لبرل و دیندار طبقہ اور مغرب شناسی

مغربی تصورات کے پیدا ہوئے فتنہ ارتداد کے خلاف ہمارا (دیندار طبقے کا) ردِ عمل اگرچہ کئی طرح کا ہے لیکن اب تک اِس کا حل مکمل بے بسی کے سوائے اور کچھ نہیں ۔اس میں وہ غیرتِ دینی کا مظاہرہ اور وہ جوش و خروش بلکل نہیں جو مذاہب کے پیدا کیے ہوئے فتنہ ارتداد کے خلاف ہمارے ردِ عمل کا ایک جزو تھا۔
لا علمی:-
ہم میں سے بعض تو ایسے ہیں جنہیں اِس فتنہ کا علم ہی نہیں۔وہ خود محٰلّہ کی مسجد میں نماز پڑھتے ہیں اور نمازی اور دین دار مسلمانوں سے ان کا میل جول ہے۔باقی مسلمانوں کو جو اِس فتنہ کی نذر ہوچکے ہیں وہ فقط بے دین مسلمان کہتے ہیں اور اُن سے ناراض ہوتے ہیں کہ وہ نماز نہیں پڑھتے ، روزہ نہیں رکھتے اور دوسرے احکام ِ دین پر عمل نہیں کرتے ۔چونکہ “یہ مغرب زدہ” مسلمان اسلامی عقائد سے بر گزشتہ ہونے کے باوجود دائرہ اسلام کے اندر ہی رہتے ہیں اس لیے متدیّن مسلمانوں کو ان کے اسلام پر دھوکا ہوتا ہے اور وہ نہیں جانتے کہ جب اسلام پر اُن لوگوں کا اعتقاد ہی باقی نہیں رہا تو اُن کے لیے نماز پڑھنا اور دوسرے احکامِ دین پر عمل کس طرح ممکن ہے؟
بے اعتنائی:-
پھر ہم میں سے بعض ایسے ہیں جنہیں اِس فتنہ ارتداد کا علم تو ہے لیکن وہ اسے بے معنی اور نا قابلِ اعتنا سمجھتے ہیں ۔ وہ ایک احمقانہ خود اعتمادی کا شکار ہیں اور مغرب کے گمراہ کن فلسفیانہ تصورات کی معقول اور مدلل تردید مہیا کرنے کی بجائے اُن کے مقابلہ میں اسلام کی عمدگی اور معقولیت کے زبانی بلاثبوت دعووں سے اپنے آپ کو مطمئن کرتے رہتے ہیں۔پھر بعض ایسے ہیں کہ جو اس فتنہ کو بلکل بے معنی اور ناقابلِ اعتناء تو نہیں سمجھتے لیکن یہ نہیں جانتے کہ اِس کا اثر کس قدر وسیع اور گہرا ہے اور دن بدن کس قدر سرعت کے ساتھ اِس کی وسعت اور گہرائی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔وہ نہیں جانتے کہ اگر اِس کے خلاف اسلاف کی فوری اور موثر مدافعت جا انتظام نہ کیا گیا تو ملت کا وجود کس قدر خطرہ میں ہے۔
سہل گیری :-
پھر بعض ایسے ہیں کہ جو اِس فتنہ کے پیدا کیے ہوئے خطرہ کا احساس تو کرتے ہیں لیکن اس کے مقابلہ کے لیے اپنے آپ کو بے بس پاتے ہیں۔وہ دبک کر ایک کونے میں بیٹھے ہیں۔
خوش اعتقادی:-
اور اسلام پر اپنے یقین کی وجہ سے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ عنقریب کوئی معجزہ عمل میں آئے گا جو ملت کو اِس خطرہ سے بچا لے گا۔ اُن کو معلوم نہیں کہ جب کسی قوم کی زندگی میں کوئی معجزہ رونما ہوتا ہے تو وہ قوم خود ہی اُس کا ذریعہ بنتی ہے اور خدا کسی قوم کی حالت اُس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ قوم خود اپنی حالت کو نہ بدلے :
إِنَّ اللَّـهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ [الرعد : 11]
“وہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی”
ناکام تردید:-
