اثر نہیں ہوتا، اور لوگ وہی بات مانتے ہیں جسے ماننا چاہتے ہیں۔ یا پھر لکھنے کو یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ میرے پڑھنے والے کس قسم کے ہوں گے اور وہ کس قسم کی سند قبول کریں گے۔
۱۲۔ کسی تصور یا لفظ کی سند پیش کرنے کے لیے بعض دفعہ اس کی پوری تاریخ سنانی پڑتی ہے کہ یہ لفظ یا تصور کس زمانے میں سامنے آیا، اور پھر کس کس دور میں اس کے معانی کس کس طرح بدلتے رہے۔ بعض دفعہ نہیں بلکہ عموماً یہی کرنا پڑتا ہے۔
محمد حسن عسکری

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password