پھر بعض ایسے بھی ہیں جنہوں نے اِن تصورات کی تردید کی طرف توجہ کی ہے لیکن اُن کی تردید کئی پہلووں سے ناتمام ہونے کے باعث مخالف یا غیر جانب دار لوگوں پر کوئی اثر پیدا نہیں کرسکی، کیونکہ اُنہوں نے ان تصورات کے اصلی ماخذ کے حقائق اور طرزِ استدلال کو نگاہ میں رکھا یا اُن کا روئے سخن اپنوں کی طرف رہا ہے۔ بلخصوص ایسے اپنوں کی طرف جو پہلے ہی ایک غافلانہ خود اعتمادی کا شکار ہیں اور اُنہوں نے اُن بےگانوں کو خطاب ہی نہیں کیا جو اُن تصورات کے معتقد ہیں اور جن کی تبلیغ اِن تصورات کے زہر کو پھیلانے کا موجب ہورہی ہے ۔لہذا اُنہوں نے علمی تحقیق اور عقلی استدلال کی نسبت اپنے اعتقادات پر انحصار کیا ہے یا اُنہوں نے جن تصورات کی تردید کی ہے اُن کی جگہ نئے صحیح تصورات پیش نہیں کیے۔مثلاً مارکس کے نظریہ تاریخ کی تردید کرکے یہ نہیں بتایا کہ اسلامی نظریہ تاریخ کیا ہے ؟ یا اگر انہوں نے اُن کی جگہ صحیح اسلامی تصورات پیش کیے ہیں تو یہ نہیں بتایا کہ علمی تحقیق اور عقلی استدلال کی رو سے وہ کیوں صحیح ہیں؟ اور اُن سے جو سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ اُن کا جواب کیا ہے ؟ مثلاً اگر مارکس کے فلسفہ تاریخ کے مقابلہ میں اسلامی فلسفہ تاریخ پیش کیا ہے تو تو اسے علمی لحاظ سے درست ثابت کرنے کی کوشش نہیں کی اور فقط دعوٰی برائے دلیل پر اکتفا کیا ہے۔ یا اُنہوں نے ایک مکمل اور عقلی طور پر منظّم نظریہ کائنات کی تردید پیش کرتے ہوئے خود جو نظریہ کائنات پیش کیا ہے اسے عقلی اور منطقی طور پر منظّم نہیں کیا۔ تصورات ِ باطلہ کی ایسی تردید دنیا کے حکماء پر جو اثر پیدا کرسکتی تھی وہ ظہر ہے۔
غیروں کا طعنہ:-
یہی سبب ہے کہ ان تصورات کے تمام حامیوں اور مبلغوں نے بلکہ غیر جانب دار لوگوں نے بھی آج تک یہ تسلیم نہیں کیا ان تصورات کا جوب تو درکنار مسلمانوں میں سے کسی نے اسلام سے اُن کے تعارض اور تضاد کا ذکر تک بھی کیا ہو۔ چنانہ “موڈرن انڈیا ” کا امریکن مصنف پروفیسر سمتھ لکھتا ہے :
“جہاں دس یا بیس سال پہلے بازاروں کے موڑوں پر مذہبی مناظرے ہوا کرتے تھے اور تعلیم یافتہ مسلمان افکار ِ جدید کے متعلق کتابیں پڑھ پڑھ کر اپنا سر کھپاتے تھے آج مسلمان نوجوان اِن علمی مشکلات سے بے خبر اور بے پرواہ ہے ، جو زندگی کے صحیح راستہ کی حیثیت سے مذہب کے سامنے آتی ہیں۔ ہم دیکھ چکے ہیں کہ کس طرح سے آزاد خیال مسلمانوں نے اُن اعتراضات کا قریباً قریباً مکمل جواب دیا جو عیسائیوں نے مسلمانوں پر وارد کیے تھے ۔ آج ترقی پسند مسلمان اِس جواب کو کافی سمجھتا ہے اور کوئی مسلمان ایسا پیدا نہیں ہوتا جو جواب دینا تو درکنار ، ان اعتراضات کا فقط ذکر ہی کرے جو اس زمانے میں فلسفی، مورخ ، ماہر نفسیات اور ماہر اجتماعیات نے اسلام پر اور سارے مذاہب پر واردہ کر رکھے ہیں۔ جس طرح انیسویں صدی کےکٹر مسلمان جو عیسائیوں اور آزاد خیال مغربیوں کے اعتراضات کا جواب دینے سے انکار کرتے تھے اور سر سید اور امیر علی کو ان کا جواب دینے کی وجہ سے برا سمجھتے تھے ، قدامت پسندی کا سہارا تھے۔اسی طرح سے وہ مسلمان جو ان جدید اعتراضات کا جواب دینے سے قطع نظر کرتے ہیں، قدامت پسند جماعتوں کا سہارا ہیں”۔
غلط تردید :-
یہی نہیں بلکہ اسلامی نقطہ نظر سے بھی اُن کی تردید اکثر اوقات ناقص اور غلط ہوگئی ہے۔ چونکہ مغرب کے باطل تصورات میں حق کا امتزاج بھی ہے اور وہ اسلامی اور غیر اسلامی تصورات کے ایک مرکب کی صورت میں ہیں۔ لہذا کئی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ انہوں نے اسلامی اور غیر اسلامی تصورات میں فرق نہیں کیا۔ بعض وقت غیر اسلامی تصورات کو اسلامی سمجھ کر اُن کی حمایت کر گئے ہیں۔ اور بعض وقت اسلامی تصورات کو غیر اسلامی سمجھ کر اُن کی مخالفت پر اُتر آئے ہیں۔
اُنہوں نے نا دانستہ طور پر کبھی تو باطل تصورات کی مخالفت ، بعض دوسرے باطل تصورات کی مدد سے کی ہے اور کبھی صحیح تصورات کی مدد سے کی ہےاور کبھی صحیح تصورات کی حمایت کے لیے بعض دوسرے صحیح تصورات کی مخالفت کر ڈالی ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ نہ صرف اُن کی تردید غلط ، ناقص اور بے اثر رہی ہے بلکہ اس کی وجہ سے اسلام کا نقطہ نظر بھی غلط طور پر پیش ہوگیا ہے۔

٭جدید تعلیم یافتہ ذہن اور مغرب شناسی
ہمارۓ جدید پڑھے لکھے لوگ مغربی کی نقالی میں تو بہت آگے ہیں لیکن مغرب شناسی میں نہائت پسماندہ۔ ان میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو مغربی مفکرین کا ناموں کا دن رات ورد کرتے ہیں، نشاۃ ثانیہ کے بطن سے پھوٹنے والی تحریکوں کا جا بجا نام چبتے ہیں، لیکن ان مفکرین کے نظریات اور مغربی تحریکوں کے فکری مضمرات اور انتقادی پہلووں سے اکثر نابلد نظر آتے ہیں۔ مغربی تہذیب کن فکری بنیادوں پر استوار ہے، اور ان فکری بنیادوں کے دور رس نتائج اور عواقب کیا ہو سکتے ہیں، یہ ان صاحبان کی دلچسپی کا موضوع نہیں۔ حد تو یہ ہے کہ یہ طبقہ اُن موٹے موٹے تنقیدی نکات کی بھی خاطر خواہ شدبد نہیں رکھتا جو مغرب ہی کے بعض نہائت معتبر مفکرین نے مغربی فکر کے حوالے سے اُٹھاۓ ہیں۔
پاکستان میں کتنے لبرلز ہیں جو جان سٹیورٹ مل پر فریفتہ ہیں، لیکن ان میں سے کتنے ہیں جو اس بات سے واقف ہے کہ مغرب میں آزادی کا یہ پغمبر، آزادی کے جملہ حقوق کچھ اس انداز سے مغرب کے حق میں محفوظ کرتا ہے کہ ایشائی اور افریقی باشندۓ اس حقِ حریت سے ایک گونہ محروم کر دیے جاتے ہیں؟ ہمارۓ ہاں اشراکیت پرستوں کی ایک فوج ظفر موج ہے لیکن کتنےلوگ جانتے ہیں کہ مارکس کا واسطہ جب عملی طور پر مزدور پیشہ طبقہ (proletariat) سے پڑا، تو اُس کا رویہ تضحیک آمیز اور نک چڑھا (cavalier) تھا؟ ٹامس جیفرسن، جو ہمارۓ نصابوں میں ایک عظیم مصلح اور دستور نویس کے طور پر پڑھایا جاتا ہے، کہیں اُس کے بارۓ میں ایک سطر بھی ملتی ہےکہ اس کے اپنے محل نما گھر غلاموں کی ایک فوج موجود تھی جن کو باقاعدہ جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا؟ ایسی مثالوں کی فہرست کو طویل کیا جاسکتا ہے لیکن مرکزی نکتے کے ابلاغ کے لیے یہ کافی ہیں۔ اس ضمن میں استاذ محترم احمد جاوید صاحب کا یہ قول نہائت مستند ہے: ’’مغرب کو نہ سمجھنا اگر جرم ہے، تو اس میں بڑے مجرم علما نہیں بلکہ مغربی تعلیم یافتہ طبقہ ہے‘‘۔

استفادہ تحریر ڈاکٹر رفیع الدین ، ڈاکٹر جمیل اصغر جامی

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password